پئے گل گشت گلستان جو گئی ان کی سواری
تو چلی باد بہاری تو کھلی پھولوں کی کیاری
کہیں کلیاں ہوئ پیدا، کہیں غنچے ہوے ظاہر
کہیں نرگس کہیں بیلا کہیں شبو کہیں سوسن
کہیں لالے تھے ثناء خواں
کہیں ٹوٹی ہوی شاخوں پہ ہمو راز کہ وہ شاخیں
برنگ سر تسلیم جھکیں ان کے قدم پر
کہ ہے نورستہ خوبی جسے کہتے ہیں محبوب نظر رشک قمر
جس کی مسیں تیر فگن جس کے قطعے سامری فن
اسی کے لیے اسباب مہیا اسی کی لیے سامان فراہم
کہیں سبزے کا بچھا فرش کہ بیٹھیں ہیں وہ گل تر
کہیں میوے کے لگے ڈھیر کہ چکھے وہ ستم گر
کہیں پانی سے بھرے حوض کہ وہ پیوے وہ صنم بر
کہیں پھولوں کی یہ خواہش کہ ہمیں نوچ کے پھینکے
کہیں شاخوں کا یہ منشا کہ یہ زری ساے میں بیٹھے
کہیں مہندی کی یہ ضد ہے کہ مجھے پیس ہی ڈالے
کہیں قمری کی یہ رٹ ہے کہ کہے جاتی ہے کو کو
کہیں بلبل ہے تلاشی میں کدھر ہے بت گل رو
بت گل رو ، بت گل رو، بت گل رو