Mohammad Hasan Askari(1919-1978) – محمد حسن عسکری
Birth— 1919
|
Intizar Hussain’s Essays/Opinion
محمد حسن عسکری(1978-1919) پاکستان کے نامور اردو زبان و ادب کے نامور نقاد، مترجم، افسانہ نگار اور انگریزی ادب کے استاد تھے۔ انہوں نے اپنے تنقیدی مضامین اور افسانوں میں جدید مغربی رجحانات کو اردو دان طبقے میں متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔برعظیم پاک و ہند میں مشرق و مغرب کی کشمکش میں علمی طور پر شریک افراد میں محمد حسن عسکریؒ کا نام اہم ترین ہے۔
محمد حسن عسکری 5 نومبر 1919ء کو الٰہ آباد برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کااصل نام اظہار الحق تھا جبکہ محمد حسن عسکری کے والد کا نام محمد معین الحق تھا۔ وہ بلند شہر میں کورٹ آف وارڈز میں ملازم تھے۔ وہاں سے وہ والی شکار پور رگھوراج کے یہاں بطور اکاؤنٹنٹ چلے گئے ۔ انھوں نے ۱۹۳۶ء میں مسلم ہائی اسکول بلند شہر سے میٹرک اور ۱۹۳۸ء میں میرٹھ کالج سے انٹر پاس کیا۔ الہ آباد یونیورسٹی سے بی اے اور پھر ۱۹۴۲ء میں انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔ الہ آباد یونیورسٹی یونیورسٹی میں انھوں نے فراق گورکھپوری اور پروفیسر کرار حسین جیسے اساتذہ سے استفادہ کیا، اور بعدازاں خود بھی تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔
محمد حسن عسکری کا شمار اردو زبان کے ان ممتاز ادیبوں میں ہوتا ہے جن کی موثر تخلیقی فعالیت اور عمدہ تنقیدی بصیرت کا ایک عالم معترف ہے ۔ ادبیات کی سماجی تاریخ ،قومی تعمیر و ترقی کے مراحل ،عالمی کلاسیک کے مطالعہ اور تاریخ کے پیہم رواں عمل پر گہری نظر رکھنے والے اس یگانۂ روزگار فاضل نے اپنی تنقیدی بصیرت کے اعجاز سے اردو تنقید کو متعڈنئے آفاق سے آ شنا کیا ۔ محمد حسن عسکری نے پہلی ملازمت آل انڈیا ریڈیو، دہلی میں بطور اسکرپٹ رائٹر اختیار کی۔ اسی زمانے میں شاہد احمد دہلوی اور رسالہ ساقی سے ان کا تعلق قائم ہوا۔ ۱۹۴۱ء اور ۱۹۴۲ء میں بالترتیب کرشن چندر اور عظیم بیگ چغتائی پر ان کے دو طویل مضامین شائع ہوئے۔ ۱۹۴۳ء میں فراق گورکھپوری نے ساقی میں “باتیں” کے عنوان سے مستقل کالم لکھنا شروع کیا۔ جب فراق صاحب اس کالم سے دست کش ہو گئے تو دسمبر ۱۹۴۳ء سے یہ کالم عسکری صاحب لکھنے لگے، جنوری ۱۹۴۴ء میں اس کالم کا عنوان جھلکیاں رکھ دیا گیا۔ یہ کالم ۱۹۴۷ء کے فسادات کے تعطل کے علاوہ کم و بیش پابندی سے نومبر ۱۹۵۷ء تک چھپتا رہا۔ وہ کچھ دنوں تک اینگلو عربک کالج دہلی میں انگریزی کے استاد رہے۔ اس کے بعد میرٹھ چلے گئے جہاں وہ میرٹھ کالج میں انگریزی پڑھاتے رہے۔ ء۱۹۴۷ میں وہ قیام پاکستان کے بعد لاہور منتقل ہو گئے۔ وہاں انھوں نے سعادت حسن منٹو کے ساتھ مل کر مکتبہ جدید لاہور سے اردو ادب جاری کیا۔ صرف د شمارے شائع ہو سکے۔ ۱۹۵۰ء میں وہ کراچی چلے گئے۔ وہاں ابتدا میں وہ فری لانس ادیب کے طور پر ترجمے اور طبع زاد تحریریں لکھتے رہے۔ جنوری سے جون ۱۹۵۰ء تک ماہ نو کراچی کے مدیر بھی رہے۔ پھر انھوں نے کراچی یونیورسٹی سے ملحق کالج میں انگریزی کے استاد کے فرائض انجام دیے۔عسکری صاحب اردو کے ایک اہم افسانہ نگار تھے۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ جزیرے ۱۹۴۳ء میں شائع ہوا تھا۔ ۱۹۴۶ء میں دوسرا مجموعہ قیامت ہم رکاب آئے نہ آئے شائع ہوا۔ ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعہ انسان اور آدمی اور ستارہ اور بادبان ان کی زندگی میں اور جھلکیاں، وقت کی راگنی اور جدیدیت اور مغربی گمراہیوں کی تاریخ کا خاکہ ان کی وفات کے بعد شائع ہوئے۔ اردو ادب کے علاوہ عالمی افسانوی ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔ وہ فرانسیسی ادب سے بھی بہت اچھی طرح واقف تھے جس کا ثبوت ان تراجم سے ملتا ہے جو انہوں نے گستاف فلابیر کا ناول مادام بواری اور ستاں دال کا ناول سرخ و سیاہ کے نام سے کیے ہیں۔آخری دنوں میں عسکری صاحب مفتی محمد شفیع کی قرآن مجید کی تفسیر کا انگریزی زبان میں ترجمہکر رہے تھے جن میں سے ایک جلد ہی مکمل ہو سکی۔٭18 جنوری 1978ء کو اردو کے نامور نقاد محمد حسن عسکری نے کراچی میں وفات پائی۔ Urdu Literary Culture: Vernacular Modernity in the Writing of Muhammad Hasan Askari Review: Urdu Literary Culture: Vernacular Modernity in the Writing of Muhammad Hasan Askari Meeting of the minds: Letters to Mohammad Hasan Askari The editor of the journal, Dr Aziz Ibnul Hasan, is pleased to inform us that Askari’s brother, Mohammad Hasan Musanna, was kind enough to send him these letters, which were recently discovered when he was rummaging through his late brother’s papers.
|