مولانا غلام رسول مہر
Birth— 1895
|
مولانا غلام رسول کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں انہوں نے ایک صحافی کی حیثیت سے شہرت پائی، لیکن وہ ایک اچھے مؤرخ اور محقق بھی تھے۔ تاریخ و سیرت میں انکا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ اسلام اور دینی علوم کی جانب زیادہ توجہ دی۔ انہوں نے متعدد تصانیف اور تالیفات اپنی یادگار چھوڑی ہیں۔ غالب پر انکی کتاب کو غالبیات میں ایک بڑا اضافہ سمجھا جاتا ہے۔ حضرت سید احمد بریلوی کی سوانح حیات انکا اہم کارنامہ ہے۔ حضرت شہید کے رفیقوں کے حالات بھی سرگزشت مجاہدین کے نام سے لکھے غالب کے خطوط دو جلدوں میں ترتیب دیے۔ بچوں کے لیے بھی انہوں نے بہت سی کتابیں لکھیں اور ترجمے کیے۔زیر نظرکتاب بھی مولانا غلام رسول مہر کی تصنیف ہے جس کو انہو ں نے دو حصوں میں تقسیم کیاہے پہلے حصہ میں جماعت مجاہدین کی تنظیم وترتیب کے متعلق تفصیلات پیش کی ہیں او ردوسرے حصےمیں سید صاحب کے ان مجاہدوں اور رفیقوں کے سوانح حیات درج کیے ہیں کہ جو ان کی زندگی میں ان کے ساتھ شہید ہوئے
مولانا نے اپنی زندگی میں برصغیر کے بے شمار سیاسی مدو جزردیکھے ہیں پھر ان طوفانوں کو حیطہ تحریر میں بھی لائے ہیں‘ وہ اپریل1895ء میں پیدا ہوئے ۔ ان کے ہوش سنبھالنے سے لے کر آج تک کا عرصہ اس خطہ ارضی کا جسے برصغیر پاک وہند کہتے ہیں سب سے حساس دور ہے۔ انگریز استعمار کا عہد شباب‘ حریت پرستوں کی قربانیاں، تحریک آزادی، مسلمانوں کی اپنے لئے ایک الگ وطن کی جدوجہد یہ سب کچھ اسی دور میں تو ہوا ہے۔ زندگی کے بیسویں برس میں وہ اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے کی ڈگری پاکر فارغ التحصیل ہوچکے تھے۔ کچھ مدت آوارگی کی پھر حیدر آباد دکن چلے گئے۔ خیال تھا کہ اسلامی ریاست ہے وہاں ملی کام زیادہ اچھے پیمانہ پر ہوسکے گا لیکن وہاں حالات اس سے بھی ابتر تھے۔ مولانا یہاں انسپکٹر تعلیمات رہے، کوشش کی کہ کوئی اخبار جاری کریں لیکن 1920ء میں ترک موالات کی تحریک جاری ہوگئی اس لئے اخبار کی اجازت نہ مل سکی۔ پنجاب واپس چلے آئے لکھنے لکھانے کا شوق تھا۔ زمیندارسے وابستہ ہوگئے لیکن شرط یہ رکھی کہ دفتر نہیں آؤں گا گھر سے لکھ کر بھیج دیا کروں گا۔ ان دنوں آپ جالندھر کے قریب اپنے آبائی گاؤں میں مقیم تھے مولانا غلام رسول مہر نے صحافت کا آغاز زمیندار اخبار سے کیا پھر انہوں نے مولانا عبدالمجید سالک کے ساتھ مل کر روزنامہ انقلاب نکالا۔ اس اخبار سے وہ اس کی بندش 1949ء تک وابستہ رہے۔ روزنامہ انقلاب کے بند ہوجانے کے بعد مولانا غلام رسول مہر نے پوری زندگی تصنیف و تالیف میں بسر کی۔ انہوں نے مذہب، تاریخ، سیاست، تہذیب، تمدن، ادب اور سیرت نگاری پر سو سے زیادہ کتب یادگار چھوڑیں۔ غلام رسول مہر 16 نومبر 1971ء کو لاہور، پاکستان میں وفات پا گئے اور مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔ مہر بیتی
مولانا غلام رسول مشہو ر صحافی جناب غلام رسول مہر کی خودنوشت ’’مہربیتی‘‘ کے عنوان سے محمد حمزہ فاروق نے مرتب کی اور الفیصل ناشران اردو بازار نے 2010 میں شائع کی ہے۔ غلام رسول مہر فرصت کے اوقات میں اپنی اولاد کو اپنی زندگی کے واقعات سناتے رہتے تھے۔ ان ہی واقعات کو ان کی اولاد نے مرتب کر دیا ہے اور یہ لکھ کر کہ ’’ مولانا مہرکی زبانی لکھے گئے حالات جو انہوں نے وقتاً فوقتاً لکھوائے‘‘ کتاب چھپنے کو دے دی۔ کتاب کے مرتب جناب حمزہ فاروقی اس سے قبل مولانا عبد المجید سالک کے افکار و حوادث کو مرتب کرکے شائع کر چکے ہیں۔ |