لاہور کا جو ذکر کیا
گوپال متل
|
کئی سال پہلے بھوپال میں میرے ایک دوست نقاد نے ایک پروفیسر کی نثر کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ اختصار اور جامعیت اس کا وصف خاص ہے اور اس ضمن میں ان کا کوئی حریف نہیں۔ میں نے فاضل مقرر سے دریافت کیا کہ انھوں نے گوپال متل کی تحریریں بھی دیکھی ہیں یا نہیں ؟ حاضرین مجھے حیرت سے دیکھنے لگے کہ اُن میں سے بیشتر کمیونسٹ تھے، ایک نے استہزائیہ انداز میں پوچھا کہ متل صاحب کا ان پروفیسر صاحب سے کیا مقابلہ؟ اور اپنی بات کے جواز میں میں نے عرض کیا تھا کہ اردو نثر میں اختصار اور جامعیت عام طور پر دو متضاد اصطلاحوں کی حیثیت اختیار کر چکی ہیں۔ اگر کوئی نثری تحریر مختصر ہوتی ہے تو اس کا گنجلک اور مبہم ہونا تقریباً طے شدہ ہوتا ہے اور واضح و جامع تحریروں میں بے جا طوالت سے اجتناب ممکن نہیں ہوتا۔ بالفرض پروفیسر موصوف کی طرح یہ دونوں وصف، اختصار اور جامعیت نثر میں کہیں یکجا بھی ہوتے ہیں تو اُس نثر میں ایک خاص نوع کی کارو باری بے کیفی اور غیر تخلیقی خشکی کا عیب پیدا ہو جاتا ہے۔ گوپال متل اُن معدودے چند نثر لکھنے والوں میں سے ایک ہیں جو اختصار و جامعیت کے با وصف اپنی تحریر میں شگفتگی اور دلکشی پیدا کرنے پر قدرت رکھتے ہیں۔
میں غزل کا آدمی ہوں، کچھ مختصر نظمیں بھی کہی ہیں جن میں بات نو دس مصرعوں میں کہہ دی گئی ہے کبھی افسانے بھی لکھتا تھا جن میں بقول کرشن چندر مرحوم الفاظ کے بخل کا وہ عالم تھا کہ جذبہ تنگیِ داماں کی شکایت کرتا محسوس ہوتا تھا۔ میرے نزدیک بات کو کم سے کم لفظوں میں ندرت ادا کے ساتھ کہنا لکھنے والے کی سب سے بڑی خوبی ہوتی ہے خواہ وہ نظم لکھتا ہو یا نثر۔ اُردو والوں نے بد قسمتی سے یہ سمجھ لیا ہے کہ نثر میں وضاحت اور قطعیت اس وقت تک آہی نہیں سکتی جب تک بات کو خوب پھیلا کر نہ کہا جائے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہم افسانے، تنقید اور انشائیے کے اسالیب میں امتیاز کرنا بھول گئے۔ جہاں ادب کا یہ حال ہو وہاں صحافت کا کیا عالم ہو گا، اس کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ ان حالات میں گوپال متل کی نثر استثنائی صورتوں میں سے ایک ہے۔ انھوں نے ’ تحریک‘ کے شذرات اور سیاسی نوعیت کے مضامین بھی لکھے ہیں و تحقیقی اور تنقیدی مقالات بھی تحریر کیے ہیں، سیاسی نوعیت کے مضامین بھی لکھے ہیں اور تحقیقی اور تنقیدی مقالات بھی تحریر کیے ہیں۔ کم و بیش دو درجن کتابیں انگریزی سے اُردو میں منتقل کی ہیں اور ’’ لاہور کا جو ذکر کیا‘ جیسی حکایتِ لذیذبھی قلمبند کی ہے۔ ہر مقام پر انھوں نے آتشؔ کا یہ گُر یاد رکھا ہے کہ بندشِ الفاظ نگوں کے جڑنے سے کم نہیں ہے۔ آتشؔ نے یہ بات شاعری کے حوالے سے کہی تھی۔ گوپال متل نے اسے نثر پر بھی منطبق کر دکھایا اور یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے۔ کرشن چندر کی شاعرانہ نثر اُن کے افسانوں میں حشو و زوائد کا فنی جھول بن کر آتی تھی۔ گوپال متل کے پیراگراف غزل کے اشعار کی طرح مختصر ہو کر بھی جامعیت سے متصف ہوتے ہیں اور ان کے چھوٹے چھوٹے جملے بالکل وہی مفہوم ادا کرتے ہیں جو گوپال متل چاہتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اُن کی وہ باتیں بھی سننے میں بھلی لگتی ہیں جن سے ہم نظریاتی اعتبار سے چاہے متفق نہ بھی ہوں۔ چند مختصر مختصر سی مثالیں ملاحظہ فرمائیے : ’’ جب تک ایک آدمی کی ریڑھ کی ہڈی غائب نہ ہو وہ کمیونزم کو تسلیم نہیں کرسکتا۔ ‘‘ ’’ کرشن چندر اور اپندر ناتھ اشک کی آمد اس بات کا اعلان تھی کہ اب ادب کے میدان میں قلندری کا دور ختم ہوا۔ ‘‘ ’’ ایک دن ترنگ میں آئے تو کہنے لگے، متّل! مجھ سے چوہے تک فائدہ اٹھا رہے ہیں لیکن تو کوئی فائدہ نہیں اُٹھاتا، میں نے جواب میں کہا میں چوہا نہیں ہوں !‘‘ ’’ پروپگنڈے کا فن بھی ساحرؔ کو خوب آتا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ حصولِ شہرت کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ اپنے متعلق زیادہ سے زیادہ غلط فہمیاں پھیلائی جائیں۔ ‘‘ ’’ زور جمہوریت پر دیا جانا چاہیے سیکولرازم پر نہیں۔ ایک جمہوری حکومت لازمی طور پر سیکرلر ہو گی لیکن سیکولر حکومت کے لیے جمہوری ہونا ضروری نہیں۔ ‘‘ ’’ سماج سے ادیبوں کا مطالبہ صرف اتنا ہونا چاہیے کہ وہ ان کے تخلیقی عمل میں مخل نہ ہو۔ ‘‘ ’’ جیسے ہی اپنی ذات کی اصلاح ہو جائے، اصلاح کا عمل شروع ہو جاتا ہے کیونکہ اس کے بعد صرف صفر بڑھانے کا عمل باقی رہ جاتا ہے۔ ‘‘ اُن کی نثر کا ایک بڑا وصف اس کا منطقی استدلال بھی ہے، وہ کسی موضوع پر طبع آزمائی کر رہے ہوں، واقعات کا تجزیہ ایسے نظم و ضبط کے ساتھ کریں گے اور بات اتنے مدلل انداز میں کہیں گے کہ متاثر کیے بغیر نہ رہے۔ وہ ایک خاص قسم کا نظریۂ حیات رکھتے ہیں۔ لیکن لکھتے ہوئے اُن کے ہاں جو معروضی اندازِ بیان اختیار کیا جاتا ہے وہ اچھے اچھوں کے لیے قابلِ رشک ہوتا ہے۔ یاد کیجیے کہ ’’ لاہور کا جو ذکر کیا‘‘ پچھلے برسوں میں فکشن کی طرح بار بار لطف لے لے کر پڑھی گئی ہے اور ایسے لوگوں نے پڑھی ہے جو گوپال متل کا نام لینا بھی کفر سمجھتے ہیں۔ اس کا جائزہ لیتے ہوئے حیات اللہ انصاری نے میرے دل کی بات کہہ دی ہے : ’’ اس میں آپ ایسے نوجوان شاعروں، ادیبوں اور صحافیوں سے ملاقات کریں گے جو آگے چل کر اپنے دَور کے ادبی ستون بن گئے۔ یہ ملاقات مختصر سی ہو گی لیکن اتنی گہری اور تہہ دار ہو گی کہ دماغ پر واضح اور کبھی کبھی تو امٹ نقوش چھوڑ جائے گی۔ ۔ ۔ ۔ متّل نے شخصیات پر جو تبصرے لکھے ہیں ان میں عجیب من موہن توازن اور دیانت ہے، محبت میں عیوب پر نظر ہے اور نا پسندیدگی میں بھی پسندیدہ پہلوؤں کو نظر انداز نہیں کیا گیا۔ ‘‘ اس سلسلے میں حیات اللہ انصاری نے بطور خاص ایک مثال پیش کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’ میں نے جانے کتنے مضامین ظفر علی خاں پر پڑھے ہیں اور لوگوں سے ان کے بارے میں باتیں سُنی ہیں، ان میں ہمیشہ ادھورا پن ہی محسوس کیا ہے۔ متّل کی کتاب کے ساڑھے پانچ صفحوں میں ظفر علی خاں کی شخصیت سے بھرپور ملاقات ہو گئی اورپتہ لگ گیا ہے وہ کیا تھے اور ان کی شاعری کیا تھی۔ ‘‘ گوپال متّل کے اسلوبِ نگارش کا ایک کلیدی نکتہ یہ بھی ہے کہ وہ مطلوبہ نتائج کو براہ راست نہیں بیان کرتے بلکہ اپنی بات ایسے دلائل و براہین کے ساتھ اور اس معروضی انداز میں کہتے ہیں کہ پڑھنے والے از خود وہ نتیجے اخذ کریں۔ اس انداز کی اثر آفرینی کا صحیح اندازہ کچھ وہی لوگ کر سکتے ہیں جنھوں نے خود بھی اچھی نثر لکھنے کی کاوش کی ہو۔ ان کی نثراپنی رمزیت، پہلو داری، روانی، طنز کی کاٹ، بے تکلفی، گہرائی، شگفتگی اور جامعیت کے ساتھ ایک منفرد ذائقے کی حامل ہے۔ لفظوں کے طوطا مینا بنا کر قارئین کو لبھانے کا کام تو بہت سے کر لیتے ہیں، سیدھی سادہ جچی تلی نثر سے تحریر میں تخلیقی اور علمی شان پیدا کرنا گوپال متّل کا فن ہے، ان کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ اکثر الفاظ جو دوسروں کے ہاں نا مانوس اور ثقیل نظر آتے ہیں اُن کی نثر میں میں بر محل اور مناسب محسوس ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ اقتباسات دیکھیے : ’’ غدر سے اب تک ادب پر جتنی بحثیں ہوئی ہیں ان میں سے اکثر کا یہ امتیازی وصف رہا ہے کہ ان میں ادب کے ماسوا اور ہر چیز پر بحث کی گئی ہے، افسوس کہ یہ طرح ڈالنے کا باعث وہ شخص ہے، جسے قدرت نے ادب کی خدمت کے لیے واقعی بہترین دل و دماغ ودیعت کیے تھے۔ میری مراد حالیؔ سے ہے۔ ‘‘ (نئی ادبی تحریک) سادہ سادہ سے فقروں میں طنز کے جو نشتر پنہاں ہیں ان کی چبھن آپ نے ضرور محسوس کی ہو گی۔ ایک مقام پر نقّاد کو اس کا فرض یاد دلانے کی غرض سے رقم طراز ہیں : ’’ کرکٹ میں ضابطے کی جو کار فرمائی ہوتی ہے اس سے ادیبوں کو بہت کچھ سیکھنا چاہیے کیونکہ اردو کی ادبی محفل گزشتہ چند سال سے ہر قسم کے ضابطے سے بے نیاز ہو چکی ہے۔ مثال کے طور پر امپائر کے منصب کو لیجیے، کیا ناقد کا منصب اس سے ملتا جلتا نہیں ؟ کیا موجودہ ناقدوں کو اپنے منصب کی حُرمت کا اتنا ہی احساس ہے جتنا کرکٹ میچوں میں امپائر کو ہوتا ہے ؟ کیا اردو کے مشہور نقاّد ( سید احتشام حسین) کی طرح کسی امپائر نے بھی آج تک یہ اعلان کیا ہے کہ اس کے بہت سے فیصلے مجبوری اور مصلحت کا نتیجہ ہیں اور پھر کیا کرکٹ کی کسی ٹیم نے آج تک یہ کہا ہے کہ اُس کے کھلاڑی کے آؤٹ ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ امپائر کے بجائے تماشائی کریں گے ؟ لیکن جو شاعر’’ یہ عشق عشق ہے عشق عشق‘‘ یا ’’سی اے ٹی کیٹ، کیٹ معنی بلی‘‘ جیسے فلمی گیت لکھ کر عوام میں مقبول ہوتے ہیں اور اس کی بنا پر ادبی محفلوں میں اپنی برتری کا دعویٰ کرتے ہیں، ان کی اس برتری پر کتنے ادیب معترض ہوتے ہیں۔ ‘‘ ( ادب اور کرکٹ) کرکٹ، ادب اور فلم کے موازنے سے کیسی کھری بات کتنے مدلل انداز میں کہہ دی گئی ہے، اہلِ نظر سے پوشیدہ نہیں۔ لطف یہ ہے کہ موضوع، تلخی کے باوجود فکشن کی طرح دلچسپ اور پرکشش بن گیا ہے حالانکہ گوپال متل نے کہیں بھی غیر ضروری آراستگی اور ترکیب سازی سے کام لینے کی کوشش نہیں کی۔ ماہنامہ ’ تحریک‘ گوپال متّل نے ۱۹۵۳ء میں نکالا تھا اور اس کی اشاعت کا سلسلہ ۱۹۸۱ء تک جاری رہا۔ ان لگ بھگ اٹھائیس برسوں میں ان کے قلم سے بلا مبالغہ سیکڑوں شذرات نکلے اور ان سے ہٹ کر درجنوں دوسرے مضامین بھی انھوں نے قلم بند کیے۔ ظاہر ہے کہ بحیثیت صحافی ان میں سے اکثر تحریریں انھیں قلم برداشتہ لکھنی پڑی ہوں گی جن پر زیادہ غور و فکر کی مہلت انھیں حاصل نہ رہی ہو گی، لیکن ان تحریروں کا مطالعہ اس حیرت ناک نتیجے پر پہنچاتا ہے کہ کوئی بھی بات رواروی میں کہی گئی محسوس نہیں ہوتی۔ ہر جگہ استدلال، جواز، براہین اور شہادت سے کام لیا گیا ہے۔ یہ قدم قدم پر فکر کو انگیخت کرتی ہیں۔ گوپال متّل کے موضوعات کا دائر ہ بھی بے حد وسیع ہے مثلاً انھوں نے ’ اردو تحریک‘، ’ اردو کا دشمن کون ہے ؟‘، ’یہ اردو کے حمایتی‘، ’ اردو کا مقدمہ: غلط عدالت، غلط وکیل‘، ’ اردو: ایک حقیقت پسندانہ جائزہ‘ جیسے متعدد مضامین میں زبان اور لسانیات کے مسائل پر بے باکی کے ساتھ دو ٹوک اور غیر جذباتی انداز میں کھل کر اظہارِ خیال کیا ہے اور اس موضوع کے کئی ایسے تاریک اور اچھوتے گوشوں پر روشنی ڈالی ہے جو ان سے قبل چھیڑے نہیں گئے تھے۔ ’ ادب میں جانب داری کے حقیقی مفہوم‘، ’ ترقی پسندی اور تحریک‘، ’ ادب میں فحاشی پر احتساب‘، ’ احیائے ادب کی تحریک‘، ’ سماجی حقیقت نگاری‘، ’ اردو ادب میں ہندوستانیت کا فقدان‘، ’ داخلیت کی اہمیت‘، ’ ادب اور زندگی‘، ’ متحدہ ادبی محاذ‘ اور ’اردو ادب میں جمود کامسئلہ‘ وغیرہ گوپال متّل کے وہ مضامین ہیں جن سے ان کی تنقیدی بصیرت، سخن فہمی اور ادب شناسی کا ثبوت ملتا ہے۔ اپنے ان شذرات میں گوپال متل نے بہت سے معتبر اور اہم نقادوں کے مقابلے میں زیادہ گہری فنی مہارت اور ناقدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر وہ باقاعدہ تنقید نگاری پر مائل ہوتے تو آج کے بہت سے ناقدین سے بلند مرتبے پر فائز ہوتے۔ بالعموم ادبی تحقیق کا صحافت سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا لیکن گوپال متّل نے ’ غالبؔ اور سوویت محقق‘، ’ ٹیگور کو خراجِ عقیدت‘ اور غالبؔ سخن فہموں کے نرغے میں ‘ جیسی تحریروں سے ثابت کیا ہے کہ ان میں تحقیق کے خار زار سے نبرد آزما ہونے کی قوت بھی موجود ہے۔ تعلیمی مسائل اور درس و تدریس کی پیچیدگیاں بھی ان کے ذہنِ رساکی دسترس سے باہر نہ تھیں۔ چنانچہ ’مسلم یونیورسٹی علی گڑھ‘ اور ’دانشوری کے تقاضے ‘ جیسے مضامین میں انھیں مسائل کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ ان کے سیاسی نظریات اور خیالات کی جھلک ’ گاندھی جی کے اساسی تصورات‘، ’ وہ جو پاؤں سے ووٹ ڈالتے ہیں ‘، ’ جمہوریت کے تحفط کا حلف‘، ’ اعتدال پسند کمیونسٹ‘، ’ ہندوستانی ادیب کے فرائض اور اس کی آزادی‘ ’ سیکولرزم اور جمہوریت‘، ’ مسلمان اور قومی زندگی‘ اور دیوار برلن‘ وغیرہ میں نظر آتی ہے۔ ان کے علاوہ بھی ہماری قومی زندگی اور آزادی کے بعدہندوستان میں پیدا ہونے والے بیشمار مسائل ان کے قلم کی زد پر آئے ہیں اور ہر جگہ گوپال متل نے اپنی سادہ، پُراستدلال، با وقار اور طاقتور نثر کے ذریعے موضوع کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا ہے۔ کہیں کہیں موضوع کے تقاضے کے پیشِ نظر اظہارِ خیال کے لیے مختلف اسالیب بیان بھی اختیار کیے گئے ہیں لیکن بہر حال ان کی نثر نے ہر جگہ اپنی اساسی اور امتیازی شان کو، جس کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں، برقرار رکھا ہے۔ رسالہ’ تحریک‘ نے اپنی کم و بیش اٹھائیس برسوں کی عمر میں ترقی پسند تحریک کا جم کر سامنا کیا۔ ابتدائی چند سال اس پر جتنے بھاری گزرے ہوں گے ان کا اندازہ آج اس لیے نہیں کیا جا سکتا ہے کہ یہ تحریک اب اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔ ’تحریک‘ اس وقت جاری ہوا تھا جب ترقی پسندتحریک اپنے شباب پر تھی اور ہندوستان کے تمام ادبی مراکز میں ’ انجمن ترقی پسند مصنفین‘ نے مضبوطی کے ساتھ قدم جما رکھے تھے۔ عام طور پر ہر لکھنے والا خواہ وہ کمیونزم اور ترقی پسندی سے کتنا ہی نا آشنا ہو، رجعتی اور قدامت پسند ہونے کے الزام سے بچنے کے لیے اپنے آپ کو ترقی پسندوں میں شمار کرتا تھا۔ ’ نقوش‘، ’ شاہراہ، ’ صبا‘ اور ’فنون‘ جیسے گرانڈیل اور طاقتور آرگن ترقی پسندوں کے ہاتھوں میں تھے اور ایک سے ایک جید نقاد اور صاحبِ قلم ان کی صفوں میں موجود تھا۔ رجعت پسندی کی تہمت سے بچنے کے لیے اچھے لکھنے والے ’ تحریک‘ میں چھپنے سے کتراتے تھے۔ ایسے پُر آشوب اور تلاطم خیز دور میں گوپال متل کی نثر ’تحریک‘ کے صفحات پر سینہ تانے کئی سال تک تنِ تنہا، کمیونزم اور ترقی پسندی سے ٹکر لیتی رہی حتیٰ کہ ۱۹۶۰ کے آس پاس اچھے لکھنے والوں کا ایک بڑا حلقہ ’ تحریک‘ کے ساتھ ہو گیا۔ یہ گوپال متّل کی سادہ و پر وقار، شگفتہ و متین نثر کا کرشمہ ہے جس میں نہ جذبات کا وفور ہے نہ صداقتوں سے اجتناب۔ بلند آہنگی اور مبالغے سے پاک یہ نثر ان لوگوں سے بھی خراجِ تحسین حاصل کرتی ہے جو اس میں پیش کردہ سیاسی نظریات سے اتفاق نہیں کرتے۔ احساسِ تناسب اس نثر کا بڑا وصف ہے۔ کسی خیال کو کس حد تک پھیلایا جا سکتا ہے اور کہاں سمیٹ دینا چاہیے، گوپال متل خوب جاتے ہیں۔ ان کی نثر موضوعات اور زمانے کے اختلاف کے با وصف ہمیں سر سید اور حالیؔ کی یاد دلاتی ہے۔ بلا شبہ گوپال متّل ہمارے عہد کے اچھے اور اہم نثر نگاروں میں سے ہیں۔
مظفّرؔ حنفی
Gopal Mittal |