ہاجرہ مسرور کی یاد میں از آصف فرخی
ڈھلائے واقعات، تیز تیکھا انداز بیان، سُلگتے ہوئے موضوعات اور کوچہ و بازار کی رونق کے ساتھ کرداروں کی اندرونی دنیا کی ہلچل۔ یہ سب عناصر اب کتابوں میں ملتے ہیں۔ اور یہ بات بھی کتابی معلوم ہوگی کہ ایک وقت تھا، اردو افسانے پر بھی ”تخلیقی وفور“ کا ایک دور آیا (جس طرح لاطینی امریکا کے ناول میں اس دور کے لیے BOOM کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جب ماکیز، ورگاس یوسا، حوزے ڈونوسو، کارلوس فوینیتس اور دوسرے لکھنے والے تواتر سے سامنے آئے۔) اسی دور میں ہاجرہ مسرور اور ان کی بہن خدیجہ مستور نے اوپر تلے لکھنے کا آغاز کیا پھر چھوٹی عمر ہی میں پُختگی حاصل کرلی۔ وقت کے ساتھ اسلوب و موضوعات کی اس پُختگی کا نقش گہرا ہوتا گیا۔ ترقی پسند تحریک کے آدرش ان کے لیے زندہ حقیقت کا درجہ رکھتے تھے اور وہ افسانہ نگاری کو اہم سماجی فریضہ سمجھتی تھیں۔ ”تیسری منزل“ جیسے یادگار افسانے بھلائے نہیں بھولتے۔ان کے افسانوں کا نقش دو چند ہوگیا جب سے ملاقات کا موقع ملا۔ لکھنؤ میں قلمی زندگی کا آغاز کرنے اور لاہور میں اسے مستحکم کرنے کے بعد وہ اپنے خاندان کے ساتھ کراچی میں آبسی تھیں اور ان کو بارہا ادبی محفلوں میں سرگرمی سے شریک ہوتے دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ وہ بزرگ کی طرح ملتی تھیں اور شفقت و مہربانی کا برتاؤ کرتی تھیں۔ اپنے ادبی منصب کے بوجھوں تلے مار دینے کی قائل نہیں تھیں۔ مجھے یاد ہے، ہم چند طالب علموں نے ڈاؤ میڈیکل کالج کے ایک جلسے میں ان کو مدعو کیا تھا۔وہ اس جلسے میں آئیں اور انہوں نے مضمون بھی پڑھا۔ یہ ضیاء الحق کی آمریت کا زمانہ تھا اور وہ ان ادیبوں میں شامل تھیں جن پر سرکاری ٹیلی وژن کے دروازے بند کیے جاچکے تھے۔ ورنہ اس سے پہلے وہ ٹیلی وژن کے لیے کئی کامیاب کھیل لکھ چکی تھیں۔ ان میں غلام عباس کے بعض افسانوں کی ڈرامائی تشکیل بھی شامل تھی۔ خاص طور پر ڈرامہ ”سرخ گلاب“ مجھے آج بھی یاد ہے۔ اور یہ بات بھی کہ اس کا مسوّدہ غلام عباس نے بہت سنبھال کر اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ غلام عباس خود بہت تکمیل پسند تھے اور ان کی پسندیدگی کوئی معمولی بات نہ تھی۔
لگ بھگ اسی زمانے میں جب میں نے افسانہ نگاری کے کوچے میں قدم رکھا تو ہاجرہ آپا نے بڑی اپنائیت اور شفقت کے ساتھ میری حوصلہ افزائی کی۔ مجھے یاد ہے کہ جب انہوں نے پہلی مرتبہ اپنے گھر بلایا تھا تو مجھ سے پوچھا تھا، ”تمہیں ہنچ بیک آف نوٹرے ڈیم یاد ہے؟ “
پھر خود ہی اس سوال کا مقصد بتایا۔ ”اس کی ہیروئن ایزمرلڈا کا نام یاد رکھنا۔ وہی ہمارے اپارٹ منٹ کا نام ہے! “
ناول کی ہیروئن کا یہ ناچتا گاتا حوالہ اس وقت بہت پُرلطف معلوم ہوا تھا لیکن وہ پتہ میں اب تک نہیں بھول پایا۔ حالاں کہ ہاجرہ آپا وہاں سے منتقل ہو کر ڈیفنس سوسائٹی میں اپنی بیٹی کے ساتھ قیام پذیر ہوگئیں۔
ان کے شوہر احمد علی خان ڈان کے ایڈیٹر تھے۔ میں کبھی کبھار ”ڈان“ میں لکھنے لگا تھا اور اس اخبار سے وابستہ تمام افراد کے لیے ”خاں صاحب“ ایک لیجنڈ کی سی حیثیت رکھتے تھے۔ ڈان سے ریٹائرمنٹ کے بعد خاں صاحب بیمار پڑ گئے اور ان کی بیماری نے طول پکڑا تو ہاجرہ آپا کی مصروفیت اور پریشانی بھی بڑھ گئی۔ خاں صاحب کے انتقال کے بعد وہ خاص طور پر اپنے آپ کو تنہا محسوس کرنے لگی تھیں۔ لیکن وہ اس بات کی شکایت نہیں کرتی تھیں، یہ شاید ان کی آن کے خلاف تھا۔
دیکھتے ہی دیکھتے ان کی سرگرمیاں محدود ہوتی چلی گئیں۔ اس کے باوجود وہ کئی مرتبہ ہمارے گھر بھی تشریف لائیں۔ خاص طور پر وہ شام مجھے یاد ہے جب اردو کانفرنس کے مہمان پروفیسر گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر شمیم حنفی اور جناب انتظار حسین میرے گھر مدعو تھے۔ وہ گفتگو میں شریک رہیں اور تصویریں بھی کھنچوائیں۔ وہ کچھ نہ کچھ پڑھتی رہتی تھیں اور ”دنیا زاد“ کے ہر نئے شمارے پر اپنا تاثر ظاہر کرتیں۔ انہوں نے فرمائش کرکے نیّر مسعود صاحب اور خالد جاوید کے افسانے پڑھے اور ان کے بارے میں اپنی بے لاگ رائے بھی ظاہر کی۔
کوئی ڈیڑھ دو سال پہلے کی بات ہے، انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے ذہن کو تازہ کرنے کے لیے ایک بار پھر چیخوف کے افسانے پڑھ رہی ہیں۔ چیخوف ان کا پسندیدہ افسانہ نگار تھا اور انہوں نے کہا کہ اس کی بات یہ انہیں پسند تھی کہ وہ ڈاکٹر تھا، اس لیے ہر چیز کو clinical detachment کے ساتھ دیکھتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اپنے افسانوں میں وہ بھی اسی کیفیت کو برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔ پھر انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس detachment کی وجہ سے عام زندگی میں بعض لوگ انہیں سرد مہر سمجھتے ہیں۔
جہاں تک میرا مشاہدہ ہے، ان کے مزاج میں ایک خاص لکھنوّا تکلف تھا۔ وہ بہت رکھ رکھاؤ والی تھی۔ بہت بے تکلف ہو کر چبڑ چبڑ باتیں کرنا ان کے مزاج کے لیے غیر ممکن تھا۔ وہ خوش ہو کر ملتی تھیں مگر ان سے جن سے جی چاہے۔ ورنہ reserved رہتی تھیں۔ ایک آدھ مرتبہ ان کو بگڑتے بھی دیکھا۔ آکسفرڈ یونیورسٹی پریس کے زیراہتمام عصمت چغتائی کی یاد میں پروگرام منعقد ہوا تھا جس میں فہمیدہ ریاض بھی شریک تھیں۔ کچھ عرصہ پہلے ہاجرہ آپنا نے اس پروگرام کے بارے میں اخبار کا تراشہ دکھایا تھا جو روزنامہ ”ڈان“ سے کاٹ کر رکھا ہوا تھا۔
اسی پروگرام کے دوران ان کو برملا اپنے غصّے کا اظہار کرتے ہوئے دیکھا۔ یا پھر ایک اور موقعے پر جب ایک نوجوان نے احمد ندیم قاسمی کے بارے میں یہ کہہ دیا تھا کہ وہ ضیاء الحق حکومت کے دوران اکادمی ادبیات کے سرکاری جلسے میں شریک ہوئے تھے۔ اتنا سننا تھا کہ ہاجرہ آپا بکھر گئیں۔ وہ قاسمی صاحب کے خلاف کہاں سُن سکتی تھیں۔ جواب میں اس نوجوان کو سخت سست کہا اور وہ خاموش سنتا رہا۔ میرے گھر پھر بھی ایک محفل میں انتظار حسین کی موجودگی میں ان کے پرانے افسانے ”ٹھنڈی آگ“ کی تعریف کی لیکن ترقی پسندوں کے خلاف ان کے تیز فقروں کا جواب دیے بغیر نہیں چھوڑا۔ انتظار حسین بھی ہنستے مسکراتے رہے، کسی بات کا بُرا نہیں مانا۔
ترقی پسند تحریک کے اصولوں سے ان کی وابستگی بہت گہری تھی اور آخر وقت تک قائم رہی۔ وہ اس بارے میں کوئی ایسی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہوتی تھیں جس میں ان کو مخالفت کا شائبہ بھی محسوس ہو۔ لیکن میں نے یہ بھی دیکھا کہ وہ اس بارے میں خود محتاط ہو کر گفتگو کرتی تھیں۔ یہاں تک کہ ایک آدھ بار نہیں بلکہ کئی بار انہوں نے اپنے خاندانی پس منظر اور ادبی زندگی کی تفصیلات بیان کیں لیکن قیامِ پاکستان کے بعد ترقی پسند تحریک کی مشکلات اور تنظیمی معاملوں کا محض حوالہ دے کر آگے بڑھ گئیں۔ ممکن ہے کہ انہوں نے مجھ سے ان معاملات کا ذکر ضروری نہ سمجھا ہو۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ باتیں ایسی بھی ہوں جن کا ذکر ان کے لیے خوش گوار نہ ہو، یا وہ ان رازوں سے پردہ نہ اٹھانا چاہتی ہوں۔ بہرحال وجہ جو بھی ہو، ترقی پسند تحریک کے ان دنوں کی ان کہی کہانی وہ اپنے ساتھ لے گئیں۔
ترقی پسندی کے معاملے میں رعایت انہوں نے صرف ممتاز شیریں کو دی۔ ممتاز شیریں نے ان کی کتاب ”تیسری منزل“ پر مضمون لکھا، وہ ان کو پسند آیا بلکہ جب ان کے تمام افسانوں کا مجموعہ چھپ رہا تھا تو بہت ڈھونڈ ڈھانڈ کے وہ مضمون اس میں شامل کیا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کو ممتاز شیریں سے اس بات کی توقع نہیں تھی کہ ان کے بارے میں لکھیں گی، اس لیے کہ ”وہ تو ادھر والی تھیں۔ “ اس کے باوجود انہوں نے مضمون لکھا اور خوب لکھا۔
شاید افسانہ نگاری کا رشتہ بھی کسی تحریک کے رشتے سے کم نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ممتاز شیریں سے ان کی کوئی خاص ملاقات نہیں تھی۔ اپنے دوستوں اور ساتھیوں میں وہ سب سے بڑھ کر قرۃ العین حیدر اور پھر نثار عزیز بٹ کا ذکر بھی لکھا لیکن یہ کتاب کسی وجہ سے شائع نہیں ہوسکی۔ اور ہاجرہ آپا کو اس بات کا بہت افسوس تھا لیکن خطوط دوبارہ جمع کرنے کی ہمّت نہ رہی تھی۔ اپنے کاغذات کو ترتیب دینے اور محفوظ رکھنے کے لیے وہ اس بات پر تیار ہوگئی تھیں کہ کوئی ریسرچ اسکالر آئے اور ان کی نگرانی میں کام کرے۔ ایک آدھ نام میں نے بھی تجویز کیا مگر وہ ہاجرہ آپا کے معیار پر پورا نہ اترسکا۔ اور وہ کاغذات یوں ہی بکھرے رہ گئے۔
افسانوں پر رائے زنی کے ساتھ وہ مجھے اپنے مخصوص بزرگانہ انداز میں نصیحت کرتی تھیں کہ افسانے لکھنے کیوں کم کر دیے۔ اور چیزوں میں توجّہ کیوں ہٹ گئی۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ افسانے لکھے جانے چاہئیں۔ وہ برابر اس بات پر زور دیے جاتیں۔ صحت کی خرابی کی وجہ سے آہستہ آہستہ وہ تقریباً گوشہ نشین ہوگئیں۔ اس کے باوجود وہ بات کرتی تھیں تو ان کا بارعب انداز اور طنطنہ قائم تھا۔ وہ اپنے کاغذات کو سمیٹنا چاہتی تھیں۔ خان صاحب کے انتقال کی وجہ سے ان کی خودنوشت ادھوری رہ گئی تھی۔ اس کتاب میں شامل کرنے کے لیے خان صاحب سے ملاقات اور شادی کا احوال انہوں نے رکارڈ کروایا اور جب وہ تحریری شکل میں دیکھا تو پسند کیا۔ اسی طرح وہ اپنے خاندان اور ابتدائی زندگی کے بارے میں بعض تفصیلات ریکارڈ کروانا چاہتی تھیں۔
اسی زمانے میں میری والدہ نے اکادمی ادبیات پاکستان کے لیے خدیجہ مستور کے بارے میں ایک چھوٹی سی کتاب لکھنے پر حامی بھری۔ سوانحی مواد کے حصول کے لیے میں نے کئی بار ہاجرہ آپا سے باتیں پوچھیں اور وہ خوش دلی کے ساتھ بتاتی رہیں۔ وہ اپنی والدہ اور سوتیلے والد کا ذکر بڑے عقیدت و احترام کے ساتھ کرتی تھیں اور اپنی بہن کے لیے ان کی محبّت ان کے لہجے سے ظاہر ہوجاتی تھی۔
ایک مرتبہ میں پی ایچ ڈی کے ایک اسکالر کے ساتھ ان کی خدمت میں حاضر ہوا جو ان کے بارے میں مقالہ لکھ رہے تھے۔ ہاجرہ آپا نے بیماری کے باوجود ان کو بہت سی چیزیں فراہم کیں۔ ان کو اس بات کا قلق تھا کہ ان کے کاغذات خصوصاً خطوط محفوظ نہ رہ سکے۔ خاص طور پر ان کو قرۃالعین حیدر کے خطوط گم ہو جانے کا بہت افسوس تھا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے ناول لکھنا شروع کیا تھا اور دو، ڈھائی سو صفحے لکھ کر چھوڑ دیا۔ میں نے اس ادھورے ناول کو دیکھنے کا اشتیاق ظاہر کیا تو انہوں نے ہتّھے پر ٹوک دیا کہ ”جب کوئی لکھنے والا یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ فلاں چیز کی اشاعت نہیں ہوگی تو اس کی وجہ وہ خود جانتا ہے! “ ان کے خیال میں یہ ناول اس طرح نہ بن سکا تھا جیسا وہ چاہتی تھیں۔
سوانحی حالات رکارڈ کرانے کا منصوبہ بھی رہ گیا کہ ان کی صحت زیادہ خراب رہنے لگی۔ انہوں نے بتایا کہ بعض دن ایسا لگتا ہے کہ جیسے ذہن نے ساتھ چھوڑ دیا۔ ان کی گوشہ نشینی کی وجہ بڑی حد تک یہی تھی، مردم بے زاری نہیں۔ یہ ضرور ہے کہ وہ اس بات کو بالکل پسند نہیں کرتی تھیں کہ نجی معاملات کُریدے جائیں۔ ڈاکٹر مصطفی کریم لندن سے آئے تو ہاجرہ آپا سے ملنے بھی گئے اور اپنے تاثر کو ”دنیا زاد“ کے لیے ایک مضمون کی شکل میں لکھ دیا۔
ہاجرہ آپا نے مجھے اس مضمون کی اشاعت سے روک دیا کہ اپنی زندگی کے بارے میں تفصیلات خود بتائیں گی۔ ایک موقع پر میں نے انہیں آزردہ سے زیادہ برافرختہ پایا۔ کسی صاحب نے یہ لکھ دیا تھا کہ نوجوانی میں بمبئی کے ایک سفر کے دوران ان کی منگنی طے ہوگئی تھی۔ انہوں نے بڑے دو ٹوک الفاظ میں سختی سے ممانعت کی کہ ایسا نہیں ہوا تھا۔ لیکن اس بارے میں قیاس آرائی کا سلسلہ چلنے لگا تو میں نے ان کو اور ان کی بیٹی کو اس بات پر رنجیدہ پایا۔
ان دنوں میں اردو افسانے کے ایک انتخابی سلسلے کے لیے ہاجرہ آپا کے افسانوں کا ترتیب سے مطالعہ کررہا تھا۔ اس انتخاب میں وہ مدد نہ کرسکیں کیوں کہ وہ اپنے افسانے بھولنے لگی تھیں۔ اور پھر ان کا کہنا تھا کہ لکھنے والے کے لیے اپنا انتخاب مشکل ہوتا ہے، اس لیے کہ وہ ذاتی پسند پر مبنی ہوتا ہے۔ ان سے جو ملاقات آخری ثابت ہوئی، اس میں انہوں نے افسانوں کے بجائے لوگوں کی قیاس آرائی کے معاملے کا ذکر بہت ناپسندیدگی کے ساتھ کیا۔ اس سے پہلے کسی نے یہ بات خدیجہ مستور کے حوالے سے کہہ دی تھی۔
وہاں سے میں بوجھل دل لیے واپس آیا اور یہ سوچتا رہا کہ ان کے ماضی میں سے ایک اسکینڈل نکال لیا گیا ہے اور اس بارے میں انٹرنیٹ پر اور دو ایک رسالوں میں قیاس آرائی ہورہی ہے۔ لیکن اصل اسکینڈل شاید یہ ہے کہ اتنی بڑی افسانہ نگار اس شہر میں زندہ موجود ہیں اور لوگ انہیں جیتے جی بھول گئے ہیں، آج ڈھونڈنے نکلیں تو بازار میں ان کی ایک آدھ کتاب بھی دستیاب نہیں۔ ان کو یاد رکھنے کا یہ کون سا طریقہ ہے!
اس کے بعد ان کی طبیعت اتنی بگڑ گئی کہ بات کرنا اور ملنا چلنا بھی محال ہوگیا۔ تھوڑے دن بعد ان کی سناؤنی آگئی۔ افسانہ بنتے بنتے وہ خبر بن گئیں۔