محاورے کا مسئلہ: محمد حسن عسکری
کم بخت ادب میں جہاں اور بیس مصیبتیں ہیں وہاں ایک جھگڑا یہ بھی ہے کہ اس کے ایک عنصر کو باقی عناصر سے الگ کرکے سمجھنا چاہیں تو بات آدھی پونی رہ جاتی ہے، یہاں وہ ڈاکٹروں والی بات نہیں چلتی کہ کوئی کان کے امراض کا ماہر ہے تو کوئی ناک کی بیماریوں کا۔ادب پارہ عناصر کا مجموعہ نہیں ہوتا۔یہاں تو کُل ہی اصل چیز ہے۔کہیں سے اینٹ کہیں سے روڑا لے کر اور چاہیں جو بن جائے، ادب نہیں بنتا۔ادب کا معاملہ تو وہی ہے جو اشیا کا ہے۔اشیا میں لمبائی ہوتی ہے اور چوڑائی بھی۔لیکن ایک کے بغیر دوسری وجود میں نہیں آسکتیں،ادب کے بارے میں سوچنے بیٹھیں تو یہی الجھن پیش آتی ہے۔ابھی ایک پہلو کے متعلق کوئی بات کہہ کے مطمئین بھی نہیں ہونے پائے تھے کہ پتہ چلا یہ پہلو دوسرے پہلو سے جڑا ہوا ہے۔جبھی تو ادب تنقید کا کام ہوا سے لڑنے کے برابر ہے۔مثلاً میں نے کچھ دن سے غل مچا رکھا ہے کہ ہمارے ادیبوں کو الفاظ پر قدرت حاصل نہیں۔اس لیے ہمارا سب سے پہلا کام ہے کہ الفاظ کو قابو میں لائیں، اس سیدھے سادے بیان سے بظاہر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ادیب لوگ روز صبح اٹھ کر نہار منہ لغت کا ایک صفحہ رٹ لیا کریں یا پرانی کتابیں پڑھ پڑھ کر اچھے لفظوں کی ایک فہرست تیار کریں اور پھر اس فکر میں رہیں کہ موقع بہ موقع ایک زور دار سا لفظ ٹکا دیں۔اگر بفرض محال اس طرح اچھی نثر یا نظم لکھی بھی جاسکے تو محض ایک افسانہ چھپوانے کی خاطر اتنا جھنجھٹ کون پالے گا کہ نوراللغت کی چار جلدیں ہر وقت کندھے پر اٹھائے رکھے۔اصل پوچھنے کی بات تو یہ ہے کہ لفظ یاد کس طرح رہتے ہیں اور لفظوں پر قابو کیسے پایا جاتا ہے۔آخر وہ کیا چیز تھی جس نے اکیلے شیکسپئر کو چھبیس ہزار الفاظ دے دیے۔حالانکہ ہماری پوری اردو زبان میں کل ملا کر چھپن ہزار الفاظ ہیں، اور آج کل کے ادیبوں کے پاس تو شاید دو تین ہزار سے زیادہ نہ ہونگے۔یہ کیا قصہ ہے؟
الفاظ اس آدمی کو یاد ہوتے ہیں جو زندہ ہو یعنی جسے زندگی کے عوامل اور مظاہر سے جذباتی تعلق ہو اور جو اس تعلق سے جھجھکے یا گھبرائے نہیں۔ادیبوں کو چھوڑیے ، ہم آپ جیسے عام آدمی جو الفاظ بولتے ہیں اس میں ہماری پوری جسمانی، ذہنی اور جذباتی سوانح عمری بند ہوتی ہے۔گویا ہر آدمی دن بھر اپنی داستان اور بچپن سے لے کر آج تک اپنی تاریخ بیان کرتاپھر تا ہے۔ان میں سے بہت سے لفظ تو ایسے تجربات کی نمائندگی کرتے ہیں جنہیں ہمارے شعور نے بھی قبول کرلیا ہے۔بہت سے لفظوں میں وہ تجربات چھپے بیٹھے رہتے ہیں جن سے شعور بچتا ہے لیکن جنہیں لاشعور ہمارے اوپر ٹھونستا ہے۔دوسری طرف ایسے بھی لفظ ہوتے ہیں جنہیں ہم حافظے کی گولیاں کھانے کے بعد بھی یادنہیں رکھ سکتے،کیونکہ ان کا تعلق ایسے ناخوشگوار تجربات سے ہوتا ہے، جن سے ہم دامن چھڑانا چاہتے ہیں۔ہم کتنے اور کس قسم کے الفاظ پر قابو حاصل کرسکتے ہیں اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہمیں زندگی سے رابطہ کتنا ہے، اور ہم خوشگوار اور ناخوشگوار دونوں قسم کے تجربات قبول کرنے کی ہمت کتنی رکھتے ہیں۔جی ہاں، خوشگوار تجربے کو بھی قبول کرنے کے لیے ہمت چاہیے، بقول فراق صاحب’ بلائیں یہ بھی محبت کے سر گئی ہونگی!‘ ۔اس میں بھی نفی خودی کا کرب برداشت کیے بغیر گزارہ نہیں ہوتا۔خو د پرست آدمی نشاط کے قابل رہتا ہے نہ غم کے۔اگر کوئی سکڑ ، سمٹ کے بالکل اندر بند ہوجائے تو اسے لفظوں کی ضرورت ہی نہ پڑے گی۔کیونکہ الفاظ تو اس تعلق کا ذریعۂ اظہار ہے جو ہمارے اور خارجی چیزوں کے درمیان ہوتا ہے۔خدا نے حضرت آدم کو سب سے پہلے چیزوں کے نام سکھائے تھے۔پھر الفاظ محل اظہار کا ذریعہ ہی نہیں ہیں، ان کے پیچھے یہ خواہش کام کرتی ہے کہ ہم دوسروں سے تعلق پیدا کریں۔چنانچہ لفظوں کو قابو میں لانے کے لیے آدمی کے اندر دو چیزیں ہونی چاہئیں ۔ایک زندہ رہنے اور زندگی سے دلچسپی رکھنے کی خواہش۔دوسرے انسانوں سے تعلق رکھنے کی خواہش، شیکسپئر نے چھبیس ہزار الفاظ لغت میں سے نقل نہیں کیے تھے، بلکہ چیزوں اورانسانوں کی دنیا سے چھبیس ہزار طرح متاثر ہوا تھا۔کیونکہ ایک سیدھا سادا اور بذات خود مہمل سا لفظ’ اور‘ استعمال کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی شخصیت میں اتنی لچک موجود ہے کہ وہ اپنی دلچسپی کو ایک چیز سے دوسری چیز تک منتقل کرسکے اس کے اندر گیرائی ہے کہ بیک وقت دو چیزوں کا احاطہ کرسکے۔بہت سے لوگوں کی شخصیت ٹھٹھر کے رہ جاتی ہے۔تو اسی لیے کہ وہ اپنی روح کی گہرائیوں میں سے ’اور‘ کہنے کی ہمت نہیں رکھتے۔میں شاعرانہ مبالغے سے کام نہیں لے رہا۔یہ ذرا سا لفظ ’ اور‘ کتنا عظیم ہے۔اس میں تو ایک پوری کائنات سماسکتی ہے۔اتنی جھک سے مقصود میرا بس اتنا تھا کہ ادیبوں کے پاس لفظ کم رہ جائیں تو پورے معاشرے کو گھبرا جانا چاہیے۔یہ تو ایک بہت بڑے سماجی خلل کی علامت ہے۔باعمل لوگ ادب جیسی بے مصرف چیز سے ہزار بیگانہ رہیں لیکن ادب میں ان کی نبض دھڑکتی ہے۔ادب میں لفظوں کا توڑا ہوجائے تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ معاشرے کو زندگی سے وسیع دلچسپی نہیں رہی یا تجربات کو قبول کرنے کی ہمت نہیں پڑتی۔جب ادب مرنے لگے تو ادیبوں ہی کو نہیں بلکہ سارے معاشرے کو دعائے قنوت پڑھنی چاہیے۔
خیر اب لمبی چوڑی باتیں چھوڑ کے یہ دیکھیں کہ آج کل کے ادب میں لفظوں کے قحط کی نوعیت کیا ہے۔فی الحال محاورے کا معاملہ لیجیے۔بعض لوگوں کی رائے یہ ہے کہ محاوروں کے استعمال کی ضرورت ہی کیا ہے۔اگر سیدھے سادے لفظوں سے کام چل جائے تو اس تکلف میں کیوں پڑیں؟دو چار لوگ ایسے بھی ہیں جو چاہتے ہیں کہ محاورے استعمال ہوں اور اس کی صورت وہ یہ بتاتے ہیں کہ پرانا ادب پڑھا جائے۔اگر اس طرح کے محاوروں کا استعمال سیکھا جاسکتا ہے تو پھر وہ لغت والا نسخہ ہی کیا برا ہے؟ خیر اپنی اپنی رائے تو اس معاملے میں سبھی دے لیتے ہیں۔کوئی محاوروں کو قبول کرتا ہے، کوئی رد۔لیکن جو بات پوچھنے کی ہے وہ کوئی نہیں پوچھتا، اصل سوال تو یہ ہے کہ محاورے کب استعمال ہوتے ہیں اور کیوں؟اور محاوروں میں ہوتا کیا ہے؟ وہ ہمیں پسند کیوں آتے ہیں؟ان سے بیان میں اضافہ کیا ہوتا ہے؟
خالص نظریاتی بحث تو مجھے آتی نہیں۔ایک آدھ محاورے کو الٹ پلٹ کر دیکھتا ہوں کہ اس کے کیا معنی نکلتے ہیں۔سرشار نے کہیں لکھا ہے۔۔۔’چراغ میں بتی پڑی اور اس نیک بخت نے چادر تانی۔‘ اس اچھے خاصے طویل جملے کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ وہ لڑکی شام ہی سے سو جاتی ہے، تو جو بات کم لفظوں میں ادا ہوجائے، اسے زیادہ لفظوں میں کیوں کہا جائے؟اس سے فائدہ؟فائدہ یہ ہے کہ جملے کا اصل مطلب وہ نہیں ہے جو میں نے بیان کیا ہے بلکہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔’شام ہونا‘ تو فطرت کا عمل ہے۔’چراغ میں بتی پڑنا‘ انسانوں کی دنیا کا عمل ہے جو ایک فطری عمل کے ساتھ وقوع پذیر ہوتا ہے اور یہ عمل خاصہ ہنگامہ خیز ہے۔جن لوگوں نے وہ زمانہ دیکھا ہے، جب سرسوں کے تیل کے چراغ جلتے تھے، انہیں یاد ہوگا کہ چراغ میں بتی پڑنے کے بعد کتنی چل پول مچتی تھی، اندھیرا ہوچلا، ادھر بتی کے لیے روئی ڈھونڈی جارہی ہے۔روئی مل گئی تو جلدی میں بتی ٹھیک طرح نہیں بٹی جارہی۔کبھی بہت موٹی ہوگئی، کبھی بہت پتلی۔دوسری طرف بچے بڑی بہن کے ہاتھ سے روئی چھین رہے ہیں۔یہی وقت کھانا پکنے کا ہے۔توے پر روٹی نظر نہیں آرہی، روٹی پکانے والی الگ چلا رہی ہے، وغیرہ وغیرہ۔’چراغ میں بتی پڑنا‘ کے معنی محض یہ نہیں کہ شام ہوگئی۔اس فقرے کے ساتھ اجتماعی زندگی کا ایک پورا منظر سامنے آتا ہے۔اس محاورے میں فطرت کی زندگی اور انسانی زندگی گھل مل کر ایک ہوگئی ہے۔بلکہ شام کے اندھیرے اور سناٹے پر انسانوں کی زندگی کی ہما ہمی غالب آگئی ہے۔سرشار نے یہ نہیں کہا کہ سورج غروب ہوتے ہی سوجانا صحت کے لیے مضر ہے۔انہیں تو اس پر تعجب ہوا ہے کہ ایسے وقت جب گھر کے چھوٹے بڑے سب ایک جگہ جمع ہوں اور اتنی چہل پہل ہورہی ہو، ایک آدمی سب سے منہ موڑ کر الگ جالیٹے۔انہیں اعتراض یہ ہے کہ سونے والی نے اجتماعی زندگی سے بے تعلقی کیسے برتی؟پھر ’چادر تاننا‘ بھی سوجانے سے مختلف چیز ہے۔اس میں ایک اکتاہٹ کا احساس ہے۔یعنی آدمی زندگی کی سرگرمیوں سے تھک جانے کے بعد ایک شعوری فعل کے ذریعے اپنے آپ کو دوسروں سے الگ کرکے چادر کے نیچے پناہ لیتا ہے۔سرشار نے محض ایک واقعہ نہیں بیان کیا۔بلکہ عام انسانوں کے طرز عمل کاتقاضا دکھایا ہے۔اس انفرادی فعل کے پیچھے سے اجتماعی زندگی جھانک رہی ہے۔محاوروں کے ذریعے پس منظر اور پیش منظر ایک دوسرے میں پیوست ہوگئے ہیں۔اب ایک ضرب المثل لیجیے۔’بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔‘اس میں ایک عمومی تصور ایک خاص واقعے کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔یہ ایک استعارہ ہے جو بقول ارسطو شاعری کی جان ہے۔تو ایسے بھی محاورے اور ضرب الامثال ہوتی ہیں جو محض بیان سے آگے بڑھ کے شاعری بن جاتی ہیں۔پھر مندرجہ بالا فقرے میں گھریلوزندگی کے کئی پہلو نظر آتے ہیں۔خاص طور سے بعض جانوروں کو انسانوں کی زندگی میں جو دخل ہے اس کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے۔
غرض محاوروں میں اجتماعی زندگی کی تصویریں’سماج کے تصورات اور معتقدات‘ انسان، فطرت اور کائنات کے متعلق سماج کا رویہ، یہ سب باتیں جھلکتی ہیں۔محاورے صرف خوب صورت فقرے نہیں،یہ تو اجتماعی تجربے کے ٹکڑے ہیں۔جن میں سماج کی پوری شخصیت بستی ہے۔محاورہ استعمال کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے انفرادی تجربے کو اجتماعی تجربے کے پس منظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔محاورہ فرد کو معاشرے میں گھلادیتا ہے۔تخصیص میں تعمیم اور تعمیم میں تخصیص پیدا کرتا ہے۔محاورہ ہمیں بتاتا ہے کہ فرد کے ایک تجربے کو اس کے دوسرے تجربوں سے ، فرد کے تجربے کو سماج کے تجربے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔محاورہ جزو کو خالی جزو نہیں رہنے دیتا۔اسے کل میں ڈبوتا ہے۔ہمیں زندگی کی پیچیدگیاں اور رنگا رنگی یاد دلاتا ہے۔اس کے ذریعے مختلف تجربات کا تضاد اور تقابل نظر کے سامنے آتا ہے۔چونکہ محاورہ فرد کو کھینچ کے پھر اجتماعی زندگی میں واپس لے آتا ہے، اس لیے اسی وقت استعمال ہوتا ہے جب فرد اپنے معاشرے سے تعلق برقرار رکھنا چاہے۔یعنی محاورہ ایک مربوط اور منضبط معاشرے کی پیداوار ہے۔جب فرد اپنے معاشرے سے بچھڑ جائے اور وہ دوبارہ معاشرے میں گھل مل جانے کی خواہش بھی نہ رکھتا ہو تو پھر نہ تو محاورے استعمال ہوسکتے ہیں نہ ان کی ضرورت باقی رہتی ہے۔
اردو شاعری میں محاوروں سے اجتناب سب سے پہلے ہمیں غالب کے یہاں نظر آتا ہے۔کیونکہ ان کی خواہش تو یہ تھی کہ ’عرش سے پرے ہوتا کاشکے مکاں اپنا‘ آسمان سے پرے کوئی مطلق اور مجرد تجربہ ہوتا ہو تو ہوتا ہو انسانوں کا اجتماعی تجربہ نہیں ہوتا۔اس دنیا میں تو فرد اپنے تجربے ہی کو ایک مطلق چیز سمجھ سکتا ہے، اسے اوروں کے تجربے سے اپنے تجربے کا مقابلہ کرنے کی ضرورت نہیں پیش آتی۔تو پھر غالب محاورے کیوں استعمال کرتے؟اگر غالب کے خطوط موجود نہ ہوتے تو ہمیں ان کی شخصیت بڑی چھوٹی اور گھٹی ہوئی نظر آتی۔غالب کی غزل میں ان کی شخصیت کی عظمت چاہے آگئی ہو، وسعت نہیں آنے پائی، غالب کو دو چیزوں نے مارا۔ایک تو اپنے آپ کو دوسرے انسانوں سے الگ رکھنے کی خواہش، دوسرے فلسفیانہ باتیں بگھارنے کا شوق۔’عالم تمام حلقۂ دام خیال ہے‘ ۔۔۔۔یہ بات اپنی جگہ درست سہی، مگر سچا خیال بھی اسی وقت پیدا ہوتا ہے کہ جب ٹھوس چیزوں پر نظر ہو۔ارسطو نے کہا ہے کہ نوجوان لوگ فلسفی نہیں بن سکتے کیونکہ ان کی اصول سازی اور خیال آرائی کے پیچھے خصوصی تجربات کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔اس اعتبار سے غالب اپنی فکری زندگی میں ہمیشہ لڑتے ہی رہے۔جہاں تک مفکر ہونے کا تعلق ہے غالب کیرکے گور کے گھٹنے تک بھی نہیں پہنچتے، لیکن کیرکے گور کا زبردست امتیاز یہی ہے کہ اس کا ہر خیال انفرادی یا اجتماعی زندگی کے کسی نہ کسی ٹھوس تجربے سے نکلتا ہے۔بہرحال غالب تو ایک ایسے رجحان کی نمائندگی کررہے تھے جو ہمارے معاشرے میں پیدا ہوچکا تھا۔یعنی فرد کے دل میں سماج سے الگ ہونے کی خواہش، جب فرد کی زندگی پرانے اجتماعی مناسبات سے واقعی الگ ہوگئی تو نیاز فتح پوری وغیرہ کا ادب سامنے آیا۔ان لوگوں کا عقیدہ تھا کہ ادیب کے تجربات عام آدمی کے تجربات سے الگ اور جمالیاتی نوعیت کے ہوتے ہیں اور ادیب تصورات کی دنیا میں رہتا ہے۔فارسی اور عربی کے الفاظ کی تعداد زیادہ ہوجانے کے یہی معنی ہیں۔ان ادیبوں کو تو یہی منظور تھا کہ اپنے تجربات کاا ختصاص اور ندرت دکھائیں اور اجتماعی تجربات کا سایہ تک اپنے اوپر نہ پڑپائے چنانچہ محاورے اسی لیے ترک کیے گئے تاکہ اجتماعی زندگی بن بلائے مہمان کی طرح نہ گھس پڑے۔
رہے سن 36کے بعد والے ادیب تو عقیدے کے اعتبار سے تو وہ اجتماعی زندگی کے قائل تھے مگر خاندان ، مذہب وغیرہ سماجی اداروں پر یقین نہ رکھتے تھے۔یعنی وہ موجودہ اجتماعی زندگی کو رد کرکے اپنا تعلق ایک آئندہ اور خیالی اجتماعی زندگی سے استوار کرنا چاہتے تھے۔پھر دوسری طرف کسی طرح کی اجتماعی زندگی سے انہیں جذباتی علاقہ نہ تھا۔۔۔اس کے مشاہدے کی خواہش ضرور تھی(یہاں میں ایک عام رجحان کا ذکر کررہا ہوں۔انفرادی حیثیت سے احمد علی، عصمت چغتائی، انتظار حسین وغیرہ میں زندگی سے محبت نظر آتی ہے)جو لوگ اجتماعی زندگی سے اس بری طرح کٹ گئے ہوں وہ اگر چاہیں بھی تو محاورے استعمال نہیں کرسکتے۔کیونکہ اجتماعی زندگی ان کی شخصیت میں اس طرح جذب ہی نہیں ہوئی، جیسے سرشار، نذیر احمد اور راشد الخیری میں رس بس گئی تھی۔یہ لوگ ’چراغ میں بتی پڑی‘ کہہ ہی نہیں سکتے۔کیونکہ شام کے تصور کے ساتھ ان کے ذہن میں اجتماعی زندگی کا کوئی منظر نہیں ابھرتا۔یہ تو ’چادرتاننا‘بھی نہیں کہہ سکتے۔کیونکہ انہیں انسانوں کے چھوٹے سے چھوٹے فعل سے وہ دلچسپی نہیں جو سرشار کو تھی۔یہ لوگ تو ایسی جگہ محض ’سونا‘ کہیں گے۔یعنی ایسا لفظ استعمال کریں گے جو ایک جسمانی فعل تو ضرور دکھائے مگر انسانی مناسبات سے خالی ہو۔
تو محاورے کا مسئلہ محض ادبی مسئلہ نہیں۔بلکہ ہماری پوری انفرادی اور اجتماعی زندگی کا مسئلہ ہے۔ہمارے ذہن میں محاورے اس وقت آئیں گے۔جب ہم اجتماعی زندگی سے جذباتی تعلق رکھتے ہوں، اور اپنے معاشرے کو قبول کریں۔محاورے تو اجتماعی زندگی کی طرح شاعری میں اجتماعی زندگی کے (myths)ہیں۔جب تک ہمیں اجتماعی زندگی میں شاعری نظر آئے گی ہم محاورے بھی استعمال نہیں کرسکیں گے۔کیونکہ سماجی پس منظر بدل چکا ہے اور ان کے ذریعے ہمارے ذہن میں کوئی تصویر نہیں ابھرتی۔زندگی کی شکلیں بدل جاتیں تو محاورے بھی نئے بننے چاہئیں ۔لیکن غضب تو یہی ہوا ہے کہ نئے محاوروں کی پیدائش بالکل رک گئی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنی زندگی سے تخلیقی دلچسپی اور گہرا جذباتی تعلق باقی نہیں رہا۔دوسرے ہماری زندگی اجزا میں بٹ گئی ہے۔کل کا احساس غائب ہوگیا ہے۔ہم اپنے تجربات کو ایک دوسرے میں گھلا ملا کر ایک نہیں بنا سکتے۔اسی لیے ہمارا ذہن نئے محاورے ایجاد نہیں کرتا۔ذہن میں یہ صلاحیت تو اسی وقت آتی ہے جب فرد اور معاشرے میں سچا ربط ہو۔جان بوجھ کر محاوروں کی لین ڈوری لگادینے کا مطلب اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ یہ ایک نقلی ربط پیدا کرنے کی کوشش ہے۔محاورے اسی وقت قابو میں آئیں گے جب ادیبوں کو ہی نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کے سب افراد کو اجتماعی زندگی میں ڈوب جانے کی لگ ہو، اور نئے محاورے اس وقت پیدا ہونگے جب فرد اور جماعت کا ربط اتنا گہرا ہو کہ ہمیں اس ربط کی موجودگی کا خیال بھی نہ آئے۔