دیسی شراب از شہزاد اسلم
جون کے مہینے کی سخت گرمی میں افق پر گرد کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ شام نے سورج کو اپنے اندھیروں کے پیٹ میں جذب کرنے کیلئے منہ کھول لیا تھا۔ پیاس اور بھوک سے لاغر اجسام مغرب کے کناروں پر نئے چاند کی آمد سے مایوس ہو کر گھروں کو لوٹ چکے تھے۔ اس دفع بھی روزے تیس ہوں گے۔ گلیوں اور بازاروں میں رویت ہلال کمیٹی کے چاند نظر نہ آنے کے اس اعلان کو گرد آلود فضا، کمیٹی کے ارکان کی ناقص بیتی اور حکومتی سازش سے تعبیر کیا گیا۔
ان سب باتوں سے بے نیاز یوسف اور دارا مسلم شیخ نے گاؤں سے دور تپتی ہوئی زمین کی تہہ میں دبے ہوئے گھڑے کو نکال کر اس کے منہ پر بندھی ہوئی پٹی اتاری تو تیز بو یوسف اور دارا کی سانسوں میں شامل ہو گئی۔ دونوں کے چہروں پر پھیلی ہوئی مسکراہٹ اور آنکھوں کی چمک سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ بھانڈا پک کر تیار ہو گیا ہے۔ یوسف نے دارا مسلم شیخ کے مشورے اور مدد سے گڑ، پھل، کیکر کے جسم کی ابھری ہوئی کھال (چھال) کے شیرے کو بوجہ احترامِ رمضان پہلے روزہ سے قبل ہی سپرد زمین کر دیا تھا۔ وہ دونوں مٹی کے گھڑے کو وہاں موجود واحد کمرے میں لے گئے۔ کمرے کے اندر سوکھی لکڑی سے آگ جلائی گئی۔ گھڑے کو آگ پر رکھ کر اڑتی ہوئی بھاپ کو مقید کر کے قطروں کی شکل میں ایک برتن میں اکھٹا کیا جانے لگا۔ جہاں ایک قطرہ برتن میں گرتا وہاں گرمیوں میں کمرے کے اندر لگی آگ نے یوسف اور دارا کے جسم سے پانی کے قطرے نچوڑنے شروع کر دیے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ان کے جسم کے اندر کی برف اس حرارت سے پگھل کر پانی کی شکل میں ٹپک کر کپڑوں کو گیلا کر رہی ہے۔ یوسف کے منہ سے کئی بار دارا کو مخاطب کرتے ہوئے یہ الفاظ نکلے: ’اللہ کرے اب یہ صحیح کشید ہو جائے‘۔ دارا کی سائنسی تربیت اور یوسف کی بے ساختہ دعاؤں سے دو گھنٹے کے بعد دو بوتلیں دیسی شراب کشید ہو گئی اور غالباً اتنا ہی پانی ان کے جسموں سے بہہ کر کپڑوں کو تر کر چکا تھا۔ کمرے کے ایک کونے میں دونوں بوتلوں کو سوکھی لکڑیوں اور بکھری گھاس کو اکھٹا کر کے چھپا دیا گیا۔ یوسف اور دارا جب کمرے سے باہر آئے تو ہلکی ہوا کے لمس نے ان کے جسموں میں کپکپی طاری کر دی۔ دونوں رات کے اندھیرے میں واپس گھر آگئے۔ انہیں ایسا ہی محسوس ہو رہا تھا جیسے جنگ کے بعد فوجی مال غنیمت لے کر واپس آتے ہیں۔ تاروں کی کڑھائی والے کھلے آسمان کے نیچے چارپائی پر لیٹے یوسف کے دماغ میں یہ بات گونج رہی تھی کہ اب عید منانے کا مزہ آئے گا اور یہ گونج صرف وہی سن سکتا تھا۔
آخری روزہ گزر گیا۔ چاند رات آئی اور عید کی خوشی کا اثر ہوا میں جیسے ساکن ہو گیا تھا اور اس اثر کو سب نے یکساں محسوس کیا۔ اگلی صبح عید کی نماز کے وقت کا سپیکر پر جیسے ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ سب لوگ آٹھ بجے مسجد میں تشریف لے آئیں۔ جماعت ٹھیک آٹھ بجے کھڑی ہو جائے گی۔ امام مسجد بار بار سپیکر پر لوگوں کو تاکید کر رہے تھے۔ آج سب کچھ ہی مختلف تھا۔ سورج نکلنے کے بعد حجام کی قینچی اور استرے نے پوری کوشش کی کہ تمام افراد ایک جیسے حلیے میں ڈھل جائیں۔ آج تو سب لوگ ہی نہائے تھے اور کپڑے بھی بغیر سلوٹوں کے پہنے تھے۔ یوسف بھی نئے حلیے میں لوگوں کے پیچھے پیچھے مسجد کی طرف چل پڑا اور دل ہی دل میں شر مندگی محسوس کر رہا تھا کہ وہ خدا کے گھر سال میں دو دفعہ ہی حاضر ہوتا ہے۔ اسے یہ شرمندگی کئی دوسرے نوجوانوں کے چہروں پر بھی چھپی دکھائی دی۔ جماعت کھڑی ہوئی تو یوسف نے اپنی آنکھوں کے کونوں سے چوری چھپے رکوع اور سجدے میں جاتے ہوئے لوگوں کو دیکھا اور عید کی نماز مکمل کی۔ پھر مولوی صاحب نے اپنی تقریر کے دوران کئی دفع کہا کہ ’کہو سبحان اللہ‘ تو یوسف نے اس گرجتی ہوئی آواز کے طلسم میں ہر دفع ’سبحان اللہ‘ کہا۔ خطبہ ختم ہوتے ہی یوسف جیسے دوسرے نوجوان اور بچے مسجد سے ایسے بھاگے جیسے بکرا قصائی کی گرفت سے چھوٹ کر بھاگتا ہے۔ دوستوں، رشتہ داروں سے عید ملن کے بعد یوسف گھر واپس گیا اور مختلف انواع کے کھانوں کو دیکھ کر ہی اس کی بھوک ختم ہو گئی۔ تھوڑا بہت کھانا چکھنے کے بعد وہ دارا کی تلاش میں نکل پڑا۔ دارا کو تلاش کر کے وہ سیدھا اس کمرے میں گیا جہاں کونے میں دونوں بوتلیں ابھی بھی ان کا انتظار کر رہی تھیں۔ یوسف اور دارا، ایک بوتل نکال کر ٹیوب ویل کے تالاب کے کنارے بیٹھ گئے۔ کڑوے کسیلے پانی کے چند گھونٹوں نے طبیعت میں شادابی اور روانی پیدا کر دی۔ باتوں باتوں میں یوسف نے دارا کو بتایا کہ سال کے بعد جب چند قطرے رگوں میں سفر کرتے ہیں تو گویا زندگی سیانی لگتی ہے۔ ورنہ ہم میں اور بھینسوں کی زندگیوں میں زیادہ فرق نہیں۔ پتہ نہیں ہم خوشی کا ہر کام چوری چھپے ہی کیوں کرتے ہیں۔ دارا نے جواب دیا کہ آج تو سب نے اپنا اپنا بندوبست کیا ہوا ہے لیکن سب اجنبی بنے ہوئے ہیں۔ یوسف نے جب سٹیل کے گلاس کے تین پیگ چڑھا لئے تو اس کے اندر کی چھپی ہوئی محبت کی داستان زباں پر رواں ہوگئی۔ مٹی کے اس گھروندے میں چند گھونٹوں نے محبت کا دریا بہا دیا لیکن اس دریا کی لہریں اپنے ہی کناروں سے ٹکرا کر ہمیشہ واپسی کا سفر شروع کردیتیں۔ شادابی کا یہ منظر بیرونی دنیا سے کٹا ہوا تھا لیکن اچانک تاریک وردیوں اور بوٹوں میں الجھے ہوئے چند اجسام یوسف اور دارا کے قریب آکر کھڑے ہو گئے۔ ان کے ہونٹوں کے تبسم نے یوسف اور دارا کے چہروں کی مسکراہٹ اور دلوں کی شادابی اچانک چھین لی۔ ان کے نئے کپڑوں کے گریبان جب پسینے والے ہاتھوں میں آئے تو زندگی کی سلوٹیں ان کے ایک دن کی تازگی بھی برداشت نہ کر سکیں۔ دارا کے منہ سے ہلکی سی آواز آئی۔ پولیس۔ ہم ماتم تو بازاروں میں کرتے ہیں، لیکن آزادی اور خوشی کے چند لمحات اکیلے بھی نہیں منا سکتے۔
عید تو منا لی اور کرنا بھی کیا تھا؟ دن کا باقی وقت اور رات تھانہ کی حوالات میں کاٹی۔ اسلامی قوانین کے تحت پرچہ کاٹا گیا اور اگلے دن مجسٹریٹ کی عدالت میں حاضری کے بعد یوسف اور دارا کو جیل روانہ کر دیا گیا۔
پولیس کی گاڑی جیل کے اندر داخل ہوئی تو آگے ایک کھلا میدان تھا۔ اس میدان کو عبور کر کے گاڑی لوہے کے بنے دیو ہیکل گیٹ کے آگے کھڑی ہو گئی، جو کسی قلعہ کا دروازہ محسوس ہوتا تھا۔ اس بڑے دروازے میں ایک کھڑکی لگی ہوئی تھی جس کے ذریعے ملزمان اور پولیس کے تین آدمی اندر داخل ہوئے۔ اندر کھڑے سپاہی جن کے کندھوں پر ۳۰۳ رائفل لٹک رہی تھیں، نے یوسف، دارا اور دوسرے ملزمان کو وصول کیا اور پھر ایک چھوٹے سے کمرے میں لے گئے جہاں ان کی کیمرہ سے تصویریں لی گئیں اور رجسٹر کے اندر نام، ولدیت، قوم، پتہ درج کرنے کے بعد، تھانہ اور جرم کا بھی اندراج کیا۔ یوسف، دارا اور دوسرے ملزمان کو الگ الگ کارڈ دئیے گئے جن پر رجسٹر میں درج معلومات منعکس تھیں۔ یہ کارڈ یوسف اور دارا کو ہمراہ دیگر ملزمان ایسے تھما دئے گئے جیسے عربی دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے مزدوروں کو اقامہ تھماتے ہیں۔ یوسف اور دارا کا نشہ تو اتر چکا تھا لیکن سر میں ہلکی ہلکی درد اب بھی موجود تھا جو اس اجنبی میوزیم میں ساری ضابطہ کی کارووائی سے لا تعلقی پیدا کر رہا تھا۔ دارا اور یوسف ہاتھوں میں کارڈ تھامے دو سپاہیوں کے پیچھے پیچھے کئی چھوٹے کمروں کے سامنے سے گزرے جن کے اندر قیدی مقید تھے۔ یوسف کو ایسے لگا جیسے وہ چڑیا گھر کے اندر داخل ہو گیا ہے۔ دونوں سپاہی کچھ دیر چلنے کے بعد دائیں طرف کے دروازے کو کھول کر اندر داخل ہوئے تو یوسف اور دارا نے بھی دروازہ کی دہلیز عبور کی۔ آگے ایک بڑا سا ہال تھا جس کے اندر قیدی مکھیوں کی طرح بھنبھنا رہے تھے۔ یہ قیدی ریلوے سٹیشن پر پڑے مسافروں کی طرح کسی چیز کے انتظار میں تھے۔ اس امید کے انتظار میں جو ٹرین کی طرح ہمیشہ لیٹ آتی ہے۔ یوسف اور دارا دب کی بنی چٹائی پر خالی جگہ پا کر قابض ہو گئے۔ دوسرے قیدیوں نے متجسس نگاہوں سے دارا اور یوسف کو دیکھا۔ یوسف اور دارا بھی ڈگمگا کے اعتماد سے ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ کچھ ہی دیر میں سارے قیدیوں کو علم ہو گیا کہ شرابی آئے ہیں۔ یہ ہال کلیسا کے اعتراف گناہ والے کمرے کی طرح تھا جہاں ہر ملزم کا سچ گونج رہا تھا۔ یوسف اور دارا جہاں بیٹھے تھے وہاں سے چند گز کے فاصلے پر ایک کونے میں لمبے بالوں والا کلین شیو آدمی جو پچاس سال کے لگ بھگ عمر کا تھا، دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا اور اس کے آگے دس بارہ قیدی چوکڑی ڈالے اس کی تقریر سن رہے تھے۔ یوسف بھی ادھر دیکھنے لگا جیسے وہاں کوئی مداری تماشہ لگائے بیٹھا تھا۔ کچھ نا مکمل فقرے یوسف کے کانوں میں پڑے۔ مجھے خوف ۔۔۔۔ ریاست سے۔ اس نے تانے ۔۔۔ ارد گرد بالے کو نظر نہیں آتا۔ یوسف نے جب کوشش کر کے سنا تو وہ لمبے بالوں والا کلین شیو آدمی کہہ رہا تھا۔ ہاں خواب میں کہ ان سے آگے دیکھ سکوں جیسے بحراوقیانوس کے کنارے کھڑے ہو کر پندرہویں صدی کے لوگ پانیوں سے آگے کی دنیا کے خواب دیکھتے تھے۔ ہمارا ضمیر بھی تو ریاست کے بنائے ہوئے نیکی اور بدی، سچ اور جھوٹ کے تصورسے جنم لیتا ہے۔ ہمارے والدین فطرت سے ڈرتے تھے، ہم ریاست سے ڈرتے ہیں۔ ایک لاوا ہے جو میرے اندر پکتا ہے لیکن باہر نکلنے سے ڈرتا ہے۔ وہ میرے ہی وجود کو جلاتا ہے اور ہر دفع میرے آنسو ہی اس کی حدت کو کم کرتے ہیں۔ میں ہجوم میں تنہائی سے تھک کر کہاں جاؤں۔ سمندر کے کنارے، جنگل کے گھنے سائے یا پھر خلا میں۔ ہر جگہ تو ریاست ہے۔ یہ ریاست تو خدا سے بھی بڑی لگتی ہے جو خدا کی طرح انسان اور اسکی آزادی سے حسد کرتی ہے۔
ہال کے اندر ایک سپاہی اچانک نمودار ہوتا ہے۔ کونے میں بیٹھے ہوئے قیدی جو لمبے بالوں والے شخص کی نہ سمجھ آنے والی باتوں کو سن رہے تھے، آہستہ آہستہ اٹھنے لگے۔ سپاہی کو محسوس ہوا جیسے لمبے بالوں والا شخص ممبر والا وعظ سنا رہا ہے یا پھر روحانیت کا درس دے رہا ہے۔ سپاہی نے ہال کے دو چکر کاٹے اور درمیاں میں کچھ قیدیوں کی بکھری ٹانگوں کو اپنے بوٹوں کی چوٹ اور زبان کی کاٹ سے سیدھا کیا۔ یوسف اور دارا بیٹھے سوچ رہے تھے کہ گاؤں والوں کو اب علم ہو چکا ہو گا اور اس احساس سے ان کے چہروں کی رنگت اڑی جاتی تھی۔ ابا اور چچا تو میری جان نکال دیں گے۔ یوسف کے دماغ میں یہ بات اٹک کر رہ گئی تھی۔ دارا یار! میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ پولیس ہمیں گرفتار کر لے گی اور پورے گاؤں میں بے عزتی ہوگی۔ یوسف نے دارا کو دیکھے بغیر، فرش پر نظریں جمائے بات کی جیسے یہ سوال بھی ہو اور خیال کا اظہار بھی۔ پاس لیٹے ہوئے ایک شخص نے اپنی مونچھوں کو ہاتھوں کی انگلیوں سے دباتے ہوئے یوسف کو مخاطب کیا۔ چوہدری، پریشان کیوں ہوتا ہے، کل سیشن جج صاحب آئیں گے اور تمہاری ضمانت ہو جائے گی۔ یہ بھلا کون سا بڑا جرم ہے۔ یوسف اور دارا یہ بات سن کر ایسے خوش ہوئے جیسے انہیں بوتل واپس مل گئی ہو۔ سوچتے، باتیں کرتے، دوسروں کی سنتے، اپنی سناتے شام ہو گئی۔ لنگر کی قطار میں لگ کر یوسف اور دارا نے جب کھانا دیکھا تو انہیں گرفتاری کے بعد پہلی دفع بھوک کا احساس ہوا۔ عید کی مناسبت سے جیل کے کھانے میں چکن قورمہ اور حلوہ تھا جسے کھا کر دارا کے ذہن میں خیال آیا کہ یہ پہلا کھانا ہے جو بغیر مزدوری کے مل رہا ہے۔ مچھر اور گرمی تو کوئی ایسی خاص وجہ نہ تھی جس سے نیند نہ آتی البتہ جیل کے احساس نے یوسف کی نیند اڑا دی تھی۔ دارا نے یوسف کی ٹانگیں دبا کر اور باتیں سنا کر رات کو رخصت کیا۔ اگلے دن تمام بیرکوں میں یہ اطلاع دے دی گئی کہ سیشن جج صاحب جیل کے دورے پر آئیں گے اور چھوٹے جرائم کی ضمانتیں بھی لیں گے۔ سپاہیوں نے قیدیوں کو سختی سے منع کیا کہ کوئی جیل انتظامیہ کے خلاف شکایت نہیں کرے گا۔ شکایت کے انجام سے بھی انہیں آگاہ کر دیا گیا۔ یوسف اور دارا نے باقی قیدیوں کے ساتھ مل کر صفائی کی اور پودوں کو پانی لگایا۔ جیل بھی عید کے رنگ میں رنگ دی گئی تھی۔ یوسف اور دارا باقی قیدیوں کی طرح اپنے اقامے جیسے کارڈ کو تھامے بیٹھے تھے۔ اچانک یوسف کو خیال آیا کہ کیوں نا لمبے بالوں والے شخص سے رسم و راہ کی جائے۔ وہ لمبے بالوں والا پڑھا لکھا سیاسی لیڈر لگتا تھا۔ جیل کی دوستی کا رنگ کبھی پھیکا نہیں پڑتا، یوسف نے یہ سن رکھا تھا۔
یوسف اور دارا سلام کہہ کر لمبے بالوں والے شخص کے پاس بیٹھ گئے۔ باتوں باتوں میں انہیں معلوم ہوا کہ لمبے بالوں والے شخص کا نام سرور ہے، جس کے خلاف ثقافت کی آڑ میں مختلف گروہوں کے مابین عداوت کو ہوا دینے کا مقدمہ درج تھا۔ سرور کے پوچھنے پر یوسف نے بتایا کہ ان کے خلاف شراب تیار کرنے اور پینے کا مقدمہ درج ہے۔ سرور نے بے ساختگی سے کہا، اچھا شراب! خطہ اسلام کا نہ تھکنے والا مسافر، شیراز و اصفہان کا استنبول کی سرائے میں بکنے والا اعلیٰ مشروب، بادشاہ سلیمان اور حورم سلطان کے بیٹے سلیم کا سائیپرس کا بنا خزانہ۔ مغل بادشاہوں کیلئے چاول سے بنا عرق۔ یہ دارو نام ہی برا ہے، عرق کیا دلکش نام ہے۔
سرور نے رازداری کے لہجے میں حیرت زدہ یوسف اور دارا کو بتایا کہ عظیم مغلوں کا کچھ ذریعہ آمدنی تو افیون تھی، جو بنگال کی فتح کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھ آئی اور پھر بعد میں پورا ہندوستان فتح ہوا۔ یوسف اور دارا کو تو اپنے گاؤں کی تاریخ کے علاوہ صرف اس تاریخ کا علم تھا جو مسجد کے امام پچھلے ۲۵ سال سے دہرا رہے تھے۔ سرور کی باتیں تو انہیں عجوبہ لگ رہی تھیں۔ جہاں یہ عرق نہ پہنچا یا اس پر پابندی لگا دی گئی، وہاں چائے نے اپنا قبضہ جما لیا۔ سرور نے یہ حتمی رائے دیتے ہوئے اپنے زانو پر ہاتھ مارا اور پھر شکست خوردہ لہجے میں کہا، ’مجھے تو سمجھ میں نہیں آتا جب سے عرق پر پابندی لگی ہے، زمینوں پر قبضے کیوں ہونا شروع ہو گئے ہیں، موسیقار اور گلوکار ملک سے باہر گئے۔ یہاں گلے کٹنا شروع ہو گئے‘۔
سیشن جج صاحب کے آنے سے قبل ہی سرور کو ایک علیحدہ کوٹھڑی میں بند کر دیا گیا تا کہ اس کی باتوں سے کوئی مصیبت کھڑی نہ ہو جائے۔ دوسرے قیدیوں سے وابستگی کی وجہ سے اس کا میل جول بھی ختم کر دیا گیا۔ تقریباً بارہ بجے سیشن جج صاحب کے آنے سے قبل ہی چھوٹے جرائم میں ملوث ملزمان کی لسٹ تیار ہو چکی تھی۔ بیرکوں کا چکر کاٹنے اور باورچی خانہ کا کھانا چیک کرنے کے بعد سیشن جج صاحب جیل کے اندر قائم کردہ عدالت میں تشریف لے آئے۔ وہاں ملزمان قطاروں میں فرش پر پیٹھ جمائے بیٹھے تھے۔ یوسف اور دارا بھی ایک قطار میں آخری دو ملزمان کے آگے بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ سیشن جج صاحب پچپن اور ساٹھ سال کی بیچ عمر کے دبلے پتلے باریش انسان تھے۔ چہرے سے روح کی سختی عیاں تھی۔ چوری، جوا اور قتل کی دھمکیوں میں ملوث ملزمان کو جب شخصی ضمانت پر رہا کرنے کا حکم سنایا گیا تو یوسف بھی جیل سے نکل کر بس میں سوار ہو کر گاؤں جانے کا سوچنے لگا۔ سوچ کا سلسلہ اس وقت ٹوٹا جب یوسف اور دارا کے نام پکارے گئے۔ دونوں کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں اور وہ اپنے قدموں پر کھڑے ہو گئے۔ دونوں نے اپنے ہاتھ آگے کی طرف ناف پر باندھ رکھے تھے۔ سیشن جج نے کراہت بھری نظروں سے دونوں کی طرف دیکھا تو دونوں نے خوف محسوس کرتے ہوئے اپنی نظریں نیچی کر لیں۔ ’تمہیں علم نہیں شراب پینا کتنا بڑا گناہ ہے‘ سیشن جج صاحب کی آواز عدالت میں گونجی۔ سیشن جج نے دونوں کے ناموں کے آگے decline لکھ دیا۔ ’چوری اور جوا بھی تو گناہ ہیں ‘ یوسف نے دل ہی دل میں دہرایا لیکن انجانے خوف سے ان الفاظ کو زبان پر نہ لا سکا۔ یوسف اور دارا کو واپس بیرک میں بھیج دیا گیا اور بقیہ کو رہائی کیلئے کارروائی مکمل کرنے کیلئے روک لیا گیا۔ یوسف اور دارا کو جیل میں آنے کے بعد پہلی دفع چبھتی ہوئی تکلیف محسوس ہوئی۔ بے بسی نے ان کی امید اور ہمت نچوڑ لی تھی۔ رات اسی تکلیف میں گزر گئی۔ اگلے دن یوسف کا چچا عاشق اور بھائی عمر ملاقات کیلئے جیل میں پہنچ گئے۔ ایک سپاہی یوسف اور دارا کو ملاقات کیلئے بیرک سے نکال کر ملاقاتی کمرے میں لے آیا۔ وہاں قیدی اور ملاقاتی لوہے کی جالی سے بنی دیوار سے چمٹے ہوئے تھے۔ شور اتنا زیادہ تھا کہ کسی بات کی بھی سمجھ نہیں آرہی تھی۔ یوسف نے چچا اور بھائی کو دیکھا تو ہاتھ اٹھا کر اپنے آنے کا اشارہ کیا۔ یوسف اور دارا نے دو قیدیوں کو دھکیل کر راستہ بنایا اور پھر لوہے کی جالی سے چمٹ گئے۔ شرمندگی کے باعث ان کے منہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔ چچا عاشق نے دونوں کا حال دریافت کیا۔ دونوں نے ’ٹھیک‘ کہہ کر جواب دیا۔ چچا نے اچانک غصہ طاری کرتے ہوئے کہا کہ تم کو شرم تو نہیں آتی؟ خاندان کی عزت خاک میں ملا دی ہے۔ اگر جیل آنا ہی تھا تو کسی شریک کی ٹانگ توڑ کر یا قتل کر کے آتے۔ یوسف کے چہرے سے شرمندگی کے باعث پسینے کے چند قطرے پھسل کر کپڑوں میں جذب ہو گئے۔ جب چچا نے یہ حالت دیکھی تو خود ہی تسلی دیتے ہوئے کہنے لگا، ’چلو گوئی بات نہیں، جیل بھی زمیندار کا زیور ہوتی ہے۔ فکر نہ کرو، ضمانت دائر ہو جائے گی اور ایک دو روز بعد جیل سے نکل آؤ گے‘۔ یہ سن کر یوسف اور دارا کے دلوں سے ایک بڑا بوجھ اتر گیا۔
چار روز کے بعد یوسف اور دارا کی ضمانت ہو گئی اور انہیں جیل سے رہا کر دیا گیا۔ جیل کے باہر یوسف کا بھائی انہیں لینے آیا تھا۔ وہ تینوں سڑک کے کنارے چل رہے تھے۔ باقی زندگی لوگوں کو کہانی سنانے کیلئے یوسف کی زندگی میں بڑا واقعہ رونما ہو چکا تھا۔ دارا مسلم شیخ دونوں بھائیوں کے پیچھے پیچھے چلتے غالباً یہ سوچ رہا تھا کہ ’ان کے جرم بھی ان کے اپنے نہیں ہوتے۔‘