اختر شیرانی- جنہیں اردو رومانوی شاعری کاسب سے بڑا شاعر تسلیم کیا جاتا ہے از پروفیسر مظہر محمود شیرانی
درمیانہ قد‘ وجیہہ چہرہ ‘ کسرتی جسم پر پاجامہ‘ قمیص اور شیروانی‘ پاﺅں میں گرگابی….یہ تھے ہمارے والد اختر شیرانی‘ جنہیں ہم پنجابی محاورے کے مطابق ”بھاہ جی“ کہا کرتے تھے۔ شعرو ادب کے حلقوں میں وہ ”شاعر رومان“،”ابوالمعانی“ ، ”ادیب الملک“ اور اس قسم کے دوسرے القاب سے یاد کیے جاتے تھے مگر ہمارے لیے تو وہ بس ”بھاہ جی“ تھے۔ 1905ءمیں جب وہ پیدا ہوئے تو ان کے والد حافظ محمود شیرانی بیرسٹری کی تعلیم کے سلسلے میں لندن جا چکے تھے۔ دادا نے داﺅد خان نام رکھا۔ حافظ صاحب کی ان کے سوا کوئی اولاد منزل شباب کو نہ پہنچی۔
ٹونک علوم و فنون کا گہوارا تھا۔ ہند اسلامی تہذیب نے دہلی مرحوم سے نکل کر جن مقامات پر بسیرا کیا ان میں (لکھنو کے بعد) حیدر آباد (دکن)‘ ٹونک‘ بھوپال اور رام پاور کے نام نمایاں ہیں۔ اسی علمی فضا نے حکیم سید برکات احمد‘ مفتی عبداللہ ٹونکی اور خود حافظ محمود شیرانی جیسی شخصیتوں کو جنم دیا۔
حافظ صاحب بیٹے کو جامع علوم بنانا چاہتے تھے۔ بچپن ہی سے متعدد اساتذہ تعلیم و تادیب پر مقرر کیے تھے۔ ان میں مولوی صاحب علی شاکر کا نام اس لیے قابل ذکر ہے کہ اختر صاحب کو زلف سخن سنوارنے کا لپکا انہی سے پڑا۔ ذہنی تعلیم کے علاوہ ورزش کرانے کے لیے قیوم خاں پہلوان تعینات تھے۔ لڑکپن کی عمر کو پہنچے تو باپ نے اوریئنٹل کالج میں داخل کرادیا جہاں سے فارسی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ بعد ازاں سنٹرل ماڈل سکول لاہور میں داخلہ لیا لیکن طبیعت کا شاعرانہ پن رنگ لایا اور تعلیم ادھوری چھوڑ کر مسلک شعر و ادب اختیار کرلیا۔ حافظ صاحب جز بز ہوئے مگر یہ نشہ ترشی سے اُترنے والا نہ تھا۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ حافظ صاحب کو ان کے تعلیم نہ مکمل کرنے کا ملال عمر بھر رہا۔ اس کا اظہار اس وقت ہوا جب والد کی پہلی قابل ذکر نظم ”جوگن“ شاعر ہوئی اور مولوی عبدالحق صاحب نے حافظ صاحب کو مبارکباد کا خط لکھا حافظ صاحب خط پڑھ کر بڑے جھلائے اور بظاہر اپنی اہلیہ مگر حقیقت میں اپنے آپ سے مخاطب ہوکر کہا‘ ”ہونہہ! سسرا شاعری کرنے چلا ہے!“۔
مگر غضب اس وقت ہوا جب حافظ صاحب کو ان کی مے نوشی کی خبر ہوئی اور اتنی تاخیر سے جب یہ عادت راسخ ہو چکی تھی۔ اللہ دے اور بندہ لے‘ گھر میں بھونچال سا آگیا۔ بیک بینی و دو گوش گھر سے نکال دیے گئے۔ ہم لوگ حافظ صاحب کے ساتھ فلیمنگ روڈ والے مکان میں رہتے تھے۔ میری عمر چار پانچ سال کی ہوگی۔ اختر صاحب اپنے رسالے کے دفتر میں اُٹھ گئے۔ ٹوہ لگائے رکھتے کہ بابا کب پرانی کتابوں اور سکوں کی تلاش میں لاہور سے باہر جاتے ہیں۔ حافظ صاحب لاہور سے نکلے اور انہیں گھر آنے کی چھٹی ملی۔ ہم بہن بھائیوں کے لیے مٹھائی اور کھلونے لاتے۔ حافظ صاحب واپس آتے تو ہم کھلونے چھپا دیتے اور ان کے کالج جانے پر ہی نکالتے۔ ہمیں سمجھا دیا گیا تھا کہ اگر بابا پوچھیں کہ یہ کھلونے کہاں سے آئے ہیں تو ”بھاہ جی“ کا نام نہ لینا۔ ایک دن بابا کالج سے آکر دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے اور میں ایک نئی چابی والی موٹر سائیکل جس سے شعلہ نکلتا تھا‘ دلان میں چلا رہا تھا۔ بابا نے کنکھیوں سے دیکھ کر پوچھا‘ ”بیٹا یہ کون لایا تھا؟“ اور میں نے بڑی معصومیت سے کہا‘ ”جب ہم امرتسر پھوپھی کے ہاں گئے تھے تو وہاں سے لائے تھے۔“ انہوں نے بڑے استعجاب سے کہا، ”اچھا“۔ آج میں سوچتا ہوں کہ اس اچھا میں کتنا تجاہل عارفانہ تھا۔
جب بابا ملازمت سے ریٹائر ہوکر ٹونک جانے لگے تو اختر صاحب بڑے گھبرائے۔ بابا کے قریبی دوستوں سے سفارش کرائی۔ بابا بمشکل اس پر آمادہ ہونے کہ ”چلا چلے مگر میری نظروں کے سامنے نہ آئے“۔ دونوں باپ بیٹوں نے یہ معاہدہ مرتے دم تک نبھایا۔ نہ باپ نے کبھی بلایا نہ بیٹے نے جرات کی۔ آبائی حویلی کی اُوپر کی منزل میں باپ اور نیچے بیٹا۔ کبھی کبھی حافظ صاحب کوئی علمی مسئلہ چھان بین کے لیے کاغذ کے پرزے پر لکھ کر نیچے بھیج دیتے۔ اختر صاحب اپنا سب کام چھوڑ چھاڑ کر اس پر توجہ دیتے اور مطلوبہ معلومات مہیا کرکے اوپر بھجوا دیتے۔ ایسے موقعوں پر سفارتی فرائض میں انجام دیتا تھا۔ ٹونک پہنچنے کے ایک عرصے بعد حافظ صاحب کے ضیق النفس کے مرض میں شدت پیدا ہوگئی اور انہوں نے شہر سے دور دریائے بناس کے کنارے اپنی زرعی زمین پر ڈیرہ جمالیا۔
ٹونک میں میں نے ”بھاہ جی“ کو قریب سے دیکھا۔ وہ ہم بہن بھائیوں سے بے انتہا پیار کرتے تھے۔ مجھے یاد نہیں کہ انہوں نے مجھے کبھی مارا یا جھڑکا ہو۔ کھانے پہننے کا شوق انہیں نہ تھا۔ ان کی ضروریات شراب کے علاوہ سگریٹ اور پان تک محدود تھیں۔ ان کاپینے کا ڈھنگ ہی نرالا تھا۔ دو تین دن وہ شراب پانی کی طرح پیتے تھے اور اس میں صافی ودردی کی قید نہ تھی۔ تیسرے یا چوتھے دن اس کثرتِ مے نوشی کا عمل شروع ہوتا تھا۔ معدہ مزید شراب قبول کرنے سے اِنکار کردیتا۔ اُلٹیاں آنے لگتیں۔ دو تین دن تک اس بیماری میں مبتلا رہنے کے بعد ٹھیک ہوجاتے۔ اب دس پندرہ روز کے لیے شراب حرام ٹھہرتی۔ پائیں باغ کے سامنے ان کا کمرہ تھا۔ پلنگ پر پاﺅں لٹکا کر بیٹھے آگے میز رکھے لکھنے پڑھنے میں مصروف رہتے گھر سے باہر جانا تو دور کی بات ہے ملاقات کے لیے آنے والوں کو ان کی شکل تک دیکھنا میسر نہ تھی۔ ان دنوں میں مجھے خاص ہدایت تھی کہ جو بھی آئے کہہ دو کہ گھر پہ نہیں ہیں۔ ہفتہ عشرہ اس پر سکون طریقے سے گزارنے کے بعد ایک شام وہ چپکے سے گھر سے نکل جاتے۔ واپس آتے تو نشہ میں دھت۔ ڈیوڑھی کے باہر میدان میں مجلس جم جاتی۔ شعر و ادب کا ذوق رکھنے والوں کے علاوہ رنگ رنگ کے لوگ جمع ہوجاتے۔ ان میں رندو زاہد اور عالم و عامی کی قید نہ تھی۔ مونڈھوں‘ کرسیوں‘ چارپائیوں پر بھانت بھانت کا آدمی بیٹھا ہے اور اختر صاحب ہزار داستان بنے ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ ان محفلوں میں وہ اپنا کلام تو کجا ایک شعر تک سنانے کے روادار نہ تھے۔ دنیا بھر کے موضوعات پر باتیں ہورہی ہیں۔ قاری جمیل صاحب بڑے خوش الحان تھے۔ اگر بیٹھے ہوتے تو ان سے سورة یٰسین سنانے کی فرمائش کردیتے۔ اب قاری صاحب تلاوت کررہے ہیں اور اختر صاحب کی آنکھوں سے آنسوﺅں کی جھڑی لگی ہوئی ہے۔ یہ اس محفل کا آخری آئٹم ہوتا تھا۔ کیونکہ قاری صاحب عموماً عشا کی نماز کے بعد ہی تشریف لاتے تھے۔
جیسا کہ میں اوپر کہہ چکا ہوں ان محفلوں میں اختر صاحب اپنا کلام کبھی نہیں سناتے تھے۔ نہ ہی کوئی شخص ان کے ساتھ پینے پلانے کا تصور کرسکتا تھا۔ ان کا اپنا یہ حال تھا کہ کلال کے ہاں سے پی آئے اور ایک بوتل شیروانی کی جیب میں چھپا لائے۔ ڈیوڑھی کے بھاری بھرکم دروازے کے ایک پٹ کی آڑ میں یہ بوتل رکھ دیتے۔ وقفے وقفے سے اٹھ کر دروازے کے پیچھے جاتے اور گھونٹ لے لیتے۔ اس غرض سے اُٹھنے سے پہلے مجمع پر نظر ڈال کر‘ ”میں ابھی حاضر ہوا“ کہا‘ اگر میں نظر میں پڑ گیا تو کسی بہانے مجھے گھر کے اندر بھیج دیتے۔ میں سمجھ جاتا اور وہاں سے کھسک جاتا۔ انہیں اس بات کا بہت خیال رہتا تھا میرے بچوں کو کہیں مجھ سے نفرت نہ ہوجائے۔ اصل میں ان کی یہ محفلیں مے نوشی اور شعر فروشی کی مجلسیں نہ تھیں۔ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں‘ ان کی شخصیت میں ایک مقناطیسی کشش تھی اور یہ کشش عبارت تھی علم و فن‘ آداب و اخلاق‘ شرم و حیا اور سب سے بڑھ کر دوسروں سے ہمدردی کرنے اور ان کے چھوٹے چھوٹے غم بانٹ لینے سے۔ رات دس گیارہ بجے یہ محفل برخاست ہوتی۔ وہ اُٹھ کر اندر آتے اور چند لقمے کھا کر سورہتے۔
ان کی آمدنی محدود تھی اور اخراجات بھی۔ کھانا گھر سے مل جاتا تھا۔ اپنے لیے کپڑا انہوں نے شاید ہی کبھی خریدا ہو۔ ان کے کپڑے تیار کروانا ان کی والدہ کی ذمہ داری تھی۔ جیب خالی ہونے کی صورت میں (اور یہ اکثر ہوتا تھا) سگریٹوں تک کی فرمائش انہی سے کی جاتی تھی۔ ہاں نقد پیسے وہ اس ڈر سے کبھی نہ دیتی تھیں کہ شراب پر صرف ہوں گے۔ ماں آخر ماں ہوتی ہے۔ ایک بار بیٹے کے لیے کرتے سلوائے اور پہناتے وقت بڑے چاﺅ سے اپنی طلائی گھنڈیاں جن میں زنجیریں پڑی ہوتی تھیں لگادیں۔ وہ باہر نکلے۔ کسی ضرورت مند نے سوال کیا۔ انہوں نے زنجیریں نوچ کر اس کو بخش دیں۔ نتیجہ یہ کہ گھنڈیاں بحق سرکار ضبط ہوگئیں اور سیپ کے بٹن ٹنکوادیے گئے۔
اصل میں وہ کسی کو دکھ یا تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔ جب کبھی کسی ادبی رسالے یا ریڈیو اسٹیشن سے روپیہ آتا تو اس کا ایک حصہ شراب اور سگریٹ پر صرف ہوتا اور باقی سائلوں کے کام آتا۔ مے خانے سے گھر تک راستے ہی میں پیسے ختم ہوجاتے۔ واپسی پر اگر اتفاق سے شیروانی اُتار کر کھونٹی پر تانکی اور خود باہر جا بیٹھے تو بڑے اشتیاق اور تجسس سے ہم لوگ تلاشی لیتے تھے۔ منی آرڈر فارم کا پرزہ تو اکثر نکلتا تھا۔ باقی مال گاﺅ خورد۔ ہاں دو چارے آنے ریز گاری کی قسم نہیں۔
خرابی اس وقت ہوتی جب ان کی جیب خالی ہوتی اور کوئی سوال کر بیٹھتا۔ ایک بار حسب معمول دادی جان نے ان کے لیے بوسکی کی دو قمیضیں سلوائیں۔ پہلے ہی دن قمیض پہن کر باہر گئے۔ کسی شخص نے اپنی بوسیدہ قمیض دکھا کر کچھ پیسے طلب کیے۔ ان کی جیب خالی تھی۔ چنانچہ نئی قمیض اُتار کر اسے دے دی اور بنیان پر شیروانی پہنے گھر آگئے۔ دادی جان نے آڑے ہاتھوں لیا کہ قمیض میں نے بنائی تھی تم دے ڈالنے والے کون تھے۔ بیٹے نے معصومیت سے کہا۔ امی اس آدمی کی قمیض تار تار تھی۔ جب اس نے سوال کیا تو میں انکار نہ کرسکا اور دادی جان کا آخری فقرہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بیٹا! کسی دن پاجامہ اُتار کر نہ دے آنا۔
پاجامے کی نوبت تو خیر نہ آئی مگر ایک موقع پر تھوڑی سی کسر رہ گئی جب وہ سلیپر پہن کر نکلے۔ کسی شخص نے جو ننگے پاﺅں تھا امداد کی التجا کی۔ اس کو ساتھ لگا لائے۔ ڈیوڑھی میں پہنچ کر سلیپر اس کے حوالے کے اور آپ گھر میں داخل ہوگئے۔
45ءمیں جب ان کی صحت تیزی سے گرنے لگی تو انہوں نے اپنے سونے چاندی کے مسکوکات کا گراں بہا مجموعہ اونے پونے فروخت کردیا اور اس طرح حاصل ہونے والی رقم یونیورسٹی لائبریری سے ملنے والی رقم میں ملا کر بینک میں ہمارے نام جمع کرادی۔
حویلی کی وسیع عمارت اور کھلے صحن میں ہم بہن بھائی ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہوئے مرغیوں کے چوزے نکلواتے۔جب یہ چوزے ذرا بڑے ہوجاتے تو ان کا مالک ”بھاہ جی“ سے سودا کرتا۔ ظاہر ہے کہ یہ سودا اُدھار کی بنیاد پر چکتا تھا اور کھانے میں سب ہی شریک ہوتے تھے۔ اب منی آرڈر کا انتظار شروع ہوا اور رقم میں سود در سود کا اضافہ بھی جو یک طرفہ ہوا کرتا تھا۔ پیسوں میں اس اضافے کی اطلاع انہیں وقتاًفوقتاً کردی جاتی تھی۔ ”ابے! سود کھاتا ہے؟“
”جی! آپ سے سود نہ لیں گے تو اور کس سے لیں گے؟“
”اچھا یہ بات ہے! آئندہ تمہاری مرغیاں خریدنا بند“۔
”جی پہلے پچھلا حساب بے باق کردیں اس کے بعد کوئی فیصلہ کریں۔“ اس نوک جھونک کے بعد ہم بچے روایتی سود خوروں کی طرح انہیں مزید مرغیاں خریدنے پر آمادہ کرلیتے تھے۔
اکثر و بیشتر وہ منی آڈر ڈاک خانے جا کر وصول کر لیا کرتے تھے۔ہاں اگر پوسٹ مین گھر لے آیا تو ہمارے پوبارہ۔ اپنا مطالبہ وصول کرکے انہیں باہر نکلنے دیتے تھے۔
حافظ صاحب کا انتقال 1946ءمیں ہوا۔ کیا وضعدار اور اصول پرست آدمی تھے۔ بیٹے کو مرض الموت میں بھی قریب نہیں پھٹکنے دیا۔
اختر صاحب کو بے انتہا صدمہ ہوا۔ خاندان کی سربراہی کا بوجھ ان کے سر پر آن پڑا۔ اس قسم کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونا ان کے بس کی بات نہ تھی۔ نتیجتاً یہ کہ شراب نوشی میں تسلسل اور کثرت پیدا ہوگئی۔ بہکنے اور بنکارنے لگے۔ پائیں باغ اور حویلی میں موہوم ہیولوں کے پیچھے بھاگتے رہتے۔ گھر کے ماحول میں ایسا ہراس پیدا ہوگیا کہ آج بھی تصور کرتا ہوں تو دم گھٹنے لگتا ہے۔ ادھر ملک کا سیاسی مطلع ابر آلود بلکہ خون آلود تھا۔ غرض 1946ءاور1947ءکے دو سال ہم پر بڑے شاق گزرے۔ پاکستان بنا تو اختر صاحب نے اپنی قوت ارادی کو مجتمع کیا۔ پروگرام یہ بنا کہ وہ لاہور جائیں گے اور وہاں مکان کا انتظام کرکے ہم لوگوں کو بلوا لیں گے۔ فسادات کے باعث وہ غالباً 1948ءکے اوائل میں لاہور پہنچ سکے۔ اپنے جگری دوست حکیم نیر واسطی صاحب مدظلّہ کے ہاں قیام کیا۔
کئی ماہ گزر گئے اور ہنوز روز اول کا نقشہ رہا۔ اصل میں وہ میدان عمل کے آدمی نہ تھے۔ فسادات کی کثرت اور گھر والوں سے جدائی نے ان کے رہے سہے قویٰ بھی سلب کر لیے تھے۔ ان کی اس مایوسی کا آئینہ دار ان کا سائیٹ ”مہاجرہ“ ہے۔
ان کی ہدایت کے مطابق ہم لوگ بعض اعزہ کی معیت میں ٹونک سے چل کر 1948ءکے وسط میں کھوکھر اپار کے راستے لاڑکانہ پہنچے۔ ابھی سنبھلنے ہی نہ پائے تھے کہ لاہور سے ان کی شدید علالت کا تار ملا۔ میں‘ چھوٹے بھائی‘ والدہ اور دادی جان کے ساتھ ایک شام کو لاہور پہنچا تو ان کا انتقال ہوچکا تھا اور لاش ہم لوگوں کے انتظار میں سرد خانے میں رکھی تھی۔ اگلی صبح جب ان کا تابوت حکیم صاحب کے ہاں لایا اور منہ دیکھنے کے لیے رکھا گیا تو میں سب کے کہنے کے باوجود ان کے چہرے پر نظر نہ ڈال سکا۔ جس کی شعوری توجیہہ میں آج تک نہیں کرپایا۔
ٹونک علوم و فنون کا گہوارا تھا۔ ہند اسلامی تہذیب نے دہلی مرحوم سے نکل کر جن مقامات پر بسیرا کیا ان میں (لکھنو کے بعد) حیدر آباد (دکن)‘ ٹونک‘ بھوپال اور رام پاور کے نام نمایاں ہیں۔ اسی علمی فضا نے حکیم سید برکات احمد‘ مفتی عبداللہ ٹونکی اور خود حافظ محمود شیرانی جیسی شخصیتوں کو جنم دیا۔
حافظ صاحب بیٹے کو جامع علوم بنانا چاہتے تھے۔ بچپن ہی سے متعدد اساتذہ تعلیم و تادیب پر مقرر کیے تھے۔ ان میں مولوی صاحب علی شاکر کا نام اس لیے قابل ذکر ہے کہ اختر صاحب کو زلف سخن سنوارنے کا لپکا انہی سے پڑا۔ ذہنی تعلیم کے علاوہ ورزش کرانے کے لیے قیوم خاں پہلوان تعینات تھے۔ لڑکپن کی عمر کو پہنچے تو باپ نے اوریئنٹل کالج میں داخل کرادیا جہاں سے فارسی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ بعد ازاں سنٹرل ماڈل سکول لاہور میں داخلہ لیا لیکن طبیعت کا شاعرانہ پن رنگ لایا اور تعلیم ادھوری چھوڑ کر مسلک شعر و ادب اختیار کرلیا۔ حافظ صاحب جز بز ہوئے مگر یہ نشہ ترشی سے اُترنے والا نہ تھا۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ حافظ صاحب کو ان کے تعلیم نہ مکمل کرنے کا ملال عمر بھر رہا۔ اس کا اظہار اس وقت ہوا جب والد کی پہلی قابل ذکر نظم ”جوگن“ شاعر ہوئی اور مولوی عبدالحق صاحب نے حافظ صاحب کو مبارکباد کا خط لکھا حافظ صاحب خط پڑھ کر بڑے جھلائے اور بظاہر اپنی اہلیہ مگر حقیقت میں اپنے آپ سے مخاطب ہوکر کہا‘ ”ہونہہ! سسرا شاعری کرنے چلا ہے!“۔
مگر غضب اس وقت ہوا جب حافظ صاحب کو ان کی مے نوشی کی خبر ہوئی اور اتنی تاخیر سے جب یہ عادت راسخ ہو چکی تھی۔ اللہ دے اور بندہ لے‘ گھر میں بھونچال سا آگیا۔ بیک بینی و دو گوش گھر سے نکال دیے گئے۔ ہم لوگ حافظ صاحب کے ساتھ فلیمنگ روڈ والے مکان میں رہتے تھے۔ میری عمر چار پانچ سال کی ہوگی۔ اختر صاحب اپنے رسالے کے دفتر میں اُٹھ گئے۔ ٹوہ لگائے رکھتے کہ بابا کب پرانی کتابوں اور سکوں کی تلاش میں لاہور سے باہر جاتے ہیں۔ حافظ صاحب لاہور سے نکلے اور انہیں گھر آنے کی چھٹی ملی۔ ہم بہن بھائیوں کے لیے مٹھائی اور کھلونے لاتے۔ حافظ صاحب واپس آتے تو ہم کھلونے چھپا دیتے اور ان کے کالج جانے پر ہی نکالتے۔ ہمیں سمجھا دیا گیا تھا کہ اگر بابا پوچھیں کہ یہ کھلونے کہاں سے آئے ہیں تو ”بھاہ جی“ کا نام نہ لینا۔ ایک دن بابا کالج سے آکر دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے اور میں ایک نئی چابی والی موٹر سائیکل جس سے شعلہ نکلتا تھا‘ دلان میں چلا رہا تھا۔ بابا نے کنکھیوں سے دیکھ کر پوچھا‘ ”بیٹا یہ کون لایا تھا؟“ اور میں نے بڑی معصومیت سے کہا‘ ”جب ہم امرتسر پھوپھی کے ہاں گئے تھے تو وہاں سے لائے تھے۔“ انہوں نے بڑے استعجاب سے کہا، ”اچھا“۔ آج میں سوچتا ہوں کہ اس اچھا میں کتنا تجاہل عارفانہ تھا۔
جب بابا ملازمت سے ریٹائر ہوکر ٹونک جانے لگے تو اختر صاحب بڑے گھبرائے۔ بابا کے قریبی دوستوں سے سفارش کرائی۔ بابا بمشکل اس پر آمادہ ہونے کہ ”چلا چلے مگر میری نظروں کے سامنے نہ آئے“۔ دونوں باپ بیٹوں نے یہ معاہدہ مرتے دم تک نبھایا۔ نہ باپ نے کبھی بلایا نہ بیٹے نے جرات کی۔ آبائی حویلی کی اُوپر کی منزل میں باپ اور نیچے بیٹا۔ کبھی کبھی حافظ صاحب کوئی علمی مسئلہ چھان بین کے لیے کاغذ کے پرزے پر لکھ کر نیچے بھیج دیتے۔ اختر صاحب اپنا سب کام چھوڑ چھاڑ کر اس پر توجہ دیتے اور مطلوبہ معلومات مہیا کرکے اوپر بھجوا دیتے۔ ایسے موقعوں پر سفارتی فرائض میں انجام دیتا تھا۔ ٹونک پہنچنے کے ایک عرصے بعد حافظ صاحب کے ضیق النفس کے مرض میں شدت پیدا ہوگئی اور انہوں نے شہر سے دور دریائے بناس کے کنارے اپنی زرعی زمین پر ڈیرہ جمالیا۔
ٹونک میں میں نے ”بھاہ جی“ کو قریب سے دیکھا۔ وہ ہم بہن بھائیوں سے بے انتہا پیار کرتے تھے۔ مجھے یاد نہیں کہ انہوں نے مجھے کبھی مارا یا جھڑکا ہو۔ کھانے پہننے کا شوق انہیں نہ تھا۔ ان کی ضروریات شراب کے علاوہ سگریٹ اور پان تک محدود تھیں۔ ان کاپینے کا ڈھنگ ہی نرالا تھا۔ دو تین دن وہ شراب پانی کی طرح پیتے تھے اور اس میں صافی ودردی کی قید نہ تھی۔ تیسرے یا چوتھے دن اس کثرتِ مے نوشی کا عمل شروع ہوتا تھا۔ معدہ مزید شراب قبول کرنے سے اِنکار کردیتا۔ اُلٹیاں آنے لگتیں۔ دو تین دن تک اس بیماری میں مبتلا رہنے کے بعد ٹھیک ہوجاتے۔ اب دس پندرہ روز کے لیے شراب حرام ٹھہرتی۔ پائیں باغ کے سامنے ان کا کمرہ تھا۔ پلنگ پر پاﺅں لٹکا کر بیٹھے آگے میز رکھے لکھنے پڑھنے میں مصروف رہتے گھر سے باہر جانا تو دور کی بات ہے ملاقات کے لیے آنے والوں کو ان کی شکل تک دیکھنا میسر نہ تھی۔ ان دنوں میں مجھے خاص ہدایت تھی کہ جو بھی آئے کہہ دو کہ گھر پہ نہیں ہیں۔ ہفتہ عشرہ اس پر سکون طریقے سے گزارنے کے بعد ایک شام وہ چپکے سے گھر سے نکل جاتے۔ واپس آتے تو نشہ میں دھت۔ ڈیوڑھی کے باہر میدان میں مجلس جم جاتی۔ شعر و ادب کا ذوق رکھنے والوں کے علاوہ رنگ رنگ کے لوگ جمع ہوجاتے۔ ان میں رندو زاہد اور عالم و عامی کی قید نہ تھی۔ مونڈھوں‘ کرسیوں‘ چارپائیوں پر بھانت بھانت کا آدمی بیٹھا ہے اور اختر صاحب ہزار داستان بنے ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ ان محفلوں میں وہ اپنا کلام تو کجا ایک شعر تک سنانے کے روادار نہ تھے۔ دنیا بھر کے موضوعات پر باتیں ہورہی ہیں۔ قاری جمیل صاحب بڑے خوش الحان تھے۔ اگر بیٹھے ہوتے تو ان سے سورة یٰسین سنانے کی فرمائش کردیتے۔ اب قاری صاحب تلاوت کررہے ہیں اور اختر صاحب کی آنکھوں سے آنسوﺅں کی جھڑی لگی ہوئی ہے۔ یہ اس محفل کا آخری آئٹم ہوتا تھا۔ کیونکہ قاری صاحب عموماً عشا کی نماز کے بعد ہی تشریف لاتے تھے۔
جیسا کہ میں اوپر کہہ چکا ہوں ان محفلوں میں اختر صاحب اپنا کلام کبھی نہیں سناتے تھے۔ نہ ہی کوئی شخص ان کے ساتھ پینے پلانے کا تصور کرسکتا تھا۔ ان کا اپنا یہ حال تھا کہ کلال کے ہاں سے پی آئے اور ایک بوتل شیروانی کی جیب میں چھپا لائے۔ ڈیوڑھی کے بھاری بھرکم دروازے کے ایک پٹ کی آڑ میں یہ بوتل رکھ دیتے۔ وقفے وقفے سے اٹھ کر دروازے کے پیچھے جاتے اور گھونٹ لے لیتے۔ اس غرض سے اُٹھنے سے پہلے مجمع پر نظر ڈال کر‘ ”میں ابھی حاضر ہوا“ کہا‘ اگر میں نظر میں پڑ گیا تو کسی بہانے مجھے گھر کے اندر بھیج دیتے۔ میں سمجھ جاتا اور وہاں سے کھسک جاتا۔ انہیں اس بات کا بہت خیال رہتا تھا میرے بچوں کو کہیں مجھ سے نفرت نہ ہوجائے۔ اصل میں ان کی یہ محفلیں مے نوشی اور شعر فروشی کی مجلسیں نہ تھیں۔ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں‘ ان کی شخصیت میں ایک مقناطیسی کشش تھی اور یہ کشش عبارت تھی علم و فن‘ آداب و اخلاق‘ شرم و حیا اور سب سے بڑھ کر دوسروں سے ہمدردی کرنے اور ان کے چھوٹے چھوٹے غم بانٹ لینے سے۔ رات دس گیارہ بجے یہ محفل برخاست ہوتی۔ وہ اُٹھ کر اندر آتے اور چند لقمے کھا کر سورہتے۔
ان کی آمدنی محدود تھی اور اخراجات بھی۔ کھانا گھر سے مل جاتا تھا۔ اپنے لیے کپڑا انہوں نے شاید ہی کبھی خریدا ہو۔ ان کے کپڑے تیار کروانا ان کی والدہ کی ذمہ داری تھی۔ جیب خالی ہونے کی صورت میں (اور یہ اکثر ہوتا تھا) سگریٹوں تک کی فرمائش انہی سے کی جاتی تھی۔ ہاں نقد پیسے وہ اس ڈر سے کبھی نہ دیتی تھیں کہ شراب پر صرف ہوں گے۔ ماں آخر ماں ہوتی ہے۔ ایک بار بیٹے کے لیے کرتے سلوائے اور پہناتے وقت بڑے چاﺅ سے اپنی طلائی گھنڈیاں جن میں زنجیریں پڑی ہوتی تھیں لگادیں۔ وہ باہر نکلے۔ کسی ضرورت مند نے سوال کیا۔ انہوں نے زنجیریں نوچ کر اس کو بخش دیں۔ نتیجہ یہ کہ گھنڈیاں بحق سرکار ضبط ہوگئیں اور سیپ کے بٹن ٹنکوادیے گئے۔
اصل میں وہ کسی کو دکھ یا تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔ جب کبھی کسی ادبی رسالے یا ریڈیو اسٹیشن سے روپیہ آتا تو اس کا ایک حصہ شراب اور سگریٹ پر صرف ہوتا اور باقی سائلوں کے کام آتا۔ مے خانے سے گھر تک راستے ہی میں پیسے ختم ہوجاتے۔ واپسی پر اگر اتفاق سے شیروانی اُتار کر کھونٹی پر تانکی اور خود باہر جا بیٹھے تو بڑے اشتیاق اور تجسس سے ہم لوگ تلاشی لیتے تھے۔ منی آرڈر فارم کا پرزہ تو اکثر نکلتا تھا۔ باقی مال گاﺅ خورد۔ ہاں دو چارے آنے ریز گاری کی قسم نہیں۔
خرابی اس وقت ہوتی جب ان کی جیب خالی ہوتی اور کوئی سوال کر بیٹھتا۔ ایک بار حسب معمول دادی جان نے ان کے لیے بوسکی کی دو قمیضیں سلوائیں۔ پہلے ہی دن قمیض پہن کر باہر گئے۔ کسی شخص نے اپنی بوسیدہ قمیض دکھا کر کچھ پیسے طلب کیے۔ ان کی جیب خالی تھی۔ چنانچہ نئی قمیض اُتار کر اسے دے دی اور بنیان پر شیروانی پہنے گھر آگئے۔ دادی جان نے آڑے ہاتھوں لیا کہ قمیض میں نے بنائی تھی تم دے ڈالنے والے کون تھے۔ بیٹے نے معصومیت سے کہا۔ امی اس آدمی کی قمیض تار تار تھی۔ جب اس نے سوال کیا تو میں انکار نہ کرسکا اور دادی جان کا آخری فقرہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بیٹا! کسی دن پاجامہ اُتار کر نہ دے آنا۔
پاجامے کی نوبت تو خیر نہ آئی مگر ایک موقع پر تھوڑی سی کسر رہ گئی جب وہ سلیپر پہن کر نکلے۔ کسی شخص نے جو ننگے پاﺅں تھا امداد کی التجا کی۔ اس کو ساتھ لگا لائے۔ ڈیوڑھی میں پہنچ کر سلیپر اس کے حوالے کے اور آپ گھر میں داخل ہوگئے۔
45ءمیں جب ان کی صحت تیزی سے گرنے لگی تو انہوں نے اپنے سونے چاندی کے مسکوکات کا گراں بہا مجموعہ اونے پونے فروخت کردیا اور اس طرح حاصل ہونے والی رقم یونیورسٹی لائبریری سے ملنے والی رقم میں ملا کر بینک میں ہمارے نام جمع کرادی۔
حویلی کی وسیع عمارت اور کھلے صحن میں ہم بہن بھائی ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہوئے مرغیوں کے چوزے نکلواتے۔جب یہ چوزے ذرا بڑے ہوجاتے تو ان کا مالک ”بھاہ جی“ سے سودا کرتا۔ ظاہر ہے کہ یہ سودا اُدھار کی بنیاد پر چکتا تھا اور کھانے میں سب ہی شریک ہوتے تھے۔ اب منی آرڈر کا انتظار شروع ہوا اور رقم میں سود در سود کا اضافہ بھی جو یک طرفہ ہوا کرتا تھا۔ پیسوں میں اس اضافے کی اطلاع انہیں وقتاًفوقتاً کردی جاتی تھی۔ ”ابے! سود کھاتا ہے؟“
”جی! آپ سے سود نہ لیں گے تو اور کس سے لیں گے؟“
”اچھا یہ بات ہے! آئندہ تمہاری مرغیاں خریدنا بند“۔
”جی پہلے پچھلا حساب بے باق کردیں اس کے بعد کوئی فیصلہ کریں۔“ اس نوک جھونک کے بعد ہم بچے روایتی سود خوروں کی طرح انہیں مزید مرغیاں خریدنے پر آمادہ کرلیتے تھے۔
اکثر و بیشتر وہ منی آڈر ڈاک خانے جا کر وصول کر لیا کرتے تھے۔ہاں اگر پوسٹ مین گھر لے آیا تو ہمارے پوبارہ۔ اپنا مطالبہ وصول کرکے انہیں باہر نکلنے دیتے تھے۔
حافظ صاحب کا انتقال 1946ءمیں ہوا۔ کیا وضعدار اور اصول پرست آدمی تھے۔ بیٹے کو مرض الموت میں بھی قریب نہیں پھٹکنے دیا۔
اختر صاحب کو بے انتہا صدمہ ہوا۔ خاندان کی سربراہی کا بوجھ ان کے سر پر آن پڑا۔ اس قسم کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونا ان کے بس کی بات نہ تھی۔ نتیجتاً یہ کہ شراب نوشی میں تسلسل اور کثرت پیدا ہوگئی۔ بہکنے اور بنکارنے لگے۔ پائیں باغ اور حویلی میں موہوم ہیولوں کے پیچھے بھاگتے رہتے۔ گھر کے ماحول میں ایسا ہراس پیدا ہوگیا کہ آج بھی تصور کرتا ہوں تو دم گھٹنے لگتا ہے۔ ادھر ملک کا سیاسی مطلع ابر آلود بلکہ خون آلود تھا۔ غرض 1946ءاور1947ءکے دو سال ہم پر بڑے شاق گزرے۔ پاکستان بنا تو اختر صاحب نے اپنی قوت ارادی کو مجتمع کیا۔ پروگرام یہ بنا کہ وہ لاہور جائیں گے اور وہاں مکان کا انتظام کرکے ہم لوگوں کو بلوا لیں گے۔ فسادات کے باعث وہ غالباً 1948ءکے اوائل میں لاہور پہنچ سکے۔ اپنے جگری دوست حکیم نیر واسطی صاحب مدظلّہ کے ہاں قیام کیا۔
کئی ماہ گزر گئے اور ہنوز روز اول کا نقشہ رہا۔ اصل میں وہ میدان عمل کے آدمی نہ تھے۔ فسادات کی کثرت اور گھر والوں سے جدائی نے ان کے رہے سہے قویٰ بھی سلب کر لیے تھے۔ ان کی اس مایوسی کا آئینہ دار ان کا سائیٹ ”مہاجرہ“ ہے۔
ان کی ہدایت کے مطابق ہم لوگ بعض اعزہ کی معیت میں ٹونک سے چل کر 1948ءکے وسط میں کھوکھر اپار کے راستے لاڑکانہ پہنچے۔ ابھی سنبھلنے ہی نہ پائے تھے کہ لاہور سے ان کی شدید علالت کا تار ملا۔ میں‘ چھوٹے بھائی‘ والدہ اور دادی جان کے ساتھ ایک شام کو لاہور پہنچا تو ان کا انتقال ہوچکا تھا اور لاش ہم لوگوں کے انتظار میں سرد خانے میں رکھی تھی۔ اگلی صبح جب ان کا تابوت حکیم صاحب کے ہاں لایا اور منہ دیکھنے کے لیے رکھا گیا تو میں سب کے کہنے کے باوجود ان کے چہرے پر نظر نہ ڈال سکا۔ جس کی شعوری توجیہہ میں آج تک نہیں کرپایا۔