اختر شیرانی از سعادت حسن منٹو
ان دنوں جیجے کے ہوٹل میں ایک شاعر اختر شیرانی کا بہت چرچا تھا۔ قریب قریب ہر محفل میں اس کے اشعار پڑھے یا گائے جاتے تھے۔ جیجا ( عزیز) عام طور پر ”میں اپنے عشق میں سب کچھ تباہ کرلوں گا “ ( بہت ممکن ہے یہ مصرع غلط ہو ) گایا کرتا تھا۔ یہ نئے قسم کا جذبہ سب کے ذہن پر مسلط ہو گیا تھا۔ معشوق کو جو دھمکی دی گئی تھی سب کو بہت پسند آئی تھی۔
جیجا توا ختر شیرانی کا دیوانہ تھا۔ کاﺅنٹر کے پاس کھڑا گاہک سے بل وصول کررہا ہے اور گنگنا رہا ہے۔ ”اے عشق کہیں لے چل “ مسافروں کو کمرے دکھا رہا ہے اور زیر لب گا رہا ہے۔ ”کیا بگڑ جائے گا رہ جاﺅ یہیں رات کی رات “ عاشق فوٹوگرافرکی آواز گو بہت پتلی تھی لیکن وہ ”اے عشق کہیں لے چل “ بڑے سوز سے گایا کرتا تھا۔ میں نے جب بھی اس کے منہ سے یہ نظم سنی مجھ پر بہت اثر ہوا۔
جیجے کے ہوٹل میں کچھ عرصے کے بعد باری صاحب اور چشتی صاحب کا آنا جانا بھی شروع ہو گیا۔ دونوں کھانا کھاتے یا چائے پیتے اور چلے جاتے مگر جبجیجے کو معلوم ہوا کہ وہ اخباری آدمی ہیں تو فوراً ان سے بے تکلف مراسم پیدا کرلیے۔
باری صاحب اختر شیرانی کے کلام سے واقف تھے لیکن ذاتی طور پر شاعر کو نہ جانتے تھے۔ چشتی صاحب ایک مدت کے بعد بغداد اور مصر وغیرہ کی سیاحت کے بعد تازہ تازہ واپس آئے تھے۔ اس لیے وہ یہاں کے شعراکے متعلق کچھ نہیں جانتے تھے۔ پھر بھی جب انہوں نے جیجے سے اختر شیرانی کا کلام سنا تو بہت متاثر ہوئے۔
اختر شیرانی کی شاعری ہلکی پھلکی اور رومانی تھی۔ میں اب غور کرتا ہوں تو اختر شیرانی مجھے کالج کے لڑکوں کا شاعر معلوم ہوتا ہے۔ ایک خاص عمر کے نوجوان کا شاعر ، جن کے دل ودماغ پر ہر وقت رومان کی مکڑی مہین مہین جالے تنتی رہتی ہے۔ مجھے اس وادی میں قدم رکھے زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ ایک دوست سے معلوم ہوا، اختر شیرانی آئے ہوئے ہیں اور شیراز ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ اسی وقت وہاں پہنچا مگر معلوم ہوا کہ وہ جیجے کے ساتھ کہیں باہرگئے ہوئے ہیں۔ دیر تک ہوٹل میں بیٹھا انتظار کرتا رہا۔ مگر یہ لوگ واپس نہ آئے۔
شام کو پہنچا تو ہوٹل کے سندھی باورچی نے کہا کہ سب اوپر کوٹھے پر بیٹھے ہیں۔ دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ میں اوپر گیا۔ چھڑکاﺅ کرکے چارپائیاں بچھائی گئی تھیں۔ کچھ کرسیاں بھی تھیں۔ دیسی شراب کا دور چل رہا تھا۔ دس بارہ آدمی بیٹھے تھے جو میرے جانے پہچانے تھے۔ صرف ایک صورت اجنبی تھی اور وہ اختر شیرانی کی تھی۔ سپاٹ پیشانی، موٹی ناک، موٹے ہونٹ، گہرا سانولا رنگ ،چھدرے بال، آنکھیں بڑی بڑی اور پر کشش، ان میں تھوڑی سی اداسی بھی تھی۔ بڑی شستہ ورفتہ اردو میں حاضرین سے گفتگو کررہے تھے۔
میں پاس پہنچاتو بالے نے ان سے میرا تعارف کرایا۔ بڑی خندہ پیشانی سے پیش آئے اور مجھ سے بیٹھنے کے لیے کہا۔ میں چارپائی کے پاس کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس کے بعد اختر صاحبجیجے سے مخاطب ہوئے۔ ”عزیز ( میری طرف اشارہ کرکے ) ان کے لیے گلاس منگواﺅ۔ “
گلاس آیا تو اختر صاحب نے مجھے ایک پیگ بنا کر دیا۔ جو میں نے شکریے کے ساتھ قبول کیا۔ دو تین دور ہوئے تو کسی نے اختر صاحب سے اپنا کلام سنانے کی فرمائش کی اس پر انہوں نے کہا۔ ”نہیں بھائی ، میں کچھ نہیں سناﺅں گا میں سنوں گا۔ “
پھر جیجےسے مخاطب ہو ئے۔ ”عزیز سناﺅ ….رسیلی انکھڑیوں سے نیند برساتے ہوئے آ “ یہ کہا اور ایک ٹھنڈا سانس لیا جیسے بیتے ہوئے لمحات یاد آگئے ہیں۔ جیجےکو انکار نہیں تھا۔ گلا صاف کیا اور اختر صاحب کی ایک مشہور غزل گانا شروع کردی۔ سرتال سب ٹھیک۔ مگر آواز پھٹی پھٹی سی تھی۔ پھر بھی رنگ جم گیا۔ اختر صاحب پیتے رہے اور جھومتے رہے۔
دوسرے روز دوپہر کے وقت میں شیراز ہوٹل بیٹھا اختر صاحب کا انتظار کررہا تھا ( وہ کسی دعوت پر گئے تھے) کہ ایک برقعہ پوش خاتون ٹانگے میں آئیں۔ آپ نے ایک دم سے اختر صاحب کے بارے میں پوچھا۔ اس نے کہا ، کہیں باہر تشریف لے گئے ہیں آپ اپنا نام بتا دیجئے۔ برقعہ پوش خاتون نے اپنا نام نہ بتایا اور چلی گئی۔
اختر صاحب آئے تو میں نے اس خاتون کی آمد کا ذکر کیا۔ آپ نے بڑی شاعرانہ دلچسپی سے ساری بات سنی اور مسکرادئیے۔ یوں وہ خاتون ایک اسرار سا بن گئی۔ کھانا کھانے سے پہلے شام کو جب ٹھرے کا دور شروع ہوا تو جیجے نے اس برقعہ پوش خاتون کے متعلق اختر صاحب سے پوچھا۔ ”حضرت وہ کون تھیں جو آج دوپہر تشریف لائی تھیں ؟“
اختر صاحب مسکرائے اور جواب گول کر گئے۔ بالے نے ان سے کہا۔ ”کہیں سلمیٰ صاحبہ تو نہیں تھیں ؟“
اختر صاحب نے ہولے سے بالے کے گال پر طمانچہ مارا اور صرف اتنا کہا ،” شریر“۔ بات اور بھی زیادہ پر اسرار ہو گئی جو آج تک صیغہ راز میں ہے۔ معلوم نہیں وہ برقعہ پوش خاتون کون تھیں۔ اس زمانے میں صرف اتنا معلوم ہوا تھا کہ اختر صاحب کے جانے کے بعد وہ ایک بار پھر شیراز ہوٹل آئی تھیں اور اختر صاحب کے بارے میں اس نے پوچھا کہ کہاں ہیں۔
سب باری باری اختر صاحب کی دعوت کرچکے تھے۔ وہیں شیراز ہوٹل میں دعوت دینے کا یہ طریقہ تھا کہ دن اور رات میں ٹھرے کی جتنی بوتلیں ختم ہوں ان کے دام ادا کردیے جائیں۔ میں نے یہ طریقہ بھونڈا سمجھا اور دو بوتلیں اسکاچ وہسکی کی لے کر ایک شام وہاں پہنچا۔ ایک بوتل پر سے کاغذ ہٹایا تو اختر صاحب نے کہا۔ ”بھائی !یہ تم نے کیا کیا، دیسی شراب ٹھیک رہتی۔ ایک کے بدلے دو آجاتیں۔ “
میں نے عرض کیا۔ ”اختر صاحب، یہ ختم ہو جائے تو دوسری موجود ہے۔ “
اختر صاحب مسکرائے۔ ”وہ ختم ہو گئی تو ….“
میں نے کہا۔ ”اور آجائے گی۔ “
آپ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔ ”زندہ رہو۔ “
دونوں بوتلیں ختم ہو گئیں۔ میں نے محسوس کیا کہ اختر صاحب سکاچ سے مطمئن نہیں تھے۔ چنانچہ ملازم سے امرتسر ڈسٹلری کے کشیدہ کردہ ٹھرے کی ایک بوتل منگوائی۔ اس نے اختر صاحب کے نشے میں جو خالی جگہیں تھیں پر کردیں۔
چونکہ یہ محفلیں خالص ادبی نہیں تھیں اور ان کے پیچھے صرف وہ عقیدت تھی جو ان لوگوں کو اختر صاحب سے تھی۔ اس لیے زیادہ تر ان ہی کا کلام پڑھا یا گایا جاتا۔ شعروسخن کے متعلق کوئی بصیرت افروز بات نہ ہوتی لیکن اختر صاحب کی گفتگوﺅں سے میں نے اندازہ لگایا لیا تھا کہ اردو شاعری پر ان کی نظر بہت وسیع ہے۔
چند روز کے بعد میں نے گھر پر اختر صاحب کی دعوت کی مگر یہ صرف چائے کی دعوت تھی جس سے اختر صاحب جیسے رند بلا نوش کو کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ لیکن انہوں نے قبول کی اور میری خاطر ایک پیالی چائے بھی پی۔
ان محفلوں میں باری صاحب بہت کم شریک ہوتے۔ البتہ چشتی صاحب جو پینے کے معاملے میں اختر صاحب سے بھی چند پیگ آگے ہی تھے ، اکثر ان محفلوں میں شریک ہوتے اور اپنا کلام بھی سناتے جو عام طور پر بے روح ہوتا تھا۔
اخترصاحب غالباً دس دن امرتسر میں رہے۔ اس دوران جیجے کے پیہم اصرار پر آپ نے شیراز ہوٹل پر ایک نظم کہی ، جیجے نے اسے باری صاحب کی وساطت سے بڑے کاغذپر خوشخط لکھوایا اور فریم میں جڑوا کر اپنے ہوٹل کی زینت بنایا۔ وہ بہت خوش تھا کیونکہ نظم میں اس کا نام موجود تھا۔ اختر صاحب چلے گئے تو جیجےکے ہوٹل کی رونق غائب ہو گئی۔ باری صاحب نے اب میرے گھر آنا شروع کردیا تھا۔ میرا شراب پینا ان کو اچھا نہیں لگتا تھا۔ خشک واعظ نہیں تھے۔ اشاروں ہی اشاروں میں کئی دفعہ مجھے اس علت سے باز رہنے کے لیے کہا مگر میں باز نہ آیا۔
لاہور عرب ہوٹل میں آنے جانے سے مظفر حسین شمیم صاحب سے اچھے خاصے تعلقات پیدا ہو گئے تھے۔ میں نے ان سے اصلاح کی بات کی تو وہ مجھے اسی وقت اختر شیرانی صاحب کے پاس لے گئے۔ چھوٹا سا غلیظ کمرہ تھا۔ آپ چار پائی پر تکیہ سینے کے ساتھ دبائے بیٹھے تھے۔ علیک سلیک ہوئی۔ اختر صاحب مجھے پہچان گئے۔ یا رانِ شیراز ہوٹل کے بارے میں پوچھا، جو کچھ مجھے معلوم تھا میں نے ان کو بتا دیا۔
شمیم صاحب اور اختر صاحب کی گفتگو بہت پر تصنع اور پرتکلف تھی۔ حالانکہ مجھ سے کسی شخص نے کہا تھا کہ وہ دونوں کسی زمانے میں یک جان ودو قالب تھے۔ بہر حال شمیم صاحب نے میرے آنے کا مدعا بیان کیا۔ اختر صاحب نے کہا۔ ”میں حاضر ہوں۔ آج رات ہی سارا مسودہ دیکھ لوں گا۔ “
اختر صاحب نے سینے کے ساتھ تکیہ اس لیے دبایا ہوا تھا کہ ان کے جگر میں تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ٹیس سی اٹھتی تھی۔ اس زمانے میں ہی ان کا جگر قریب قریب ماﺅف ہو چکا تھا۔ میں نے ان سے رخصت لی اور شام کو حاضر ہونے کا کہہ کر شمیم صاحب کے ساتھ واپس عرب ہوٹل چلا آیا۔ انہوں نے مجھ سے اشارتاً کہا کہ اگر تم اختر سے اپنا کام جلدی کرانا چاہتے ہو تو ساتھ ”وہ چیز “لیتے جانا۔
میں جب شام کو اختر صاحب کے پاس پہنچا تو ”وہ چیز“میرے پاس موجود تھی جو میں نے بڑے سلیقے سے پیش کی۔ بوتل ڈرتے ڈرتے باہرنکالی اور ان سے کہا۔ ”کیا یہاں اس کی اجازت ہے ، معاف کیجئے گا یہ پوچھنا ہی بڑی بدتمیزی ہے۔ “
اختر صاحب کی آنکھیں تمتما اٹھیں۔ میرا خیال ہے وہ صبح کے پیاسے تھے۔ مسکرائے اور میرے سر پر بڑی شفقت سے ہاتھ پھیرا۔ ”شراب پینا کوئی بدتمیزی نہیں۔ “
یہ کہہ کر بوتل میرے ہاتھ سے لی اور تکیہ فرش پر رکھ کر اس پر بوتل کا نچلا حصہ ٹھونکنا شروع کیا تاکہ کارک باہر نکل آئے۔
ان دنوں میں پیتا تھا مگر یوں کہئے کہ زیادہ پی نہیں سکتا تھا۔ چار پیگ کافی تھے۔ مقدار اس سے اگر بڑھ جاتی تو طبیعت خراب ہو جاتی اور سارا لطف غارت ہو جاتا۔
ادھر ادھر کی باتیں کرتے اور پیتے کافی دیر ہو گئی۔ اختر صاحب کا کھانا آیا اور جس طریقے سے آیا اس سے میں نے یہ جانا کہ ان کے گھر والوں کے تعلقات ان سے کشیدہ ہیں۔ بعد میں اس کی تصدیق بھی ہو گئی۔ ا ن کے والد مکرم حافظ محمود شیرانی صاحب ( مرحوم ومغفور) ان کی شراب نوشی کے باعث بہت نالاں تھے۔ تھک ہار کر انہوں نے اختر صاحب کو ان کے اپنے حال پر چھوڑ دیا تھا۔
رات زیادہ گزر گئی تو میں نے اختر صاحب سے درخواست کی کہ وہ مسودہ دیکھنا شروع کردیں۔ آپ نے یہ درخواست قبول کی اور مسودے کی اصلاح شروع کردی۔ چند صفحات دیکھے تھے کہ آسکر وائلڈ اور لارڈ الفرڈ ڈگلس کے معاشرے کا ذکر آپ نے بڑے مزے لے لے کر کیا۔ انہوں نے اپنے دل کی تسکین کے لیے دو معشوق اختراع کرلیے تھے ….سلمیٰ اور عذرا۔
سلمیٰ کے متعلق کئی کہانیاں مشہور ہیں بعض کہتے ہیں کہ سلمیٰ حقیقتاًکوئی سلمیٰ تھی۔ ہوسکتا ہے ایسا ہی ہو مگر جو سلمیٰ ہمیں اختر کے کلام میں نظر آتی ہے یکسر تخیلی ہے۔ اس کا وجود اس قدر شفاف ہے کہ صاف ایتھری معلوم ہوتا ہے ایک اور بات بھی ہے اگر سلمیٰ کوئی گوشت پوست کی زندہ عورت ہوتی تو شاعر اس سے اتنی والہانہ محبت کبھی نہ کرتا۔ مگر چونکہ وہ اس کی اپنی تخلیق تھی اس لیے وہ اس سے بے پناہ محبت کرتا تھا۔ لارڈ بائرن کی باتیں سنتے سنتے مجھے نیندآگئی اور وہیں سو گیا۔ صبح اٹھا تو دیکھا اختر صاحب فرش پر بیٹھے مسودہ دیکھنے میں مصروف ہیں۔ بوتل میں تھوڑی سی بچی ہوئی شراب تھی۔ یہ آپ نے پی اور آخری صفحات دیکھ کر مسودہ میرے حوالے کیا اور کہا۔ ”ترجمہ بہت اچھا ہے کہیں کہیں زبان کی اغلاط تھیں۔ وہ میں نے درست کردی ہیں۔ “
میں نے مناسب وموزوں الفاظ میں ان کا شکریہ ادا کیا اور امرتسر روانہ ہو گیا۔ اس کے بعد میں جب کبھی لاہور جاتا۔ اختر صاحب سے نیاز ضرور حاصل کرتا۔ ایک بار گیا تو دیکھا کہ آپ کے سر پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں۔ ان سے دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا۔ ”مجھے تو قطعاً یاد نہیں لیکن لوگ کہتے ہیں کل رات میں نے تانگے میں سوار ہونے کی کوشش کی مگر گر پڑا اور چوٹیں اس وجہ سے آئیں۔ “
اختر صاحب کی اپنی ذات کے بارے میں یہ صاف گوئی مجھے بہت پسند آئی۔ بعض اوقات وہ بالکل بچے بن جاتے تھے۔ ان کی گفتگو اور حرکات بالکل بچوں کی سی ہوتیں جہاں تک میں سمجھتا ہوں۔ بچہ بن کر وہ بچگانہ قسم ہی کی مسرت محسوس کرتے تھے۔ کچھ عرصے کے بعد میں بمبئی چلا گیا۔ اختر صاحب سے اتنے مراسم نہیں تھے کہ خط وکتابت ہوتی۔ لیکن جب انہوں نے رسالہ ” رومان“ جاری کیا تو میں نے انہیں مبارکباد کا خط لکھا۔ اب میں افسانہ نگاری کے میدان میں قدم رکھ چکا تھا۔ ترجمے کا دور وہیں لاہور اور امرتسر میں ختم ہو گیا تھا۔ میں نے طبع زاد افسانے لکھنے شروع کردیے تھے جو مقبول ہوئے تھے۔
کچھ عرصے کے بعد”رومان “ بند ہو گیا اور اختر میری نظروں سے مکمل طور پر اوجھل ہو گئے۔ کئی برس گزر گئے ملک کی سیاست نے کئی رنگ بدلے حتیٰ کہ بٹوارہ آن پہنچا۔ اس سے پہلے جو ہلڑ مچا اس سے آپ سب واقف ہیں۔ اس دورمیں اخباروں میں خبر چھپی کہ اختر صاحب ٹونک سے پاکستان آرہے تھے کہ راستے میں بلوائیوں نے ان کو شہید کردیا۔ بہت افسوس ہوامیں ، عصمت اور شاہد لطیف دیر تک ان کی باتیں کرتے اور افسوس کرتے رہے۔ کئی اخباروں میں ان کی موت پر مضامین شائع ہوئے۔ ان کی پرانی نظمیں چھپیں۔ لیکن کچھ عرصے کے بعد ان کی موت کی خبر کی تردید ہو گئی معلوم ہوا کہ وہ بخیر وعافیت لاہور پہنچ گئے ہیں۔ ان سے بمبئی کے ادبی حلقے کو بہت خوشی ہوئی۔ تقسیم کے پانچ مہینے بعد میں بمبئی چھوڑ کر لاہور چلا آیا کیوں کہ سب عزیز واقارب یہیں جمع تھے۔ مدت کے بعد یوم اقبال کے جلسے میں ان کو دیکھا مگر نہایت ہی ابتر حالت میں۔
رات کے جلسے کی صدارت اختر صاحب کو کرنا تھی یونیورسٹی ہال میں حاضرین کی تعداد خاصی تھی۔ جلسے میں شرکت کے لیے بھارت سے علی سردار جعفری اور کیفی اعظمی آئے ہوئے تھے۔ وقت ہو چکا تھا مگر صاحب صدر موجود نہیں تھے میں نے ساحر لدھیانوی سے پوچھا تو اس نے مجھے بتایا کہ اختر شیرانی صاحب ہال کے باہر پی رہے ہیں۔ ان کی حالت بہت غیر ہے۔ اس لیے ہم کوشش کررہے ہیں کہ وہ صدارت نہ کریں مگر مصیبت یہ ہے کہ وہ مصر ہیں۔ میں باہر گیا تو دیکھا وہ دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑے ہیں اور پی رہے ہیں۔ ظہیر کاشمیری کے ہاتھ میں بوتل ہے۔ آپ نے گلاس ختم کیا اور ظہیر سے کہا۔ ”چلو اجلاس کا وقت ہوگیا۔ “ظہیر نے ان کو روکا ہے۔ ”جی نہیں ، ابھی کہاں ہوا ہے ؟“ مگر اندر ہال سے نظم پڑھنے کی آواز آرہی تھی۔ آپ نے لڑکھڑاتے ہوئے الفاظ کے منہ میں کئی کئی ٹکڑے کرتے ہوئے کہا۔ ”جلسہ شروع ہو چکا ہے مجھے آواز آرہی ہے “۔ یہ کہہ کر انہوں نے ظہیر کو دھکا دیا۔ اس موقع پر میں آگے بڑھا ، اختر صاحب نے تھوڑی دیر کے لیے مجھے بالکل نہ پہچانا۔ نشے سے ان کی آنکھیں بندہوئی جارہی تھیں۔ میں نے ان کو جھنجھوڑا اور اپنا نام بتایا۔ اس پر انہوں نے ایک لمبی ”آہ “ کی اور مجھے گلے لگا لیا اور سوالوں کی بوچھاڑ شروع کردی۔ الفاظ چونکہ ان کے منہ میں اوپر تلے ہوکر ٹوٹ جاتے تھے اس لیے میں کچھ نہ سمجھ سکا۔ ظہیر نے میرے کان میں کہا کہ میں انہیں اندر ہال میں نہ جانے دوں۔ مگر یہ میرے بس کی بات نہیں تھی۔ میں نے اور تو کچھ نہ کیا۔ اختر صاحب سے یہ کہا۔ ”اتنی دیر کے بعد آپ سے ملاقات ہوئی ہے۔ کیا اس کی خوشی میں بوتل میں سے مجھے کچھ نہ ملے گا ؟“
آپ نے ظہیر کاشمیری سے کچھ کہا۔ جس کا غالباً یہ مطلب تھا کہ سعادت کو ایک گلاس بنا کر دو۔ ظہیر گلاس میں آتش سیال انڈیلنے لگا کہ اختر تیزی سے لڑکھڑاتے ہوئے ہال کے اندر داخل ہو گئے اور ہمیں اس کی اس وقت خبر ہوئی جب ان کو روکا نہیں جاسکتا تھا پھر بھی میں دوڑ کر اندر گیا اور چبوترے پر چڑھنے سے پہلے ان کو روک لیا۔ مگر وہ میری گرفت سے نکل کر کرسی صدارت پر جا بیٹھے۔ جلسے کے منتظمین بہت پریشان ہوئے۔ کیا کریں کیا نہ کریں !سب اسی مخمصے میں گرفتار تھے۔ ان کی حالت بہت بری تھی کچھ دیر تو وہ خاموش بیٹھے کرسی پر جھولتے رہے لیکن جب انہوں نے اٹھ کر تقریر کرنا چاہی تو معاملہ بڑا سنگین ہو گیا۔ مائیکروفون کے سامنے آپ بار بار اپنی ڈھیلی پتلون ٹھیک کرتے اور ثابت قدم رہنے کی ناکام کوشش میں بار بار لڑکھڑاتے تھے آپ کی لکنت زدہ زبان سے خدا معلوم کیا نکل رہا تھا حاضرین میں سے کسی شخص نے بلند آواز میں کہا۔ ”یہ شرابی ہے ، اسے باہر نکالو۔ “بس طوفان برپا ہو گیا۔ ایک نے بنچوں پر کھڑے ہوکر بڑے غصے سے کہا۔ ”پاکستان میں کیا یہی کچھ ہو گا۔ “ دوسرا چلایا۔ ”اور جلسے میں خواتین بھی موجود ہیں۔ “
اختر صاحب برابر بولتے رہے۔ ایک تو ویسے ہی ان کی کوئی بات سمجھ میں نہ آتی تھی۔ شور میں وہ شور کا ایک حصہ بن گئی تھی۔ جب معاملہ بڑھ گیا تو دوست احباب اختر صاحب کو زبردستی ہال سے باہر لے گئے۔ فضا بہت خراب ہو گئی تھی لیکن شورش کاشمیری کی بروقت تقریر نے مدد کی اور ہال پر سکون ہو گیا۔
اس کے بعد اختر صاحب سے آخری ملاقات میو ہسپتال میں ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب ہمیں وہاں لے گئے جہاں ہمارا رومانی شاعرسلمیٰ اور عذرا کا خالق بیہوش پڑا تھا۔ بیڈ کے اردگرد کپڑا تنا تھا۔ ہم نے دیکھا اختر صاحب آنکھیں بندکئے پڑے ہیں۔ لمبے لمبے ناہموار سانس لے رہے ہیں۔ ہونٹ آواز کے ساتھ کھلتے اور بند ہوتے تھے۔ ہم تینوں ان کو اس حالت میں دیکھ کر پژمردہ ہو گئے۔
میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا۔ ” کیا ہم ان کی کوئی مدد کرسکتے ہیں؟“
ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا۔ ”ہم امکان بھر کوشش کرچکے ہیں۔ انتڑیاں بھی جواب دے چکی ہیں۔ صرف ایک دل اچھی حالت میں ہے۔ گھپ اندھیرے میں امید کی بس یہی ایک چھوٹی سی کرن ہے۔ “
جب ہم نے خواہش ظاہر کی کہ ہم اختر صاحب کے اس وقت میں کسی نہ کسی طرح کام آنا چاہتے ہیں تو ڈاکٹر صاحب نے کہا۔ ”اچھا تو میں آپ کو ایک دوا کا نام بتاتا ہوں۔ آپ اسے حاصل کرنے کی کوشش کیجئے۔ یہاں پاکستان میں تو بالکل نایاب ہے ، ممکن ہے بھارت میں مل جائے۔ “
ڈاکٹر صاحب سے دوا کا نام لکھوا کر میں فیض صاحب کے پاس پہنچا۔ اور ان کو ساری بات بتائی۔ آپ نے اسی وقت امرتسر ٹیلی فون کیا اور اپنے اخبار کے ایجنٹ سے کہا کہ وہ دوا حاصل کرکے فوراً لاہور بھجوادے۔ لیکن افسوس دوا نہ ملی۔ مسعود پرویز نے دلی فون کیا۔ وہاں سے ابھی جواب نہیں آیا تھا کہ اختر صاحب بیہوشی کے عالم میں اپنی سلمیٰ اور عذرا کو پیارے ہو گئے۔
جیجا توا ختر شیرانی کا دیوانہ تھا۔ کاﺅنٹر کے پاس کھڑا گاہک سے بل وصول کررہا ہے اور گنگنا رہا ہے۔ ”اے عشق کہیں لے چل “ مسافروں کو کمرے دکھا رہا ہے اور زیر لب گا رہا ہے۔ ”کیا بگڑ جائے گا رہ جاﺅ یہیں رات کی رات “ عاشق فوٹوگرافرکی آواز گو بہت پتلی تھی لیکن وہ ”اے عشق کہیں لے چل “ بڑے سوز سے گایا کرتا تھا۔ میں نے جب بھی اس کے منہ سے یہ نظم سنی مجھ پر بہت اثر ہوا۔
جیجے کے ہوٹل میں کچھ عرصے کے بعد باری صاحب اور چشتی صاحب کا آنا جانا بھی شروع ہو گیا۔ دونوں کھانا کھاتے یا چائے پیتے اور چلے جاتے مگر جبجیجے کو معلوم ہوا کہ وہ اخباری آدمی ہیں تو فوراً ان سے بے تکلف مراسم پیدا کرلیے۔
باری صاحب اختر شیرانی کے کلام سے واقف تھے لیکن ذاتی طور پر شاعر کو نہ جانتے تھے۔ چشتی صاحب ایک مدت کے بعد بغداد اور مصر وغیرہ کی سیاحت کے بعد تازہ تازہ واپس آئے تھے۔ اس لیے وہ یہاں کے شعراکے متعلق کچھ نہیں جانتے تھے۔ پھر بھی جب انہوں نے جیجے سے اختر شیرانی کا کلام سنا تو بہت متاثر ہوئے۔
اختر شیرانی کی شاعری ہلکی پھلکی اور رومانی تھی۔ میں اب غور کرتا ہوں تو اختر شیرانی مجھے کالج کے لڑکوں کا شاعر معلوم ہوتا ہے۔ ایک خاص عمر کے نوجوان کا شاعر ، جن کے دل ودماغ پر ہر وقت رومان کی مکڑی مہین مہین جالے تنتی رہتی ہے۔ مجھے اس وادی میں قدم رکھے زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ ایک دوست سے معلوم ہوا، اختر شیرانی آئے ہوئے ہیں اور شیراز ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ اسی وقت وہاں پہنچا مگر معلوم ہوا کہ وہ جیجے کے ساتھ کہیں باہرگئے ہوئے ہیں۔ دیر تک ہوٹل میں بیٹھا انتظار کرتا رہا۔ مگر یہ لوگ واپس نہ آئے۔
شام کو پہنچا تو ہوٹل کے سندھی باورچی نے کہا کہ سب اوپر کوٹھے پر بیٹھے ہیں۔ دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ میں اوپر گیا۔ چھڑکاﺅ کرکے چارپائیاں بچھائی گئی تھیں۔ کچھ کرسیاں بھی تھیں۔ دیسی شراب کا دور چل رہا تھا۔ دس بارہ آدمی بیٹھے تھے جو میرے جانے پہچانے تھے۔ صرف ایک صورت اجنبی تھی اور وہ اختر شیرانی کی تھی۔ سپاٹ پیشانی، موٹی ناک، موٹے ہونٹ، گہرا سانولا رنگ ،چھدرے بال، آنکھیں بڑی بڑی اور پر کشش، ان میں تھوڑی سی اداسی بھی تھی۔ بڑی شستہ ورفتہ اردو میں حاضرین سے گفتگو کررہے تھے۔
میں پاس پہنچاتو بالے نے ان سے میرا تعارف کرایا۔ بڑی خندہ پیشانی سے پیش آئے اور مجھ سے بیٹھنے کے لیے کہا۔ میں چارپائی کے پاس کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس کے بعد اختر صاحبجیجے سے مخاطب ہوئے۔ ”عزیز ( میری طرف اشارہ کرکے ) ان کے لیے گلاس منگواﺅ۔ “
گلاس آیا تو اختر صاحب نے مجھے ایک پیگ بنا کر دیا۔ جو میں نے شکریے کے ساتھ قبول کیا۔ دو تین دور ہوئے تو کسی نے اختر صاحب سے اپنا کلام سنانے کی فرمائش کی اس پر انہوں نے کہا۔ ”نہیں بھائی ، میں کچھ نہیں سناﺅں گا میں سنوں گا۔ “
پھر جیجےسے مخاطب ہو ئے۔ ”عزیز سناﺅ ….رسیلی انکھڑیوں سے نیند برساتے ہوئے آ “ یہ کہا اور ایک ٹھنڈا سانس لیا جیسے بیتے ہوئے لمحات یاد آگئے ہیں۔ جیجےکو انکار نہیں تھا۔ گلا صاف کیا اور اختر صاحب کی ایک مشہور غزل گانا شروع کردی۔ سرتال سب ٹھیک۔ مگر آواز پھٹی پھٹی سی تھی۔ پھر بھی رنگ جم گیا۔ اختر صاحب پیتے رہے اور جھومتے رہے۔
دوسرے روز دوپہر کے وقت میں شیراز ہوٹل بیٹھا اختر صاحب کا انتظار کررہا تھا ( وہ کسی دعوت پر گئے تھے) کہ ایک برقعہ پوش خاتون ٹانگے میں آئیں۔ آپ نے ایک دم سے اختر صاحب کے بارے میں پوچھا۔ اس نے کہا ، کہیں باہر تشریف لے گئے ہیں آپ اپنا نام بتا دیجئے۔ برقعہ پوش خاتون نے اپنا نام نہ بتایا اور چلی گئی۔
اختر صاحب آئے تو میں نے اس خاتون کی آمد کا ذکر کیا۔ آپ نے بڑی شاعرانہ دلچسپی سے ساری بات سنی اور مسکرادئیے۔ یوں وہ خاتون ایک اسرار سا بن گئی۔ کھانا کھانے سے پہلے شام کو جب ٹھرے کا دور شروع ہوا تو جیجے نے اس برقعہ پوش خاتون کے متعلق اختر صاحب سے پوچھا۔ ”حضرت وہ کون تھیں جو آج دوپہر تشریف لائی تھیں ؟“
اختر صاحب مسکرائے اور جواب گول کر گئے۔ بالے نے ان سے کہا۔ ”کہیں سلمیٰ صاحبہ تو نہیں تھیں ؟“
اختر صاحب نے ہولے سے بالے کے گال پر طمانچہ مارا اور صرف اتنا کہا ،” شریر“۔ بات اور بھی زیادہ پر اسرار ہو گئی جو آج تک صیغہ راز میں ہے۔ معلوم نہیں وہ برقعہ پوش خاتون کون تھیں۔ اس زمانے میں صرف اتنا معلوم ہوا تھا کہ اختر صاحب کے جانے کے بعد وہ ایک بار پھر شیراز ہوٹل آئی تھیں اور اختر صاحب کے بارے میں اس نے پوچھا کہ کہاں ہیں۔
سب باری باری اختر صاحب کی دعوت کرچکے تھے۔ وہیں شیراز ہوٹل میں دعوت دینے کا یہ طریقہ تھا کہ دن اور رات میں ٹھرے کی جتنی بوتلیں ختم ہوں ان کے دام ادا کردیے جائیں۔ میں نے یہ طریقہ بھونڈا سمجھا اور دو بوتلیں اسکاچ وہسکی کی لے کر ایک شام وہاں پہنچا۔ ایک بوتل پر سے کاغذ ہٹایا تو اختر صاحب نے کہا۔ ”بھائی !یہ تم نے کیا کیا، دیسی شراب ٹھیک رہتی۔ ایک کے بدلے دو آجاتیں۔ “
میں نے عرض کیا۔ ”اختر صاحب، یہ ختم ہو جائے تو دوسری موجود ہے۔ “
اختر صاحب مسکرائے۔ ”وہ ختم ہو گئی تو ….“
میں نے کہا۔ ”اور آجائے گی۔ “
آپ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔ ”زندہ رہو۔ “
دونوں بوتلیں ختم ہو گئیں۔ میں نے محسوس کیا کہ اختر صاحب سکاچ سے مطمئن نہیں تھے۔ چنانچہ ملازم سے امرتسر ڈسٹلری کے کشیدہ کردہ ٹھرے کی ایک بوتل منگوائی۔ اس نے اختر صاحب کے نشے میں جو خالی جگہیں تھیں پر کردیں۔
چونکہ یہ محفلیں خالص ادبی نہیں تھیں اور ان کے پیچھے صرف وہ عقیدت تھی جو ان لوگوں کو اختر صاحب سے تھی۔ اس لیے زیادہ تر ان ہی کا کلام پڑھا یا گایا جاتا۔ شعروسخن کے متعلق کوئی بصیرت افروز بات نہ ہوتی لیکن اختر صاحب کی گفتگوﺅں سے میں نے اندازہ لگایا لیا تھا کہ اردو شاعری پر ان کی نظر بہت وسیع ہے۔
چند روز کے بعد میں نے گھر پر اختر صاحب کی دعوت کی مگر یہ صرف چائے کی دعوت تھی جس سے اختر صاحب جیسے رند بلا نوش کو کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ لیکن انہوں نے قبول کی اور میری خاطر ایک پیالی چائے بھی پی۔
ان محفلوں میں باری صاحب بہت کم شریک ہوتے۔ البتہ چشتی صاحب جو پینے کے معاملے میں اختر صاحب سے بھی چند پیگ آگے ہی تھے ، اکثر ان محفلوں میں شریک ہوتے اور اپنا کلام بھی سناتے جو عام طور پر بے روح ہوتا تھا۔
اخترصاحب غالباً دس دن امرتسر میں رہے۔ اس دوران جیجے کے پیہم اصرار پر آپ نے شیراز ہوٹل پر ایک نظم کہی ، جیجے نے اسے باری صاحب کی وساطت سے بڑے کاغذپر خوشخط لکھوایا اور فریم میں جڑوا کر اپنے ہوٹل کی زینت بنایا۔ وہ بہت خوش تھا کیونکہ نظم میں اس کا نام موجود تھا۔ اختر صاحب چلے گئے تو جیجےکے ہوٹل کی رونق غائب ہو گئی۔ باری صاحب نے اب میرے گھر آنا شروع کردیا تھا۔ میرا شراب پینا ان کو اچھا نہیں لگتا تھا۔ خشک واعظ نہیں تھے۔ اشاروں ہی اشاروں میں کئی دفعہ مجھے اس علت سے باز رہنے کے لیے کہا مگر میں باز نہ آیا۔
لاہور عرب ہوٹل میں آنے جانے سے مظفر حسین شمیم صاحب سے اچھے خاصے تعلقات پیدا ہو گئے تھے۔ میں نے ان سے اصلاح کی بات کی تو وہ مجھے اسی وقت اختر شیرانی صاحب کے پاس لے گئے۔ چھوٹا سا غلیظ کمرہ تھا۔ آپ چار پائی پر تکیہ سینے کے ساتھ دبائے بیٹھے تھے۔ علیک سلیک ہوئی۔ اختر صاحب مجھے پہچان گئے۔ یا رانِ شیراز ہوٹل کے بارے میں پوچھا، جو کچھ مجھے معلوم تھا میں نے ان کو بتا دیا۔
شمیم صاحب اور اختر صاحب کی گفتگو بہت پر تصنع اور پرتکلف تھی۔ حالانکہ مجھ سے کسی شخص نے کہا تھا کہ وہ دونوں کسی زمانے میں یک جان ودو قالب تھے۔ بہر حال شمیم صاحب نے میرے آنے کا مدعا بیان کیا۔ اختر صاحب نے کہا۔ ”میں حاضر ہوں۔ آج رات ہی سارا مسودہ دیکھ لوں گا۔ “
اختر صاحب نے سینے کے ساتھ تکیہ اس لیے دبایا ہوا تھا کہ ان کے جگر میں تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ٹیس سی اٹھتی تھی۔ اس زمانے میں ہی ان کا جگر قریب قریب ماﺅف ہو چکا تھا۔ میں نے ان سے رخصت لی اور شام کو حاضر ہونے کا کہہ کر شمیم صاحب کے ساتھ واپس عرب ہوٹل چلا آیا۔ انہوں نے مجھ سے اشارتاً کہا کہ اگر تم اختر سے اپنا کام جلدی کرانا چاہتے ہو تو ساتھ ”وہ چیز “لیتے جانا۔
میں جب شام کو اختر صاحب کے پاس پہنچا تو ”وہ چیز“میرے پاس موجود تھی جو میں نے بڑے سلیقے سے پیش کی۔ بوتل ڈرتے ڈرتے باہرنکالی اور ان سے کہا۔ ”کیا یہاں اس کی اجازت ہے ، معاف کیجئے گا یہ پوچھنا ہی بڑی بدتمیزی ہے۔ “
اختر صاحب کی آنکھیں تمتما اٹھیں۔ میرا خیال ہے وہ صبح کے پیاسے تھے۔ مسکرائے اور میرے سر پر بڑی شفقت سے ہاتھ پھیرا۔ ”شراب پینا کوئی بدتمیزی نہیں۔ “
یہ کہہ کر بوتل میرے ہاتھ سے لی اور تکیہ فرش پر رکھ کر اس پر بوتل کا نچلا حصہ ٹھونکنا شروع کیا تاکہ کارک باہر نکل آئے۔
ان دنوں میں پیتا تھا مگر یوں کہئے کہ زیادہ پی نہیں سکتا تھا۔ چار پیگ کافی تھے۔ مقدار اس سے اگر بڑھ جاتی تو طبیعت خراب ہو جاتی اور سارا لطف غارت ہو جاتا۔
ادھر ادھر کی باتیں کرتے اور پیتے کافی دیر ہو گئی۔ اختر صاحب کا کھانا آیا اور جس طریقے سے آیا اس سے میں نے یہ جانا کہ ان کے گھر والوں کے تعلقات ان سے کشیدہ ہیں۔ بعد میں اس کی تصدیق بھی ہو گئی۔ ا ن کے والد مکرم حافظ محمود شیرانی صاحب ( مرحوم ومغفور) ان کی شراب نوشی کے باعث بہت نالاں تھے۔ تھک ہار کر انہوں نے اختر صاحب کو ان کے اپنے حال پر چھوڑ دیا تھا۔
رات زیادہ گزر گئی تو میں نے اختر صاحب سے درخواست کی کہ وہ مسودہ دیکھنا شروع کردیں۔ آپ نے یہ درخواست قبول کی اور مسودے کی اصلاح شروع کردی۔ چند صفحات دیکھے تھے کہ آسکر وائلڈ اور لارڈ الفرڈ ڈگلس کے معاشرے کا ذکر آپ نے بڑے مزے لے لے کر کیا۔ انہوں نے اپنے دل کی تسکین کے لیے دو معشوق اختراع کرلیے تھے ….سلمیٰ اور عذرا۔
سلمیٰ کے متعلق کئی کہانیاں مشہور ہیں بعض کہتے ہیں کہ سلمیٰ حقیقتاًکوئی سلمیٰ تھی۔ ہوسکتا ہے ایسا ہی ہو مگر جو سلمیٰ ہمیں اختر کے کلام میں نظر آتی ہے یکسر تخیلی ہے۔ اس کا وجود اس قدر شفاف ہے کہ صاف ایتھری معلوم ہوتا ہے ایک اور بات بھی ہے اگر سلمیٰ کوئی گوشت پوست کی زندہ عورت ہوتی تو شاعر اس سے اتنی والہانہ محبت کبھی نہ کرتا۔ مگر چونکہ وہ اس کی اپنی تخلیق تھی اس لیے وہ اس سے بے پناہ محبت کرتا تھا۔ لارڈ بائرن کی باتیں سنتے سنتے مجھے نیندآگئی اور وہیں سو گیا۔ صبح اٹھا تو دیکھا اختر صاحب فرش پر بیٹھے مسودہ دیکھنے میں مصروف ہیں۔ بوتل میں تھوڑی سی بچی ہوئی شراب تھی۔ یہ آپ نے پی اور آخری صفحات دیکھ کر مسودہ میرے حوالے کیا اور کہا۔ ”ترجمہ بہت اچھا ہے کہیں کہیں زبان کی اغلاط تھیں۔ وہ میں نے درست کردی ہیں۔ “
میں نے مناسب وموزوں الفاظ میں ان کا شکریہ ادا کیا اور امرتسر روانہ ہو گیا۔ اس کے بعد میں جب کبھی لاہور جاتا۔ اختر صاحب سے نیاز ضرور حاصل کرتا۔ ایک بار گیا تو دیکھا کہ آپ کے سر پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں۔ ان سے دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا۔ ”مجھے تو قطعاً یاد نہیں لیکن لوگ کہتے ہیں کل رات میں نے تانگے میں سوار ہونے کی کوشش کی مگر گر پڑا اور چوٹیں اس وجہ سے آئیں۔ “
اختر صاحب کی اپنی ذات کے بارے میں یہ صاف گوئی مجھے بہت پسند آئی۔ بعض اوقات وہ بالکل بچے بن جاتے تھے۔ ان کی گفتگو اور حرکات بالکل بچوں کی سی ہوتیں جہاں تک میں سمجھتا ہوں۔ بچہ بن کر وہ بچگانہ قسم ہی کی مسرت محسوس کرتے تھے۔ کچھ عرصے کے بعد میں بمبئی چلا گیا۔ اختر صاحب سے اتنے مراسم نہیں تھے کہ خط وکتابت ہوتی۔ لیکن جب انہوں نے رسالہ ” رومان“ جاری کیا تو میں نے انہیں مبارکباد کا خط لکھا۔ اب میں افسانہ نگاری کے میدان میں قدم رکھ چکا تھا۔ ترجمے کا دور وہیں لاہور اور امرتسر میں ختم ہو گیا تھا۔ میں نے طبع زاد افسانے لکھنے شروع کردیے تھے جو مقبول ہوئے تھے۔
کچھ عرصے کے بعد”رومان “ بند ہو گیا اور اختر میری نظروں سے مکمل طور پر اوجھل ہو گئے۔ کئی برس گزر گئے ملک کی سیاست نے کئی رنگ بدلے حتیٰ کہ بٹوارہ آن پہنچا۔ اس سے پہلے جو ہلڑ مچا اس سے آپ سب واقف ہیں۔ اس دورمیں اخباروں میں خبر چھپی کہ اختر صاحب ٹونک سے پاکستان آرہے تھے کہ راستے میں بلوائیوں نے ان کو شہید کردیا۔ بہت افسوس ہوامیں ، عصمت اور شاہد لطیف دیر تک ان کی باتیں کرتے اور افسوس کرتے رہے۔ کئی اخباروں میں ان کی موت پر مضامین شائع ہوئے۔ ان کی پرانی نظمیں چھپیں۔ لیکن کچھ عرصے کے بعد ان کی موت کی خبر کی تردید ہو گئی معلوم ہوا کہ وہ بخیر وعافیت لاہور پہنچ گئے ہیں۔ ان سے بمبئی کے ادبی حلقے کو بہت خوشی ہوئی۔ تقسیم کے پانچ مہینے بعد میں بمبئی چھوڑ کر لاہور چلا آیا کیوں کہ سب عزیز واقارب یہیں جمع تھے۔ مدت کے بعد یوم اقبال کے جلسے میں ان کو دیکھا مگر نہایت ہی ابتر حالت میں۔
رات کے جلسے کی صدارت اختر صاحب کو کرنا تھی یونیورسٹی ہال میں حاضرین کی تعداد خاصی تھی۔ جلسے میں شرکت کے لیے بھارت سے علی سردار جعفری اور کیفی اعظمی آئے ہوئے تھے۔ وقت ہو چکا تھا مگر صاحب صدر موجود نہیں تھے میں نے ساحر لدھیانوی سے پوچھا تو اس نے مجھے بتایا کہ اختر شیرانی صاحب ہال کے باہر پی رہے ہیں۔ ان کی حالت بہت غیر ہے۔ اس لیے ہم کوشش کررہے ہیں کہ وہ صدارت نہ کریں مگر مصیبت یہ ہے کہ وہ مصر ہیں۔ میں باہر گیا تو دیکھا وہ دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑے ہیں اور پی رہے ہیں۔ ظہیر کاشمیری کے ہاتھ میں بوتل ہے۔ آپ نے گلاس ختم کیا اور ظہیر سے کہا۔ ”چلو اجلاس کا وقت ہوگیا۔ “ظہیر نے ان کو روکا ہے۔ ”جی نہیں ، ابھی کہاں ہوا ہے ؟“ مگر اندر ہال سے نظم پڑھنے کی آواز آرہی تھی۔ آپ نے لڑکھڑاتے ہوئے الفاظ کے منہ میں کئی کئی ٹکڑے کرتے ہوئے کہا۔ ”جلسہ شروع ہو چکا ہے مجھے آواز آرہی ہے “۔ یہ کہہ کر انہوں نے ظہیر کو دھکا دیا۔ اس موقع پر میں آگے بڑھا ، اختر صاحب نے تھوڑی دیر کے لیے مجھے بالکل نہ پہچانا۔ نشے سے ان کی آنکھیں بندہوئی جارہی تھیں۔ میں نے ان کو جھنجھوڑا اور اپنا نام بتایا۔ اس پر انہوں نے ایک لمبی ”آہ “ کی اور مجھے گلے لگا لیا اور سوالوں کی بوچھاڑ شروع کردی۔ الفاظ چونکہ ان کے منہ میں اوپر تلے ہوکر ٹوٹ جاتے تھے اس لیے میں کچھ نہ سمجھ سکا۔ ظہیر نے میرے کان میں کہا کہ میں انہیں اندر ہال میں نہ جانے دوں۔ مگر یہ میرے بس کی بات نہیں تھی۔ میں نے اور تو کچھ نہ کیا۔ اختر صاحب سے یہ کہا۔ ”اتنی دیر کے بعد آپ سے ملاقات ہوئی ہے۔ کیا اس کی خوشی میں بوتل میں سے مجھے کچھ نہ ملے گا ؟“
آپ نے ظہیر کاشمیری سے کچھ کہا۔ جس کا غالباً یہ مطلب تھا کہ سعادت کو ایک گلاس بنا کر دو۔ ظہیر گلاس میں آتش سیال انڈیلنے لگا کہ اختر تیزی سے لڑکھڑاتے ہوئے ہال کے اندر داخل ہو گئے اور ہمیں اس کی اس وقت خبر ہوئی جب ان کو روکا نہیں جاسکتا تھا پھر بھی میں دوڑ کر اندر گیا اور چبوترے پر چڑھنے سے پہلے ان کو روک لیا۔ مگر وہ میری گرفت سے نکل کر کرسی صدارت پر جا بیٹھے۔ جلسے کے منتظمین بہت پریشان ہوئے۔ کیا کریں کیا نہ کریں !سب اسی مخمصے میں گرفتار تھے۔ ان کی حالت بہت بری تھی کچھ دیر تو وہ خاموش بیٹھے کرسی پر جھولتے رہے لیکن جب انہوں نے اٹھ کر تقریر کرنا چاہی تو معاملہ بڑا سنگین ہو گیا۔ مائیکروفون کے سامنے آپ بار بار اپنی ڈھیلی پتلون ٹھیک کرتے اور ثابت قدم رہنے کی ناکام کوشش میں بار بار لڑکھڑاتے تھے آپ کی لکنت زدہ زبان سے خدا معلوم کیا نکل رہا تھا حاضرین میں سے کسی شخص نے بلند آواز میں کہا۔ ”یہ شرابی ہے ، اسے باہر نکالو۔ “بس طوفان برپا ہو گیا۔ ایک نے بنچوں پر کھڑے ہوکر بڑے غصے سے کہا۔ ”پاکستان میں کیا یہی کچھ ہو گا۔ “ دوسرا چلایا۔ ”اور جلسے میں خواتین بھی موجود ہیں۔ “
اختر صاحب برابر بولتے رہے۔ ایک تو ویسے ہی ان کی کوئی بات سمجھ میں نہ آتی تھی۔ شور میں وہ شور کا ایک حصہ بن گئی تھی۔ جب معاملہ بڑھ گیا تو دوست احباب اختر صاحب کو زبردستی ہال سے باہر لے گئے۔ فضا بہت خراب ہو گئی تھی لیکن شورش کاشمیری کی بروقت تقریر نے مدد کی اور ہال پر سکون ہو گیا۔
اس کے بعد اختر صاحب سے آخری ملاقات میو ہسپتال میں ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب ہمیں وہاں لے گئے جہاں ہمارا رومانی شاعرسلمیٰ اور عذرا کا خالق بیہوش پڑا تھا۔ بیڈ کے اردگرد کپڑا تنا تھا۔ ہم نے دیکھا اختر صاحب آنکھیں بندکئے پڑے ہیں۔ لمبے لمبے ناہموار سانس لے رہے ہیں۔ ہونٹ آواز کے ساتھ کھلتے اور بند ہوتے تھے۔ ہم تینوں ان کو اس حالت میں دیکھ کر پژمردہ ہو گئے۔
میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا۔ ” کیا ہم ان کی کوئی مدد کرسکتے ہیں؟“
ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا۔ ”ہم امکان بھر کوشش کرچکے ہیں۔ انتڑیاں بھی جواب دے چکی ہیں۔ صرف ایک دل اچھی حالت میں ہے۔ گھپ اندھیرے میں امید کی بس یہی ایک چھوٹی سی کرن ہے۔ “
جب ہم نے خواہش ظاہر کی کہ ہم اختر صاحب کے اس وقت میں کسی نہ کسی طرح کام آنا چاہتے ہیں تو ڈاکٹر صاحب نے کہا۔ ”اچھا تو میں آپ کو ایک دوا کا نام بتاتا ہوں۔ آپ اسے حاصل کرنے کی کوشش کیجئے۔ یہاں پاکستان میں تو بالکل نایاب ہے ، ممکن ہے بھارت میں مل جائے۔ “
ڈاکٹر صاحب سے دوا کا نام لکھوا کر میں فیض صاحب کے پاس پہنچا۔ اور ان کو ساری بات بتائی۔ آپ نے اسی وقت امرتسر ٹیلی فون کیا اور اپنے اخبار کے ایجنٹ سے کہا کہ وہ دوا حاصل کرکے فوراً لاہور بھجوادے۔ لیکن افسوس دوا نہ ملی۔ مسعود پرویز نے دلی فون کیا۔ وہاں سے ابھی جواب نہیں آیا تھا کہ اختر صاحب بیہوشی کے عالم میں اپنی سلمیٰ اور عذرا کو پیارے ہو گئے۔