Ahmed Javed – احمد جاوید
Birth—1948
|
Born in 1948, Ahmed Javed is a teacher by profession. He is mainly interested in politics and its impacts on human psyche. “In my last collection of stories Raat Ki Raani, as is clear from its title, the main focus is on women. Almost all stories in the collection revolve around some situation related to women,” Javed says.
So far, four collections of his short stories have come out – the most recent is a collection of 54 stories, titled, Majmoo’a. The main theme of one of the best short stories by Ahmad Javed, Keeray Makoray, in his stupendous collection Chirya Ghar, is that death of the collective consciousness of any society happens internally before it occurs externally. The protagonist of the story suffers from symptoms of an ailment and feels insects running through his veins, eating him from within, as a sign of the death of his consciousness. Almost all the stories of Chirya Ghar contain references to animal characters symbolically. Ahmed Javed’s maiden novel is in print and hopefully will soon be out. We hope the novel opens a way for the readers to see a new facet of his creative being and understand his fiction better.
احمد جاوید سے دس سوالاتاحمد جاوید اردو کے اہم افسانہ نگار ہیں۔ان کے افسانوں کا کرافٹ مجھے بے حد پسند ہے۔ان کی کہانیوں کے مختلف مجموعے شائع ہوئے ہیں، جن میں غیرعلامتی کہانی، چڑیا گھروغیرہ جیسے اہم مجموعے شامل ہیں۔میں نے ان کی جتنی کہانیاں پڑھی ہیں، سب کی سب مجھے پسند آئی ہیں۔وہ ایک سنجیدہ افسانہ نگار ہیں، ان کی باتوں، ان کی کہانیوں اور ان کے مزاج سے خالص ادبی سنجیدگی جھلکتی ہے۔اس انٹرویو کے ذریعے انہوں نے میرے سوالوں کے جواب دے کر اپنے افسانے، اردو افسانے ، افسانے کا حکایتی اسلوب اور افسانے کی تنقید پر تو اہم روشنی ڈالی ہی ہے، ساتھ ہی ساتھ شاعری پر بھی ایک سوال کے جواب میں کچھ دلچسپ باتیں کی ہیں۔ان کی یہ بات قابل غور ہے کہ اردو کی نئی نسل میں سنجیدہ شاعرات کی نشاندہی بھی انہوں نے کی ہے اور وہ ادب کے مستقبل اور اس کے حال دونوں سے مکمل طور پر پر امید معلوم اور پرسکون دکھائی دیتے ہیں۔یہ مکالمہ بڑا سلجھا ہوا، دلچسپ اور کارآمد ہے۔امید ہے کہ آب سبھی کو ضرور پسند آئے گااور اس سے مزید باتیں بھی پیدا ہونگی۔
تصنیف حیدر: آپ کے افسانوں کا کرافٹ بڑا خوبصورت ہوتا ہے۔مجھے لگتا ہے کہ آپ کے الگ الگ افسانوی مجموعوں کے اسالیب مختلف ہیں ؟ کیا یہ بات درست ہے، ایسا کیسے ہوا ؟
احمد جاوید: اس میں شبہ نہیں کہ میرے ہر مجموعے میں ایک ہی مزاج یا موضوع کی کہانیاں ہیں اس طرح ہر مجموعہ دوسرے سے مختلف ہے۔ قصہ یہ ہے کہ میری پہلی کہانی تو 1966میں شائع ہوئی مگر اس وقت سے آج تک کے طویل عرصے میں میں نے بہت کم لکھا۔ اکثر تو یوں بھی ہوا ہے کہ دو مجموعوں کے درمیان پانچ سات سال کا عرصہ گذر گیا اور میں نے کوئی افسانہ نہیں لکھا۔ میرے لکھنے کا سلسلہ یہ رہا ہے کہ جب کوئی رو آتی ہے تو پھر اگلے دو تین برس ایک ہی مزاج یا موضوع پر کہانیاں سرزد ہوتی رہتی ہیں جنہیں ایک مجموعے میں اکٹھا کر دیتا ہوں میرا پہلا مجموعہ غیرعلامتی کہانی 1983 میں شائع ہوا، اس کتاب میں 1977 کے بعد کے افسانے ہیں۔ یہ زمانہ ہمارے ہاں بدترین آمریت کا دور تھا اسی لئےاس کتاب پر حبس گھٹن خوف مایوسی اورانکے متعلقات کے اثرات صاف دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہی صورت حال اپنے اپنے الگ پس منظر کے ساتھ ہر مجموعے کی ہے۔ میں نے ہر ایک مجموعے کے دیباچے میں اس فرق کی وضاحت کر رکھی ہے یقیناً آپ اسے نیا اور قدرے اجنبی تجربہ کہہ سکتے ہیں مگر بس ایسا ہی ہے۔اچھا آپ نے اسی سوال میں یہ بھی کہا کہ آپ کو لگتا ہے کہ میرے الگ الگ افسانوی مجموعوں کے اسالیب مختلف ہیں۔۔۔۔ بھائی اسلوب اگر شخصیت، نظریہ حیات،وژن اور منفرد تخلیقی اپچ کا نام ہے تو پھر اسے سب کتابوں میں یکساں طور پر موجود ہونا چائیے کہ کسی تخلیق کار کے پاس ایک ہی اسلوب ہو سکتا ہے جو اسکی شناخت ہوتا ہے۔۔۔ اگرکوئی ہو تو۔۔ اور آخر میں یہ کہ آپ کو میرے افسانوں کی کرافٹ پسند آئی۔۔۔ چلئے میری محنت ٹھکانے لگی۔
تصنیف حیدر: آپ کو کہانی کہنے کی بجائے کہانی سنانے کا فن زیادہ اچھا لگتا ہے شاید، ہاں یا نہیں، کیوں؟
احمد جاوید: آپ نے درست سمجھا۔۔۔۔ جی ہاں مجھے کہانی سنانے کا انداز بھلا لگتا ہےمگر میں نےاس کے سبب پر کبھی غور نہیں کیا البتہ اپنے آخری مجموعے رات کی رانی کےانتساب میں اپنی نانی مرحومہ کو یاد کیا ہے جن کی سنائی ہوئی کہانیوں کا صوتی اثر میں نے اکثر اپنے اندر اس وقت محسوس کیا ہے جب کوئی افسانہ لکھنے بیٹھا ہوں۔۔۔ ایک بات تو طے ہے کہ کہانی سنانے کے عمل میں مسلسل تحیر کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے جو سامع کو سحر میں مبتلا رکھتی ہے۔۔۔ میں نہیں جانتا کہ میں اس میں کس حد تک کامیاب ہوں۔
تصنیف حیدر: چڑیاگھر کی کہانیوں میں جانوروں کی نفسیات کے ذریعےانسانی جبلت پر روشنی ڈالی گئی ہے، کیا آپ ڈارون کی تھیوری کے زیراثر ایسی کہانیاں سوچتے ہیں یا اس کا محرک کچھ اور ہے؟
احمد جاوید: لکھتے ہوئے کبھی کوئی تھیوری تو میرے ذہن میں رہی نہیں آپ نےڈارون کا ذکر کیا مگر جانوروں کے حوالے سے لکھنے کا عمل تو ڈارون سے کہیں پہلے کااور بہت قدیمی ہے۔ لوک کہانیوں میں آدمی اور جانور ایک ساتھ سانس لیتے اور مکالمہ کرتے عام دکھائی دیتے ہیں۔ یہ مشرق میں ہی نہیں مغرب کا بھی طریقہ رہا ہے۔ ہماری دیہی حیات میں تو جانور کبھی کوئی الگ species نہیں سمجھے گئے۔ جدید عہد نے بس یہ فرق ڈالا ہے کہ اب اس حوالے سے درون ذات کی پراسرار گتھیاں کھولنے کاکام بھی لیا جا سکتا ہےاور معاشرے میں آدمی کے بدلتے رنگ بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ تاریخی ارتقا کے راستے میں تہذیب نے آدمی کے اندر سے جانوروں کی صفات کو معدوم کر دیا ہے مگر بعض مخصوص حالات میں ہم اپنی جبلتوں میں چھپی یہ شبہیں رویوں اور ردعمل کی شکل میں دیکھ سکتے ہیں ۔ یہ تو نفسیات کی بات ہے سماجی، معاشرتی اور سیاسی حوالے سے بھی اگر دیکھا جائے تو معاشرہ بھی ایک طرح سے آدمیوں کا جنگل ہی تو ہے، جس میں بھیڑیے بھی رہتے ہیں اور بھیڑ بکری بھی۔۔۔۔ حتی کہ پرندے اور حشرات الارض بھی۔۔۔۔ اس اعتبار سے یہ بات درست ہے کہ میں نے چڑیا گھر میں کہیں کہیں جانوروں کی نفسیات سے انسانی جبلت کو سمجھنے کی کوشش کی ہے، مگر ہر جگہ ایسا نہیں ہے بعض افسانوں میں یہ محض علامت یا تمثیل کے طور پر بھی ظاہر ہوے ہوئے ہیں۔ یہ تو موضوع اور واقعے پر منحصر تھا کہ وسیلے کو کیسے برتا جائے۔ ۔۔۔ بہرطور آدمی ہی میرے پیش نظر تھے جانور نہیں۔
تصنیف حیدر: پریم چند، انتظار حسین، سید محمداشرف ان سب نے جانوروں کی بولیوں کا تجربہ آزمایا ہے، پھر آپ کو اس کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟
احمد جاوید: یہ کیا بات ہوئی، ہر ایک کا اپنا تجربہ ہے، اپنا نقطہ نظر ہے۔۔۔ آپ نے تین نام گنوائے ہیں، ان میں کچھ اور بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ ہندو پاک میں تو قدیم سے یہ چلن ہے، کسی نے جانوروں کے حوالے سے اخلاقی سبق دیاتو کسی نےاپنی جڑوں کی تلاش کا ذریعہ بنایا، جبکہ تمثیل بنانے کا طریقہ تو عام ہے۔ کسی بھی وسیلے سے کام لینے پر کوئی بند تو ہے نہیں۔ آئندہ بھی جانوروں کے حوالے سے لکھا جا سکتا ہے۔
تصنیف حیدر: آپ کی کہانیوں میں زندگی کے اچھے برے تجربوں سے حاصل ہونے والے فلسفے جملوں کے بہترین پیرائےمیں ڈھل جاتے ہیں؟یہ شعوری عمل ہے یا غیر شعوری؟
احمد جاوید: افسانے میں یوں تو کوئی ایک ہی تجربہ ہوتا ہے جسے افسانہ نگار سامنے لانا چاہتا ہے مگر خود کہانی میں واقعے یا کرداروں کو قدم قدم پر تجربات کا سامنا ہوتا ہے جس سے ہر مرحلےپر کچھ ذیلی نوعیت کے نتائج بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں جن میں کوئ فکری بات ہوسکتی ہے، میرا طریق یہ ہے کہ میں ان نتائج کو ساتھ ساتھ جملوں کی شکل میں چنتا رہتا ہوں۔۔۔۔ اور ہاں نثر میں سارا کام تو غیر شعوری ہوتا نہیں، ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ جو جملہ لکھا جائے وہ کہانی کا حصہ بن کر سامنے آئے۔ اگر میرے ہاں ایسا ہوا ہے تو پھر شعوری اور غیر شعوری کا سوال غیر ضروری ہے۔
تصنیف حیدر: اس وقت پاکستان کی نئی نسل کیسا افسانہ لکھ رہی ہے؟
احمد جاوید: پاکستان میں اچھا افسانہ لکھا جا رہا ہے اچھی بات یہ ہے کہ جدید دور کے سنگین مسائل کی طرف سے بھی چشم پوشی نہیں ہے البتہ جیسا کہ ماضی میں ہوتا آیا ہے اسطرح کسی ایک رجحان کی ترجمانی اب دکھائی نہیں دیتی تحریکوں کے زمانے میں چونکہ تنقید زیادہ لکھی جاتی تھی اس لئے ساتھ ساتھ فنی معیار کے اصول بھی وضع ہو جاتے تھے اسطرح ایک پورے عہد کو بھی سمجھنے میں مدد ملتی اور کچھ رجحان ساز نام بھی ابھر کر سامنے آجاتے۔ خیر یہ کوئی شرط تو نہیں مگر بیسویں صدی میں ہم اس کے عادی ضرور رہے ہیں، اب البتہ اس کی خواہش ضرور ہے کہ کچھ نام ایسے بھی ہوں جنہیں ان کی کسی انفرادیت کے سبب سے لینے میں آسانی ہو۔۔۔ اور کوئی رجحان ایسا بھی ابھر کر سامنے آئے جو حقیقت نگاری اور علامت نگاری کی گذشتہ روایتوں سے آگے کا کوئی قدم ہو کہ کچھ نئے کی کمی بہرحال محسوس ہوتی ہے ورنہ اچھا برا ادب تو ہر دور میں لکھا جاتا ہے۔
تصنیف حیدر: سنگ میل سے آپ کی کہانیوں کا کلیات شائع ہو چکا ہے، کیا آپ نے کہانیاں لکھنی چھوڑ دی ہیں، یا ابھی اور بہت سے موضوعات ذہن میں ہیں؟
احمد جاوید: میرے افسانوں کا کلیات مجموعہ کے نام سے پورب اکادمی اسلام آباد نے شائع کیا ہے۔۔۔۔ لکھنا تو ترک نہیں کیا یہ ممکن بھی نہیں ۔ جدید عہد کے بڑھتے ہوے پیچیدہ مسائل نے موضوعات کا انبار لگا رکھا ہےالبتہ ان دنوں کچھ دیگر ادبی کاموں میں مصروف ہوں۔ایک ناول بھی زیر تکمیل ہے۔ ان سے فراغت پاؤں تو افسانہ لکھوں ۔
تصنیف حیدر: ساجد رشید، مشرف عالم ذوقی، رحمن عباس، شمو ئل احمد، پیغام آفاقی۔۔۔ ان میں سے کتنے ہندوستانی افسانہ نگاروں کو آپ پڑھ چکے ہیں، پسندوناپسند کے بارے میں بھی ضرور بتائیے۔
احمد جاوید: آپ نے جن افسانہ نگاروں کا نام لے کر پوچھا ہے ان کا دستیاب رسائل و جرائد کے توسط سے جستہ جستہ مطالعہ تو کر رکھا ہے مگر کتابوں کی عدم دستیابی کے باعث مجموعی مطالعے کی خواہش ابھی ادھوری ہے۔
تصنیف حیدر: شاعری کیسی لگتی ہے، کون سے شاعر بہت پسند ہیں؟ کیوں؟
احمد جاوید: یہ بہت دلچسپ سوال ہے کہ شاعری کیسی لگتی ہے۔ شاعری خالص تخلیقی فن ہے کسے اچھا نہیں لگتا۔ زمانہ طالب علمی میں میں نے بھی لکھنے کا آغاز شاعری سے کیا تھا مگر پھر بوجوہ نثر کی طرف رغبت ہو گئی لیکن اب بھی شعر کہنے کو بہت جی کرتا ہے۔ اور جہاں تک آپ کایہ سوال ہے کہ کون سے شاعر بہت پسند ہیں تو بھائی یہ تو کمرہ امتحان کا سوال ہےاور میں ہمیشہ سے ایک نالائق طالب علم ہوں، پھر آپ نے کسی عہد کا تعین بھی تو نہیں کیا۔ شاعری کی دو اڑھائی صدیاں ہیں، اس سے تو ایک طویل فہرست بن جائے گی۔ کیا اچھا ہوتا اگر آپ سوال کے پہلے حصے تک ہی محدود رہتے، خیر بات یہ ہے کہ کلاسیک کے سحر میں تو سبھی لوگ مبتلا ہیں اور میں بھی ہوں مگر ہر عہد کے بدلتے ہوے رجحانات نے بھی بے شمار عمدہ شاعر پیدا کئے ہیں، جن کی شناخت اب مسلمہ ہے۔۔ کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں اپنے وقت پر تو پذیرائی حاصل نہ ہوئی جس کےوہ حق دار تھے مگر بعد میں ان کی عظمت کو ضرور تسلیم کیا گیا۔ ان دنوں مجید امجد پر نقاد بہت مہربان ہیں اور ہونا بھی چائیے۔ اس میں شبہ نہیں کہ مجید امجد نے اپنا مقام اپنی شاعری کے دروبست سے منوایا ہے۔ وہ جس طرح اپنی ذات اور گردو پیش سے اداسی کشید کرتے ہیں اور پھر اس سےحیات و کائنات کا مفہوم پاتے ہیں وہ ایک جداگانہ اسلوب ہے۔ساٹھ کی جدیدیت نے بھی نظم اور غزل دونوں اصناف میں کئی رجحان ساز شاعر پیدا کئے جنہوں نے موضوعی، لسانی اور اسلوبیاتی سطح پر کئی نئی تبدیلیاں پیدا کیں اور آئندہ نسلوں پر بھی اثر انداز ہوئے۔ منیر نیازی، شکیب جلالی، ظفر اقبال، جیلانی کامران اور زاہد ڈار وغیرہم کتنے ہی شاعر ہیں جن کا ذکر کیا جا سکتا ہے، اگرچہ ان کا کلام انتخاب کرکے ہی پڑھا جا سکتا ہےاور ان حصوں ہی کی داد دی جا سکتی ہے جہاں ان کا انفراد نمایاں ہے۔ ستر کی دہائی سے بیسویں صدی کے اواخر کا زمانہ بھی بہت زرخیز ہے اور نئے تخلیقی امکانات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس عہد کےشاعر اب بھی منظر پر موجود ہیں اور اپنے کسی نہ کسی وصف سے اپنی اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں۔( ان میں سے ایک قابل ذکر شاعرابرار احمد کی نظموں کی پہلی کتاب کا تو میں نے دیباچہ بھی لکھ رکھا ہے)۔۔۔ اب تو خیر اکیسویں صدی کی نئی نسل بھی پروان چڑھ چکی۔ یہ بات دلچسپ ہےکہ نئی نسل میں شاعرات زیادہ سرگرم دکھائی دیتی ہیں۔ عارفہ شہزاد، سدرہ سحر عمران اور عنبرین صلاح الدین وغیرہ قاری اور نقاد دونوں کو چونکانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔۔۔ تو ایسا ہےکہ میں تو قاری ہوں سب کو پڑھتا ہوں، جو پسند آئے اس کی داد بھی دیتا ہوں، مگر کیا پسند کا کوئی جواز بھی ہوتا ہے؟ ہوتا تو ہے مگر یہ تو تنقید کا سوال ہے۔
تصنیف حیدر: فکشن کے حوالے سے شمس الرحمن فاروقی کی تنقید سے آپ کس حد تک اتفاق رکھتے ہیں؟
احمد جاوید: افسانے کے بارے میں فاروقی صاحب کے خیالات متنازعہ بھی ہیں اور ایک حد تک ناقابل فہم بھی… ان کا خیال ہے کہ افسانہ شاعری کے مقابلے میں تو ہیچ ہے ہی ناول سے بھی کم تر ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ ایسی ہی کم تر صنف ہے تو اسے ہندوستان میں داخل ہی کیوں ہونے دیا گیا اور اگر داخل ہو ئی گئی تھی تو اسے مقبول کیوں ہونے دیا گیا۔ تفنن برطرف ضرورت تو صرف اس بات کی تھی کہ بس اسی پر اکتفا کیا جاتا کہ ایک خاص وقت میں ایک خاص سرزمین پر افسانے کو کیوں مقبولیت حاصل ہوئی باقی باتیں از خود واضح ہو سکتی تھیں۔ تقابل میں تنقیص کا رویہ بدمزگی پیدا کرتا ہے یہ میں نہیں کہتا وارث علوی نے کہا ہے فاروقی کی تنقید غلط بھی ہے اور کینہ پرور بھی۔۔۔ وارث علوی کی بات میں جھنجھلاہٹ تو ہے مگر اس کے اسباب بھی ہیں۔خیر ایسا نہیں کہ فاروقی صاحب سرے سے ہی اس صنف کے خلاف ہوں مگر لگتا ایسے ہے جیسے وہ اس صنف کو ویسا دیکھنا چاہتے ہیں جیسے وہ انہیں پسند ہے۔
رات کی رانی |