راجہ گِدھ: منطق پر بانو قدسیہ کا ادبی حملہ از فاروق سلہریا
نوے کی دہائی میں بطور طالب علم جب میں پنجاب یونیورسٹی لاہور پہنچا تو دو کتابوں کا چرچا تھا۔ ہم جیسے بگڑے تگڑے راجہ انور کی ‘جھوٹے روپ کے درشن’ کا پرچار کرتے۔ یہ خوبصورت کتاب راجہ انور کے ان محبت ناموں پر مبنی ہے جو انہوں نے اپنے ایامِ طالب علمی میں اپنی محبوبہ کو لکھے تھے۔ لیکن ان خطوط نے پنجاب یونیورسٹی ہی نہیں انیس سو ستر کی دہائی میں طلبا کی سوچ اور سماجی رویوں کی بھی تجسیم کر دیا ہے۔ ستر کی دہائی والی پنجاب یونیورسٹی کا رومانوی نیو کیمپس، جس کا نقشہ راجہ انور نے کھینجا تھا، اْس گھٹن زدہ جامعہ پنجاب سے بہت مختلف تھا جس میں ہم جی رہے تھے۔ ‘جھوٹے روپ کے درشن’ پڑھتے تو احمد فراز کی نظم ‘ہم اپنے خواب کیوں بیچیں’ اور بھی اچھی لگتی۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ ‘جھوٹے روپ کے درشن’ کے مصنف اپنے ہی خوبصورت محبت ناموں سے منکر ہو چکے ہیں۔خیر اس مضمون کا موضوع البتہٰ بانو قدسیہ کا ناول ‘راجہ گدھ’ ہے جو ان دنوں نصابی کتابوں سے زیادہ سراہا اور پڑھا جاتا تھا۔ دو سال قبل کراچی جانے والی ریل گاڑی کے انتظار میں لاہور ریلوے اسٹیشن کے ایک بک اسٹال پر کتابوں کا جائزہ لے رہا تھا کہ ‘راجہ گدھ’ پر نظر پڑی۔ تجسس کے مارے میں نے کتاب اٹھا کر اس کی ورق گردانی شروع کر دی ۔ فوجی آمریتوں کی خدمت میں پیش پیش معروف ‘صوفی ہیوروکریٹ’ قْدرت اللہ شہاب کے نام منسوب اس کتاب کا یہ تیسواں ایڈیشن تھا جو 2012 میں شائع ہوا تھا۔ پہلا ایڈیشن انیس سو اکیاسی میں شائع ہوا تھا۔ گویا، اوسطا ہر سال ایک تازہ ایڈیشن مارکیٹ میں آ رہا ہے جو اس کتاب کی مستقل مقبولیت کا ایک ثبوت ہے۔ میں نے لاہور ریلوے اسٹیشن سے اس ناول کی ایک کاپی خریدی اور سارا راستہ اسے پڑھتا رہا۔
اگر سچ کہوں تو یونیورسٹی کے دنوں میں جب پہلی بار یہ ناول پڑھا تھا تو میں دم بخود رہ گیا تھا۔ اب کی بار البتہٰ میں دانت پیس کر رہ گیا۔ میری جھنجھلاہٹ کی وجہ ناول میں بیان کئے گئے رجعتی نظریات نہ تھے (جنہیں میں اب زیادہ بہتر سمجھ پایا تھا)۔ قدرت اللہ شہاب کے پیروکاروں سے اور توقع بھی کیا باندھی جا سکتی ہے۔ اصل کوفت اس بات پر محسوس ہو رہی تھی کہ مذہب کے لبادے میں ملبوس عوام مخالف اور عورت دشمن ایک بیانیہ اردو کلاسیک کا درجہ حاصل کرتا جا رہا ہے۔ یہ لیکن کوئی ایسی حیران کن بات بھی نہیں۔ رجعت پسندی کے دورِ عروج میں غالب امکان یہی ہوتا ہے کہ رجعتی ادب قبول عام کا درجہ حاصل کرے یا مقبولیت حاصل کرنے کے بعد اس مقبولیت کو برقرار رکھے۔ اگر رجعتی عہد میں رجعتی ادب مقبولیت حاصل کرتا ہے تو دوسری طرف مقبولِ عام رجعتی ادب رجعتی عہد کو دوام بخشتا ہے۔ ‘راجہ گدھ’ کی مقبولیت دیکھ کر شاید یہ بات بھی سمجھ آ جاتی ہے کہ ‘جھوٹے روپ کے درشن’ کرنے والے عشق مزاج لکھاری، سرمائے کے سچے درشن سے چکا چوند ہو کر مسلم لیگ میں کیوں جا پہنچے ہیں۔ ایسے قارئین کے لئے جنہوں نے یہ ناول نہیں پڑھا ان کی خدمت میں مختصراَ اس ناول کی کہانی پیشِ خدمت ہے۔
‘راجہ گدھ’ کے چار مرکزی کردار ہیں: پروفیسر سہیل جو گورنمنٹ کالج لاہور میں عمرانیات کے پروفیسر ہیں اور ان کے تین طالب علم، سیمی شاہ، آفتاب بٹ، اور قیوم۔ پروفیسر سہیل اپنے طلباء سے عمر میں چھ سال ہی بڑے ہیں، لیکن کہیں اس کے پاس ایک ایسا ہنٹر موجود تھا جو شیروں کو سدھا رنے والے استعمال کرتے ہیں۔ اسے کبھی کوئی کورس پڑھانا نہ آیا۔ لیکن وہ ذہنوں کا جوڈو کھیلنا جانتا تھا۔ نظریات کی کشتی کرانا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ اپنے شاگردوں کی کھوپڑیاں کھولنا اور خامی پا کر انہیں جوں کا توں بند کر دینا اسے جی سے پسند تھا۔ سلی ہوئی زبانیں آزاد کرا کے طوطے کی طرح باتیں کرانا اور ریڈیو کی مسلسل زبان بولنے والوں کو چپ کرانے کا فن بھی صرف اُسے آتا تھا۔ خوب آزادی برتتا اور ہر طرح کی آزادی دیتا۔ کوئی بات بھی اسے شاک نہ کر سکی۔ سوشیالوجی کے ساتھ ساتھ اسے ہر سبجیکٹ آتا تھا۔ اس لئے اس کی موجودگی میں فضا تعلیمی تصنع سے ہمیشہ پاک رہتی (ص ۹ )۔
سیمی شاہ ‘گلبرگی معاشرے کی پیداوار تھی’ ۔ لباس اور تراش خراش میں مغرب زدہ! قیوم شیخوپورہ کے ایک گائوں سے لاہور آیا ہے۔ واجبی سی شکل ہے اور ایک کتابی کیڑا ہے۔ اس کے بر عکس آفتاب کشمیری النسل لاہوری ہے۔ اندرون شہر کے ایک متمول خاندان کا یہ چشم و چراغ چندے آفتاب چندے ماہتاب کی مجسم شکل ہے۔ تینوں طالب علم محبت کی ایک مثلث میں بندھے ہوئے ہیں جبکہ پروفیسر سہیل اس مثلث کے پیچھے موجود ماہرِ اقلیدس ہیں۔ جیسے بھارتی فلموں میں ہوتا ہے ‘بیک برش اور شاور سے نہانے والی اس دُخترِ گلبرگ کو نہ جانے کیا ہوا کہ ایک کشمیری بچے سے اور وہ بھی اندرونِ شہر کے رہنے والے سے۔۔۔ مات کھا گئی۔ اس سے پہلے سیمی شاہ اور آفتاب کنکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے تھے۔ ایڈمیشن فیس داخل کراتے وقت، برآمدے میں آتے جاتے، لیکن [پروفیسر سہیل کے] اس تیسرے پیریڈ میں ان دونوں کی نگاہوں میں پہلے استعجاب ابھرا پھر ہیجان پیدا ہوا اور ایک ہی سیشن میں سب کچھ اعتراف میں بدل گیا۔ کلاس کے بعد دونوں اٹھے۔ ایک انجانی قوت کے تحت ساتھ ساتھ چلتے گئے۔ باہر پہنچ کر سیمی شاہ کچھ کہے بغیر آفتاب کی موٹر سائیکل پر بیٹھ گئی’ (ص ۱۵)۔
دریں اثنا قیوم بھی سیمی شاہ کی محبت میں پاگل ہو چکا تھا۔ سیمی جو آفتاب کی موٹر سائیکل پر بیٹھی تو ‘ایک خاص قسم کا بغض ، حسد اور اللہ واسطے کا بیر ’ قیوم کے دل میں آفتاب کے خلاف پیدا ہو گیا (ایضاَ َ)۔
ایک مرتبہ پھر جیسے فلموں میں ہوتا ہے: قیوم اور آفتاب ہاسٹل کے ایک ہی کمرے میں رہتے ہیں۔ دونوں روم میٹ تو ہیں دوست نہیں۔ دونوں ہی سیمی شاہ کا ذکر ایک دوسرے سے بھول کر بھی نہیں کرتے۔ ایک دن حسد میں جلتے قیوم کے لئے امید کی ایک ہلکی سی امید انگڑائی لیتی ہے۔ آفتاب کی منگنی بچپن میں ہی اپنی کزن سے طے ہو گئی تھی۔ سیمی شاہ کی پروا کئے بغیر وہ اپنی کزن سے شادی کر لیتا ہے۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد، بغیر تعلیم مکمل کئے، وہ لندن چلا جاتا ہے۔ ادہر دلبرداشتہ سیمی شاہ بھی پڑھائی چھوڑ کر راولپنڈی چلی جاتی ہے مگر قیوم کو بھول نہیں پاتی۔ وہ بار بار لاہور آتی ہے کہ یہاں وہ قیوم کے ساتھ آفتاب کی باتیں کر سکتی ہے۔ یہ سوچ کر کے قیوم اور آفتاب روم میٹ تھے اور چونکہ لڑکوں کے ہاسٹلز میں اکثر روم میٹ آپس میں جنسی تعلق قائم کر لیتے ہیں، وہ قیوم سے جسمانی تعلق قائم کر لیتی ہے (ص ۱۱۸)۔
اس منظر کو پڑھتے ہوئے مجھے محسن حامد کا ناول دی ریلکٹنٹ فنڈامینٹلسٹ یاد آیا۔ یقین کریں اگر بانو قدسیہ محسن حامد پر چربہ سازی کا مقدمہ دائر کر دیں تو اخبارات میں کچھ دن خوب مزے کی سرخیاں اور متن شائع ہوں گے۔ ممکن ہے بانو آپا یہ مقدمہ جیت بھی لیں۔ ممکن ہے مجھے ہی ایسا لگا ہو کہ محسن حامد کے ناول میں چنگیز اور ایریکا کا تعلق ہوبہو ایسا ہے جیسا کہ ‘راجہ گدھ’ میں قیوم اور سیمی شاہ کا۔ خیر۔
دی ریلکٹنٹ فنڈامینٹلسٹ کی ہیروئین ‘کی طرح’ سیمی شاہ بھی خود کشی کر لیتی ہے۔ سیمی شاہ کی خودکشی قیوم کو نیم دیوانہ بنا دیتی ہے۔ ایک دن ‘اتفاق’ سے اس کی ملاقات پروفیسر سہیل سے ہو جاتی ہے جو قیوم کو تانترا یوگا کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اسے بھی ایک دلچسپ فلمی اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ ادھر قیوم کو تانترا یوگا کا مشورہ ملا، جس کے لئے اسے ایک سیکس پارٹنر کی ضرورت ہے ادھر چیچہ وطنی سے ان کی ایک رشتہ دار خاتون، عابدہ، ان کے گھر آن ٹپکتی ہے۔ عابدہ کے ہاں بچے کی پیدائش نہیں ہو رہی۔ وہ اس کی ذمہ داری اپنے شوہر پر ڈالتی ہے اور طلاق لینا چاہتی ہے۔ قیوم اسے یہ امید دلاتا ہے کہ وہ اسے ماں بنا سکتا ہے اور یوں اپنے یوگا مقاصد کے لئے ایک عابدہ کو ورغلانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ عابدہ مذہبی سوچ رکھنے والی عورت ہے۔ وہ قیوم کی باتوں میں وقتی طور پر آ تو جاتی ہے مگر بعد میں اپنے شوہر کے پاس لوٹ جاتی ہے۔ انہی دنوں قیوم کو ریڈیو پاکستان میں ملازمت مل جاتی ہے جہاں اس کی ملاقات امتل سے ہوتی ہے۔ امتل شاہی محلے سے تعلق رکھتی ہے اور ریڈیو پر کبھی کبھار اسے کام مل جاتا ہے۔ چالیس سالہ امتل اب عمر کے اس حصے میں ہے کہ جب نہ وہ اپنی آواز بیچ سکتی ہے نہ بدن۔ گو دوںوں ایک دوسرے کو پسند کرنے لگتے ہیں لیکن دونوں کے مابین جسمانی تعلقات قائم نہیں ہو پاتے۔ ایک دن امتل کی دعا قبول ہو جاتی ہے:پاگل پن کا شکار اس کا اپنا بیٹا اسے قتل کر دیتا ہے۔
پے در پے حادثوں سے پریشان ہو کر تنہائی کا شکار قیوم باقاعدہ شادی کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ اس کی البتہ ایک ہی شرط ہے کہ اس کی ہونے والی بیوی باکرہ ہونی چاہئے۔ اس کی بھابی اس کے لئے اندرون شہر سے روشن کا انتخاب کرتی ہے۔ سہاگ رات والے دن یہ عقدہ کھلتا ہے کہ روشن تو حاملہ ہے اور شادی سے قبل اس کے اپنے محلے دار افتخار سے تعلقات تھے جو اب سعودی عرب جا چکا تھا۔
قیوم منٹو کا کوئی کردار ہوتا تو وشن کے پھولے ہوئے پیٹ کو محبت سے چوم لیتا۔ قیوم البتہ بانو آپا کی اختراع ہے لہذا وہ افتخار کو سعودی عرب سے بلوا کر روشن کو اس کے حوالے کرتا ہے اور خود پروفیسر سہیل کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ پروفیسر صاحب دریں اثنا مابعد الطبیعات کی جانب مائل ہو چکے تھے۔ وہ قیوم کو لےکر ‘سائیں جی’ کے پاس پہنچ جاتےہیں۔ سائیں جی، بابا یحیٰ کی طرح وہ پہنچے ہوئے بزرگ ہیں کہ اگر ‘وہ چاہیں تو موت کا حجاب اٹھا کر تمہیں ادھر کی دنیا کا رخ دکھا سکتے ہیں’(ص۴۱۸)۔ وہ روحوں کو بلوا سکتے ہیں اور دلوں کا حال جانتے ہیں۔ قیوم کے دل میں خواہش جاگتی ہے کہ وہ سیمی شاہ کی روح سے ملاقات کرے۔ یہ ملاقات ہو ہی جاتی مگر کیا کریں سائیں جی کی ساری پہنچ کے باوجود ‘ملاقات صرف اس کی ہی ہو سکتی ہے جس کی قبر کا نقشہ ذہن میں ہو ’ (ص ۴۲۴)۔ قبر کا اتہ پتہ قیوم کو معلوم نہ تھا۔ کچھ سوچ بچار کے بعد بابا جی اس کا بھی کوئی حل نکالنے کا وعدہ کرتے ہیں اور قیوم کو ایک دفعہ پھر آنے کا کہتے ہیں۔ اتفاق سے جس دن قیوم سیمی شاہ کی روح سے ملنے بابا جی کے پاس پہنچتا ہے، اتفاق سے اس دن بابا جی ہمیشہ کے لئے غائب ہو جاتے ہیں۔
ان سب اتفاقات کے پیچھے البتہ ایک گرینڈ اسکیم ہے۔ گرینڈ اسکیم بھی خوامخواہ نہیں، اس کے پیچھے ایک گرینڈ تھیوری ہے۔ جی ہاں! اور وہ تھیوری ہے بانو آپا کا نظریہ حلال و حرام۔
اس نظریہ حلال و حرام پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے (ص ۲۷۴ تا ۲۸۱): ہمارے حلال اعمال اور حرام کاریاں ہماری جینز کا حصہ بن جاتے ہیں۔ پاگل پن کی وجہ حرام جینز ہیں۔ جس انسان کی جینز میں حرام داخل ہو جاتا ہے اس کی قسمت میں پھر گدھ کی طرح مردار کھانا ہی رہ جاتا ہے۔ اس نظرئے کی سچائی کو ثابت کرنے کے لئے ‘سائنس’ کا سہارا بھی لیا گیا ہے۔ لیکن کونسی سائنس؟
یوجینکس کے نسل پرستانہ نظریات! (دیکھئے ص: ۶۶ تا ۶۷، ۱۱۱، ۱۴۲، ۱۴۹، ۳۳۷، ۳۴۲ تا ۴۳، ۳۶۱، ۴۴۴)۔
ہاں البتہ انہوں نے یوجین کے نسل پرستانہ نظریات کو پیر و مرشد ضیا الحق کی طرح اسلامائز ضرور کیا ہے۔ اب اگر اسلامی یوجینکس کی روشنی میں قیوم کے کردار کو دیکھیں تو سمجھ آئے گی کہ وہ سیمی شاہ اور عابدہ سے کیوں تعلقات قائم کر پاتا ہے مگر امتل اور روشن سے نہیں۔
دراصل قیوم کی ماں کو اس کا باپ بلھے شاہ کے مزار سے بھگا کر لایا تھا (مزار کا انتخاب کم معنی خیز نہیں)۔ نہ صرف دونوں کے نکاح کا ہمیں ناول میں کوئی ذکر نہیں ملتا بلکہ ایک ہلکا سا اشارہ یہ بھی موجود ہے کہ قیوم کی ماں اس کے باپ مقصود سے ہی نہیں بلکہ باپ کے ایک رشتہ دار (جو ان کے گھر میں ہی رہتا ہے) سے بھی جسمانی تعلقات رکھتی تھی۔ بلھے شاہ کے مزار سے جس گناہ کا آغاز ہوا وہ زنا کی ایک مثلث میں بدل گیا: مقصود، قیوم کی ماں اور قیوم کا چچا۔ قیوم زنا کی پیداوار ہی نہیں بلکہ صدیوں سے قتل و غارت کرنے والے راجپوت قبیلے کا رکن ہے۔ گویا اس کی نس نس میں حرام کے جینز ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اس کے حصے میں یا تو مغرب زدہ سیمی شاہ آتی ہے یا عابدہ جو اپنے شوہر سے بے وفائی کر رہی ہے۔ اس کی قسمت میں باکرہ عورت نہیں ہے۔ با پردہ روشن سے اگر کوئی بھول چوک ہو بھی گئی ہے تو اسے سعودی عرب کی مقدس سرزمین روانہ کر دیا جاتا ہے۔ البتہ سیمی شاہ کو موت بھی ، اسلامی نقطہ نگاہ سے، حرام والی (خود کشی) نصیب ہوتی ہے۔ رہی امتل تو وہ خود گدھ ہے۔ گدھ ایک دوسرے کو نہیں کھاتے۔ البتہ امتل کے گناہوں (زنا کی زندگی) کی سزا ‘پاگل پن’ کی شکل میں اس کی اولاد بھگت رہی ہے۔ ہمیں مزید بتایا جاتا ہے کہ ‘پاگل پن’ دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک گناہوں کی سزا، دوسرا ایک نعمت۔ ثانی الذکر کی مثال آفتاب کا لندن میں پیدا ہونے والا بیٹا ابراہیم ہے جو بظاہر مخبوط الحواس ہے مگر اصل میں اس کی دیوانگی ایک پردہ ہے۔ یہ معصوم سا بچہ مافوق الفطرت قوتوں سے ہم کلام ہوتا ہے۔ وہ خوبصورت لحن میں اذان دیتا ہے اور انتہائی مذہبی ہے (ص ۴۵۰)۔
یہ کہ آفتاب کا خاندان قالین سازی کا کاروبار کرتا ہے، کیا ان کے کامیاب کاروبار میں چائلڈ لیبر اور قالین بنانے والے مزدوروں کا استحصال بھی شامل ہے؟ کیا استحصال حرام ہے یا حلال ؟ اگر استحصال حرام ہے تو کیا اس قسم کی حرام زدگیوں سے جینز کرپٹ ہوتے ہیں یا شدھ ہی رہتے ہیں؟ ایسے کافرانہ سوالوں پر بحث نہیں کی گئی۔
حلال حرام کی یہ تھیوری ایک ایسے وقت پیش کی گئی جب ملک پر استخارہ کرکے منتخب وزیر اعظم کی زندگی موت کا فیصلہ کرنےوالے ایک ایسے آمر کی آمریت قائم تھی جو بھٹو دور کی مزدور دوست اصلاحات کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ساتھ عورتوں اور اقلیتوں کے حقوق پر شب خون مار رہا تھا۔ وہ جدیدیت کی ہر علامت پر حملہ آور تھا۔ اس لئے راجہ گدھ کی اشاعت محض ایک ادبی معمول نہ تھا۔ یہ بات بھی ذہن نشیں رہے کہ بانو قدسیہ، ان کے شریک حیات اور فرقہ شہابیہ کے دیگر ارکان ضیائی آمریت کی نظر التفات کا مرکز سمجھے جاتے تھے۔ یہ وہی آمریت تھی جس نے چار بہادر صحافیوں (ناصر زیدی، خاور نعیم ہاشمی، اقبال جعفری، مسعود اللہ حان) کو کوڑے مارے، جالب کو جیل میں ڈالا اور فیض کو جلا وطنی پر مجبور کیا۔ دلچسپ اتفاق ہے کہ صوفی منش لکھاریوں کو ایک بے رحم دھرم وادی آمریت نے دن بھر کے لئے پی ٹی وی پر بھی پابند نہیں کیا۔
یہ بھی یاد رہے کہ یہ وہی دور ہے جب ملک کے اعلی ترین سائنس دان جنوں سے بجلی نکال کر لوڈ شیڈنگ کے خاتمے پر مقالے لکھ رہے تھے (آغا وقار کی پانی سے چلنے والی گاڑی اسی سائنسی تحقیقی سلسلے کی اگلی کڑی ہے)۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو ‘راجہ گدھ’ سیاسی لحاظ سے بہت اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ ضیائی آمریت نے جن رائٹ ونگ اور رجعتی معاشی، معاشرتی اور سیاسی رجحانات کو ریاستی اداروں اور سماج شعبوں میں پروان چڑھایا، بالکل انہی سوچوں اور اسی بیانئے کا پرچار‘ راجہ گدھ’ بھی کرتا ہے۔ یوں ضیائی آمریت اور ‘راجہ گدھ’ کی سیاست میں ایک اتحاد قائم ہو جاتا ہے۔
‘راجہ گدھ’ کی کیمونسٹ دشمنی:
کیمونسٹ دشمن نظریات کا پرچار ناول کے اٹھارویں صفحے سے ہی شروع ہو جاتا ہے البتہ کیمونزم کے نظریات پر بحث کی بجائے جماعت اسلامی کی طرح بانو قدسیہ بھی چند سرخوں کو نشانہ بناتی ہیں (ویسے قراۃ العین کا طریقہ واردات بھی یہی ہے)۔ ایک طرف تو وہ سرخوں کے دوہرے معیار (یا منافقت کہہ لیجئے) کو اجاگر کرتی ہیں۔ اس کی مجسم مثال پروفیسر تنویر ہیں جو بی اے میں قیوم کے استاد تھے۔ ذرا ملاحظہ فرمائیں کیمونسٹ حضرات کی نمائندگی راجہ گدھ میں کس طرح کی گئی ہے:
قیوم کے بقول ‘‘پروفیسر تنویر ہمیشہ فارن سگریٹ پیتے۔ ان کے تھری پیس سوٹ بے داغ ہوتے۔ چہرے پر موٹے شیشوں کی عینک ہوتی۔ کلاس کے علاوہ وہ ہمارا ٹٹوریل بھی لیتے تھے۔ انہوں نے بھی ان گنت کتابیں پڑھی تھیں۔ ان کا مطالعہ مجھے مرعوب کرتا تھا۔ کیونکہ میری اولین تعلیم دیہاتی تھی۔ اس لئے میں فیوڈل نظام پسند کرتا تھا۔ وہ پکے سوشلسٹ تھے ۔ تھیوری کی حد تک وہ معاشرے کی ہر مصیبت کو دولت کی غلط بانٹ سے منسوب کرتے تھے۔ بی اے کے پہلے سال انہوں نے مجھے گرا لیا۔ لیکن ایک سال ان کا سایہ بنے رہنے کے بعد مجھے پتہ چلا کہ وہ ایک اور قسم کے ماسٹر غلام رسول ہیں۔ وہ دل سے سوشلسٹ تھے مگر کتابی طور پر۔ ان کا رہنا سہنا ، ملنا ملانا، زندگی بسر کرنے کی چھوٹی چھوٹی جزیات کسی فیوڈل لارڈ کی سی تھیں۔ مشکل یہ تھی وہ نہ اپنے سوشلسٹ نظرئے پر تنقید برداشت کرتے تھے ، نہ اپنے طرزِ زندگی پر’’۔
اس تمہید کے بعد قیوم ایک واقعہ بیان کرتا ہے: ‘‘بی اے فائنل کے امتحانوں سے کچھ دن پہلے کی بات ہے وہ کلاس میں سگریٹ پینے کی اجازت دے کر اپنے روشن خیال ہونے کا ثبوت دے رہے تھے۔
میں کھڑا ہو کر بولا ـ ‘‘سر ایک بات ہے ’’
‘‘سگریٹ مت بجھاؤ ہم دوست ہیں پوچھو۔ اور بیٹھے رہو’’
‘‘ سر آپ ہر روز ہمیں بتاتے ہیں کہ روپیہ تھرڈ ورلڈ ذلت کی جڑ ہے پھر آپ اپنی کا ر بیچ کر معمولی موٹر سائیکل کیوں نہیں خرید لیتے؟’’۔۔۔ پروفیسر تنویر کا چہرہ لال ہو گیا۔ انہوں نے اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے کہا ‘‘یہ بالکل پرسنل سوال ہے بیٹھ جاؤ ۔۔۔ بے وقوف گدھے اگر میں کار بیچ دوں تو کالج کیسے آؤں گا؟’’
جب قیوم نے دوغلے کیمونسٹ پروفیسر کو سائیکل پر آنے کا مشورہ دیا تو ‘پروفیسر کے منہ سے جھاگ نکلنے لگی اور وہ دونوں بازو لہرا لہرا کر بولے ‘‘مینڈک کی کھوپڑی ڈھائی انچ کی ہوتی ہے اور اس میں مارکس کے نظریات بٹھانا چاہتے ہیں۔ بیٹھ جاؤ’’ (ص ۱۸ تا ۲۰)۔
دوسری طرف پروفیسر سہیل بھی ‘بیک وقت دہریہ، کیمونسٹ، اللہ رسول کا ماننے والا’ ہے (ص ۲۴۰) لیکن اس بھٹکے ہوئے کیمونسٹ کو ناول ختم ہوتے ہوتے ہدایت مل جاتی ہے اور وہ سیدھا سائیں جی کے ڈیرے پر پہنچ جاتے ہیں۔ کچھ دیر کے لئے تو قیوم کو بھی سوشلسٹ بنا کر پیش کیا گیا ہے لیکن وہ بھی کتابی سوشلسٹ ہے جو بھوک کے مسئلے کو سمجھ ہی نہیں سکا (ص۸۳) (شاید قیوم کو سوشلسٹ دکھانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ وہ زنا کی پیداوار ہے، گدھ ہے)۔ ایک اور سوشلسٹ راجہ گدھ کا ایک مختصر سا کردار ‘حیدر‘ ہے۔ سیمی شاہ وقتی طور پر حیدر کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کر لیتی ہے۔ یہ معاملہ زیادہ دیر چلتا نہیں، یوں حیدر کا کردار دوبارہ نظر نہیں آتا۔ ہاں البتہ دیگر سوشلسٹوں کی طرح حیدر بھی ایک امیر زادہ ہے جس کی زندگی منافقت اور دوہرے معیار سے بھری ہوئی ہے۔
کیا یہ محص مابعد الطبیعاتی یا ‘صوفیانہ’ اتفاق ہے کہ ‘راجہ گدھ’ میں نظر آنے والا ہر سوشلسٹ ایک پیٹی بورژوا منافق ہے؟ اتفاق سے ‘راجہ گدھ ’ کی اشاعت کے وقت مارکس وادی نظریات سے متاثر ہزاروں سیاسی کارکن اور طلبا ضیا آمریت کی مزاحمت کر رہے تھے۔ ان کی بڑی اکثریت محنت کش یا سفید پوش طبقے سے تھی۔ بہت سے تو جان سے بھی گئے۔ رزاق جھرنا سوشلزم زندہ باد کہتا ہوا پھانسی گھاٹ تک گیا۔ نذیر عباسی ایک فوجی عقوبت خانے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ ممکن ہے ‘پروفیسر تنویر’ جیسا کوئی کردار سچ میں موجود ہو (مارکسی تحریک سے اپنی پچیس سالہ وابستگی کے دوران راقم کو تو البتہ ایسا کوئی کردار کبھی دیکھنے سننے کو نہ ملا) لیکن قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر جمیل عمر بھی تو تھے جنہیں جمہوریت کے حق میں پمفلٹ بانٹنے پر ضیا کے اسلامی عقوبت خانے میں ہر طرح کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
بے دین اشتراکیت ہی ایک مسئلہ نہیں ’راجہ گدھ’ میں مغرب بھی اخلاقی زوال کا نمونہ اور بے روح سماج ہے۔ ‘راجہ گدھ’ کی اصل ولن البتہ ‘مغرب زدہ’ عورت ہے ۔ سیمی شاہ اس اخلاق باختہ عورت کی نمائندہ ہے : اس کا جسم ایک جنس ہے۔ وہ جنسی طور پر فرسٹریشن کا شکار ہے (ص ۴۸)۔ ‘مغربی تعلیم نے اس کے اندر ایک خاص قسم کی منفرد وفا پیدا کر دی تھی جس کا تعلق صرف روح سے تھا۔ اسے جسمانی تعلقات کی رتی برابر پروا نہ تھی’ (ص ۱۱۲)۔ ‘وہ خود سر، ضدی، خوب پڑھی لکھی اور فیشن ایبل تھی۔۔۔ وہ اصلی معنوں میں ماڈرن تھی ، کیونکہ ہر ننگے لباس میں وہ ڈھکی ہوئی رہتی’ (ص ۱۲۰)۔ وہ یونین کے الیکشن میں بھی حصہ لیتی ہے اور نعرے لگانا، جھنڈا اٹھانا بھی جانتی ہے (ایضا)۔ ‘ماڈرن لڑکی کو اپنی جذباتی زندگی پر قابو پانا نہیں آتا’ (ص ۱۷۹)۔ ‘یہ پڑھی لکھی لڑکیاں کتنی ضدی ہوتی ہیں۔ اپنی ضد کی راہ میں وہ اپنے آپ کو بھی تباہ کرنے سے نہیں چوکتیں’ (ص ۱۸۳)۔ تعلیم یافتہ عورتیں انتہائی جھوٹی ہوتی ہیں (ص ۵۹)۔ ‘تعلیم یافتہ گھر سے نکلی ہوئی عورت بڑی ظالم ہوتی ہے’ (ص ۱۸۷)۔ ان عورتوں سے نمٹنے کے لئے قدرت نے گدھوں کی شکل میں انتظام کر رکھا ہے (دیکھئے ص ۱۹۱)۔ بانو قدسیہ کی عورت دوستی کے یہ چند نمونے تھے۔ پورا ناول ایسے فیمنسٹ خیالات سے مزین ہے۔
کیا نجات کی کوئی امید ہے؟ جی ہاں!
پیری فقیری اختیار کیجئے۔ روحانیت کے سفر پر نکل کھڑے ہوں۔ کسی قدرت اللہ شہاب یا واصف علی واصف کے ہاتھ پر بیعت کیجئے۔ روحانیت کا رنگ بھرنے کے لئے ‘راجہ گدھ’ میں جنوں، چڑیلوں اور کشف و کرامات کے ڈرامائی مناظر بھی جا بجا شامل ہیں۔ روحانیت پر سائنس کی ملمع کاری بھی کی گئی ہے لیکن بے دھرم سرخوں اور مغرب زدہ لبرل فاشسٹوں کی تنقید سے بچنے کے لئے سائنس کو جزوی استعال کے بعد ترک کر دیا جاتا ہے اور حلال و حرام کی تھیوری میں ایک استثننا متعارف کرائی جاتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ شہید اور پیغمبر اس تھیوری سے مبرا ہیں (ص ۲۸۱)۔ دو سو پچانوے اے، بی اور سی کے خوف سے میں اس نکتے پر بحث نہیں کرنا چاہتا لیکن از راہ تفنن ایک بات ضرور کہوں گا: بانو قدسیہ نے ہم جنس پرستی کا احاطہ نہیں کیا۔ حلال حرام کی تھیوری کے مطابق تو ہم جنس پرستی سیف سیکس ہے کہ حرام جینز ٹرانسفر ہونے کا کوئی امکان ہی نہیں رہتا۔
تو ‘راجہ گدھ’ سے کیا اسباق اخذ کئے جائیں؟
اول: احتجاج نہ کیا جائے۔ اس کی ایک مثال: آفتاب قیوم سے کہتا ہے ‘‘میں احتجاج کرنے کے خلاف ہوں۔ تہلکہ مچانے والے صرف اپنا نقصان ہی نہیں کرتے سب کو برباد کرتے ہیں ’’ سیمی شاہ اس حقیقت کا ایک ثبوت ہے (ص ۶۶)۔
دوم: اسٹیٹس کو status quo کو چیلنج نہ کیا جائے۔ ‘‘ فیصلے ہم میں شروع سے ڈال دئے جاتے ہیں۔ چوری چوری ہماری مرضی پوچھے بغیر۔ ہر انسان کے اندر ایک خمیر ہوتا ہے۔ سرسوں کے بیج میں یہ فیصلہ ہوتا ہے اس کا زرد رنگ ہو گا۔ تربوز کاٹو تو اس کے ہر بیج میں یہ فیصلہ ہوتا ہے کی اس سے جنم لینے والا تربوز سرخ ہو گا ’’ بالکل اسی طرح ‘‘جو آدمی چور بنتا ہے اس کے وجود کو غارت گری کا خمیر لگا ہوتا ہے۔ کہیں۔۔۔ جس کے اندر غارت گری کا خمیر نہیں ہو گا۔۔۔ کبھی چور نہیں بن سکے گا’’ (ص ۶۶)۔ ہمارے اندر کونسا خمیر بھرا جائے گا اس کا فیصلہ ہمارے حلال اور حرام جینز کی بنیاد پر ہو گا ۔ گویا ہمارے آباؤ اجداد جو کرگئے ہیں، وہ ہمیں بھگتنا ہو گا۔ منافق مارکس وادی حضرات زیادہ شور مت مچائیں۔ ویسے بھی جو اچھے مارکس وادی ہیں وہ پروفیسر سہیل کی طرح آخر میں کسی سائیں جی کے ہاتھ پر بیعت کر لیتے ہیں۔
سوم: مغرب زدہ اخلاق باختہ عورتیں معاشرے کا ہی ناسور نہیں، وہ اپنا برا بھلا بھی نہیں سمجھتیں۔ ‘اتفاق’ سے ضیا آمریت کو اول اول للکارنے والی چند عورتیں ہی تھیں۔
چہارم: برائی کو گناہ تک محدود کر دیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ گناہ (زیادہ زور زنا اور مالی بد عنوانی پر ہے) ایک انفرادی فعل بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ بانو قدسیہ کی حلال حرام والی تھیوری کو اگر ضیا الحق کے نافذ کردہ حدود آرڈیننس (جو انہی دنوں نافذ ہوا جب یہ ناول شائع ہوا) کا جواز بھی بنیا جا سکتا ہے جبکہ بدعنوانی کے بارے میں پیش کیا گیا بیانیہ تحریک انصاف کے نقطہ نظر سے میل کھاتا ہے۔ سامراج، آمریت، طبقاتی جبر، فوجی آمریت، استحصال، قومی جبر وغیرہ ‘راجہ گدھ’ میں پیش کی گئی تھیوری میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ وہ اپنی تھیوری کے دفاع میں شہیدوں اور پیغمبروں کو تو استثنا فراہم کرتی ہیں مگر زنا بالجبر کا شکار ہونے والی عورتوں کے بارے خاموش ہیں۔ کیا داعش کے جہادی یزیدی کنیزوں کی کوکھ میں حرام جینز بھر رہے ہیں یا حلال؟ بانو قدسیہ اس بابت خاموش ہیں۔
قصہ مختصر: راجہ گدھ’ سائنس، منطق، عقل اور جدت خیالی پر ایک حملہ ہے۔ بانو قدسیہ عطائی سائنس کی مدد سے سائنس کو غلط ثابت کرنا چاہتی ہیں۔ وہ ملک میں پائے جانے والی اس عام فہم سوچ کو پروان چڑھا رہی ہیں کہ مغرب کی ترقی ہماری روحانیت کے مقابلے میں کھوکھلی ہے ۔ یوں وہ پاکستانی قوم کی جھوٹی انا اور احساس کمتری کا تریاق فراہم کرتی ہیں۔ روحانیت کو بھی بابوں، جنوں اور کشف و کرامات تک محدود کر دیا گیا ہے۔ سچ تو یہ ہے جس طرح کی روحانیت کا پرچار بانو قدسیہ اور قدرت اللہ شہاب کے پیروکار کرتے ہیں وہ بابا بلھے شاہ، سرمد شہید اور شاہ حسین کی انسان دوست صوفی روایت پر حملہ ہے۔ ان حضرات کا صوفی سبز چوغے میں ایک کٹر ملّا ہے۔ سبز چوغہ ورغلانے کے لئے ایک برانڈ ہے اور یہ ملّا ضیا الحق کی دھرم وادی آمریت کا اتحادی ہے۔
اگر طالبان اور دیگر گروہوں کو ہم ضیا آمریت کی سیاسی باقیات کہتے ہیں تو ‘راجہ گدھ’ اور قدرت اللہ شہاب کے پیروکاروں کی انیس سو اسی میں تصنیف کی گئی تحریروں کو ہم ضیا عہد کی ادبی باقیات قرار دے سکتے ہیں۔
(فاروق سلہریا اسٹاکہوم ، سوئیڈن میں مقیم صحافی اور ادیب ہیں)