سائے
Muhammad Amir Rana – محمد عامر رانا
Hardcover: 112 pages
|
محمد عامر رانا ہمارے عہد کے جواں سال اسٹرائیجک تجزیہ نگار ہیں جنھوں نے اپنے کام سے عالمی شہرت حاصل کی ہے۔ اُن کی زندگی کا آغاز بطور افسانہ نگار اور صحافی تھا۔ اُن کے افسانوں کا پہلا مجموعہ چند سال پیش تر ’’ادھوری محبتیں اور پوری کہانیاں‘‘ شایع ہوا اُن کے اسلوب کی سادگی اور باریک بینی نے قارئین کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔ اس مجموعے میں شامل ایک افسانے ’’بانو کے زخم ابھی ہرے ہیں‘‘ کو ہم اُن کی بہترین افسانہ قرار دے سکتے ہیں جس میں ایک نسوانی کردار کی الم ناک زندگی کو پیش کیا گیا ہے۔ ’’سائے‘‘ عامر رانا کا پہلا ناول ہے جو چند ماہ پہلے شایع ہوا ہے۔ اس ناول کی اشاعت سے ہمیں یہ اطمینان بھری اطلاع ملی ہے کہ عامر رانا نے اپنے اندر کے تخلیق کار کو زندہ رکھا ہے اور اپنی بے پناہ دیگر مصروفیات کی نذر نہیں ہونے دیا۔ فنی اعتبار سے عامر رانا کا یہ ناول حقیقت پسندی کی روایت سے جڑا ہے لیکن یہاں سادہ حقیقت نگاری سے کچھ زیادہ ہے۔ فرد کاخارج اُس کے باطن سے جڑا ہے اور کردار حقیقی زندگی کا عکس لیے ہیں لیکن معاشرتی جبر اور محبت کے ہاتھوں مٹتے ہوئے یہ لوگ ڈھلتے سایوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ ناول نگار نے اپنے ناول کو چھوٹے چھوٹے ۲۸ ٹکڑوں میں تقسیم کیا ہے۔ ہر ٹکڑا ایک الگ کیفیت، حالات حال اور تجربے کا بیان ہے۔ ناول کا مرکزی کردار ’’میں‘‘ آغاز سے انجام تک ناول میں اپنی متحرک موجودگی کا پتا دیتا ہے۔ ناول کا آغاز ڈرامائی ہے جس میں کچھ لوگ دیوار کی طرف منہ کیے کھڑے ہیں اور انھیں خطرہ ہے کہ پیچھے سے انھیں گولی مار دی جائے گی۔ جب کافی وقت گزرنے کے بعد کچھ بھی نہیں ہوتا تو وہ ہاتھ گرا کر ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں اور پہچان کر حیران ہوتے ہیں۔ وہ بچ جانے پر خوش ہیں لیکن ایک دوسرے کے بارے میں شکوک بھی رکھتے ہیں کہیں وہی تو گولی مارنے والا نہیں تھا۔ ایک نقطے کو ناول کے آخر میں دھماکے کی آواز سے جوڑا گیا ہے لوگ اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگ رہے ہیں۔ یوں تکنیکی سطح پر ناول کی کہانی کو ایک دائرے کی شکل دی گئی ہے۔ ناول کے دوسرے باب سے کہانی آغاز ہوتی ہے جب میں اپنے ہی شہر میں گم ہونے کے تجربے سے آشنا ہوتا ہے۔ اُس نے اپنے آپ کو اس حد تک تبدیل کر لیا ہے کہ اُس کے قریبی دوست اُسے شناخت کرنے سے قاصر ہیں لیکن وہ جب کو پہچان سکتا ہے۔ وجودی سطح پر ہونے اور نہ ہونے کے تجربات کے درمیان جھولتا یہ کردار ہمیں رفتہ رفتہ اپنی اور اس شہر لاہور کی کہانی سناتا ہے کہ کیسے یہ شہر، بے گانگی اور بربریت کا شکار ہوا۔ ناول کے کردار مال روڈ لاہور کے اردگرد زندگی بسر کرتے لوگ ہیں۔ خاص طور پر وہ لوگ جو مادی زندگی کے معیارات کو ترک کر چکے ہیں۔ ’’نصیر‘‘ جو جانوروں اور پرندوں کے حق میں ہاتھ سے پوسٹر لکھ کر آواز اٹھاتا ہے۔ ’’اُس کے پوسڑوں کی احتجاجی عبارتیں معاشی، معاشرتی، ثقافتی اور مذہبی عدم توازن میں مبتلا شہر میں کسی خبطی ذہن کی پیداوار معلوم ہوتی تھیں۔‘‘ ’’میں‘‘ کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہے اور ڈاکٹر کا خیال ہے کہ وہ چند ماہ کا مہمان ہے۔ تخلیق کار نے کینسر کے مرض میں مبتلا شخص کی کیفیات اور محسوسات کو نہایت عمدگی سے بیان کیا ہے کہ یہ مرض ملزم کو مجرم میں بدل دیتا ہے اور جسم ذہن، روح اور وجود کو الگ الگ کر دیتا ہے۔ یہاں عامر رانا کینسر کو آمریت سے جوڑ دیتے ہیں اور ’’میں‘‘ کردار کے دوست ’’امجد‘‘ سے ایک جملہ کہلواتے ہیں کہ ’’یہ جو آمریت ہے اس کے اثرات اس کے ختم ہونے کے بیس برس بعد نکلیں گے، جب ذہنی طور پر مفلوج، مفعول اور بزدل نسل برآمد ہوگی۔ ’’امجد‘‘ میں کے کردار کا الٹ یا دوسرا رخ ہے۔ دونوں کی عادات اور ترجیحات میں بہت فرق ہے لیکن اس کے باوجود دوستی کا رشتہ بہت مضبوط ہے لیکن اس رشتے میں دراڑ ’’عافیہ‘‘ ڈالتی ہے جسے پانے کے لیے ’’میں‘‘ اپنے دوست امجد سے تصادم مول لیتا ہے اور اپنے مقصد میں کام یاب ہو جاتا ہے۔ مگر اب زندگی اُسے ایسے موڑ پر لے آئی ہے کہ اُسے ’’عافیہ‘‘ کو بھی چھوڑنا پڑ رہا ہے کہ وہ اپنی بیماری سے فرار حاصل کرنے کے لیے اپنے وجود کو فراموش کرنا چاہتا ہے۔ وجود کی فراموشی کا یہ عمل اُسے اپنے ہی شہر میں ملنگ کے طور پر زندگی بسر کرنے کی طرف لے جاتا ہے اور وہ اپنے شہر کو ایک نئے رخ سے دیکھتا ہے۔ اُس پر زندگی کی ایک اور پرت، ایک اور معنویت آشکار ہوتی ہے۔ زندگی کی وہ سطح جو اُن لوگوں نے بنائی ہے جنھوں نے خود کو مادی مفادات اور آسائشوں کے حصول سے دور کر لیا ہے اور مادی زندگی میں جتے افراد جنھیں غیر موجود تصور کرتے ہیں۔ ’’ملنگوں کی دنیا میں ’’میں‘‘ کا تعارف ’’سسی ملنگ‘‘ نصیبنسائیں، بیگم اور دوسرے کرداروں سے ہوتا ہے۔ وہ ان میں گھل مل جاتا ہے یہ سارے لوگ محبت کے مارے ہیں۔ زندگی میں اپنی محبت کو پانے کے تجربے میں ناکامی انھیں ترک دنیا تک لے آئی ہے۔ میں زندگی کی یہ سطح بھی تناؤ اور کش مکش سے خالی نہیں۔ یہاں بھی جگہ پر قبضے کی خواہش موجود ہے۔ ’’میں‘‘ اُس وقت پریشان ہوتا ہے جب وہ ملنگوں والے حلیے کے باوجود پہچان لیا جاتا ہے۔ تب وہ اقرار کرتا ہے کہ وہ بی۔اے پا س ہے اور اپنی مرضی سے، اپنی بیماری سے نجات حاصل کرنے کے لیے، زندگی کے اس روپ کا حصہ بنا ہے۔ ملنگ کی زندگی گزارتے، ایک دن اُسے احساس ہوتا ہے کہ اُسے گھر سے نکلے، ایک سال ہو چکا ہے جب کہ ڈاکٹر کا خیال تھا کہ وہ چند ماہ سے زیادہ زندہ نہیں رہے گا یعنی اُس نے فراموشی کے تجربے سے اپنی بیماری کو شکست دے دی ہے۔ ناول کے بیانیے میں مال روڈ کی زندگی کا ایک حصہ ایک پامسٹ بھی ہے جو لوگوں کے ہاتھ دیکھ کر اُن کی قسمت کا حال بتاتا ہے۔ اس پامسٹ کا علوم تو نہ جانے کتنا درست ہے لیکن گزشتہ چند ماہ سے وہ مسلسل ایک مشاہدہ کر رہا ہے کہ لو گوں کی زندگی کی لکیر ایک خاص جگہ سے آکر ٹوٹنے لگتی ہے۔ ایسا بہت سے لو گوں کے ساتھ ہو رہا ہے یعنی اجتماعی موت شہر پر منڈلا رہی ہے۔ خود پامسٹ کے ہاتھ میں زندگی کی لکیر بھی ٹوٹ رہی ہے اور ’’میں‘‘ کے ہاتھ کی بھی۔ ناول نگار کے حقیقت نگاری کے اس بیانیے میں خواب کے موٹیف کو بڑی خوب صورتی کے ساتھ برتا ہے۔ خواب جو انسانی پریشانیوں کا اظہار ہوتے ہیں اور بعض دفعہ انسان کی زندگی میں آنے والے واقعات کے نقیب بھی بن جاتے ہیں۔ خواب اور محبت کے سحر میں گرفتار، ’’نصیبن‘‘، ’’میں‘‘ اور اس ناول کے دوسرے کردار ایک ایسے انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں جو اُن کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہے۔ ’’یادداشت‘‘ کا کھونا یا فراموشی اس ناول کا ایک اور اہم موٹیف ہے۔ ناول نگار نے اس سے ماضی کی زندگی سے نجات اور موجودہ زندگی سے بے اطمینانی کے اظہار کے لیے استعمال کیا ہے۔ عامر رانا خود زندگی کو ایک پرت دار مظہر کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ’’ہر طرف زندگی کا انبوہ کثیر ہے۔ ہر آدمی کی اپنی دنیا اور وہ بھی پرت در پرت۔ اب میں یہ پرتیں تو نہیں کھول سکتا۔‘‘ ناول نگار زندگی کی یہی پرتیں کھولنے کی کوشش کر رہا ہے اور پر شاید لاحاصلی کے بغیر کچھ حاصل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس ناول کا چودھواں (۱۴) باب جو دو صفحات پر مشتمل ہے اور محبت کے تجربے کی مختلف جہتوں کو اپنی گرفت میں لیتا ہے۔ ناول نگار کے اسلوب اور طرز بیان کا عمدہ نمونہ ہے۔ اختصار اور اجمال کے ساتھ سات مختلف محبتوں کو سات مختلف انسانی مظاہر سے جوڑ کر بیان کیا گیا ہے کہ محبت کے یہ سات تجربات ہمیں بہت زندہ اور حقیقی معلوم ہوتے ہیں۔ عامر رانا کا ناول ’’سائے‘‘ جہاں ایک طرف معاشرتی جبر میں لپٹے فرد کی زندگی کو ہی اپنا موضوع نہیں بناتا بلکہ ہمارے معاشرے میں موجود رشتوں کے گنجلک نظام کو پیش کرتا ہے۔ ناول نگار معاشرتی احوال کے بیان میں بھی اختصار سے کام لیتا ہے اور فرد کی باطنی زندگی کے اظہار میں بھی۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اس ناول کی ایک بڑی خوبی اس کا اختصار اور جمالیاتی حسن ہے۔ بعض جگہ یہ خیال آتا ہے کہ بات کو ذرا آگے چلنا چاہیے تھا مگر ناول نگار اپنے مزاج کے مطابق بیان کو محدود رکھتا ہے۔ امید ہے کہ عامر رانا کا ناول ’’سائے‘‘ اردو کے باذوق قارئین کو پسند آئے گا۔ چوہدری لیاقت علی | ۲۸ فروری ۲۰۱۶ | اردو محفل
|