ٹی ہاؤس برنگ دگر – انتظار حسین
۵ اپریل ۲۰۱۳
ابھی ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ پہلے ہمارا اس کوچہ میں پھر گزر ہوا۔ اور ہم نے سوچا کہ اس کوچہ میں آئے ہیں تو ٹی ہاؤس کی خیریت بھی معلوم کرتے چلیں۔ مگر ہم نے ٹی ہاؤس میں قدم ہی رکھا تھا کہ چائے کی میز سے اٹھ کر ایک نوجوان لپک کر ہمارے پاس آیا اور جیسے ہم سے باز پرس کر رہا ہو، کہنے لگا کہ آپ نے ٹی ہاؤس کے بیٹھنے والوں میں جن ادیبوں کا نام گنائے تھے وہ تو یہاں کم کم ہی نظر آ رہے ہیں۔ کچھ اور ہی چہرے یہاں نمایاں ہیں۔
ہم سٹپٹائے اور پوچھا کہ تم کن چہروں کو ڈھونڈ رہے تھے اور یہاں تمہیں کون سے چہرے نمایاں نظر آ رہے ہیں۔ اس نے ہمارے سوال کا براہ راست جواب دینے کے بجائے الٹا ہم سے سوال کیا ’’یہاں کیا آنے جانے والوں میں مظفر وارثی اور حفیظ تائب بھی تھے۔ اور ہاں ساغر صدیقی‘ مگر وہ تو داتا صاحب کے کوچے کی مخلوق تھے۔ اس کوچے سے وہ باہر کیا نکلتے تھے، مال روڈ تو ان کے لیے علاقہ غیر تھا‘‘۔
ہماری سمجھ میں نہ آیا کہ اس عزیز کے ان سوالوں کا کیا جواب دیں۔ ہم نے کہا کہ ’’برادر‘ یہ سوال تم عطاء الحق قاسمی سے کرو‘‘۔
اس ظالم نے برجستہ کہا کہ ’’سنا ہے کہ اس کمیٹی میں آپ بھی تھے‘‘۔
ہم لاجواب ہو گئے۔
اصل میں ٹی ہاؤس کی افتتاحی تقریب ہی میں کچھ اجنبی تصویروں کو دیکھ کر ہمارا ماتھا ٹھنکا تھا۔ اس کے بعد ہم نے عطاء الحق قاسمی کی اس طرف توجہ بھی دلائی تھی کہ جن مرحومین کے چہرے یہاں نظر آنے چاہیئے تھے، وہ تو اکا دکا ہی ہیں۔ کچھ اور ہی چہروں کی یلغار نظر آ رہی ہے۔ انھوں نے اپنی طرف سے تو پوچھ گچھ کی ہو گی کہ طے شدہ تصویروں کی جگہ یہ دوسری تصویریں کس کی ہدایت پر لگی ہیں۔ مگر ان کی مصروفیات بہت ہیں۔ پھر کاہے کو آ کر دیکھا ہو گا کہ ان کی ہدایت پر کتنا عمل ہوا ہو گا۔
دیکھئے بات یہ ہے کہ
ہر گُلے را رنگ و بوئے دیگر است
ہماری ادیبوں‘ دانشوروں‘ آرٹسٹوں کی برادری تو بہت بڑی ہے۔ ان کے الگ الگ رنگ ہیں جس کوچے سے‘ جس انجمن سے‘ جس ادارے سے جو مخلوق گہرے طور پر وابستہ چلی آتی ہے، اس کوچے اس ٹھکانے کو انھیں کے پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔ دوسرے چہرے وہاں لاؤ گے تو وہ تو انمل نظر آئیں گے اور اس ٹھکانے کی تاریخ غتربود ہو جائے گی۔ اگر ٹی ہاؤس کے ساتھ یہ عمل ہوا تو یہ تو گویا اس چائے خانے کی تاریخ کو بدلنے کی کوشش ہے۔ ارے یہ خالی چائے خانہ تو نہیں تھا۔ رفتہ رفتہ ایک ادبی گہوارہ بھی بن گیا تھا۔ کئی ایک رنگ کے گل پھول یہاں اس طرح رچے بسے کہ اس ادبی گہوارے کی اپنی ایک بو باس نمایاں ہوئی۔
ہم تو اس چائے خانے کو اس وقت سے دیکھتے آ رہے ہیں جب ابھی یہ انڈیا ٹی ہاؤس ہی کے نام سے آباد چلا آ رہا تھا۔ ہماری آنکھوں دیکھتے وہ انڈیا ٹی ہاؤس کا چولا اتار کر پاک ٹی ہاؤس بنا۔ کتنی مرتبہ ہم نے بتایا زبانی بھی لکھ کر بھی کہ پہلے اس چائے خانے کو حلقہ ٔ ارباب ذوق والوں نے اپنا ٹھکانا بنایا۔ ان کے جلسے جو اس سے متصل وائی ایم سی اے کے بورڈ روم میں ہوتے تھے۔ ویسے تو ابتدا میں ترقی پسند مصنفین بھی اسی کوچے میں آباد ہوتے نظر آ رہے تھے۔ بلکہ ان کی مطبوعات کا اسٹال بھی یہاں بہت نمایاں نظر آتا تھا۔ مگر جلد ہی انھیں یہاں سے جانا پڑا۔ پھر انھوں نے اپنے جلسوں کے لیے دیال سنگھ لائبریری کو اپنایا اور لکشمی مینشن کے آس پاس میکلوڈ روڈ کے چائے خانوں میں شاد آباد نظر آنے لگے۔
ادھر حلقہ کی ہفتہ وار نشستیں مستقل طور پر وائی ایم سی اے کے بورڈ روم میں ہوتی تھیں، ان دنوں قیوم نظر حلقہ کے خالی سیکریٹری ہی نہیں بلکہ اچھے خاصے مائی باپ بنے ہوئے تھے۔ جلسہ کے بعد وہ یاران حلقہ کو لے کر اس چائے خانے میں آ کر اپنی محفل سجاتے۔ اور اس چائے کی میز پر کون کون ہوتے تھے۔ شیر محمد اختر‘ یوسف ظفر‘ مختار صدیقی‘ مبارک احمد‘ پھر ہم نے کچھ اور چہروں کو پہچانا۔ اچھا یہ انجم رومانی ہیں۔ اور یہ شہرت بخاری ہیں‘ اور یہ ہیں ضیاء جالندھری اور اعجاز حسین بٹالوی اور ہاں یہ ہیں امجد الطاف اور ریاض احمد۔
پھر کچھ ا ور چہرے نمودار ہوئے۔ ناصر کاظمی‘ مظفر علی سید‘ پھر یہ ٹولی تو پھیلتی ہی چلی گئی۔ کتنی جلد شاکر علی نے کافی ہاؤس میں نئے مصوروں کے بیچ سے اٹھ کر یہاں آنا جانا شروع کر دیا اور ناصر کاظمی کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا رہنے لگا۔ پھر احمد مشتاق‘ حنیف رامے‘ اور گورنمنٹ کالج سے ایک پوری پلٹن شاہد حمید‘ غالب احمد‘ جاوید شاہین وغیرہ وغیرہ۔
انور جلال شمزہ کا ایک قدم کافی ہاؤس میں دوسرا قدم ٹی ہاؤس میں کہ وہ عزیز اس وقت مصوری کے ساتھ ادب میں بھی قدم رکھتا تھا اور ٹی ہاؤس میں اے حمید کے ساتھ اس کی جوڑی بنی ہوئی تھی۔
پھر جب پنڈی سازش کا شگوفہ پھوٹا اور انجمن ترقی پسند مصنفین عتاب میں آ گئی تو اس کے جلسے بند ہو گئے اور ترقی پسند اس کوچے ہی سے اجڑ گئے۔ اب وہ ٹی ہاؤس میں نمودار ہونا شروع ہوئے اور ساتھ میں حلقہ ارباب ذوق میں بھی‘ بلکہ صفدر میر تو حلقہ کہ جوائنٹ سیکریٹری بن گئے تھے۔ پھر عارف عبدالمتین‘ احمد راہی‘ ظہیر کاشمیری‘ باقی عابد حسین منٹو پہلے تو ہمیں حلقہ کے جلسوں میں نظر آتے تھے پھر ٹی ہاؤس میں بھی وقتاً فوقتاً نظر آنے لگے۔ باقی ان کے بڑوں میں سب سے بڑے فیض صاحب۔ اور پھر قاسمی صاحب حلقہ کے جلسہ میں صدارت کی تقریب سے وہ بھی تو وقتاً فوقتاً ادھر نظر آتے تھے۔ پھر ٹی ہاؤس سے کیسے دور رہتے۔ کچھ ملتان کا پانی بہہ کر ادھر آگیا۔ اصغر ندیم سید‘ اکرام اللہ، مسود اشعر۔
استادوں میں سب سے بڑھ کر صوفی تبسم اور عابد علی عابد اورینٹل کالج سے ڈاکٹر عبادت بریلوی جو نقوش کے ایڈیٹر محمد طفیل کے ساتھ یہاں کچھ دنوں تک اچھی خاصی باقاعدگی سے آنے لگے تھے۔ ان کے پیچھے پیچھے سجاد باقر رضوی‘ سہیل احمد خاں‘ خواجہ ذکریا‘ تبسم کاشمیری۔
ہاں پھر نوخیزوں کی ایک اور ٹولی نموار ہوئی۔ پتہ چلا کہ اس کے سرغنہ افتخار جالب ہیں۔ ان کے ساتھ انیس ناگی‘ جیلانی کامران‘ فہیم جوزی‘ سمجھ لیجیے کہ ٹی ہاؤس کا باغی گروپ مگر بڑا باغی تو ان سے ہٹ کر حبیب جالب تھا۔
اور ہاں ایک قلندر صفت شخصیت م حسن لطیفی وہ سب سے الگ سب سے نرالے اور ایک ٹولی اور سلیم شاہد اور الطاف قریشی کی۔ ایک بی بی ندرت الطاف نے بھی تو اب اپنی ڈھلتی دھوپ کے ساتھ باقاعدگی سے ان کے ساتھ بیٹھنا شروع کردیا تھا۔ ادھر ورود وقتاً فوقتاً کشور ناہید کا بھی ہوتا تھا اور ان کے شوہر نامدار مرحوم یوسف کامران‘ ہاں یاد آیا انقلاب انقلاب کا نعرہ لگاتا ایک انگارہ صفت نوجوان عزیز الحق بھی تو اپنے سرفروشوں کے ساتھ یہاں نمودار ہوا تھا۔
ارے کہاں تک نام گناتے چلے جائیں۔ آخر میں تو سب چڑیاں اڑ گئی تھیں۔ کتنے ملک عدم کو سدھار گئے۔ رہ گئے دو خانہ خراب ایک گوشے میں اسرار زیدی اکیلے بیٹھے اونگھ رہے ہیں‘ دوسرے گوشے میں مردم بیزار زاہد ڈار۔ بس وہ اور اس کی کتاب۔ اللہ بس باقی ہوس۔
انھیں میں سے مرحومین کو چھانٹ کر نکالنا تھا اور ٹی ہاؤس میں سجانا تھا اور یہ تجویز کسی اور کی نہیں، خود عطاء الحق قاسمی کی تھی۔ انھوں نے اجڑے پجڑے ٹی ہاؤس کو پھر سے بسایا‘ کمال کیا۔ مگر تصویروں کے معاملہ میں جانے کیا ہوا کہ سوچا تھا کچھ اور برآمد ہوا کچھ اور۔ اب ہم کیسے کہیں کہ یہ ٹی ہاؤس وہی ٹی ہاؤس ہے۔
ہم سٹپٹائے اور پوچھا کہ تم کن چہروں کو ڈھونڈ رہے تھے اور یہاں تمہیں کون سے چہرے نمایاں نظر آ رہے ہیں۔ اس نے ہمارے سوال کا براہ راست جواب دینے کے بجائے الٹا ہم سے سوال کیا ’’یہاں کیا آنے جانے والوں میں مظفر وارثی اور حفیظ تائب بھی تھے۔ اور ہاں ساغر صدیقی‘ مگر وہ تو داتا صاحب کے کوچے کی مخلوق تھے۔ اس کوچے سے وہ باہر کیا نکلتے تھے، مال روڈ تو ان کے لیے علاقہ غیر تھا‘‘۔
ہماری سمجھ میں نہ آیا کہ اس عزیز کے ان سوالوں کا کیا جواب دیں۔ ہم نے کہا کہ ’’برادر‘ یہ سوال تم عطاء الحق قاسمی سے کرو‘‘۔
اس ظالم نے برجستہ کہا کہ ’’سنا ہے کہ اس کمیٹی میں آپ بھی تھے‘‘۔
ہم لاجواب ہو گئے۔
اصل میں ٹی ہاؤس کی افتتاحی تقریب ہی میں کچھ اجنبی تصویروں کو دیکھ کر ہمارا ماتھا ٹھنکا تھا۔ اس کے بعد ہم نے عطاء الحق قاسمی کی اس طرف توجہ بھی دلائی تھی کہ جن مرحومین کے چہرے یہاں نظر آنے چاہیئے تھے، وہ تو اکا دکا ہی ہیں۔ کچھ اور ہی چہروں کی یلغار نظر آ رہی ہے۔ انھوں نے اپنی طرف سے تو پوچھ گچھ کی ہو گی کہ طے شدہ تصویروں کی جگہ یہ دوسری تصویریں کس کی ہدایت پر لگی ہیں۔ مگر ان کی مصروفیات بہت ہیں۔ پھر کاہے کو آ کر دیکھا ہو گا کہ ان کی ہدایت پر کتنا عمل ہوا ہو گا۔
دیکھئے بات یہ ہے کہ
ہر گُلے را رنگ و بوئے دیگر است
ہماری ادیبوں‘ دانشوروں‘ آرٹسٹوں کی برادری تو بہت بڑی ہے۔ ان کے الگ الگ رنگ ہیں جس کوچے سے‘ جس انجمن سے‘ جس ادارے سے جو مخلوق گہرے طور پر وابستہ چلی آتی ہے، اس کوچے اس ٹھکانے کو انھیں کے پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔ دوسرے چہرے وہاں لاؤ گے تو وہ تو انمل نظر آئیں گے اور اس ٹھکانے کی تاریخ غتربود ہو جائے گی۔ اگر ٹی ہاؤس کے ساتھ یہ عمل ہوا تو یہ تو گویا اس چائے خانے کی تاریخ کو بدلنے کی کوشش ہے۔ ارے یہ خالی چائے خانہ تو نہیں تھا۔ رفتہ رفتہ ایک ادبی گہوارہ بھی بن گیا تھا۔ کئی ایک رنگ کے گل پھول یہاں اس طرح رچے بسے کہ اس ادبی گہوارے کی اپنی ایک بو باس نمایاں ہوئی۔
ہم تو اس چائے خانے کو اس وقت سے دیکھتے آ رہے ہیں جب ابھی یہ انڈیا ٹی ہاؤس ہی کے نام سے آباد چلا آ رہا تھا۔ ہماری آنکھوں دیکھتے وہ انڈیا ٹی ہاؤس کا چولا اتار کر پاک ٹی ہاؤس بنا۔ کتنی مرتبہ ہم نے بتایا زبانی بھی لکھ کر بھی کہ پہلے اس چائے خانے کو حلقہ ٔ ارباب ذوق والوں نے اپنا ٹھکانا بنایا۔ ان کے جلسے جو اس سے متصل وائی ایم سی اے کے بورڈ روم میں ہوتے تھے۔ ویسے تو ابتدا میں ترقی پسند مصنفین بھی اسی کوچے میں آباد ہوتے نظر آ رہے تھے۔ بلکہ ان کی مطبوعات کا اسٹال بھی یہاں بہت نمایاں نظر آتا تھا۔ مگر جلد ہی انھیں یہاں سے جانا پڑا۔ پھر انھوں نے اپنے جلسوں کے لیے دیال سنگھ لائبریری کو اپنایا اور لکشمی مینشن کے آس پاس میکلوڈ روڈ کے چائے خانوں میں شاد آباد نظر آنے لگے۔
ادھر حلقہ کی ہفتہ وار نشستیں مستقل طور پر وائی ایم سی اے کے بورڈ روم میں ہوتی تھیں، ان دنوں قیوم نظر حلقہ کے خالی سیکریٹری ہی نہیں بلکہ اچھے خاصے مائی باپ بنے ہوئے تھے۔ جلسہ کے بعد وہ یاران حلقہ کو لے کر اس چائے خانے میں آ کر اپنی محفل سجاتے۔ اور اس چائے کی میز پر کون کون ہوتے تھے۔ شیر محمد اختر‘ یوسف ظفر‘ مختار صدیقی‘ مبارک احمد‘ پھر ہم نے کچھ اور چہروں کو پہچانا۔ اچھا یہ انجم رومانی ہیں۔ اور یہ شہرت بخاری ہیں‘ اور یہ ہیں ضیاء جالندھری اور اعجاز حسین بٹالوی اور ہاں یہ ہیں امجد الطاف اور ریاض احمد۔
پھر کچھ ا ور چہرے نمودار ہوئے۔ ناصر کاظمی‘ مظفر علی سید‘ پھر یہ ٹولی تو پھیلتی ہی چلی گئی۔ کتنی جلد شاکر علی نے کافی ہاؤس میں نئے مصوروں کے بیچ سے اٹھ کر یہاں آنا جانا شروع کر دیا اور ناصر کاظمی کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا رہنے لگا۔ پھر احمد مشتاق‘ حنیف رامے‘ اور گورنمنٹ کالج سے ایک پوری پلٹن شاہد حمید‘ غالب احمد‘ جاوید شاہین وغیرہ وغیرہ۔
انور جلال شمزہ کا ایک قدم کافی ہاؤس میں دوسرا قدم ٹی ہاؤس میں کہ وہ عزیز اس وقت مصوری کے ساتھ ادب میں بھی قدم رکھتا تھا اور ٹی ہاؤس میں اے حمید کے ساتھ اس کی جوڑی بنی ہوئی تھی۔
پھر جب پنڈی سازش کا شگوفہ پھوٹا اور انجمن ترقی پسند مصنفین عتاب میں آ گئی تو اس کے جلسے بند ہو گئے اور ترقی پسند اس کوچے ہی سے اجڑ گئے۔ اب وہ ٹی ہاؤس میں نمودار ہونا شروع ہوئے اور ساتھ میں حلقہ ارباب ذوق میں بھی‘ بلکہ صفدر میر تو حلقہ کہ جوائنٹ سیکریٹری بن گئے تھے۔ پھر عارف عبدالمتین‘ احمد راہی‘ ظہیر کاشمیری‘ باقی عابد حسین منٹو پہلے تو ہمیں حلقہ کے جلسوں میں نظر آتے تھے پھر ٹی ہاؤس میں بھی وقتاً فوقتاً نظر آنے لگے۔ باقی ان کے بڑوں میں سب سے بڑے فیض صاحب۔ اور پھر قاسمی صاحب حلقہ کے جلسہ میں صدارت کی تقریب سے وہ بھی تو وقتاً فوقتاً ادھر نظر آتے تھے۔ پھر ٹی ہاؤس سے کیسے دور رہتے۔ کچھ ملتان کا پانی بہہ کر ادھر آگیا۔ اصغر ندیم سید‘ اکرام اللہ، مسود اشعر۔
استادوں میں سب سے بڑھ کر صوفی تبسم اور عابد علی عابد اورینٹل کالج سے ڈاکٹر عبادت بریلوی جو نقوش کے ایڈیٹر محمد طفیل کے ساتھ یہاں کچھ دنوں تک اچھی خاصی باقاعدگی سے آنے لگے تھے۔ ان کے پیچھے پیچھے سجاد باقر رضوی‘ سہیل احمد خاں‘ خواجہ ذکریا‘ تبسم کاشمیری۔
ہاں پھر نوخیزوں کی ایک اور ٹولی نموار ہوئی۔ پتہ چلا کہ اس کے سرغنہ افتخار جالب ہیں۔ ان کے ساتھ انیس ناگی‘ جیلانی کامران‘ فہیم جوزی‘ سمجھ لیجیے کہ ٹی ہاؤس کا باغی گروپ مگر بڑا باغی تو ان سے ہٹ کر حبیب جالب تھا۔
اور ہاں ایک قلندر صفت شخصیت م حسن لطیفی وہ سب سے الگ سب سے نرالے اور ایک ٹولی اور سلیم شاہد اور الطاف قریشی کی۔ ایک بی بی ندرت الطاف نے بھی تو اب اپنی ڈھلتی دھوپ کے ساتھ باقاعدگی سے ان کے ساتھ بیٹھنا شروع کردیا تھا۔ ادھر ورود وقتاً فوقتاً کشور ناہید کا بھی ہوتا تھا اور ان کے شوہر نامدار مرحوم یوسف کامران‘ ہاں یاد آیا انقلاب انقلاب کا نعرہ لگاتا ایک انگارہ صفت نوجوان عزیز الحق بھی تو اپنے سرفروشوں کے ساتھ یہاں نمودار ہوا تھا۔
ارے کہاں تک نام گناتے چلے جائیں۔ آخر میں تو سب چڑیاں اڑ گئی تھیں۔ کتنے ملک عدم کو سدھار گئے۔ رہ گئے دو خانہ خراب ایک گوشے میں اسرار زیدی اکیلے بیٹھے اونگھ رہے ہیں‘ دوسرے گوشے میں مردم بیزار زاہد ڈار۔ بس وہ اور اس کی کتاب۔ اللہ بس باقی ہوس۔
انھیں میں سے مرحومین کو چھانٹ کر نکالنا تھا اور ٹی ہاؤس میں سجانا تھا اور یہ تجویز کسی اور کی نہیں، خود عطاء الحق قاسمی کی تھی۔ انھوں نے اجڑے پجڑے ٹی ہاؤس کو پھر سے بسایا‘ کمال کیا۔ مگر تصویروں کے معاملہ میں جانے کیا ہوا کہ سوچا تھا کچھ اور برآمد ہوا کچھ اور۔ اب ہم کیسے کہیں کہ یہ ٹی ہاؤس وہی ٹی ہاؤس ہے۔