قرہ العین حیدر کے چند انٹرویوز کا مجموعہ – اشعر نجمی
قرۃ العین حیدر: (زور دے کر) صاحب اس کا کیا مطلب ہے؟ تاریخ پیدائش کا جو مقدمہ چل رہا ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟ فرق کیا پڑتا ہے۔۔۔کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔20 جنوری ہے، 26 ہے یا 27 ہے یا 28 ہے یا سولہ ہے تو کیا فرق پڑتا ہے؟ Doesn’t Matter۔۔۔ویسے میں پیدا 1927 میں ہوئی ہوں۔
(“انداز بیاں اور”، صفحہ: 198)
خود کاشت:میں نے ملکوں ملکوں گھوم کر بہترین کتابیں جمع کیں اور ملکوں ملکوں انواع اقسام کے کام کیے جن کا تعلق میڈیا اور لکھنے سے تھا۔ کراچی اور لندن میں سرکاری افسر اور جرنلسٹ اور دستاویزی فلم بنائے۔
انگریزی میں اخباروں میں لکھنا کالج چھوڑنے کے کچھ عرصے بعد شروع کیا۔ بہ فرمائش فیض صاحب، سب سے پہلے “پاکستان ٹائمز” میں جارج برنارڈ شاہ کے انتقال پر اس استاد بزرگ کے متعلق مضمون لکھا۔ پروفیسر وقار عظیم نے اسے فوراً اردو میں ترجمہ کر کے شاید “نقوش” میں شائع کیا۔
میں اپنی مرحومہ والدہ کی طرح ایک نہایت Gregarious اور قبائلی خاتون ہوں اور ان ہی کے مانند رشتے داروں اور دوستوں کے سلسلے میں بے حد خوش نصیب۔
اپنی تحریروں کا مجھے کوئی Obssession نہیں ہے۔
(“فن اور شخصیت” کا آپ بیتی نمبر، ممبئی،
جلد اول، ستمبر 1978، اشاعت: مارچ 1980)
تخلیقی محرکات و تو ضیحات:ذاتی طور پر میرا بیشتر ادب پروستین A la Recherche Du Temps Perduگم شدہ زمانوں کی تلاش پر مبنی ہے۔
(“فن اور فنکار”، ممبئی، جون 1977)
٭
ایک افسانہ بعنوان “ارادے” اپنے نام سے “ادیب کو بھیجا۔ اس پر مبلغ بیس روپے کا انعام ملا۔ (زاہدی صاحب) نے کہا، بس اب تم باقاعدہ افسانہ نگار بن گئیں۔
(“کارجہاں دراز ہے”، اول، صفحہ: 447)
٭
میں نے پہلی بار جو یتھارتھ وادی انداز کی کہانی لکھی ، وہ چیلنج کے طور پر لکھی۔ شاید 1957 کی بات ہے ، مجھ سے ایک صاحب نے کہا کہ تم منٹو کی طرح realistic کہانی نہیں لکھ سکتیں۔ میں نے کہا میں لکھ کر دکھاؤں گی۔ مطلب منٹو کی طرح تو نہیں، لیکن میں نے “پت جھڑ کی آواز” لکھی۔ سیدھے سادے بیانیہ اسٹائل میں۔ بالکل realistic۔
(“یہ داغ داغ اجالا”، ہندی، صفحہ: 187)
٭
۔۔۔سرکس آیا تھا۔ اس وقت میں امپرنٹ میں لکھتی تھی۔ ہر ماہ میرا ایک کالم ہوتا تھا تو اس کے لیے بھی میں سرکس دیکھنے گئی۔
۔۔۔ایک لڑکی جو تھی ان میں، وہ اینگلو انڈین تھی، وہ بڑی شارپ، بڑی فلسفیانہ باتیں کرنے لگی۔ کہنے لگی کہ میں اپنے لباس پر زرد رنگ کی تتلیاں چپکا رہی تھی کٹ آؤٹ کے کام کی۔ تو مجھے ایسا لگا کہ یہ They are frozen sadness ، “منجمد اداسی” ۔ میں نے سوچا کہ یہ لڑکی جو تار پر چل رہی ہے، باتیں بڑی شاعرانہ کررہی ہے تو وہ لڑکی جو اینگلو انڈین تھی، مجھے بڑا Facinate کیا۔۔۔ ہمیشہ سرکس میں کام کرنے والی نے۔ یہ لڑکی جو تار پر چلتی ہیں، قلابازیاں کھاتی ہیں، کتنی مشکل کی کتنی محنت کی روٹی ہے اس کی۔ اس نے مجھے بڑا متاثر کیا۔ وہی پس منظر تھا میرے ذہن میں۔ جس سے افسانے(“تار پر چلنے والی لڑکی”) کی تخلیق ہوئی۔
(“نوائے سروش”، مرتب: جمیل اختر، صفحہ: 109)
٭
۔۔۔ہم گئے تھے ایک آیا کی تلاش میں کلکتے ۔۔۔پہنچ گئے ایک جگہ سونا گاچی۔۔۔وہاں کا ایک بہت بدنام علاقہ ہے طوائفوں کا۔۔۔وہاں دہلیز پر ایک لڑکی بیٹھی سرخ رنگ کی ساڑی پہنے سفید رنگ اس کا، بہت پیاری شکل اس کی۔۔۔وہ ہم لوگوں کو دیکھ کے بار بار نہایت ادب سے نمسکار کر رہی تھی۔ وہ لڑکی مجھے کبھی نہیں بھولی کہ کہاں سے آئی تھی ، کہاں بیٹھی تھی۔ یاد نہیں۔ تو اس پر یہ افسانہ “تلاش “لکھا تھا۔
(“نوائے سروش”، صفحہ:109)
٭
مجھے اپنا افسانہ “جلا وطن” بہت پسند ہے جو میرے مجموعہ “شیشے کا گھر” میں ہے۔ میں نے اس کا انگریزی میں بھی ترجمہ کیا ہے جو The Exiles کے نام سے شائع ہوا ہے۔ اس افسانے میں ایک بڑا بھاری پرابلم پیش کیا ہے۔ ذہنی جلاوطنی اس کا موضوع ہے۔
(“نوائے سروش”، صفحہ: 120)
٭
میرے خیال میں میرا جو سب سے اچھا ناولٹ ہے، وہ ہے “اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو” ، اور وہ چھپا ہے “بیسویں صدی” میں چار قسطوں میں۔
(“شاعر”، ممبئی، جولائی 1978)
٭
“آہ اے دوست” میں نے اس طرح لکھی تھی کہ کالج کے بر آمدے میں ایک پروگرام کے لیے ہم لوگ ریہرسل کر رہے تھے۔ کچھ لڑکیاں ڈانس کررہی تھیں۔ کچھ ایک سکٹ کی پریکٹس میں جٹی تھیں۔ وہیں پر جو باتیں میرے دماغ میں آئیں، لکھیں۔ یہ ایک کہانی سی بن گئی۔ وہ میں نے پرسدھ ماسک پتریکا “ساقی” میں بھیجی اور چھپ گئی۔ کوئی ایسی بات نہیں تھی کہ میں نیا ٹرینڈ شروع کررہی ہوں۔
(“یہ داغ داغ اجالا”، ہندی ،انٹرویو، صفحہ:188)
٭
۔۔۔ایک اور جرمن میری طرف آیا اور مجھ سے کہنے لگا “میں وہ جرمن آرٹسٹ ہوں جو بمبئی میں چند روز آپ کے یہاں مہمان رہا تھا۔ انڈیا سے جا کر میں نے آپ کو ویتنام سے خط بھی لکھا تھا”۔ “ہاں مجھے اچھی طرح یاد ہے لیکن میں نے تو تم کو ویتنام میں وہ خط لکھنے کے بعد اتفاقیہ گولی کا نشانہ بنا کر مار دیا تھا اپنے ایک افسانے میں۔”
(“شاہراہ حریر”، صفحہ: 130)
٭
تقریباً ۔۔۔”سفینۂ غم دل” ، “میرے بھی صنم خانے” کا Extension ہے ۔ (ہنستے ہوئے) کسی نے پاکستان میں لکھا تھا کہ تاش کے پتے پھینک کر پھر دوبارہ وہی پتے نکال لیے ہیں۔
(“انداز بیاں اور”، صفحہ: 181)
٭
“فوٹو گرافر” کا جائے وقوع ہندوستان نہیں سری لنکا ہے۔ کینڈی کے ایک گیسٹ ہاؤس میں ایک ساؤتھ انڈین ڈانسر مقیم تھی مع اپنے سازندوں وغیرہ کے۔ اس کو بنیاد بنا کر یہ افسانہ لکھا تھا۔
(“قرۃ العین حیدر کے خطوط۔۔۔”، صفحہ: 31)
٭
میری ایک کہانی ہے “کیکٹس لینڈ”۔ بنیادی سطح پر آپ اسے Realistic Symbolistic کہانی کہہ سکتے ہیں۔ یہ میں نے 1949 میں لکھی تھی۔ یا “یہ داغ داغ اجالا”شاید 1950 میں لکھی تھی ۔ یہ بالکل راج نیتک Symbolistic کہانی ہے۔ “کیکٹس لینڈ” کی طرح “یہ داغ داغ اجالا” کو بھی لوگ نہیں سمجھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پرگتی شیل آندولن نے کافی برین واشنگ (Brain Washing) کر رکھی تھی پڑھنے والوں کی۔
(“یہ داغ داغ اجالا”، ہندی، صفحہ: 186)
٭
میں نے “ایلس ان ونڈر لینڈ” کا ترجمہ کیا جو Serialize ہوا “پھول” میں۔ یہ غالباً 1939 کی بات ہوگی۔ اس کو میں نے مختصر کر کے لکھا۔ میں اس وقت تیرہ یا چودہ سال کی ہوں گی۔
(“داستان عہد گل”، صفحہ:314)
٭
میں 1974میں سوویت جارجیہ گئی تھی۔ جارجیہ ، آذر بائیجان اور آرمینیہ۔۔۔میں وہاں ایک چرچ میں گئی۔ وہاں تہہ خانوں میں پتھر کے تابوت تھے۔ سنیاسنوں اور سنیاسیوں کی ہڈیاں ، کھوپڑیاں اور پنجر تھے ان میں۔ روسی گائیڈ نے بتایا کہ یہ آٹھویں صدی عیسوی کے تابوت ہیں۔ وہیں گیارہویں صدی کے ایک چرچ کے اندر مزار تھے۔ اس میں ایک مزار عباسی شہزادے کا موجود تھا۔ بہرحال میں نے یہ کہانی (“سینٹ فلورا آف جارجیا کے اعترافات”) لکھی کہ تہہ خانے کے دو پنجروں میں جان پڑ جاتی ہے اور آج کی دنیا میں ان کے ساتھ کیا کیا ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
جب یہ دونوں پنجر سوویت جارجیہ سے بھاگتے ہیں تو ایک زندہ آدمی ان کے پیچھے دوڑتا ہے اور وہ بھی ویسٹرن یورپ پہنچ جاتا ہے۔۔۔شاید یہ وہی رائٹر تھا جو کچھ روز بعد کرشن ساگر میں کود کر دوسری طرف نکل گیا۔
(قرۃ العین حیدر سے ایک انٹرویو،
“یہ داغ داغ اجالا” ہندی، از ڈاکٹر صادق)
٭
میں نے روسی ناولوں کے ترجمے کیے انگریزی سے۔ مکتبہ جامعہ نے مجھ سے بہت سے ترجمے کروائے روسی کتابوں کے اور بچوں کے لیے بہت ترجمے کیے۔ “شیر کے بچے”، “لومڑی کے بچے”، “بہادر گھوڑا” یہ اور یہ (ہنسی) بے شمار کیے ہیں۔ مجھے پسند تھے۔ مجھے ترجمہ کرنا اچھا لگتا ہے۔
(قرۃ العین حیدر سے گفتگو/داستان عہد گل، صفحہ: 315)
٭
چند سال قبل مکتبہ جامعہ ، نئی دہلی نے چند روسی ناولوں میخا شولوخوف وغیرہ کے انگریزی ترجمے بھیجے تھے کہ ان کو اردو میں منتقل کردیجیے۔ کردیے۔ اچانک ایک روز ماسکو سے اطلاع ملی کہ آپ کو سوویٹ لینڈ نہرو ایوارڈ دیا جائے گا برائے تراجم اور اس کے ساتھ روس کی سیر۔
(“کوہ دماوند”، گل گشت، صفحہ: 163)
٭
میں نے ہنری جیمز کے ناول A Portrait of a Lady کا ترجمہ فرینکلن نیویارک کے لیے بعنوان “ہمیں چراغ ہمیں پروانے” کیا تھا جو مکتبہ جدید، لاہور نے 1958 میں شائع کیا۔
حال ہی میں یہ ترجمہ بطور ڈرامہ لاہور ٹیلی ویژن پر بغیر میری اجازت کے حسینہ معین نے اپنے نام سے نشر کیا۔ فلم ایکٹر شام اور تاجی کی لڑکی سائرہ کاظمی اس کی ہیروئن تھی۔
(“کارجہاں دراز ہے”، دوم، صفحہ: 246)
آگ کا دریا:
جب میں نے “آگ کا دریا” لکھنا شروع کیا، آخری عہد کی چمپا باجی کی تخلیق کرتے ہوئے اجّو باجی کی اس شخصیت کو سامنے رکھا۔ اور پیرس میں ایک ہندوستانی لڑکی ملی جس کے پیچیدہ کردار نے “سیتا ہرن” کی ہیروئن کی تخلیق میں اعانت کی۔
(“کارجہاں دراز ہے”، دوم، صفحہ:93)
٭
تلمیحات اور علامتوں سے عمومی بے نیازی کی وجہ سے مختلف رسالوں میں مزید عجیب و غریب تاویلیں کی گئیں۔ مصنفہ نظریۂ تناسخ کی قائل ہیں۔ مصنفہ بدھسٹ ہیں۔ ہندو ہیں۔ اسرائیل پرست ہیں وغیرہ وغیرہ۔
دوسری روایت ہندوستان میں یہ تیار ہوئی کہ مصنفہ کو اس ناول کی اشاعت کے بعد پاکستان میں بے حد پرسیکیوٹ کیا گیا۔ ان پر عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا اور بے چاری کو وہاں سے بھاگ کر ہندوستان میں پناہ لینی پڑی اور ہندوستان میں یہ اب تک مشہور ہے کہ پاکستان میں یہ ناول بین کر دیا گیاتھا۔
دوسری متھ یہ تیار ہوئی کہ اس کتاب کی رائلٹی نے دونوں ملکوں میں مصنفہ کو مالا مال کردیا۔ جدید اردو ادب کی تاریخ میں یہ پہلا کثیر الاشاعت ناول ہے جس کی رائلٹی کا ایک پیسہ مصنف کو آج تک نہیں ملا۔
یہ زمانہ چور ناشروں کی دھاندلی اور بے ایمانی اور چوری اور سینہ زوری اور بدتمیزی کا ہے۔
(“کارجہاں دراز ہے”، دوم، صفحہ: 74، 273)
٭
لوگوں نے یہاں تک کہا کہ میں نے Orlando پڑھ کر “آگ کا دریا” لکھا ہے یعنی اس سے زیادہ حماقت کی بات ہو ہی نہیں سکتی۔
(“شاعر”، ممبئی، جولائی 1978)
٭
اس ناول (“آگ کا دریا”) کے متعلق افسانہ طرازی اور افواہوں کا سلسلہ اس قدر مستحکم ہوچکا ہے کہ اس کی تردید اب میرے بس کی بات نہیں رہی۔ حال ہی میں قدرت اللہ شہاب مرحوم کا “شہاب نامہ” شائع ہوا۔۔۔اس کتاب میں ایک جگہ وہ فرماتے ہیں۔۔۔”مارشل لا لگتے ہی ایک روز صبح سویرے قرۃ العین حیدر میرے ہاں آئی۔ بال بکھرے ہوئے، آنکھیں پریشاں۔ آتے ہی بولی اب کیا ہوگا۔۔۔تو گویا اب بھونکنے پر پابندی عائد ہے۔ عینی نے بڑے کرب سے پوچھا۔۔۔۔آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ آنسو چھپانے کے لیے اس نے مسکرانے کی کوشش کی اور ایک ٹھنڈی سانس بھر کر کسی قدر لاپرواہی سے کہا ، ارے بھائی روز روز بھونکنا کون چاہتا ہے لیکن بھونکنے کی آزادی بھی تو عجیب نعمت ہے۔۔۔میرا اندازہ ہے کہ۔۔۔سنسر شپ کے تخیل ہی سے اس کے ذہن کو بڑا شدید جھٹکا لگا۔ کچھ عجب نہیں اسی جھٹکے کے ردعمل نے اس کے قلم کی باگ “آگ کا دریا” کی طرف موڑ دی ہو۔” شہاب صاحب بے حد نیک اور شریف انسان تھے۔ غلط بیانی کا الزام نہیں لگایا جاسکتا لیکن ان کے حافظے نے یقینا ان کو دھوکا دیا ، کیوں کہ یہ ساری ڈرامائی منظر نگاری افسانہ ہے۔ پہلی بات یہ کہ میں بال بکھرا کر آنکھ میں آنسو بھر کر سرد آہیں نہیں کھینچتی۔ ‘بھونکنا’ وغیرہ میرا طرز گفتگو نہیں۔ دوسری بات کہ “آگ کا دریا” میں 1956 میں شروع کیا تھا اور 57 میں ختم ہوا۔ مارشل لا اکتوبر 1958 میں نافذ ہوا۔۔۔دسمبر 59 میں مکتبہ جدید نے اسے شائع کیا۔۔۔لہٰذا سنسر شپ کے ذہنی جھٹکے نے میرا قلم “آگ کا دریا” کی طرف نہیں موڑا۔
دسمبر 1959 میں اس ناول کی اشاعت کے چند روز بعد ن۔م۔راشد نے اس پر ریڈیو تبصرہ کیا ۔ (“آہنگ”، کراچی)
دوسرا طویل مضمون ڈاکٹر محمد احسن فاروقی کا تھا جو ساقی (اپریل 1960) میں چھپا۔۔۔پورا مضمون پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے کیوں کہ انھی مرحوم نے اسی ماہ جنگ میں سراج رضوی کا “آگ کا دریا” کے خلاف مضمون چھپنے کے بعد سے اپنے مضمون میں صاجزادی کی خوب خوب تنقیص کی اور “آگ کا دریا” کے جواب میں ایک ناول بھی تصنیف کیا جس کا نام “سنگم” تھا۔
ناول سنسر کیے جانے کی افواہ غالباً اس وجہ سے پھیلی کہ کتابت کی تصیح کرتے وقت میں نے کئی جملے اور پیراگراف حذف کردیے تھے جو پروف ریڈنگ کا عام قاعدہ ہے۔
عجلت میں وہ صفحات اسی طرح پریس میں بھیج دیے ۔ ایک باب میں محض “ہندوستان 1947 لکھا تھا۔ اس کی نہایت احمقانہ تاویل یہ کی گئی کہ باقی عبارت سنسر کی نذر ہوچکی ہے۔
(عرض مصنف، “آگ کا دریا”، پہلا ہندوستانی
قانونی ایڈیشن، 1989، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی)
٭
یہ بھی ہوا کہ میرے ناول “آگ کا دریا” کے ایک باب کو کتاب سے الگ کر کے ایک علیحدہ ناول کے طور پر شائع کردیا گیا اور اس کا عنوان رکھا گیا ہے “فصل گل آئی یا اجل آئی”۔
(“بیسویں صدی”، دہلی، اکتوبر 1991)
چاندنی بیگم
“چاندنی بیگم” کا ethos اب پاکستانیوں کے لیے اجنبی اور ناقابل فہم ہے۔ بیلا کا خاندان ، ماں، باپ ، پری زادہ گلاب سب خاصے typical ہیں ، بلکہ بیلا کا ہے ہی ایک بالکل نمونہ۔ اب تمھارے ہاں لکھنؤ کی امام باندی کجّن کے نام سے مشہور ٹی وی اسٹار ہیں۔ ان کی بیٹی لندن میں رہتی ہیں اور وہیں گاتی ہیں۔ قنبر علی اور بھی بہت typicalتھے۔ وکی میاں میرے ایک رشتہ دار کا نمونہ ہیں۔
اب “چاندنی بیگم ” ، اس کے ریویو پاکستان میں اچھے نہیں ہوں گے کیوں کہ اس میں typicalپاکستانی خاندان بھی پیش کیا ہے (پدرم سلطان) اور پاکستانی اپنی تنقید برداشت نہیں کرسکتے۔ Well-meaning بھی نہیں کرسکتے، اور مظفر علی سید ایک بور، sense of humor سے عاری ، solid بقراط ہیں۔
میں نے لکھنؤ کے بارے میں پچھلے برس دو ناول لکھے ہیں جن میں سے ایک ناول “گردش رنگ چمن” ہے۔۔۔میں نے دوسرے ناول “چاندنی بیگم ” میں لکھنؤ کے تیزی سے بدلتے ہوئے منظر کو پیش کیا ہے۔
(“داستان عہد گل”، شہر آرزو، صفحہ: 86، 87)
تنقیدی شعور
اردو میں ناول کی اپنی کوئی روایت نہیں ہے ۔جس نے جی میں جو اور جیسا آیا لکھ مارا۔
(“گل صد برگ”، صفحہ: 23)
٭
اردو افسانے میں طرز بیاں، برجستگی، شوخی اور بانکپن محمد علی اپنے ساتھ لائے۔ وہ اتنا انوکھا اور منفر د ہے کہ کوشش کرکے بھی اس طرح کی دو سطریں نہیں لکھی جاسکتیں۔
(“کارجہاں دراز ہے”، دوم، صفحہ:100)
٭
رپورتاژ اور سیدھے سادے سفر نامے میں محض انداز بیاں کا فرق ہے۔ رپورتاژ افسانے کی زبان میں لکھا جاتا ہے۔ اس میں زیب داستاں بھی اس حد تک ہوتی ہے کہ اس سے حقائق کی پردہ پوشی نہ ہو یا واقعات کو غلط رنگ میں نہ پیش کیا جائے۔
(دیباچہ، “ستمبر کا چاند”، 15 نومبر 1998)
٭
ہمارے یہاں سوشل ہسٹری پر کم توجہ دی گئی ہے اور اس لحاظ سے ترقی پسند تحریک کا ایک رول بہت ہی منفی رہا کہ انھوں نے ماضی قریب کی ہر چیز کو فیوڈل، بورژوا اور رجعت پسند کہہ کر مسترد کردیا۔
(“فانوس عصر”)
٭
ٌمیرے نزدیک ادب برائے زندگی کا نظریہ بہتر ہے لیکن اس حد تک نہیں کہ ادب محض پروپگینڈا بن کر رہ جائے۔
*میں جمالیات کو حقیقت پسندی کے منافی اور داخلیت پرستی پر مبنی نہیں سمجھتی۔ افادیت اور جمالیات کی زندگی سے ہم آہنگی ہی صحیح ترقی پسندی ہے۔
*عصمت، ممتاز مفتی اور منٹو کے بغیر ہمارے جدیدادب کا کینوس مکمل نہیں ہو سکتا تھا۔
*۔۔۔میرا خیال ہے کہ میں ناول کامیابی سے کبھی نہ لکھ سکوں گی۔
*کرشن چندر میرا پسندیدہ فن کار ہے۔
*اپنا موجودہ طرز نگارش اپنانے میں، میں نے ارادتاً قطعی کوئی کوشش نہیں کی۔
*مجھے انگریزی میں لکھنا زیادہ اچھا لگتا ہے۔
*ناول لکھنے کا اب تک تو کوئی ارادہ نہیں ہوا۔
“نقوش لطیف” لاہور میں شامل سوال نامے کے جوابات غالباً قرۃ العین حیدر کی پہلی باضابطہ تنقیدی رائے ہیں۔ “نقوش لطیف” کے نام سے احمد ندیم قاسمی نے ایک مجموعہ میں اس دور کی 17 اہم خواتین افسانہ نگاروں کے نمائندہ افسانوں کے ساتھ ساتھ ادبی نظریات پر ان کی رائے ایک سوال نامے کی صورت میں شامل کی گئی ہے۔۔۔۔۔”نقوش لطیف” کچھ عرصہ قبل لاہور سے از سر نو شائع ہوئی ہے۔۔۔۔قرۃ العین حیدر کے جوابات “میرے خیال میں”کے عنوان سے ڈاکٹر ارتضیٰ کریم کے مرتب کردہ مجموعہ مقالات “قرۃ العین حیدر: ایک مطالعہ” میں بھی شامل ہے۔ ہربنس سنگھ تصور
٭
*عادت پڑگئی ہے نقادوں کو ادب میں حکمرانی کی۔(گفتگو/ڈاکٹر جمیل اختر)
*ہمارے ادیبوں کے سامنے کوئی واضح مقصد نہیں۔(گفتگو/شفیع عقیل)
*میرے افسانوں میں بہت ویرائٹی ہے۔(گفتگو/افتخار امام صدیقی)
*کچھ ناقدوں کو زعم ہے کہ وہ ادب میں کنگ میکر ہیں۔(گفتگو/شمس الرحمن فاروقی)
*میں بنیادی طور پر رومانٹک ہوں۔(گفتگو/ابوالکلام قاسمی)
*نقادوں نے فکشن کو سراسر نظر انداز کیا ہے۔(گفتگو/سکریتا پال)
*سرسید بڑے زبردست قسم کے ریفارمسٹ تھے۔(گفتگو/سہیل احمد خان)
*پاکستان ایک مقدمہ تھا جو قائد اعظم نے جیت لیا۔(گفتگو/حسن رضوی)
*ہندوستان میں اردو سیاست کا شکار ہوگئی۔(گفتگو/انیس الحق)
*ہمارے اکثر ناقدین لکیر کے فقیر ہیں۔(گفتگو/شمیم حنفی)
*نقادوں نے خاتون لکھنے والوں کو اگنور کیا ہے۔(گفتگو/آصف فرخی)
*بیشتر نقادوں کو فکشن کی سمجھ نہیں۔(گفتگو/زبیر رضوی)
*اردو میں متوازن تنقید بہت کم لکھی گئی ہے۔(گفتگو/شہزاد منظر)
*عام آدمی میرا موضوع کبھی نہیں رہا۔(گفتگو/پرویز احمد)
*ہندوستان میں اردو کو پاکستان کے قیام کی سیاسی قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔(گفتگو/الکا سنگھ)
*اردو ہندوستانی تہذیب کی عکاس ہے۔(گفتگو/نمائندہ فانا)
*تاریخ ایک بنیادی حقیقت ہے۔(گفتگو/جاوید ناصر)
[کتاب میں شامل تقریباً تمام انٹرویو ہندو پاک کے اہم ادبی رسالے یا اخبار میں شائع ہوچکے ہیں۔ صرف ایک شفیع عقیل کا انٹرویو ایسا ہے جو کہیں نہیں شائع ہوا ۔ پرویز احمد کا انٹرویو ہندی سے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ میں نے تمام انٹرویوز کے عنوانات کی بنیاد قرۃ العین حیدر کے چبھتے ہوئے جملوں کو بنایا ہے۔ جمیل اختر
“نوائے سروش” (قرۃ العین حیدر سے بات چیت)، مرتب: ڈاکٹر جمیل اختر، انٹرنیشنل اردو فاؤنڈیشن، دہلی، پہلی بار، نومبر 2001]
٭
1898 میں لاہور سے “تہذیب نسواں” کا اجرا ہوچکا تھا۔ اس زمانے میں مولوی محبوب عالم کا “شریف بی بی” بھی نکلنا شروع ہوا۔ اس طرح عورتوں کی جرنلزم کی بنیاد پڑی۔ 1908 میں رسالہ “عصمت” جاری ہوا۔ “عصمت” ہمارے ملک کی سماجی تاریخ میں ایک بے حد اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ زنانہ صحافت کا موثر اور زبردست انسٹیوشن “عصمت” اور “تہذیب نسواں” جیسے رسالوں کا مرہون منت ہے۔
(“داستان عہد گل”، مآخذ، صفحہ:342)
٭
میں ادب میں “لیڈیز کمپارٹمنٹ” اور “صرف عورتوں اور بچوں کے لیے” کی قسم کی تخصیص کی ہمیشہ سے مخالف ہوں لیکن اس “غزل نمبر” میں ایک زنانہ ڈبہ بھی شامل ہے۔کیوں کہ پیشتر تذکروں میں پرانی شاعرات کو نظر انداز کیا گیا ہے یا ان کے اکا دکا شعر شامل کیے جاتے تھے۔
(“فن اور شخصیت”، ممبئی، غزل نمبر،
جلد۔4، شمارہ۔6، مارچ 1978)
٭
مصلحتی تنقید ۔۔۔اردو میں کافی رائج ہے۔ اس نوجوان ادیب اور شاعر کا حالیہ واقعہ عبرت پکڑنے کے لیے کافی ہے کہ جب وہ مالی لحاظ سے صفر تھا تو اس کی تخلیقات پر کسی نے کچھ نہ لکھا مگر جب وہ کروڑ پتی وغیرہ بنا تو اسے الیٹ اور حافظ اور مولانا روم سے بھی برتر ثابت کیا گیا۔
(“داستان عہد گل”، صفحہ:221)
آزردگی
یہ بات تعجب خیز معلوم ہوتی ہے کہ “اداس نسلیں” کے متعدد ابواب میں “میرے بھی صنم خانے”، “سفینۂ غم دل”، “آگ کا دریا” اور “شیشے کا گھر” کے چند افسانوں کے اسٹائل کا گہرا چربہ اتارا گیا ہے۔ خفیف سے ردوبدل کے ساتھ پورے پورے جملے اور پیراگراف تک وہی ہیں۔ لیکن آج تک سوائے پاکستانی طنز نگار محمد خالد اختر کے کسی ایک پاکستانی یا ہندوستانی نقاد کی نظر اس طرف نہیں گئی، نہ کسی نے اشارتاً بھی اس کا ذکر کیا۔ کیا یہ Male Chauvinismنہیں ہے؟
(“کارجہاں دراز ہے”، دوم، صفحہ: 274)
٭
اب مجھے اتنے طویل عرصے بعد معلوم ہوا کہ “پوم پوم ڈارلنگ” عصمت چغتائی کے نام سے چھپا تھا لیکن اسے چند ترقی پسند ادبی نیتاؤں کی سنڈیکیٹ نے مل کر لکھا تھا۔
(“چاندنی بیگم کی واپسی”، ایوان اردو، دہلی، اکتوبر 1991)
٭
تبصرہ کرنے سے پہلے ادب عالیہ کی بو باس سے واقفیت بھی ضروری ہے۔۔۔”کارجہاں دراز ہے” (جلد اول) پڑھ کر بڑا تعجب اور افسوس ہوا۔۔۔۔”کارجہاں دراز ہے” قسم کی تصنیف میں ایک وسیع تاریخی اور عمرانی اور ادبی کینوس پیش کرتے ہوئے بڑے سے بڑا مورخ اور ریسرچ اسکالر چند غلطیاں ضرور کرسکتا ہے۔
(“بلٹز”، ہفتہ وار، ممبئی، سنیچر 25 مارچ 1978)
معاصرین
ان (ن۔م۔راشد) کے تازہ ترین مجموعۂ کلام “لا مساوی انسان” کی کچھ نظمیں ایران میں، میں نے ان کے ساتھ بیٹھ کر باآواز بلند پڑھیں اور نتیجہ نکالا کہ Poetry is a condition of musicوالی بات ان کی نظموں کے سلسلے میں صحیح ہے۔
(ن۔م۔راشد/قرۃ العین حیدر، “گفتگو”11، 14 ستمبر 1975)
٭
جاں نثار اختر کی مارکسٹ، روحانی، آدرش وادی، غنائیہ شاعری کے متعلق اس شمارے میں اردو کے چند نقادوں ، شاعروں اور ادیبوں کے مضامین شامل ہیں۔ لہٰذا مجھے کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں لیکن “خاک دل” میں مجھے “آشا کے منوہر پھول کھلے”، “ہردے کا کنول مسکایا”، (گاندھی جناح ملاقات) “مزدور کے سادہ ماتھے پر گلرنگ شفق لہرانے لگی” جیسے افسوس ناک اشعار کے ساتھ ساتھ اچانک “چاند سے جب بادل گذرا”، “دل سے گذرا عکس تمھارا” اور “ریاست” جیسی نظم بھی ملی۔
(“فن اور شخصیت”، ممبئی، جاں نثار اختر نمبر)
٭
ہر عہد اپنے ایک شاعر کے ذریعے پہچانا جاتا ہے۔ یہ فیض صاحب کا دور ہے اور یہ دور “نقش فریادی” کی اشاعت کے وقت سے چلا آ رہا ہے۔ فیض صاحب کی کمیونزم، روسی دوستی، بھارت نوازی، پنجابیت، بے پناہ مقبولیت، یہ تمام چیزیں آپ کو کتنی ہی کھلتی ہوں، آپ ان کے متعلق کچھ نہیں کرسکتے۔
موصوف رفتہ رفتہ ایک Cult Figure میں تبدیل ہوتے گئے اور اب ایک نوع کے sagaبن چکے ہیں۔ 1977 میں ایک کتاب لاہور سے چھپی “ہم کہ ٹھہرے اجنبی” جس کا عنوان دراصل “ملفوظات حضرت فیض شاہ جہان دوست” ہونا چاہیے۔
(“فن اور شخصیت”، ممبئی، فیض احمد فیض نمبر )
٭
کچھ دیر بعد فیض صاحب نے کافی کی پیالی میز پر رکھ کر سگریٹ سلگایا۔۔۔میں نے ان کو اطلاع دی ،” ہم نے نیا ناول لکھنا شروع کردیا ہے۔ آپ جلدی سے کوئی نظم کہیے تاکہ ہم اس میں سے عنوان نکالیں۔’داغ داغ اجالا’تو ہم نے کرلیا۔”
“آگیا۔۔۔آگیا۔۔۔” میں نے یکلخت اچھل کر کہا، “سفینۂ غم دل، ہوگیا عنوان”۔
(“کارجہاں دراز ہے”، دوم، صفحہ:73)
٭
ظ ۔ انصاری سے میری ملاقات غالباً 1963 میں ۔۔۔اور آخری بار غالباً 1980 میں۔ ایک بار مجھ سے الیٹ پر مضمون لکھنے کی فرمائش کی۔۔۔ہوا یہ کہ سردار جعفری نے اپنے کسی مضمون میں الیٹ کو رجعت پسند بتایا تھا۔ اس سلسلے میں “آئینہ” میں ایک بحث شروع ہوگئی اور انصاری صاحب اس کو ہوا دیتے رہے۔
(“آجکل”، نئی دہلی، اپریل 1991)
٭
جب سردار کا انتقال ہوا ، میں لندن گئی ہوئی تھی اور وہیں اردو مرکز میں ان کے لیے تعزیتی جلسہ منعقد ہوا اور میں نے اس میں پڑھنے کے لیے ایک مضمون لکھا “مسرت کے جواں ملاح”۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ اس جلسے کے بعد میں نے وہ مضمون وہیں کہیں رکھ دیا اور ہال سے باہر آگئی اور اس کے بعد وہ مضمون کھو گیا۔
(“گل صد برگ”، ہماری سلطانہ آپا)
٭
اب مجھے کسی ہم قلم بزرگ ، ساتھی یا دوست کی یاد میں لکھتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ منٹو، مجاز، محمود نظامی، صدیق احمد صدیقی، شوکت تھانوی، شاہد احمد دہلوی، ڈاکٹر محمد اشرف، مہیندر ناتھ، ن۔م۔راشد اور اب کرشن چندر۔ کیوں کہ Obit Writing ایک ناخوشگوار فریضہ ہے۔
(“ہمیں سوگئے داستاں کہتے کہتے”/گل صد برگ)