عقل اور جدیدیت کی مذمت – محمد حسن عسکری
عقلیت پرستی کی داستان یہ ہے۔ سترھویں صدی کے وسط تک لوگ یہ طے کر چکے تھے کہ انسان کی جدوجہد کا میدان یہ مادی کائنات ہے، اور انسان کا مقصد حیات تسخیر فطرت یا تسخیر کائنات ہونا چاہئے۔ بیکن نے مطالعہ فطرت کا طریقہ بھی مقرر کر دیا تھا۔ اب سوال یہ تھا کہ انسانی صلاحیتوں میں کونسی صلاحیت ایسی ہے جو تسخیر کائنات کے لئے زیادہ مفید ہو سکتی ہے۔ اس دور نے یہ فیصلہ کیا کہ انسان صرف عقل (یعنی عقل جزوی اور عقل معاش) پر بھروسہ کر سکتا ہے، کیونکہ یہی چیز سارے انسانوں میں مشترک ہے۔ عقل (جزوی) کا یہ اختصاص ظاہر کرنے کے لئے ان لوگوں نے لفظ (یونیورسل) استعمال کیا۔ اس لفظ کی وجہ سے اتنی غلط فہمیاں اور گمراہیاں پیدا ہوئی ہیں کہ ہمارے علما کو اس کی نوعیت اچھی طرح ذہن میں رکھنی چاہئے۔ اس لفظ کے اصل معنی ہیں۔ “عالم گیر” یا “کائنات گیر”مگر یہاں عالم کے معنی مادی کائنات نہیں ہیں، بلکہ وہ مفہوم ہے جو “اٹھارہ ہزار عوالم” کے فقرے میں آتا ہے۔ ہمارے دینی علوم میں دراصل اس مفہوم کو ادا کرنے کے لئے دو کاف استعمال ہوتے ہیں…”کامل” (جیسے “انسان کامل”) اور “کلی” (جیسے “عقل کلی”) مگرفی الحال مغرب “عوالم” کا مطلب نہیں جانتا’ اس کے ذہن میں “عالم” کا مطلب صرف مادی کائنات اور اس کے اجزاء ہیں۔ چناچہ سترھویں صدی سے مغرب میں (یونیورسل) کا لفظ جنرل (یعنی عمومی) کے معنوں میں استعمال ہو رہا ہے۔ جو چیز “عمومی” ہوتی ہے وہ انفرادیت اور جزویت ہی کے دائرے میں رہتی ہے “کامل” اور “کلی” نہیں ہوتی۔ مگر مغرب اس امتیاز سے واقف نہیں۔
یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ غرض ‘ عقلیت پرستی کے دور میں یہ بات تسلیم کرلی گئی کہ انسان کی رہنمائی بس عقل (جزوی) کر سکتی ہے۔
اس دور کے سب سے بڑے “امام” دو ہیں۔ ایک تو فرانس کا فلسفی اور ریاضی دان دے کارت اور دوسرا انگلستان کا سائنسدان نیوٹن۔
دیکارت یوں تو رومن کیتھلک پادری تھا اور اپنی تحریروں کے ذریعے لوگوں کے شکوک و شبہات دور کر کے اپنے دین کی خدمت کرنا چاہتا تھا۔ لیکن نتیجہ الٹا نکلا۔ مغرب کے ذہن کو مسخ کرنے کی ذمہ داری جتنی اس پر ہے شاید اتنی کسی ایک فرد پر نہیں’ فرانس کے ایک رومن کیتھلک مصنف نے تو یہاں تک کہا ہے کہ فرانس نے خدا کے خلاف جو سب سے بڑا گناہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ دیکارت کوپیدا کیا۔
اب تک تو یہ بحث چلی آرہی تھی کہ حقیقت روح میں ہے یا مادے میں ‘بعض لوگ کہتے تھے کہ روح حقیقی ہے ‘مادہ غیر حقیقی۔ بعض لوگ کہتےتھے کہ مادہ بھی حقیقت رکھتا ہے مگر کھلی طور پر، کچھ لوگ دبے لفظوں میں یہ بھی کہتے ہیں کہ بس مادہ ہی حقیت ہے۔ اس سارے جھگڑے کا دیکارت نے یہ حل نکالا کہ روح اور مادہ دونوں حقیقی ہیں’ مگر ایک دوسرے سے بلکل الگ ہیں اور اپنی اپنی جگہ قائم ہیں۔ چناچہ اس نے روح اور مادے کو ‘ انسان کی روح اور جسم کے دو الگ الگ خانوں میں بانٹ دیا جو ایک دوسرے سے آزاد اور خود مختار ہیں۔
یہ نظریہ مغربی ذہن میں اس طرح بیٹھا ہے کہ تین سو سال سے یہ تفریق اسی طرح چلی جا رہی ہے۔ روح اور جسم’ روح اور مادے کے ارتباط کے مسلہ آج تک حل نہیں ہوا۔ مغرب کے زیادہ تر مفکر جسم اور مادے میں اٹک کے رہ گۓ’ اس سے اوپر نہیں جا سکتے کچھ مفکر روح میں لٹک گۓ تو نیچے نہیں آ سکتے۔ دیکارت کے فلسفے کا سب سے خوفناک نتیجہ یہ ہوا ہے کہ مغرب “روح” کے معنی ہی بھول گیا’ اور “ذہن” (یا “نفس”) کو روح سمجھنےلگا۔
یہ گڑبڑ دراصل یونانی فلسفے میں بھی موجود تھی۔ ارسطو وغیرہ یونانی فلسفی انسان کی تعریف دو طرح کرتے ہیں۔ انسان کو یا تو “معاشرتی حیوان” کہتے ہیں یا “عقلی حیوان” (ان فقروں سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ یونانی فلسفے پر معاشرتی نقطہ نظر اور عقل جزوی کس حد تک غالب تھی)۔ دیکارت کے ہم عصر فرانسیسی مفکر پاسکال نے انسان کو “سوچنے والا سرکنڈا” بتایا ہے۔ یعنی انسان کے جسمانی وجود کے جانور کی سطح سے بھی نیچے اتار دیا ہے۔ (مغرب کی ساری جسم پروری کے باوجود مغربی فکر میں جسمانیت سے گھبرانے اور اسے حقیر سمجھنے کا رجحان بھی خاصا قوی ہے۔)
اسی طرح دیکارت نے انسانی وجود کی تعریف ایک مشہور لاطینی فقرے میں یوں کی ہے۔
“میں سوچتا ہوں” اس لئے میں ہوں”۔ گویا اس کےنزدیک وجود کا انحصار ذہن پر ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر آدمی نہ سوچے تو اس کا وجود رہے گا یا نہیں۔ خود دیکارت سے ایک آدمی نے پوچھا تھا کہ “میرے کتے کے بارے میں آپ کی کیا راۓ ہے ؟”
غرض ‘ جسم اور روح’ مادے اور روح کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکارت نے مغربی فکر کو ایسی الجھن میں ڈال دیا ہے جس سے باہر نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیںآتی’ اور مغربی ذہن ہر مسئلے پر روح اور مادے کے تقابل یا تضاد ہی کے لحاظ سے غور کرتا ہے۔
دیکارت کے ہم عصر پاسکال نے ایک دوسرے قسم کی کشمکش مغربی ذہن میں پیدا کی ہے۔ اب تک تو لڑائی روح اور جسم میں ہی تھی۔ چونکہ مغرب “روح” کے معنی بھولنے لگا تھا’ اس لئے کہنا چاہئے کہ ذہن (یا نفس) اور جسم میں لڑائی تھی۔ پاسکال نے اعلان کیا کہ “دل کے پاس بھی ایسی منطق ہے جسے عقل نہیں سمجھ سکتی،”
یہاں لفظ “دل” کے معنی خاص طور سے سمجھہ لینے چاہیں’ نہ صرف اسلامی علوم میں بلکہ سارے مشرقی ادیان میں “دل” سے مراد ہے “عقلی کلی”۔ علاوہ ازیں ‘ ہمارے یہاں “نفس” روح اور جسم کے درمیان کی چیز ہے۔ اس لئے “نفس” میں عقل جزوی بھی شامل ہے اور ہوا وہوس بھی۔ پاسکال نے جس “دل” کا ذکر کیا ہے اور جسے “ذہن” مقابل رکھا ہے۔ اس سے مراد “جذبات” ہیں۔ اس سے بتیجھ یہ نکلتا ہے کہ پاسکال نے “دل” اور “عقل” یا “ذہن” کے درمیان جنگ چھیڑ دی’ اور مغربی فکر اور ادب میں اس جنگ کی شدّت بڑھتی ہی چلی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس جنگ سے آدمی کو جذباتی تکلیف پھنچتی ہے۔ بیسویں صدی میں اس تکلیف کا نام “کرب” رکھا گیا ہے۔ (اس ضمن میں جرمن زبان کا لفظ اینگسٹ بہت مشھور ہوا ہے۔ جس کے لئے انگریزی میں لفظ اینگش ہے)۔ ہمارے زمانے میں بہت سے مغربی مفکر اس “کرب” کو انسان کی معراج سمجھتے ہیں۔ دیکارت کہتا تھا کہ انسان کو وجود سوچنے سے حاصل ہوتا ہے۔ آج کل کے بہت سے مفکر کہتے ہیں کہ انسان کو وجود “کرب” سے حاصل ہوتا ہے۔ بلکہ بعض مفکر تو اس “کرب” اور مذہب کو ہم معنی سمجھتےہیں اور اپنی دینیات کی بنیاد اسی پر رکھتے ہیں۔
عقلیت پرستی کے دور کا دوسرا بڑا امام نیوٹن ہے۔ سائنس میں اس کا سب سے بڑا کارنامہ “کشش ثقل کے قانون” کی دریافت ہے۔ لیکن مغربی ذہن پر اس کا اثر بہت گہرا پڑا ہے۔ یہ قانون معلوم کر کے اس نے گویا یہ دکھا دیا کہ کائنات کا نظام چند واضح قوانین کے ذریعے چل رہا ہے۔ اگر انسان اپنی عقل (جزوی) کی مدد سے یہ قوانین دریافت کرلے تو کائنات اور فطرت پر بورا قابو حاصل کر سکتا ہے۔ قوانین دریافت کرنے میں وقت لگے گا، لیکن انسان کو یہ امید رکھنی چاہئے کہ ایک دن فطرت کو فتح کرلے گا۔
سائنس نیوٹن سے بہت آگے چلا گیا اور اس کا تصور کائنات رد کردیا گیا’ مگر اس نے جو ذہنیت پیدا کی تھی وہ بڑھتی چلی گئی ہے۔
نیوٹن کی نظرمیں کائنات اور فطرت ایک بے جان مشین تھی’ اور انسان ایک انجینئر کی طرح تھا۔ کائنات کے اس نظرئیے کو “میکانکیت” کہتے ہیں۔ انیسویں صدی میں بعض مفکروں نے اس نظرئیے کو رد کر دیا’ اور یہ ثابت کیا کہ کائنات اور فطرت بھی انسان کی طرح جان رکھتی ہے’ اور نمو اس کی بنیادی خصوصیت ہے’ اور کائنات خود اپنی توانائی سے زندہ ہے۔ اس نظریے کو “نامیت” کہتے ہیں۔ یہ ایک اور جھگڑا ہے جو تقریبا دو سو سال سے مغرب کے فلسفی اور سائنس داں دو حریف جماعتوں میں صف آرا چلے آ رہے ہیں۔ ایک گروہ میکانیت کا قائل ہے’ دوسرا نامیت کا۔
عقلیت پرستی کے دور میں ہی نفسیات کا آغاز ہوا۔ اس سے پہلے نفسیات کوئی الگ علم نہیں تھا’ بلکہ فلسفے ہی کا حصّہ تھا۔ ابن رشد نے تو علم النفس کو طبیعات کے ماتحت رکھا ہے۔نفسیات کو فلسفے سے الگ کرنے کا کام سترھویں صدی کے دوسرے حصّے میں انگریز مفکر لاک نے سر انجام دیا’ اور اس کے نظریات میں اضافہ اٹھارویں صدی کے انگریز مفکر ہارٹلے نے کیا۔ نیوٹن نے کائنات کو مشین سمجھا تھا۔ ان دو مفکروں نے انسانی ذہن کو بھی مشین سمجھا۔ ان کا خیال ہے کہ ذہن بجاۓ خود کوئی چیز نہیں’ خارجی اشیاء انسان کے اعصاب پر اثر انداز ہوتی ہیں (مثلآ کوئی چیز دیکھی یا سونگھی یا چھوئی) تو اعصاب میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے۔ یہ ارتعاش دماغ کے مرکز میں پہنچ کر تصویر کی شکل میں تبدیل ہو جاتا ہے’ اور پھر تصویر خیال بن جاتی ہے۔ اس طرح خارجی اشیاء کے عمل سے ذہن پیدا ہوتا ہے۔
اس نظرئیے کا جواب اٹھارویں صدی میں پادری بارکلے نے دیا۔ اس کا خیال ہے کہ خارجی اشیاء کو وجود حاصل نہیں’ بلکہ ذہن خارجی اشیاء کوپیدا کرتا ہے۔ جب کوئی آدمی کہتا ہے کہ میں نے پھول دیکھا’ تو اس کے پاس پھول کے وجود کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔ یہ تو بس ایک ذہنی ادراک ہے’ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ ذہن خارجی اشیاء کو پیدا کرتا ہے۔ پادری بارکلے نے انسانی ذہن کے نمونے پر خدا کا بھی ذہنی تصور کیا تھا (نعوذ باللہ)۔ اس نظرئیے کو “مثالیت” کہتے ہیں۔
انسانی ذہن کے یہ دونوں نظرئیے دراصل روح اور مادے کے اسی تقابل کا نتیجہ ہیں جو دیکارت سے شروع ہوا تھا’ اسی لئے ان دونوں کے درمیان کوئی مصالحت نہیں ہو سکتی۔
اٹھارویں صدی کا انگریز فلسفی ہیوم ایک معاملے میں بڑی اہمیت رکھتا ہے اس نے کہا ہے کہ ہر ایسے لفظ کو شک کی نظر سے دیکھنا چاہئے جو کسی ایسی چیز پر دلالت کرتا ہو جسے حسی تجربے میں نہ لیا جا سکے۔ یعنی وہ چاہتا تھا کہ انسانی زبان و بیان سے ایسے لفظ بھی خارج کردیۓ جائیں جن کا تعلق روحانیت سے ہوں۔ یہ رجحان آگے چل کر انیسویں صدی میں فرانس کے فلسفی کونت کے “نظریہ ثبوتیت” کی شکل میں ظاہر ہوا، اور بیسویں صدی میں انگریزوں کے “منطقی ثبوتیت” کی شکل میں۔ ان فلسفوں کا بیان آگے ہو گا ۔
اٹھارویں صدی میں ایک نئی قسم کا مذہب نمودار ہوا جو دراصل دہریت کی ایک شکل ہے۔ اس کا نام (خدا شناسی) رکھا گیا ہے۔ اس دور کے لوگ کہتے تھے کہ عقل (جزوی) انسان کا خاص جوہر ہے’ اور یہ چیز ہر زمانے او ہر جگہ کے انسانوں میں مشترک ہے’ اور ہر جگہ ایک ہی کام کرتی ہے۔چناچہ خدا کو پہچاننے کے لئے وحی پر تکیہ کرنے کی ضرورت نہیں’ عقل (جزوی) کی مدد سے بھی خدا تک پہنچ سکتے ہیں۔ عقل کے ذریعے چند ایسے اصول معلوم کئے جا سکتے ہیں جو سارے مذاہب میں مشترک ہوں۔ ان اصولوں کا مجموعہ ہی اصل مذہب ہوگا۔
جب انگریز ہمارے یہاں آئے تو ان کے اثر سے یہ رجحان ہمارے برصغیر میں بھی پہنچا۔
18577، کی جنگ آزادی کے بعد “خدا شناسی” کے جو میلے انگریزوں نے کراۓ ان کے پیچھے یہی رجحان تھا۔ ہندو اس سے بہت متاثر ہوئے’ اور انیسویں صدی کے شروع میں راجہ رام موہن راۓ نے جو “برہمو سماج” کی بنیاد ڈالی وہ اسی اثر کا نتیجہ تھا۔
مسلمان بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ 18366، میں کمبل پوش نے یورپ کا سفر کیا تھا اور دس سال بعد اپنا سفر نامہ لکھا۔ ان کی کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ یورپ جانے سے پہلے ہی وہ “خدا شناسی” سے متاثر ہو چکے تھے۔ اس کا نام انہوں نے “سلیمانی مذہب” رکھا ہے۔ اسی کے اثرات اردو شاعر غالب کے یہاں بھی نظر آتے ہیں۔
عقلیت پرستی کے دور کی ایک مرکزی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے انسانی زندگی اور انسانی فکر میں سب سے اونچی جگہ معاشرے کو دی تھی۔ان کا خیال تھا کہ فرد کو اپنے ہر فعل اور قول میں معاشرے کا پابند ہونا چاہئے۔ یہ لوگ مذہب کو بھی صرف اسی حد تک قبول کرتے تھے جس حد تک کہ مذہب معاشرے کے انضباط میں معاون ہو سکتا ہے۔ غرض معاشرے کو بلکل خدا کی حیثیت دے دی گئی تھی نعوذباللہ۔۔اس کے خلاف رد عمل انیسویں صدی میں ہوا’ اور معاشرے کے بجاۓ فرد کو اہمیت دی گئی۔ بیسویں صدی میں اشتراکیت کے زیر اثر بعض لوگ معاشرے کو پھر خدا ماننے لگے۔
مغربی فکر میں جس طرح روح اور مادے ‘ ذہن اور جسم’ عقل اور جذبے کے درمیان مسلسل کشمکش جاری ہے’ اسی طرح معاشرے اور فرد کی کشمکش بھی بنیادی حیثیت رکھتی ہے’ اور اس کا بھی کوئی حل نہیں ملتا۔ مغرب میں جو معاشرتی انتشار پھیلا ہوا ہے اور روز بروز بڑھتا ہی جاتا ہے اس کی جڑ یہی تضاد ہے۔
ان تصریحات سے پتا چلتا ہے کہ مغرب کا ذہن کسی طرح کی وحدت تک پہنچ ہی نہیں سکتا’ اور دوئی ‘ تضاد اور کثرت میں پھنس کے رہ گیا ہے۔ وحدت کا اصول قائم کرنے کی جتنی کوششیں ہوئی ہیں وہ کامیاب نہیں ہو سکیں’ اس کی اصلی وجہ یہ ہے کہ مغرب مادے میں وحدت ڈھونڈھتا ہے جہاں کثرت اور شکست وریخت کے سوا کچھ نہیں مل سکتا۔۔
مغرب چاہے معاشرے کو اوپر رکھے یا فرد’ دونوں نظریوں میں ایک بات مشترک ہے ………۔ انسان پرستی۔ بیسویں صدی میں بعض مفکر اور ادیب ایسے بھی ہیں جو انسان کو حقیر سمجھتے ہیں یا انسان سے نفرت کرتے ہیں’ لیکن ان کی فکر کا مرکز بھی انسان ہی ہے…
یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ غرض ‘ عقلیت پرستی کے دور میں یہ بات تسلیم کرلی گئی کہ انسان کی رہنمائی بس عقل (جزوی) کر سکتی ہے۔
اس دور کے سب سے بڑے “امام” دو ہیں۔ ایک تو فرانس کا فلسفی اور ریاضی دان دے کارت اور دوسرا انگلستان کا سائنسدان نیوٹن۔
دیکارت یوں تو رومن کیتھلک پادری تھا اور اپنی تحریروں کے ذریعے لوگوں کے شکوک و شبہات دور کر کے اپنے دین کی خدمت کرنا چاہتا تھا۔ لیکن نتیجہ الٹا نکلا۔ مغرب کے ذہن کو مسخ کرنے کی ذمہ داری جتنی اس پر ہے شاید اتنی کسی ایک فرد پر نہیں’ فرانس کے ایک رومن کیتھلک مصنف نے تو یہاں تک کہا ہے کہ فرانس نے خدا کے خلاف جو سب سے بڑا گناہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ دیکارت کوپیدا کیا۔
اب تک تو یہ بحث چلی آرہی تھی کہ حقیقت روح میں ہے یا مادے میں ‘بعض لوگ کہتے تھے کہ روح حقیقی ہے ‘مادہ غیر حقیقی۔ بعض لوگ کہتےتھے کہ مادہ بھی حقیقت رکھتا ہے مگر کھلی طور پر، کچھ لوگ دبے لفظوں میں یہ بھی کہتے ہیں کہ بس مادہ ہی حقیت ہے۔ اس سارے جھگڑے کا دیکارت نے یہ حل نکالا کہ روح اور مادہ دونوں حقیقی ہیں’ مگر ایک دوسرے سے بلکل الگ ہیں اور اپنی اپنی جگہ قائم ہیں۔ چناچہ اس نے روح اور مادے کو ‘ انسان کی روح اور جسم کے دو الگ الگ خانوں میں بانٹ دیا جو ایک دوسرے سے آزاد اور خود مختار ہیں۔
یہ نظریہ مغربی ذہن میں اس طرح بیٹھا ہے کہ تین سو سال سے یہ تفریق اسی طرح چلی جا رہی ہے۔ روح اور جسم’ روح اور مادے کے ارتباط کے مسلہ آج تک حل نہیں ہوا۔ مغرب کے زیادہ تر مفکر جسم اور مادے میں اٹک کے رہ گۓ’ اس سے اوپر نہیں جا سکتے کچھ مفکر روح میں لٹک گۓ تو نیچے نہیں آ سکتے۔ دیکارت کے فلسفے کا سب سے خوفناک نتیجہ یہ ہوا ہے کہ مغرب “روح” کے معنی ہی بھول گیا’ اور “ذہن” (یا “نفس”) کو روح سمجھنےلگا۔
یہ گڑبڑ دراصل یونانی فلسفے میں بھی موجود تھی۔ ارسطو وغیرہ یونانی فلسفی انسان کی تعریف دو طرح کرتے ہیں۔ انسان کو یا تو “معاشرتی حیوان” کہتے ہیں یا “عقلی حیوان” (ان فقروں سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ یونانی فلسفے پر معاشرتی نقطہ نظر اور عقل جزوی کس حد تک غالب تھی)۔ دیکارت کے ہم عصر فرانسیسی مفکر پاسکال نے انسان کو “سوچنے والا سرکنڈا” بتایا ہے۔ یعنی انسان کے جسمانی وجود کے جانور کی سطح سے بھی نیچے اتار دیا ہے۔ (مغرب کی ساری جسم پروری کے باوجود مغربی فکر میں جسمانیت سے گھبرانے اور اسے حقیر سمجھنے کا رجحان بھی خاصا قوی ہے۔)
اسی طرح دیکارت نے انسانی وجود کی تعریف ایک مشہور لاطینی فقرے میں یوں کی ہے۔
“میں سوچتا ہوں” اس لئے میں ہوں”۔ گویا اس کےنزدیک وجود کا انحصار ذہن پر ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر آدمی نہ سوچے تو اس کا وجود رہے گا یا نہیں۔ خود دیکارت سے ایک آدمی نے پوچھا تھا کہ “میرے کتے کے بارے میں آپ کی کیا راۓ ہے ؟”
غرض ‘ جسم اور روح’ مادے اور روح کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکارت نے مغربی فکر کو ایسی الجھن میں ڈال دیا ہے جس سے باہر نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیںآتی’ اور مغربی ذہن ہر مسئلے پر روح اور مادے کے تقابل یا تضاد ہی کے لحاظ سے غور کرتا ہے۔
دیکارت کے ہم عصر پاسکال نے ایک دوسرے قسم کی کشمکش مغربی ذہن میں پیدا کی ہے۔ اب تک تو لڑائی روح اور جسم میں ہی تھی۔ چونکہ مغرب “روح” کے معنی بھولنے لگا تھا’ اس لئے کہنا چاہئے کہ ذہن (یا نفس) اور جسم میں لڑائی تھی۔ پاسکال نے اعلان کیا کہ “دل کے پاس بھی ایسی منطق ہے جسے عقل نہیں سمجھ سکتی،”
یہاں لفظ “دل” کے معنی خاص طور سے سمجھہ لینے چاہیں’ نہ صرف اسلامی علوم میں بلکہ سارے مشرقی ادیان میں “دل” سے مراد ہے “عقلی کلی”۔ علاوہ ازیں ‘ ہمارے یہاں “نفس” روح اور جسم کے درمیان کی چیز ہے۔ اس لئے “نفس” میں عقل جزوی بھی شامل ہے اور ہوا وہوس بھی۔ پاسکال نے جس “دل” کا ذکر کیا ہے اور جسے “ذہن” مقابل رکھا ہے۔ اس سے مراد “جذبات” ہیں۔ اس سے بتیجھ یہ نکلتا ہے کہ پاسکال نے “دل” اور “عقل” یا “ذہن” کے درمیان جنگ چھیڑ دی’ اور مغربی فکر اور ادب میں اس جنگ کی شدّت بڑھتی ہی چلی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس جنگ سے آدمی کو جذباتی تکلیف پھنچتی ہے۔ بیسویں صدی میں اس تکلیف کا نام “کرب” رکھا گیا ہے۔ (اس ضمن میں جرمن زبان کا لفظ اینگسٹ بہت مشھور ہوا ہے۔ جس کے لئے انگریزی میں لفظ اینگش ہے)۔ ہمارے زمانے میں بہت سے مغربی مفکر اس “کرب” کو انسان کی معراج سمجھتے ہیں۔ دیکارت کہتا تھا کہ انسان کو وجود سوچنے سے حاصل ہوتا ہے۔ آج کل کے بہت سے مفکر کہتے ہیں کہ انسان کو وجود “کرب” سے حاصل ہوتا ہے۔ بلکہ بعض مفکر تو اس “کرب” اور مذہب کو ہم معنی سمجھتےہیں اور اپنی دینیات کی بنیاد اسی پر رکھتے ہیں۔
عقلیت پرستی کے دور کا دوسرا بڑا امام نیوٹن ہے۔ سائنس میں اس کا سب سے بڑا کارنامہ “کشش ثقل کے قانون” کی دریافت ہے۔ لیکن مغربی ذہن پر اس کا اثر بہت گہرا پڑا ہے۔ یہ قانون معلوم کر کے اس نے گویا یہ دکھا دیا کہ کائنات کا نظام چند واضح قوانین کے ذریعے چل رہا ہے۔ اگر انسان اپنی عقل (جزوی) کی مدد سے یہ قوانین دریافت کرلے تو کائنات اور فطرت پر بورا قابو حاصل کر سکتا ہے۔ قوانین دریافت کرنے میں وقت لگے گا، لیکن انسان کو یہ امید رکھنی چاہئے کہ ایک دن فطرت کو فتح کرلے گا۔
سائنس نیوٹن سے بہت آگے چلا گیا اور اس کا تصور کائنات رد کردیا گیا’ مگر اس نے جو ذہنیت پیدا کی تھی وہ بڑھتی چلی گئی ہے۔
نیوٹن کی نظرمیں کائنات اور فطرت ایک بے جان مشین تھی’ اور انسان ایک انجینئر کی طرح تھا۔ کائنات کے اس نظرئیے کو “میکانکیت” کہتے ہیں۔ انیسویں صدی میں بعض مفکروں نے اس نظرئیے کو رد کر دیا’ اور یہ ثابت کیا کہ کائنات اور فطرت بھی انسان کی طرح جان رکھتی ہے’ اور نمو اس کی بنیادی خصوصیت ہے’ اور کائنات خود اپنی توانائی سے زندہ ہے۔ اس نظریے کو “نامیت” کہتے ہیں۔ یہ ایک اور جھگڑا ہے جو تقریبا دو سو سال سے مغرب کے فلسفی اور سائنس داں دو حریف جماعتوں میں صف آرا چلے آ رہے ہیں۔ ایک گروہ میکانیت کا قائل ہے’ دوسرا نامیت کا۔
عقلیت پرستی کے دور میں ہی نفسیات کا آغاز ہوا۔ اس سے پہلے نفسیات کوئی الگ علم نہیں تھا’ بلکہ فلسفے ہی کا حصّہ تھا۔ ابن رشد نے تو علم النفس کو طبیعات کے ماتحت رکھا ہے۔نفسیات کو فلسفے سے الگ کرنے کا کام سترھویں صدی کے دوسرے حصّے میں انگریز مفکر لاک نے سر انجام دیا’ اور اس کے نظریات میں اضافہ اٹھارویں صدی کے انگریز مفکر ہارٹلے نے کیا۔ نیوٹن نے کائنات کو مشین سمجھا تھا۔ ان دو مفکروں نے انسانی ذہن کو بھی مشین سمجھا۔ ان کا خیال ہے کہ ذہن بجاۓ خود کوئی چیز نہیں’ خارجی اشیاء انسان کے اعصاب پر اثر انداز ہوتی ہیں (مثلآ کوئی چیز دیکھی یا سونگھی یا چھوئی) تو اعصاب میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے۔ یہ ارتعاش دماغ کے مرکز میں پہنچ کر تصویر کی شکل میں تبدیل ہو جاتا ہے’ اور پھر تصویر خیال بن جاتی ہے۔ اس طرح خارجی اشیاء کے عمل سے ذہن پیدا ہوتا ہے۔
اس نظرئیے کا جواب اٹھارویں صدی میں پادری بارکلے نے دیا۔ اس کا خیال ہے کہ خارجی اشیاء کو وجود حاصل نہیں’ بلکہ ذہن خارجی اشیاء کوپیدا کرتا ہے۔ جب کوئی آدمی کہتا ہے کہ میں نے پھول دیکھا’ تو اس کے پاس پھول کے وجود کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔ یہ تو بس ایک ذہنی ادراک ہے’ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ ذہن خارجی اشیاء کو پیدا کرتا ہے۔ پادری بارکلے نے انسانی ذہن کے نمونے پر خدا کا بھی ذہنی تصور کیا تھا (نعوذ باللہ)۔ اس نظرئیے کو “مثالیت” کہتے ہیں۔
انسانی ذہن کے یہ دونوں نظرئیے دراصل روح اور مادے کے اسی تقابل کا نتیجہ ہیں جو دیکارت سے شروع ہوا تھا’ اسی لئے ان دونوں کے درمیان کوئی مصالحت نہیں ہو سکتی۔
اٹھارویں صدی کا انگریز فلسفی ہیوم ایک معاملے میں بڑی اہمیت رکھتا ہے اس نے کہا ہے کہ ہر ایسے لفظ کو شک کی نظر سے دیکھنا چاہئے جو کسی ایسی چیز پر دلالت کرتا ہو جسے حسی تجربے میں نہ لیا جا سکے۔ یعنی وہ چاہتا تھا کہ انسانی زبان و بیان سے ایسے لفظ بھی خارج کردیۓ جائیں جن کا تعلق روحانیت سے ہوں۔ یہ رجحان آگے چل کر انیسویں صدی میں فرانس کے فلسفی کونت کے “نظریہ ثبوتیت” کی شکل میں ظاہر ہوا، اور بیسویں صدی میں انگریزوں کے “منطقی ثبوتیت” کی شکل میں۔ ان فلسفوں کا بیان آگے ہو گا ۔
اٹھارویں صدی میں ایک نئی قسم کا مذہب نمودار ہوا جو دراصل دہریت کی ایک شکل ہے۔ اس کا نام (خدا شناسی) رکھا گیا ہے۔ اس دور کے لوگ کہتے تھے کہ عقل (جزوی) انسان کا خاص جوہر ہے’ اور یہ چیز ہر زمانے او ہر جگہ کے انسانوں میں مشترک ہے’ اور ہر جگہ ایک ہی کام کرتی ہے۔چناچہ خدا کو پہچاننے کے لئے وحی پر تکیہ کرنے کی ضرورت نہیں’ عقل (جزوی) کی مدد سے بھی خدا تک پہنچ سکتے ہیں۔ عقل کے ذریعے چند ایسے اصول معلوم کئے جا سکتے ہیں جو سارے مذاہب میں مشترک ہوں۔ ان اصولوں کا مجموعہ ہی اصل مذہب ہوگا۔
جب انگریز ہمارے یہاں آئے تو ان کے اثر سے یہ رجحان ہمارے برصغیر میں بھی پہنچا۔
18577، کی جنگ آزادی کے بعد “خدا شناسی” کے جو میلے انگریزوں نے کراۓ ان کے پیچھے یہی رجحان تھا۔ ہندو اس سے بہت متاثر ہوئے’ اور انیسویں صدی کے شروع میں راجہ رام موہن راۓ نے جو “برہمو سماج” کی بنیاد ڈالی وہ اسی اثر کا نتیجہ تھا۔
مسلمان بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ 18366، میں کمبل پوش نے یورپ کا سفر کیا تھا اور دس سال بعد اپنا سفر نامہ لکھا۔ ان کی کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ یورپ جانے سے پہلے ہی وہ “خدا شناسی” سے متاثر ہو چکے تھے۔ اس کا نام انہوں نے “سلیمانی مذہب” رکھا ہے۔ اسی کے اثرات اردو شاعر غالب کے یہاں بھی نظر آتے ہیں۔
عقلیت پرستی کے دور کی ایک مرکزی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے انسانی زندگی اور انسانی فکر میں سب سے اونچی جگہ معاشرے کو دی تھی۔ان کا خیال تھا کہ فرد کو اپنے ہر فعل اور قول میں معاشرے کا پابند ہونا چاہئے۔ یہ لوگ مذہب کو بھی صرف اسی حد تک قبول کرتے تھے جس حد تک کہ مذہب معاشرے کے انضباط میں معاون ہو سکتا ہے۔ غرض معاشرے کو بلکل خدا کی حیثیت دے دی گئی تھی نعوذباللہ۔۔اس کے خلاف رد عمل انیسویں صدی میں ہوا’ اور معاشرے کے بجاۓ فرد کو اہمیت دی گئی۔ بیسویں صدی میں اشتراکیت کے زیر اثر بعض لوگ معاشرے کو پھر خدا ماننے لگے۔
مغربی فکر میں جس طرح روح اور مادے ‘ ذہن اور جسم’ عقل اور جذبے کے درمیان مسلسل کشمکش جاری ہے’ اسی طرح معاشرے اور فرد کی کشمکش بھی بنیادی حیثیت رکھتی ہے’ اور اس کا بھی کوئی حل نہیں ملتا۔ مغرب میں جو معاشرتی انتشار پھیلا ہوا ہے اور روز بروز بڑھتا ہی جاتا ہے اس کی جڑ یہی تضاد ہے۔
ان تصریحات سے پتا چلتا ہے کہ مغرب کا ذہن کسی طرح کی وحدت تک پہنچ ہی نہیں سکتا’ اور دوئی ‘ تضاد اور کثرت میں پھنس کے رہ گیا ہے۔ وحدت کا اصول قائم کرنے کی جتنی کوششیں ہوئی ہیں وہ کامیاب نہیں ہو سکیں’ اس کی اصلی وجہ یہ ہے کہ مغرب مادے میں وحدت ڈھونڈھتا ہے جہاں کثرت اور شکست وریخت کے سوا کچھ نہیں مل سکتا۔۔
مغرب چاہے معاشرے کو اوپر رکھے یا فرد’ دونوں نظریوں میں ایک بات مشترک ہے ………۔ انسان پرستی۔ بیسویں صدی میں بعض مفکر اور ادیب ایسے بھی ہیں جو انسان کو حقیر سمجھتے ہیں یا انسان سے نفرت کرتے ہیں’ لیکن ان کی فکر کا مرکز بھی انسان ہی ہے…