ہنٹر والی – کشور ناھید
امریکی شاعر’ ڈیوڈ رے‘ کی ایک نظم ہے
“ تاش کھیلنے والےہم کس قدر رشک کرتے ہیں”
بتوں کی طرح ٹانگیں آلتی پالتی مارے
مسلسل تاش کے پتے پھینکتے لوگوں پر
جب وہ سارا دن تاش کھیلنے کے بعد کھڑے ہوتے ہیں
اپنے ہاتھ رگڑتے ہیں، اپنی پینٹوں کی بیلٹ ٹھیک کرتے ہیں
اپنی جیبوں میں بقایا ریزگاری کو گنتے ہیں
اور گھر جا کر دیکھتے ہیں، ان کی غیر حاضری میں بیبیاں نیکی اور
!پاکبازی پر قائم ہیں
میرے کئی دوست اور بزرگ چالیس پچاس برس سے مسلسل اور باقاعدگی سے شراب پی رہے ہیں مگر دوسروں کے گھر، یا کسی مشترکہ اڈے پر، بزعم خود، گھر والوں کو تو علم ہی نہیں کہ وہ شراب بھی پیتے ہیں۔ ان سے پوچھو کہ اپنے گھر یہ سلسلہ ء ناو نوش کیوں نہیں۔ جواب ملے گا “ بیوی کہتی ہے میرے گھر شراب نہیں چلے گی“- گویا دوسروں کے گھر توبہ شکن قعر مذلت ہوئے۔
شراب پینے کے بھی اپنے اپنے انداز ہیں۔ کوئی پیگ کے بعد مٹھائی کھاتا ہے تو کوئی دھی، کوئی اچار اور کوئی نمکینی کے ہر ذائقے کو قبول کرتا ہے –—- چہرے سے لے کر نمکو تک ۔۔۔ پاکستان اور ہندوستان میں شراب نوشی نہیں ، بلا نوشی کی جاتی ہے۔ خدا بھلا کرے شراب ممنوع کرنے والوں کا۔ اب شراب پہ بھوکوں کی طرح پڑنے والے زیادہ اور سلیقہ مندی سے شراب پینے والے کم ہی نظر آتے ہیں۔ شکر ہے کہ منہ سونگھنے ، پکڑے جانے، راتوں کو میڈیکل ٹیسٹ ہونے اور پھر اگلے دن اخبار میں مشتہر ہونے کے زمانے گزر گئے۔ ورنہ یہی قافلہ ء درویشاں ، اپنی جیب میں نسخہ ہائے ہزار داستان رکھتا تھا۔ کوئی کوچ سے پہلے امرود کھاتا تھا، کوئی کیلا، کوئی پان اور پھر انگریزوں نے بھی مدد کی کہ انہوں نے ایسے ڈراپس ایجاد کئے کہ ادھر منہ میں ڈالو ادھر بو غائب۔ شرعی سشاوں کے اس خوف نے ایک اچھا کام کیا۔ وہ شاعر جو دن بھر مست رہتے تھے اور کہیں کوئی گفتگو، انٹرویو، بغیر پوا اندر اتارے، قدم نہیں اٹھا سکتے تھے، وہ اپنے چوہڑے یا عیسائی بنے، بھائی بند سے بلیک میں بوتل خرید کر بے دریغ پی نہیں سکتے تھے مگر بے اعتباری کی یہ کیفیت ہو گئی تھی اور ہے کہ جتنی جلدی زیادہ سے زیادہ میرے پیمانے میں آ جائے، اتنا ہی جگر کو گرمی ملے گی۔ ورنہ پہلے ایسا نہ تھا۔
پہلے تو جھٹ پٹے کا سماں ہوا، ہر ایک نے اپنا اپنا پانچ کا نوٹ نکالا، لپک کے سامنے گیا، اندر ریسٹورنٹ سے گلاس پکڑا، باہر کی سبیل سے پانی لیا اور یوں رات کے دس بجے تک یہ چشمے رواں رہے۔ مزید پیاسوں کے لئے اب نئی راہیں تھیں۔ کوئی چھاونی جاتا، کوئی گلبرگ، کوئی ان اڈوں کا رخ کرتا جہاں شراب کبھی ختم نہیں ہوتی تھی۔ کسی کو زبردست گھر چھوڑ کر آنے کی کوشش کرو تو چلتی گاڑی سے چھلانگ، کئی ایسے ضدی کہ پیدل چل پڑتے، اگلے دن پتہ چلتا کہ گھر کی بجائے شیخوپورے پہنچ گئے تھے۔
رات کے دو بجے ہیں۔ نہر پہ بیٹھے ہیں۔ داد دینے والے داد دے رہے ہیں، شراب پینے والے شراب پی رہے ہیں۔ شعر پڑھنے والے شعر پڑھ رہے ہیں۔ بیئر کی بوتلیں، رسی باندھ کر نہر میں لٹکائی ہوئی ہیں۔ رات بھی اپنے سکوت اور شکوہ کے ساتھ شریک محفل ہوتی۔ نہ کوئی غل غپاڑے پہ پکڑ رہا ہے، نہ نا زیبا حرکتیں کرنے کی خبریں بنتیں۔ چاندنی راتوں میں باغوں کی یہ پہاڑیاں آباد ہوتی تھیں۔ ریگل کمرشل اور یونیورسٹی کی فٹ پاتھیں، لکھنے والوں ، آرٹسٹوں اور نوجوانوں کی باتوں سے ساری رات فروزاں رہتی تھیں۔ کوئی لڑکی ریپ نہیں ہوتی تھی۔ کوئی پولیس رات کو گشت نہیں کرتی تھی۔ ہاں یہ ضرور ہوتا تھا کہ جو با لکل ہی ہوش گنوا بیٹھے، تھانے والے ان کو اٹھا کر لے گئے، جب ہوش آتا تو وہ ضمانت کے لئے فون نمبر دیتے۔ ٹیلی فون کی گھنٹی بجنے کے لئے ہمیشہ رات دو یا تین بجے کا وقت ہوتا۔ لشتم پشتم جاو، ضمانت کرا کے گھر چھوڑ او۔
ٹیلی فون کی گھنٹی اس وقت ایک اور رسم ِ محبت کے لئے بجتی تھی۔ اس زمانے میں ڈائرکٹ ڈایئلنگ نہیں تھی۔ کال بک کرائی گئی۔ ٹیلیفون پر غزل سنائی جا رہی ہے۔ نئے شعروں کا لطف لیا جا رہا ہے۔ باتوں میں خلوص ہے، مروت ہے، کوئی طنز، کوئی تکذیب، کوئی کدورت نہیں کہ آجکل تو ہنسنے کے لئے لطیفے اور مذاق کے لئے طنز مسلمہ ضابطے ہیں۔ ہنسی اور مذاق، مزاجا ہماری روایت ہی نہیں۔ شائد اس لئے کہ ہم بظاہر سچ سننے کے عادی نہیں۔ اردو ڈرامے میں بھی مسخرہ ہی سچ بولتا ہے’ عام کردار نہیں۔ کیوں ؟ کیا ہمارے اندر سچ کی گھنٹی نہیں بجتی ؟
کبھی کبھی ٹیلی فون کی نہیں گھر کی گھنٹی بجتی تھی۔ نشے میں سرشار چلے آرہے ہیں ” تم نے ہی تو کہا تھا کہ کبھی فرصت ہو تو اطمینان سے آنا، بیٹھیں گے، باتیں کریں گے ” ” ارے رات کے دو بجے ” ” اوھو، کیا فرق پڑتا ہے دن کے دو بجے یا رات کے دو بجے “
گھر کی گھنٹی بجتی ہے۔ بہت سینئر بہت پیارے شاعر دوست آ جاتے ہیں۔ شعری نشست شروع ہو جاتی ہے۔ بچے شور سے جاگ جاتے ہیں۔ میں ان کے پاس واپس چلی جاتی ہوں۔ صبح اذان تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔
دوپہر ہے۔ ٹب بھرا ہے بیئر کی بوتلوں سے۔ قتلمے اور قیمے والے نان تازہ لگ کر آ رہے ہیں۔ بلا لحاظ عمر، سب جونیئر، سینئر ادیب اکٹھے ہیں۔ شائستگی کا چہرہ دمک رہا ہے۔ آج میرے گھر، اگلے ہفتے دوسرے کے گھر اور یوں ہر اتوار کے اتوار استاد اپنے شاگردوں کو میل محبت کے قرینے ، آداب محفل سکھا رہے ہیں۔ گفتگو، کبھی جامی پہ، کبھی اقبال پہ کبھی بلھے شاہ پہ۔
آجکل دیکھو- جو دعوت کرنے کا کہہ دے، بس رسم ٹھہرے کہ وہی کرتا جائے۔ باقیوں کی بیویاں نازک ہیں۔ کھانا نہیں پکا سکتیں۔ گھر پر شراب پلا نہیں سکتیں۔ شوہر کے ساتھ آ جایئں تو تھانیدار کی ضرورت نہیں۔ ” بس بس تم دوسرا پیگ نہیں لو گے ۔ دیکھو تو اس گھر کی پلیٹیں بھی اٹھا رہے ہیں۔ اپنے گھر بیٹھے بیٹھے پانی مانگتے ہیں۔ ” وہ بے چاری بھی کیا کریں۔ بہشتی زیور پڑھ کے اور ڈرامے دیکھ کر ایسا ہی کلچر قبول کریں گی۔
اردو ادب اور ادیب بڑے مزے کی چیز ہیں۔ جن شاعروں نے خمریات پر بہت کچھ لکھا ان میں سے چند تو ایسے ہیں جنہوں نے کبھی منہ کو لگائی ہی نہیں۔ شاعری کی حد تک اور بیان کی حد تک تو پوری اردو شاعری معطر ہے البتہ نثری پیرائے نے اب تک اپنا دامن صاف رکھا ہے۔ اسمبلیوں میں سوالوں کی زد میں آنے کا خوف ہمارے ملک میں ہی نہیں۔ امریکہ جیسے ملک میں خاتون کو اٹارنی جنرل بنانے میں مانع رہتا ہے۔
پہنچی ہوئی حالتوں کے بھی بڑے نمونے ہیں۔ کوئی دیوار کو پکڑ کر کہہ رہا ہے ” ٹیکسی خالی ہے ” کوئی اپنے ہی شعر مغنیہ سے سن کر رو رو کر بے حال ہو رہا ہے۔ کسی کو اپنا ہی گھر نہیں مل رہا۔ کوئی سمندر کی جانب پیگ چھلکاتے ہوئے کہہ رہا ہے ” لے کاکے تو بھی پی لے ” اور کہیں کوئی آپ کے ڈرایئنگ روم، صحن کو گل و گلزار کر رہا ہے۔ جو سب پیا تھا الٹائے دے رہا ہے۔ کوئی ڈھیر ہو گیا ہے۔ سو گیا ہے ، گھر جانے سے انکاری ہے۔
کچھ لوگ شام ہوتے ہی اگر آپ کی سمت آتے، سلام کرتے، آپ کی میز پر بیٹھتے تو بلا کہے سمجھ لیا جاتا کہ مدعا کیا ہے۔ مہنگائی کے ساتھ ساتھ اس مدعا میں اضافہ ہوتا رہتا اور کچھ کا تقاضا یکساں رہتا ہے کہ کُپی کی قیمت میں کمی بیشی نمایاں نہیں ہوئی۔ کچھ پیارے اور پرانے زمانے کے دوست ایسے بھی تھے کہ پہلی کو تنخواہ وصول کرتے تو ہم مشرب پہلے سے بیٹھے ہوتے، اپنے حصے کی پینے کے لئے، پاکٹ منی لینے کو۔ وہ بھی خوب لوگ تھے۔ آدھی تنخواہ یاروں میں اور آدھی گزشتہ کے قرض میں ادا کر کے، نئے سرے سے قرض کی ڈور پکڑ لیتے تھے۔
کمال تو ان دوستوں کا ہے جنہیں پیتے ہوئے ایک عمر ہو گئی، روز پیتے ہیں، خوب پیتے ہیں مگر اپنی جیب سے نہیں۔ ان کے مداحین، چاہنے والے دے جاتے ہیں یا حسن ِ طلب اتنا خوبصورت ہوتا ہے کہ اگلا مان کے خوش ہوتا ہے۔
دفتروں میں ایسے شاعروں کی کمی نہیں۔ وہ دفتر جاتے بھی تو صرف جھلک دکھانے کو اور کمال ان چند افسروں کا بھی ہے کہ جو باقی افسروں کو ان کو کسی قسم کی تنبیہہ کرنے سے منع کرتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ تاریخ میں اس دفتر کا نام صرف اس وجہ سے رہ جائے گا کہ یہاں فلاں بڑا ادیب کام کرتا تھا۔ یہ پہلے وقتوں کی بات ہے۔
اب تو کوئی بڑا ادیب دفتر میں آیا نہیں کہ سارے بونے اس کی ٹانگ کھینچنے اور تہمتوں کا بازار سجانے میں دیر نہیں لگاتے۔
ان سارے منظروں میں میری شرکت، کبھی میزبان، کبھی گھر والی، دوسرے کمرے میں بچوں کے ساتھ بچوں کی ماں اور کبھی ہنٹر والی کی ہوتی تھی۔ یہ ہنٹر والی کی پوزیشن سنبھالنے کا وقت اکثر آتا تھا۔ ہمارے خطے کے مردوں کو زبان کھلی ڈلی استعمال کرتے ہوئے مغلظات کا بے محابانہ استعمال بہت بھاتا ہے اور دو چار پیگ اندر جانے کے بعد تو ساری فیشنی جھلی اتر جاتی ہے
پھر کوئی اونچی آواز میں لڑ رہا ہے، کوئی بول رہا ہے، کوئی گالیوں کی بارش کر رہا ہے، کوئی الٹیوں کا منظر سجا رہا ہے۔ بس ایسے لمحوں کو لگام دینے کے لئے کبھی میری زبان اور کبھی میرا ہاتھ چلتا تھا اور وہ منہ زور کہ جو ہوا کو بھی زنجیر کرتے اور آسمان کو بھی زمین بناتے نظر آتے تھے، وہ سیدھے گھوڑوں کی طرح اپنے گھروں کو لوٹ جاتے تھے۔ پھر میرے لئے کیا کہا جاتا تھا، وہ بیان کرنے کے لئے شائستگی نے ابھی کوئی لغت ایجاد نہیں کی ہے۔
ہاں یہ ذائقہ میرے لبوں تک کیسے پہنچا۔ پکاسو نے ایک دفعہ کہا تھا ” فن ایک ایسا جھوٹ ہے جو سچ کو قابل برداشت بنا دیتا ہے”۔ بین ا لا قوامی کانفرنسوں اور سفر نے جہاں غیر زمینوں اور غیر لوگوں کے درمیان سر کو اٹھا کر چلنے کا قرینہ سکھایا، وہاں اپنے وطن کے مقابلے میں دھیمے دھیمے، کھانے کے ساتھ یا کھانے کے بعد، ٹوسٹ پروپوز کرتے ہوئے، گلابی حدتوں کو، مشام ِ جاں بنتے ہوئے دیکھا۔ کتھک رقص کے دوراں ایک لمحہ ایسا آتا ہے کہ رقاصہ، صرف ایک گھنگھرو کی آواز، پیر کی تھاپ سے نکال سکتی ہے۔ کچھ ایسی کیفیت نے میرے اندر سر اٹھایا۔ میں نے اپنے اندر کی ایک اور زنجیر کاٹ دی۔
اب تو ساری قیامتوں سے بڑھ کر قیامت سامنے تھی “ مردوں کا مقابلہ کروگی ” گھر والوں کے علاوہ سارے پرانے دوستوں کی طنزیہ مسکراہٹوں نے میرا استقبال کیا۔ اچھے لگتے ہیں یہ لوگ مجھے، منافقت نہیں کرتے، کبھی کبھی تو میرے گھر بیٹھے ہوئے بھی میرے خلاف باتیں کر رہے ہوتے ہیں۔
جس زمانے میں پابندیوں کی انتہا تھی اس زمانے میں ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے شام کو کسی دوست کو بلانا یا پھر یہ بتانا کہ مقصد ِ محفل کیا ہے تو کہا جاتا کہ ” میرے پاس شلجم گوشت ہے ۔ آپ آ جایئں ” یا پھر کہتا ” میرے پاس کتاب ہے، یا نئی کتاب آئی ہے، آپ آ جایئں
ایسا لہجہ بھی چند بزرگوں اور میری خواتین دوستوں کا ہی ہوتا۔ مارشل لاء کے بد ترین دنوں میں ہم نے بہت کچھ اکٹھے سہا، اس لئے ہمارے بہت دکھ سکھ سانجھے ہیں۔ کئی دوست تو اپنی تنہائی میں مجھے شریک کرتی ہیں۔ وہ کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں لگاتیں۔ میں ان کی اخلاقیات کا احترام کرتی ہوں۔ مگر مجھے خود دوہرے معیار پسند نہیں۔ میں جب مسجد قرطبہ سے نکل کر ، اپنے بیٹوں کے ساتھ بیٹھی تھی وائن سامنے تھی تو میں نے ان سے کہا تھا ۔
میرے خوابو ! اگر تم خود خوفزدہ نہیں ہو”
تو سکون سے بتاو لوگوں کی خواہشیں کیا ہیں
وہ خواہشیں کہ جن میں دانش سر بلند ہو
“اور انصاف ایک خیر خواہ کی طرح نظر ائے
(خود نوشت ::بری عورت کی کتھا:: سے اقتباس)