تخیل کا جادو – امرتا پریتم
جو زندگی میں نہیں پایا تھا، یہ اسی کو پالینے کے کرشمے ایسی سعی تھی۔ خدا کی طرح پیدائش دینے کی سعی، جسم کا ایک آزاد فعل، صرف فطری میلانات سے آزاد نہیں، گوشت و خون کی حقیقت سے بھی آزاد۔
سِنک اور دیوانگی کے اس عالم میں جب 3 جولائی 1947 کو پیدائش عمل میں آئی ، اول مرتبہ اسکا منہ دیکھا ۔۔۔۔ اپنے خدا ہونے کا یقین آگیا۔ ۔۔۔ اسکی صورت واقعی ساحر سے مشابہ تھی۔
دیوانگی کی آخری چوٹی پر ہمیشہ کھڑے نہیں رہا جا سکتا۔ پاوں کو بیٹھنے کے لئے زمین کا قطعہ چاہیے، اس لئے آئندہ برسوں میں اسکا تذکرہ ایک پری کہانی کی طرح کرنے لگ گئی۔ ایک بار یہ بات ساحر کو بھی سنائی، اپنے آپ پر ہنستے ہوئے۔ اُس کے اور کسی رد عمل کا معلوم نہیں، صرف اتنا معلوم ہے کہ وہ سن کر ہنس پڑا اور صرف اتنا کہا، ” ویری پُو ئر ٹیسٹ ” — ویری پُوئر ٹیسٹ، ساحر کی زندگی کا سب سے بڑا ایک کمپلیکس ہے—کہ وہ خُوبرو نہیں۔ اسی لئے اسنے میرے پوُئر ٹیسٹ کی بات کی۔
اس سے پیشتر بھی ایک بات واقعہ ہوئی تھی۔ ایک روز اس نے میری بچی کو گود میں بٹھا کر کہا تھا، ” تم کو ایک کہانی سناؤں ؟ ” اور جب بچی کہانی سننے کے لئے تیار ہوئی تو بولا، ” ایک تھا لکڑ ہارا۔ وہ شب و روز جنگل میں لکڑیاں چیرتا تھا۔ ایک روز اس نے جنگل میں شہزادی کو دیکھا، بڑی حسین۔ لکڑ ہارے کا جی چاہا ، وہ شہزادی کو لے کر دوڑ جائے۔
پھر ؟ ” میرے بیٹی کہانیوں میں ہُوں کرنے کی عمر میں تھی اسلئے بہت غور سے سن رہی تھی۔ میں صرف ہنس رہی تھی، کہانی میں دخل نہیں دے رہی تھی۔ وہ کہہ رہا تھا، ” لیکن تھا تو لکڑ ہارا، وہ شہزادی کو صرف دیکھتا رہا، دور فاصلے پر کھڑے ہو کر اور پھر اداس ہو کر لکڑیاں کاٹنے لگ پڑا۔۔۔، سچی کہانی ہے نا ؟
ہاں، میں نے بھی دیکھا تھا “، نہ جانے بچی نے یہ کیوں کہا
ساحر ہنستا ہوا میری طرف دیکھنے لگا اور بولا، ” لو دیکھ لو، اس کو بھی معلوم ہے ” اور بچی سے پوچھنے لگا، ” تم وہاں ہی تھیں ناں جنگل میں ؟ ” بچی نے ہاں میں سر ہلایا۔
تم نے اس لکڑ ہارے کو بھی دیکھا تھا نا ، بھلا کون تھا ؟” بچی کو اس لمحے کوئی الہام اترا لگتا تھا، کہنے لگی، ” آپ ” ساحر نے پوچھا ، ” اور شہزادی کون تھی ؟ ” ، ” ماما ” بچی ہنسنے لگ پڑی۔
ساحر مجھ سے کہنے لگا، ” دیکھو، بچوں کو سب معلوم ہوتا ہے
پھر برسوں بیت گئے۔ 1960 میں جب میں بمبئی گئی تو ان دنوں راجندر سنگھ بیدی بڑے مہربان دوست تھے۔ اکثر ملا کرتے تھے۔ ایک شام بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ اچانک انہوں نے پوچھا، ” پرکاش پنڈت سے ایک بات سنی تھی کہ نوراج ، ساحر کا بیٹا ہے” ۔۔۔
اس شام میں نے بیدی صاحب کو اپنے اس عالم دیوانگی کی بات سنائی، کہا، ” یہ تخیل کا سچ ہے، حقیقت کا سچ نہیں
انہی دنوں میں ایک روز، نوراج نے بھی سوال کر دیا۔ اسکی عمر قریب تیرہ برس تھی۔
” ماما، ایک بات پوچھوں، سچ سچ بتاؤگی ؟ “
” ہاں “
” کیا مین ساحر انکل کا بیٹا ہوں ؟ “
” نہیں”
“اگر ہوں، تو بتا دیجئے، مجھے ساحر انکل اچھے لگتے ہیں “
” مجھے بھی اچھے لگتے ہیں بیٹا، لیکن کاش یہ سچ ہوتا “
سچ کی اپنی ایک طاقت ہوتی ہے۔ میرے بچے کو یقین آ گیا۔ سوچتی ہوں تخیل کا سچ، جھوٹا نہیں تھا۔ تاہم وہ صرف میرے لئے تھا۔ صرف میرے لئے، اس قدر کہ وہ سچ ساحر کے لئے بھی نہیں تھا۔
لاہور، جب کبھی ساحر ملنے کے لئے آیا کرتا تھا، تو گویا میری ہی خاموشی میں سے نکلا، خاموشی کا ٹکڑا، کرسی پر بیٹھتا، اور چلا جاتا۔ وہ چُپ چاپ سگریٹ پیتا رہتا تھا۔ قریب آدھا پی کر راکھ دانی میں بجھا دیتا اور پھر نیا سلگا لیتا۔ اور اس کے جانے کے بعد صرف سگریٹوں کے بڑے بڑے ٹکڑے کمرے میں رہ جاتے تھے۔۔۔۔۔۔
کبھی ایک بار —- اسکے ہاتھ کا لمس لینا چاہتی تھی، لیکن میرے سامنے میرے ہی رواجی بندھنوں کا فاصلہ تھا جو طے نہیں ہوتا تھا۔
اسکے جانے کے بعد، میں اسکے چھوڑے ہوئے سگریٹ کے ٹکڑے سمبھال کرالماری میں رکھ لیتی تھی۔ اور پھر ایک ایک ٹکڑے کو تنہائی میں بیٹھ کر جلاتی تھی اور جب ان کو انگلیوں میں پکڑتی تھی تو محسوس ہوتا تھا کہ اس کا ہاتھ چُھو رہی ہوں۔ سگریٹ پینے کی عادت مجھے اس وقت پہلی بار پڑی تھی۔ ہر سگریٹ سلگاتے وقت محسوس ہوتا تھا کہ دھویئں میں سے جیسے وہ جِن کی طرح نمودار ہو جاتا تھا۔ لیکن ساحر کو شاید ابھی تک، سگریٹ کی اس تاریخ کا علم نہیں۔ سوچتی ہوں، تخیل کی یہ دنیا صرف اسکی ہوتی ہے جو اس کو تخلیق کرتا ہے اور جہاں اسکو تخلیق کرنے والا خدا بھی اکیلا ہوتا ہے
آخر جس مٹی سے یہ جسم بنا ہے، اس مٹی کی قیاسی تاریخ میرے خون کی حرکت میں ہے۔ دنیا کی پیدائش کا وقت، جب آگ کا ایک گولا سا ہزاروں برس پانیوں میں تیرتا رہا، اور پھر اس آگ میں سے ہر گناہ کو جلا کر راکھ کر کے جو جاندار ظاہر ہوا وہ اکیلا تھا۔ اسکے اندر نہ تنہائی کا خوف تھا، نہ تنہائی کی مسرت۔ پھر اس نے اپنے ہی بدن کو چیر کر نصف حصے کو مرد بنا لیا ، نصف کو عورت۔ اور اسی میں سے اس نے کائنات تخلیق کی۔
کائنات کی تخلیق کا یہ ابتدائی عمل صرف قیاس نہیں، نہ صرف ماضی کی تاریخ، یہ ہر زمانے کی تاریخ ہے۔ چاہے چھوٹے چھوٹے انسانوں کی چھوٹی تاریخ —– میری بھی۔ ——