کشور ناہید کی مٹھی بھر یادیں
مستنصر حسین تارڑ
Hardcover:
|
کشور ناہیدسے مجھے بے حد شکایت ہے، اُس نے میری بیشتر یادوں کو چوری کرلیا ہے۔ اُس کی مٹھی میں جتنی بھی یادیں ہیں ان میں سے بیشتر کے سینے میں میرا دل دھڑکتا ہے۔۔۔ ’’مٹھی بھر یادیں،، پڑھتے ہوئے میں ہر یاد کے ساتھ اداسی کے ایک ایسے تالاب میں ڈوبتا چلا گیا جس کی سطح پر نہیں تہ میں کیسے کیسے اُجلے کنول کھلے ہیں، اور میں اُن کو ہاتھ نہیں لگا سکتا۔۔۔ وہ پانی کے آئینے میں عکس ہیں۔
خواب میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں اُس کا دکھانا مشکل ہے آئینے میں پھول کھلا ہے، ہاتھ لگانا مشکل ہے احمد راہی، معصوم شخص اور بڑا شاعر۔ احسان دانش، شاعرمزدور، گلزار، لفظوں کا جادوگر۔۔۔ ظہیر کاشمیری، پاکستانی انگریز، ایف ایم حسین، دنیا کابڑا مصور۔۔۔ منیر نیازی خوشگوار آنکھوں کا متلاشی شاعر، خالد حسن، اقبال بانو، شمیم حنفی، ریشماں، شعیب ہاشمی، انور سجاد، افضال احمد، فہمیدہ ریاض اور یوسف کامران، یہ سب تو میرے بھی تھے۔ میں سوچتا ہی رہ گیا کہ ان کے بارے میں کچھ اپنی کہانی لکھوں اور کشور ایسی بے مروت ہے کہ اُس نے یہ بھانپ لیا کہ میں ان پیارے لوگوں کے بارے میں لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں ا ور اُس نے فوراً مجھے دھوبی پٹڑا دے کر چاروں شانے چِت کردیا۔ ویسے اچھا کیا کہ میں جو بھی لکھتا اس نئے اور مختصر انداز میں نہ لکھ سکتا۔۔۔ میں کبھی بھی کشور کی نثر کا مداح نہ ہوا پر ’’مٹھی بھر یادیں‘‘ پڑھتے ہوئے میں نہ چاہتے ہوئے بھی اُس کی نثر کا قائل ہو گیا۔ مجھے شک ہے کہ وہ ان دنوں میرے ناولوں اور کہانیوں کے زیر اثر آچکی ہے تبھی اچھی نثر لکھنے لگی ہے ۔۔۔ اس سے پیشتر وہ انتظار حسین کے زیراثر تھی۔۔۔’’ مٹھی بھر یادیں‘‘خاکوں یا یادداشتوں کی کتاب نہیں ہے، یہ اپنے دوستوں کو یاد کرنے کا ایک نرالا ہی ڈھنگ ہے۔۔۔ میں انہیں کشوریہ کہنا پسند کروں گا، اُس نے یادوں کو ایک وسیع کینوس پر پینٹ نہیں کیا بلکہ منی ایچر تصویریں بنائی ہیں۔ بغداد کے ’’تیمور نامہ‘‘ میں ہرات کے اس نابغۂ روزگار کی جو منی ایچر تصویریں ہیں وہ ذرا توجہ کرنے سے زندہ ہونے لگتی ہیں، جنگ کے مناظر میں گھوڑوں کے نتھنوں سے سانس خارج ہونے لگتی ہے اور تیمور کے ہاتھ میں تھامے ہوئے گلاب سے مہک آنے لگتی ہے۔ یہ جو کشوریہ ہیں ان سب میں بھی زندگی کروٹیں بدلتی ہے۔۔۔ جو ہمارے درمیان موجودنہیں وہ زندہ ہونے لگتے ہیں اور جو زندہ ہیں آپ اُن کی سلامتی کی دعا کرتے ہیں۔۔۔ اُس نے مجھے بھی اپنے دوستوں میں شامل کیا اور مجھے کم دوست رکھنے والا مقبول مصنف قرار دیا، اگرچہ اس کشوریہ کے آخر میں اُس نے مجھے خوش بھی کیا کہ ’’میری اور مستنصر کی دوستی میں کبھی رخنہ نہیں پڑا‘‘ اور دروغ گوئی بھی کی کہ ’’یہ الگ بات کہ اُس نے کبھی میری شاعری کے اندر چھپی کشور ناہید کو باہر نہیں نکالا ہے۔ ابھی زندگی کی شام کی روشنی باقی ہے‘‘۔ ایسانہیں ہے۔۔۔ وہ جس دکھی اور جس انداز میں اپنی شاعری پڑھتی ہے وہ مجھے پسندنہیں لیکن اُس کی شاعری بار بار میری نثر پر اثرانداز ہوتی چلتی آئی ہے۔ اُس کی شاعری نے مجھے ڈس لیا ہے، اسی لئے تو میں پانی نہیں مانگتا۔ کشور کے بارے میں لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں، اور اُن میں سے کچھ باتیں سچی بھی ہوسکتی ہیں لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ ہماری دوستی کو تقریباً پنتالیس برس ہونے کو آئے۔۔۔ اور اُس نے ہردُکھ سُکھ میں میرا ساتھ دیا، وہ اپنے بدترین دشمنوں کی بھی مدد کوپہنچی۔ بے گھروں کے لئے گھروں کابندوبست کیا اور جو ادیب بُرے حالوں میں تھے اُن کے لئے بھاگتی پھری۔۔۔ کرشن نگر والے گھرکے صحن میں وہ آستینیں چڑھائے حلیم کی دیگ گھوٹ رہی ہے کہ صوفی صاحب اور فیض صاحب نے آنا ہے بلکہ مجھے یادہے کہ وہ ہمیشہ مجھے مطعون کرتی تھی کہ یہ تم اپنے دونوں بیٹوں کو ہمیشہ ساتھ لئے پھرتے ہو، تم ان کے باپ ہو یانانی جان ہو تو کرشن نگر میں سلجوق صوفی غلام مصطفی تبسم کی گود میں بیٹھا ہے اور وہ اُسے ’’ایک تھا لڑکا ٹوٹ بٹوٹ‘‘ سنا رہے ہیں۔ سلجوق ان دنوں یو این او میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہے لیکن وہ اُس شب کونہیں بھولا جب کشور آنٹی کے گھر صوفی صاحب نے اُسے بچوں کی نظمیں سنائی تھیں۔۔۔ اقبال ٹاؤن والے گھر میں، نہ صرف کسی اور شہر سے یا اکثر کسی اور ملک سے کوئی ادیب لاہورآیا ہے تو یہ کشور تھی جو اُن سے ملاقات کا سبب بنتی تھی۔۔۔ میری ماں کا انتقال ہوا تو عزیزوں کی آمد سے پیشتر کشور تھی جو مجھے دلاسے دیتی تھی۔۔۔ میری دکان کے مالک نے جو بے دخلی کا دعویٰ کیا تھا وہ مجھے ہمہ وقت پریشان رکھتا تھا کہ یہ میرا روزگار کا معاملہ تھا۔ کشور نے مجھے اپنی کار میں ڈالا اور اُن زمانوں کے وزیر قانون چوہدری عبدالغفور کے پاس لے گئی کہ مستنصر کا کچھ کریں یہ بہت پریشان ہے اور مجھے کچھ مہلت مل گئی۔ پچھلے دنوں جب ناگہانی طور پر میرے متعدد آپریشن ہوئے اور میں نے ان کا چرچہ نہ کیا تو کشور کو جانے کیسے خبر ہوگئی، وہ بے حد جذباتی ہو گئی۔۔۔ یار ہمت کرو ہم بہت تھوڑے رہ گئے ہیں، میرا حال بھی کچھ اچھا نہیں، بھئی ابھی ہمیں زندہ رہنا ہے۔۔۔ ابھی تم نے ’’بہاؤ‘‘ اور ’’اے غزالِ شب‘‘ ایسے اورناول بھی لکھنے ہیں۔۔۔ البتہ اُس کا پسندیدہ ترین ناول ’’خس و خاشاک زمانے‘‘ ہے جس کے بارے میں اُس نے جو کلمات تحریر کئے اُنہوں نے مجھے شرمندہ کردیا۔چونکہ وہ اپنی عمر نہیں چھپاتی اس لئے وہ مجھ سے چھ ماہ چھوٹی ہے اور میں اکثر اُسے ’’چھوٹی‘‘ کہہ کر پکارتا ہوں۔ اور وہ خوش ہوجاتی ہے کہ ابھی وہ کمسن ہے اور اوڑھنی کا رنگ ابھی تک زرد زرد ہے۔ کشور، واقعی ابھی زندگی کی شام کی روشنی باقی ہے۔ آؤ اس بجھتی ہوئی روشنی میں وہ کچھ لکھ لیں جو ہم معاشرے کے جبر اورڈر سے نہیں لکھ سکے۔۔۔ بے شک ہمارے بعد ہماری قبروں کے کتبے ڈھا دیئے جائیں۔ ابھی زندگی کی شام کی روشنی باقی ہے۔ |