Intizar Hussain(1923-2016) – انتظار حسین
Birth— 1923
|
Intizar Hussain’s Essays/Opinion
انتظار حسین کا شمار موجودہ عہد میں پاکستان ہی کے نہیں بلکہ اردو فکشن، خاص طور پر افسانے یا کہانی کے اہم ترین ادیبوں میں کیا جاتا تھا۔ انتظار حسین سنہ 1923 میں ہندوستان کے ضلع میرٹھ میں پیدا ہوئے اور میرٹھ کالج سے اردو میں ایم اے کیا۔ تقسیم ہند کے وقت ہجرت کر کے پاکستان آئے اور صحافت کے شعبے سے وابستہ ہو گئے۔ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’گلی کوچے‘ 1953 میں شائع ہوا تھا۔ انتظار حسین کے افسانوں کے آٹھ مجموعے، چار ناول، آپ بیتی کی دو جلدیں، ایک ناولٹ شائع ہوئے۔ اس کے علاوہ انھوں نے تراجم بھی کیے ہیں اور سفر نامے بھی لکھے۔ان کے اردو کالم بھی کتابی شکل میں شائع ہو چکے ہیں اور وہ انگریزی میں بھی کالم لکھتے رہے۔انتظار حسین کا ایک ناول اور افسانوں کے چار مجموعے بھی انگریزی زبان میں شائع ہو چکے ہیں۔ وہ پہلے پاکستانی ہیں جو سنہ 2013 میں بین الاقوامی بکر پرائز ایوارڈ کے لیے شارٹ لسٹ ہوئے۔ انتظار حسین کو ان کی گراں قدر ادبی خدمات کے اعتراف میں پاکستان، بھارت، مشرق وسطیٰ اور یورپ میں بھی کئی اعزازات سے نوازا گیا۔ اپنے کالج کے زمانے کے اساتذہ میں انتظار حسین نے خصوصیت کے ساتھ پروفیسر کرار حسین کا ذکر کیا ہے کہ جن سے انہوں نے گہرا اثر قبول کیا۔ انتظارحسین کی کتاب ‘بستی ‘ پر نوسٹالجیا کے الزام پر فیض احمد فیض کا کہنا ہے : انتظار حسین خود اپنی زبانیدسمبر 1923 میں بلند شہر کے نواحی گاؤں ڈبائی میں میرا جنم ہوا۔ والدین کو چار بیٹیوں کے بعد کسی بیٹے کا انتظار تھا لہذا میرا نام انتظار حسین یوں رکھا گیا۔ جس گھر میں جنم ہوا اس کی دیواریں ہندو ہمسائیوں سے ملتی تھیں۔ مسجد بھی قریب تھی اور مندر بھی۔ اذان کی آواز بھی آتی تھی اور گھنٹیوں اور بھجن کی بھی۔ چھت پر کھڑا ہو کر دور میدان میں لگنے والا رام لیلا صاف نظر آتا تھا۔ میرے ہمسائے دیوالی کے دیے مشترکہ منڈیر پر روشن کرتے تھے۔ یعنی میں مندر اور مسجد کے درمیان پیدا ہونے والی نسل سے تعلق رکھتا ہوں۔ میرے سامنے وہی مثالیے تھے جو اس زمانے کے نئے لکھنے والوں کے تھے۔ یعنی منٹو ، بیدی، عصمت، چیخوف، ٹالسٹائی، دوستووسکی، کافکا وغیرہ۔ ایک روز لائبریری سے قدیم ہندوستانی کہانی بیتال پچیسی کیا ہاتھ لگی کہ عجیب سا دیومالائی جنون طاری ہوگیا۔ اس کے بعد نوسٹالجیا کی سنہری رتھ پر سوار ہزاروں لاکھوں برس پیچھے چلتا چلا گیا۔ کھتا سری ساگر کی آٹھ جلدیں پی گیا۔ مہاتما بدھ کی جاتک کھتا کے جنگلوں میں جا گھسا، مہا بھارت کی 18 جلدوں میں ڈوب گیا۔ الف لیلا کے قالین پر عرب و عجم کی سیر کی۔ صوفیاِ کرام کے تذکرے اور ان کی عوام الناس سے گفتگو کی تکنیک ہاتھ لگ گئی۔ پھر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ جدید اردو کہانی کا دریا تین دھاروں سے بنا ہے۔ یعنی قدیم ہندوستانی اساطیر، عرب و عجم کی داستان گوئی اور جدید مغربی روایت کی عقلیت پسندی، حقیقت نگاری اور استعارے کا چابکدست استعمال۔ چنانچہ میں نے مغربی روایت کی ان تین چابیوں سے عرب و عجم اور ہندوستان کے اساطیری تالے کھول لیے۔ اس کی ایک مثال میری کہانی مورنامہ ہے جس کا محرک یہ خبر تھی کہ 1998 میں بھارت نے راجھستان میں جو ایٹمی دھماکے کیے ان کے اثرات سے علاقے میں مور مرنے لگے ہیں۔ موروں کو میں ڈبائی کے بچپنے سے جانتا ہوں۔ چنانچہ تکلیف ہوئی کہ تجربے تو کریں آپ اور مریں بے چارے مور اور پھر خیال کی رو مجھے ان موروں کے ساتھ ساتھ مہا بھارت میں لے گئی اور مجھے لگا جیسے یہ دو ملکوں کی نہیں کورؤں پانڈوں کی لڑائی ہے۔ آپ میری بندر کہانی پڑھ لیجیے۔ جس میں ایک بندر پہلی بار انسانی بستی میں جا کر ترقی دیکھ کے حیران ہوجاتا ہے اور اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ہماری ترقی کی راہ میں بنیادی رکاوٹ ہماری دم ہے۔ انسان نے اپنی دم کاٹ کے کیسی ترقی کر لی۔ چنانچہ اس بندر کی بات سن کر پورا غول اپنی دم کاٹنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ مگر ایک بوڑھا بندر کہتا ہے کہ جس استرے سے تم اپنی دمیں کاٹو گے کل اسی استرے سے ایک دوسرے کے گلے بھی۔ لوگ کہتے ہیں ’بستی‘ انتظار حسین کی غیر اعلانیہ سوانح حیات ہے۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ انتظار حسین کا دل بھارت میں اور جسم پاکستان میں پڑا ہے۔ ایسے لوگوں کو ’آگے سمندر ہے‘ ضرور پڑھنا چاہیے۔ ہاں میں بس ایک کہانی کار ہوں کوئی مصلح یا مزاحمتی لکھاری نہیں۔ اس کے لیے مولوی اور سپاہی بہت۔ ڈھونڈنے والے میرے سیاسی خیالات سمبل ازم میں ڈھونڈھ سکتے ہیں۔ صحافت اور کالم نگاری ضرور کی ہے مگر اسے ادب کے بجائے ہمیشہ روزی روٹی کے خانے میں رکھا۔ اگر مجھے حکومتِ پاکستان نے ستارہِ امتیاز ، اکادمی ادبیات نے کمالِ فن ایوارڈ، حکومتِ فرانس نے اپنا اعلیٰ ترین ادبی اعزاز دے دیا، مین بکرز پرائیز والوں نے مجھے شارٹ لسٹ کر دیا اور میرے کچھ کام کے تراجم ہوگئے تو اس میں میرا کمال ہو نہ ہو چاہنے والوں کی محبت ضرور باکمال ہے۔ آخری دنوں میں میں یہی سوچتا تھا کہ یہ جو 130 کے لگ بھگ کہانیاں، چار ناول، ڈرامے اور تراجم مجھ سے سرزد ہوئے وہ انتظار حسین نے لکھے ہیں یا انتظار حسین سے لکھوائے گئے۔
Aamer Hussein on Intizar Hussain Mehr Afshan Farooqi on Intizar Hussain Intizar Husain: Finding Past Again by Muhammad Badar Alam A man called Intizar Husain by Shamsur Rahman Faruqi Basti and beyond – Asif Farrukhi on Intizar Husain Kamila Shamsie On Intizar Hussain’s Novel, Basti Muhammad Umar Memon on Basti’s Translation by Frances W. Pritchett (1995) Intizar Hussain, A Detailed Interview with BBC – انتظار حسین، بی بی کے ساتھ ایک تفصیلی انٹرویو کچھ تقسیم کے زمانے کے ادب کے بارے میں فیض اٹھایا جدیدیت نے … سجّاد ظہیر کا نظریۂ ادب ہاجرہ مسرور … ہنگامہ آرائی سے خاموشی تک زبان کے محدود لامحدود ہونے کا قضیہ
|