روشنائی -(4) پہلی کل ہند کانفرنس ۱۹۳۶ – سجاد ظہیر
انجمن کے منشور کے مسودے کی اشاعت اور دو ڈھائی مہینے تک ہندستان کے مختلف شہروں میں انجمن کی سرگرمیوں سے دانشوروں کے ایک بڑے حلقے میں ترقی پسند ادب کی تحریک سے وابستگی اور دلچسپی بڑھنے لگی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مختلف شاخوں اور ان افراد نے جو ترقی پسند ادب کی تحریک کے حامی تھے، متفقہ طور پر یہ مطالبہ کیا کہ ہمیں اپنی ایک کل ہند کانفرنس کرنی چاہیے، تاکہ تحریک میں حصہ لینے والے ایک دوسرے سے مل سکیں، ملک کی مختلف زبانوں کی ادبی صورت حال کا جائزہ لیا جا سکے اور مرکزی انجمن کی باقاعدہ تنظیم ہو سکے۔
اس کام میں پہلا قدم الہ آباد کی انجمن نے اٹھایا۔ ہم عارضی طور پر تحریک کے مرکز کی حیثیت سے کام کرنے لگے تھے اور اب ہمارے سامنے سب سے بڑا کام ترقی پسند مصنّفین کی پہلی کل ہند کانفرنس کرنا تھا۔ کانفرنس کرنا بہت بڑا فن ہے۔ اس کے لیے بڑی مہارت کی ضرورت ہے۔ ہمارے ملک میں چونکہ کانفرنسیں بہت ہوتی ہیں، اسی لیے ملک کے ہر ایک حصے میں ایسے افراد پیدا ہو گئے ہیں جن کو پیشہ ور کانفرنس باز کہا جا سکتا ہے۔ یہ لوگ چند دنوں میں جنگل میں منگل کر دیتے ہیں۔ انھیں شہر کے تمام ان ٹھیکیداروں کے نام معلوم ہوتے ہیں جن کے یہاں شامیانے، خیمے، کرسیاں، میزیں، دریاں اور صوفے کرایہ پر ملتے ہیں۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ روشنی کے لیے بجلی سستی پڑتی ہے یا گیس کے ہنڈے۔ انھیں معلوم ہوتا ہے کہ کس دکاندار کا لائوڈ اسپیکر ہمیشہ تقریر کے درمیان ٹوٹ جاتا ہے اور کس کا آخری وقت تک بھیانک آوازیں نکال سکتا ہے۔ پھر انھیں اس کا بھی پتہ ہوتا ہے کہ باہر سے آنے والے ڈیلی گیٹوں اور مہمانوں کو شہر کے کن کن لوگوں کے سر منڈھا جا سکتا ہے۔ کون ایسا سخی ہے جو ان کو کھانا کھلانے سے بھی انکار نہیں کرے گا، اور کون ایسا ہے جو ناک بھوں چڑھاکر سہی، لیکن ایک دو بستر ڈالنے کی جگہ دے دے گا۔ انھیں شہر کے ہر ایک گوشے، دیوار کے ہر اس ٹکڑے اور بجلی کے ہر اس کھمبے کا پتہ ہوتا ہے جس پر پوسٹر چسپاں کرنا ضروری ہے۔ وہ ان اوقات سے بھی واقف ہوتے ہیں جب پبلک زیادہ سے زیادہ تعداد میں سڑکوں پر، ہوٹلوں میں اور چائے خانوں میں تفریح کے لیے جمع ہوتی ہے اور جس کو تانگے پر لائوڈ سپیکر سے اعلان کرکے اور اشتہار بانٹ کر ہونے والے تماشے میں دلچسپی لینے کے لیے ورغلایا جا سکتا ہے۔ پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ لوگ کانفرنس کے اخراجات کے لیے چندہ جمع کرنے، قرض لینے، اُدھار پر چیزیں حاصل کرنے، کرایے پر زیادہ سے زیادہ سامان لے کر بعد کو بل بالکل نہ اداکرنے یا کم سے کم ادا کرنے کے فنون لطیفہ کے ماہر ہوتے ہیں۔ ایسے ماہرین میں بھی اچھوں اور بُروں کی تمیز کی جا سکتی ہے۔ وہ جن کا تعلق ملک کی بڑی بڑی قومی جماعتوں یا سرکاری اداروں سے ہوتا ہے، اور وہ جن کا تعلق ان غریب جماعتوں سے ہے، جن کی جھولی ہمیشہ خالی رہتی ہے۔ وہ جن کی کانفرنسوں اور جلسوں کے لیے بڑے بڑے سرمایہ داروں اور امیروں پر مشتمل استقبالیہ کمیٹیاں بنتی ہیں، اور وہ جن کی استقبالیہ کمیٹیاں اگر بنتی بھی ہیں تو اس کے ممبروں کی رکنیت کی فیس دو روپے ہونے کے باوجود بہتوں کو اس کی ادائیگی سے معافی دینا ہوتی ہے۔ پہلے گروہ کی کانفرنسوں کے بعد عام طور سے چندہ کا حساب کا جھگڑا پڑتا ہے اور یہ بات سنی جاتی ہے کہ رسپشن کمیٹی کے فلاں فلاں لوگوں کے یہاں خوشحالی کا دور دورہ ہو گیا۔ دوسرے گروہ والے کانفرنس کے بعد عام طور سے قرض خواہوں سے منہ چھپائے پھرتے ہیں اور اس دن کا انتظار کرتے ہیں جب بالآخر انھیں دیوالیہ سمجھ کر ٹھیکیدار، پریس والے اور دُکاندار ان کا پیچھا چھوڑ دیںگے۔
الہ آباد کی انجمن کے ہم چند کارکن (فراق، احمد علی، شیودان سنگھ چوہان وغیرہ) کامیاب کانفرنس کرنے کے ان دائو پیچ سے تقریباً بالکل نابلد تھے۔ انجمن کے پندرہ بیس ممبر ہر ہفتہ یا دوسرے ہفتہ کوئی افسانہ، نظم یا مضمون سننے کے لیے جلسے میں جمع تو ہو جاتے تھے، لیکن ان میں زیادہ تر ایسے تھے جن کو تحریک کے متعلق ابھی تک انہماک نہیں پیدا ہوا تھا۔ بعض ایسے تھے جن کی خاموشی ایک مستقل جملۂ استفہامیہ بن کر ہمیں پریشان کرتی تھی۔ وہ انجمن کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے نہیں بلکہ اس کے بارے میں، اور خاص طور پر ان میں شامل ہونے والی دو چار خواتین کے متعلق واقفیت حاصل کرنے کے لیے آتے تھے۔ چند ایسے تھے جو ایک دو بار شریک ہوکر پھر نہیں آئے۔ انھوں نے باقاعدگی سے اپنی استطاعت اور سمجھ کے مطابق شہر میں سرگوشیاں کرنی شروع کر دیں کہ یہ تحریک فضول اور مہمل ہے، اور بہت سی دوسری تحریکوں کی طرح دو چار دن میں ختم ہوجائے گی۔ بعض لال بجھکڑوں نے یہ بھی کہنا شروع کر دیا کہ یہ لوگوں کو کمیونسٹ جال میں پھنسانے کی ایک چال ہے۔
ان مشکلوں کے باوجود ہم نے الہ آباد کی انجمن کے سامنے تمام معاملات کو پیش کردیا۔ یہ طے ہو گیا کہ کل ہند کانفرنس ہونا چاہیے۔ اپریل میں لکھنؤ میں کانگریس کا سالانہ اجلاس ہونے والا تھا، جس کی صدارت کے لیے جواہر لعل نہرو چنے گئے تھے۔ سب کی رائے ہوئی کہ اسی زمانے میں لکھنؤ میں ہماری بھی کانفرنس منعقد کی جائے۔ کانگریس کے اجلاس میں شریک ہونے کے لیے یا محض تماشائی کی حیثیت سے ملک کے ہر حصے سے لوگ جمع ہونے والے تھے۔ ہم نے خیال کیا کہ ہماری کانفرنس میں جو ادیب آئیں گے، اُن کے لیے کانگریس کا اجلاس ایک مزید کشش کا باعث ہوگا۔ اس کے علاوہ یہ بھی تھا کہ بائیں بازو کی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے، کمیونسٹ اور سوشلسٹ اور دوسرے ترقی پسند نظریوں کے لوگ وہاں اس موقع پر ہوںگے۔ ان کی موجودگی اور حمایت سے بھی ہمیں فائدہ پہنچ سکتا تھا۔ اس وقت تک کانگریس اور بائیں بازو کی ترقی پسند جماعتوں اور افراد میں وہ تفاوت نہیں تھا جو دوسری جنگ عظیم کے بعد پیدا ہوا۔ سب کی نظریں نہرو کی طرف تھیں کہ وہ کانگریس کو اصلاح پسندوں کے غلبے سے نکال کر جمہوری عوامی سیاست کے راستے پر چلانے میں ترقی پسند اور انقلابی قوتوں کی مدد کریں گے اور کانگریس کی تنظیم کو محور بناکر اس کے ارد گرد بیرونی سامراج کے خلاف متحدہ قومی محاذ بنائیں گے۔
ترقی پسند ادب کی تحریک حالانکہ سیاسی نہ تھی، پھر بھی ہماری نظر میں وہ سامراج دشمن عوامی مورچہ کا ایک حصہ تھی۔ عام رائے یہ ہوئی کہ منشی پریم چند سے صدارت کی درخواست کی جائے۔ ہماری اس رائے سے بنگال، بمبئی، احمدآباد، لاہور اور دوسری جگہوں کے سب ہی لوگ متفق ہوگئے۔ منشی پریم چند بنارس میں رہتے تھے اور میں انجمن کی تنظیم اور دوسرے مسائل کے بارے میں ان سے برابر خط و کتابت کرتا رہتا تھا۔ ترقی پسند ادب کی تحریک سے ان کی بھی دلچسپی روز بروز بڑھ رہی تھی۔ لیکن ان کی اور بھی بہت سی مصروفیات تھیں۔ اس وقت کیفیت یہ تھی کہ ہندی یا اُردو کی کوئی بھی ادبی کانفرنس یا جلسہ یا اجتماع ملک کے کسی حصے میں ہو، منشی پریم چند کو اس کا صدر بنانے کے لیے سب لوگ دوڑتے تھے۔ منشی پریم چند چونکہ نیک، منکسر المزاج اور حلیم الطبع انسان تھے، اس لیے ان کے بارے میں بہت سے لوگ اس غلط فہمی میں رہتے تھے کہ ان کی شہرت اور ادبی وقار کی آڑ لے کر اپنے ٹیڑھے میڑھے مقاصد کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ منشی جی کی وسیع المشربی اور انسانوں کی نیک نیتی پر ان کا بھروسہ انھیں مختلف قسم اور رائے کے لوگوں سے ملنے جلنے اور ان کی تحریکوں اور منصوبوں میں حصہ لینے پر آمادہ رکھتا تھا۔ لیکن غیر معمولی ذہانت اور آزاد پسندی اور انسان دوستی کی طرف ان کا جھکائو اور سچائی کی کھوج ہمیشہ انھیں کھوٹے اور کھرے کی پرکھ میں سہارا دیتے تھے۔ اسی وجہ سے ان کے تخلیق کیے ہوئے ادب میں بھی ہمیں سچائی تک پہنچنے، انسان کے باہمی رشتوں اور سماجی تبدیلیوں اور محرکات کے اندرونی عوامل کا مشاہدہ کرنے کی ایک مستقل کاوش پائی جاتی ہے۔ جب وہ اصلاح پسند گاندھیائی فلسفہ کو قبول بھی کرتے ہیں تو اس نظریے کو خواہ مخواہ سچا ثابت کرنے کے لیے وہ سماجی حقیقت کی پردہ پوشی نہیں کرتے، اور جب بالآخر سماجی حقیقت کا مشاہدہ انھیں ایک حد تک اصلاح پسندی کی خامیاں سمجھنے میں مدد دیتا ہے تو وہ ایسے نتائج کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے ہچکچاتے بھی نہیں، جس سے ان کے پہلے تصورات کی نفی ہوتی ہے، لیکن حقیقت بینی جن کی متقاضی ہے، ترقی پسند تحریک سے پریم چند کی وابستگی ان کی زندگی کے تجربے اور مشاہدے اور ان کے ادبی ارتقا کا ایک لازمی اور فطری نتیجہ تھی۔ افسوس کہ ان کی بے وقت موت کے سبب سے اس ارتقا کی تکمیل نہ ہو سکی۔
جب میں نے منشی جی کو مجوزہ کانفرنس کی صدارت کے لیے لکھا تو پہلے انھوں نے معذوری ظاہر کی۔ انھوں نے لکھا کہ اس وقت ان کے پاس لاہور کے ہندی سمیلن اور حیدرآباد دکن کی ہندی پرچار سبھا کی صدارت کے دعوت نامے آئے ہیں۔ مزید برآں مسٹر کنھیّا لال منشی کی تحریک پر واردھا میں گاندھی جی ایک کل ہند ادبی اجتماع (بھارتیہ ساہتیہ پریشد) اپریل میں ہی کرنا چاہتے ہیں۔ اس میں بھی انھیں شریک ہونا ہے۔
حسن اتفاق سے منشی پریم چند کے وہ خطوط، جو انھوں نے مجھے اس سلسلے میں لکھے تھے، میرے پاس محفوظ رہ گئے، اور وہ ’’نیا ادب‘‘ (فروری ۔ مارچ 1940) میں شائع کیے گئے تھے۔ 15مارچ کے خط میں انھوں نے مجھے لکھا… ’’صدارت کی بات… میں اس کا اہل نہیں۔ عجز سے نہیں کہتا۔ میں اپنے میں کمزوری پاتا ہوں۔ مسٹر کنھیا لال منشی مجھ سے بہت بہتر ہوں گے، یا ڈاکٹر ذاکر حسین۔ پنڈت نہرو تو بہت مصروف ہوںگے۔ ورنہ وہ نہایت موزوں ہوتے۔ اس موقع پر سبھی سیاسیات کے نشے میں ہوںگے اور ادبیات سے شاید ہی کسی کو دلچسپی ہو۔ لیکن ہمیں کچھ نہ کچھ تو کرنا ہے۔ اگر مسٹر جواہر لعل نہرو نے دلچسپی کا اظہار کیا تو جلسہ کامیاب ہوگا۔‘‘ میرے پاس اس وقت بھی صدارت کے دو پیغام ہیں۔ ایک لاہور کے ہندی سمیلن کا، دوسرا حیدرآباد دکن کی ہندی پرچار سبھا کا۔ میں انکار کر رہا ہوں، لیکن وہ لوگ اصرار کر رہے ہیں۔ کہاں کہاں پریسائیڈ کروںگا۔ ہماری انجمن میں کوئی باہر کا آدمی صدر ہو تو زیادہ موزوں ہے۔ مجبوری درجہ میں تو ہوں ہی۔ کچھ رو گا لوں گا… اور کیا لکھوں۔ تم ذرا پنڈت امر ناتھ جھا کو تو آزمائو۔ انھیں اُردو ادب سے دلچسپی ہے اور شاید وہ صدارت منظور کرلیں۔‘‘ (15مارچ 1936) لیکن ایک دو اور خطوں کے بعد بالآخر منشی پریم چند نے ہماری درخواست منظور کر لی اور مجھے لکھا… ’’اگر ہمارے لیے کوئی لائق صدر نہیں مل رہا ہے تو مجھی کو رکھ لیجیے۔ مشکل یہی ہے کہ مجھے پوری تقریر لکھنی پڑے گی۔ میری تقریر میں آپ کن مسائل پر بحث کرنا چاہتے ہیں، اس کا کچھ اشارہ کیجیے۔ میں تو ڈرتا ہوں میری تقریر ضرورت سے زیادہ دل شکن نہ ہو۔ آج ہی لکھ دو تاکہ واردھا جانے سے قبل اسے تیار کر لوں۔‘‘ (19مارچ 1936) اب یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ پریم چند نے ہماری کانفرنس کی صدارت کے لیے کنھیا لال منشی کو اپنے سے بہتر سمجھا تھا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس شروع زمانہ میں ہمارے اور ان کے خیالات میں کئی باتوں میں فرق تھا۔ لیکن ہمیں یہ نہ بھولنا چاہیے کہ کنھیا لال منشی 1936 میں ایک قوم پرست اور گجراتی زبان کے اہم ناول نگار کی حیثیت سے ہمارے سامنے آئے تھے۔ جب دو سال بعد صوبہ بمبئی میں وہ کانگریس کے وزیر داخلہ بنے اور انھوں نے عوام کی شہری آزادیاں سلب کرنا شروع کیں اور سرمایہ داروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہڑتالی مزدوروں پر گولی چلوائی، تب ہی لوگوں کو ان کی قوم پرستی اور بھارتی کلچر سے دلچسپی کی اصلی حقیقت معلوم ہوئی۔ رفتہ رفتہ منشی صاحب نے کانگریس سے بھی علاحدگی اختیار کر لی اور مالدار فرقہ پرستوں سے اعلانیہ مل گئے۔ بعد میں انھیں دوبارہ کانگریس میں شامل کر لیا گیا۔ بہرحال اس وقت بھی ترقی پسند انجمن کے بیشتر اراکین کنھیا لال منشی سے اپنی کانفرنس کی صدارت کے لیے درخواست کرنے کو تیار نہ تھے۔ رہ گئے پنڈت جواہر لعل نہرو اور ڈاکٹر ذاکر حسین تو ملک کے معزز اور ترقی پسند قومی اور تعلیمی راہ نما ہونے کی حیثیت سے ہم اپنی تحریک کے واسطے ان کی ہمدردی کے خواہش مند ضرور تھے جو ہمیں حاصل ہو گئی تھی۔ لیکن ہماری نظر میں ادیبوں کی کانفرنس میں ادیب ہی کی صدارت سب سے اچھی تھی۔
صدارت کا معاملہ طے ہوا تو ہم دوسرے کاموں میں لگے۔ سوال یہ تھا کہ کانفرنس میں ہوگا کیا؟ خطبے، تقریریں، ریزولیوشن یا اور کچھ بھی؟ کچھ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ ناکافی سا ہے۔ ادبی کانفرنس میں ادبی مسائل پر ہی تبادلۂ خیال اور بحثیں ہونا چاہئیں۔ پھر ہمارے وسیع اور عریض دیش میں چودہ پندرہ بڑی بڑی زبانیں ہیں۔ ہر ایک کو لاکھوں کروڑوں آدمی بولتے ہیں اور ان میں گراں قدر ادب موجود ہے۔ کل ہند کانفرنس میں ان تمام یا ان میں سے زیادہ سے زیادہ زبانوں کے جدید ادب اور ادبی مسائل پر مقالے تیار ہونے چاہئیں۔
ہمارے ملک میں عام طور سے پڑھے لکھے لوگ صرف اپنی زبان کے ادب سے واقف ہوتے ہیں، یا اگر انگریزی داں ہیں تو کسی قدر انگریزی ادب سے، اُردو داں کو گجراتی ادب کا پتہ نہیں،گجراتی والے تیلگو ادب سے ناواقف ہیں۔ تامل والے بنگالی ادب سے نابلد ہیں، اور بنگالی والے اپنی زبان کے علاوہ ہندستان کی تمام زبانوں کے ادب سے۔ بہت سے اُردو اور ہندی والوں میں تو یہ باہمی ناواقفیت، فرقہ وارانہ تعصب کے سبب سے مغائرت اور منافرت کی حد تک پہنچ گئی ہے۔ حالانکہ یہ دونوں ایک ہی خطے کی زبان کے دو ادبی مظہر ہیں اور ان کی بولیاں ایک ہی ہیں۔ اگر ہماری کانفرنس کے ذریعے سے ملک کی مختلف زبانوں کے ادیبوں کو ایک دوسرے کے ادب سے تھوڑی بہت بھی واقفیت اور دلچسپی ہو جائے، اگر ہم یہی جان لیں کہ اس ملک کی بڑی بڑی زبانوں میں اس وقت کون سے ادبی مسائل در پیش ہیں، اور ادبی دھاروں کا رُخ کیا ہے، تو یہ ایک بڑے اچھے کام کی ابتدا ہوگی، اور اس سے ہماری تحریک کو مجموعی طور سے فائدہ پہنچے گا۔
دوسرا کام انجمن کے دستور کا خاکہ تیار کرنا تھا، تاکہ کل ہند مرکزی تنظیم قائم ہوسکے، اور علاقائی اور مقامی انجمنوں کے باہمی تعلقات اور انجمن کی ممبری کی شرائط کا تعین کیا جا سکے۔ اس طرح انجمن کے مرکزی، علاقائی اور مقامی ادارے باقاعدگی سے جمہوری اصولوں پر قائم ہو سکتے تھے۔
تیسرا مسئلہ ہماری انجمن کا دوسرے بیرونی ادبی اداروں سے تعلق یا الحاق کا تھا۔
پھر ہمارے سامنے دو اور سوال تھے جو سیاسی تھے۔
پہلے تو یہ کہ ہمارے ملک میں بیرونی سامراج نے تحریر، تقریر، اور خیال کی آزادی کے جمہوری حق پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کر رکھی تھیں۔ شہری آزادیوں پر ان بندشوں اور گرفت کا محب وطن ادیبوں پر براہ راست اثر پڑتا تھا۔ ترقی پسند اخبار، رسالے اور کتابیں ہمیشہ سرکاری عتاب کی زد میں آتے رہتے تھے، اور جو سہولتیں ادیبوں کو ایک آزاد ملک میں ملنی چاہئیں، وہ ہمارے یہاں مفقود تھیں۔ ان کی مدد یا ان کا دل بڑھانا تو درکنار، ادیبوں کا اتحاد اس سلسلے میں ان کی تقویت کا باعث بن سکتا تھا اور ان کے جمہوری حقوق کا تحفظ کر سکتا تھا۔
دوسرا سوال یہ تھا کہ اس زمانے میں بین الاقوامی فضا بڑی تیزی سے مکدّر ہو رہی تھی۔ جرمن اور اطالوی فاشزم دنیا کو دوسری جنگ عظیم کی طرف کھینچے لیے جا رہی تھی۔ اطالوی فاشزم نے پر امن ابی سینیا (حبش) پر حملہ کر دیا تھا۔ مجلس اقوام (لیگ آف نیشن) اطالیہ کو اس جارحانہ اقدام سے روکنے میں بالکل قاصر رہی تھی۔ ادھر جاپانی سامراج نے چین پر حملہ کرکے اس کے شمالی علاقوں کو ہڑپ لیا تھا اور چین میں جنگ جاری تھی۔ قوموں کی آزادی کا اس بے دردی سے سلب کیا جانا، جمہوریت کا خون، بین الاقوامی جنگ جس کا مقصد یہ ہو کہ ساری انسانیت کو خاک و خون میں لتھیڑ کر چند سامراجی طاقتیں دنیا کو آپس میں نئے سرے سے بانٹ لیں، تمدن اور تہذیب کے لیے مہیب خطرے ہیں اور کوئی سمجھ دار ادیب جسے اپنے فن اور نوع انسان سے لگائو ہے، ان سے چشم پوشی نہیں کر سکتا۔ ہمارے نزدیک یہ ضروری تھا کہ وطن کے تمام ادیب اور آرٹسٹ، نظریاتی اور سیاسی اختلاف کے بلالحاظ قومی آزادی، جمہوریت، سامراج دشمنی اور بین الاقوامی امن کے طرفداروں کی صف میں کھڑے ہوں اور اپنی فنی قوت، ذہنی اور روحانی تاثر کی صلاحیت کو انسانی معاشرے کی ان بنیادوں کو محفوظ اور مضبوط کرنے کے لیے استعمال کریں جن پر تہذیب اور کلچر کا وہ گھرانہ قائم ہے جس کا ہر ایک ادیب اور فنکار خانہ زاد ہے۔
کانفرنس کا دفتری کام ہم الہ آباد سے کرتے رہے۔ مختلف جگہوں سے ہمارے پاس جو خطوط اور جواب آئے، ان سے ہم کو اس کا تو یقین ہو گیا کہ کانفرنس میں شرکت کے لیے ملک کے تقریباً تمام بڑے بڑے ادبی علاقوں کے ادیب آئیں گے اور کانفرنس اگر ’’شاندار‘‘ نہیں تو کم از کم مفید ضرور ہوگی، اور اگر ہمارے ملک کی مختلف زبانوں کے ادب پر تفصیلی رپورٹیں اور بحثیں نہ بھی ہوئیں تو کم از کم ان مختلف زبانوں کے جدید ادب پر کسی قدر روشنی تو ضرور ہی پڑے گی، اور ترقی پسند ادیبوں کے لیے عام راہ تو ضرور متعین ہوگی، اور اگر کوئی بڑی اور مضبوط ادبی تنظیم نہیں تو ایک ایسا ڈھانچہ تو ضروری بن جائے گا، جس کے ارد گرد آئندہ نئی ادبی عمارت کھڑی کی جا سکے گی۔
جب کانفرنس کے شروع ہونے کو آٹھ دس دن رہ گئے تو مرکزی دفتر… یعنی میں… تین چار فائلوں سمیت الہ آباد سے لکھنؤ منتقل ہو گیا۔ اس وقت تک لکھنؤ میں ترقی پسند مصنّفین کی کوئی مقامی شاخ نہیں تھی اور مقامی لوگوں میں سوا ہمارے ذاتی دوستوں یا رشتہ داروں، یا دو تین یونیورسٹی کے طلبا کے کوئی ہمارا مددگار تک نہیں تھا۔ کیفیت یہ تھی کہ ہمارے پاس کانفرنس کے اخراجات کے لیے شاید سو سوا سو روپے سے زیادہ نہ تھے اور نہ کوئی والنٹیئر تھے، نہ چپراسی، نہ کلرک۔ ابھی تک ہمیں جلسہ کرنے کے لیے کوئی ہال بھی نہیں ملا تھا۔
میں جب لکھنؤ پہنچا تو اس کے ایک دو دن کے اندر امرتسر سے ڈاکٹر رشید جہاں اور محمود الظفر بھی آگئے۔ ہم سب کا قیام لکھنؤ میں وزیر منزل میں تھا۔ میرے والد کا یہ مکان ان دنوں سجا سجایا لیکن بیشتر خالی پڑا رہتا تھا۔ وہ خود الہ آباد میں رہنے لگے تھے۔ اس کافی بڑے مکان کے ایک حصے میں میرے بڑے بھائی ڈاکٹر سید حسین ظہیر رہتے تھے۔ لیکن دو تہائی حصہ خالی پڑا تھا۔ ڈاکٹر ظہیر کی خاصیت یہ ہے کہ ہر اس کارِ خیر یا تحریک میں، جسے وہ اچھی یا مفید سمجھتے ہیں، بے دھڑک فیاضی اور انہماک کے ساتھ مدد کرنے کے لیے آمادہ ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ وہ پیشہ ور سائنسداں ہیں اور ان کی زندگی اور اوقات کا بیشتر حصہ کیمیائی تفتیش و تحقیق میں صرف ہوتا ہے۔ میں تو خیر ان کا چھوٹا بھائی تھا، لیکن میرے سارے دوست اور ترقی پسند مصنّفین کی کانفرنس کے کار کن رفتہ رفتہ وزیر منزل میں آکر ٹکتے گئے اور سب ان کے مہمان ہو گئے۔ ڈاکٹر ظہیر اور ان کی بیگم کو ان پر اعتراض نہیں تھا کہ ہم (آخر میں کل ملاکر وزیر منزل میں دس بارہ آدمی ٹھہرے ہوئے تھے اور ان کے علاوہ کھانے اور چائے کے وقت دو چار صاحب اور بھی آجاتے تھے) مان نہ مان ان کے مہمان ہو گئے ہیں اور انھیں زیر بار کر رہے ہیں۔ وہ مجھے اور میرے مہمانوں کو اس بات پر ڈانٹتے رہتے تھے کہ ہم کھانا وقت سے نہیں کھاتے۔ پہلے سے یہ نہیں بتاتے کہ ایک وقت میں کتنے آدمی کھانا کھائیں گے۔ کبھی کھانا بچ جاتا ہے اور ضائع ہو جاتا ہے، اور کبھی کم پڑ جاتا ہے۔
محمود الظفر کے آجانے سے لامحالہ ہمارے کام میں باضابطگی پیدا ہو گئی اور حالانکہ میں انجمن کا عارضی جنرل سکریٹری تھا، لیکن وہ فطری طور سے اس کے جنرل منیجر بن گئے۔ انھوں نے کانفرنس کے کاغذات، خطوط اور دستاویزات کی علاحدہ علاحدہ فائلیں بنائیں۔ کام کو مرتب کرکے ان کا پروگرام بنایا، روز کا روز سب کو کام تقسیم کرنے لگے اور شام کے وقت سارے کاموں کا فرداً فرداً جائزہ لینے لگے۔ حسب دستور اپنے ذمہ سب سے زیادہ کام لیا اور اسے بروقت اور بخوبی انجام دیا۔
لکھنؤ میں تین چار ہال ہیں جہاں عام طور سے کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں، سب سے اچھی قیصر باغ کی بارہ دری ہے۔ لیکن شاہان اودھ کے جانشینوں کی حیثیت سے اس پر اودھ کے تعلق داروں کی انجمن کا قبضہ ہے۔ ہم نے اپنے بعض نوجوان زمیندار دوستوں کے توسل سے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن تعلق دار انجمن کے کرتا دھرتا سخت ٹوڈی اور رجعت پسند لوگ تھے۔ انھوں نے شاید پولیس سے دریافت کیا ہو اور انھیں یہ اطلاع دی گئی ہو کہ ترقی پسند ’’خطرناک شے‘‘ ہے۔ اس لیے ہمیں وہاں سے ٹکا سا جواب مل گیا۔ پھر گنگا پرشاد ورما ہال کو حاصل کرنے کی کوشش ہوئی۔ وہاں ان دنوں میں شاید چھتری سبھا یا گئو رکشا قسم کی کوئی کانفرنس ہونے والی تھی۔ بالآخر ہم نے رفاہِ عام ہال حاصل کرنے کے لیے دوڑ دھوپ شروع کی۔ یہ خوبصورت عمارت لکھنؤ کے ایک نیم پاگل نواب نے قوم کو دے دی تھی، تاکہ اس میں پبلک جلسے اور کانفرنسیں ہوا کریں۔ لیکن وہ ترقی پسند نواب صاحب برسوں پہلے فوت ہو چکے تھے۔ اب وہاں شہر کے چند وکلا اور بیرسٹروں نے ایک کلب بنا لیا تھا اور اس کا ہال بلیئرڈ اور برج کھیلنے اور وہسکی اور بیئر پینے کے لیے وقف ہو چکا تھا۔ ایک زمانہ تھا جب رفاہِ عام میں بڑے بڑے تاریخی جلسے اور کانفرنسیں ہوتی تھیں۔ یہیں پر پہلی جنگ عظیم کے زمانہ میں ہوم رول لیگ کا وہ جلسہ ہونا قرار پایا تھا، جو مسز اینی بیسنٹ کی گرفتاری پر احتجاج کرنے کے لیے شہر کے قوم پرستوں نے مدعو کیا تھا۔ لیکن انگریز سرکار نے اُسے غیرقانونی قرار دے دیا تھا۔ یہ لکھنؤ میں اپنی قسم کا پہلا واقعہ تھا۔ مسلح پولیس سے رفاہِ عام بھر گئی تھی اور سارے شہر میں زبردست سنسنی پھیل گئی تھی (۱)۔1920 میں یہیں پر خلافت کانفرنس ہوئی جس میں علی برادران اور ملک کے تمام بڑے لیڈروں نے شرکت کی۔ اس موقع پر مولانا محمد علی نے مسلسل چھ گھنٹے تقریر کی تھی اور رفاہِ عام کے احاطے میں انگریزی کپڑوں کے بڑے بڑے انبار جلائے گئے تھے۔ اس کے بعد یہیں پر نان کو آپریشن کی تحریک کے سلسلے میں کانگریسیوں اور خلافتیوں نے لبرل پارٹی کی کانفرنس میں ہنگامہ کرکے ہال پر قبضہ کر لیا تھا اور ان کے ہی پلیٹ فارم سے لبرلوں کے خلاف ریزولیوشن پاس کروائے تھے۔ ہماری خوش قسمتی سے وکیلوں کے طبقے میں چند ترقی پسند بھی تھے۔ پنڈت آنند نرائن ملا، حالانکہ ترقی پسند ادبی نظریوں سے کسی قدر اختلاف رکھتے تھے، لیکن وہ ایک اچھے شاعر، محب وطن اور ادب نواز انسان تھے۔ ان کی اور بعض اور لوگوں کی کوششوں سے رفاہِ عام ہال ہمیں مفت مل گیا اور ہماری سب سے بڑی پریشانی دور ہو گئی۔
ہمیں اس کی بھی فکر ہوئی کہ اگر لکھنؤ میں باقاعدہ استقبالیہ کمیٹی بنائی نہیں جا سکتی تو کم از کم استقبالیہ کمیٹی کے نام پر سوپچاس ٹکٹ بیچ کر کچھ چندہ ہی فراہم ہو جائے، اور اگر پور ی کمیٹی نہیں تو کم از کم استقبالیہ کمیٹی کا ایک صدر ہی بنا لیا جائے۔ ہم نے آپس میں مشورہ کیا اور اس عہدے کے لیے سب سے زیادہ موزوں چودھری محمد علی صاحب ردولوی کو سمجھا۔ یوں تو چودھری صاحب تعلق دار ہیں اور اودھ کے رئوسا میں سے ہیں، اور وہ ہم سے ایک نسل پہلے کے فرد ہیں، لیکن ان کی ذات میں کچھ عجیب خصلتیں جمع ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے ان کی شخصیت سرزمین اودھ کی دلچسپ ترین شخصیتوں میں سے ایک ہے۔ ان کے اخلاق و آداب اودھ کے قدیم رئیسوں کی طرح ہیں۔ (۱)-اسی موقع پر چکبست نے اپنی مشہور نظم ہوم رول لکھی تھی اور مسز اینی بیسنٹ کی گرفتاری پر ان کو خطاب کرکے کہا تھا… ماں کے دامن سے ہے بڑھ کر ہمیں تیرا دامن تیرے بالوں کی سفیدی ہے کہ ہے صبح وطن لیکن ان کی صورت، داڑھی مونچھ صاف، گورا چٹا رنگ، جدید انگریزی تعلیم یافتہ نوجوانوں کی سی ہے۔ وہ اُردو لکھتے ہیں تو اس میں وہ لوچ اور لطافت، طنز اور تفنّن ہوتا ہے جس سے پُرانے لکھنؤ کی مہک آتی ہے۔ لیکن باتیں کرنے پر آجاتے ہیں تو نیٹشے اور مارکس، ٹیگور اور اقبال ایک طرف، تو جنسیات اور نفسیات کے ماہرین فرائڈ اور ہیولاک دوسری طرف ان کی زد میں ہوتے ہیں۔ بزرگوں اور بڑوں کے درمیان ہوتے ہیں تو ان سے آخرت، جائداد اور ان کی اولاد کا تذکرہ کریںگے، اور نوجوانوں میں ہوںگے تو جنسیات کے مسائل پر ایسی محققانہ باتیں کریںگے کہ بڑے بڑے رنگین مزاجوں کی آنکھیں کھل جائیں۔ اگر کسی محفل میں خوبصورت عورتوں اور نوجوان لڑکیوں کا مجمع ہو تو وہ ان کے جھنڈ میں یوں پہنچ جاتے ہیں جیسے لوہا مقناطیس سے کھنچتا ہے اور پل بھر میں اپنی اجنبیت کو کھو کر ان سے ایسی رازدارانہ باتیں کرنے لگتے ہیں جو صرف راجہ اندر اپنی پریوں سے کرتے ہوںگے۔ وہ اُردو ادب کی بہترین روایات سے واقف اور ایک لطیف طرزِ تحریر کے مالک تھے اور جدید ادب سے بھی گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ جب ہم نے ان سے اپنی استقبالیہ کمیٹی کی صدارت کے لیے کہا تو انھیں بڑا تعجب ہوا کہ یہ درخواست ان سے کی گئی۔ رسماً نہیں بلکہ بڑے خلوص کے ساتھ انھوں نے اس سے اپنی معذوری کا اظہار یہ کہہ کر کیا کہ وہ کبھی کسی تحریک میں شامل نہیں ہوئے ہیں اور ہر قسم کے سیاسی جھگڑوں اور ہنگاموں سے دُور بھاگتے ہیں۔ لیکن ہمارے، خاص طور پر رشید جہاں کے اصرار پر وہ نہیں بھی نہ کر سکے اور آخر میں راضی ہوگئے۔ اس کے بعد سب سے پہلا کام انھوں نے یہ کیا کہ بہت معذرت کے ساتھ چپکے سے سو روپے ہمیں عطیہ بھی دے دیا۔ یہ ہمارے لیے نعمت غیر مترقبہ تھی۔ چودھری صاحب کو اس کی شرمندگی تھی کہ یہ رقم بہت کم تھی، لیکن انھیں معلوم نہیں تھا کہ ہمیں کانفرنس کے لیے کسی ایک شخص سے دس روپے سے زیادہ چندہ نہیں ملا تھا اور ہم کل جملہ سو ڈیڑھ سو روپے لے کر کل ہند کانفرنس کرنے چلے تھے۔
ہم نے کانفرنس کے ہال کے لیے کوئی دو تین سو کرسیاں کرائے پر لے تو لیں، لیکن اب یہ فکر لاحق ہوئی کہ ہال بھرے گا بھی یا نہیں۔ ملک کے مختلف حصوں سے جن ڈیلی گیٹوں کے آنے کی ہمیں اطلاع ملی تھی، ان کی تعداد مشکل سے تیس چالیس رہی ہوگی۔ دو بنگال سے، تین پنجاب سے، ایک مدراس سے، دو گجرات سے،چھ مہاراشٹرا سے اور شاید بیس پچیس صوبہ متحدہ کے مختلف حصوں سے۔ لکھنؤ میں اس وقت تک ہماری تحریک بالکل جاری ہی نہیں ہوئی تھی۔ الہ آباد میں تو فراق، اعجاز حسین، احمد علی وغیرہ یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے، اور ان کے زیر اثر طلبا کی خاصی تعداد ہمارے جلسوں میں آجاتی تھی۔ یہاں یونیورسٹی میں بھی ہمارا کوئی نہ تھا۔ اس وقت تک ڈاکٹر علیم، ڈاکٹر رام بلاس شرما، احتشام حسین اور آل احمد سرور لکھنؤ یونیورسٹی میں مقرر نہیں ہوئے تھے۔ ہماری بے سر و سامانی اور کمزوری کا اس سے بڑا اظہار کیا ہوتا کہ لکھنؤ جیسے ادبی شہر میں ہماری کانفرنس میں دلچسپی لینے والے گنتی کے ہوں۔ ہمیں اس کا احساس تھا کہ اگر ایسا ہوا تھا تو یہ اہل لکھنؤ کی بدذوقی یا رجعت پسندی کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس سبب سے تھا کہ انھیں ہماری تحریک یا کانفرنس کے بارے میں مطلع نہیں کیا گیا ہے اور ان میں کانفرنس کے لیے دلچسپی نہیں پیدا کی گئی ہے۔ چند دنوں میں چند آدمی اس کمی کو کس طرح پوری کر سکتے تھے؟ پھر بھی ہم نے ہار نہیں مانی۔
یونیورسٹی میں چند طلبا کے ذریعہ ہم نے اشتہار تقسیم کروائے، اور جب کانفرنس کے دو دن پہلے بڑے پوسٹر چھپ کر آگئے تو محمود الظفر اپنے ساتھ دو اور ساتھیوں کو لے کر شہر کے خاص خاص حصوں، نکّڑوں اور چوراہوں پر رات بھر انھیں چسپاں کرتے پھرے۔
رشیدہ لکھنؤ میں چند سال پہلے ڈاکٹری کی پریکٹس کر چکی تھیں، اور یہاں پر بہتوں سے واقف تھیں۔ انھوں نے گھوم گھوم کر کانفرنس کی رسپشن کمیٹی کے تین تین روپے والے ٹکٹ بیچنے شروع کیے۔ اگر یہ لوگ ادب سے دلچسپی لینے والے نہیں بھی تھے تو تین روپے کی حد تک تو انھیں ادب نوازوں کی صف میں داخل کر ہی لیا گیا۔ اس کے علاوہ کانگریس کے سالانہ اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے ہزاروں آدمی لکھنؤ آنے لگے تھے۔ ان میں سوشلسٹ لیڈر اور کمیونسٹ کارکن بھی تھے، جن میں اکثر اگر ادیب نہ تھے تو ترقی پسند ادبی تحریک کے ہمدرد تھے۔ آچاریہ نریندر دیو سنسکرت، پالی اور ہندی کے عالم تھے اور اُردو کے بہترین مقررین میں سے شمار کیے جاتے تھے۔ جئے پرکاش نارائن کی سوشلسٹ سیاسی زندگی کا دلکش آغاز تھا۔ کملا دیوی چٹوپادھیا ایک سرخ شعلے کی طرح فروزاں تھیں۔ میاں افتخار الدین بڑے شد و مد کے ساتھ کانگریس کے بائیں بازو کی سیاست سے منسلک ہوگئے تھے۔ ان سب نے ہماری کانفرنس میں شرکت کا وعدہ کیا۔ سروجنی نائیڈو نئے شاعروں اور ادیبوں کی سرپرستی اور دل جوئی اور مدد کے لیے ہمیشہ تیار رہتی تھیں۔ وہ بھی لکھنؤ میں تھیں اور انھوں نے بھی کانفرنس میں شرکت کا وعدہ کیا تھا۔
جوں جوں کانفرنس کا دن قریب آتا، ہماری گھبراہٹ بڑھتی جاتی۔ روپے کی کمی کی وجہ سے ہم اپنے ڈیلی گیٹوں کو ٹھہرانے اور ان کے کھانے پینے کا انتظام بھی نہیں کرسکتے تھے۔ چند کو ہم نے اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے یہاں ٹھہرانے کا بندوبست کیا تھا۔ بہت سے کانگریس کے کیمپ میں جاکر ٹک گئے تھے، جہاں ایک جھونپڑی چند روپے میں کرائے پر مل جاتی تھی اور کھانا بہت سستا تھا۔ بعض یونیورسٹی کے ہوسٹل کے خالی کمروں میں ٹھہرے۔ یہ انتظام ہمارے لیے بڑی زحمت کا باعث تھا۔ اس لیے کہ کانفرنس ہال اور میرے گھر سے، جہاں کانفرنس کا عارضی دفتر تھا، یہ سب جگہیں کئی کئی میل کے فاصلے پر تھیں۔ لیکن مجبوری تھی، ہم نے اپنے مہمانوں کو اپنی حالت بتا دی تھی اور ان سے پہلے کہہ دیا تھا کہ لکھنؤ میں ان کے ٹھہرنے کا خاطر خواہ انتظام کرنے سے ہم قاصر ہیں۔
باہر سے آنے والے لوگوں کا ریلوے اسٹیشن پر استقبال بھی ہم نہ کر سکتے تھے۔ تین چار آدمی آخر کیا کیا کرتے؟ تاہم اپنے صدر منشی پریم چند کو اسٹیشن پر لینے جانے کا ہم نے تہیہ کیا۔ محمود کسی اور کام میں لگے ہوئے تھے۔ اس لیے رشیدہ اور میں نے طے کیا کہ ہم دونوں اسٹیشن جائیں گے۔ کہیں سے تھوڑی دیر کے لیے ہم نے ایک موٹر بھی حاصل کرلی تھی۔ صبح کا وقت تھا، گاڑی نو بجے کے قریب آنے والی تھی۔ ہم نے سوچا کہ ساڑھے آٹھ بجے گھر سے روانہ ہوںگے۔ ہم آٹھ بجے کے قریب بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ گھر میں ایک تانگے کے داخل ہونے کی آواز آئی اور ساتھ ہی نوکر نے آکر مجھے اطلاع دی کہ کوئی صاحب آپ کو بلا رہے ہیں۔ میں باہر نکلا تو کیا دیکھا کہ پریم چند جی اور ان کے ساتھ ایک اور صاحب ہمارے مکان کے برآمدے میں کھڑے ہوئے ہیں۔ مجھ پر حیرت اور شرمندگی سے تھوڑی دیر کے لیے سکتہ چھا گیا۔ لیکن قبل اس کے، کہ میں کچھ کہوں، پریم چند جی نے ہنستے ہوئے کہا… ’’بھئی تمھارا گھر بڑی مشکل سے ملا ہے۔ بڑی دیر سے اِدھر اُدھر چکر لگا رہے ہیں۔‘‘ اتنے میں رشیدہ بھی باہر نکل آئیں اور ہم دونوں اپنی صفائی اور معذرت پیش کرنے لگے۔ معلوم ہواکہ ہمیں ٹرین کے وقت کی غلط اطلاع تھی۔ اس کے آنے کا وقت ایک گھنٹے پہلے کا تھا۔ پہلی اپریل سے وقت بدل گیا تھا۔ لیکن اب اُلٹے پریم چند جی نے معذرت شروع کر دی… ’’ہاں، مجھے چاہیے تھا کہ چلنے سے پہلے تار دے دیتا۔ لیکن میں نے سوچا کہ کیا ضرورت ہے۔ اگر اسٹیشن پر کوئی نہ بھی ملا تو تانگہ کرکے سیدھا تمھارے یہاں چلا آئوںگا۔‘‘ میں دل میں سوچ رہا تھا کہ عام طور سے کانفرنسوں کے صدر کا شاندار استقبال کیا جاتا ہے۔ انھیں پلیٹ فارم پر ہار پہنائے جاتے ہیں، ان کے جلوس نکلتے ہیں۔ ان کی جئے جئے کار ہوتی ہے… اور ہمارا صدر ہے کہ خود اپنی جیب سے ریل کا ٹکٹ خرید کر چپکے سے آگیا۔ اسٹیشن پر استقبال تو کیا، راہ بتانے کے لیے بھی کوئی اسے نہیں ملا۔ ایک معمولی سے تانگے پر بیٹھ کر وہ خود ہی بے تکلفی سے کانفرنس کے منتظمین کے گھر پر چلا آیا۔ ان کی کوتاہی کا شکوہ شکایت تو درکنار، اس کے ماتھے پر بل بھی نہیں پڑا، اور ان سے یوں گھل مل گیا جس سے معلوم ہوتا تھا کہ رسمی باتوں پر وقت ضائع کرنا اس کے نزدیک بالکل غیرضروری ہے۔ یقینی ہماری تحریک ایک نئی قسم کی تحریک تھی اور اس کا صدر نئے قسم کا صدر تھا۔ اس کی شان، اس کی انکساری اور سادگی سے ظاہر ہوتی تھی۔ منشی جی ہمارے یہاں ہی ٹھہرے۔ ان کے ساتھ جو صاحب تھے ان سے ہم پہلے سے ناواقف تھے۔ یہ ہندی کے مشہور افسانہ اور ناول نگار، دہلی کے بابو جینندر کمار تھے۔ منشی پریم چند نے ہمارا ان سے تعارف کرایا۔ وہ بھی ہمارے مہمان ہوئے۔ ہمیں اس کی خوشی ہوئی کہ منشی جی ہندی کے ایک ادیب کو، جو اُن کے دوست تھے، اپنے ساتھ لائے۔
اُس وقت تک ہندی کے بڑے ادیبوں میں سے (منشی پریم چند کے علاوہ) ہماری تحریک میں کوئی شامل نہیں ہوا تھا۔ بابو میتھلی شرن گپت، پنڈت بنارسی داس چترویدی، سمترانند پنت،سبھدرا کماری چوہان، پنڈت بال کرشن شرما، نوین وغیرہ نے ہماری تحریک سے ہمدردی کا اظہار کیا تھا۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی کانفرنس میں شرکت کے لیے نہیں آرہا تھا۔ ہندی کے ادیبوں میں گروہ بندی بھی بڑی سخت تھی۔ بعض ان میں سے شاید ایسے بھی تھے جو اُردو کے ادیبوں کے ساتھ مل کر کچھ کرنا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ میں نے پریم چند جی سے ان کے رجحانات کا ذکر بھی کیا تھا۔ انھوں نے مجھے لکھا کہ ہندی کے بہت سے ادیب شاید احساس کمتری (Inferiority Complex) میں مبتلا ہیں۔ بہرحال ہمیں اپنی کوشش جاری رکھنی چاہیے۔ ان تمام باتوں کے مدنظر بابو جینندر کمار کا کانفرنس میں شرکت کے لیے تشریف لانا ہمارے لیے دُگنی خوشی کا باعث تھا۔ اس کے بعد جینندر کمار صاحب سے ملنے کا مجھے کئی بار اتفاق ہوا اور ان سے بڑی بڑی بحثیں اور گفتگوئیں ہوئیں۔ یقینی ان کی ہستی اپنی مثال آپ ہے۔ بحث کو اُلجھانے، آسمان کا سرا زمین سے ملانے،بیک وقت ترقی اور رجعت، مادیت اور الوہیت کی طرف داری کرنے میں ان کو ید طولیٰ حاصل ہے۔ ان کا اعتقاد بھگوت گیتا پر بھی ہے اور آسولڈ اشپنگلر کے فلسفہ انحطاط اور موت پر بھی، جمہوریت پر بھی اور فاشزم پر بھی۔ ان سے گھنٹوں بات کرنے پر بھی پتہ نہیں چلتا کہ موصوف کس چیز کے قائل ہیں اور کہنا کیا چاہتے ہیں۔ وہ ترقی پسندوں کی کانفرنسوں اور جلسوں میں باقاعدگی سے شریک بھی ہوتے ہیں۔ لیکن بہت سی باتوں میں ان کے مخالف بھی ہیں۔ بڑے مرنجاں مرنج آدمی ہیں۔ دوران گفتگو میں اگر کوئی عاجز آکر ان سے لڑنے پر آمادہ ہو جائے تو مسکراکر ٹال دیتے ہیں۔
کانفرنس شروع ہونے کے دن ہم نے اپنی فائلیں، کاغذات اور ٹائپ رائٹر سنبھالا اور صبح سے ہی رفاہِ عام کو چلے گئے۔ اب ہال کے بغل میں ایک چھوٹے سے دفتر میں کانفرنس کا دفتر قائم کیا گیا، اور محمود الظفر اس کے انچارج ہوئے۔ انھیں ٹائپ کرنا بھی آتا تھا۔ اس لیے رزولیوشن اور ہر ایک سیشن کا پروگرام وغیرہ ٹائپ کرنے کا کام بھی ان ہی کے ذمے پڑا۔ رشید جہاں اور ہاجرہ بیگم کے سپرد ہال کے دروازہ پر بیٹھنا، ٹکٹ فروخت کرنا اور لوگوں کو ان کی نشستوں تک پہنچانا تھا، اور عام دیکھ بھال کا کام بھی تھا۔ ان دونوں نے اپنی مدد کے لیے معلوم نہیں کیسے اور کہاں سے تین چار خوش خصال اور سبک گام خواتین کو اکٹھا کر لیا تھا۔
ان کے علاوہ ہال میں سجاوٹ مطلق نہیں تھی۔ ہال کے باہر اور اندر کے دروازوں پر سرخ تُول کی چوڑی چوڑی پٹیوں پر اُردو، ہندی اور انگریزی میں ’’کل ہند ترقی پسند مصنّفین کی پہلی کانفرنس‘‘ لکھ کر لٹکا دیا گیا تھا اور بس…! ڈائس بھی بے حد معمولی تھا۔ یہ کوئی ایک فٹ اونچے، چھ گز لمبے اور چار گز چوڑے کھرّے تختوں کا تھا، جس پر ایک معمولی لکڑی کی میز تھی۔ ڈائس پر چار کرسیاں تھیں جو ہتھے دار تھیں مگر ان کی وارنش اُڑ چکی تھی۔ ہال میں باقی جو کرسیاں تھیں، بغیر ہتھے کے تھیں۔ فرش پر دری وغیرہ کچھ نہیں تھی، ڈائس پر بھی دری نہیں تھی۔ اچھے فرنیچر اور سجاوٹ کا سامان حاصل کرنے کے لیے زیادہ روپے کی ضرورت تھی جو ہمارے پاس نہیں تھے۔ اس وقت تک ہم کو جو روپیہ ملا تھا، وہ زیادہ تر پریس کی نذر ہو گیا تھا۔ جو کرسیاں وغیرہ ہم نے کانفرنس کے لیے کرایہ پر لی تھیں، وہ اُدھار تھیں اور ہم یہ توقع کرتے تھے کہ ایک ایک روپیہ کے وزیٹروں کے دو سو ٹکٹ بیچ کر ہم ان کا کرایہ چکا دیں گے۔
کھلی کانفرنس صرف دو دن کے لیے ہونا قرار پائی تھی۔ دس بجے صبح سے ساڑھے بارہ بجے تک اور پھر دوپہر کو تین بجے سے ساڑھے پانچ بجے تک۔ درمیان کے وقفوں میں دوبارہ ڈیلی گیٹوں کی میٹنگ کرکے آئینی اور تنظیمی امور طے کرنے کا پروگرام تھا۔
نو، ساڑھے نو بجے کے قریب ایک ایک کرکے لوگ آنا شروع ہوئے۔ سب سے پہلے آنے والوں میں ہمارے صدر منشی پریم چند تھے، جو بے تکلفی کے ساتھ ہمارے پاس آکر اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے۔ ان کے چہرے سے آج جیسے خوشی اور اطمینان کے آثار نمایاں تھے، جس سے ہم سب کی بہت ڈھارس بندھی تھی۔ صدر استقبالیہ کمیٹی چودھری محمد علی صاحب آئے تو تھوڑی ہی دیر میں ان کی گفتگو اور منتظم خواتین کے قہقہے بلند ہونے لگے۔ ڈاکٹر عبدالعلیم (ان دنوں علی گڑھ یونیورسٹی میں عربی لیکچرار تھے) اپنے ساتھ سنجیدگی لے آئے۔ ڈاکٹر عبدالعلیم حالانکہ ہمارے ہم عمر تھے اور برلن یونیورسٹی کے پی۔ ایچ۔ ڈی، لیکن ان کی باقاعدہ کتری ہوئی تکونی داڑھی، کھدر کی مکلف ٹوپی اور شیروانی، گول چہرہ اور گورا رنگ، تول تول کر قدم رکھنا اور احتیاط سے بات کرنا ان میں ایک مولویانہ اور محتسبانہ انداز پیدا کر دیتا ہے۔ وہ غازی پور (مشرقی یو۔ پی) کے قاضیوں کے خاندان کے فرد ہیں، اور ان کی ذات میں شرعی تعلیم، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جرمن تربیت کا میل ہوا ہے۔ ان کے منطقی ذہن میں سیاسی اور ادبی ترقی پسندی نے اس طرح جگہ بنائی ہے کہ جیسے عربی مصادر کی گردانوں نے، اور ترقی پسندی کی صراط مستقیم سے لغزش یا انحراف کو وہ اس طرح پکڑتے ہیں جیسے پُرانے طرز کے مولوی گردان رٹاتے وقت اعراب کی غلطیوں کو، ان کی وسیع المشربی میں ایک دلکش سخت گیری ہے، اور ان کی آزاد خیالی اور جدید سائنسی فکر قومی روایات کے مضبوط اور چمکدار چوکھٹے سے گھری ہوئی معلوم ہوتی ہے۔
رفتہ رفتہ ہال بھرنے لگا۔مدراس، بنگال، گجرات، مہاراشٹر، پنجاب، سندھ، بہار اور یو۔ پی کے ڈیلی گیٹوں سے آگے کی دو صفیں بھر گئیں۔ان کے برابر پندرہ بیس رسپشن کمیٹی والے لوگ رہے ہوںگے، اور ہال کے دو تہائی حصے میں ایک روپیہ ٹکٹ والے وزیٹر رہے ہوںگے۔ طالب علم، دفتروں میں کام کرنے والے دبلے پتلے، کسی قدر جھینپے اور شرمائے ہوئے ادب کے شوقین، مدرس، ٹیچر، نوجوان وکیل، کمیونسٹ اور سوشلسٹ پارٹی کے چند ادب سے شوق رکھنے والے کارکن، ٹریڈ یونینوں کے کارکن، چند کسانوں میں کام کرنے والے کارکن جو ہندستان کے مختلف حصوں سے اس وقت لکھنؤ میں جمع ہوئے تھے، اور جنھیں نئے ترقی پسند قومی اور سماجی آزادی کے ادب سے دلچسپی تھی…
یہ تھے ہمارے ملک کے نئے قومی اور معاشرتی احساس اور شعور رکھنے والے دانشوروں کے نمائندے۔ ہال میں گہماگہمی اور شور و غل نہیں تھا۔ لوگوں کے بولنے کی آوازیں دھیمی تھیں، اور سکون کچھ ضرورت سے زیادہ ہی تھا۔ اس مجمع میں جوش بالکل معلوم نہیں ہوتا تھا۔ کوئی ساڑھے دس بجے کے قریب جب ہال تقریباً دو تہائی بھر گیا تو ہم نے کانفرنس کی کارروائی شروع کرنے کا ارادہ کیا۔ ا تنے میں باہر ایک تانگہ آکر رُکا۔ اس میں سے ایک چھوٹے قد کے بزرگ اُچھل کر اُترے۔ ہم نے دیکھا تو یہ مولانا حسرت موہانی تھے۔ منشی پریم چند، ڈاکٹر عبدالعلیم اور میں، جو پاس ہی کھڑے تھے اور مولانا کو پہلے سے جانتے تھے، ان کے استقبال کے لیے بڑھے۔ ہمیں بڑی خوشی تھی کہ مولانا نے صرف ایک دعوت نامہ پاکر ہماری کانفرنس میں شرکت کے لیے کانپور سے لکھنؤ آنے کی زحمت گوارا فرمائی۔ انھوں نے اپنے آنے کے بارے میں ہم کو پہلے سے اطلاع نہیں کی تھی۔ اس لیے ہمیں ان کے آنے کی کوئی خاص توقع بھی نہیں تھی۔ عام دستور تو یہ ہے کہ شاعروں کو جب مدعو کیا جاتا ہے تو پہلے وہ اپنی معذوری کا اظہار کرتے ہیں۔ پھر لوگ ان سے جاکر ملتے ہیں اور شرکت کے لیے اصرار کرتے ہیں۔ سیکنڈ کلاس کا آنے جانے کا کرایہ اور اس کے علاوہ زاد سفر دیا جاتا ہے، اسٹیشن پر استقبال کیا جاتا ہے، ضیافتیں اور مہمانداریاں ہوتی ہیں اور پھر جائے قیام سے موٹر پر بیٹھاکر شاعر کو محفل میں لایا جاتا ہے۔ یہ دستور ایسا بُرا بھی نہیں، کیونکہ ان موقعوں کے علاوہ شاعر اور ادیب کا کوئی پُرسانِ حال نہیں ہوتا اور عام طور سے اس کی اور اس کے بال بچوں کی زندگی تنگدستی اور فاقہ کشی کی ہوتی ہے، اور اگر ایسا ہے تو عام لوگوں کا کیا قصور؟ خود عام لوگوں کی زندگی بھی تو ایسے ہی بسر ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں اگر کوئی ایسی ہستی تھی، جسے ہر قسم کے تکلف، بناوٹ، مصنوعی اور رسمی آداب سے شدید نفرت تھی، اور جو اس بات کی پروا کیے بغیر کہ لوگ اس کی بات کا بُرا مانیں گے یا ناراض ہو جائیںگے، سچی بات کہنے اور اس کے مطابق عمل کرنے سے کبھی نہیں جھجکتی تھی، وہ حسرت موہانی کی ہستی تھی۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ جو بات کہتے تھے وہ ہمیشہ ٹھیک ہی ہوتی تھی۔ لیکن جب سیاست یا ثقافتی اور معاشرتی امور میں وہ کوئی پوزیشن اختیار کرتے تھے تو اس کی سختی اور سچائی پر انھیں پورا اعتماد ہوتا تھا اور پھر دنیا اِدھر کی اُدھر ہو جائے، اس کی وجہ سے ان پر مصائب اور آلام کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں، وہ اپنی جگہ پر اٹل رہتے تھے۔ مولانا کا قد چھوٹا تھا اور وہ جی بھرکے بدصورت تھے۔ جسم گدبدا تھا جس پر وہ ایک کافی لمبی میلی سی ملی جلی گہرے سلیٹی رنگ کی کھدر کی شیروانی پہنتے تھے۔ ان کی تصویریں سب نے دیکھی ہیں اور ان کی صورت سے سب آشنا ہیں۔ چیچک رو، ڈھلتا ہوا رنگ اور سارا چہرہ ایک بڑی گھنی گول سی داڑھی سے ڈھکا ہوا تھا جو شاید چھ انچ سے بھی کچھ لمبی ہی تھی، اور جس کے بال کھچڑی تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس داڑھی کو نہ وہ کبھی کترتے تھے اور نہ اس میں کنگھی کرتے تھے، اس لیے کہ وہ چاروں طرف اُڑتی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ سر پر وہ ہمیشہ بڑے شوخ سرخ رنگ کی چھوٹی سی فلیٹ کی ترکی ٹوپی پہنتے تھے جس میں پھندنا نہیں ہوتا تھا۔ آنکھوں پر عینک لگاتے تھے جس کا فریم لوہے کا تھا اور جس کے شیشے پرانی وضع کے چھوٹے چھوٹے اور بیضاوی تھے۔ لیکن ان کے پیچھے سے بھی ان کی چھوٹی چھوٹی آنکھوں کی چمک اور پُھرتیلا پن جھلکتا رہتا تھا۔ ان کے انداز گفتگو میں شوخی اور لطافت تھی۔ وہ تیزی سے مسکراکر بات کرتے تھے۔ اس عمر اور بزرگی کے باوجود ان کے جسم میں ایک چلبلاہٹ اور پھرتی سی تھی۔ ان کی آواز پتلی تھی اور جب وہ جوش میں آکر بڑے انہماک سے بولتے تھے، جیسا کہ اکثر ہوتا تھا، تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کسی بچے کی ٹوٹی ہوئی سیٹی ہو، جسے زور دے کر پھونکا جا رہا ہے لیکن جو پھر بھی مشکل ہی سے بجتی ہے۔ ہم نے مولانا کو سیدھے لے جاکر ڈائس پر بٹھا دیا۔ درمیان میں منشی پریم چند تھے۔ ان کے دا ہنی طرف مولانا بیٹھے تھے اور ان کے برابر میں چودھری محمد علی۔ میں منشی جی کی بائیں طرف نیچے تخت پر کنارے کی طرف بیٹھا تھا، تاکہ پروگرام اور کاغذات وغیرہ انھیں وقتاً فوقتاً دے سکوں۔ چودھری صاحب کے استقبالیہ خطبہ سے کانفرنس کا آغاز ہوا۔ انھوں نے یہ خطبہ لکھ لیا تھا۔ افسوس ہے کہ وہ اب ہمارے پاس نہیں ہے۔ نہیں تو اس سے معلوم ہوتا کہ کس طرح ہماری (خاص طور سے لکھنؤ کی) قدیم تہذیب اور ادب کے ایک رسیا نے جدید ترقی پسند ادب کی تحریک کا خیر مقدم کیا تھا۔
چودھری صاحب کے خطبے کے بعد منشی پریم چند متفقہ طور سے کانفرنس کے صدر چنے گئے اور انھوں نے اپنا صدارتی خطبہ پڑھنا شروع کیا۔ یہ سلیس اُردو میں لکھا تھا لیکن ظاہر ہے کہ اس مجمع میں غیرہندستانی بولنے والے علاقوں کے جتنے بھی ڈیلی گیٹ اور وزیٹر تھے (جن کی تعداد آدھی سے کچھ ہی کم تھی)، ان کی سمجھ میں وہ بالکل نہیں آرہا تھا۔ وہ لوگ تو خاموش تھے ہی، لیکن ہم اُردو ہندی والے بھی جو اس خطبہ کو خاموشی سے سن رہے تھے، بالکل خاموش تھے۔ بلکہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک طرح کی محویت سی مجمع پر طاری ہو گئی ہے۔ کسی جلسے میں زبانی تقریر کے بجائے اگر کوئی چیز لکھ کر پڑھی جائے تو تھوڑی ہی دیر میں جی اُکتانے لگتا ہے۔ لیکن اس خطبہ میں ہماری زبان اور ہمارے ملک میں پہلی مرتبہ ایک بڑے ادیب نے ہمیں ترقی پسند ادبی تحریک کی نوعیت اور مقاصد سے آگاہ کیا تھا۔ اس خطبے میں ہماری زبان کے افسانہ نگار اور ناول نگار نے ہمیں سیدھے سادے اور پُراثر الفاظ میں بتایا کہ اچھے ادب کی بنیاد، سچائی، حسن، آزادی اور انسان دوستی پر ہی قائم ہو سکتی ہے۔ ’’جس ادب سے ہمارا ذوق صحیح بیدار نہ ہو، روحانی اور ذہنی تسکین نہ ملے، ہم میں قوت اور حرارت نہ پیدا ہو، ہمارا جذبۂ حسن نہ جاگے، جو ہم میں سچا ارادہ اور مشکلات پر فتح پانے کے لیے سچا استقلال نہ پیدا کرے، وہ آج ہمارے لیے بیکار ہے۔ اس پر ادب کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔‘‘ انھوں نے ادیبوں کو یاد دلایا کہ ان کی عدالت سوسائٹی ہے اور اس عدالت کے سامنے ان کی جواب دہی ہوگی، اور عوام کی اس عدالت میں ان کا استغاثہ اسی صورت میں کامیاب ہوگا اگر وہ انسانیت، شرافت، انصاف اور حق کی بے لاگ تلقین کریں گے۔ پریم چند نے کہا کہ ایک آرٹسٹ میں ’’صحیح ذوقِ حسن اور محبت کی گرمی‘‘ ہونا ضروری ہے، اور وہ فطرت اور انسانی سماج میں توازن اور ہم آہنگی کی جستجو کرتا ہے۔ ’’ادب آرٹسٹ کے روحانی توازن کی ظاہری صورت ہے اور ہم آہنگی جس کی تخلیق کرتی ہے، تخریب نہیں۔ وہ ہم میں وفا اور خلوص اور ہمدردی اور انصاف اور مساوات کے جذبات کی نشونما کرتی ہے۔ جہاں یہ جذبات ہیں وہیں استحکام ہے، زندگی ہے۔ جہاں ان کا فقدان ہے وہاں افتراق، خودپروری ہے، نفرت اور دشمنی اور موت ہے… ادب ہماری زندگی کو فطری اور آزاد بناتا ہے… اس کی بدولت نفس کی تہذیب ہوتی ہے۔ یہ اس کا مقصد اولیٰ ہے۔‘‘ آگے چل کر پریم چند نے اس کو صاف کر دیا کہ جب وہ ادب میں حسن اور محبت کی جستجو کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد کیا ہے۔ ان کے نزدیک یہ حسن اور محبت محض ایک ذاتی اور انفرادی شے نہیں ہے۔ وہ اس مبہم خود پرستی کے نظریے ’’فن برائے فن‘‘ کی تلقین نہیں کر رہے تھے بلکہ ایک اچھے فنکار کی خصوصیت ہی ان کے نزدیک یہ تھی کہ اپنے اِرد گرد جہاں بھی وہ دیکھے کہ ’’ایک جماعت معاشرت و رسوم کی قیود میں پڑ کر اذیت پا رہی ہے‘‘، اسے برداشت نہ کرے اور اس جماعت کو غلامی اور عسرت سے نجات دلانے کے اسباب مہیا کرے اور اس کی آزادی کے لیے بے چین ہو… ’’وہ اس درد کو جتنی بے تابی کے ساتھ محسوس کرتا ہے، اتنا ہی اس کے کلام میں زور اور خلوص پیدا ہوتا ہے۔ وہ اپنے احساسات کو جس تناسب کے ساتھ ادا کرتا ہے، وہی اس کے کمال کا راز ہے۔‘‘ پریم چند نے مزید وضاحت کرتے ہوئے بڑی خوبصورتی کے ساتھ یہ بات سمجھائی کہ حسن یا روحانی مسرت کوئی مطلق اور مادی زندگی سے بے تعلق چیز نہیں، بلکہ اس کا انسانوں کی زندگی سے تعلق ہے اور اس کا ہمیشہ ایک افادی پہلو ہوتا ہے… ’’ایک ہی چیز سے ہمیں افادیت کے اعتبار سے مسرت بھی ہے اور غم بھی۔ آسمان پر چھائی ہوئی شفق بے شک ایک خوش نما نظارہ ہے۔ لیکن کہیں اساڑھ میں اگر آسمان پر شفق چھا جائے تو وہ ہمارے لیے خوشی کا باعث نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ وہ اکال کی خبر دیتی ہے۔ اس وقت تو ہم آسمان پر کالی کالی گھٹائیں دیکھ کر ہی مسرور ہوتے ہیں۔‘‘ اسی طرح چند امیروں اور رئیسوں کی مسرت اور خوشی دوستوں کے لیے رنج کا سبب ہو سکتی ہے۔ لیکن ایک سمجھدار اور باخبر انسان ’’اس امارت کے لوازمے کو مکروہ ترین چیز سمجھتا ہے جو غریبوں اور مزدوروں کے خون سے داغدار رہی ہو۔‘‘ انھوں نے کہا کہ انسانیت کے بہترین مذہبی، اخلاقی اور روحانی پیشوائوں نے انسانیت کے سامنے ہمیشہ اخوت، مساوات، تہذیب کا آدرش پیش کیا اور اپنے اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کی کوشش کی۔ لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ انسانی آزادی، اخوت، مساوات کا یہ زریں خواب اسی صورت میں حقیقت میںبدل سکتا ہے، اور اس آئیڈیل کی تکمیل تب ہی ہو سکتی ہے، جب ہم ترقی کی قوتوں کا ساتھ دیں۔ ’’ہمیں ترقی کے میدان میں قدم رکھنا ہے۔ ایک نئے نظام کی تکمیل کرنی ہے جہاں مساوات محض اخلاقی بندشوں پر نہ رہ کر قوانین کی صورت اختیار کرے اور ہمارے لٹریچر کو اسی آئیڈیل کو پیش کرنا ہے۔‘‘ پریم چند کی زبان سے سیاسی اور سماجی عوامی انقلاب کی ان لفظوں میں حمایت اور تلقین ثابت کرتی تھی کہ اب وہ عینیت پرستی اور اصلاح پسندی کے دائرہ سے نکل گئے ہیں۔ ان کی انسان دوستی اور گاندھیائی سیاست کے ناکام تجربے نے انھیں اس حقیقت تک پہنچا دیا تھا کہ جو لوگ صرف بڑے بڑے مذہبی اور اخلاقی اصولوں کی تبلیغ کرکے انسان کی مادی اور روحانی مشکلات کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں، وہ کامیاب نہیں ہو سکتے۔ موجودہ زمانے میں انصاف اور اخلاق اور انسانیت کی تعمیر اسی صورت میں ممکن ہے جب کہ ایک ایسا نیا معاشی اور سیاسی نظام قائم کیا جائے، جس میں انسانوں کی لوٹ انسانوں کے ذریعہ ممکن ہی نہ ہو سکے۔ انھوں نے ادیبوں سے کہا کہ عوام کی زندگی اور ان کی کشمکشِ حیات میں ’’حسن کی معراج‘‘ دیکھنے کی کوشش کریں اور یہ نہ سمجھیں کہ حسن صرف رنگے ہونٹوں والی، معطر عورتوں کے رخساروں اور ابروئوں میں ہے۔‘‘ انھوں نے ادیبوں سے کہا کہ… ’’اگر تمھیں اس غریب عورت میں حسن نظر نہیں آتا جو بچے کو کھیت کی مینڈھ پر سُلائے پسینہ بہا رہی ہے، تو یہ تمھاری تنگ نظری کا قصور ہے۔ اس لیے کہ ان مرجھائے ہوئے ہونٹوں اور کمھلائے ہوئے رخساروں کی آڑ میں ایثار، عقیدت اور مشکل پسندی ہے۔ شباب، سینے پر ہاتھ دھر کر شعر پڑھنے اور صنف نازک کی کج ادائیوں کے شکوے کرنے یا اس کی خود پسندیوں اور چونچلوں پر سر دھننے کا نام نہیں۔ شباب نام ہے آئیڈیل کا، ہمت کا، مشکل پسندی کا، قربانی کا۔‘‘ انھوں نے کہا کہ… ’’جب ادیبوں میں اس طرح کی نئی ’’نگاہِ حسن‘‘ پیدا ہوگی تب ’’ہم اس معاشرت کی جڑیں کھودنے کے لیے سینہ سپر سوار ہو جائیںگے اوراسے برداشت نہ کریںگے جہاںہزاروں انسان ایک جابر کی غلامی کریں۔ تب ہماری خوددار انسانیت اس سرمایہ داری، عسکریت اور ملوکیت کے خلاف علم بغاوت بلند کرے گی، اور ہم صفحۂ کاغذ پر تخلیق کرکے خاموش نہ ہو جائیںگے بلکہ اس نظام کی تخلیق کریں گے جو حسن اور مذاق اور خودداری اور انسانیت کے منافی نہیں ہے۔‘‘
آخر میں پریم چند نے ترقی پسند مصنّفین کی انجمن کی شاخوں کو جگہ جگہ قائم کرنے کے لیے کہا۔ ’’جہاں ادب کے تعمیری رجحانات کے باقاعدہ چرچے ہوں، مضامین پڑھے جائیں، مباحثے ہوں، تنقیدیں ہوں، جبھی ایسی فضا پیدا ہوگی جس میں مطلوبہ ادب پیدا ہوسکے اور اس کی نشونما ہو سکے۔‘‘ زبان کے مسئلہ پر انھوں نے کہا کہ ’’آئیڈیل کی وسعت کے ساتھ زبان خود بخود سلیس ہو جاتی ہے… جو ادیب امرا کا ہے وہ امرا کا طرز بیان اختیار کرتا ہے جو عوام الناس کا ہے وہ عوام کی زبان لکھتا ہے۔‘‘ اور اس یادگار جملے پر اپنے خطبے کو ختم کیا… ’’ہماری کسوٹی پر وہ ادب کھرا اُترے گا جس میں تفکر ہو، آزادی کا جذبہ ہو، حسن کا جوہر ہو، تعمیر کی روح ہو، زندگی کی حقیقتوں کی روشنی ہو، جو ہم میں حرکت، ہنگامہ اور بے چینی پیدا کرے… سُلائے نہیں… کیوںکہ اب زیادہ سونا موت کی علامت ہوگی۔‘‘
اس خطبے کو پڑھنے میں (جو بعد کو چھپا تو پندرہ صفحہ کا تھا) کوئی چالیس پینتالیس منٹ کے قریب لگے۔ میرا اب بھی خیال ہے کہ ہمارے ملک میں ترقی پسند ادبی تحریک کی غرض وغایت کے متعلق شاید اس سے بہتر کوئی چیز ابھی تک نہیں لکھی گئی ہے۔ ہم پریم چند کے افسانے اور ناول سے تو واقف تھے لیکن اُردو میں ان کا کوئی ادبی مضمون کبھی نہیں پڑھا تھا۔ انھوں نے ایسی چیزیں شاذ و نادر ہی لکھی ہیں۔ چونکہ یہ ہماری زبان کے عظیم ترین حقیقت پسند افسانہ نگار کے پُرخلوص خیالات کا اظہار تھا، اس لیے اس کی اہمیت اور بھی زیادہ ہے۔ ہم نے محسوس کیا کہ دراصل ہمارے نئے حقیقت پسند اور عوامی زندگی کے آئینہ دار ادب کا وہ کارواں، جس کی رہنمائی بیس سال سے خود پریم چند اپنی نگارشات سے کر رہے تھے، اب نئی اور زیادہ صاف اور اونچی سطح پر بڑھنے کے لیے تیار ہے۔ ہم نوجوان ترقی پسندوں کا نقطۂ نظر اس وقت شاید صاف اور واضح نہیں تھا اور ہم اپنے جوش اور غصے میں کبھی بائیں طرف کو جھک جاتے، تو کبھی احتیاط اور مصلحت کا تقاضہ سمجھ کر دائیں طرف لڑھک پڑتے۔ لیکن اس موقع پر ہمارے صدر پریم چند کی روش میں کوئی ہیر پھیر اور ان کی فکر میں کوئی اُلجھائو معلوم نہیں ہوتا تھا۔ اس کا سبب ظاہر ہے۔ پریم چند ایک محنتی، محب وطن اور بے لاگ ادیب تھے، جو اپنے فن کو بہتر بنانے اور اپنے تجربے اور علم میں اضافہ کرنے کی فکر میں ہمیشہ لگے رہتے تھے۔ ہم نوجوانوں میں سے اکثر اپنے نظریاتی فلسفے اور تعلیم کی بنا پر ترقی پسندی کے راستے پر ابھی آکر کھڑے ہوئے تھے۔ پریم چند زندگی کی مشکل کشمکش اور فنی تخلیق کی کاوش، یعنی عمل اور تجربہ کی بنیاد پر وہاں پہنچے تھے۔ اسی وجہ سے ان کے افکار میں توازن، تاریخی تسلسل، جامعیت اور بردباری تھی۔ ان کی بات سچی معلوم ہوتی تھی، وہ سمجھ میں آتی تھی، اسی وجہ سے اس کا دل پر اثر ہوتا تھا۔
منشی پریم چند کے صدارتی خطبے کے بعد میں نے انجمن کی اس وقت تک کی تنظیمی صورت حال کے متعلق ایک مختصر سی رپورٹ پڑھ کر سنائی۔ یہ رپورٹ انگریزی میں لکھی گئی تھی۔ یہ ناگزیر حقیقت ہمارے سامنے تھی کہ اس وقت تک کسی بھی کل ہند کانفرنس میں انگریزی زبان ہی ایک ایسی زبان تھی جو ہر صوبے کے پڑھے لکھے لوگوں کے درمیان اس ملک کی کسی بھی زبان سے زیادہ مشترک تھی۔ ہماری حب الوطنی کو اس سے کراہت ضرور ہوتی تھی، لیکن اس تاریخی حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یہی نہیں کہ ایک دوسرے کے مفہوم کو سمجھنے کے لیے مختلف صوبوں کے پڑھے لکھے لوگ انگریزی استعمال کرنے پر مجبور تھے، بلکہ اکثر ایسا بھی ہوتا تھا کہ اپنے ہی ملک کی دوسری زبانوں کے ادب سے واقفیت ہم کو انگریزی کے ذریعہ سے ہی ہوتی تھی۔ مثلاً انگریزی جاننے والے اُردوداں لوگوں نے رابندرناتھ ٹیگور کی تصنیفات بیشتر انگریزی کے ترجموں میں ہی پڑھی ہیں، اور ہماری اپنی زبانوں میں ہمارے ملک کی مختلف زبانوں کے ادب کے ترجمے انگریزی کے مقابلے میں بہت کم ہوتے ہیں۔
کانفرنس کا پہلا سیشن خاتمہ کے قریب رہا ہوگا کہ ساغر نظامی، اُفتاں و خیزاں وارد ہوئے۔ ہمیں اس کی پہلے سے اطلاع تھی کہ وہ کانفرنس میں شرکت کے لیے آرہے ہیں اور ان کے ابھی تک نہ آنے کے سبب سے ہمیں فکر لاحق تھی۔ ساغر نظامی اُردو کے ان ممتاز شعرا میں ہیں، جن کی شاعری میں حب وطن کی پرجوش آوازیں گونجتی ہیں۔ جیسے ان کے شعر سنانے کے دلکش انداز ہیں، اسی طرح ان کے کلام میں ایک جاذب ترنم اور نغمگی ہوتی ہے، اور ان کی غنائیہ نظموں کے گلزار میں بھی جدید ہندستان کی آزادی کی ہوائیں چلتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ ان کی ادارت میں شائع ہونے والا رسالہ ’ایشیا‘ اس وقت اُردو کے بہترین، روشن خیال اور دیدہ زیب رسالوں میں سے تھا۔ ہماری تحریک سے ان کا ارتباط ہم سب کے لیے اطمینان اور خوشی کا باعث تھا۔
ساغر نظامی چونکہ میرٹھ سے آنے والے تھے، اس لیے ہم نے سوچا شاید ٹرین لیٹ ہو گئی ہو۔ لیکن مولانا نیاز فتح پوری بھی ابھی تک تشریف نہ لائے تھے۔ وہ تو لکھنؤ میں ہی تھے۔ انھوں نے ہمارے اعلان نامہ پر دستخط بھی کیے تھے اور کانفرنس میں مدعو کیے جانے پر شرکت کا وعدہ بھی کیا تھا۔ آخر وہ کیوں نہیں آئے؟ مہینہ ڈیڑھ مہینہ پہلے ’نگار‘ کے معزز مدیر کے پاس ڈاکٹر علیم کے ساتھ میں خود گیا تھا اور ترقی پسند تحریک کے متعلق گفتگو کی تھی۔ مولانا نیاز فتح پوری سے یہ میری پہلی ملاقات تھی، اور اس عہد کے اکثر اُردوداں نوجوانوں کی طرح میں بھی اپنے کو ان کی نثر نگاری کے نیازمندوں میں شمار کرتا تھا۔ علاوہ بریں، مولانا نیاز نے ایک محدود طریقے سے ہی سہی، لیکن کافی شد و مد کے ساتھ مسلمانوں میں مروجہ مذہبی عقائد کی تنگ نظری کے خلاف کئی ملّائوں سے لڑائیاں لڑی تھیں۔ ان کی ادبی تحریروں میں رومانیت زیادہ مسرت انگیز اور بھرپور زندگی کی طرف اشارہ کرتی تھی۔ حالانکہ غیر حقیقی عناصر سے ملمع آرائی اور اس کے تصنع سے ذہن اور روح کو پوری طرح سے تسکین نہیں ہوتی تھی۔
بہرصورت مولانا نیاز کی ذات اس وقت تک ایک پورے ادارے کی شکل اختیار کر گئی تھی اور اُردو ادب میں ان کی ایک خاص جگہ تھی۔ ہماری تحریک کے ساتھ ان کی ہمدردی قابل قدر تھی۔ ساغر صاحب نے ہمیں بتایا کہ ان کو کانفرنس میں آنے میں دیر اس وجہ سے ہوئی کہ وہ صبح سے نیاز فتح پوری صاحب کے یہاں بیٹھے تھے، اور مولانا نیاز فتح پوری اس کے منتظر تھے کہ کانفرنس کے منتظمین میں سے کوئی ان کے لیے سواری لے کر ان کے مکان پر پہنچے، تب وہ تشریف لے چلیں۔ گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے انتظار کے بعد ساغر تو تانگہ پر بیٹھ کر خود ہی کانفرنس تک آگئے، لیکن مولانا نیاز اس لیے تشریف نہیں لائے کہ کوئی انھیں لانے کے لیے نہیں گیا۔ وہ ہم سے روٹھ گئے تھے۔ ساغر صاحب نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ مولانا نے کانفرنس میں پڑھنے کے لیے ایک مقالہ بھی سپرد قلم فرمایا تھا، اس وجہ سے وہ ہم سے اور بھی زیادہ ناخوش تھے۔ ان باتوں کو سن کر ہمیں اپنی کوتاہی پر شرمندگی ہوئی اور اپنی محرومی کا رنج۔ لیکن ہم یہ سوچنے پر مجبور تھے کہ ہماری کانفرنس میں شریک ہونے والے دو ممتاز ادیب پریم چند اور حسرت موہانی بالکل دوسری طرح سے ہماری کانفرنس میں آکر شریک ہوئے تھے اور ان کے علاوہ بہت سے اور نوجوان ادیب ملک کے دور دراز علاقوں سے کرایہ کا خرچ قرض لے کر، تیسرے یا ڈیوڑھے درجہ میں سفر کرکے لکھنؤ تک پہنچے تھے اور تکلیف دہ جگہوں پر ٹھہرے تھے۔ پنجاب کی انجمن کے نمائندے فیض احمد فیض نے رشیدہ کو چپکے سے بتایا کہ ان کے پاس بس لکھنؤ آنے جانے بھر کا کرایہ تو تھا لیکن اب سگریٹ یا تانگہ کے کرائے تک کے لیے جیب میں ایک پیسہ بھی نہیں ہے۔ یقینی ان لوگوں اور مولانا نیاز میں نمایاں فرق تھا، جو اپنے لکھنؤ کے مکان سے جو رفاہِ عام سے کوئی میل بھر کے فاصلے پر تھا، کانفرنس کے ہال تک سواری نہ پہنچنے کی وجہ سے نہیں آسکے تھے۔ ظاہر ہے کہ مولانا کا مزاج نئی ترقی پسند تحریک کے مزاج سے پوری طرح ہم آہنگ نہ تھا۔
بعد کے اجلاسوں میں جن لوگوں نے مقالے پڑھے، ان میں احمد علی، محمودالظفر، فراق تھے۔ بنگال کی انجمن کے سکریٹری نے جدید بنگالی ادب کے رجحانات اور بنگالی میں انجمن کی تنظیم پر لکھی ہوئی ایک اچھی رپورٹ پیش کی۔ گجرات، مہاراشٹراور صوبہ مدراس کی زبانوں کے نمائندوں نے زبانی تقریریں کیں۔ یہ سب مقالے اور تقریریں انگریزی زبان میں تھیں۔ ساغر نظامی نے حب الوطنی اور آزادی کے موضوع پر اپنی کئی نظمیں سنائیں۔ احمد علی نے ترقی پسند ادب پر جو مقالہ لکھا تھا، اس میں نئی ادبی تحریک کے مقاصد اور اصول بتائے گئے تھے۔ اس کی ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ اس میں ادبی تنقید کے بعض فلسفیانہ نکات ریاضی کے فارمولوں کے ذریعہ سے سمجھائے گئے تھے جو معمولی سمجھ اور تعلیم رکھنے والے لوگوں کی فہم سے باہر تھے۔ اقبال اور ٹیگور کا ضمنی تذکرہ تھا اور انھیں رجعت پرست قرار دیا گیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ احمد علی کے مقالے کی اکثر خامیاں ان کی ذاتی کجرویاں نہ تھیں، بلکہ ہم میں سے اکثر کی تنقیدی کم نظری کا اظہار کرتی تھیں۔ ضرورت اس کی تھی کہ ہم احمد علی کے مقالے پر اچھی طرح بحث کرتے، ان کی خوبیوں کو سراہتے اور خامیوں پر نکتہ چینی نہ کرتے۔ لیکن ہم میں سے کئی، جو اِن خامیوں کو کسی قدر محسوس بھی کرتے تھے، ہنس کر چپ ہو گئے، اور ہم نے ایسا نہیں کیا۔
مشکل یہ تھی کہ احمد علی تنقید برداشت نہیں کر سکتے تھے اور اگر کوئی ان پر اعتراض کر ے تو وہ یہ سمجھتے تھے کہ وہ شخص ایسا حسد کی وجہ سے کر رہا ہے اور اس کا مقصد ان کی ادبی حیثیت کو گراکر انھیں بدنام کرنا ہے۔ اس ڈر سے احمد علی کے دوست بھی ان پر تنقید کرنے سے جھجکتے تھے۔ لیکن یہ ہماری بہت بڑی غلطی تھی۔ غالباً اسی کا نتیجہ ہے کہ احمد علی رفتہ رفتہ خود پرستی کے خول میں گھس کر ادبی دنیا سے غائب ہو گئے اور ان کی معتدبہ ادبی صلاحیتیں اتنا ترقی نہیں کر سکیں جتنا کہ ممکن تھا۔
خود پرستی اور رجعت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اگر کسی کو ’’ہم چومن دیگرے نیست‘‘ کا زعم ہو جائے تو پھر اس کے لیے اللہ کی باقی مخلوق سے اُنس کرنا ذرا مشکل ہے، اور جب تک باقی انسانوں سے محبت اور اپنے علاوہ دوسروں کا بھی دُکھ درد محسوس کرنے اور اس کا مداوا ڈھونڈنے کی صلاحیت نہ ہوگی، ترقی پسندی کیسے ہو سکتی ہے؟
فراق کے مقالے میں ہمارے ملک کی اُنیسویں اور بیسویں صدی کی تہذیبی اور مذہبی تحریکوں پر روشنی ڈالی گئی تھی (برہمو سماج، آریہ سماج، وہابی اور سر سید احمد خاں کی تحریکیں)، اور ساتھ ہی ساتھ اس میں یہ بتایا گیا تھا کہ ہندستان کی مختلف زبانوں میں جدید ادب کا ارتقا بھی انھیں تحریکوں سے وابستہ تھا۔ آخر میں یہ کہا گیا تھا کہ ترقی پسند ادب کی نئی تحریک دراصل ہمارے ملک کے تہذیبی ارتقا کا منطقی نتیجہ ہے۔ یہ مقالہ بہت جلدی میں لکھا گیا تھا اور مکمل بھی نہ تھا۔ لیکن فراق بہت دلچسپ مقرر بھی ہیں۔ اس لیے انھوں نے صرف مقالہ پڑھا ہی نہیں بلکہ آخر میں ایک چھوٹی سی تقریر بھی کی۔ فراق کی شخصیت کے سلسلہ میں اس زمانہ میں جو بات عجیب معلوم ہوتی تھی، وہ یہ تھی کہ ان کی اپنی شاعری اور ان کے ترقی پسند نظریوں میں کوئی خاص تعین نہیں معلوم ہوتا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ جیسے ان کی شخصیت مختلف خانوں میں بٹی ہوئی ہے۔ اس وقت تک ان کی شاعرانہ فکر روایتی حدود کو توڑ نہیں سکی تھی۔ ان کا وہ مخصوص رنگ جس سے وہ محبت کی محرومیوں اور حسرت ناکیوں کو اندھیری رات کے جھلملاتے ہوئے تاروں کی طرح خوبصورت بناکر انسانی روح کو زیادہ دردمندی بخشتے ہیں، اور ان کا وہ دھیما لہجہ، جو درباری راگ کے سُروں کی طرح اپنی سنجیدہ غمناکی سے جیسے زندگی کے وقار کو بیدار کرتا ہے، ابھی تک نہیں ابھرا تھا۔ ان کی ذہانت اور آزاد منشی نے انھیں ذہنی طور پر ترقی پسند تو بنا دیا تھا اور وہ ہماری تحریک سے وابستہ بھی ہو گئے تھے، لیکن جہاں تک ان کے فن کا تعلق تھا، وہ قدیم اُردو شاعری کی ان روایات سے معنوی طور سے وابستہ تھا جنھیں بعد کو فراق خود بڑی حد تک ترک کرنے والے تھے۔ فراق کے فن پر فراق کی ذہنی تبدیلی کا اثر جیسے نہیں کے برابر تھا۔ ہمارے اور کئی فنکاروں کی طرح فراق، اس وقت اپنی دوہری شخصیت کے تضاد کو حل کرنے کی کوشش شروع کر رہے تھے اور ایک ایماندار اور اچھے فنکار کے لیے یہ مرحلہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔
یہاں صرف اتنی بات نہیں ہے کہ پُرانی ڈگر کو چھوڑکر نئی راہ اختیار کرلی جائے، یا رجعت پسندی کے لباس کو اُتار کر ترقی پسندی کا نیا جامہ زیب تن کر لیا جائے۔ ہمیں ماضی سے تہذیب، فن اور زبان کا ایک بیش قیمت ترکہ ورثے میں ملا ہے۔ اس میں ہم نے اپنی استعداد اور ضرورت کے مطابق دوسرے ملکوں اور قوموں کی تہذیب، علم اور فن کی آمیزش کی ہے۔ اگر ہماری موجودہ انفرادی اور اجتماعی حیات اس کی متقاضی ہے کہ مادی فلاح، ذہنی ترقی، اخلاقی اور روحانی عروج کے لیے ہم نئے اور انقلابی وسیلے اختراع اور اختیار کریں، تو عقل و ہوش اور تجربے کا یہ پیہم مطالبہ اور ناگزیر تقاضا ہے کہ تہذیب، علم اور اخلاق کی وہ سچی اقدار جو ہماری قدیم اور عظیم قوم کو ورثے میں ملی ہیں، ہماری نئی تہذیبی تعمیر کے ضمیر میں پیوست اور جذب ہوں۔ کوئی نئی عمارت جو دیر پا ہو، ہماری ضرورتوں کو اچھی طرح پوری کرتی ہو اور جس کا حسن ہمارے لیے انبساط اور روحانی تسکین کا باعث ہو، آسانی سے نہیں بنتی۔ اس لیے اگر ہمارا کوئی فنکار اس کام میں تفکر و تاخیر سے کام لیتا ہے، اگر اس کے بہت سے تجربے ناکام ہوتے ہیں، اگر وہ پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہے، اگر اسے ماضی کی ان تخیٔلی اور فنی روایتوں کو مسترد کرنے میں دیر لگتی ہے جو ہماری نئی سمجھ کے نزدیک مضر ہیں لیکن جن کی حسن کاری ابھی تک ہم کو متاثر کرتی ہے، تو ہمیں صبر سے کام لینا چاہیے۔ تہذیبی تجزیہ، تحلیل اور تعمیر بڑی عرق ریزی اور باریک بینی، پاکیزگیٔ نظر اور روحانی مجاہدہ کا کام ہے۔ ہم ادیبوں اور فنکاروں کی غلط نگاہی، ذہنی تساہل اور فکری جمود پر نکتہ چینی کر سکتے ہیں، ان کی معنوی سطحیت اور فنی ناپختگی پر انگلی رکھ سکتے ہیں، ان کی خودپرستی، بزدلی یا عوام سے غداری پر معترض ہو سکتے ہیں اور ایسی صورتوں میں ترقی پسند نقاد کا چپ رہ جانا ہی اپنے فرائض سے افسوس ناک کوتاہی ہے۔ لیکن اگر کسی فنکار میں انسانی درد اور آزادی خواہی کا جوہر موجود ہے تو پھر ہمارا سب سے بڑا مطالبہ اس سے یہی ہو سکتا ہے کہ وہ کاوش کرے اور زندگی کی سچائیوں کا بہتر اور زیادہ موثر طریقے سے اظہار کرے۔
مولانا حسرت موہانی مُصر تھے کہ انھیں پہلے ہی دن تقریر کا موقع دیا جائے۔ لیکن ہم کامیاب کانفرنس کرنے کے کچھ دائو پیچ تو آخر جان ہی گئے تھے۔ پہلے ہی دن ہم اپنے بزرگ ترین اور بہترین مقررین کو بلوا کر محفل کی رونق ختم کر دینا نہیں چاہتے تھے۔ اس لیے ان کی تقریر دوسرے دن شام کے اجلاس میں ہوئی۔ مولانا نے اپنی تقریر میں پہلے تو ترقی پسند مصنّفین کی تحریک کے اعلان نامے اور اس کے مقاصد سے پورے اتفاق کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے ادب کو قومی آزادی کی تحریک کی ترجمانی کرنی چاہیے، اسے سامراجیوں اور ظلم کرنے والے امیروں کی مخالفت کرنی چاہیے، اسے مزدوروں اور کسانوں اور تمام مظلوم انسانوں کی طرفداری اور حمایت کرنی چاہیے۔ اس میں عوام کے دکھ سکھ، ان کی بہترین خواہشوں اور تمنائوں کا اس طرح اظہار کرنا چاہیے جس سے ان کی انقلابی قوت میں اضافہ ہو اور وہ متحد اور منظم ہوکر اپنی انقلابی جدوجہد کو کامیاب بنا سکیں۔ مولانا اپنے خیالات کو چھپانے یا کسی مصلحت کی بنا پر اس پر پردہ ڈالنے کے قائل تو تھے ہی نہیں۔ انھوں نے کہا کہ محض ’ترقی پسندی‘ کافی نہیں ہے۔ جدید ادب کو سوشلزم اور کمیونزم کی بھی تلقین کرنی چاہیے۔ اسے انقلابی ہونا چاہیے۔ انھوں نے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اسلام اور کمیونزم میں قطعی کوئی تضاد نہیں ہے۔ ان کے نزدیک اسلام کا جمہوری نصب العین اس کا متقاضی ہے کہ ساری دنیا میں مسلمان، اشتراکی نظام قائم کرنے کی کوشش کریں۔ چونکہ موجودہ دور میں زندگی کی سب سے بڑی ضرورت یہی ہے۔ اس لیے ترقی پسند ادیبوں کو انھیں خیالات کی ترویج کرنا چاہیے۔ آخر میں مولانا نے خود اپنی شاعری کا ذکر کیا اور ہنستے ہوئے کچھ اس قسم کی بات کہی کہ … ’’آپ سوچتے ہوںگے… جب میں ادیبوں کے سامنے یہ نصب العین پیش کر رہا ہوں تو خود اس پر عمل کیوں نہیں کرتا۔ ظاہر ہے کہ میری شاعری میں اس قسم کی کوئی بات نہیں ہوتی۔ لیکن آپ کو اس طرف توجہ نہیں کرنی چاہیے… آپ کو زندگی کے زیادہ اہم اور سنجیدہ مسائل کی طرف توجہ کرنا چاہیے، اور میں اس کانفرنس میں شریک ہونے کے لیے خاص طور پر اسی لیے آیا ہوں کہ آپ کے ان مقاصد کی طرف داری اور حمایت کا اعلان کروں جو آپ کی تخلیق ہو۔ پُرانی باتوں سے کام نہیں چلے گا۔ وہ محض دل بہلانے کی چیزیں ہیں۔ شاعری کے معاملے میں آپ کو میری تقلید کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ میں خود اس قسم کے نئے ترقی پسند ادب کی تخلیق میں آپ کی پوری طرح مدد کروںگا…۔‘‘
مولانا حسرت موہانی کی تقریر سے ہمارا بہت دل بڑھا، اور مولانا اپنے قول کے پورے اترے۔ کانپور میں جب انجمن کی شاخ بنی تو مولانا حسرت اس کے صدر ہوئے۔ جب کبھی انجمن پر وہ حضرات حملہ کرتے تھے جن کے مکروہ رجعت پرست چہرے مذہب کی نقاب سے ڈھکے ہوتے تھے، تو مولانا حسرت موہانی تحریک کے لیے ہر وقت سینہ سپر ہو جاتے تھے اور انھیں منہ توڑ جواب دیتے تھے۔ لیکن مولانا سیاست کی طرح ادب میں بھی متحدہ محاذ کے تصور کے سخت متنفر تھے۔ ہمارے خیال میں ترقی پسند ادبی تحریک میں محض سوشلسٹ یا کمیونسٹ نہیں بلکہ مختلف عقائد کے لوگوں کے لیے جگہ تھی۔ انجمن ان سے وطنی آزادی اور جمہوریت میں یقین رکھنے کا مطالبہ کرتی تھی، اشتراکیت میں نہیں۔ مولانا اس معاملے میں انتہا پسند تھے۔ ان کے نزدیک ترقی پسند کے لیے اشتراکی ہونا ضروری تھا۔ ہمارے لیے یہ ضروری نہیں تھا۔
غنائیہ یا عاشقانہ شاعری کے متعلق، جسے مولانا فاسقانہ شاعری کہتے تھے، ہم میں سے اکثر کی رائے وہ نہیں تھی جو مولانا کی تھی۔ یہ صحیح تھا کہ جاگیری عہد کی ایسی عاشقانہ شاعری جس کے ذریعہ سے پست ہمتی، اخلاقی ابتذال، تقدیر پرستی اور شکست خوردگی کی تلقین کی گئی تھی، ہمارے لیے ناقابل قبول تھی۔ لیکن ایسی شاعری جس میں سچی محبت کی کسک ہو یا جس میں انسان کی ناکامیوں اور محرومیوں کا اظہار کرکے اس کا تزکیہ نفس کیا جائے، جو ہم میں دردمندی اور پاکیزگی پیدا کرے، جس میں انسانی خصائل کو بہتر بنانے کی غرض سے افراد اور معاشرت پر تنقید ہو، جس سے ہماری زندگی کی زینت بڑھے، اور انسانی جذبات میں بلندی اور لطافت پیدا ہو، ہرگز ایسی نہیں ہے جسے رد کیا جائے۔ ایک ترقی پسند یا انقلابی کے لیے ایسی شاعری اتنی ہی ضروری اور مفید ہے جتنا کہ کسی دوسرے مہذب انسان کے لیے ایسی شاعری کا منتخب کلام، اور خود حسرت کی بہترین شاعری اسی زمرے کی ہے۔ مولانا نے اس کے بارے میں جو کچھ کہا وہ ان کی انتہا پسندی اور کسر نفسی پر مبنی تھا۔
کانفرنس کے آخری دن کے شام کے اجلاس میں منجملہ اوروں کے سوشلسٹ لیڈروں جے پرکاش نرائن، یوسف مہر علی، اندو لال جنک اور کملا دیوی چٹوپادھیائے اور میاں افتخار الدین نے بھی شرکت کی۔ یہ لوگ اس زمانہ میں ملک کے درمیانہ طبقے کے ان روشن خیال نوجوانوں کی نمائندگی کرتے تھے جو سامراج دشمن انقلاب چاہتے تھے اور سوشلزم کے نئے نظریے کو اپناتے تھے۔ کملا دیوی نے کانفرنس میں ایک چھوٹی سی پُرجوش تقریر میں نئی تحریک کا خیر مقدم کیا۔
محترمہ سروجنی نائیڈو، بلبل ہند، بھی کانگریس کے اجلاس میں شریک ہونے کے لیے لکھنؤ میں موجود تھیں۔ انھوں نے ہماری کانفرنس میں بھی شرکت کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے عین وقت پر بیمار ہو گئیں۔ انھوں نے کانفرنس کو ایک پیام لکھ کر بھیجا جو سُنایا گیا۔
کانفرنس میں ترقی پسند مصنّفین کا اعلان نامہ بھی پیش کیا گیا، اور اتفاق رائے سے منظور ہوا۔ اس اعلان نامہ میں، اور اُس میں جس کا مسودہ شروع میں لندن میں تیار ہوا تھا اور جس پر اس وقت تک ہم نے دستخط لیے تھے، صرف چند لفظوں کا فرق تھا۔ یہ ترمیمیں مہاراشٹر کے نمائندوں نے پیش کی تھیں جن کو سب نے منظور کر لیا۔
انجمن کا ایک دستور بھی منظور ہوا۔ اس کا مسودہ ڈاکٹر عبدالعلیم، محمود الظفر اور میں نے مل کر تیار کیا تھا۔ مجھے انجمن کا جنرل سکریٹری چنا گیا اور میرے سپرد انجمن کے مرکزی دفتر کو الہ آباد میں قائم کرنے اور چلانے کا کام ہوا۔
انجمن کی مجلس عاملہ کے بارے میں یہ طے ہوا کہ اس کے ممبروں کو مختلف صوبوں یا لسانی علاقوں کی انجمنیں چنیں گی۔ یہ طے ہوا کہ اس کی کوشش کی جائے کہ ہندستان کی ہر بڑی زبان کے علاقے میں علاقائی انجمنیں ہوں اور تمام صوبائی انجمنوں کے منتخب نمائندوں کی ایک کل ہند کونسل ہو، جس کا اجلاس کم از کم سال میں دومرتبہ ہو۔ ان کے علاوہ کانفرنس میں چند اور تجویزیں بھی منظور ہوئیں جن میں سے دو اس لحاظ سے اہم تھیں کہ ان سے نئی تحریک کی بعض خصوصیات کا پتہ چلتا تھا۔ ایک تجویز میں مسولینی کے حبش پر جارحانہ حملے اور جاپان کے چین پر حملے کی مذمت کی گئی۔ اس تجویز میں شہنشاہیت اور سامراجی جنگوں کی مذمت کی گئی اور ہندستانی ادیبوں کے آزادی خواہ جمہوری اور امن پسند جذبات کا اظہار کیا گیا۔ دوسری عالم گیر جنگ کے بادل اس وقت آسمان پر منڈلا رہے تھے۔ ترقی پسند ادیبوں نے کہا کہ ان کا فرض ہے کہ تمام دوسرے امن پسندوں کے ساتھ مل کر وہ اس جنگ کو روکنے کی کوشش کریںگے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ترقی پسند ادیبوں کی تحریک اپنے قیام کی ابتدا سے ہی امن، آزادی اور جمہوریت کی طرف دار تھی اور قوموں کی آزادی اور عالمی امن کو تہذیب کی بقا اور نشو نما کے لیے ضروری خیال کرتی تھی۔
دوسری تجویز میں افراد، جماعتوں اور اِداروں کی آزادیٔ رائے اور خیال کے جمہوری حق کی حمایت میں آواز بلند کی گئی۔ برطانوی حکومت نے پریس کے قوانین، بغیر مقدمہ چلائے گرفتاری اور دوسری پابندیاں عائد کرکے ان حقوق کو چھین لیا تھا۔ تعزیرات ہند کی دفعہ 124 (حکومت کے خلاف نفرت پھیلانے) کے ذریعہ، اخباروں اور رسالوں کو بند کرکے، اور ان کی اشاعت میں رکاوٹ ڈال کر، ترقی پسند کتابوں کو ضبط کرکے، ایڈیٹروں اور مصنفوں کو گرفتار کرکے ان انسانی حقوق کو بالکل سلب کر دیا تھا۔ ترقی پسند مصنّفین نے اس کی مذمت کی اور انجمن کو یہ ہدایت کی کہ ملک کی تمام دوسری جمہوری تحریکوں کے ساتھ تعاون کرکے وہ آزادیٔ رائے اور خیال کے بنیادی انسانی حق کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔
تاریخ شاہد ہے کہ رجعت پرست حکمرانوں اور برخود غلط حکومتوں نے سچائی کی آواز کو ہمیشہ جبر اور تشدد کے ذریعے دبانے کی کوشش کی ہے۔ آزاد ذہن، راست گو زبان اور بے باک قلم کو اگر وہ خرید نہیں سکے اور مرعوب نہیں کر سکے، تو انھوں نے آہنی زنجیر اور سلاخ، زہر کے پیالے اور جلاد کی تلوار سے کام لیا۔ لیکن تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ انسان کی آزاد روح کو کبھی مقید نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی سچا مبلغ، شاعر ، عالم یا فنکار، جس کے کلام یا نظریے میں اس کے زمانے کی ارتقا پذیر حقیقت کی جھلک اور چمک ہو، دبایا نہیں جاسکتا۔ اگربہ جبر اس کی زبان بند بھی کر دی جائے اور اس کا قلم توڑ بھی دیا جائے تو وہی حقیقت جس کے آزادانہ اظہار کی اجازت نہیں دی گئی، ہزاروں، لاکھوں عوام کے دلوں سے صاف چشموں کی طرح پھوٹ پڑتی ہے۔ اخلاق، علم اور عمل کی نئی راہیں کھل جاتی ہیں اور نئے پُرانے کی کشمکش اور تصادم سے حرکت اور تیزی کرتا ہوا زندگی کا دھارا تاریخ اور تنگ وادیوں سے نکل کر شاداب اور روشن مرغزاروں کی طرف بڑھ جاتا ہے۔
ہماری یہ تجویزیں، جنھیں حکومت اور اس کے نقارچیوں نے سیاسی قرار دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ترقی پسند مصنّفین کی تحریک ادبی کم اور سیاسی زیادہ ہے اور اس لیے خالص اور اصلی ادیبوں کو اس سے علاحدہ رہنا چاہیے، فی الحقیقت ہماری تہذیبی زندگی میں ایک قدیم اور مستحسن تہذیبی روایت کا اعادہ کرتی تھیں، اور اسے منظم شکل عطا کرتی تھیں۔ فرق صرف یہ تھا کہ اب سرزمین ہند کے ادیب باقاعدہ اور منظم طور پر اور اپنے عہد کی ضرورتوں اور حالات کے مطابق یہ تہیہ کر رہے تھے کہ وہ آزادی اور سچائی کی خدمت کریںگے، اور کسی کی نہیں۔ فرق یہ تھا کہ جمہوری فتح کے اس نئے دور میں میر، سودا، غالب اور بہت سے دوسرے عظیم فنکاروں کی طرح انھیں امیر حکمرانوں کی کور باطنی اور جوہرِ اصلی کی بے قدری پر خون کے آنسو بہانے کے بجائے آزادی خواہ عوام کی پشت پناہی سے الہام اور قوت حاصل ہو سکتی تھی۔اب ان کی تنہائی اور بیچارگی کا روح فرسا احساس مٹ سکتا تھا اور مٹ رہا تھا۔
انجمن میں ان کے بے شمار رازداں پیدا ہو گئے تھے۔ ۱؎ کانفرنس ختم ہوئی اور ہمیں اس کے خاتمہ پر اپنی کوتاہیوں اور خامیوں کا احساس اور نئی ذمہ داریوں سے پیدا ہونے والی فکر اور پریشانی، اُس خوشی سے بہت زیادہ تھی، جو کسی کام کے خیر و خوبی کے ساتھ خاتمہ کے بعد ہوتی ہے۔ کانفرنس نے ہمارے نصب العین کو متعین کر دیا تھا اور اس نقشے کو ۱؎
گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں علامہ اقبال بالآخر مکمل کر دیا تھا، جس کے مطابق ملک کے تمام ترقی پسند ادیبوں کی تنظیم ہونی چاہیے۔ ابھی بہت سے ادیب ہماری تحریک میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ انھیں منظم کرنا، انجمن کی نئی شاخیں کھولنا اور انھیں چلانا، مرکز کو قائم کرنا اور باضابطگی سے چلاتے رہنا، ان کاموں کے لیے فنڈ جمع کرنا، مرکز سے اطلاع نامہ اور رسالہ شائع کرنا، جو ساری تحریک کو کل ہند پیمانے پر منسلک کر سکے… یہ سب کام اہم اور مشکل تھے۔ لیکن ایک ادبی ادارے کے لیے تنظیم فروعی چیز ہے۔ اصل کام تو نئے اصولوں اور مقاصد کے مطابق، ملک کی مختلف زبانوں میں ادبی تخلیق اور تنقید ہے۔ شعر، افسانہ، ناول، ڈرامہ، مضمون لکھنا اور شائع کرنا ہے۔ یقینا ہمارے ساتھ ملک کے چند بڑے ادیب تھے۔ وہ تو لکھتے ہی تھے اور اب بھی لکھتے رہیںگے۔ سوال اصل میں یہ تھا کہ ترقی پسند مصنّفین کی نئی تحریک، نئے لکھنے والے پیدا کرے گی یا نہیں…؟ نوجوان ادیبوں کو اپنے حلقے میں کھینچنے میں کامیاب ہوگی یا نہیں…؟ اور یہ نئے ادیب قابل توجہ اور اچھے ادب کی تخلیق کر سکیں گے یا نہیں…؟ اس دن شام کو جب سب کاموں سے فارغ ہوکر، تھکے ماندے ہم گھر آئے اور کھانا کھاکر بات چیت کرنے کے لیے بیٹھے تو منشی پریم چند اور رشید جہاں کے علاوہ ہم تین چار آدمی (محمود الظفر، فیض، علیم، میں) شاید کچھ چپ چپ تھے۔ علاوہ اور باتوں کے ایک تو یہی فوری پریشانی تھی کہ کانفرنس کے لیے کرایہ پر جو چیزیں آئی تھیں، ان کا کرایہ کہاں سے ادا کریںگے۔ پھر بابو جینندر کمار نے اُردو ہندی کی لاحاصل بحث چھیڑ دی تھی۔ اس سے مجھے کوفت ہو رہی تھی لیکن پریم چند خوش نظر آرہے تھے۔ وہ رشیدہ کی باتوں پر زور زور سے قہقہے لگا رہے تھے، جو اپنے مخصوص انداز میں کبھی مولانا حسرت موہانی اور ڈاکٹر علیم کی داڑھیوں کا مقابلہ کر رہی تھیں، کبھی احمد علی کے مقالے میں ریاضی کے فارمولوں پر تبصرہ، کبھی ساغر نظامی کی چست شیروانی اور اس سے بھی چست چوڑی دار پائجامے پر تنقید۔ جب پریم چند کی باری آئی تو انھوں نے ہم نوجوان ترقی پسندوں کی حرکتوں پر مشفقانہ انداز میں نکتہ چینی شروع کی… ’’بھئی یہ تم لوگوں کا جلدی سے انقلاب کرنے کے لیے تیز تیز چلنا تو مجھے بہت پسند آتا ہے۔ لیکن میں ڈرتا ہوں کہ اگر کہیں تم بے تحاشا دوڑنے لگے تو ٹھوکر کھاکر منہ کے بل گِر نہ پڑو… اور میں ٹھہرا بوڑھا آدمی، تمھارے ساتھ اگر میں بھی دوڑا اور گرا تو مجھے تو بہت ہی چوٹ آجائے گی…‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے بڑی زور کا قہقہہ لگایا اور ہم سب بھی ان کے ساتھ ہنسنے لگے… ’’لیکن کچھ بھی ہو۔ ہم تو اب آپ کا ہاتھ نہیں چھوڑتے!‘‘ رشیدہ نے ہنستے ہنستے جواب دیا۔
|
|