روشنائی -(2) تحریک کا آغاز – سجاد ظہیر
اس سے پہلے میں پنجاب کبھی نہیں گیا تھا۔ سوا اس کے کہ لڑکپن میں ایک دفعہ اپنے خاندان کے ساتھ کشمیر جاتے ہوئے وہاں سے گزرا تھا اور اس کی کچھ عجیب و غریب یادیں تھیں۔ ایک تو یہ کہ اسٹیشنوں پر ہمارے یہاں کے مقابلے میں پھل اور کھانے کی چیزیں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ بڑے بڑے ڈبل گلاسوں میں لسّی باافراط ملتی ہے۔ لاہور اسٹیشن کے ’’مسلم‘‘ رفرشمنٹ روم میں بریانی بڑی مزے دار ہوتی ہے۔ لوگ لمبے چوڑے ہوتے ہیں۔ باتیں اونچی آواز میں کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر کے سروں پر پگڑیاں اور چہروں پر داڑھیاں ہوتی ہیں۔ شلواریں، تہمدیں اور لمبی لمبی قمیصیں چاروں طرف نظر آتی ہیں۔ ہمارے یہاں کی طرح ننگے، ادھ ننگے اور بھوکے لوگ بالکل دکھائی نہیں دیتے۔ سبزہ ہمارے یہاں کے مقابلے میں کم ہوتا ہے اور جون کے مہینے میں گرمی کچھ ہمارے یہاں سے زیادہ۔ یعنی فی الجملہ پنجاب کے ساتھ خوشحالی، توانائی اور کسی قدر فطری سختی کا تصور ذہن میں وابستہ ہو گیا تھا۔
اس کے بعد انگلستان میں اپنے ساتھ کے بہت سے نوجوان پنجابیوں سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ جن میں سے کئی سے گہری دوستیاں بھی ہوئیں۔ میاں افتخار الدین، محمود علی قصوری (بیرسٹر، لاہور)، کرم سنگھ مان، بابا پیارے لال بیدی، پنجاب کے ان دانشور نوجوانوں کے بڑے اچھے نمائندے تھے جن کے دل میں وطن کی آزادی کی لگن تھی۔ ہم سب سیاسی مسئلوں میں ہم خیال نہیں تھے۔ لیکن آزادی کے سوال میں گہری دلچسپی رکھتے تھے اور آپس میں لامتنا ہی بحثیں کرتے۔ طرح طرح کے منصوبے بناتے اور لڑتے جھگڑتے رہتے۔ بدقسمتی سے ان لوگوں میں ایک بھی ایسا نہیں تھا جسے اُردو ادب یا ادب سے کوئی خاص دلچسپی رہی ہو۔ انگلستان میں میرے قیام کے آخری دنوں میں ڈاکٹر ملک راج آنند اور اقبال سنگھ سے بھی ملاقات ہوئی۔ یہ لوگ بھی خالصاً ادبی ہونے کے باوجود اُردو ادب سے تقریباً ناواقف تھے۔ یہ انگلستان میں مدتوں تک رہ کر اور وہاں شادیاں کرکے کسی قدر انگریز بن چکے تھے اور انگریزی ہی کے ادیب تھے۔ تاہم ان کے ادبی ذوق سے میں متاثر ہوا تھا۔ ڈاکٹر محمد دین تاثیر البتہ ان سب سے مختلف تھے۔ ان سے میں پہلی بار 1935 کے شروع میں کیمبرج میں ملا اور ان کے ساتھ ہی سومناتھ چٹرجی سے بھی ملاقات ہوئی۔ کیمبرج میں مارکسی خیال کے ہندستانی طلبا کا ایک چھوٹا سا حلقہ تھا۔ چونکہ اس زمانے میں ہم اس طرح کے تمام ہندستانی طلبا ایک تنظیم بنانا چاہتے تھے۔ اس لیے لندن کے طلبا نے مجھے کیمبرج کے ہم خیال طلبا کے حلقے سے ملنے کو بھیجا تھا۔ تاثیر سے مل کر بڑی خوشی ہوئی اور اس کا ہم دونوں کو افسوس ہوا کہ اس سے پہلے ہمیں ملنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ حالانکہ وہ شاید ایک سال سے انگلستان میں تھے۔ تاثیر کی ذہانت اور بذلہ سنجی کا انسان پر فوراً اثر پڑتا تھا۔ اس کے بعد چھٹیاں ہوئیں اور تاثیر لندن آئے تو ہماری متعدد بار ملاقاتیں ہوئیں۔ لندن میں ترقی پسند مصنّفین کی انجمن بنانے اور اس کے مینی فیسٹو کے تیار کرنے میں انھوں نے بھی حصہ لیا۔ اس کے علاوہ مارکسی تعلیم کا ہمارا جو حلقہ تھا، جس میں ہم رالف فاکس (انگلستان کے نوجوان ترقی پسند ادیب، فلسفی اور شاعر جو بعد کو اسپین کی خانہ جنگی میں فاشسٹوں کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوئے)، ڈیوڈ گسٹ اور کارن فورتھ کو بلایا کرتے تھے۔ اس میں تاثیر بھی آیا کرتے تھے۔ مجھے کبھی کبھی یہ محسوس ہوتا تھا کہ مارکسزم سے تاثیر کی دلچسپی ذہنی اور تفریحی زیادہ ہے اور علمی کم، کبھی کبھی بحث کے دوران میں وہ ایسی باتیں بھی کر دیتے تھے جس سے کسی قدر موقع پرستی کی بو آتی تھی۔ اس وقت یہ باتیں مذاق میں ٹل جاتی تھیں۔ ان کا کیرکٹر اس وقت بھی کچھ ایسا تھا کہ ان سے پُرخلوص اور گہری دوستی کرنی مشکل معلوم ہوتی تھی۔ لیکن ان سے ملنے، ان سے گفتگو کرنے اور ان کی باتیں سننے سے کبھی جی نہیں تھکتا تھا۔ یہ تھا میرا پنجاب جانے سے پہلے اہل پنجاب کا ذاتی تجربہ۔ لیکن ذہن اور دل پر اس کے علاوہ بھی بہت سے نقوش تھے۔ پنجاب نے ہمیں اقبال کی عظیم شاعری عطا کی تھی۔ اسی سرزمین سے سیراب ہوکر حالی اور محمد حسین آزاد نے جدید اُردو نظم و نثر کی بنیاد رکھی تھی۔ ظفرعلی خاں کی سیاسی نظموں، ان کے طنزیہ کلام اور ’’زمیندار‘‘ میں ان کی نگارشات نے ان اصنافِ ادب کو پروان چڑھایا تھا۔ شیخ عبدالقادر کے ’’مخزن‘‘ نے یہاں سے نکل کر اُردو ادبی رسالوں کے لیے اور اُردو تنقید کا ایک نیا اور اونچا معیار قائم کیا تھا۔ سالک، مہر، اور چراغ حسن حسرت کے قلم اب بھی وہاں چل رہے تھے۔ محمود شیرانی کا تبحر علمی اور اختر شیرانی کی نظمیں وہاں کی فضائوں میں بسی ہوئی تھیں۔ اور پھر جلیان والا باغ کی مقدس یادگار کون ہندستانی بھول سکتا تھا… یا بھگت سنگھ کی امر قربانی کو؟ یا وطن کی آزادی کے لیے تحریک خلافت کے مہاجرین، غدر پارٹی کی، اور ببر اکالیوں کی والہانہ جانبازیوں کو؟ یا فرقہ پرست سیاست کے خلاف جماعت احرار کی بے مثال ابتدائی مہم کو؟ پھر یہ وہی سرزمین تھی اور اسی راوی کے کنارے جب ہماری قوم کے لاکھوں افراد نے علی الاعلان انگریزی سامراج سے مکمل آزادی حاصل کرنے کی ایک ساتھ مل کر قسم کھائی تھی۔ میں الہ آباد سے سیدھا امرتسر آیا اور محمود الظفر کے گھر ٹھہرا۔ محمود نے بھی ترقی پسند ادب کی تحریک میں دلچسپی لینا شروع کر دی تھی۔ لیکن وہ بیچارے ایک خاص قسم کی مشکل میں گرفتار تھے۔ حالانکہ وہ یو۔ پی (ریاست رامپور) کے رہنے والے تھے، اور ان کی مادری زبان اُردو تھی، لیکن لڑکپن ہی سے ان کی تعلیم انگلستان میں ہوئی تھی۔ انگریزی پبلک اسکول اور بے لئیل کالج، آکسفورڈ سے پڑھ پڑھاکر جب وہ 1931 میں ہندستان واپس آئے تو مادری زبان تقریباً بھول چکے تھے۔ بولنا چالنا سیکھنے میں تو انھیں کچھ دیر نہیں لگی۔ البتہ چونکہ ان کی طبیعت حد درجہ آرٹسٹک اور ادبی قسم کی واقع ہوئی تھی، اور انگریزی شاعری کی لطافتوں اور باریکیوں میں جب وہ ڈوب جاتے تھے تو ان کا سراغ لگانا ہمارے لیے مشکل ہو جاتا تھا۔ اس لیے جب ہم کبھی اُردو یا فارسی شعر پڑھتے یا اپنی زبان کے کسی دقیق ادبی مسئلہ پر گفتگو کرتے تو محمود کے چہرے پر ایک عجیب قسم کی افسردگی چھا جاتی تھی۔ محمود کو ہمیشہ اس کا بڑا قلق رہتا تھا کہ انھیں اپنی مادری زبان پر عبور حاصل نہیں۔ وہ انگریزی میں شعر اور کبھی کبھی افسانے اور ادبی مضامین لکھتے تھے۔ مگر وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ہم لاکھ کوشش کریں، کسی اجنبی زبان میں کوئی بڑا تخلیقی کام نہیں کر سکتے۔ محمود میں محض ادبیت نہیں تھی، ان کی انگریزی تربیت اور فلسفے منطق اور معاشیات کی تعلیم نے ان میں باقاعدگی، نظم اور ان تھک کام کرنے کی صلاحیت پیدا کر دی تھی، اور غالباً پٹھان نسل کے ہونے کی وجہ سے ان کے مزاج میں ایک قسم کی صلابت تھی جو بعض اوقات جب انھیں غصہ آجاتا تھا تو ضد کی حد تک پہنچ جاتی تھی۔ رشید جہاں اور محمود الظفر کا جوڑا اجتماعِ ضدین تھا۔ رشیدہ کو باضابطگی سے نفرت تھی۔ ان کے جاننے والے اور دوست ہمیشہ حیران رہتے تھے کہ آخر وہ اتنی اچھی ڈاکٹر کیسے تھیں… اور اپنے مریضوں میں اتنی مقبول کیوں تھیں؟ اپنی چیزیں اِدھر اُدھر چھوڑکر بھول جانا، انھیں گم کر دینا ان کا روز کا معمول تھا۔ اس کے برخلاف محمود کبھی کچھ بھولتے ہی نہیں تھے۔ ان حضرت کو نہ صرف اپنی بلکہ اپنے دوستوں کی ذمہ داریاں اور کام کرنے کے منصوبے ازبر یاد رہتے تھے، اور وقت بے وقت انھیں ان کی یاد دلانا ان کا بڑا تکلیف دہ شیوہ تھا۔ ایسا کرتے وقت ان کے چہرے پر ہمیشہ ہلکی سی مسکراہٹ ہوتی۔ اس کی وجہ سے ہم جیسے دیسی کام چوروں، ٹال بازوں اور کاہلوں کو اور بھی زیادہ پشیمانی ہوتی۔ رشیدہ کی پھیلائی ہوئی گڑ بڑ اور انتشار کو محمود ہمیشہ ٹھیک کرتے رہتے۔ لیکن محبت کی سنہری زنجیر جس طرح سے ان دونوں کو ایک دوسرے سے باندھے ہوئے تھی، اس کی دلکشی اور لطافت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ ان دونوں نے اپنی زندگی کا مقصد جیسے اپنی ذات کو بھلاکر انسانیت کو بنا لیا تھا۔ جسے فارغ البالی یا خانگی اطمینان کہتے ہیں، وہ ان کی قسمت میں نہیں تھا۔ آئندہ جو زمانہ آنے والا تھا وہ محمود کے لیے قید و بند، محنت و مشقت اور قومی کاموں کے سلسلے میں فکر و تردد کا زمانہ تھا۔ رشیدہ کے لیے طویل تنہائیوں، مالی مشکلات اور جسمانی کلفت کا۔ مگر وہ امرتسر ہو یا دہرہ دون، یا لکھنؤ، جب بھی ان کے گھر جائو تو محسوس ہوتا تھا کہ خوشی وہاں تیر رہی ہے… ایسی خوشی جو دو دلوں کے میل اور دو دماغوں کی ہم آہنگی سے شفاف ٹھنڈے پانی کے چشمے کی طرح پھوٹ نکلتی ہے… جو دوسری افسردہ یا غمگین روحوں کو بھی سیراب کرکے ان میں ترنم اور بالیدگی پیدا کر دیتی ہے۔ محمود امرتسر میں ڈیڑھ دو سال سے تھے۔ لیکن ان کی یا رشیدہ کی پنجاب کے ادیبوں سے اس وقت تک ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ وہ پڑھانے میں بڑی محنت کرتے تھے اور اسی کام میں مشغول رہتے۔ رشیدہ ڈاکٹری کرتی تھیں یا کبھی کبھی افسانے لکھ لیتیں۔ ہم نے مشورہ کیا کہ لاہور چلیں اور وہاں اپنے مشترک دوست میاں افتخار الدین اور دوسرے دوستوں سے مدد لے کر ادیبوں سے ملیں۔ لیکن قبل اس کے کہ ہم لاہور جائیں، ہمیں غیر متوقع بلکہ غیبی مدد ملی۔ امرتسر میں میرے ایک دو دن کے قیام کے بعد ایک دن رشیدہ نے یکبارگی کہا… ’’محمود! وہ جو تمھارے کالج میں ایک نیا لڑکا آیا ہے نہ، انگلش ڈپارٹمنٹ میں… کیا نام ہے اس کا؟‘‘ اور پھر میری طرف مڑکر… ’’میرے خیال میں تم اس سے مل لو۔‘‘ محمود بہت سنجیدگی سے انگریزی میں بولے… ’’تمھارا مطلب ہے ہمارے انگریزی کے نئے لکچرار فیض احمد…‘‘ ’’اُنہہ ہوگا بھئی کوئی بھی نام… مجھے یاد نہیں رہتا۔ وہ بولتا تو ہے نہیں۔ تمھارے کالج میں مجھے وہی ایک لڑکا سمجھدار معلوم ہوتا ہے۔ بنّے کو اس سے ملنا چاہیے۔‘‘ محمود صاحب نے اس بات کو اپنے کالج اورکالج کے وائس پرنسپل ہونے کی حیثیت سے اپنے اوپر حملہ تصور کیا اور ذرا تیزی سے بولے۔ ’’تمھیں کیا معلوم میرے کالج میں کون سمجھدار ہے اور کون نہیں؟ تم کتنوں سے ملی ہو؟ اور جن سے تم ملی بھی ہو، ان کے نام تک تو تمھیں یاد نہیں۔‘‘ اب کیا تھا۔ رشیدہ بالکل اپنے اصلی رنگ پر آگئیں اور چمک کر بولیں… ’’سب اُلو بھرے ہیں تمھارے کالج میں۔ جنھیں الف کے نام ب تک نہیں آتا۔ پتہ نہیں کس دُنیا میں رہتے ہیں۔ میں اسٹاف کی بات کرتی ہوں لڑکوں کی نہیں… نام جاننے کی کیا ضرورت ہے۔ صورت سے ہی پتہ چل جاتا ہے۔ اس دن جب میں تمھارے کالج گئی تو وہ صاحب کون تھے؟ (ہاتھ سے اشارہ کرکے) اتنی بڑی داڑھی اور ایک لمبی پھندنے دار ٹوپی پہنے ہوئے؟ سارا وقت حضرت مجھے گھورتے رہے اور تمھارے کالج کے مالک صاحب وہ کون ہیں؟ شیخ… پتہ نہیں کیا… وہ جو قالین بیچتے ہیں… ان کا تو دماغ خراب ہے بالکل… اتنا روپیہ لے کر کیا وہ قبر میں جائیںگے؟ اور اسٹاف کی تنخواہ بڑھانے کے نام سے ان کی جان نکلتی ہے…۔‘‘ محمود بھی اس حملے سے گھبرا گئے اور آہستہ سے بولے… ’’میرا خیال تھا کہ ہم اسٹاف کی بات کر رہے ہیں اور تم منیجنگ کمیٹی کی بات کرنے لگیں… اور میں نے تم کو لاکھ بار بتایا ہوگا کہ شیخ صادق حسن ہمارے سکریٹری ہیں، کالج کے فائونڈر (مالک) نہیں اور وہ تو بیچارے کب کے مر چکے ہیں۔ ان کے لڑکے خواجہ محمد صادق ہیں جو بڑے معقول آدمی ہیں… اور وہ کچھ ایسے امیر بھی نہیں۔‘‘ ’’مجھے کیا پتہ کون فائونڈر ہے اور کون سکریٹری۔ مجھے تو سب ایک سے لگتے ہیں۔ لال لال چقندر کی طرح کے کشمیری۔‘‘ اب محمود کو ایک لاجواب موقع مل گیا اور پوری سنجیدگی سے انگریزی میں وہ کہہ گزرے… ’’میرا خیال تھا کہ تمھارے والد صاحب بھی کشمیری ہیں۔‘‘ محمود کو شاید یہ غلط فہمی تھی کہ اس شدید حملے کے بعد دشمن کو بالکل خاموش ہونا پڑے گا۔ لیکن اُدھر سے فوراً جواب ملا۔ ’’چھوڑو تم میرے والد کو… تمھارے بہنگم، بے ڈول، چپٹی کھوپڑیوں والے رامپور کے روہیلوں سے تو بہت اچھے ہیں۔ تمھارے یہاں تو کسی کی کل ہی سیدھی نہیں ہے۔‘‘ اس پر ہم سب کو بے ساختہ ہنسی آگئی اور میں نے موقع غنیمت جان کر کہا… ’’اچھا بھئی اب یہ طے کرو کہ ان سمجھدار فیض احمد صاحب سے کب ملاقات ہوگی؟‘‘ محمود نے جواب دیا… ’’میں نے تمھارے آنے سے پہلے ہی فیض احمد سے ترقی پسند مصنّفین کے بارے میں باتیں کر لی ہیں اور تمھارا بھی ان سے ذکر کر دیا ہے۔‘‘ پھر اپنی ڈائری دیکھ کر کہا۔ ’’آج ساڑھے چار بجے چائے پر فیض آرہے ہیں۔‘‘ ’’دیکھا تم نے ان حضرت کی باتیں…‘‘ رشیدہ نے مجھ سے فریاد کے لہجے میں کہا… ’’میں نے بھی تو آخر یہی کہا تھا کہ فیض کو تم سے ملانا چاہیے۔ یہ خواہ مخواہ مجھ سے گھنٹہ بھر سے اُلجھے ہوئے ہیں۔‘‘ محمود مسکراتے رہے، کچھ نہیں بولے۔ ذرا دیر بعد انھوں نے اعلان کیا… ’’میں اب کالج کے لیے چلا۔ مہربانی کرکے چائے کے لیے سینڈوچ بنوا لینا۔‘‘ پھر ڈائری دیکھ کر انھوں نے کہا… ’’اور کل چائے پی کر ہم موٹر سے لاہور کے لیے روانہ ہوںگے۔ میں نے افتخار کو اطلاع کر دی ہے۔ ہم ان کے یہاں ہی ٹھہریںگے۔ فیض اپنے گھر ٹھہریں گے۔‘‘ ’’اور کچھ طے ہوا ہو تو وہ بھی ابھی بتا دو۔ ذرا ڈائری کا اگلا صفحہ تو دیکھو… بریک فاسٹ اور لنچ کس کے یہاں کھانا پڑے گا؟‘‘ رشیدہ نے پوچھ ہی لیا۔ ’’یو آر جسٹ امپوسیبل۔‘‘ محمود نے کہا اور ہنستے ہوئے چلے گئے۔ بارے جب تیسرے پہر فیض احمد صاحب سے ملاقات ہوئی تو جس کا خطرہ تھا وہی ہوا۔ یعنی فیض نہیں بولے۔ کسی نئے آدمی سے گفتگو کرنے اور اسے جاری رکھنے کا مشکل فن مجھے بھی نہیں آتا۔ اس دن مجھے معلوم ہوا کہ اس میدان میں مجھ سے بھی بڑے اناڑی پائے جاتے ہیں۔ فیض کی رازداری کا کمال یہ تھا کہ اس وقت تک محمود اور رشیدہ کو اس کا بالکل علم نہیں تھا کہ فیض شاعری بھی کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں تو بس وہ ادب، خاص طور پر انگریزی ادب سے دلچسپی رکھنے والے ایک ذہین نوجوان تھے، جن میں کچھ کچھ ترقی پسند رجحانات پائے جاتے تھے۔ محمود نے مجھ سے ان کے ذوق سلیم کی تعریف کی تھی۔ جس کا پتہ انھیں اس طرح سے چلا تھا کہ وہ محمود کے یہاں سے اچھی اچھی کتابیں مانگ کر پڑھنے کے لیے لے جایا کرتے اور انھیں بڑے شوق سے پڑھتے۔ ہم نے شاید انگلستان کے نئے شاعر اسٹیفن اسپنڈر اور آڈن کا تذکرہ کیا جن کے شعر کے نئے مجموعے ان دنوں شائع ہوئے تھے اور جن کی شاعری میں انگریزی شاعری کے مروجہ ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ کے پھیلائے ہوئے تلخی اور نامرادی کے رجحانات سے الگ ہٹ کر انسانیت کے نئے اشتراکی مستقبل اور یورپی عوام کی فاشسٹ دشمن جدوجہد کی پُرامید جھلک تھی۔ مجھے اس پر کافی تعجب ہوا کہ فیض ان شاعروں کا کلام پڑھ چکے تھے۔ ترقی پسند ادب کی تحریک کے بارے میں ہم نے اس وقت تک جو کیا تھا سب بتایا، اور ان سے پوچھا کہ پنجاب میں اس کے کیا امکانات ہیں؟ فیض نے اپنے بشرے سے کسی خاص گرم جوشی یا انہماک کے جذبے کو ظاہر نہیں ہونے دیا۔ بس ایک پشیمان سی مسکراہٹ کے ساتھ بڑی مشکل سے ہم سے اتنا ہی کہا… ’’لاہور چل کر دیکھتے ہیں۔ میرے خیال میں وہاں پر کچھ لوگ تو شاید ہم سے متفق ہوںگے۔‘‘ معلوم ہوتا تھا کہ تہیہ کرکے آئے ہیں کہ سنیںگے، مسکرائیںگے، مگر بولیںگے نہیں۔ آخر کو رشیدہ چلّا پڑیں… ’’یہ بھی خوب کہی۔ کچھ لوگ متفق ہوں گے۔ جناب ہمیں اس مینی فیسٹو پر بہت سے لوگوں کے دستخط لینے ہیں… اور پھر لاہور میں ترقی پسند مصنّفین کی انجمن بنانی ہے۔‘‘ محمود اور میں، رشیدہ کی اس حرکت پر گھبرا گئے۔ ابھی ہماری فیض سے بے تکلفی نہیں تھی اور میری تو بالکل پہلی ملاقات تھی… اور رشیدہ تھیں کہ اس ہمارے شرمیلے مہمان کی نقلیں کرنے لگیں اور اس پر فقرے چست کر رہی تھیں۔ لیکن انھیں روکنے یا منع کرنے کی کسے ہمت تھی! پھر بھی فیض ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ البتہ اب کی ذرا اور کھل کر مسکرائے اور بولے… ’’لاہور چل کر کوشش کرتے ہیں… دیکھیں کیا ہوتا ہے۔‘‘ ہم اپنے پروگرام کے مطابق دوسرے دن لاہور چل پڑے اور چراغ جلے وہاں پہنچ گئے۔ فیض اپنے گھر چلے گئے اور ہم تینوں سیدھے کنال بینک پر میاں افتخار الدین کی کوٹھی پر گئے۔ وہاں پر میاں صاحب کے نوکروں نے ہمارا استقبال کیا اور بتایا کہ میاں صاحب اور بیگم صاحبہ کسی پارٹی پر گئے ہیں اور کہہ گئے ہیں کہ ابھی آتے ہیں۔ رشیدہ کو امیروں، بڑے آدمیوں، کام نہ کرنے والے غیر سنجیدہ خوش باشوں سے ایک عام نفرت تھی۔ اپنی ڈاکٹری کے سلسلے میں ان کو اکثر ایسے لوگوں کے گھروں میں جانے کا اتفاق ہوتا تھا اور انھیں اس طبقے کا کچا چٹھا ان کے زنانہ مکانوں کے ذریعہ سے معلوم تھا۔ وہ ان امیروں کی کیفیت سے بھی واقف تھیں جنھوں نے اپنی مدقوق بیگموں کو گندے محل سرائوں میں مقفل کرکے باہر مردانے میں بھونڈے ڈرائنگ روم سجائے تھے۔ وہ انگریزی دُکانوں کے سلے ہوئے گراں قیمت سوٹ پہنتے، سفید صاحبوں کی خوشامد کرتے… انھیں اور ان کی میموں، دیسی افسروں اور ان کی ریشم پوش عورتوں کو ڈنر اور پارٹیاں دیتے… اور خلوت میں جاکر دوسرے کاموں میں مشغول ہو جاتے، اور وہ ان نئے ’’ترقی یافتہ‘‘ امیروں کی حالت بھی جانتی تھیں جو ’’ماڈرن‘‘ بن چکے تھے اور جن کے یہاں پردے کا رواج اُٹھ چکا تھا۔ ان کی بیویاں،بہنیں اور لڑکیاں انگریزی میں گٹ پٹ کرتیں۔ بِرج اور رَمی کھیلتیں اور پکنک پر جاتیں۔ انھوں نے اپنی زبان، قومی انفردیت اور تہذیب کی دولت گنوا دی تھی۔ ان کی ذہنی پراگندگی ان کے روحانی افلاس سے کم نہ تھی۔ ان کی ساری زندگی ایک بے ہودہ ہیجان بن کر رہ گئی تھی۔ لیکن اس کی بے مائیگی اور ابتذال کو مغربی ملمع کی چمک دمک سے چھپایا نہیں جا سکتا تھا۔ افتخار کو گھر پر موجود نہ پاکر رشیدہ کے ماتھے پر فوراً شکن پڑ گئی اور محمود نے اپنے پتلے ہونٹ اور بھی بھینچ کر بند کر لیے۔ کسی قدر رنج مجھے بھی ہوا۔ ہم بڑے چائو سے افتخار کے یہاں گئے تھے اور میری تو انگلستان سے واپس آنے کے بعد اس سے یہ پہلی ملاقات ہوتی۔ ہمیں ملے ہوئے تین سال کے قریب ہو گئے تھے، اور میں سات آٹھ سو میل کا سفر طے کرکے ان کے یہاں پہنچا تھا۔ ہم جاڑے میں شام کے وقت تیس چالیس میل موٹر پر چل کر آئے تھے۔ اسی لیے کافی ٹھٹھرے ہوئے تھے۔ اندر آتش دان میں بڑی اچھی آگ جل رہی تھی، چُپ چاپ اس کے گرد جاکر بیٹھ گئے۔نوکر جلدی سے ہمارے لیے چائے بناکر لائے۔ آگ کی گرمی اور چائے نے ہمارے موڈ پر اچھا اثر ڈالا۔ رشیدہ ایک نرم کشن میں منہ چھپاکر قالین پر ہی لیٹ گئیں۔ محمود کا ہاتھ آہستہ سے اپنی جیب میں گیا اور انھوںنے وہاں سے پائپ نکال کر پینا شروع کر دیا۔ لیکن وہ وقت ضائع کرنے کے قائل نہیں تھے۔ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے اپنی نوٹ بک بھی برآمد کی اور میرے ساتھ دوسرے دن کا پروگرام طے کرنے لگے۔ ان کی نوٹ بک میں بیس پچیس ناموں کی ایک فہرست تھی۔ لاہور کے ادیبوں، شاعروں، ادب میں دلچسپی لینے والوں، ادب کے مددگاروں، آرٹسٹوں، پروفیسرز کی فہرست۔انھوں نے کہا کہ تمھارے لیے ضروری ہے کہ تم ان سب سے فرداً فرداً ملو۔ اس انکشاف پر مجھے کافی تعجب ہوا اور میں نے ان سے پوچھا کہ ’’تم توکہتے تھے کہ تم یہاں کے ادیبوں کو جانتے ہی نہیں۔ پھر یہ اتنی بڑی فہرست کیسے بنا لی؟‘‘ انھوں نے جواب دیا… ’’تمھارے یہاں آنے سے پہلے میں اور فیض اس معاملے کے متعلق کئی بار باتیں کر چکے ہیں۔ میں تو ان میں سے ایک دو ہی سے واقف ہوں۔ لیکن فیض اکثر کو ذاتی طور پر جانتے ہیں۔ یہ فہرست انھوں نے لکھوائی ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ جب ایک دو دن میں تم ان سب لوگوں سے مل کر باتیں کر لوگے تو پھر ہم اس کے فوراً بعد ان لوگوں کی میٹنگ کریں گے جو اس تحریک میں دلچسپی رکھتے ہیں۔‘‘ مجھے محمود کی اس مستعدی سے بڑی خوشی ہوئی۔ میں ان کی اس خصلت سے پہلے سے ہی واقف تھا۔ یورپ میں طالب علمی کے زمانہ میں ہم جب کبھی چھٹیوں میں ایک ساتھ سفر کو نکلتے تو محمود کی وجہ سے سفر کی تمام زحمتیں ختم ہو جاتی تھیں۔ ٹکٹ خریدنا، سوٹ کیس اُٹھانا، ریل کے چھوٹنے اور پہنچنے کا وقت دریافت کرنا، کھانے پینے کا بندوبست کرنا، رہنے کے لیے ہوٹل کا انتخاب کرنا،سیر و تفریح کا پروگرام بنانا… یہ سب وہ اپنے لیے ہی نہیں بلکہ میرے لیے بھی کر دیتے تھے۔ ان کی موجودگی میں کچھ کام کرنے کو جی ہی نہیں چاہتا تھا۔ اس لیے کہ وہ میرے مقابلہ میں یہ سب کام بہت خوبی کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ میری سُستی سے ناراض ہوکر وہ کبھی کبھی مجھے ڈانٹتے اور انھیں یہ شبہ بھی ہوتا تھا کہ میں جان کر کام چوری کر رہا ہوں۔ لیکن بالآخر وہ مسکراکر میری ذمہ داریاں بھی خود ہی پوری کر دیتے۔ اسی لیے تو ہم دونوں اتنے اچھے دوست تھے۔ ’’یار… تم سے تو جو بات پوچھتے ہیں تم یہی کہتے ہو کہ فیض نے اور میں نے پہلے ہی طے کر لیا ہے۔ میرے لیے تو تم نے کچھ چھوڑا ہی نہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ میرے اتنے دور آنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی۔‘‘ میں نے ہنس کر کہا۔ ’’بھئی اصل بات یہ ہے کہ فیض کے ساتھ پنجاب میں پروگریسو رائٹرس موومنٹ آرگنائز کرنے کے بارے میں، میں نے کئی بار تفصیل سے باتیں کی تھیں اور ہم خود لاہور آنے کی سوچ رہے تھے۔ اتنی جلدی تمھارے یہاں آنے کی ہمیں اُمید بھی نہیں تھی۔ خیر، بہت اچھا ہوا کہ رشیدہ تمھیں اپنے ساتھ کھینچ لائیں۔ تم ہمیں اپنے یورپ کے تجربے اور وہاں کے تازہ ترین حالات بتا سکوگے، اور پھر تمھارے لیے یہاں ذاتی تجربہ اور واقفیت بھی ضروری ہے۔‘‘ اگرچہ اس صاف گوئی سے میرے خود پسندی کے جذبہ کو ٹھیس لگی، لیکن آہستہ آہستہ یہ خوشگوار حقیقت بھی ظاہر ہونے لگی کہ ہمارے ملک کے ہر ایک حصے میں ترقی پسند ادب کی تحریک ایک ناگزیر تاریخی واقعہ کی طرح نمودار ہو رہی تھی۔ ہماری تہذیب کا ماضی اور حال اس نئے ارتقا کا متقاضی تھا۔ ہم باہر سے کوئی اجنبی دانہ لاکر اپنے کھیتوں میں نہیں بو رہے تھے۔ نئے ادب کے بیج ہمارے ملک ہی کے روشن خیال اور محب وطن دانشوروں کے دل و دماغ میں موجود تھے۔ خود ہمارے ملک کی سماجی آب و ہوا اَب ایسی ہو گئی تھی جس میں یہ نئی فصل اُگ سکتی تھی۔ ترقی پسند ادبی تحریک کا مقصد اس نئی فصل کی آبیاری کرنا، اس کی نگہداشت کرنا، اسے پروان چڑھانا تھا۔ اب اُس پُراسرار نوجوان کی شخصیت بھی، جس سے میں ایک دن پہلے پہلی بار ملا تھا اور جس نے ’’ہوں ہاں‘‘ کے علاوہ اور کچھ بولنے سے انکار کر دیا تھا، میرے ذہن میں زیادہ واضح ہونے لگی۔ تھوری ہی دیر گزری تھی کہ میاں افتخارؔ الدین آگئے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ ٹھیک ہوگا کہ وارد ہویے۔ ان کی موٹر تو شاید چپکے سے آگئی ہو، لیکن وہ خود بہت زوروں میں آئے۔ شاید باہر ہی ان کو مہمانوں کے آنے کی خبر ہو گئی تھی۔ اب کیا تھا، دروازے دھڑادھڑ کھلنے اور بند ہونے لگے۔ چاروں طرف سے نوکروں کے بوکھلاہٹ میں دوڑنے کی آوازیں آنے لگیں۔ گھر میں وہ جو ایک انگریزوں کے مکانوں کا سا سکوت تھا، ختم ہوگیا۔ چشم زدن میں ہمارے کمرے کا دروازہ بھی یکایک چوپٹ کھلا اور ایک چیز تیر کی طرح اندر داخل ہوکر مجھ سے لپٹ گئی۔ بچھڑے دوست جب گلے مل چکے تو شکوے شکایتیں شروع ہوئیں۔ افتخار نے ہمارے پہنچنے کے وقت اپنے موجود نہ ہونے پر ایک لمبی معذرت شروع کی، اور کم از کم مجھے بالکل مطمئن کر دیا۔ میں دل ہی دل میں شرمندہ بھی ہوا کہ میں نے خواہ مخواہ اور بے جا طور پر ایک مخلص اور شفیق دوست کی طرف سے اپنے دل میں رنجش پیدا کر لی تھی۔ ہم تینوں نے ہنسی مذاق اور باتیں شروع کردیں۔ رشیدہ اُٹھ کر کرسی پر بیٹھ گئیں۔ وہ خاموش تھیں۔ میں نے کسی قدر ڈرتے ہوئے ان کے چہرے پر نظر ڈالی تو محسوس کیا کہ ان کے ماتھے کی شکن ابھی اپنی جگہ پر موجود تھی۔ البتہ اب اس شکن کا رُخ صرف افتخار کی طرف نہیں تھا، اب وہ ہم تینوں پر وار کر رہی تھیں، اور جیسے ہم سے کہہ رہی تھیں کہ ’’تم بڑے بے حیا ہو۔‘‘ اتنے میں عصمت، بیگم افتخار، سروِ خراماں کی طرح کمرے میں داخل ہوئیں۔ ہم سے رسمی صاحب سلامت کرنے کے بعد رشیدہ کے پاس بیٹھ گئیں۔ وہ بھی رشیدہ کی طرح علی گڑھ کی رہنے والی تھیں اور رشیدہ سے اچھی طرح واقف تھیں۔ ان میں آپس میں باتیں شروع ہو گئیں۔ بیگم افتخار کی خوش پوشاکی، نرم روی اور آہستہ کلامی نے کمرے میں ایک سہمی ہوئی سی مہذب فضا پیدا کر دی۔ تھوڑی دیر میں عصمت، رشیدہ کو ساتھ لے کر اندر چلی گئیں۔ ہم تینوں کی جان بچی اور ہم نے اطمینان کی سانس لی۔ لیکن افتخار اور محمود دونوں کی موجودگی میں کسی انسان کے لیے آرام سے دو گھڑی بیٹھ کر زندگی کے مزے لینا ناممکن ہے۔ کم از کم میں ایسا خوش قسمت نہیں۔ اب حالت یہ ہوئی کہ ایک طرف تو افتخار نے ہماری خاطرداری اور تواضع کے سلسلے میں سارے گھر کو سر پر اُٹھا لیا۔ دوسری طرف محمود سارے وقت اس کوشش میں لگے ہیں کہ ہم جس کام کے لیے آئے تھے، ہر ایک بات سے پہلے اس کے متعلق افتخار کے ساتھ مل کر دوسرے دن کا پروگرام بنا لیں۔ افتخار ایک منٹ ہم سے بات کرتے ہیں تو دوسرے منٹ بھاگ کر اس کمرے کو جاکر دیکھ آتے ہیں جہاں انھوں نے ہمارے بستر لگانے کا حکم دیا تھا۔ ہم سے ترقی پسند مصنّفین کی تحریک کے بارے میں سنتے سنتے یکبارگی نوکر کو چلّاکر کہتے ہیں کہ ہمارے نہانے کے لیے گرم پانی تیار کیا جائے۔ بات بات میں انھوں نے ہم کو مطلع کر دیا کہ رات کو کھانے کے لیے ہم سب سر عبدالرشید (جو پاکستان فیڈرل کورٹ کے پہلے چیف جسٹس تھے) کے یہاں مدعو ہیں۔ جن کے یہاں ایک بڑا ڈنر ہے۔ ڈنر کی خبر گویا محمود کے لیے وہ آخری تنکا تھی جس نے اونٹ کی کمر توڑ دی۔ انھوں نے سختی سے کہا… ’’ہم سول لائن کی ڈنر پارٹیوں میں شریک ہونے کے لیے لاہور نہیں آئے ہیں۔ مجھے صرف دو دن کی چھٹی ہے۔ تم یہ بتائو کہ تم ہمارے ساتھ دو گھنٹے اطمینان سے بیٹھ کر اس کام کے بارے میں باتیں کب کر سکتے ہو؟‘‘ لیکن افتخار بھی ان لوگوں میں نہیں جن کو ان کے ارادوں سے آسانی کے ساتھ ٹالا جا سکے۔ وہ اپنی رائے سے اختلاف رکھنے والوں سے بے حد بحثیں کرتے ہیں۔ بظاہر اس کی بات قبول بھی کر لیتے ہیں لیکن آخر میں اسے اپنی رائے کا کرکے ہی دم لیتے ہیں۔ لوگ عاجز آکر یا تو ان کی بات مان لیتے ہیں یا کسی نہ کسی طرح ان سے پیچھا چھڑاکر بھاگ جاتے ہیں۔ انھوں نے جواب دیا… ’’بھئی بات یہ ہے کہ تمھارا خط آنے سے پہلے ہی ہم اس ڈنر پر مدعو تھے۔ ہم نے وہ دعوت قبول کر لی تھی۔ جب تمھارا خط آیا تو میں نے میاں رشید کو ٹیلی فون کیا کہ ہمارے یہاں مہمان آرہے ہیں۔ اس لیے عصمت اور میں آپ کی دعوت میں شریک نہیں ہو سکیں گے۔ انھوں نے پوچھا کہ کون مہمان، میں نے تم لوگوں کے نام بتائے۔ اس پر انہوں نے بڑے اصرار سے کہا کہ تم ان تینوں کو بھی میری طرف سے مدعو کر دو۔ وہ تم سے ملنے کے مشتاق ہیں۔ اب اگر تم کہتے ہو تو میں ان کو ٹیلی فون کر دیتا ہوں کہ ہم نہیں آسکتے۔ لیکن آخری وقت پر پانچ آدمیوں کی غیرموجودگی سے ان کی ڈنر پارٹی خراب ہو جائے گی۔ بہرحال کھانا تو ہمیں کھانا ہی ہے۔ یہاں نہ کھایا وہاں کھایا۔ ہم وہاں سے جلدی واپس آسکتے ہیں، اور میرا یہ بھی خیال تھا کہ بنّے لاہور پہلی بار آرہے ہیں۔ ان کو یہاں پر ہر قسم کے لوگوں سے ملنا چاہیے۔ غالباً وہاں میاں بشیر احمد بھی ہوں گے، اور ممتاز (شاہنواز) بھی، ان سے تو تم کو ملنا ہی چاہیے۔ شاید اور بھی کچھ لوگوں سے ملاقات ہوجائے جو تمھارے کام کے ہوں۔‘‘ محمود نے بے بس ہوکر میری طرف دیکھا۔ افتخار کی منطق کا آخر جواب ہی کیا تھا؟ اب یہ ذمہ داری انھوں نے ہم پر ڈال دی تھی کہ ایک شریف انسان کی دعوت میں جانے سے انکار کرکے اپنے کو بدتہذیب اور نامعقول ثابت کریں۔ ہم نے سوچا کہ میاں بشیر سے ہمیں یوں بھی ملنا تھا۔ سو اِسی وقت مل لیںگے۔ ہم ممتاز شاہنواز (یادش بخیر) سے بھی ملنے کے خواہش مند تھے۔ میں اپنی طالب علمی کے دنوں میں ان سے لندن اور آکسفورڈ میں ایک دو بار مل چکا تھا۔ وہ اب لاہور کے اُفق پر نمودار ہو رہی تھیں، اور چند اور لوگوں کے ساتھ مل کر انھوں نے لاہور میں ایک لٹریری لیگ بھی قائم کی تھی۔ یہ لٹریری لیگ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر تھا،لاہور کے ان انگریزی داں نوجوانوں نے بنائی تھی جنھیں ولایتی ادب سے دلچسپی تھی اور جو انگریزی میں افسانے، نظمیں اور ادبی مضامین لکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ جہاں تک مجھے علم ہے اس ادارے میں جمالیاتی حظ پر زیادہ زور دیا جاتا تھا۔ جب ہم ایک رائے کے ہو گئے تو یہ سوال اُٹھا کہ رشیدہ سے ڈنر پر چلنے کے لیے کون کہے گا۔ ہم تینوں اس کام سے جھجکتے تھے۔ وہاں منطق سے کام چلنے والا نہیں تھا۔ بہرحال محمود اور میں نے یہ ذمہ داری میزبان پر چھوڑ دی اور انھوں نے ایک خوفناک دھماکے کا خطرہ محسوس کرکے اپنی بیوی عصمت پر…! خیر وہ مرحلہ بھی کسی نہ کسی طرح طے ہو گیا اور ہم سب خوشی خوشی ڈنر پر گئے۔ ہماری خوش قسمتی سے دعوت میں بیس پچیس آدمی تھے۔ بڑے مجمع میں انسان کو اپنی پسند کے لوگوں سے ملنے اور بات کرنے کی آسانی زیادہ ہوتی ہے۔ جسٹس رشید اور ان کی بیگم نے بڑی شفقت سے ہم سے مل کر ہمیں چھوڑ دیا کہ ہم جس سے چاہیں ملیں۔ چنانچہ ہم اپنی طرح کے دوسرے نوجوانوں کے ساتھ مل جل گئے۔ میں نے تھوڑی ہی دیر میں محسوس کر لیا کہ لاہور کی ’’اونچی سوسائٹی‘‘ ہمارے لکھنؤ یا الہ آباد کی اونچی انگریزی تعلیم یافتہ سوسائٹی سے بعض باتوں میں زیادہ اونچی ہے۔ وہاں کے لوگ زیادہ صحت مند ہی نہیں بلکہ ہمارے یہاں کے مقابلے میں زیادہ اچھے سوٹ پہنے ہوئے تھے، اور زیادہ شان سے انگریزی بولتے تھے۔ ہمارے یہاں اس زمانہ میں اس قسم کے ڈنر پر کافی لوگ شیروانی پہنتے تھے۔ لیکن یہاں سب سوٹ پوش تھے۔ عورتیں ہمارے یہاں کے مقابلے میں اگر زیادہ خوبصورت نہیں تو زیادہ گوری چٹّی، زیادہ قیمتی ساڑیوں میں ملبوس اور زیادہ اسمارٹ نظر آتی تھیں۔ لیکن جسم، لباس، دولت، اور اطوار کے ظاہری فرق کو چھوڑکر اگر دیکھیں تو ذہنیتوں میں شاید ہی کوئی فرق ہو۔ وہ نوجوان جو آئی۔ سی۔ ایس یا اسی قسم کے اونچے افسر بن چکے تھے، ان کی ذہانت کے باوجود ان کا روحانی انجماد اور ان کی اخلاقی خود اطمینانی اگر اتنی دردناک نہ ہوتی تو مضحکہ خیز ہوتی۔ یہ نہیں تھا کہ قومی زندگی کے تیز اور تند دھارے ان سے آکر ٹکراتے نہیں تھے۔ آخر وہ یہیں کے تھے اور اسی زمین نے انھیں جنم دیا تھا۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ تھی کہ جب وہ اپنی چھوٹی چھوٹی انگریزی ساخت کی کشتیوں میں بیٹھ کر اس دھارے میں بہتے تھے تو وہ سمجھتے تھے کہ زندگی کا یہ دھارا اُن کی تفریح کے لیے بہہ رہا ہے اور وہ اس سے الگ کوئی چیز نہیں، اور نہ انھیں اپنے بھرے وطن میں اپنی تنہائی اور بیچارگی کا احساس تھا۔ پھر وہ نوجوان بھی تھے جن کو ابھی یہ رنگین کشتیاں نہیں ملی تھیں۔ وہ حسرت بھری حاسدانہ نظروں سے کنارے پر کھڑے ہوکر ان ’’خوش قسمتوں‘‘ کی طرف دیکھتے اور خشکی پر کھڑے ہونے کے باوجود ان کی نقالی کرتے جو دریا میں بے فکری سے سیرکر رہے تھے۔ اس سوسائٹی کے بزرگ خاص طور پر مائیں، دریا کی اس مخلوق کو اپنی بن بیاہی لڑکیوں کے واسطے پھنسانے کے لیے کنارے پر مستقل طور سے شست لگائے بیٹھی رہتیں۔ حالانکہ سب ان حرکتوں کو سمجھتے تھے لیکن شاید عام ضرورت کے احساس سے مجبور ہوکر، باہمی رضامندی سے اس ونایت اور بردہ فروشی کو ’’روشن خیالی‘‘ اور ’’جدید تہذیب‘‘ کا نام دے دیا گیا تھا۔ اس رات میاں بشیر احمد سے میری پہلی ملاقات ہوئی۔ میاں بشیر علم و ادب میں خاصہ شغف رکھتے ہیں۔ ان کے رسالے ’’ہمایوں‘‘ نے اُردو ادب میں ان کی باقاعدگی اور ادب نوازی کے سبب سے اپنے لیے ایک خاص مقام پیدا کر لیا تھا۔ میاں صاحب سے ملنے اور گفتگو کرنے سے (جس کی بعد میں بھی مجھے کئی بار سعادت نصیب ہوئی) یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کے مزاج میں اعتدال اور توازن سکون کی حد تک پہنچا ہوا ہے، اور وہ ادب ہو یا سیاست یا سماجی مسائل… ان کو ہر ممکن طریقے اور زاویے سے، اتنی باریکی سے اور اتنی بار دیکھتے ہیں کہ اکثر وہ اپنے کو اور اپنے مخاطب کو مختلف النوع دلائل و براہین کے جال میں پھنسا کر ایسے مقام پر پہنچا دیتے ہیں جہاں پر ہر قسم کی حرکت اور ترقی کی راہ جیسے کھو جاتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مطالعہ اور فکر کی کثرت نے ان کے کردار میں تازگی اور تنوع نہیں بلکہ بے بسی اور انفعال کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ شاید اپنے نفس کو اس منفعل حالت سے چھڑانے کے لیے رد عمل کے طور پر انھوں نے بعد کو گھبراکر مسلم لیگ کی ہیجانی، جبلی اور عقل و فہم سے مبرا سیاست کا دامن پکڑ لیا۔ لیکن ظاہر ہے کہ فرقہ پرست سیاست کی فضا میں ان کی ’’خودی‘‘ کو زیادہ دیر تک تسکین نہیں ملی اور بالآخر وہ پھر لارنس روڈ کی سرسبز شادابیوں اور اپنے بھرے کتب خانے کی الماریوں میں گم ہو گئے۔ اس کے بعد کے چند دن فیض احمد کی رہنمائی میں لاہور کے مختلف ادیبوں سے ان کے گھر جاکر ملنے میں گزرے۔ لیکن افسوس ہے کہ اب ان میں سے مجھے صرف دو سے ملنا صاف طور پر یاد ہے۔ ایک صوفی غلام مصطفی تبسم اور دوسرے اختر شیرانی مرحوم۔ فیض شاید صوفی صاحب کے شاگرد رہ چکے تھے۔ اس لیے وہ انھیں بہت اچھی طرح جانتے تھے، اور غالباً رشیدہ اور محمود بھی فیض کے توسل سے ان سے پہلے سے واقف تھے۔ صوفی صاحب سے ملنے پر پہلی بات یہ محسوس ہوتی ہے کہ ان کا تخلص بہت مناسب ہے۔ ان کے مزاج میں ایسی دلکش قسم کی نرمی ہے، اور ان کا لہجہ اور انداز کچھ ایسا متبسم ہے کہ ان سے ملنے کے ذرا ہی دیر بعد ان سے بے تکلف ہو جانے کو جی چاہتا ہے۔ وہ انسان کو ناقدانہ نقطۂ نظر سے دیکھ کر اسے پرکھنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے وہ اس کے دل کی بات سننے کے لیے تیار بیٹھے ہیں، اور اس کی خوشی پر مسکرانے اور دکھ پر چپکے سے دو آنسو بہانے کے بعد کہنے والے ہیں کہ… ’’دوست! اب تم یہیں میرے ساتھ رہ جائو۔ میرے گھر میں دو چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں اور کھانا بھی جو کچھ روکھا سوکھا ہے، حاضر ہے۔ ساتھ رہیں گے تو غم غلط ہوگا، اور زندگی کا بوجھ شاید ہلکا ہو جائے۔‘‘ مجھے یہ آج تک معلوم نہیں ہوا کہ صوفی غلام مصطفی تبسم ترقی پسند کتنے ہیں۔ انھیں سیاست سے دلچسپی نہیں کے برابر ہے۔ لیکن مجھے یہ معلوم ہے کہ ان کے ادبی ذوق اور ان کے دردمند دل کے طفیل پنجاب میں ترقی پسند ادب کی تحریک کو اپنے بالکل ابتدائی مراحل میں اتنی زیادہ مدد ملی جتنی شاید کسی دوسرے ایک شخص سے نہیں ملی۔ شاید یہ ایک فطری بات تھی کہ جب رشیدجہاں اور صوفی صاحب ملے، تو اس کے باوجود کہ دونوں کے مزاجوں میں بڑا فرق تھا، دونوں کو ایک دوسرے سے حقیقی اُنس ہو گیا۔ رشیدہ کے مزاج میں ایک قسم کی تندی تھی… اور سچی بات چاہے کتنی کڑوی کیوں نہ ہو، اگر ان کی سمجھ میں آجاتی تھی تو وہ کسی کا لحاظ کیے بغیر کہہ گزرتی تھیں۔ اس کے برخلاف صوفی صاحب اس قدر زیادہ مہذب واقع ہوئے ہیں کہ اگر انھیں ذرا بھی گمان ہو کہ ان کی بات سے کسی کا دِل دُکھے گا، تو ضرورت پڑنے پر بھی بولنے سے گریز کر جائیں گے اور دل کی دل میں رکھیں گے۔ پھر بھی ان دونوں کی آپس میں خوب بنتی تھی۔ اختر شیرانی کے یہاں مجھے فیض لے گئے۔ ان کا مکان پُرانے لاہور کی ایک گلی میں تھا۔ ویسی ہی تنگ و تاریک گلی، جیسے پُرانی دہلی اور پُرانے لکھنؤ میں بھی ہت ہیں۔ ہم صبح کو کوئی آٹھ نو بجے کے قریب وہاں گئے تھے۔ اس لیے دھوپ اگر وہاں پہنچتی بھی تھی تو اس وقت تک نہیں پہنچی تھی۔ اختر صاحب کا کمرہ اوپر کوٹھے پر تھا۔ اندھیرے زینے پر ٹٹولتے ٹٹولتے ہم جب اوپر پہنچے تو اختر صاحب کے کمرے کو ہم نے کچھ زیادہ روشن نہیں پایا۔ بے ترتیبی سے چاروں طرف چیزیں بکھری تھیں۔ کاغذوں، کتابوں، اور کرسیوں کے ہتھوں پر مٹی کی تہیں جمی ہوئی تھیں۔ میلے کپڑے اِدھر اُدھر پڑے تھے۔ جوٹھی چائے کی پیالیاں اور صبح کے ناشتے کے برتن ابھی تک یوں ہی ایک طرف کو رکھے تھے اور اس پراگندگی اور کثافت کے درمیان ہمارا وہ محبوب رومانوی شاعر، سلمیٰ کا خالق، حسن کا پرستار، جس کے شعروں نے کتنے ہی نوجوان دلوں میں محبت کی ایک نئی چاشنی پیدا کی ہوگی، ایک پُرانی سی لکڑی کی کرسی پر تہمد باندھے سَرنِگوں بیٹھا تھا۔ اس سارے ماحول سے اگر ایک طرف اختر کے مزاج کی آشفتگی ظاہر ہوتی تھی تو دوسری طرف معاشی تنگی بھی ٹپکی پڑتی تھی۔ اختر شیرانی کو ان حالات میں دیکھ کر میرے دل کو بڑا دُکھ ہوا۔ میں نے پریشان ہوکر فیض کی طرف دیکھا۔ ان کے چہرے پر ہمدردی اور سکون کی ملی جلی کیفیت تھی اور زبان سے کچھ بولے بغیر جیسے انھوں نے مجھ سے کہہ دیا کہ ’’ایک اختر شیرانی ہی نہیں، ہمارے زیادہ تر ادیب، شاعر، اہل علم و فن انھیں روح فرسا حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جبھی تو ہم اپنی اس تحریک کو شروع کر رہے ہیں۔‘‘ فیض نے اختر شیرانی سے میرا تعارف کروایا اور ان سے ملنے کا مقصد بتایا۔ میں نے مختصراً ترقی پسند ادب کی مجوزہ تحریک کے بارے میں ان سے کچھ باتیں کیں۔ وہ چپ سنتے رہے۔ کچھ اِدھر اُدھر کی باتیں پوچھیں۔ ہمیں کسی قدر یہ محسوس ہوا کہ شاید ہم اس تحریک کے متعلق ان میں انہماک پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ وہ ہماری باتوں سے اتفاق تو ظاہر کرتے تھے لیکن جیسے وہ کسی اور فکر میں غرق ہوں۔ بہرحال انھوں نے ہمارے مینی فیسٹو کو غور سے پڑھا اور اس کے بعد ہماری درخواست پر فوراً ہی مسکراکر دستخط بھی کر دیے۔ دو تین دن کی دوأ و دوش کے بعد جس میں اب میاں افتخار الدین بھی ہمارے ساتھ پورے جوش و خروش سے شریک ہوئے تھے، ہم نے ان پندرہ بیس آدمیوں کو، جنھیں ہم سمجھتے تھے کہ ترقی پسند مصنّفین کی تحریک میں دلچسپی لیںگے، ایک ساتھ مل کر گفتگو اور مشورے کے لیے مدعو کیا۔ یہ اجتماع افتخار کے ہی گھر پر ہوا۔ ان کے مکان کے سامنے کے خوبصورت لان پر چار بجے کے قریب ایک ایک دو دو کرکے لوگ جمع ہونا شروع ہوئے۔ رشیدہ، محمود، افتخار، فیض، اور میں پہلے سے وہاں موجود تھے۔ افتخار میزبان ہونے کے ناطے چائے وغیرہ کے انتظام کے لیے اپنے نوکروں کو اِدھر اُدھر بھگا رہے تھے۔ ہماری گھبراہٹ بھی کچھ کم نہیں تھی۔ جس کا اظہار اُس وقت ہماری غیرمعمولی خموشی سے ہو رہا تھا۔ فیض حسب دستور بظاہر اطمینان سے سگریٹ پی رہے تھے اور ان کے اس اطمینان پر رشیدہ تو رشیدہ، مجھے بھی، جو اپنے کو کافی ٹھنڈے دل و دماغ کا انسان تصور کرتا ہوں، کسی قدر غصہ سا آرہا تھا۔ لیکن ہم سب نے اپنے جذبات کو اس وقت دبائے رکھا اور اگر باتیں کیں تو اِرد گرد کے رنگ برنگے بڑے بڑے حسین گلِ دائودی کے متعلق، جو جاڑوں کی معتدل دُھوپ اور گہرے سایوں میں بہار کے نقیب بنے ہمیں چاروں طرف سے گھیرے میں لیے تھے۔ اس دن ہم نے چائے جلدی جلدی پی۔ اب کل ملاکر وہاں پر کوئی پندرہ بیس آدمی جمع ہو گئے تھے۔ ان میں عبدالمجید سالک تھے اور چراغ حسرت، میاں بشیر احمد تھے، اور صوفی غلام مصطفیٰ تبسم، فیروز دین منصور تھے اور رشید (جو پاکستان ریڈیو میں کام کرتے ہیں)۔ ان کے علاوہ چند اور نوجوان ادیب تھے جن کے نام اب مجھے یاد نہیں۔ چائے کے بعد یہ مجمع ایک حلقہ بناکر کرسیوں پر بیٹھ گیا، اور شاید جلسے کی کارروائی شروع کرنے کی مشکل ذمہ داری مجھ غریب کے سر پڑی۔ میں نے لکنت آمیز لہجے میں ترقی پسند ادب کی تحریک کے متعلق اس وقت تک جو کچھ ہوا تھا وہ بیان کیا۔ کچھ بین الاقوامی حالات، کچھ جدید یورپین ادب کے ترقی پسند رجحانات۔ لندن میں جب ہم تھے تو کیا سوچتے تھے۔ اس کے بعد پھر منشی پریم چند، جوش، مولوی عبدالحق، قاضی عبدالغفار، ڈاکٹر عابد حسین وغیرہ کا اس تحریک سے موافقت کا اظہار، بنگال اور بمبئی میں ہماری کوششیں… پھر میں نے مینی فیسٹو پڑھ کر سنایا (جسے اس مجمع میں شریک ہونے والے اکثر صاحبان پہلے ہی پڑھ چکے تھے)۔ اس کے فوراً بعد ہی اس مینی فیسٹو پر عام بحث شروع ہو گئی اور حاضرین نے مجھ سے بہت سے سوال کیے۔ اس مختصر سے پہلے اجتماع میں جو سوال اُٹھائے گئے تھے، بعد میں بالکل وہی سوال ترقی پسند تحریک میں بہت بڑی اہمیت اختیار کر گئے اور ان پر برسوں بحثیں ہوئیں اور آج بھی جاری ہیں۔ مثلاً ہمارے مینی فیسٹو میں یہ تھا کہ ترقی پسند ادیب کے لیے وطن کی آزادی کی حمایت کرنا ضروری ہے۔ سوال یہ تھا کہ کیا اس کے یہ معنی ہیں کہ ادیب آزادی کی سیاسی تحریکوں میں حصہ لے؟ اور اگر وہ ایسا کرے تو پھر ایک سرکاری ملازم کے لیے اس تحریک میں حصہ لینا ناممکن ہو جائے گا۔ کیا ایسا کرکے ہم اپنے دائرے کو محدود نہیں کر رہے ہیں اور حکومت سے خواہ مخواہ دشمنی نہیں مول لے رہے ہیں؟ ایک اور سوال تھا کہ قدیم کلاسیکی ادب کی طرف ہمارا کیا رویہ ہوگا؟ عاشقانہ یا غنائیہ شاعری کو ہم کس زُمرے میں رکھتے ہیں؟ رشید صاحب نے شاید یہ سوال اُٹھایا کہ غالب یا شیکسپیئر کیا ہیں؟ ترقی پسند انھیں کیا سمجھتے ہیں؟ میاں بشیر نے شاید پوچھا تھا کہ کیا ترقی پسند ادیب کے لیے کمیونسٹ یا سوشلسٹ ہونا ضروری ہے؟ کسی نے کہا کہ ہم کہتے ہیں کہ ہم جدید ادب میں عوام یا مزدوروں اور کسانوں کی زندگی کا نقشہ کھینچنے کی کوشش کرنے کو کہتے ہیں اور اس طرح ادب کے دامن کو وسیع کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ہم جو زبان استعمال کرتے ہیں وہ عام لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی۔ مذہب کی طرف ہمارا کیا رویہ ہوگا؟ ہم نے اپنے مینی فیسٹو میں کہا ہے کہ ہم توہم پرستی کی مخالفت کریں گے اور عقلیت کی ترویج۔ اس سے ہماری کیا مراد ہے؟ ان میں سے کئی سوالوں کا جواب قطعی طور پر دینا مشکل تھا۔ میری جو کچھ سمجھ میں آیا میں نے کہا۔ باقی لوگوں نے بھی ان باتوں پر اظہار خیال کیا اور بہت سی باتیں صاف ہوئیں۔ ہمارا مقصد ہی یہ تھا کہ ہم وسیع لیکن واضح مقاصد کی بنیاد پر ملک کے تمام ادیبوں کو، جو اِن مقاصد سے متفق ہوں، ایک ایسی تنظیم میں جمع کریں جس میں پوری آزادی کے ساتھ یہ تمام سوال اُٹھائے جائیں۔ ان پر بحث ہو اور اس کے جواب دیے جائیں۔ اس وقت ہمارا پہلا فرض یہ تھا کہ ہم ان واضح مقاصد کو دریافت کر لیں جن کی بنیاد پر مختلف خیال و فکر کے ادیب ایک تنظیم میں متحد کیے جاسکتے تھے۔ خوش قسمتی سے ہمارا اعلان نامہ بڑی حد تک ان مشترک مقاصد کا اظہار کرتا تھا، جن کی بنیاد پر اور بہت سی باتوں میں اختلاف رکھنے والے ادیب متحد ہو سکتے تھے۔ ان باتوں پر بڑی دیر تک بحث رہی جس میں سب نے حصہ لیا۔ میرا خیال ہے کہ اس نقطۂ نظر سے کسی نے اختلاف نہیں کیا۔ وہاں پر جتنے صاحبان موجود تھے، ان میں سے اکثر نے مینی فیسٹوسے اتفاق کا اظہار کیا اور اس پر دستخط بھی کیے۔ اب یہ تجویز پیش کی گئی کہ لاہور میں انجمن کی تشکیل کی جائے۔ فیض نے تجویز کی کہ صوفی تبسم کو اس وقت عارضی طور پر انجمن کا سکریٹری چُن لیا جائے۔ جب انجمن کے ممبر بن جائیں گے تو اس کے بعد باقاعدہ عہدہ داروں کا انتخاب ہوگا۔ یہ بات اتفاق رائے سے منظور ہوئی۔ صوفی صاحب نے پہلے انکار کیا لیکن بعد کو اصرار کرنے پر راضی ہو گئے۔ اس چھوٹے سے جلسے کے ختم ہوتے ہوتے سورج ڈوب چکا تھا۔ سردی یکبارگی بڑھ گئی۔ لوگ جلدی جلدی رُخصت ہونے لگے۔ ہم خوش اور مطمئن تھے۔ رشیدہ فیض کو چھیڑ رہی تھیں۔ اب وہ حضرت بھی کسی قدر پگھلے اور بولنے چالنے پر رضامند سے معلوم ہو رہے تھے۔ لیکن ہم میں سے کسی کو بھی یہ وہم و گمان نہیں تھا کہ لاہور کی ادب پرور سرزمین پر یہ وہ پہلا لغزیدہ قدم ہے، جو بعد میں اُردو ادب کے کھلیان میں سنہرے خوشوں کا اتنا بڑا انبار لگا دے گا۔ چند سال کے اندر اندر یہیں سے کرشن چندر، فیض، بیدی، احمد ندیم قاسمی، میرزا ادیب، ظہیر کاشمیری، ساحر، فکر، عارف، رہبر، اشک، وغیرہ جیسے شاعروں اور ادیبوں نے ترقی پسند ادب کے علم کو اتنا اونچا کیا کہ اس کی درخشاں بلندیاں ہمارے وطن کے دوسرے حصے کے ادیبوں کے لیے قابل رشک بن گئیں۔ |
|