Aziz Ahmed – عزیز احمد
Birth— 1914
|
پروفیسرعزیز احمد (پیدائش: ۱۱ نومبر، ۱۹۱۴ء – وفات: ۱۶ دسمبر ، ۱۹۷۸ء) اردو کے مشہور ترقی پسند افسانہ نگار، ناول نگار اور پروفیسر تھے۔ عزیز احمد نے ۱۹۳۴ میں عثمانیہ یونیورسٹی، حیدرآباد ، دکن سے بیچلر آف آرٹ کیا اور وه یونیورسٹی سے اول آے_ اس کے بعد وہ ایک سرکاری اسکالر شپ پر لندن چلے گئے اور انگریزی ادب میں بی اے آنرز (۱۹۳۸) کی ڈگری حاصل کی_ انگلینڈ سے واپسی پر انہوں نےعثمانیہ یونیورسٹی میں انگریزی کے ڈیپارٹمنٹ میں لیکچر (۱۹۳۸ء۱۹۴۱) کے طور شمولیت اختیار کی- ۱۹۴۸ ء میں انھوں نے پاکستان ہجرت کی- وہ ۱۹۵۳ میں حکومت کے محکمہ ایڈورٹائزنگ، فلموں اور مطبوعات کی میں شمولیت اختیار کی اس کے ڈائریکٹر بنے_ ۱۹۵۳ میں وہ اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز لندن سکول میں اردو پڑھانے کے لئے لندن چلے گئے اور ۱۹۶۲ تک وہاں رہے – ۱۹۶۲ میں وه کینیڈا پہنچے ء وہاں ٹورنٹو یونیورسٹی میں اسلامک اسٹڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے کام شروع کیا – ۱۹۶۸ میں انھیں مکمل پروفیسر کے طور پر ترقی دی گئی – ان کے علمی اور تحقیقاتی کاموں کے اعزازمیں انہیں کینیڈا کی رائل سوسائٹی کا فیلو بنایا گیا . ۱۹۷۲ میں انھیں یونیورسٹی آف لندن کی طرف ڈی لِٹ کی اعزازی ڈگری موصول ہوئی- عزیز احمد کئی زبانیں جانتے تھے۔ اردو، فارسی ،انگریزی فرانسیسی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ جبکہ ترکی، اطالوی اور جرمن زبانوں میں گفتگو کر لیتے تھے۔ آخری عمر میں نارویجن زبان سیکھ رہے تھے- عزیز احمد کی پہلی تنقیدی تصنیف ”ترقی پسند ادب ‘‘ہے۔عمر کے آخری ایامّ کینیڈا میں ہی گذرے،۱۶ دسمبر ۱۹۷۸ء کو وہیں انتقال ہوا۔ گو کہ انھیں زندگی میں افسانہ نگار کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا، عزیز احمد ایک قابل ذکر افسانہ نگار بھی تھے ممتاز شیریں، قرة العین حیدر، جمیل جالبی اور شہزاد منظر جیسے ان کی افسانہ نگاری کے معترف تھے – ان کے دو مختصر کہانی مجموعے “رقصِ ںاتامام” اور “بیکار دن اور بیکار راتیں” سگمنڈ فرایڈ اور ڈی ایچ لارنس کے گہرے مطالعہ کا نتیجہ ہیں _ تاریخ کی پیچیدہ تبدیلیوں کو سمجھنے اور تحریر کرنے کے لیے عزیز احمد کی بت شکن تحریر ہی ضروری تھی _ عمومی طور پر عزیز احمد کے ناولوں میں( جو کہ 1930 اور 1940 کی دہائیوں میں پاکستان بننے سے پہلے حیدرآباد دکن میں لکھے گئے) جاگیرداری نظام اور سماجی ناہمواری اور طبقاتی درجہ بندی کی کڑی تنقید ملتی ہے۔ یہ وہی سسٹم کی خرابیاں ہیں جن کی وجہ سے معاشرے کے کمزور، مظلوم طبقوں پر ایک ذلّت آمیز اور غیر انسانی استحصال اور معیشی جبر مسلّط کیا جاتا چلا آ رہا ہے۔ ۔ ۔ اُن کے عظیم اردو ناولوں میں گریز، ایسی بلندی ایسی پستی، آگ، ہوس اور شبنم سرِ فہرست ہیں۔ اپنے ناول آگ میں جو کہ 1946 میں چھپا عزیز احمد نے 1907 سے لے کر 1942 کے کشمیری معاشرے کی ایک حقیقت پسندانہ تصویر پیش کی ہے جو کہ تین نسلوں پر محیط ہے۔ ایسی بلندی ایسی پستی میں انہوں نے جاگیرداروں اور نوابوں کی معاشرت پر مبنی ایک داستان سُنائی ہے جہاں فرد کی زندگی کا المیہ معاشرے کے زوال کا آئینہ دار ہے۔ ایک نقاد کی حیثیت سے عزیز احمد کی کتاب ترقی پسند ادب (۱۹۴۶)، اس تحریک کا اردو ادب میں تنقیدی جایزه ہے _ اور اسے اس موضوع پر چند مستند کتابوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے. “اقبال نئی تشکیل” اقبالیات پر ایک انتہائی اہم کتاب ہے. عزیز احمد نے ایک مترجم کی حیثیت سے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا. طالب علمی میں کپلنگ کی ایک مختصر کہانی کا ترجمہ کیا اور ںیرنگِ خیال میں شائع کیا گیا. ان کے دیگر ترجموں میں دانتے، ابسن، شیکسپیئر، ہیرلڈ لیمب، گارچن دی طاسسی اور ارسطو کی کی کتابیں شامل ہیں. بذاتِ خود ایک شاعر تھے، اور آل احمد رسول کے تعاون سے ۱۹۴۲.۱۹۱۴ اردو شاعری کا انتخاب شایع کیا یہ ۴ ایڈیشنوں میں شایع ہو چکا ہے. مغربی ممالک میں ان کی شہرت کی بڑی وجہ ان کا تاریخی اور علمی نوعیت کا کام ہے جو کہ انھوں نے ٹورنٹو یونیورسٹی میں اپنےقیام کےدور میں کیا . اس میں ہندستانی ماحول میں اسلامی ثقافت کا مطالعہ (۱۹۶۴)، ہندستان اور پاکستان میں اسلامی جدیدیت (۱۸۵۷.۱۹۶۸)، ہندستان میں اسلامی خیال اور دانشوری کی تاریخ (۱۹۶۹) شامل ہیں. سسلی میں اسلامی تاریخ (۱۹۷۹) جس کے لئے انھیں اطالوی حکومت کی طرف سےعزاز دیا گیا. کینیڈا میں عزیز احمد نے اپنی اردو ادبی اور سماجی سرگرمیاں جاری رکھیں. اپنی رہائش گاہ پر ادبی اجتماعات کا انعقاد ہوتا رہتا ، ٹورنٹو میں کینسر سے وفات سے کچھ پہلے ٹورنٹومیں فیض احمد فیض انہوں نے کے اعزاز میں جلسہ کہ وہ ، پاکستان سے افسانوی قد کے ایک لینن انعام یافتہ کے اعزاز میں منعقد تقریب میں ایک شاندار تقریر کی. یہ ان کی آخری ادبی محفل ثابت ہوئی. کینیڈا میں ان کی موجودگی اردو ادب کے کیٹیلسٹ ایجنٹ کی رہی. Panch Novelette – ۵ ناولٹ
|