دہلی کے بھانڈ اور طوائفیں – شاہد احمد دہلوی
شاہی اور شہر آبادی کا تو ذکر ہی کیا۔ اب سے چالیس پچاس پہلے پہلے تک دلّی میں ایک سے ایک منچلا رئیس تھا۔ ریاست تو خیر باپ دادا کے ساتھ1857ءمیں ختم ہو گئی تھی مگر فرنگی سرکار سے جو گزارہ انہیں ملتا تھا۔ اس میں بھی ان کے ٹھاٹ باٹ دیکھنے کے لائق تھے۔ انہیں میں سے ایک بگڑے دل رئیس تھے جو اپنی شاہ خرچیوں کی وجہ سے نواب صاحب کہلانے لگے تھے۔ انہیں نت نئی سوجھتی تھی۔ قمری مہینے کی چودھویں رات کو اِن کے ہاں شب ِ ماہ منائی جاتی تھی۔ کبھی بیت بازی ہوتی، کبھی مشاعرہ ہوتا، کبھی تاش، پچیسی اور شطرنج کی بازیاں ہوتیں۔ کبھی میر باقر علی داستان گو طلسم ہو شربا کی داستان سناتے۔ کبھی گانے بجانے کی محفل ہوتی اور کبھی ناچ نرت کی سبھا جمتی۔ رات کو کھانا سب نواب صاحب ہی کے ہاں کھاتے۔ نواب صاحب کھانے کے شوقین تھے، ایک آدھ چیز خود بھی پکاتے تھے اور دوستوں کو کھلا کر خوش ہوتے تھے۔ دیوان خانے میں کھانے سے فارغ ہونے کے بعد کھلی چھت پر سب آگئے۔ دری چاندنی کا فرش ہے۔ چاروں طرف گاﺅں تکیے لگے ہوئے ہےں، مہمان ان کے سہارے ہو بیٹھے۔ حقے اور پیچوان لگ گئے۔ خمیرے کی لپٹیں آنے لگیں۔ گلاب پاش سے گلاب چھڑکا گیا، موتیا کے گجرے سے کنٹھے گلوں میں ڈالے گئے۔ چنگیروں میں چنبیلی کے پھول اور عطر میں بھیگی ہوئی روئی رکھی ہے۔ چاندنی کے خاصدانوں میں لال قند کی صافیوں میں دیسی پان کی گلوریاں رکھی ہےں۔ چوگھڑا الائچیاں، زردہ اور قوام علیحدہ رکھا ہے۔ پان کھائے گئے، حقے کے کش لگائے گئے، آپس میں بولیاں ٹھولیاں ہوئیں، آوازے توازے کئے گئے، ضلع جگت اور پھبتی بازی ہوئی۔ اِتنے میں چاند نے کھبت کیا۔ چاند کے چڑھنے تک یونہی خوش گپیاں اور نوک جھونک ہوتی رہی۔
جب چاندنی خوب پھیل گئی تو نواب صاحب نے میر گلو کی طرف دیکھا۔ یہ میر گلو دیوان خانے کے مختار کل تھے۔ تمام انتظامات میرگلو ہی کیا کرتے تھے۔ نواب صاحب نے کہا۔
”کیوں صاحب، کیا دیر دار ہے؟“
میرگلو نے کہا ”حضور! حکم کا انتظار ہے۔“
وہ بولے ”تو شروع کرو۔“
پہلو کے کمرے سے سبز رنگ کی پشواز پہنے ایک اُجلے رنگ کی حسین عورت خراماں خراماں آکر سینے پر دونوں ہاتھ رکھ کر کھڑی ہو گئی۔ محفل پر اُس نے ایک نظر ڈالی اور پھر نہایت ادب سے مجرا عرض کیا۔ اوہو! یہ توموتی بھانڈ ہے! پیچھے دو سارنگی والے، ایک طبلہ نواز اور ایک مجرے والا، اُجلی پوشاک پہنے آکھڑے ہوئے۔ طبلے پر تھاپ پڑی، سارنگیوں پر لہرا شروع ہوا، طبلہ نواز نے پیش کا رنگایا، موتی بھانڈ نے گت بھری تو یہ معلوم ہوا کہ اندر کے اکھاڑے کی پری اُتر آئی۔ چکر دار گت ختم ہوئی تو سب کے منھ سے ایک زبان ہو کر نکلا ”سبحان اللہ!“ موتی بھانڈ نے تسلیمات عرض کی۔ کوئی ایک گھنٹے تک کتھک ناچ کے مشکل توڑے سنائے، پھر لئے کی تقسیم ایک سے سولتک دکھائی، آخری میں تتکار کا کمال دکھایا۔ سب نے جی کھول کر داد دی۔ واقع میں موتی بھانڈ نے اپنے فن میں کمال حاصل کیا تھا۔ اور جب اُس نے مور کا ناچ دکھایا تو اس کے تھرکنے پر محفل لوٹ گئی۔ نواب صاحب نے ناچ ختم ہونے پر اُسے بلایا اور کہا۔
”موتی، تم پر یہ فن ختم ہے۔ مور کا ناچ سبھی ناچتے ہیں مگر جس سلسلے سے تم ناچتے ہو یہ اور کسی کے بس کی بات نہیں۔ بالخصوص ناچتے ناچتے جب مور اپنے پیروں کو دیکھتا ہے اور اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں، اس کیفیت کو جس خوبی اور سچائی سے تم ادا کرتے ہو بس یہ تمہارا ہی حصہ ہے۔
نواب صاحب نے یہ کہہ کر ایک اشرفی اور چند روپے انعام دیے۔ موتی بھانڈ نے انعام لے کر مودبانہ تین سلام کئے اور ہاتھ جوڑ کر کہا۔
”حضور کی ذرّہ نوازی اور فن کی قدر دانی ہے کہ اس غلام کو یوں سراہتے ہیں
۔ ورنہ میں کیا میری بساط کیا؟ میں آنم کہ من دائم۔“
یہ شائستگی اور علم مجلسی دلّی کے فنکاروں میں اب سے نصف صدی پہلے تک موجود تھا۔ جب فنکار اور فن کی ناقدری ہونے لگی تو فنکار کا وقار اور فن کا اعزاز جاتا رہا۔ موتی کے بعد دلّی میں زری اور کلّن جیسے بھانڈ رہ گئے تھے جو بھنڈیلوں اور نقالوں کے سہارے زندہ تھے، اور کمینوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ جس زمانے میں گانے بجانے کو عیب نہیں ہنر سمجھا جاتا تھا۔ دلّی کے شرفا اِسے فن کی حیثیت سے سیکھتے تھے۔ دلّی میں اچھے استادوں کی کمی نہیں تھی۔ کوئی ستار سیکھتا، کوئی طبلہ، کسی کو گانے کا شوق ہوتا تو راگ راگنیاں سیکھتا اور کسب و ریاض سے اِس علم و فن میں اتنی مہارت حاصل کرلیتا کہ پیشہ ور بھی اس کا لوہا ماننے لگتے۔
گانے بجانے کے سلسلے میں دلّی کی ڈیرہ دار طوائفوں کا مختصر سا تذکرہ بے جا نہ ہوگا۔ نئی تانتی اب سے پچاس سال پہلے کی طوائفوں کا صحیح تصور بھی نہیں کرسکتی۔ ڈیرہ دار طوائفیں پیشہ نہیں کماتی تھیں اور نہ عام طوائفوں کی طرح مجرے کرتی تھیں۔ ان کے ٹھکانے دراصل تہذیبی ادارے ہوتے تھے جن میں تمیز، اخلاق اور شائستگی سکھائی جاتی تھی۔ ہر کس و ناکس ان کے ہاں جا بھی نہیں سکتا تھا۔ یہ ہمارے ہوش سے پہلے کی بات ہے کہ شرفاءان کے ہاں اپنے بچوں کو تہذیب سیکھنے کےلئے بھیجا کرتے تھے۔ دوانی جان اور چونی جان کی یادگار موتی جان اور نوشابہ جان البتہ1947ءتک دلّی میں موجود تھیں جو نہایت مہذب مشہور تھیں۔ دوانی جان وہی تھیں جن کے بارے میں توتلے شہزادے مرزا چپاتی نے یہ شعر کہا تھا
دھستے دھستے ہو دئی اتنی ملت
تھات پیسے تی دوانی رہ دئی
یعنی
گھستے گھستے ہو گئی اتنی ملٹ
سات پیسے کی دوانی رہ گئی
نوشابہ جان کا نام گانے اور ناچنے میں بھی نکلا ہوا تھا۔د لّی کے گنے چنے شرفا کے گھرانوں میں جایا کرتی تھیں اور اپنے کمال فن کا مظاہرہ کرتی تھیں۔ شعر بھی کہتی تھیں۔ دلّی کی بیگماتی زبان بولتی تھیں۔ بولی ٹھولی اور ضلع جگت میں بھی نہیں چوکتی تھیں۔ اگر کبھی باہر سے قابل تکریم فنکار شہر میں آتے تو اُن کی دعورت کرتیں، سوپچاس شرفا کو بلاتیں۔ پہلے دسترخوان بچھایا جاتا، عمدہ کھانا کھلایا جاتا۔ اس کے بعد پان، سگریٹ سے تواضع ہوتی۔ سب گاﺅ تکیوں کے سہارے ہو بیٹھتے۔ فقرے بازی ہوتی، پھبتیاں کی جاتیں۔ کسی کو نقل محفل بنایا جاتا، یہ عموماً کوئی ثقہ بزرگ ہوتے۔ برجستہ شعر پڑھے جاتے، ہنسی مذاق کی باتیں ہوتیں، مگر کیا مجال جو ذرا بھی بیہودگی کسی سے ہو جائے۔
پھر بی جان کا اشارہ پاتے ہی سفر داد (سپٹردار) آگے آکر سب کو سلام کرتے۔ سارنگئے غلاف اُتار کر طربیں ملاتے، سازمل جاتے تو بی جان سامنے آکر بیٹھ جاتیں۔ دونوں سارنگئے دائیں بائیں ہو بیٹھتے۔ طبلہ نواز پیچھے بیٹھتا۔ پھر ایک خادم تانپورہ لاکر بی جان کے سامنے پیش کرتا۔ وہ پہلے دائیں کان کو چھوتیں، پھر تانپورہ سر کرنے لگتیں۔ سارنگیوں نے شدھ ٹھاٹ ملایا ہے۔ بی جان نے پنجم کا تانپورہ ملایا۔ جب چاروں تارمل گئے تو سب نے کہا۔ ماشاءاللہ، طبلے والے نے تھاپ دی۔ دونوں کی لو مل گئی۔ بی جان نے سب سے اجازت چاہی اور وقت کا راگ بہاگ الاپنا شروع کیا۔
نوشابہ جان شاہی گائک استاد تان رس خاں کے بیٹے استاد امراﺅ خاں کی شاگرد ہیں ۔ بھمیری آواز، دردودیوار سے سر برسنے لگے۔الاپ ختم کرکے ہلمپت خیال، کیسے سکھ سہوں ”چار دم کے تلواڑے میں گایا۔ سب نے ان کے دم سانس کی تعریف کی۔ اس کے بعد دُرت خیال ”اب رے لالن مئیکو“ تین تال میں سنایا۔ ایک تان آتی اور ایک جاتی۔ کسی نے مومن خاں کا شعرپڑھا
اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے ریپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو
بی جان آداب بجا لائیں بولیں۔ ”بزرگوں کا صدقہ ہے۔ یہ گائیکی خالص دلّی کی ہے۔ اگر اجازت ہو تو بادشاہ کی دو ایک بندشیں سناﺅں۔“
سامعین نے کہا۔ ”نیکی اور پوچھ پوچھ؟ ضرور سنائیے۔“
بی جان نے بہادر شاہ ظفر کا بنایا ہوا باگیسری بہار کا خیال سنایا۔
رُت بسنت میں اپنی اُمنگ سوں
پی ڈھونڈن میں نکسی گھر سوں
رُت بسنت میں….
ملے تو لال گروا لگا لوں
پاگ بند ہاﺅں پیلی سرسوں
رُت بسنت میں….
رنگ ہے سبزہ نرگی یاں کا
کہے شوق رنگ، رنگ ہے دا کا
اِن بھیدن کو کوئی نہ جانے
واقف ہوں میں دا کی جرسوں
رُت بسنت میں….
سب نے تعریف کی کہ واقع میں شوق رنگ کی بندشیں سب سے الگ ہیں ۔ بادشاہ موسیقی کے بھی بادشاہ تھے۔ ایک صاحب نے فرمائش کر دی کہ تان رس خاں کا درباری کا وہ ترانہ بھی سنا دیجئے جس سے انہوں نے کدو سنگھ پکھادجی کو نیچا دکھایا تھا۔ بی جان نے اپنے دادا استاد کا ترانہ ”تانا نانا نا بیا بیا، یارمن“ سنایا اور اتنا تیار کہ ساری محفل عش عشق کر اُٹھی۔
استادی گانے کے بعد ٹھمری اور دادرے کی فرمائش ہوئی۔ بی جان نے کھماچ کی ٹھمری شروع کی ”ناہیں پرت مئی کو چین“
ایک صاحب بولے۔ ”اگر زحمت نہ ہو تو بتائیے بھی۔“
اب جو بی جان نے اس کے بھاﺅ بتانے شروع کئے تو محفل تڑپ تڑپ اُٹھی۔ دادرا ”موری بندیا چمکن لاگی“ بھی اسی انداز سے گایا۔ آخر میں مرزا غالب کی غزل
دل سے تری نگاہ جگر تک اُترگئی
سنانی شروع کی۔ جب اس شعر پر پہنچیں
وہ بادئہ شبانہ کی سرمستیاں کہاں
اُٹھئے بس اب کہ لذت خوابِ سحر گئی
تو ایک بزرگ نے دونوں زانو پیٹ کر کہا ”ہے، ہے“
اور جب مقطع سنایا
مارا زمانے نے اسد اللہ خاں تمہیں
وہ ولولے کہاں، وہ جوانی کدھر گئی
تو اِن بزرگ کی حالت غیر ہو گئی۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور منہ پر رومال ڈال کر سسکیاں لینے لگے۔ انہیں دیکھ کر ساری محفل افسردہ ہو گئی۔
بی جان نے خادم کو اشارہ کیا ”چائے لاﺅ۔“ اور اپنی جگہ آکر بیٹھ گئیں۔ قریب بیٹھنے والوں نے کہا۔
”نوشابہ بائی، آج تو تم نے غضب کر دیا۔ کہتے ہیں کہ گانا چلتا ہوا جادو ہے۔ تم نے اس کہاوت کو سچ کر دکھایا۔“
بائی جی نے کہا۔
”یہ آپ لوگوں کا حسن سماعت اور اللہ کا کرم ہے۔“
خشک میوے اور تازہ پھلوں کے تھال آنے لگے۔ چائے آئی اور بی جان نے سب کو خود پیالیاں بنا بنا کر دیں۔ پھر وہیں قہقہے چہچہے شروع ہو گئے۔ رات گئے محفل برخاست ہوئی۔ یہ 1930ءکی ایک یادگار محفل تھی، جس کا نہایت مختصر آنکھوں دیکھا حال پیش کیاگیا۔
موتی جان پاکستان بننے کے بعد لاہور چلی آئیں۔ چند سال ہوئے ان کا انتقال ہو گیا۔ نوشابہ بائی دلّی ہی میں ہیں ۔ گوشہ گیری اور گمنامی کی زندگی بسر کر رہی ہیں ۔ جب دلّی اجڑ گئی تو اس کی محفلیں کیسے آباد رہتیں؟
اُن کے جانے سے یہ کیا ہو گئی گھر کی صورت
نہ وہ دیوار کی صورت ہے، نہ در کی صورت
مشہور گانے والیوں میں امیرجان پانی پت والی، کالی جان، کیٹی جان، شمشاد بائی، اللہ دی غازی آباد والی، نواب پتلی۔ مجیدن بائی اور کئی اونچے درجے کی گانے والیاں تھیں، جن کے ہاں شرفاءکی مخصوص نشستیں ہوتی تھیں۔ جب باہر بلائی جاتیں تو ہزار روپے روزآنہ پر جاتی تھیں اور آئے دن ریاستوں اور رئیسوں میں بلائی جاتی تھیں۔ یہی ان کے تمول کا راز تھا۔
ان میں سے دو ایک کو چھوڑ کر باقی سب شکل و صورت کے اعتبار سے واجبی واجبی ہی سے تھیں۔ مگر گانے کے وقت یہ معلوم ہوتا تھا کہ اندر کے اکھاڑے کی پریاں زمین پر اُتر آئی ہیں ۔ کیٹی جان کا رنگ کالا تھا مگر نور کا گلا پایا تھا۔ شامت ِ اعمال ایک دن سبز رنگ کی ساڑی پہنے لال کنویں سے گزیں تو ایک خندار نے آوازہ کسا:۔
”ابے شابو، دیکھ ریا ہے لو لگی کیری کو؟“
یہ پھبتی ایسی چپکی کہ چپک کر رہ گئی اور بی جان بھی اس پر جھوم گئیں۔