ناتمام
Hardcover: 150 page
|
محمد عاصم بٹ سے میرا پہلا رابطہ سہیل احمد خان کی وساطت سے ہوا تھا۔ میں سہیل سے کہتا رہتا تھا کہ اگر کوئی نوجوان اور ہونہار افسانہ نگار یا شاعر نظر آئے تو ضرور خبر دو تاکہ اسے ’’سویرا‘‘ میں شائع کیا جائے۔ ایک روز سہیل نے کہا کہ ایک نوجوان نے ایک دو اچھے افسانے لکھے ہیں۔ اس طرح محمد عاصم بٹ سے تعارف ہوا۔ خوشی اس بات کی ہے کہ سہیل نے اس کے جوہر کو پہچانا۔ اس سے بھی زیادہ خوش کن امر یہ ہے کہ عاصم نے، بطور ادیب، قدم آگے ہی بڑھایا۔ ایک مقام پر پہنچ کر ٹھیر نہیں گیا۔ ’’ناتمام‘‘ اس کا نیا ناول ہے۔ موضوع جانا پہچانا ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں، جہاں مردوں کو غیر معمولی اور بے جا بالادستی حاصل ہے، بے سہارا عورتوں کی روداد درد انگیز ہی ہو سکتی ہے۔ ناول کی مرکزی کردار صائمہ ہے۔ وہ ابھی چھوٹی تھی کہ باپ ایک حادثے میں ہلاک ہو گیا۔ ماں نے کسی نہ کسی طرح صائمہ کی بڑی بہن کو بیاہ دیا۔ لیکن ڈیڑھ دو سال بعد اسے طلاق ہو گئی اور وہ گھر لوٹ آئی۔ ماں صدمے اٹھا اٹھا کر، بیمار رہ کر، نیم اپاہج اور جنونی سی ہو چکی تھی۔گھر میں، جہاں کوئی مرد نہ تھا، ہر وقت تناؤ کی ایک کیفیت رہتی تھی۔بڑی بہن نے ایک سکول میں نوکری کر لی۔ ماں کی وفات کے بعد صائمہ تعلیم ادھوری چھوڑ کر ایک بیوٹی پارلر میں ملازم ہوگئی۔ محلے کے ایک لڑکے سے ناجائز تعلقات قائم ہوے جو راز نہ رہ سکے۔ لڑکا اسے چھوڑ کر چلتا بنا۔ صائمہ حاملہ ہو چکی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ابارشن کرانا پڑا۔ بڑی بہن سے نباہ ممکن نہ رہا۔ نرسنگ کا کورس کر کے پہلے ایک میٹرنٹی کلینک میں نرس بنی پھر ایک ہسپتال میں کام کرتی رہی۔ ہسپتال کے ڈاکٹر سے، جو شادی شدہ تھا، تعلقات ہو گئے۔ ڈاکٹر کی بیوی ایک امیر کبیر خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ شوہر اس سے دب کر رہتا تھا۔ ڈاکٹر سے معاشقے کا انجام بھی اچھا نہ ہوا۔ آخر صائمہ بالکل تنہا رہ گئی اور اسے اپنی زندگی بے معنی نظر آنے لگی۔ اسے واہموں نے گھیر لیا۔ ناول کے کرداروں میں وہی پراگندگی ہے جس میں پاکستان میں ہزاروں خاندان مبتلا ہیں۔ یوں تو مردوں کا عورتوں کی کم زور حیثیت سے فائدہ اٹھاتے رہنا روز مرہ کا ماجرا ہے۔ زیادہ دکھ اس کہانی میں یہ ہے کہ خود عورتیں بھی ایک دوسری کی زندگی اجیرن کرنے سے باز نہیں آتیں بلکہ بعض اوقات اپنی مفروضہ آزادانہ زندگی کی خاطر ازدواجی تعلقات کا ملیا میٹ کرنے سے بھی بالکل نہیں ہچکچاتیں۔ ناول کیا ہے مسلسل استحصال کا قصہ ہے جس میں خوشی کے لمحات اگر ہیں تو بہت تھوڑے اور روٹھے روٹھے سے جیسے خوشی کی رمق بھی گوارا نہ ہو۔ ناول کا اختتام ہنر مندی سے کیا گیا ہے۔ مرد زدہ معاشرے میں عورتوں کی جوتذلیل کی جاتی ہے اسے مہاتما بدھ کی بیوی کی بیچارگی اور رام چندر کے ہاتھوں سیتا کی درگت کے ذریعے سہارا دیا گیا ہے۔ اسطورے کی مدد سے ناول کا موضوع بہت پرانا بھی ہو جاتا ہے اور نیا بھی رہتا ہے۔ نثر میں جذباتیت قدرے زیادہ ہے۔ اگر اس کم زوری پر قابو پالیا جاتا تو بہتر ہوتا۔ ناول میں برتے گئے بہت سے الفاظ نامانوس معلوم ہوں گے۔ لیکن اس سے اردو کی ثروت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ مستقبل میں اردو کو یہی روپ پھبے گا۔ جس طرح کی نثر محمد عاصم بٹ نے لکھی ہے بالآخر وہی مستند ٹھیرے گی یا کم از کم ایک نئے لہجے کا آغاز ثابت ہو گی۔ محمد عاصم بٹ |