پطرس بخاری مرحوم
پطرس صاحب کی زندگی دل کی دلچسپیوں کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ اگر یہ کہا جائےہ کہ ان کی بعض وابستگیوں کے ڈانڈے ایک بین الاقوامی افق سے ٹکراتے تھے، تو مبالغہ نہ ہوگا۔ بقول ان کے ان کے دل میں تنہا ایک ملک یا قطعہ ارضی کی یاد نہیں بلکہ بیک وقت چھ ملکوں کی یادیں سمائی ہوئی تھیں۔ وہ ان سب کو سینے سے لگائے رکھتے اور کسی ایک وقت بھی دل سے الگ نہ ہونے دیتے۔ یہ ان کے وسیع القلب ہونے کی دلیل تھی۔
اس وسعت کی ساتھ ساتھ ان کی شخصیت میں ایک لوچ بھی تھا۔ وہ جہاں بھی ہوتے جسمانی اور ذہنی طور پر اپنے آپ کو اس ماحول میں سمولیتے یا یوں کہئے کہ اس ماحول کو اپنا لیتے۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود ایک یادان کی دل سے ہمیشہ لپٹی رہتی اور اس کی گرفت کبھی ڈھیلی نہ پڑتی وہ لاہور شہر کی یاد تھی اور اس کا شہر کا وہ بلند اور نمایاں ٹکڑا جسے دنیا گورنمنٹ کالج کے نام سے پکارتی ہے۔
بخاری مرحوم اس کالج کے طالب علم بھی رہے ہیں۔ ان کی اعلےٰ کا آغاز بھی یہیں سے ہوا تھا، ان کی علمی اور ادبی زندگی یہیں پروان دکھائیں لیکن اس کالج کے خیال سے کبھی غافل نہ رہے۔
ایک وقت ایسا آیا کہ انہیں اس ادارے کو چھوڑ کرباہر جانا پڑا۔ ان کے قدم دنیا بھر میں گھومے، ان کے فکروذہن نے بڑی بڑی پروازیں دکھائیں لیکن اس کالج کے خیال سے کبھی غافل نہ رہے۔
ریڈیو کے محکمہ میں تقریباً دس سال گزارنے کے بعد ۱۹۴۷ء کے اوائل میں دوبارہ کالج میں پرنسپل کی حیثیت سے وارد ہوئے تو یوں محسوس ہوا جیسے وہ ایک دن کے لئے بھی اس سے الگ نہیں ہوئے۔ مجھے خوب یاد ہے کہ جن ان کا سامان ٹرک سے اتارا جارہا تھا تو وہ میرے ساتھ کالج کے وسیع صحنوں اور سرسبز میدانوں میں گشت لگارہے تھے اور ان کی آنکھوں کی چمک اور لبوں کا تبسم صاف صاف بتا رہا تھا کہ انہیں اس قدیمی ماحول میں اپنے آپ کو دیکھ کر کتنی مسرت ہورہی ہے۔ ان کے ذہن میں کالج کی عظیم الشان عمارت کا گوشہ گوشہ بدستور تازہ تھا۔ وہ ان میں سے یوں گزررہے تھے جیسے کوئی اپنے پرانے گھر میں پھر رہا ہو۔ وہ جہاں کوئی نئی چیز بھی دیکھتے تو انہیں اس میں اجنبی پن محسوس نہ ہوتا۔ جہاں کوئی چیز اپنی اصلی جگہ سے ہلی ہوتی تو کہتے ہیں! یہ کیا ہوا؟
بہرحال وہ اس کوچے کے ذرے ذرے سے آشنا تھے، کیونکہ ادھر مدتوں آئے گئے تھے۔
ان کے کالج میں آنے کے فوراً بعد حالات بگڑگئے۔ لاہور میں مسلمانوں اور ہندوؤں اور سکھوں کے باہمی تعلقات کشیدہ ہوگئے۔ فرقہ وارانہ فساد شروع ہوئے لیکن بخاری صاحب مرحوم نے کالج کی فضا کو بڑی خوش اسلوبی سے محفوظ رکھا۔
پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد حالات ابھی مخدوش تھے۔ مقامی طلباء اور اساتذہ کی طبعیتیں اکھڑی اکھڑی تھیں، اور باہر سے وارد ہونے والے اصحاب پریشانی کے عالم میں تھے۔ اس ابتری کی حالت میں انہوں نے کالج کو سنبھالا اور اس احتیاط اور محبت سے سنبھالا کہ اس کی روایات اور شان میں فرق نہ آیا۔
مجھے خوب یاد ہے کالج میں فسٹ ایر کے داخلے کے دن قریب آرہے تھے۔ اخبارات میں داخلے کا اعلان ہوچکا تھا۔ داخلے کے فارم تقسیم ہورہے تھے۔ داخل ہونے والے بچوں کی ہر طرف چہل پہل تھی۔ بخاری صاحب کے قدم غیر معمولی طور پر تیزی سے پر طرف اٹھ رہے تھے۔ کبھی وہ نووارد امیدواروں کو دیکھتے، کبھی دفتر کے کلرکوں پر نظر ڈالتے، کبھی دوسرے کالجوں میں پہنچ کر وہاں کی فضا کو بھانپتے۔ ان کی دماغ میں ایک خلجان تھا۔ وہ یہ کہ کیا گورنمنٹ کالج میں آنے والے طلباء اسی قدیم معیار کے ہوں گے؟ کیا اس کی شنان حسب معلوم بلند رہے گی؟ کیا اس کی روایات میں فرق تو نہیں آئے گا؟
جب درخواستیں گزارنے کا آخری دن آیا تو وہ صبح سے بے چین رہے۔ ہرپندرہ بیس منٹ کے بعد ہیڈ کلرک سے امیدواروں کی تعداد اور ان کی استعداد کے بارے میں پوچھتے۔ جب شام کو پانچ بجے انھیں معلوم ہوا کہ فسٹ ڈویژن میں پاس ہونے والے امیدواروں کی تعداد تقریباً ڈھائی سو تک پہنچ چکی ہے تو وہ خوش سے اچھل پڑے اور بے ساختہ کہنے لگے ……. صوفی! ہمارے بچوں میں بڑی جان ہے! اس کالج کو زندہ رکھیں گے۔
داخلے میں انہوں نے کیا کیا کچھ کیا؟ یہ وہی لوگ جانتے ہیں جو ان کے شریک کار رہے۔ الله جانے انہوں نے کتنے بلکتے ہوئے بچوں کے آنسو پونچھے، کتنے نادار اور مایوس انسانوں کی ڈھارس بندھائی۔ اس عالیشان عمارت میں قدم رکھتے ہوئے جھجکتے لڑھکڑاتے قدموں کو سہارا دیا، اور اس کام کے لئے انہیں محکمہ تعلیم، افسران بالا، وزرا کے آستانوں غرض جہاں جہاں بھی جانا پڑا، گئے اور امداد لے کر آئے۔ ایسے مخدوش حالات میں انہوں نے کالج کے لئے وہ کچھ کیا کہ شاید کوئی دوسرا نہ کرسکتا۔
ایک دن چند بے تکلف احباب کی صحبت میں بیٹھے ہوئے کہنے لگے، دوستو! تمہیں معلوم ہے گورنمنٹ کالج کا فارغ التحصیل طالب علم جہاں کہیں بھی ہو سب سے ممتاز ہوتا ہے۔ اس کی حرکات و سکنات، اس کا لب و لہجہ فوراً بتا دیتا ہے کہ یہ کہاں سے آیا ہے۔ یہ سب کچھ ہمارے ماحول اور ہمارے معیار کی بدولت ہے۔ اب اردو ایم اے کی کلاس شروع ہونے والی ہے۔ میں سوچتا ہوں اور ڈرتا ہوں کہ اگر ہم نے انگریزی ایم اے کلاس کی طرح اسے بھی نہ سنبھالا تو معاملہ بگڑ جائے گا۔ اور ہوسکتا ہے کہ کچھ عرصے کے بعد اس کی حیثیت ادیب فاضل اور منشی فاضل کی سی نہ رہ جائے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی اردو کی ایم اے کلاس کی یونیورسٹی سے الگ تھلگ چلایا اور اس میں بڑی سرگرمی اور تندہی سے کام کی۔ اگر وہ امریکہ نہ چلے جاتے تو اس کے لئے کیا کچھ نہ کرتے۔
کالج کے علاوہ یونیورسٹی میں بھی ان کی سرگرمیاں بدستور جاری رہیں اور اگر انہیں یہاں ٹھرنے کا کام کرنے کا موقعہ ملتا تو یہ ادارے الله جانے کہاں سے کہاں پہنچ جاتے۔ لیکن حکومت ان سے اور خدمت لینا چاہتی تھی۔ انہیں بار بار باہر جانا پڑتا لیکن اس غیر حاضری میں بھی ان کا دل کالج کی یاد سے خالی نہ ہوتا۔ چند مہینوں کے بعد جب وہ لوٹ کر آتے تو گھر پہنچنے سے پہلے کالج کے سامنے موٹر کو کھڑا کر کے ادھر ادھر نظر ڈالتے اور ایک خوشی کی لہر ان کے چہرے پر دوڑ جاتی۔ یوں محسوس ہوتا کہ وہ اس جگہ کے ایک ایک دزے سے لپٹ رہے ہیں۔
گورنمنٹ کالج میں ان کی حیثیت محض ایک معلم، استاد، یا پرنسپل کی نہیں تھی۔ وہ طالب علموں کو صرف پڑھاتے نہیں تھے۔ وہ زندگی میں ان کی مشفق رہنما اور دوست بھی تھے۔ طالب علموں کی ذہنی استعدادوں کو ٹٹولنا، انہیں ابھارنا، ان کی محنتوں کو صحیح راہ پہ چلانا، ان کی زندگی کو سنوارنا، ان کا ایک اہم فریضہ حیات تھا، اور ایک دل چسپ مشعلہ۔ اس کے لئے وہ نئے نئے تعلیمی ادبی، تفریحی حیلے سوچتے رہتے۔ مشاعرے، ڈرامے، مناظرے، ادبی مجلسیں قائم کرتے اور اس طرح طالب علموں کو مصروف کار رکھتے۔
کالج کے مشاعروں میں وہ نہ صرف صدارت کرتے بلکہ داد سخن بھی دیتے اور خود بھی شعر سناتے۔ ڈراموں میں ان کی عملی شرکت نے اس فن کو اس سرزمین میں ایک خاص معیار عطا کیاتھا۔ وہ خود نئے نئے ڈرامے ترجمہ کرتے، خود پارٹ بھی کرتے اور اداکاری کے ساتھ ساتھ ہدایت کار بھی ہوتے۔ انہوں نے کالج میں ادبی سوسائیٹیوں کے ہوتے ہوئے ایک الگ “اردو مجلس” قائم کی جس کے ہفتے وار جلسے انہیں کے مکان پر ہوتے تھے۔ جس میں شریک ہونے والے کچھ احباب اور کچھ مخصوص طالب علم ہوتے۔ ان مجلسوں میں علمی، ادبی مقالے پڑھے جاتے اور ایک نہایت بے تکلف فضا اور ماحول میں ان پر بے لوث تنقید بھی کی جاتی۔ تنقید کا مقصد تخریب نہیں بلکہ تہذیب ہوتی تھی۔ اس مجلس میں شریک ہونے والے اول اول طلباء وہ نوجوان تھے جو آج اپنی علمی ادبی حیثیت سے اپنے دیس کو چار چاند لگائے ہوئے ہیں میری مراد آغا حمید، فیض احمد فیض، حفیظ ہوشیاء پوری، ن، م ، راشد جیسی شخصیتوں سے ہے۔ غرض بخاری صاحب مرحوم غیر معمولی طور پر گورنمنٹ کالج سے وابستہ تھے۔ انہوں نے اس ادارے کی یاد کو زندگی بھر سینے سے لگائے رکھا اور جہاں بھی رہے اسے فراموش نہ کیا۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ خود کالج کی سرزمین بھی ان کی یاد سے خالی نہ تھی۔ آج جگہ جگہ ان کی محبت کے آثار نظر آتے ہیں اور ان کے ہاتھوں سے نکلے ہوئے شاگردوں کے دل اس محبت کی یاد تازہ کرتے رہتے ہیں۔
اس کالج کی فضا میں جن استادوں کی یادیں اور آوازیں گونجتی رہی ہیں۔ ان میں بخاری کی آواز “نوائے زمرمہ” کی حیثیت رکھتی ہے۔
۱۹۴۸ء کی بات ہے، شام کا وقت تھا۔ پروفیسر بخاری اور میں بیٹھے کالج کی باتیں کررہے تھے۔ میں نے کالج کی تدریسی اور ادبی سرگرمیوں کے سلسلے میں کچھ تجویزیں پیش کیں۔ ہنس کر بولے، صوفی! یہ تو شعر ہوئے۔ تم نے سنائے اور میں نے سن کر داد دی۔”
میں چپ ہوگیا۔
کچھ وقفے کے بعد بولے، “سنو!” تم استاد ہو، اور میں کالج کا پرنسپل۔ ہمارا کام اس درس گاہ کے نظم و نسق کو عملی طور پر آگے بڑھانا ہے۔ میرے نزدیک وہ تجاوز جو عملی صورت میں نہیں آتی، خواہ وہ آسمان ہی سے کیوں نہ نازل ہوئی ہو، محض ذہنی عیاشی ہے اور میں ذہنی عیاشیوں میں شعروں اور دوستانہ خوش گپیوں کو ہمیشہ ترجیح دیتا ہوں۔”
میں نے مرزا بیدل کی ایک غزل جو اسی روز پڑھی تھی سنائی شروع کردی۔
رات کچھ بے چینی سی رہی۔ ایک مدر سے کالج میں اردو کی تدریس شبانہ جاری کرنے کا ارادہ تھا۔ صبح ہوتے ہی میں نے “ادیب فاضل کلاس” کی تدریس کا ایک مکمل “پیش نامہ” مرتب کرلیا، اور اس کی تین نقلیں بھی تیار کردیں۔ شام کو یہ مسل بغل میں دبائے بخاری صاحب کے مکان پر پہنچا۔
یانہوں نے پوچھا، “ضلع کچہری سے آئے ہو؟”
میں نے کہا، “گھر سے آرہا ہوں۔”
“تو یہ پلندہ کیسا ہے؟”
“میرے ذاتی کاغذات ہیں۔”
“ٹھیک، بیٹھو”
ان دنوں پرنسپل کے مکان میں سرکاری کاغذات کا داخلہ ممنوع تھا۔ ایک آدھ ادھر ادھر کی بات کرنے کے بعد میں جھجکتے جھجکتے اپنا تجویز کلام سنانا شروع کیا۔
میں نے کہا “عام شائقین کے لئے اردو کی اعلےٰتدریس کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں۔ ارادہ ہے کالج میں ادیب فاضل کی ایک کلاس شام کو جاری کی جائے۔ اس کلاس کے جملے نظم و نسق، ترتیب و تدوین اور درس کا کفیل کالج ہی ہو۔”
حسب معلوم کہنے لگے، “یہ طرحیہ اشعار ہیں؟”
میں نے کہ، “جی ہاں۔ مطلع سنا چکا ہوں، پوری غزل یہ رہی۔”
یہ کہہ کر میں نے کاغذات کا پلندہ ان کے ہاتھ میں دے دیا۔ وہ اسے پڑھتےجاتے اور ان کا چہرہ خوشی اور مسرت سے تمتماجاتا تھا۔ درمیان میں کہیں کہیں وہ کچھ سوال بھی پوچھتے جاتے۔ میں جواب دیتا اور ہتا، “آپ سارا مسودہ پڑھ لیں آپ کو معلوم ہوجائے گا۔”
کاغذات ختم ہوئے تو بولے:۔
“ہوں، گویا میں بھی پڑھاؤں گا۔”
“میں نے کہا، “آپ فقط پرنسپل ہی نہیں، استاد بھی ہیں۔”
“کیوں نہیں۔”
اسں کے بعد انہوں نے ایک سگرٹ سلگایا، جس کا دھواں تھوڑے ہی وقفے میں برآمدے کے ہر گوشے میں لہرارہا تھا۔
شام کا کھانا کھانے کے بعد وہ موٹر کار میں بیٹھ کر شہر میں گھومنے لگے۔ جہاں جاتے اسی غزل کی تلاوت ہوتی اور پڑھنے کے ساتھ ہی اس طرح داد بھی دیتے کہ دوسروں کے منہ سے بے ساختہ واہ نکل جاتی۔ اہل فکر حضرات اور مشفق احباب سب نے اسے سراہا۔ اس تبلیغی اعلان اور نشری پر چار میں آدھی رات گزر گئی۔
صبح کو یہ بات لاہور کی گلی گلی کوچے میں گشت لگارہی تھی۔ ایک ہفتہ کے اندر تمام ضروری مراحل طے ہوگئے۔ محکمانہ اجازت، اشتہارواعلان اور درخواستوں کی طلبی، امیدواروں کی پیشی، داخلہ اور پڑھائی۔
پروفیسر بخاری اپنے روز مرہ مشاغل میں خواہ وہ فرائض منصبی سے تعلق رکھتے ہوں یا نجی ہوں ایسے ہی مستعدی سے کام لیتے تھے۔ زندگی میں ان کی کامیابی کا سب سے بڑا راز یہی ہے۔
قدرت نے انہیں غیر معمولی ذہانت عطا کی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی معاملہ فہمی اور جزرسی اس ذہانت کو اور بھی چمکاری تھی۔ وہ کسی کام میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے اس کے تمام امکانی پہلوؤں کو بھانپ لیتے تھے۔ اس کے حسن و قبیح اور دور رس نتائج کو دیکھتے تھے۔ بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی قوت عمل بڑی تیزی سے کام کرتے تھی اور وہ کسی خیال کے آتے ہی اسے فی الفور عملی جامہ پہنادینے کے عادت تھی لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ وہ معمولی کی اقدام کے لئے بھی کئی دن تک غور کرتے رہتے تھے۔ اٹھتے بیٹھے چلتے پھرتے سوچتے تھے دوسروں سے مشورہ بھی لیتے تھے اوراس مشورہ طلبی میں ایسے حسن تدبر سے کام لیتے تھے کہ بات بھی سلجھ جائے اور کسی کو اصلی راز کا پتہ بھی نہ چلے ۔ جب ذہنی جائزہ لینے کے بعد انہیں پورا اطمینان ہوجاتا تب وہ قدم اٹھاتے اور بجلی سی تیزی کے ساتھ اس کام کی تکمیل کے درپے ہوجاتے تھے۔
کاموں کی تکمیل کے لئے دوسروں سے مدد لینے میں انہیں خاص ملکہ حاصل تھا۔ وہ اپنے عملی اقدام کا چرچا بڑی خوش اسلوبی سے کرتے تھے۔ دوسروں کی ہمدردی اور رفیقان کار کی اعانت ہمیشہ ان کا ہاتھ بٹاتی تھی۔ پھر ان کے کام کرنے کا طریقہ بھی اتنا خوش آید ہوتا تھاکہ دیکھنے والوں میں بھی تکمیل کار کا ایک غیر معمولی ولولہ پیدا ہوجاتا تھا اور وہ خود ان کے شریک کار بن جاتے تھے اور اس شرکت میں ایک راحت محسوس کرتے تھے۔
بخاری کا مقولہ تھا کہ کسی کام کے صحیح تکمیل کے لئے انسان میں محض شوق نہیں۔ بلکہ چسکا ہونا چاہتیے چنانچہ وہ جب بھی کسی کام کرکرتے تھے تو ایسے ذوق و شوق سے کرتے، کہ گویا انہیں اس کام کا چسکا ہے۔ ان کا یہ ذوق و شوق ایک سہولت اور آسانی پیدا کرتا، ان میں ایک قدرتی روانی اور حسن آجاتا اور ان کی تکمیل ایک فطری تقاضے کی تکمیل معلوم ہوتی تھی۔ بخاری جس کام کو کرتے۔ ایسی سرگرمی، ایسے انہماک اور شغف سے کرتے، کہ معلوم ہوتا یہی ان کا فطرعی مشغلہ ہے اور قدرت نے انہیں اسی کام کے لئے بنایا ہے۔ لیکن وہ تمام کاروبار زلیت کو اسی نقطہٴ نظر سے دیکھتے۔ ان کے نزدیک ہر کام کے لئے ایک پیشہ وارانہ مہارت درکار تھی۔ جب تک کوئی مشغلہ فن نہیں بن جاتا اپنی صحیح حیثیث کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔ انسان کام کرے تو حس کار کو کام میں لائے، نہیں تو بے کار رہے۔
بخاری نے ایک بے چین طبیعت پائی تھی۔ ان کا دماغ ان کے جسم سے، اور ان کا جسم ان کے دماغ سے زیادہ تیز کام کرتا تھا ان کے ذہنی اطوار اور عملی رفتار ہمیشہ ہم آہنگ رہتے۔ اس لئے انتہائی مصروفیتوں میں بھی ان کی طبیعت پر کوئی ناگوار بوجھ نہیں پڑتا تھا۔ بلکہ ہر تکمیل کار ان کے لئے خاص لذت اندوزی کا سامان مہیا کرتی تھی، وہ کسی شے کو معمولی حالت میں دیکھنا گوارا نہیں کرتے تھے۔ اان کی طبیعت کی اپج اس میں ہر روز کوئی نہ کوئی تغیر چاہتی تھی۔ اگر یہ تغیر ثاقت نہ ہوتو ہر مشغلہ اپنی دل چسپی کھودیتاہے اور اس کی یکسانیت اسے بے کیف بنادیتی ہے۔ بخاری کو یہ یکسانیت کسی طرح بھی گورا نہیں تھی وہ سمجھتے تھے کہ ایسی یکسانیت سے نہ صرف کام کی رفتار ڈھیلی پڑجاتی ہے بلکہ کام کرنے والے کی طبیعت کو بھی زنگ لگ جاتاہے۔ گورنمنٹ کالج میں مجلس کا قیام، محکمہ تعلیم میں منتخب کتابوں کے تراجم، ریڈیو کے نئے نئے نشری پرگرام سب کے سب اسی اپج کانتیجہ تھے۔
بخاری کی تیز رفتاری کا ایک واقعہ مجھے اب تک یاد ہے۔ مجلس کے ہفتہ وار ادبی اجلاس پہلے پہل انہی کا مکان پر ہوا کرتے تھے۔ ایک شام جب مجلس کی کاروائی شروع ہونےوالی تھی، وہ ساتھ کے کمرے سے نکل آئے۔ آستنیں چڑھی ہوئیں، ہاتھ گردآلود تھے۔ بولے، آج میں سخت مصروف ہوں، آپ میرا انتظار نہ کرتیں میں شریک محفل نہ ہوسکوں گا۔ بات ختم ہوئی، دوسرے روز معلوم ہوا ہک آپ نے رات بھر میں ٹیکسٹ بک کمیٹی پنجاب کی پچیس سالہ کارگزاریوں کی ایک رپورٹ مرتب کرلی۔ اس رپورٹ کی ترتیب میں انہیں سینکڑوں مسلوں کو کھنگالنا پڑا۔ متفرق اور ان سے ضرور مواد کا انتخاب اور اس کی تدوین و تہذیب کوئی آسان کام نہ تھا۔ دفتری کاروائی کی جاتی تو شاید مہینے لگے جاتے، لیکن یہ کٹھن کام ان کے تنہا ہاتھوں نے ایک رات میں سرانجام دیا۔
یہاں ایک لطیفہ بھی سن لیجئے۔ صبح سویرے بخاری صاحب یہ رپورٹ لے کر دفتر پہنچے۔ ان کا خیال تھا افسراں بالا ان کی اس خدمت گزاری کا اور تیز کاری پر خوش ہوں گے۔ لیکن وہاں اس وقت کرسی منصب پر ایک ایسے صاحب براجماں تھے جن کی قابلیت نبض کہنے خالی تھی۔ انہوں نے بڑی تمکنت اور رعونت سے رپورٹ کو ہاتھوں میں لیا، ورق کو الٹ پلٹ کردیکھا اور پھرنہایت بے پرتواویاانداز میں بولے “یہ کیا لکھا ہے……. خیر کوئی بات نہیں میں درست کرلوں گا۔” یہ کہہ کر انہوں نے رپورٹ کاغذات کی ٹوکری میں ڈال دی۔ بخاری نے یہ سب کچھ دیکھا اور سنا۔ کوئی صاحب ذوق یہ لفظ کہتا تو کوئی بات بھی تھی۔ ایک نااہل کا اس افسرانہ لہجے میں گفتگو کرنا نہایت ناگوار گزرا۔ انہوں نے لپک کر رپورٹ اٹھائی اور پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دی۔
“ہیں ہیں یہ کیا حماقت کررہے ہو؟”
“اگر یہ رپورٹ اچھی نہیں تو اس کا رکھنا بے کار ہے۔”
بخاری یہ کہہ کر کمرے سے باہر چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد معلوم ہوا کہ افسر کے کمرے میں دفتر کے چپراسیوں کا ایک بڑا دستہ بیٹھا رپورٹ کے پھاڑے ہوئے کاغذات کے ٹکڑے جوڑ رہا ہے۔
صلہٴ کار کی کسے تمنا نہیں ہوتی، لیکن جب کوئی کام کسی لالچ کے بغیر یا حصولِ نام و نمود سے بے نیاز ہو کر کیا جائے اور وہ بھی دوستوں کی خاطر کیا جائے اور پھر اس کام کو یوں ٹھکرایا جائے تو انسان کے دل کو ضرور ٹھیس لگتی ہے۔ نااہل ہاتھوں نے جو چرکے لگائے تھے معلوم نہیں کہاں تک ان پھٹے ہوئے کاغذوں پرچیپیوں نے مرہم کا کام کیا۔ یہ بخاری صاحب کا دل ہی بتا سکتا ہے میں تو یہی کہہ سکتا ہوں کہ ان کا چابکدستی دونوں طرح اپنا جوہر دکھا کے رہی۔
ایک مرتبہ ان کے رفیقوں میں سے ایک صاحب یونیوسٹی کے کسی رکن کی غلط کے کسی رکن کی غلط کاریوں پر چیں بہ جبیں ہورہے تھے۔ بخاری صاحب کہنے لگے، “بھائی صاحب! میری دو باتیں یاد رکھو۔ زندگی میں الجھنا ہوتو کسی بڑے مسئلے پر الجھنا چاہیے اور اپنے سے بڑی آدمی کے ساتھ الجھنا چاہیے ورنہ مزہ نہیں آتا۔ انسان کی قوتیں اور کوششیں ضائع ہوجاتی ہیں۔ کمزور آدمی کو دبانے میں کوئی شان نہیں۔ بڑے آدمی سے تصادم ہو تو انسان کی استعداد کار اور بھی چمکتی ہے۔ مجھے دیکھو! میں نے ریڈیو کی ملازمت کے دوران میں ہمیشہ بڑے آدمیوں سے ٹکر لی اور الله کے فضل و کرم سے کامیاب رہا ہوں۔”
بظاہر ٹکراؤ ایک ناگوار سی شے ہے اور کاموں کی تکمیل میں ایک رکاوٹ سا نظر آتا ہے لیکن جب اس کی بنیاد کسی بڑے اصول پر ہو اور ٹکرانے والے اہل لوگ ہوں تو اس سے مفید نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ بخاری کی طبعیت کا خاصہ تھا کہ وہ ہمیشہ ایسی رکاوٹوں سے خوش ہوتے تھے۔ رکاوٹوں سے خوش ہوتے تھے۔ روکاوٹوں سے ان کی طبعی صلاحتیں اور استعدادیں اور بھی ابھرتی تھی۔ ان کا بڑا کمال یہ تھا کہ وہ ان رکاوٹوں سے عہدہ برآ ہوتے وقت کبھی تھکن یا تلخی محسوس نہیں کرتے تھے اور تو اور خود ان سے ٹکرانے والا جب ان سے شکست کھاتا تھا تو اسے اپنی شکست کا اتنا احساس نہیں ہوتا جتنا ان کی عظمت اور برتری کا۔
ریڈیو کے محکمے میں ان کا بالتدریج آگے بڑھنا اور آگے بڑھ کر محکمے پر چھا جانا ایک ایسا ہی کارنامہ ہے۔ انہوں نے دس سال کے عرصے میں ریڈیو کو جو وسعت اور شہرت دی وہ ان کی ذہانت اور مستعدی کی بین دلیل ہے۔ جنگ عظیم کے دوران میں ریڈیو پروگرام اور بالخصوص خبروں کی نشر و اشاعت کا کام بہت کٹھن تھا۔ اس بارے میں انگریز حکام اور ان کی پالیسی بارہا ان کے آڑے آئی لیکن انہوں نے بڑی خوش اسلوبی سے ایک طرف ان کی تصرفات کی روک تھام کی اور دوسرے طرف اپنی پالیسی کے پیش نظر ریڈیو کے وقار کو برقرار رکھا۔ خبروں کا اہتمام ریڈیو کے پروگرام کا سب سے اہم کام ہے۔ اس کی اہمیت کو غالباً ریڈیو کے عملے کے کارکنوں کے سوا کوئی نہیں سمجھ سکتا ۔ یہ امر واقعہ ہے کہ اسے موزوں بننے بلکہ ایک فنی شکل و صورت دینے میں بخاری صاحب کا زبردست ہاتھ تھا۔ اس میں ان کی شخصیت کا پورا پورا عکس نظر آتا ہے۔
انہیں نئی نئی تجویزیں سوجھتی تھیں۔ ایک مرتبہ حسب معمول انہوں نے حکومت کو لکھا کہ ریڈیو پروگرام میں بہت سی مستقل اہمیت رکھتی ہیں۔ اگر انہیں شائع کر کے محفوظ کرلیا جائے تو ایک ادبی خدمت بھی ہوگی۔ چونکہ جنگ کا زمانہ تھا۔ انہوں نے ایک دلیل یہ بھی دی کہ بعض پروگراموں میں جنگی پرچار کے عنصر پوشیدہ ہوتے ہی۔ چھپ جانے کی صورت میں وہ بھی کارآمد ثابت ہوں گے۔ اس تجویز کا جواب کوئی آٹھ مہینے کے بعد موصل ہوا۔ تجویز رد کرنے میں جہاں بہت سے دلائل تھے وہاں ایک دلیل یہ تھی کہ جنگ اب جلد ختم ہونے والی ہے لہٰذا ایسے مواد کو چھپنا بے موسع ہے۔ بخاری نے اس دلیل کو پڑھ کر لکھا “ہاں درست، لیکن اگر ہماری حکومت اسی رفتار سے کام کرتی رہی تو “امن” کا دور بھی جلد ختم ہوجائے گا۔”
پطرس کے مضامین بخاری صاحب کی مزاحیہ طبیعت کے آئینہ دار ہیں۔ مزاح نگاری بظاہر بڑی ہلکی پھلکی شے ہے لیکن طنز نگاری کی طرح ایک لطیف شے کو پیدا کرنے کے لئے ایک بڑی شخصیت کی ضرورت ہوتی۔ جب تک کسی شخص میں غیر معمولی ذہانت، عمیق مشاہدہ کی عادت اور شگفتہ طرز بیان کی قوت نہ ہو وہ کامیاب مزاح نگار نہیں ہوسکتا۔ انسانی اعمال میں بعض حرکات بڑی مضحیکہ خیز ہوتی ہیں، لیکن ہر انسانی آنکھ انہیں نمایاں طور پر نہیں دیکھتی۔ ایک مشاہدہ کار انسان انہیں بروئے کار لاتا ہے اور ان کا اظہار لطیف اور شگفتہ انداز میں اس طرح کرتا ہے کہ وہ تحت شعور سے ابھر کی اجاگر ہوجاتی ہیں اور ہم ان انسانی لغزشوں کو دیکھ کر مسکرادیتے ہیں۔ بخاری کی نظر بڑی وسیع اور گہری تھی اور پھر اسے بیان پر قدرت حاصل تھی، اس لئے وہ بے ساختہ ان حرکارت کو دیکھتے سمجھتے اور چمکاتے رہتے تھے۔
مذکورہ بالا ریڈیو مسل کا التوا میں پڑ جانا روز مرہ کا معمول ہے۔ کوئی اور ہوتا تو اسے دفتری سرخ فیتے کے سلسلے کی ایک کڑی سمجھ کر ٹال دیتا، لیکن بخاری کی نظر التوا کے تمام پہلوؤں پر پڑتی تھی۔
مشاعروں کی بے طرحی سے کون واقف نہیں اور شہروں کی گندی حالت کو کون نہیں جانتا۔ لیکن “کتے” اور “لاہور کا جغرافیہ” بخاری ہی لکھ سکتے تھے۔ بخاری کا مزاحیہ انداز ان کی تحریروں تک ہی محدود نہیں ان کی تقریریں بھی مزاح سے مزین ہوتی تھیں۔ وہ بڑے سے بڑے اہم اور سنجیدہ مسائل پر بحص کرتے ہوئے اسی حربے کو کام میں لاتے تھے ۔ احباب کی صحبتوں اور عام موقعوں پر بھی اسے بے ساختہ استعمال کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مجمع میں ان کی گفتگو لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جاتی تھی اور لوگ پہروں ان کے پاس بیٹھنے سےنہیں اکتاتے تھے۔
لیکن اس سے یہ اندازہ نہیں لگانا چاہیے کہ بخاری کی ذات میں جو کشش تھی وہ محض ان کی مزاح گوئی کی وجہ سے تھی۔ بے شک ان کا مزاح ملنے والوں کے دل میں ایک شگفتگی پیدا کرتا تھا لیکن انہیں قریب سے دیکھنے والے جانتے ہیں کہ ان میں خلوص بھی تھا۔ وہ اپنے عزیزوں، دوستوں اور عام لوگوں سے بڑے رکھ رکھاؤ سے ملتے تھے۔ اس رکھ رکھاؤ میں دوست داری بھی ہوتی تھی اور سلیقہ بھی۔ عام ملاقاتوں میں جہاں انسانی منافقت کام کرتی ہے وہ اس آراستگی سے بات کرتے تھے کہ طبیعت کو خوش گوار معلوم ہوتی تھی۔ وہ چھیڑ چھاڑ کے خوگر تھے لیکن اس چھیڑ چھاڑ سے ان کی مراد کسی کی دل آزاری نہیں بلکہ اس سے لگاؤ کا اظہار ہوتا تھا۔
بخاری صاحب کو اپنے ان کرشموں کا پورا پورا احساس ہوتا تھا، بلکہ وہ دوسروں پر اکثر ایک خاص تفوق محسوس بھی کرتے تھے اور اس تقوق سے دوسروں کو اپنے مطابق چلاتے بھی رہتے تھے۔ جہاں کہیں ان کی طاقت لسانی کاگر نہیں ہوتی تھی وہ اپنی مزاحیہ گفتگو کو چھوڑ کر کوئی ایسی حرکت بھی کرسکتے تھے جو دوسروں کو چپ کراسکے یا انہیں شکست دے سکے۔ ۱۹۴۷ء کے اواخر میں جب قومی زبان کا مسئلہ پیش ہوا تو بنگال کے ایک صاحب اقدار بزرگ نے بنگالی زبان کی حمایت میں بڑی پرزور تقریر کی۔ بخاری نے اپنی بذلہ سنجیوں سے انہیں بہت کچھ مرعوب کرنا چاہا لیکن خاطر خواہ کامیابی نہ ہوئی دوسرے روزہ وہ بزرگ اپنے عقائد کی تائید میں کچھ اعداد و شمار پیش کرنے والے تھے۔ بخاری صاحب کو ایسے مسودے کے مؤثر ہونے کا اندیشہ تھا۔ آپ ان کے پاس ہی بیٹھے۔ اچانک آپ کی نظر ایک کاغذ پر پڑی۔ تاڑ گئے، ہونہ ہو یہ اعداد وشمار کا پلندہ ہے۔ انہوں نے چپکے سے وہ پلندہ نکالیا جب وہ بزرگ پر جوش خیالات کا اظہار کرنے کے بعد اعداد و شمار پرآئے اور کاغذوں پر ہاتھ ڈالا تو غائب تھے۔ پریشانی میں جیبوں کو ٹٹولتے رہے اور یہ معصوم صورت بنائے ان سےہمدردانہ استفسار کرتے چلے گئے۔ ان کی بدحواسی پر محفل میں ایک کہرام سا مچا۔ جب محفل کا رنگ بگڑ گیا تو بخاری نے اچانک جھک کر میز کے نیچے سے وہی پلندہ اٹھا کہ انہیں دکھایا اور بھولے انداز میں کہا:۔
“آپ یہ تو تلاش نہیں کر رہے؟”
اس پر ایک زور کا قہقہ لگا اور ساری بات ہنسی مذاق کی نظر ہوگئی۔
دوستداری، بخاری صاحب کا شیوہ ہی نہیں مسلک بھی تھا۔ اگرچہ اس دوست داری میں گرم جوشی اور وفورِ جذبات کا اظہار بہت کم ہوتاتھا۔ وہ آہوں اور آنسوؤں سے زیادہ جذبات محبت کے اعتدال اور اخفا کے قائل تھے۔ اس بارے میں ان کا گرم جوش دل مغرب کی خنک فضاؤں میں سانس لیتا رہتا تھا اور اپنی آگ کو دبائے رکھتا تھا۔
بظاہر دیکھو تو بخاری صاحب پورے “صاحب لوگ” تھے۔ ان کی وضع قطع، ان کا لباس، ان کے اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے، کھانے پینے، باتیں کرنے سے یورپینی انداز ٹپکتے تھے۔ وہ مشرقی طرز بود وباش پر اکثر پھبتیاں کستے رہتے تھے۔ ان کے ساتھ بازار میں گھومنے جائیے تو معلوم ہوتا تھا۔ انہیں یہاں کی کوئی حرکت پسند نہیں،
“وہ دیکھو، تہ بند کے ساتھ انگریزی قمیص۔”
“سبحان الله چپلی کے ساتھ پتلون۔”
“ٹائی اور شلوار کیا کہنے۔”
“یہ شخص بازار میں کھڑا کباب کھارہاہے۔”
“یہ دیکھئے اس نے بائیسکل بازار میں بغیر اشارے کے گھمادی۔”
“اور یہ چار آدمی صف باندھے چلے آرہے ہیں۔ میں موٹر کہاں سے گزاروں۔”
یہ فقرے مسلسل آپ کے کان میں پڑیں گے اور آپ انہیں سنتے سنتے اپنے ملک بلکہ اپنے آپ سے بیزار ہوجائیں گے ۔ آپ کو اپنی کم سوادی کا احساس ہونے لگے گا۔ جو خامی آپ میں نہیں وہ بھی نظرآئے گی۔
لیکن اس سے آپ یہ نہ سمجھ لیں کہ بخاری صاحب مغربی طریق زندگی کے قالب سے نکلے ہوئے ایک مجسمہ تھے اور ان میں کوئی لوچ نہیں تھا۔ ان کی صورت شکل مغربی اور مزاج مشرقی تھا۔ ان کی ذات مغرب و مشرق کا تضاد نہیں بلکہ ایک لطیف امتزاج پیش کرتی تھی۔
ان کی مشرق مزاجی کو دیکھنا ہو ان ہی کے گھر کی چار دیواری میں دیکھئے جہاں ہر شے مغربی انداز میں جلوہ گر ہے۔ لیکن جہاں زندگی کی حرکات ٹھیٹھ مشرقی فضا میں سانس لیتی دکھائی دیتی ہیں۔ وہی بے پروا، لاابالیانہ پن، وہی بے تکلف گفتگو، وہی خلوص آمیز میل ملاپ، یوں معلوم ہوتا تھا، جیسے لنڈن یا نیویارک کے کسی مکان میں دلّی کے بلّی ماروں کے حملے والے اچانک آبسے ہوں اور وہ ماحول کے لئے اجنبی اور ماحول ان کے لئے اجنبی ہو۔
کوئی یہ اندازہ نہیں کرسکتا کہ دن بھر اتنی باقاعدگی اور مستعدی سے مشین کی طرح مسلسل کام کرنے والا رات کو کیونکر جاگتا ہوگا، لیکن بخاری صاحب کی شب بیداری کو ان کے ساتھ راتیں گزانے والے ہی جانتے ہیں۔ رات کے دس گیارہ بجے کے بعد گھر سے گھومنے کے لئے نکلنا ان کا روز مرہ کا شیوہ بلکہ معمول۔ کوئی مقصد، کوئی منزل مقصود نہیں محض گھومنا اور گھومنا اور گھومتے گھومتے کسی سنسان سڑک کے کنارے کھڑے ہو کر گھنٹوں گپیں ہانکنا، یہ تھی ان کی تفریح، جس میں ان کے تمام ہم قدم دوست برابر کے شریک ہوتے تھے۔ مجال نہیں کہ کوئی شب خیز اس ثواب سے محروم رہ جائے۔ بیدل کے دقیق اشعار، شیکسپئر کے ڈرامے، ایلیٹ کے مجرد نگاری، منٹو کے افسانے انہیں خوش گپیوں کے تحت میں آجاتے تھے۔
راتوں کی یہ بیداری ان کے روزانہ کاموں میں مخل نہیں ہوتی تھی۔ جس طرح دوستوں کو ایک ایک کر کے جمع کیا تھا اسی طرح ایک ایک کو گھر پر چھوڑنے کے بعد وہ بستر پر آکر لیٹتے تھے اور ایک آدھ گھنٹ آرام کے کرنے کے بعد حسب معمولی اٹھ کر روز مرّہ کے مشاغل میں کھو جاتے تھے اور اس معمول پر وہ سختی سے کار بند تھے۔ اور خود ہی نہیں بلکہ اپنے رفیقانِ کارسے خواہ وہ ان کے کتنے ہی بے تکلف دوست کیوں نہ ہوں، اسی باقاعدگی اور ضبط کی توقع رکھتے تھے۔ کسی طرح کی بے قاعدگی کو برداشت نہیں کر سکتے تھے۔
بارہا ایسا ہوبا کہ رات بھر گھومنے کے بعد ہم پانچ بجے صبح کو لوٹے۔ پونے آٹھ بجے انہوں نے میرے یہاں ٹیلی فون کر کے پوچھا، “صوفی کہاں ہے؟”
بچوں نے کہا، “وہ یونیورسٹی گئے ہیں، کوئی کام؟”
“کوئی نہیں ، یونہی پوچھاتھا۔”
ان کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ کہیں ایسا تو نہیں ہوا کہ رات کی سیر نہ مجھے اپنے فرائض منصبی سے غافل کردیا ہو۔ ان کے نزدیک دوستی اور فرائض بجاآوری دو الگ الگ خانے تھے۔
ریڈیو کے زمانے میں ان کے ایک دوسر سے کوئی کوتاہی ہوئی۔ انہوں نے بڑی سختی سے مواخذہ کیا۔ دوست ان کی غیر معمولی خفگی پر بگڑ گئے اور استفعے لکھ کر ان کے حوالے کیا۔ انہوں نے بڑے افسرانہ وقار کے ساتھ لے لیا اور کہا بہت اچھا آپ تشریف لے جائیے۔
دفتر کے بعد بخاری صاحب اس دوست کے مکان پر بیٹھے دیگر احباب کے ساتھ معافی مانگ رہے تھے۔
پروفیسربخاری کی ذات ایسی جامع صفات تھی کہ ان کی وفات پر یوں احساس ہوتا ہے کہ بیک وقت بہت سی شخصیتیں ہم سے الگ ہوگئیں۔ ان کے رخصت ہونے سے دنیا ایک معاملہ فہم، ہوش مند مفکر سے محروم ہوگئی۔ علم و دانش کے درس گاہوں سے ایک شفیق استاد چل بسا۔ اردو ادب ایک خوش فکر، خوش نگار انشا پرداز پطرس کا ماتم کررہا ہے۔
یہ سب کچھ ہے لیکن ان کی موت ان کے دوستوں کے لئے ایک بہت بڑا حادثہ ہے۔ ایک ایسا صدمہ جس کی تلافی نہیں ہوسکتی۔ وہ ایک مخلص مشفقِ دوست کو کھو بیٹھے ہیں۔ ایسے مہربان دوسری دنیا میں کم پیدا ہوتے ہیں۔
بخاری صاحب میرے محترم استاد بھی تھے، رفیق کار بھی اور پیارے دوست بھی۔ میرا ان کا تعارف۱۹۲۴ء میں ہوا، اور اس کم و بیش تیس سال کے عرصے میں ان کا احترام، ان کی ہمدردانہ رہنمائی اور خلوص دوستی ایک عجیب امتزاج کے ساتھ دل کو لبھاتی اور گرماتی ہی ۔ان کی خوش دوقی ان کی بذلہ گوئی، ان کے قہقہے جہاں دوستوں کے محفلوں کو جگمگاتے تھے وہاں ان کی پرسکون خاموش گرم جوشی اور محبت اور شفقت کی تڑپ احباب کے دکھی دلوں کی آہوں اور آنسوؤں کا ساتھ دیتی۔
آخری بار جب وہ امریکہ سے لاہور آئے اور چند روز یہاں ٹھہرے تو ایک بار پھر یہ محفلیں جاگ اٹھیں اور زندگی کی بہت سی یادیں پھر زندہ ہوگئیں۔ اس ایک بات کو تقریباً ایک سال گزر چکا ہے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ ابھی وہ کل ہمارے ساتھ بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ کتنا تازہ تھا ان کا پیار ا ر کتنی تیز تھی ان کی یاد۔ ان کی ایک نظر زندگی کے بہت سے گوشوں کو ٹٹولتی اور ایک بات کئی ایک سوئے ہوئے جذبات کو اکساتی تھی۔ انکے پاس بیٹھنے سے دل کی گم شدہ دنیا ئیں از سرنو آباد ہوجاتیں اور زندگی پیچھے کو کروٹیں لے لے کر مٹے ہوئے نقش ابھارتی چلی جاتی۔
ان کی کونسی بات ہے جو رہ رہ کر نہیں ستاتی، لیکن وہ جب کبھی کچھ عرصہ ملک سے باہر رہ کر لاہور میں آتے تو یہی کہتے، دوستو! غربت میں تمہاری یاد بہت ستاتی ہے اور اس یاد کے ساتھ ساتھ وطن کی محبت، اس کا احترام طوفان جذبات بن کر رگوں میں دوڑنے لگتاہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے، انسان کا ہر قدم منزل دوست کی طرف اٹھ رہا ہے، جیسے کوئی عاشق اپنے محبوب کی طرف والہانہ انداز میں لپک لپک کر جارہاو۔ تم لوگ یہاں بیٹھ کر اس بات کا اندازہ نہیں کرسکتے۔ اس کو میرا دل ہی جانتا ہے۔
مجھ سے بخاری کی جدائی کا حال نہ پوچھئے۔ ان کا مسلسل خلوص، یہ احسان اور اس احسان کا احساس ہمیشہ تیز اور تازہ رہنا اور خیال ہوتا کہ زندگی تو کیا اپنی موت بھی اسی کے آنسوؤں کا سہارا لے گی۔ لیکن یا خبر تھی کہ ان آنکھوں کو ان کے فراق میں آنسو بہانے پڑیں گے۔
کتنی جدائیوں کے کھائے ہیں زخم دل پر
کتنی محبتوں کے ماتم کئے ہیں ہم نے
(۱۳۷۸ھ)