فیض سے میری پہلی ملاقات – صوفی غلام مصطفیٰ تبسم
دستِ تہِ سنگ
سن 1929ء تھا اور اکتوبر کا مہینہ۔ مجھے سینٹرل ٹریننگ کالج سے گورنمنٹ کالج میں آئے ہوئے کوئی تین ہفتے گزرے تھے۔ سابقہ درس گاہ کی خشک تدریسی فضا اور ضبط و نظم سے طبیعت گھٹی گھٹی سی تھی۔ نئے کالج میں آتے ہی طبیعت میں انبساط کی لہر دوڑ گئی۔ ادب و شعر کا شوق پھر سے ابھرا۔ چنانچہ “بزم سخن” کی وساطت سے ایک بڑے مشاعرے کی صدارت پروفیسر پطرس بخاری کے سپردہوئی۔ شام ہوتے ہی کالج کا ہال طلبہ سے بھر گیا۔ سٹیج کے ایک طرف نیازمندانِ لاہور اپنی پوری شان سے براجمان تھے۔
مقابل میں لاہور کی تمام ادبی انجمنوں کے نمائندے صف آرا تھے۔ دونوں جانب سے خوش ذوقی اور حریفانہ شگفتگی ایک دوسرے کا خیر مقدم کر رہی تھی۔
روایتی دستور کے مطابق صدر نے اپنے کالج کے طلباء سے شعر پڑھانے کا اعلان کیا۔ دو ایک برخوردار آئے اور بڑے ادب و انکسار سے کلام پڑھ کر چلے گئے۔اچانک ایک دبلا پتلا، منحنی سا لڑکا سٹیج پر نمودار ہوا، سیاہ رنگ، سادہ لباس، انداز میں متانت بلکہ خشونت، چہرے پر اجنبی ہونے کا شدید احساس۔ادھر اُدھر چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ اتنے میں اس نے کہا: عرض کیا ہے، کلام میں ابتداء مشق کے باوجود پختگی اور اسلوب میں برجستگی تھی۔ سب نے داد دی۔یہ حفیظ ہوشیار پوری تھے۔
پھر ایک نوجوان آئے، گورے چٹّے، کشادہ جبیں، حرکات میں شیریں روانی،آنکھیں اور لب بیک وقت نیم تبسم میں ڈوبے ہوئے۔ پطرس نے کچھ معنی خیزنظروں میں لاہور کے نیاز مندوں سے باتیں کیں اور ان کی نیم خاموشی کو رضا سمجھ کر دونوں نوجوانوں کو دوبارہ سٹیج پر بلایا۔ نیا کلام سنا۔ فیض صاحب نے غزل کے علاوہ ایک نظم بھی سنائی۔ غزل اور نظم دونوں میں سوچ کا اندازاور بیان کا اچھوتا اسلوب تھا۔
مشاعرہ ختم ہوا۔ قرار پایا کہ احباب ان دونوں کو ہمراہ لے کر غریب خانے پرجمع ہوں۔ رات کافی گزر چکی تھی۔ انہیں بورڈنگ میں پہنچنا تھا۔ بخاری صاحب نے ان کی غیر حاضری کا ذمہ لیا اور پھر گھنٹہ بھر کے لیے شعر و سخن کی صحبت قائم رہی۔ یہ ان کی طبع آزمائی کا امتحان نہیں، اساتذہ کی حوصلہ افزائی کا امتحان تھا۔ دونوں کامیاب رہے۔
ابھی پورا مہینہ نہیں گزرا تھا کہ کالج کے امتحانات کا آغاز ہوا، جس دن کی میں بات کر رہا ہوں اس دن پطرس کالج ہال میں مہتمم امتحانات تھے اور ہم جیسے نو تجربوں کو چھوٹے کمرے سپرد کیے گئے تھے۔ مجھے کالج کی دوسری منزلمیں متعین کیا گیا۔ یہاں ایم۔اے انگلش کے طلبہ تھے اور ان میں فیض احمد فیض بھی تھے۔
امتحان کا کمرہ مقام احرام ہوتا ہے۔ امید واروں کے ذہنی امتحان کے ساتھ ساتھ ضبط و نظم کا امتحان بھی ہوتا ہے۔ سگریٹ نوشی ممنوع تھی۔ میں نے اپنی عادت کو دبانے کے لیے پان کا انتظام کر لیا تھا۔ مگر فیض صاحب کبھی سوالات کے پرچے کی طرف نظر ڈالتے اور کبھی میری طرف نیم متبسم نظروں سے دیکھتےاور پھر قلم کو اُٹھا کر سر کو کھجاتے اور کبھی خاموشی سے اپنے پڑوسیوں کی مزاج پرسی کرتے، کبھی کبھی ان کا بایاں ہاتھ ایسے حرکت کرتا جیسے وہ کسی نامعلوم شے کو ٹٹول رہے ہیں۔ میں سوچ رہا تھا، وہ اٹھے اور کہا ہمیں یہاں سگریٹ پینے کی اجازت ہے؟ میں نے کہا میں ابھی بتاتا ہوں۔
اتنے میں پطرس مختلف کمروں کا معاینہ کرتے کرتے میرے کمرے کے باہر آ کرکھڑے ہو گئے۔ میں تعظیماً پلیٹ فارم سے اتر کر دروازے پر پہنچا، پوچھا: سب ٹھیک ہے؟
میں نے کہا: جی!
میں نے عرض کیا: پروفیسر صاحب (میں انہیں پروفیسر صاحب کہا کرتا تھا) بعض طلبہ سگریٹ پینا چاہتے ہیں۔ اجازت ہے؟
پطرس نے میرے کان میں دبی آواز میں کہا۔
“جب تک پروفیسر جودھ سنگھ اس کالج کے پرنسپل نہیں بنتے، اس وقت تک پی سکتے ہیں۔” اور پھر مسکرا کر چلے گئے۔
میں نے اندر آتے ہی فیض صاحب کی طرف دیکھا اور اشاروں سے سگریٹ نوشی کااعلان کیا۔ فیض صاحب کے ہاتھ میں فی الفور ایک سگریٹ نمودار ہوا جیسے قلمہی سے ابھر آیا ہے۔
پھر قلم کے رش اور سگریٹ کے کش میں مقابلہ شروع ہوا اور اس کشمکش میں معطردھوئیں کے غبارے پورے کمرے میں پھیل گئے۔ میں معلم تھا، ضبط و نظم کی زنجیروں میں جکڑا ہوا بیٹھا رہا اور قوام دار پان کو چھوڑ کر اس خوشبو سےاپنے ذوق سگریٹ نوشی کی تسکین میں محو ہو گیا۔
کیا معلوم تھا کہ دھوئیں کے یہ غبارے کالج کی چار دیواری سے دور دور تک فضا میں پھیل جائیں گے اور ان میں سگریٹ پینے والے کے معطر انفاس کی خوشبوئیں بھی لہرائیں گی اور ہنر و فن اور ادب کی دنیا کو اپنی آغوش میں لے لیں گی۔