شہر کا شہر ہُوا جان کا پیاسا کیسا
سانس لیتا ہے مِرے سامنے صحرا کیسا
مِرے احساس میں یہ آگ بَھری ہے کِس نے
رقص کرتا ہے مِری رُوح میں شُعلہ کیسا
تیری پرچھائیں ہُوں نادان! جُدائی کیسی
میری آنکھوں میں پِھرا خوف کا سایہ کیسا
اپنی آنکھوں پہ تجھے اِتنا بھروسہ کیوں ہے
تیرے بِیمار چَلے توُ ہے مسِیحا کیسا
یہ نہیں یاد، کہ پہچان ہماری کیا ہے
اِک تماشے کے لِیے سوانگ رچایا کیسا
مَت پِھری تھی، کہ حرِیفانہ چَلے دُنیا سے
سوچتے خاک، کہ موّاج ہے دریا کیسا
صُبْح تک رات کی زنجِیر پِگھل جائے گی
لوگ پاگل ہیں، سِتاروں سے اُلجھنا کیسا
دِل ہی عیّار ہے، بے وجہ دھڑک اُٹھتا ہے
ورنہ افسردہ ہَواؤں میں بُلاوا کیسا
آج خاموش ہیں ہنگامہ اُٹھانے والے
ہم نہیں ہیں تو کراچی ہُوا تنہا کیسا
پاؤں مارا تھا پہاڑوں پہ تو پانی نکلا
یہ وہی جسم کا آہن ہے کہ مٹی نکلا
میرے ہمراہ وہی تہمتِ آزادی ہے
میرا ہر عہد وہی عہدِ اسیری نکلا
ایک چہرہ ہے کہ اب یاد نہیں آتا ہے
ایک لمحہ تھا وہی جان کا بیری نکلا
میں اسے ڈھونڈ رہا تھا کہ تلاش اپنی تھی
اک چمکتا ہوا جذبہ تھا کہ جعلی نکلا
ایک مات ایسی ہے جو ساتھ چلی آئی ہے
ورنہ ہر چال سے جیتے ہوئے بازی نکلا
میں عجب دیکھنے والا ہوں کہ اندھا کہلاؤں
وہ عجب خاک کا پتلا تھا کہ نوری نکلا
میں وہ مردہ ہوں کہ آنکھیں مری زندوں جیسی
بین کرتا ہوں کہ میں اپنا ہی ثانی نکلا
جان پیاری تھی مگر جان سے بیزاری تھی
جان کا کام فقط جان فروشی نکلا
خاک میں اس کی جدایُ میں پریشان پھروں
جب کہ یہ ملنا بچھڑنا مری مرضی نکلا
اک نئے نام سے پھر اپنے ستارے الجھے
یہ نیا کھیل نئے خواب کا بانی نکلا
وہ مری روح کی الجھن کا سبب جانتا ہے
جسم کی پیاس بجھانے پہ بھی راضی نکلا
میری بجھتی ہوئی آنکھوں سے کرن چُنتا ہے
میری آنکھوں کا کھنڈر شہرِ معانی نکلا
میری عیار نگاہوں سے وفا مانگتا ہے
وہ بھی محتاج ملا، وہ بھی سوالی نکلا
میں نے چاہا تھا کہ اشکوں کا تماشا دیکھوں
اور آنکھوں کا خزانہ تھا کہ خالی نکلا
صرف حشمت کی طلب، جاہ کی خواہش پائی
دل کو بے داغ سمجھتا تھا، جذامی نکلا
اک بلا آتی ہے اور لوگ چلے جاتے ہیں
اک صدا کہتی ہے ہر آدمی فانی نکلا
یہیں کہیں پہ کبھی شعلہ کار میں بھی تھا
شبِ سیاہ میں اک چشمِ مار میں بھی تھا
بہت سے لوگ تھے سقراط کار و عیسیٰ نفس
اسی ہجوم میں اک بے شمار میں بھی تھا
یہ چاند تارے مرے گرد رقص کرتے تھے
لکھا ہوا ہے زمیں کا مدار میں بھی تھا
سنا ہے زندہ ہوں، حرص و ہوس کا بندہ ہوں
ہزار پہلے محبت گزار میں بھی تھا
جو میرے اشک تھے برگ خزاں کی طرح گرے
برس کے کھُل گیا، ابرِ بہار میں بھی تھا
مجھے سمجھنے کی کوشش نہ کی زمانے نے
یہ اور بات ذرا پیچ دار میں بھی تھا
سپردگی میں نہ دیکھی تھی تمکنت ایسی
یہ رنج ہے کہ انا کا شکار میں بھی تھا
مجھے عزیز تھا ہر ڈوبتا ہوا منظر
غرض کہ ایک زوال آشکار میں بھی تھا
مجھے گناہ میں اپنا سراغ ملتا ہے
وگرنہ پارسا و دیندار میں بھی تھا
برائے درس اب اطفالِ شہر آتے ہیں
حرام کارِ غنا و قمار میں تھا
میں کیا بھلا تھا یہ دنیا اگر کمینی تھی
درِ کمینگی پر چوبدار میں بھی تھا
وہ آسمانی بلا لوٹ کر نہیں آیَ
اسی زمین پہ امید وار میں بھی تھا