ساقی فاروقی : آپ بیتی پاپ بیتی سے اقتباس
میں گرمیوں کی چھٹیوں میں تمکوہی، نان پارہ یا سیتا پور سے یعنی جہاں جہاں بھی ابا کا ملازمت کے سلسلے میں تقرر ہوتا وہاں وہاں سے، گاؤں آتا۔ پھوپھی بہرائچ سے بچوں سمیت پہنچ جاتیں (احمد ہمیش کا تعلق اس شو گر مل والے قصبے سے بھی ہے )۔ آنگن میں پلنگ اور چارپائیاں ڈال دی جاتیں۔ ایک طرف دادی، اماں، چچی اور پھوپھی کے پلنگ، دوسری طرف گاؤں کی کنواریوں اور نئی بیاہتا عورتوں کی چارپائیاں۔ باڑ کے طور پر ہم بچوں کی چھوٹی چھوٹی مسہریاں۔ میں پانچ سال کی عمر سے سات سال کی عمر تک اپنی متجسس انگلیوں کو لذت کی ٹریننگ دیتا رہا۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جب دادی، اماں، چچی اور پھوپھی نیند کے خرابے میں اتر جاتیں تب میں بستر کے نشیب سے ابھر کے رات کی معزز مہمانوں کی چارپائیوں کی طرف چلا جاتا۔ جانگیا اور انگیا سے ان سخی بدنوں کی صاحب سلامت نہیں تھی، اس لیے صرف چولیوں اور ساریوں اور ان کے نیچے چھپے ہوئے خزانوں سے ملاقات ہوتی۔ سیر دستی ہو جاتی اور اگر آنگن میں چاندنی چھٹکی ہوتی تو سیر چشمی بھی۔ میں عمر کی ساتویں منزل پر پہنچا تو مجھے مردانے میں بھیج دیا گیا۔ مگر ان تین چار برسوں نے ، سن بلوغ سے پہلے ہی، شہوانی جذبات کی پرورش کی ہو گی اور میری جنسی شخصیت کی تعمیر میں حصہ لیا ہو گا…
…یہاں ایک واقعے کا ذکر ضروری ہے۔ 1951 میں ہمارا ہوسٹل ایک بہت وسیع بلڈنگ میں منتقل ہو گیا تھا۔ اس میں ایک بہت بڑا ہال، 15 کمرے، دو غسل خانے، ایک باورچی خانہ، ایک پانچ لمبی لمبی چوکیوں، چٹائیوں اور دریوں والا طعام خانہ اور دو سنڈاس تھے۔ حالی نے مسدس میں چوماچاٹی والی غزلیہ شاعری کے لیے “سنڈاس” کا لفظ پہلی بار استعمال کیا تھا، خدا کا شکر ہے کہ انتقال فرما گئے ، نہ جانے وہ شمس الرحمن کی کلاسیکی الہٰ آبادی اور وزیر آغا کی جدید وزیر کوٹی غزل کی لیپاپوتی کو کیا نام دیتے۔ بیچ بیچ میں بھٹکنے اور ڈیم فول شاعری کو ذلیل کرنے کی عادت سے پڑگئی ہے ورنہ کہنا صرف یہ چاہتا تھا کہ مکان سے باہر بھی ایک سنڈاس تھا جو اس مکان کے ہندو مالکان نے اپنے نوکروں کے لیے بنایا ہو گا۔ سینئر طلبا باری باری دم کا کم از کم ایک گھنٹہ وہیں ضائع کرتے۔ اس لیے کہ چہار دیواری سے ادھر ایک بنگالی خاندان کا گھر تھا، جس میں سولہ سترہ سال کی دولڑکیاں بھی رہتی تھیں۔ وہ ادھ رسے پستانوں اور گدر سرین کی مالک تھیں۔ ان کے گھر کے باغ کے بیچ ایک کنواں تھا جہاں وہ روزانہ یا ہر دوسرے روز غسل کی مرتکب ہوتیں۔ ہم سب روزن شکستہ سے ان کے “کم بخت دل آویز خطوط” (شکریہ، فیض صاحب) کا مطالعہ کرتے اور “خود وصلی ” کرتے۔
ہاتھ سے آنکھوں کے آنسو تو نہیں پونچھے تھے (میراجی)
اس وقت مجھے چھاتیوں سے زیادہ کولھوں سے رغبت تھی۔ انھی کی یاد میں پینتیس سال بعد میں نے اپنا مزے دارمضمون نما، “ایک پشت کی مدافعت میں ” لکھا تھا جس کی داد میرے معزز دوست اور آج کے سب سے بڑے نثّار مشتاق احمد یوسفی نے یوں دی تھی:
ساقی صبح کی ڈاک سے تمھارا مضمونچہ ملا، ہم دونوں (یعنی ادریس بھابھی اور یوسفی صاحب) دو تین بار پڑھ چکے ہیں۔ عجب قیامت کی نثر لکھی ہے، قیامت تک خوش رہو مگر یاد رکھو کہ اس قسم کی داد وہی دے سکتا ہے جس نے نثر اور کولھے دونوں برتے ہوں۔
(پیارے یوسفی صاحب، کیا خوب قیامت کا تھا گویا کوئی دن اور)۔ چونکہ اس تعریف سے میری انا پھول کر کپا ہو گئی تھی، اس لیے اس مضمونچے کو revisit کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ شاید اس لیے بھی کہ میری یہ تحریر میری کسی اور کتاب میں موجود نہیں۔ نقل بمطابق اصل:
ایک پشت کی مدافعت میں
… وہ اس کی طرف پشت کیے، سنک میں صبح کے جھوٹے برتن دھو رہی تھی…”عورت اور مرد کی پشت یکساں ہوتی ہے۔ ” پتہ نہیں سلطان حیدر جوش نے یہ فقرہ کیسے لکھ دیا، اس نے وائن کی بوتل کھولتے ہوئے سوچا۔ یہ غلط فہمی پشت ہا پشت سے ہے۔ دراصل یہ بڑی بھٹکانے والی بات ہے ورنہ مرد کی پشت خاصی سپاٹ ہوتی ہے، شانوں سے لے کر کمر تک تو ٹھیک ہے کہ اس میں چیتے کی پشت کا سا طنطنہ اور کس بل ہوتا ہے مگر کولھے غیر مسطح اور ناتراشیدہ ہوتے ہیں اور کسی عمر رسیدہ کولھو کے بیل کے پچھلے دھڑسے مشابہت رکھتے ہیں یعنی وہ حصہ جو ‘قلب’ سے جدا ‘میمنہ میسرہ’ کرتا رہتا ہے …ان کے مقابلے میں عورت کے کولھے، کمر کے لوچ کا جھٹکا کھا کر ایک وحشت کے انداز میں دو آدھے آدھے چاند بناتے ہوئے فراز سے نشیب کی طرف ہجرت کرتے ہیں، جلالی دریاو ¿ں کی طرح، اور پراسرار رانوں کی سنگلاخ چٹانوں سے ٹکرا کر ٹھہر جاتے ہیں۔ مرد کے کولھوں کی زمین قحط زدہ اور پتھریلی ہوتی ہے۔ عورت کے کولھوں کا خمیر زر خیز مٹی سے اٹھا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ ان کا ایک اپنا مزاج، ایک اپنی شخصیت ہوتی ہے۔ یہ خیال غلط ہے کہ آدمی نے پتھروں کے رگڑنے سے آگ پیدا کی۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ پہلا شعلہ اسی چقماق سے نکلا ہو گا۔ پھر ہر وصال کے بعد مرد کے کولھے اندر کی طرف دھنستے جاتے ہیں مگر عورت کے کولھوں میں رس بھرتا جاتا ہے اور گولائیوں میں ایک ساحرانہ دلکشی آتی جاتی ہے۔ ایک عورت کی پشت دیکھ کر آسانی سے قیاس آرائی کی جاسکتی ہے کہ اس کے پیچھے کتنے وصالوں کا عمل دخل رہا ہو گا…وہ اس کی طرف پشت کیے، سنک میں صبح کے جھوٹے برتن دھو رہی تھی…
(تمت بالخیر۔ مطبوعہ”شب خون”، الہٰ آباد)
…میں محفوظ کے اصرار پر چار پانچ ہفتے حیدر آباد ہی میں رہا۔ الیاس عشقی ریڈیو پاکستان کے ریجنل ڈائرکٹر تھے۔ ان کے لیے دس گیت لکھے کہ سفر کی چیزوں کے لیے پیسے جمع کر رہا تھا۔ میرے یار غار حمایت علی شاعر اسی اسٹیشن پر اسکرپٹ رائٹر اور ریڈیائی ڈراموں کے ڈائریکٹر تھے۔ ہم دونوں نے رفیق چمن کی فلم “بہن بھائی” کے نغمے لکھے تھے۔ فلم سالی کبھی ریلیز نہیں ہوئی مگر نغمے یا گانے ریکارڈ ہو چکے تھے۔ حمایت نے ریڈیو پر وہی گیت بجوائے جو میں نے لکھے تھے تاکہ مجھے کچھ پیسے مل سکیں۔ یہیں محسن بھوپالی سے میری پہلی ملاقات ہوئی تھی اور غالباً یہیں حمایت نے اور میں نے یک رکنی غزل کا ایک تجربہ کیا تھا یعنی پوری غزل صرف “فاعلاتن” میں لکھی گئی تھی۔ وہ پوری غزل حمایت کی آپ بیتی میں کہیں محفوظ ہے۔ مجھے صرف مطلع یاد ہے :
جو کرم ہے
اک ستم ہے
یہ غزل سبط حسن نے اپنے رسالے “لیل و نہار” میں ہم دونوں کے مشترکہ نام کے ساتھ چھاپی تھی۔ کراچی میں دس روپے کا چیک بھیجتے ہوئے سبطے بھائی نے مجھے لکھا تھا، “پانچ روپے حمایت کو دے دینا اور ہاں یہ تو بتاو ¿ کہ کون سے مصرعے کس کے ہیں ؟ ” میں نے انھیں جواب دیا، “ٹھیک سے یاد نہیں مگر اچھے مصرعے میرے ہیں۔ “
میں نے حمایت کو وہ پانچ روپے آج تک نہیں دیے، خدا کرے وہ مجھ پر ہرجانے کا دعویٰ نہ کریں کہ اب تو وہ پانچ روپے پانچ پونڈ بن چکے ہوں گے۔
Saqi_Farooqi_at_the_British_Library_12_April_2011انھیں پیسے نہ دینے کا ایک سبب اور بھی ہے جو بعد میں بتاؤں گا۔ محفوظ تو کام کرنے کے لیے صبح ہی صبح اپنے پاسپورٹ آفس چلے جایا کرتے تھے۔ میں نہا دھو کر نچلی منزل میں “نئی قدریں ” کے دفتر میں چلا جاتا اور استاد اختر انصاری کے ساتھ ان کے دفتر میں ہی ناشتہ کرتا۔ مجھے ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ابھی تیسرا دن ہو گا کہ ایک نہایت خوب صورت سولہ سترہ سالہ میٹرک کی طالبہ ‘استاد’ کا آٹو گراف لینے کے لیے آئی۔ وہ برقع پہنے ہوئے تھی۔ اس کا الٹا ہوا نقاب، پر کترے بال اور کرنجی آنکھیں دل میں آج بھی گڑی ہوئی ہیں۔ خدا کرے کہ اسے کوئی اچھا شوہر مل گیا ہو اور اس خوش بخت نے ان چیزوں کو اسی طرح دیکھا ہو جس طرح میں نے دیکھا تھا (کیا جانیے تو نے اسے کس آن میں دیکھا…سودا)۔
دوسرے دن وہ لڑکی اپنی دو سہیلیوں کے ہمراہ میرا آٹو گراف لینے کے لیے آئی۔ پھر تو خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ہر روز ہی ان میں سے کوئی نہ کوئی لڑکی “آٹو گراف” لینے کے لیے پہنچ جاتی۔ خیر، محفوظ کو تو ہر روز ہی میں سب کچھ بتادیتا مگر مجھے کیا خبر تھی کہ ہوٹل والوں نے استاد سے میری شکایت کر رکھی ہے۔ ایک دن ان کے دفتر میں چائے پی رہا تھا تو استاد کہنے لگے، “منیجر کہہ رہا تھا کہ پچھلے دروازے سے کچھ لڑکیاں تمھارے کمرے میں آتی جاتی رہتی ہیں جس سے ہوٹل کی ریپوٹیشن خرا ب ہو رہی ہے۔ ” میں نے محفوظ سے ذکر کیا، وہ خود ہی کسی کرائے کے فلیٹ کی تلاش میں تھے۔ اس سے پہلے کہ ہم منتقل ہوتے، ایک دن میں اپنے کمرے میں “آٹو گراف” دے رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ بے چاری لڑکی نے سراسیمگی کے عالم میں جلدی جلدی اپنی شلوار پہنی۔ میں جیسے تیسے پتلون چڑھائی۔ اس ساری کاروائی میں دو تین منٹ سے زیادہ نہیں لگے ہوں گے۔ دروازہ کھولا تو اختر انصاری اکبر آبادی اور حمایت علی شاعر مسکراتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے۔ اس تازہ گرفتار فاختہ نے نہایت سعادت مندی سے کہا، “حمایت چچا سلام”۔ حمایت نے بھی نہایت شفقت سے سلام کا جواب دیا، “خوش رہو بیٹی”۔ ایک دو منٹ کے بعد یہ غنچہ نو شگفتہ اپنے رنگ اوڑھ کے اور اپنی خوشبو چھوڑکے چلا گیا۔ حمایت نے بتایا کہ یہ ان کے ہمسایوں کی لڑکی تھی اور انھیں کے محلے میں رہتی ہے۔
استاد نے قہقہہ لگاتے ہوئے فرمایا کہ ہم دونوں کنجی والے سوراخ سے سارا تماشا دیکھ رہے تھے۔ غرض کہ ان دونوں سخن وروں کے باعث میں نے حیدرآباد میں “آٹو گراف” دینے بند کیے اور دو چار دن بعد ہی کراچی لوٹ آیا۔ استاد کا تو کچھ بگاڑنہیں سکا مگر حمایت کے پانچ روپے آج تک نہیں دیے ..
آخر آخر میں یہ کہ میں سلیم احمد کی شخصیت کے ایک ایسے گوشے سے نقاب اٹھا رہا ہوں جس سے اردو والے بالکل یا بڑی حد تک آگاہ نہیں۔ چونکہ اس روداد میں میری اپنی افتاد پوشیدہ ہے، اس لیے جلتے ہوئے انگاروں پر قدم قدم سنبھال سنبھال کے رکھتا ہوا گذروں گا۔ اس لیے بھی کہ چپل اتاردی ہے اور ننگے پاو ¿ں چل رہا ہوں۔
ہوا یوں کہ شمیم احمد، میں اور اطہر نفیس یکے بعد دیگرے ایک ہی زلف کے اسیر ہوئے (شکریہ میر جی)۔ یہ “زلف” عطیہ بیگم فیضی کی طرح، علم و فراست والے موباف تو نہیں لگاتی تھی مگر ذہانت، جنسی، تشنگی اور لگاوٹ والے بیلے اور چنبیلی کے ہار ضرور پہنتی تھی۔ ہم تینوں انھی ہاروں کے خوشبو سے ہارے۔
دے پیچ ادھر زلف اڑا لے گئی دل کو (مصحفی)
(مجھے شاعر کا نام یا د نہیں تھا۔ مشفق کو فون کیا۔ اس نے جھٹ سے نام بتایا تو میں نے پٹ سے شکریہ ادا کیا۔ خدا اسے اور شمس الرحمن کو سلامت رکھے۔ صبح سویرے اٹھتے ہی، کلّی اور استنجا کر کے ان کی درازءعمر کی دعا مانگتا ہوں۔ وہ اس لیے کہ مجھ سے پہلے یہ کمبخت مرمرا گئے تو مجھے شاعروں کے نام، ان کی تاریخ پیدائش وغیرہ کون بتائے گا۔ ان کو اسی طرح کی چوتیا پنتی کے کاموں کے لیے زندہ رکھنا چاہتا ہوں۔ آہ کہ ان بدمعاشوں کو معلوم نہیں کہ وہ کس کی دعاو ¿ں کے سبب اب تک زندہ ہیں۔ )
اس مثلث میں اطہر بعد میں شامل ہوا۔ جب شمیم نے ایک نیا معاشقہ شروع کر لیا ور میں لندن چلا آیا۔ چنانچہ اس واقعے کے دو ہی مدعی اور دفاعی ہیں ؛ شمیم اور میں۔ چونکہ وہ خاتون ہمارے ایک نہایت عزیز دوست کی بیوی بھی تھیں (بلکہ اب تک ہیں ) اس لیے معاملہ مزید الجھتا چلا گیا۔ (خوف فساد خلق کے باعث ان کا نام بدل رہا ہوں کہ مشرقی ہوں )۔ ایک دن تو غضب ہو گیا۔ دو پہر چڑھی ہوئی تھی۔ میں اس سایہ دار سہاگن کے بستر استراحت اور غلط آسن میں علم الابدان کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف تھا۔ ناگہاں باہر والے دروازے کے کھلنے کی آواز سنائی دی (دور اترا کسی تالے کے جگر میں خنجر۔ فیض) میں نے نہایت پھرتی سے قمیص اور پتلون پہنی اور جوتوں میں پیر ڈالے۔ مجھے پچھلے دروازے سے باہر نکال کے اس زودفہم نے کنڈی لگادی۔ ابھی دس بیس ڈگ بھی نہیں بھرے تھے کہ ہر چیز دھندلی دھندلی دکھائی دی۔ ملٹن کی طرح میری دنیا بھی تاریک ہوتی نظر آئی۔ یاد آیا کہ اپنا چشمہ تو تکیے کے نیچے چھوڑآیا ہوں۔ اب کاٹو تو لہو نہیں بدن میں۔ بقیہ دن “حافظ جی” کی طرح گذارنا میرے بس میں نہ تھا۔ پورے بلاک کا چکر کاٹتا، جل تو جلال تو، کا ورد کرتا اس گھر کے سامنے والے دروازے تک پہنچا۔ (اک گھر کے درو بام کو تکتے رہے تا دیر۔ سلیم احمد) ایک دو منٹ کے توقف کے بعد دستک دی۔ دروازہ کھلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ شوہر نامدار ہی نہیں بلکہ شمیم احمد بھی براجمان ہیں۔ دونوں ساتھ ہی آئے تھے۔
علیک سلیک کے بعد لونگ روم سے سیدھا بیڈ روم میں چلا گیا۔ تکیے کے نیچے سے عینک اٹھائی۔ واپس لونگ روم میں پہنچا۔ اعلان کیا کہ چشمہ بھو ل گیا تھا (ہائے چشمہ وائے چشمہ، بھاڑمیں جائے چشمہ) اور باہر والے دروازے کی طرف روانہ ہوا۔ مسئلے کی نزاکت کو دیکھ کر اس خاتون نے اپنے شوہر زید آفریدی کو مخاطب کر کے واویلا کیا، “تم نہیں ہوتے ہو تو ساقی مجھے تنگ کرنے کے لیے آ جاتے ہیں۔ ان سے کہہ دو کہ تمھاری غیر موجودگی میں ہرگز نہ آیا کریں۔ ” میں گھر سے تو نکل آیا مگر اس عزیز ہ کی آواز تعاقب کرتی رہی۔ جی ہی جی میں تریا چرتر بلکہ تریا چال کی داد دیتا رہا (تریا چرتر نہ جانے کوئے، کھسم مار کے ستی ہوئے۔ ایک پوربی کہاوت)۔ بس پکڑی، گھڑی دیکھی، دو یا ڈھائی بجے تھے۔ سیدھا اطہر کے پاس پہنچا۔ وہ مصروف تھا مگر میری حالت دیکھ کر موٹر رکشا لیا اور مجھے محمود ہاشمی کی دکان میں یہ کہہ کر چھوڑگیا کہ پانچ بجے تک یہیں انتظار کرو…
اطہر نے مجھے محمود کے حوالے کیا، کھسر پھسر کی اور چلا گیا۔ محمود اپنی دکان کے اوپر والے کمرے میں لے گیا اور کہا، “پہلے الحمد اللہ پڑھو، پھر قل ھو اللہ پڑھو، پھر انا اعطینے پڑھو۔ اس کے بعد آیت الکرسی پڑھ کے سو جاو ¿۔ اطہر شام کو آئیں گے پھر ساری باتیں ہوں گی۔ ” چنانچہ ایسا ہی کیا۔ خاک نیند آتی۔ ایک کنگن کے چھناکے کی وجہ سے دل میں بچھوا بجتا رہا۔
اطہر آیا، محمود نے دکان بند کی اور ہمیں کسی قریبی ریستوران میں لے گیا۔ شامی اور سیخ کبابوں اور پراٹھوں کے درمیان میں نے پورا واقعہ سنایا۔ یہ بھی بتایا کہ “یہ سلسلہ تقریباً چھ مہینے سے چل رہا ہے اوراس میں حاشا وکلا میرا کوئی قصور نہیں، میں تو ایک معمولی اناڑی کنوارا تھا اور عضو شرم کو صرف قارورے اور خود وصلی کے لیے استعمال کرتا تھا مگر اس “عفیفہ” نے پہلی بار دوسرے مصارف بھی بتائے :”
من فدائے بت شوخے کہ بہ ہنگام وصال
بہ من آموخت خود آئین ہم آغوشی را (شبلی)
محمود ہاشمی نے اپنی جگمگاتی آنکھوں کی دھنک (boomerang) چلائی اور اپنے ٹھیٹ کرخنداری لہجے میں بولا، “ابے دبڑو گھسڑو، یوں ہی تربیت ہوتی ہے۔ ” (دبڑو گھسڑو، اس نے نہیں کہا تھا، اس کے جملے کے پینترے اور اس کے مقاصد کو اجا گر کرنے کے لیے میں نے یہ الفاظ اختیار کیے ہیں )۔ اطہر نے گلے لگایا اور کہا تو یہ کہا، “جس طرح نقلی دانت لگانے والے دانتوں کا دوسرا سیٹ (Set)، حفظ ما تکلم کے طور پر اپنے پاس رکھتے ہیں ، تمھیں بھی اپنے پاس چشمے کا ایک اور جوڑا رکھنا چاہیے تھا۔ “
غرض کہ ا ن دونوں نے فوراً میرے ہاتھ پر بیعت کر لی اور ایمان لے آئے۔ دوسرے یا تیسرے دن میں نے اور اطہر نے جمال کو بھی صورت حال سے آگاہ کر دیا مگر…مگر اس روز میرے اندر بڑا طوفان تھا۔ کالی آندھی آئی ہوئی تھی، جھکڑچل رہے تھے۔ یہ احساس جرم کہ میں نے ایک نہایت نفیس اور دردگسار دوست کا آبگینے بلکہ خوابگینے جیسا دل توڑا اور اس کا اعتبار کھویا، شب خون مارتا رہا۔ دھیان کی سطح پر ایک اور جل کنبھی تیر رہی تھی جس میں ناگ پھنی ایسے کانٹے ا ±گے ہوئے تھے۔ یہ خیال کہ مسز آفریدی نے، اپنے بچاو ¿ کی کوشش میں جھوٹ بو ل کر ایسا کھیل کھیلا ہے کہ احباب تو احباب، خود اپنی نظر میں بھی بحالی مشکل سے ہو گی۔ پندار کی شکست نے حواس باختہ کر رکھا تھا۔ سوچ رہا تھا کہ یہ کوئی عظیم عشق یا گہری محبت قسم کی چیز نہ سہی مگر ایک طرح کا جنسی سمجھوتہ one night stand) یا (infatuation ضرور تھا مگر اس میں بھی احساسات شامل ہوتے ہیں۔
غرض کہ رہ و رسم آشنائی پر میری مجروح انا غالب آئی اور روح میں منتقمانہ جذبات کی، پہلے ہلکی گلابی پھر گہری سرخ کونپلیں پھوٹنے لگیں۔
ہم تینوں فریئر روڈ سے ہوتے ہوئے صدر تک پہنچے۔ طے پایا کہ میں شمیم سے مل کر پہلے یہ معلوم کروں کہ میرے چلے جانے کے بعد اس گھر میں ہو ا کیا؟ زید آفریدی کس عذاب سے گذرا؟ قیامت آئی کہ نہیں ؟ ظاہر ہے اس وقت تک ہم میں سے کسی کو معلوم نہیں تھا کہ عرصہ دو سال سے، مجھ سے کہیں پہلے شمیم بھی اسی آستانے کی ارادت کے سزاوار تھے جس کا میں [مجھے کیا پتہ تھا کہ دو تین سال بعد اطہر نفیس بھی (معصوم بن مظلوم) اسی زرخیز زمین پر سجدہ گذار ہوں گے۔ غرض کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا تھا۔ شاید یوں کہنا چاہیے کہ مسز آفریدی نے ہماری مٹی پلید کر دی تھی۔ ]
صدر پہنچ کر محمود اور اطہر اپنے اپنے گھروں کی طرف اپنے اپنے موٹر رکشاؤں میں روانہ ہوئے۔ میں نے بس پکڑی اور جہانگیر روڈ پہنچا۔ دیکھا کہ سلیم اور شمیم اپنے اپنے کمروں میں (باہر والے دو کمرے ) اپنی اپنی بتیاں جلائے ، اپنے اپنے بستروں میں لیٹے اپنی اپنی کتابیں پڑھ رہے تھے۔ میں نے سلیم احمد کا دروازہ کھٹکھٹایا تو آواز آئی، “ساقی دروازہ کھلا ہوا ہے، آ جاؤ۔ میں تمھارا ہی انتظار کر رہا تھا۔ ” میں نے اندر داخل ہوتے ہوئے پوچھا، “یہ ولایت کی کون سی منزل ہے، آپ کو کیسے پتہ چلا کہ رات کے گیارہ بارہ بجے آنے والا ساقی ہے؟” سلیم خاں نے کتاب رکھی، ہاتھ ملایا اور چارپائی کے بیچوں بیچ آلتی پالتی مار کے بیٹھ گئے۔
کہنے لگے، “شمیم نے دو تین گھنٹے پہلے دوپہر والا سارا واقعہ بتادیا ہے۔ ” مجھے سخت صدمہ ہوا۔ میں نے کہا، “اس نے زیادتی کی، وہ آپ کا بھائی سہی مگر میرا دوست بھی ہے، اسے پہلے مجھ سے Clearance لینی چاہیے تھی کہ آپ تو ہم سب کے آخری مرجع ہیں، آپ سے گفتگو کل پرسوں ہو گی تاکہ تصویر کا دوسرا رخ بھی آپ کی نظر میں آ جائے ، آج کی رات میں شمیم کے ساتھ گذارنا چاہتا ہوں۔ “
یہ کہہ کر میں شمیم کے کمرے میں چلا گیا۔ وہ کرتہ پاجامہ لایا اور میں کپڑے بدل کر بتی بجھا کر اس کے ساتھ لیٹ گیا۔ شمیم نے بتایا کہ میرے جانے کے بعد سچ مچ قیامت آ گئی تھی۔ اس خاتون نے رو رو کے سارا گھر سر پر اٹھا لیا تھا۔ یہ بھی کہ شمیم نے مداخلت کی ورنہ زید آفریدی تو تمھارے ابا سے شکایت کرنے جا رہے تھے۔ غرض کہ شمیم ساری رات مجھ پر لعن طعن کرتا رہا اور گفتگو کی تان اس پر ٹوٹی کہ میں ہرگز ہرگز مسٹر اور مسز آفریدی کے گھر میں قدم نہ رکھوں ورنہ دوستوں میں اور خاندانوں میں بلکہ پورے شہر میں بڑی تھئی تھئی ہو گی۔ مگر بیچ بیچ میں وہ کرید کرید کر یہ بھی پوچھتا جاتا کہ فلانی رات کو کچن میں کیا ہوا تھا، فلانی دوپہر کو سنیما میں کیا گل کھلے تھے، فلانے دن کلفٹن میں تم دونوں نے کیوں گل چھرے اڑائے تھے، فلانے ویک اینڈ پر ہاکس بے کی کاٹیج میں ان کی ساڑھی، انگیا اور جانگیا الگنی پر کس لیے سکھائیں وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔ مگر کیا مجال کہ اس ظالم نے جھوٹوں بھی یہ بتایا ہو کہ اس عزیزہ کے کانٹے میں یہ مچھلا بھی (مچھلی کا نر) پھنسا ہوا ہے۔ یہ تو ہم سب کو دو تین ہفتوں کے بعد پتہ چلا کہ اس کے جارحانہ رویے کے پیچھے رقابت (jealousy) اور مسترد (rejection)ہونے کا دکھ تھا۔ [پچھلی بار کراچی گیا تو مشفق خواجہ نے بتایا کہ ایک روز شمیم ان کے پاس آئے تھے اور انھوں نے دل کے داغ اور زخم انھیں بھی دکھائے تھے اور بتایا تھا کہ ہم دونوں (شمیم اور میں ) ایک زمانے میں رقیب رہ چکے ہیں۔ ]
قصے کو مختصر کرتا ہوں۔ دوسرے روز وہ خاتون میرے گھر آئیں۔ معافی مانگنے کے لیے۔ میں نے صدق دل سے معاف کر دیا (ادھر سے بھی ہے سوا کچھ ادھر کی مجبوری /کہ میں نے آہ تو کی ان سے آہ بھی نہ ہوئی۔ جگر مراد آبادی)۔ پھر وہ ہر دوسرے تیسرے روز آتی رہیں، جب بھائی بہن اسکول چلے جاتے اور ابا اپنے دفتر اور اماں بدرالنسا خالہ یا منی خالہ یا سلمیٰ خالہ کے ہاں۔ مسز آفریدی ایک طرف تو اپنے شوہر اور شمیم سے اپنی معصومیت کا پرچار کرتی رہیں ، دوسری طرف مجھ سے ہر دوسرے تیسرے روز “وصالیہ” (نیا لفظ ایجاد کیا ہے ) بھی جاری رہا۔ مگر شمیم کی وجہ سے شہر میں میری رپوٹیشن خراب ہوتی جا رہی تھی۔ دس بارہ دن بعد میں نے سلیم احمد کی کنج میں پناہ لی۔ الف سے یے تک سارے واقعات بیان کیے۔ یہ بھی کہ کسی قد آور تاڑ سے ٹوٹ کر شمیم کسی بونے کھجور کی شاخ سے اٹکے ہوئے ہیں۔
saleem-ahmedسلیم احمد نے کمال کی بات کہی، “ساقی خاں ! میرا خیال ہے، شمیم اپنی rejection سے بوکھلایا ہوا ہے۔ وہ مسز آفریدی کا تو کچھ بگاڑنہیں سکتا، صرف تمھارے بارے میں غلط سلط افواہیں پھیلانے پر قادر ہے۔ اب تمھارا مسئلہ بھی محبت وحبت نہیں رہا بلکہ خود پرستی اور انا ہے اور ہر چند کہ میں تمھارا سلیم بھائی، تمھاری بہی خواہ ہوں، مگر تمھارے دل میں کہیں نہ کہیں یہ بھی ہے کہ میں تم پر شک کرتا رہا ہوں کہ شمیم کا بھائی ہوں۔ اس شک کی بیخ کنی کے لیے ضروری ہے کہ ایک معتبر گواہ پیدا کیا جائے۔ ” (جی چاہتا ہے آج کوئی تیسرا بھی ہو۔ فراق)
جب میں نے اصرار کیا کہ سلیم احمد خود گواہ بنیں تو وہ مان گئے۔ چونکہ مسز آفریدی، منگل، بدھ یا جمعرات کو تاوان دینے کے لیے میرے گھر آتی تھیں کہ انھی دنوں میرا گھر خالی رہتا تھا، چنانچہ طے پایا کہ اگلے بدھ کو سلیم خاں میرے پاس آئیں گے ، یہ دیکھنے کے لیے کہ واقعی وہ خاتون میرے گھر آتی ہیں کہ نہیں۔ ایک وصالیے کے بعد میں نے اس خاتون سے کہا کہ اگلے ہفتے وہ بدھ کو آئیں۔ جیسا کہ کہیں لکھ چکا ہوں ، شمس الرحمن فاروقی کا کزن یونس فاروقی (یعنی افسانہ نگار نجم فضلی) ساتھ والے گھر میں رہتا تھا۔ ہمارے گھروں کے درمیان صرف ایک دیوار حائل تھی۔ اس کے باہر والے کمرے میں ایک نہایت کشادہ کھڑکی تھی جس سے گلی میں آنے جانے والوں کا مطالعہ ہو جاتا۔ اگر کوئی عورت ہوتی تو ہماری آنکھیں معانقہ بھی کر لیتیں۔ یہ وہی کمرہ تھا جس میں ریحان صدیقی، نجم فضلی اور میں ، بلکہ کبھی کبھی کوئی اور ابھاگا بھی ایک پیسہ فی پوائنٹ والی رمی کھیلتے۔ اب یاد نہیں کہ کون، کس کا کتنا مقروض ہے۔
غرض کہ نجم فضلی کو صورت حال سے آگاہ کیا کہ سلیم احمد اگلے بدھ کو نو بجے آئیں گے۔ اس دن اس نے بستر کا رخ اس طرح بدلا کہ کھڑکی کے شیشوں سے اور چہار دیواری کے جھروکوں سے، گلی سے گذرنے والا، ہر آنے جانے والا نظر میں رہے۔ یہی نہیں، اس ظالم نے کمرے کو بھی مہذب کیا۔ ہر چیز سلیقے سے رکھی، بستر کو نئی چادر بخشی اور تکیے کا غلاف تک بدلا۔ ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے مجھے چابی دے کر دفتر چلا گیا۔
اس سے پہلے سلیم احمد میرے گھر دو تین بار ہی آئے ہوں گے کہ دستگیر کالونی ذرا out of the way تھی۔ مجھے ڈر لگا ہوا تھا کہ کہیں رستہ ہی نہ بھول جائیں۔ مگر واہ رے وہ ٹھیک ساڑھے نو بجے موٹر رکشا میں پہنچ گئے۔ بتایا کہ گھر سے یہ کہہ کے نکلا ہوں کہ ریڈیو جا رہا ہوں تاکہ کسی کو شک نہ ہو (یہاں “کسی” سے ان کی مراد شمیم سے تھی۔ آج یہ لکھتے ہوئے آنکھیں نمناک ہیں کہ اس آدمی نے قیامت کی دوستی نبھائی)۔
مجھے معلوم تھا کہ سلیم ناشتہ کیے بغیر آئے ہوں گے۔ اس لیے اماں کے بنائے ہوئے کبابوں ، چانپوں اور روغنی ٹکیوں (روٹیوں کی موٹی موٹی، گدر گدر، چھوٹی چھوٹی بیٹیاں ) کی سینی (ٹرے ) رکھ کر نجم فضلی کے چولھے پر چائے بنا کر پوچھا، “میریا غالب یا اقبال؟” کہنے لگے ، “نہیں آج سودا بازی ہو گی۔ ” چنانچہ سودا کے دیوان کا کمپا لگا کر میں اپنے گھر لوٹ آیا اور ہم دونوں بے چاری فاختہ کا انتظار کرنے لگے۔ گاہے گاہے گلی سے کوئی سوٹ، کوئی کتا، کوئی برقع گذرتا تو چوکنے اور چوکس ہو جاتے (پتیاں کھڑکیں تو سمجھا کہ لو آپ آ ہی گئے۔ مخدوم) مگر آنے والا بجائے دس کے گیارہ بجے آیا۔ داغ کی طرح تمام عمر تو نہیں مگر ایک گھنٹے، قیامت کا انتظار کیا۔ شاید اسی روز مجھ پر یہ ناگوار حقیقت بھی منکشف ہوئی کہ میں اپنی انا کے احیا اور نا انصافی کے تدارک کے لیے اپنی بے رحم محبوبہ کو بھی بخشنے کے قابل نہیں۔ غرض کہ محبوبہ کا زوال محبوب کا زوال بھی ہے …or vice versa۔
ابھی میں مسز آفریدی کو گلنار کر ہی رہا تھا کہ (شاید میرے بوسوں میں رنگوں کے خزانے تھے / وہ صورت افسردہ گلنار نظر آئی۔ دیکھو میری غزل) پہلے پھاٹک کھلنے کی آواز آئی پھر دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے کہا، “سلیم بھائی! دروازہ کھلا ہوا ہے، آ جائیے۔ “وہ اندر آ گئے اور میرے بستر پر بیٹھ گئے۔ اس عرصے میں مسز آفریدی کا رنگ گلابی سے زرد ہو چکا تھا، جیسے کسی نے چہرے پر ہلدی مل دی ہو۔ سلیم خاں انھیں اور وہ سلیم بھائی کو جانتی تھیں۔ آخر کو ہم ایک ہی کنبے کے لوگ تھے نا! پان سات منٹ تک مکمل نہیں، مکمل جیسی خاموشی طاری رہی، ممکن ہے موسم پر کوئی تبادل? خیال ہوا ہو (رستے میں کسی روز اگر مل بھی گئے وہ /ہنستے ہوئے موسم کی کوئی بات کریں گے۔ ڈاکٹر محمد دین تاثیر)۔
ان بے درد ساعتوں میں مسز آفریدی کی شکایتی اور میری ندامتی نگاہیں کئی بار ملیں۔ سلیم بھائی سے رخصتی لے کر وہ میری زندگی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلی گئیں۔ (وہ پلٹ کے جلد نہ آئیں گے یہ عیاں ہے طرز خرام سے …یہ مشہور شاعر اور نیو تھیٹر ز کلکتہ کے نغمہ نگار آرزو لکھنوی کا مصرع ہے۔ میں اپنے قاری سے گذارش کروں گا کہ وہ “جلد” کی جگہ “کبھی ” پڑھے )۔
ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد سلیم خاں اور میں ریڈیو کے لیے نکلے مگر رکشے کا رخ وہ جہانگیر روڈ پر اپنے گھر کی طرف مڑوا کر اتر گئے۔ میں ان کے کمرے میں خاموشی سے بیٹھ گیا۔ انھوں نے اپنی شیروانی اتاری اور شمیم کو آواز دی۔ وہ آیا اور مجھے دیکھ کر ٹھٹکا (کوئی دس دن سے ہماری بول چال بند تھی)۔ اب دونوں بھائیوں کے درمیان ہونے والے ڈائیلاگ کو قلم بند کیے دیتا ہوں :
سلیم: ساقی سے تمھاری شکایت غلط ہے۔ مسز so and so خود اس کے گھر آتی جاتی رہتی ہیں۔
شمیم: ساقی جھوٹ بولتا ہے۔ خود مسزso and so نے بتایا کہ وہ ساقی سے سخت نفرت کرتی ہیں۔
سلیم: بیٹے ! آج میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آیا ہوں کہ وہ ساقی سے ملنے اس کے گھر آتی ہیں۔
شمیم: آپ نے خود اپنی آنکھوں سے …؟
سلیم: ہاں !
شمیم: کب؟
سلیم: ابھی ایک گھنٹے پہلے۔
شمیم: تو کیا صبح کو آپ دست گیر گئے تھے ؟
سلیم: ہاں !اپنے ذہن سے شک کو مٹانے۔
بھائیوں میں گفتگو یہیں تک پہنچی تھی کہ شمیم نے زور زور سے ہچکیاں لے لے کر رونا شروع کیا۔ آپا، “ہائے میرا بیٹا ہائے میرا شمیم” کہتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئیں تو میں بڑا سراسیمہ ہوا۔
(I felt unwanted, and went out – Auden)
[“آپ بیتی /پاپ بیتی”، اکادمی بازیافت، کراچی، جنوری 2008]