منٹو کا ٹائپ رائٹر…..؟… آئینہ
مسعود اشعر
سعادت حسن منٹو کے افسانوں کی طرح اس کا ٹائپ رائٹر بھی ایک پریشان کر دینے والا مسئلہ بن گیا ہے۔ اصل میں یہ سارا قصہ اس طرح شروع ہوا کہ دس سال پہلے لندن میں رہنے والے ہمارے شاعر غرہ ساقی فاروقی نے ہمارے دوسرے نامور شاعر افتخار عارف کو ایک ٹائپ رائٹر دیا اور کہا کہ یہ سعادت حسن منٹو کا وہ ٹائپ رائٹر ہے جو اس نے ن م راشد کے ہاتھ فروخت کردیا تھا۔ ساقی نے کہا کہ راشدصاحب کے انتقال کے بعد یہ ٹائپ رائٹر میرے پاس آگیا ہے۔ اب اسے کسی ایسے ادارے کے سپرد کر دیا جائے جہاں یہ منٹو کی یادگار کے طور پر محفوظ ہو جائے۔ چنانچہ افتخار عارف بڑے طمطراق کے ساتھ وہ ٹائپ رائٹر لاہور لائے اور بڑ ے تام جھام کے ساتھ اسے جی سی یونیورسٹی کی لائبریری کے سامنے سجا دیا گیا۔ سب نے خوشیاں منائیں کہ چلو، منٹو کی ایک یادگار تو ملی۔ انتظار حسین بھی خوش ہوئے کہ منٹو کا ٹائپ رائٹر ہاتھوں ہاتھ ہوتا بالآخر لاہور پہنچ گیا ہے۔ انہوں نے اپنے کالم میں ن م راشد اور ساقی فاروقی دونوں کو مبارک باد دی کہ انہوں نے یہ ٹائپ رائٹر محفوظ رکھا اور اسے مناسب ادارے کے سپرد کر دیا۔
اس وقت کسی نے بھی یہ تصدیق کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ یہ ٹائپ رائٹر واقعی منٹو کا ہے بھی یا نہیں۔ صرف ایک شخص ایسا تھا جو کہہ رہا تھا کہ یہ ٹائپ رائٹر منٹو کا ہو ہی نہیں سکتا۔ اور وہ تھا ہمارا اردو اور انگریزی کا شاعر اور افسانہ نگار ایرج مبارک۔ وہ اصرار کے ساتھ کہتا تھا کہ اس ٹائپ رائٹر کو الٹا کر کے تو دیکھ لو۔ یہ تو دیکھ لو کہ اس پر تاریخ کیا لکھی ہوئی ہے۔ منٹو کا انتقال 1955میں ہوا تھا اور یہ ٹائپ رائٹر اس کے بعد کا بنا ہوا ہے۔ اس کی تصدیق کے لئے اصغر ندیم سید کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ جی سی یونیورسٹی کے لائبریرین سے رابطہ کرے۔ اس نے رابطہ بھی کیا مگر وہاں سے اسے کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا۔ اب تک یہ مسئلہ ایسا ہی بنا ہوا تھا جیسے گھوڑے کے دانت۔ کہتے ہیں کئی عالم فاضل حضرات ایک حجرے میں بیٹھے یہ گتھی سلجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ گھوڑے کے منہ میں کتنے دانت ہوتے ہیں۔ بڑے بڑے حساب کتاب لگائے جا رہے تھے مگر گھوڑے کے دانتوں کی تعداد کا مسئلہ حل ہونے میں ہی نہیں آتا تھا۔ آخر ہم جیسے کسی معمولی عقل ودانش والے نے ان نابغوں سے عرض کیا کہ آپ گھوڑے سے ہی کیوں نہیں پوچھ لیتے کہ تیرے منہ میں کتنے دانت ہیں۔ گھوڑے سے کیسے پوچھیں؟ غصے میں سوال کیا گیا۔ اس کا منہ کھول کے دانت گن لیجئے۔ ڈرتے ڈرتے جواب دیا گیا۔ منٹو کے ٹائپ رائٹر کے بارے میں بھی سارے بحث مباحثے اسی طرح ہو رہے تھے مگر کسی خدا کے بندے کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ منٹو کی صاحب زادیوں سے بھی پوچھ لیتے۔ یہ صاحب زادیاں لاہور میں ہی رہتی ہیں۔اور ان صاحب زادیوں نے خود بھی کوئی بات نہیں کی۔ شاید وہ بھی تماشہ دیکھتی رہیں۔ اب آخر کار واجد علی سید نے منٹو کی صاحب زادی نصرت جلال سے رابطہ کر کے یہ گتھی سلجھا دی ہے ۔واجد علی نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ وہ ٹائپ رائٹر جس پر منٹو اپنے افسانے اور ڈرامے وغیرہ لکھا کرتا تھا آج بھی ان کی صاحب زادی کے پاس ہے حتیٰ کہ ان کے پاس وہ کنٹریکٹ بھی موجود ہے جس پر منٹو نے قسطوں میں یہ ٹائپ رائٹر خریدا تھا۔ جو قسطیں ادا کی گئیں ان کی رسید بھی وہاں موجود ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ منٹو کا ٹائپ رائٹر ریمنگٹن کا ہے اور ن م راشد کے نام سے جو ٹائپ رائٹر جی سی یونیورسٹی کو دیا گیا ہے وہ اولمپیا کا ہے۔ یعنی منٹو نے راشد کے ہاتھ کوئی ٹائپ رائٹر فروخت نہیں کیا۔ چلو، واجد علی سید نے یہ گتھی تو سلجھادی۔
مگر اب ایک اور گتھی پیدا ہو گئی ہے۔ ساقی فاروقی ایسے بے پر کی اڑانے والے تو ہیں نہیں کہ حامد کی ٹوپی محمود کے سر رکھ دیں۔ اگر انہوں نے اتنے وثوق کے ساتھ ن م راشد والی کہانی سنائی ہے تو اس کی کوئی وجہ تو ہو گی۔ وہ یہ تو جانتے ہوں گے کہ ان کے بیان کی تصدیق بھی کی جا سکتی ہے۔ افتخار عارف کے بارے میں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ساقی فاروقی نے ان سے جو کہا انہوں نے اس کا اعتبار کر لیا۔ مگر ساقی فاروقی کیا اپنی’’آپ بیتی پاپ بیتی‘‘کی طرح یہاں بھی کوئی چٹ پٹی کہانی گھڑ رہے تھے؟۔ واجد علی سید نے بہت اچھا کیا کہ وہ منٹو کی صاحب زادی تک پہنچ گئے۔ اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے منٹو کا ٹائپ رائٹر اور خریداری کے کاغذات دیکھ لئے۔ تو کیا اب وہ اتنی تکلیف اور بھی گوارا کر لیں گے کہ ساقی فاروقی کو لندن ٹیلی فون کر کے ان کا موقف بھی معلوم کر لیں؟ سنا ہے ساقی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے لیکن وہ یہ تو بتا دیں گے کہ کیا ن م راشد نے خود انہیں بتایا تھا کہ یہ ٹائپ رائٹر انہوں نے منٹو سے خریدا تھا؟ راشد کے ساتھ ان کے بہت اچھے تعلقات تھے بلکہ خاصی بے تکلفی بھی تھی۔ افتخار عارف ایران میں ہیں۔ اگر واجد علی چاہیں تو ان کی مدد بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ کیا خیال ہے؟ اگر تحقیق کا دروازہ کھل ہی گیا ہے تو اسے اس کے منطقی انجام تک کیوں نہ پہنچادیا جائے؟ بہرحال، یہ تو طے ہو گیا کہ جی سی یونیورسٹی کی لائبریری کے سامنے جو ٹائپ رائٹر رکھا ہے وہ منٹو کا نہیں ہے، ن م راشد کا ہے۔ اب گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کو بھی فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اس ٹائپ رائٹر کا کیا کرے۔ ادب اور خاص طور سے منٹو کے قاری کو دھوکہ تو نہیں دیا جا سکتا۔ اور ہاں، واجد علی سید نے اپنے مضمون میں یہ بری خبر بھی سنائی ہے کہ منٹو کی صاحب زادیاں منٹو کا گھر فروخت کرنا چاہتی ہیں۔ مہذب ملکوں میں اپنے مایۂ ناز ادیبوں کے گھر میوزیم بنا دیئے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی لاہور میں شاکر علی کا گھر میوزیم بنا دیا گیا ہے۔ کیا منٹو اس سعادت کا حق دار نہیں ہے؟ یہ سوال حکومت پنجاب اور وفاقی حکومت دونوں سے کیا جا رہا ہے۔ –
مسعود اشعر | ۲۶ مئی ۲۰۱۶ | ڈیلی پی کے