ساقی فاروقی و نیز ان کے آنجہانی سگ کے نام
انتظار حسین
’ساقی فاروقی کے نام ہمعصروں کے خطوط‘۔ دو تھیلے ان خطوط سے بھرے ہوئے تھے۔ ایک تھیلا ریل گاڑی میں رہ گیا اور گم ہو گیا۔ یہ لندن میں گم ہوا تھا۔ کیا پتہ ہے کہ کب اس عہد میں تحقیق کا کوئی شگوفہ پھوٹے۔ اور یہ تھیلا انڈیا ہاؤس یا برٹش لائبریری میں محفوظ پایا جائے۔ فی الحال ہم اس سے محفوظ ہیں۔ ہماری توجہ کا مرکز دوسرا تھیلا ہے جس کے سارے خطوط ایک جلد میں انڈیل دیے گئے ہیں۔ یہ جلد سات سو بارہ صفحات میں پھیلی ہوئی ہے اور یاروں ہمعصروں کے خطوط بنام پیارے ساقی سے ابلی پڑ رہی ہے۔
ان خطوط سے گزرتے ہوئے ہمیں انیسؔ کا ایک شعر یاد آ رہا ہے ؎
سبک ہو چلی تھی ترازوئے شعر
مگر ہم نے ہلہ گراں کر دیا
وہ یوں کہ خطوط تو ان گنت ہیں۔ پڑھتے جائیے اور پیارے ساقی پر محبان ادب کے ڈونگرے برستے دیکھتے جائیے۔ پھر بھی اس عزیز کو یہ احساس ہوا کہ یہ تو ہلکی پھلکی داد بھری تحریریں ہیں تو اس مجموعہ کو بھاری بھر کم بنانے کے حساب سے ن م راشد کے چند علمی مباحثہ سے لبریز خطوط کو بطور دیباچہ شامل کیا گیا ہے۔ یہ خطوط یہ اشارہ کر رہے ہیں کہ ساقی نے اپنے خط میں انھی جدید شاعری کی تثلیث راشد‘ فیض، میراجی کے مقابلہ میں جدید انگریزی شاعری کی تثلیث پٹس‘ پاؤنڈ‘ ایلیٹ کا حوالہ دیا تھا اور طعنہ دیا تھا کہ آپ تینوں کا کلام پٹس‘ پاؤنڈ اور ایلیٹ والی عظمت سے خالی ہے۔ آخر کیوں۔ راشد صاحب کہتے ہیں کہ ’’یہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ فیض ہو یا میراجی یا یہ نیاز مند ہم میں سے کوئی بھی یقیناً عظیم شاعر نہیں۔ (شاید صرف احمد ندیم قاسمی عظیم ہے جو اپنی کتابوں کے اشتہارات میں اپنے آپ کو عظیم شاعر‘ عظیم مفکر‘ عظیم انسان کی حیثیت سے روشناس کرتا رہتا ہے اور اسے اس بات کا حق بھی پہنچتا ہے کیونکہ وہ عظمت کے مفہوم سے کامل طور پر بے بہرہ ہے)‘‘۔
راشد صاحب کہتے ہیں میں یہ مانتا ہوں کہ ہم تینوں کو جو علم یا تجربہ زندگی سے حاصل ہوا ہے وہ ان کے اندر جا کر وہ نور نہ بن سکا جو آیندہ صدیوں کے راستوں کو روشن کر سکے اس لیے وہ عظیم نہیں ہیں۔ لیکن‘‘۔ لیکن یہ کہ اس کے باوجود اس بنا پر ان تینوں کو رد کر دینا بڑی جسارت چاہتا ہے۔ اور پھر راشد صاحب جو بحث کرتے ہیں وہ بحث چغلی کھاتی ہے کہ وہ اپنی اس تثلیث کو پٹس‘ پاؤنڈ‘ ایلیٹ والی تثلیث سے کچھ ایسی ہیٹی نہیں سمجھتے۔ بہر حال ایک بات تو ان کے حساب سے طے شدہ ہے کہ وہ تین ہی اردو شاعری کے بڑے ہیں۔ ماسوا غالبؔ کے۔ اخترالایمان اس وقت زندہ ہوتے تو اس پر کتنا تڑپتے۔ اور مجید امجد کے سر پر عظمت کا تاج رکھنے والی ہماری نئی امت کتنی چیں بجبیں ہو گی۔
خیر آمدم برسر مطلب اس بحث کی شمولیت سے اتنا تو ہوا کہ وہ جو اس کتاب میں ترازو سبک نظر آ رہی تھی اب وہ خامی دور ہو گئی اور ساقی سے منسوب اس کتاب کا پلہ بھاری نظر آنے لگا۔
مگر اس سے یہ مت سمجھئے کہ اتنے بہت سے خطوط کے باوجود ترازو کا پلہ سبک تھا۔ ارے مشفق خواجہ کے خالی ایک خط نے خطوط کے اس سارے پلندے کو کتنا وزنی بنا دیا ہے۔ دیکھئے ساقی کے اس کتے کو جس نے ساقی کی محبت میں رہ کر کامریڈ کا مرتبہ حاصل کیا خالی کتا مت سمجھئے۔ یہاں تو یہ معاملہ تھا کہ یک جان دو قالب۔ اس کا انتقال پرملال ساقی کے لیے کتنا بڑا سانحہ تھا اسے کسی نے صحیح سمجھا ہے تو وہ مشفق خواجہ نے سمجھا ہے۔ لکھتے ہیں کہ ’’مانا کہ آں جہانی تمہارا ہمدم و دمساز تھا تمہارا ہر وقت کا ساتھی تھا لیکن یہ کیوں بھولتے ہو کہ جو دنیا میں آتا ہے اسے ایک نہ ایک دن یہاں سے جانا بھی ہوتا ہے۔ جانے والے کے غم میں اپنی جان ہلکان نہ کرو۔ شخصیت تو پہلے ہی مسخ ہو چکی ہے کیونکہ وہ عزیز تمہاری شخصیت کا جزو لاینفک تھا۔ معلوم نہیں تم اس کے بغیر کیسے لگتے ہو۔ لوگوں کو پہچاننے میں دقت تو نہیں ہوتی۔
’’مجھے معلوم ہے کہ اخفش کی بکری کی طرح تمہارے کتے کی بھی سخن فہمی بے مثال تھی۔ وہ تمہاری ہر نظم کا پہلا سامع ہوتا تھا۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ تم شاعری میں ن م راشد سے متاثر ہو۔ یہ محض بہتان ہے۔ حقیقت یہ تم صرف اور صرف آن جہانی سے متاثر تھے۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ جب سے تم نے شاعری شروع کی ہے شاعری اور کتے خسی میں کوئی فرق نہیں رہا۔ عزیز موصوف سے تعلق خاطر کی بنا پر تم ہی کو گوناگوں فائدے نہیں پہنچے۔ بلکہ وہ عزیز بھی خاصا فائدے میں رہا۔ اول اول وہ سخن فہم تھا۔ بعد میں سخن ور بھی ہو گیا۔ سنا ہے کہ وہ بھونکتا بھی تھا تو عروضی حدود کے اندر۔ اسے بحر رمل مثمن بہت پسند تھی۔ اور یہ تمہاری بھی پسندیدہ بحر ہے۔ تمہارا کلام اسی بحر میں غرق ہوا ہے۔ اور یہ دلیل ہے اس کی کہ تم دونوں ایک دوسرے سے کتنے متاثر تھے۔
مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ تمہاری اکثر نظمیں اسی جواں مرگ کی فرمائشوں کا نتیجہ ہیں۔ خصوصاً وہ نظمیں جو تم نے انواع و اقسام کے جانوروں پر لکھی ہیں۔ ان میں وہ نظم بھی شامل ہے جس کا عنوان ’ایک کتا نظم‘ ہے۔ سنا ہے کہ تم نے اس قسم کی نظموں کا پورا ایک دیوان مرتب کیا ہے جو ’ایک کتا دیوان کے نام سے چھپنے والا ہے۔ گویا اب تم اپنی عام زندگی کی طرح شاعری میں بھی کتے چھڑواؤ گے۔ اس کتے چھڑوانے پر خواجہ حیدر علی آتش کا ایک شعر یاد آ گیا ؎
اس ترک سے جو کی ہیں صحرا میں چار آنکھیں
جھنجھلا کے کیا ہی کتے چھڑوائے ہیں ہرن پر
مجھے کتوں سے کبھی دل چسپی نہیں رہی۔ اگر ہوتی تو میں فخر سے اپنے آپ کو خواجہ سگ پرست کہلوانا پسند کرتا۔ تاہم اب بھی کسی حد تک اس لقب کا مستحق ہوں۔ کیونکہ بعض سگان دنیا سے دوستی اور محبت کا تعلق رکھتا ہوں۔ بہر حال تمہارے کتے کی موت کا افسوس ہے کہ یہ کتے ہی کی موت مر گیا۔ اگر سگ دنیا ہوتا تو کسی بڑے عہدے پر فائز ہو کر اپنا اور تمہارا نام روشن کرتا۔
’’پہلے ایک مادہ تاریخ سنو۔ سگ ساقی نواز حسب ضرورت‘۔ قطعہ تاریخ یہ ہے ؎
کون عف عف کرے گا سن کے کلام
اک سخن فہم خوش دہاں نہ رہا
کہی دندان سگ سے یہ تاریخ
نظم ساقی کا قدرداں نہ رہا
مذکورہ قطعہ تاریخ قبر پر لکھوا دو تا کہ معلوم ہو کہ تمہاری شاعری کے واحد قدردان کی دم مُوئے پر بھی ٹیڑھی ہے۔ ہاں قبر پر کتا گھاس ضرور لگوانا۔ یہ وہی کتا گھاس ہے جس کا ذکر استاد ذوق نے اس شعر میں کیا ہے ؎
سگ دنیا پس از مردن بھی دامن گیر دنیا ہو
کہ اس کتے کی مٹی سے بھی کتا گھاس پیدا ہو
ایک اور خط سے ایک اقتباس۔ آپ کی کتاب نے ادبی حلقوں میں خاصی ہلچل مچائی ہے لیکن زیادہ تر زبانی جمع خرچ ہو رہا ہے۔
’’کتاب اس طرح پھیلا دی گئی ہے جیسے کوئی وبا پھیلتی ہے‘‘۔
ایک اور خط سے ’’اختر الایمان اچھے شاعر ہیں۔ لیکن نہ جانے کیوں ان کو یہ خیال ہوا ہے کہ ہمچوما دیگرے نیست۔ ایک موقعہ پر انھوں نے یہ بھی کہا کہ میں جدید اردو شاعری کا امام ہوں۔ اس پر اک صاحب نے تبصرہ کیا ’’اخترالایمان کے والد مرحوم ایک مسجد کے پیش امام تھے۔ اختر کو موقع نہ ملا تو جدید شاعری کے امام بن گئے‘‘۔
اس کے بعد کسی اور مکتوب کے حوالے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔ بس ان حوالوں کو کافی سمجھئے۔