بارش میں شریک
شاعر: عطا تراب
مصورہ: فائزہ خان
Hardcover: 208
|
مجھے اس کتاب کا قابلِ مواخذا ایڈیشن بھیجا گیا ہے۔ اب پتا نہیں کہ اس پر بات کرنا، اس کے بارے میں کسی کو بتانا بھی مواخذگی کی حدود میں آتا ہے یا نہیں۔ فہمیدہ ریاض مجنوں صفت آنکھ اور دل کی مالک ہیں۔ اگرچہ یہاں اُن کی رائے قدرے سرپرستانہ ہے۔ دیکھیں: فتح محمد ملک کا کہنا ہے: میں نے عطا تراب کے ان اشعار کو فائزہ خان کی مصوری کی روشنی میں بار بار دیکھا اور بار بار اس سوچ کو دامن گیر پایا کے شعر اچھا ہے یا تصویر پسندیدہ ہے؟ بالآخر تھک ہار کر یہ موازنہ ترک کر دیا اور اشعار اور تصاویر کو وہ دروازہ سمجھا جس سے گزر کر قامتِ حسن میں گُم ہو گیا‘۔ مصوری کے حوالے سے استاد سعید اختر کی آنکھ کا اشارہ بھی اپنی جگہ سند ہے یہاں تو وہ کہتے ہیں: آپ (فائزہ) کا تراب کی شاعری کو تصویروں میں بدل دینا اچھا لگا ۔ ۔ ۔ تراب ایک اچھا شاعر ہے اور آپ ایک اچھی مصورہ‘۔ راہی نے رائے انگریزی میں دی ہے جہاں لفظوں کے باہمی استعمال کو کھولنا ان میں اپنی معنی دینے کے مترادف ہے۔ اس لیے انھوں نے اس کی کوشش خود بھی نہیں کی۔ انور حسین جعفری کو کتاب کا عنوان دلچسپ اور کتاب منفرد لگی ہے اور اس کی انفرادیت ان کے نزدیک مصور اور شاعر کے مابین ہم کاری کی نوعیت میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ بہت سی آرا میں سے چند ہیں۔ وہ اپنا تعارف کراتے ہوئے کہتے ہیں: تراب تم بھی عجیب مشکل سے آدمی ہو کہ کوئی کتنا ہی خوبصورت ہو عطا تراب کی شاعری پڑھنے کی ہے اور سوچنے کی ہے تاکہ داد، تعریف، مطالعے، تربیت اور یادداشت سے پیدا ہونے والی دشواریوں کے بارے میں جانا جا سکے۔ یہ پڑھنے والا کا مسئلہ نہ ہو تو لطف بھی لیا جا سکتا ہے اور سر بھی دُھنا جا سکتا ہے۔ فائزہ خان کی مصوری میں تزئین کاری بھی ہے اور اپنے اظہار کی کوشش بھی۔ خیال آتا ہے کہ منصور راہی کو فارملسٹ کیوں یاد آئے ہیں۔ کیا وہ فائزہ کے کام کو سماجی اور تاریخی تناظر سے آگے جاتا محسوس نہیں کرتے؟ یہ سوال مصوری کا ہے۔ ادب میں فارملسٹ کسی اور جغرافیے اور مخصوص متن کی ساخت سے زیدہ دلچسپی رکھتے ہیں لیکن روس میں فارملسٹوں کے بیس سال بیرونی دخل اندازی سے متن کی آزادی کے سال ہیں۔ فائزہ کے ہاں تصویریں زیادہ سے زیادہ معنی کو سمونے اور پھر انہیں ایک نئی شکل دینے کی کوشش کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ معنی کی یہی بالادستی اور اوّلیت تراب کی شاعری کا بھی خاصا اور دونوں کی قدرِ مشترک بھی ہے۔ تراب اور فائزہ، دونوں کے لیے خود ان کی مہارت، متعین مقاصد تخلیقی آزادی کو باندھ کر رکھتے ہیں۔ موجودہ کتاب میں غالبًا ایسا نہیں ہے۔ اس میں شاعری کو السٹریٹ کیا گیا ہے لیکن یہ السٹریشن عمومی طرز کی نہیں ہے، مصورہ نے معنی کے ساتھ ساتھ تاثر کو بھی لگتا ہے کہ ترجیح طور رپ شامل رکھنے کو کوشش کی ہے۔ کتاب آرٹ پیپر پر بہت عمدہ شائع ہوئی ہے، کم و بیش تمام ہی چار رنگی کہی جا سکتی ہے۔ عام طور پر شعری مجموعے ایسے شائع نہیں ہوتے۔ اگر ہوئے بھی ہیں تو شاعر سرکاری افسروں یا بینکار تھے۔ ایسے انداز شعری تاثر کے لیے فائدہ مند نہیں ہوتے۔ ان تمام باتوں کے باوجود شاعری اور مصوری کا یہ اتصال ایک چیلنج بھی ہے جن وہ تمام مراحل درپیش ہو سکتے ہیں، جو مجھے پیش آئے۔
|