چراغ روشن ہیں
عصمت چغتائی ترتیب و تدوین عقیل عباس جعفری
Hardcover: 336
|
’’چراغ روشن ہیں‘‘ کے نام سے عقیل عباس جعفری نے عصمت چغتائی کے لکھے ہوئے خاکے اکٹھے کیے اور انھیں ہمارے سامنے رکھ دیا۔ پہلے وہ سیاست اور پاکستانی تاریخ کے واقعات اکٹھا کرتے تھے ، اب کچھ دنوں سے ان کی توجہ ادب کی طرف ہوئی ہے۔ عصمت چغتائی کے لکھے ہوئے خاکوں کی ترتیب و تدوین ان کا تازہ کام ہے۔ خاکوں کے اس مجموعے کا آغاز ’دوزخی‘ سے ہوا ہے جو ان کے بڑے بھائی اور استاد عظیم بیگ چغتائی کا ہے۔ اردو میں اس سے اعلیٰ خاکہ نہیں لکھا گیا۔ کچھ لوگ اس پر فدا ہیں اور کچھ عصمت چغتائی کو برا بھلا کہتے نہیں تھکتے۔ ان کے خیال میں عصمت نے اپنے مرے بھائی کو بھی نہیں بخشا۔ یہ وہی خاکہ ہے جسے پڑھ کر منٹو کی بہن عصمت کے بخیے ادھیڑ نے لگیں تو منٹو نے کہا تھا کہ اقبال اگر تم مجھ پر ایسا ہی مضمون لکھنے کا وعدہ کرو تو میں ابھی مرنے کو تیار ہوں۔ عصمت نے بھائی بہنوں میں سب سے زیادہ عظیم بیگ چغتائی سے جھگڑے کیے اور ان کے مرنے کے بعد ان کا احسان مانا، شاید اسی لیے تیکھے کڑوے لفظوں سے ان کی ایسی تصویر اتاری کہ وہ کاغذ پر سانس لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ آخری سطروں میں لکھتی ہیں کہ ’’جب کوئی ان سے کہتا کہ دوزخ میں جاؤ گے تو فرماتے ’’یہاں کون سی اللہ میاں نے جنت دے دی جو وہاں دوزخ کی دھمکیاں ہیں… اللہ میاں اگر ہمیں دوزخ میں جلائیں گے تو ان کی لکڑی کوئلہ بیکار جائے گا‘‘ کبھی کہتے عصمت نے اپنے بے پناہ ذہین، بے آرام اور بیمار بھائی کے لیے لکھا ’’فرق ہی کیا، ایک دوزخ سے دوسری دوزخ میں‘‘ عظیم بیگ کی اذیت ناک زندگی کے ختم ہونے کی انھوں نے دعائیں مانگیں تو ان کی محبت کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوسکتی ہے۔ اپنے کسی پیارے کی سانسوں کو اکھڑتے اور بدن کو انگاروں پر لوٹتے دیکھ کر ہم بھی تو یہی کہتے ہیں کہ اب اس کی مشکل آسان ہوجائے۔ عصمت نے یہ جملے کس دل سے لکھے ہوں گے کہ ’’آخری دم چیونٹیاں جسم میں لگنا شروع ہوگئیں۔ عظیم بیگ نے ہنس کر کہا یہ چیونٹی صاحبہ بھی کس قدر بے صبر ہیں۔ یعنی قبل از وقت اپنا حصہ لینے آن پہنچیں۔‘‘ یہ انھوں نے مرنے سے دو دن پہلے کہا تھا ۔ مرزا عظیم بیگ ہمارے ایک بڑے ادیب تھے، ہم نے ان کی قدر نہ زندگی میں کی اور نہ مرنے کے بعد۔ اس مجموعے میں ایک خاکہ ’ٹیکو‘ کے نام سے موجود ہے جو ’زہر کا پیالہ‘ کے عنوان سے ’نیادور‘ میں شایع ہوا تھا۔ لوگوں نے اسے افسانہ سمجھ کر پڑھا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ عصمت نے اپنی انا کا خاکہ لکھا ہے۔ ہم سے اس کا تعارف یوں کراتی ہیں کہ: ’’سانولی سلونی کمسن لونڈیا سی تھی۔ پہلوٹھی کا بچہ جن کر غریبی سے مقابلہ کرنے، اسے چاول کی پیچ پر چھوڑ کر مجھے اپنا خون چسانے آنا پڑا تھا۔‘‘ سادہ سے دو جملے جو عصمت کے قلم سے نکلے لیکن جو پڑھنے والوں کی نگاہوں کے سامنے ہندوستان کے دیہاتوں میں بھوک اور اس بے بسی کی کیسی بے پناہ تصویر کھینچتے ہیں، وہ مجبوری جس کے سامنے مامتا بھی ہار جاتی ہے۔ ’’دوچار روز اپنے بچے کی یاد میں روتی پیٹتی رہی پھر ذرا مرغن راتب ملا کچھ دھمکیاں ملیں تو ہار جھک مار کر ڈیوٹی (دودھ پلانے) پر جُٹ گئی‘‘ اس کے بعد لکھتی ہیں ’’جب کبھی میں اپنی انا ٹیکو کا خیال کرتی ہوں تو میرا وجود شرم سے سرنگوں ہوجاتا ہے۔ اِدھر میں پھول پھول کر کپّا ہوتی جارہی تھی ادھر اس کا پہلو ٹھی کا پوت رنجھ رنجھ کر موت کی طرف رینگ رہا تھا۔‘‘ وہ ٹیکو کے بچے ننوا اور المونیم کے اس ٹیڑھے کہڑے پیالے کا نقشہ کھینچتی ہیں جو ننوا کی کُل کائنات تھا۔ اس پیالے سے اس کی کرب ناک زندگی کی جملہ رعنائیاں وابستہ تھیں۔ یہ پیالہ اس کی ماں تھا اور یہی اس کا ان داتا۔ ’’اگر گھڑی بھر کو پیالہ نظروں سے اوجھل ہوجاتا تو وہ یتیموں کی طرح ہائے واویلا مچانے لگتا۔ اسے کلیجے سے لگائے بغیر اسے نیند نہیں آتی تھی۔ ‘‘ یہ جاگیرداری اور زمینداری تھی جو ننوا ایسے ہزاروں بچوں کو اپنی ماؤں کے ابلتے ہوئے دودھ کی دھاراؤں سے محروم کردیتی تھی۔ المونیم کا ٹیڑھا کہڑا پیالہ ان کے لیے ماں کی گرم آغوش بن جاتا تھا جسے وہ سینے سے لگاکر سو جاتے تھے۔ ہمارے یہاں آج بھی جہاں جاگیرداری سے زیادہ جاگیردارانہ مزاج راج کرتا ہے وہاں ایسے کردار مل جاتے ہیں۔ ٹیکو کا یہ خاکہ اسی نظام کی لرزا دینے والی تصویر ہے جس کے خدوخال ابھارتے ہوئے عصمت کے قلم سے کیسے کٹیلے جملے نکلے ہیں۔ انھوں نے چند لفظوں میں ننوا کی اذیت بیان کی ہے کہ ’وہ (غلاظت کی) جھیل کے بیچوں بیچ بیٹھا لوہے کے چنے چبایا کرتا ۔‘ المونیم کا وہ پیالہ جو ننوا کا ہم دم و دمساز تھا، اسی پیالے پر سر رکھ کر ایک روز وہ ایسا سویا کہ پھر نہ جاگا۔ لوگ انھیں چھیڑتے تھے کہ انھوں نے کولن کا دودھ پیا۔ ’’یہ وہ کولن تھی جس نے مجھے دودھ پلانے کے جرم میں اپنی زندگی کا سب کچھ ہار دیا تھا۔ کولن جو میری ماں تھی۔‘‘ پھر لکھتی ہیں ’’میں نے کتنی کہانیاں لکھیں! ہنستی کھل کھلاتی، روتی، بسورتی اور کاٹتی بھنبھوڑتی ۔ انھیں لکھتے وقت ہنسی بھی ہوں لیکن اسے لکھتے ہوئے میرا قلم دم چھوڑ دیتا ہے۔ چاہتی ہوں کہ وہ ٹیسوں کے بگولے جو میرے دماغ میں اٹھ رہے ہیں انھیں بانٹ کر ذرا اس بوجھ کو ہلکا کردوں جو ہمیشہ ٹیکو کے تصور سے میرا دم گھونٹنے لگتا ہے۔ مگر نہیں یہ میرے امکان میں نہیں۔‘‘ ’ٹیکو‘ یا اسے ’زہر کا پیالہ‘ کے نام سے یاد کیجیے، عصمت کی ایسی تحریر ہے جس سے ظلم کا زہر ٹپکتا ہے، ایک کمسن ماں ، اس کی آغوش اور دودھ کو ترستے ہوئے بچے کی محرومیوں کا زہر۔ ادبی شخصیتوں کے حوالے سے ان کا مشہور ترین خاکہ’ منٹو میرا دوست میرا دشمن‘ ہے اس کے علاوہ انھوں نے میرا جی، کرشن چندر، مجاز، پطرس بخاری، جاں نثار اختر، خواجہ احمد عباس اور مہندر ناتھ سب ہی کے خاکے لکھے ہیں لیکن کس سادگی سے انھوں نے سجاد ظہیر کے بارے میں لکھا ہے۔ سر وزیر علی کا بیٹا جس نے انقلاب کے صرف نعرے ہی نہیں لگائے تھے، اپنی زندگی میں انقلاب لا کر بھی دکھا یا تھا۔ سجاد ظہیر پنڈی سازش کیس سے چھوٹ کر واپس لکھنو پہنچے تو عصمت لکھنو کانفرنس میں شرکت کے لیے گئیں اور ان کے گھر ٹہریں۔’’بنے بھائی اپنی خاندانی کوٹھی کے پچھواڑے نوکروں کے کوارٹروں میں رہتے تھے۔ صحن کی دیوار اٹھی ہوئی تھی۔ کمرے پرانے اور بوسیدہ تھے۔ ایک بڑے سے کمرے میں کئی پلنگ پڑے ہوئے تھے، سخت جاڑے پڑرہے تھے اور ہم سب وہاں ہی سوتے تھے۔بنے بھائی کی آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ رضیہ لکھنؤ کے کرامت حسین اسکول میں پڑھاتی تھیں، ان کی کمائی پر گھرکا خرچ چلتا تھا۔‘‘ عصمت چغتائی نے زندگی کے پندرہ بیس برس بمبئی کی فلمی دنیا میں گزارے۔ اس کی جھلکیاں ہمیں ان کے ادبی خاکوں میں بھی ملتی ہیں لیکن ان کے تین خاکے’نیند کی ماتی‘ بہتی گنگا اور ’’عشق عشق عشق ‘‘ فلمی دنیا کی دو ہیروئنوں اور ایک ہیرو کے بارے میں ہیں۔ کتنی بے رحمی سے انھوں نے فلمی دنیا کی اصل تصویر ہمیں دکھائی ہے۔ ’’کون جانے آسمان میں جگمگانے والے ستاروں کے کلیجے میں کیسے کیسے آتش فشاں چھپے دہکتے رہتے ہیں۔ ان ہنسنے، اٹھلانے اور دل لبھانے والی ہیروئنوں میں کتنی ہیں جو کبھی جی سے قہقہہ لگا کر ہنستی ہیں۔‘‘ یہ وہ دنیا ہے جہاں ہیروئنوں کی حیثیت سرائے جیسی ہوتی ہے۔ ٹورسٹ آتے ہیں چلے جاتے ہیں۔ پھر وہ فلم انڈسٹری کی حقیقت سے پردہ اٹھاتی ہیں ’’فلم انڈسٹری میں کسی بات کا ٹھکانا نہیں۔ مگر فلم لائن کی کچھ مصلحتیں بھی ہیں۔ ایک یہی ہے کہ چڑھتے سورج کی ہمیشہ پرستش کرو،چاہے وہ ٹین کا بنا ہوا ہو۔ ابھرتے اور ہر دل عزیز فلم اسٹار کو خدا سمجھو۔ اگر اس کے عیب ظاہر کرنے سے گھاٹے کا اندیشہ ہے تو ان پر پردہ ڈالو۔‘‘ یہ خاکے کہنے کو انسانوں کے ہیں لیکن اسی تانے بانے میں ہمیں ترقی پسند تحریک کا خاکہ بھی نظر آتا ہے۔ اس کا عروج، اس کا زوال، سب لکھنے والے جب ایک خاندان تھے، آدرش وادی تھے، کرشن چندر فٹ پاتھوں پر سوتے تھے، کیفی اور شوکت اعظمیٰ چال میں رہتے تھے، کئی بڑے ادیب فاقے کرتے تھے۔ پھر وہ زمانہ بھی آیا جب یہ تانا بانا ، بکھرنے لگا، کسی نے فلم نگری کا رخ کیا اور وہاں سونا کاٹا اور کوئی ناکام رہا اور تلخیوں کو ٹھرے میں ڈبونے لگا۔ عصمت چغتائی نے ہمارے کتنے ہی ادیبوں اور ہماری سب سے شاندار ادبی تحریک کو اپنے تیکھے، کٹیلے اور بے باک جملوں سے زندہ کردیا ہے۔ |