ڈاکٹر اسلم فرخی: فرخ آباد سے کراچی
زاہدہ حنا
فرخ آبادیوں سے میری پہلی شناسائی ’طلوع‘ کے وسیلے سے ہوئی۔ یہ سوویت یونین کے کلچرل سینٹر کی طرف سے شائع
ہونے والا رسالہ تھا جس کے مدیر انور احسن صدیقی تھے۔ وہ اپنے نام کے ساتھ ’فرخی‘ نہیں لگاتے تھے لیکن اس سے کیا فرق پڑتا تھا، وہ تھے تو اسلم فرخی صاحب کے چھوٹے بھائی۔ پھر آصف فرخی سے دوستی ہوئی، ڈاکٹر اسلم فرخی بزرگ تھے، ان کا احترام کیا، ان کی کتابیں پڑھیں۔ ڈاکٹر صاحب کو صرف مولانا محمد حسین آزاد سے ہی عشق نہیں تھا، وہ حضرت نظام الدین اولیاء اور امیر خسرو پر بھی فدا تھے۔ لگ بھگ ہر سال عرس پر جاتے اور نذر گزارتے۔ انھوں نے ’دبستان نظام‘ ’نظام رنگ‘ اور ’سلطان جی‘ ایسی کتابیں عقیدت کے قلم سے لکھیں۔
آزاد نے 1910ء میں انتقال کیا تھا۔ ان پر تحقیق و تفتیش کرنے اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینے والے اسلم فرخی کو خیال آیا کہ روحانی استاد کی وفات کو ایک صدی ہونے والی ہے تو کیوں نہ آقائے اردو، اور اردوئے معلی کے ہیرو، کو ایک یادگار کتاب کی صورت نذر گزاری جائے۔ یہی سوچ کر انھوں نے اردو کے سب سے بڑے انشا پر داز کی وفات کے سو برس پورے ہونے پر ایک کتاب ’’نگارستانِ آزاد‘‘ مرتب کی جس میں ان کی زندگی کی جھلکیاں بھی ہیں اور ان کی منتخب کتابوں کا بھی جستہ جستہ انتخاب موجود ہے۔ یہ کتاب 2010ء میں شائع ہوئی اور اس کی شہرت دور تک گئی۔
یہ تو ممکن نہیں ہے کہ ’’آب حیات‘‘ کا لکھنے والا فراموش کر دیا جائے لیکن ایک صدی بعد اس کی زندگی کو اجاگر کرنے کے لیے لازم تھا کہ اسلم فرخی ایسا کوئی چاہنے والا ہو جو اس مرد آزاد کی تصویر پر جم جانے والے گرد و غبار کو صاف کرے اور اسے اجال کر ایک بار پھر سامنے لے آئے۔ ڈاکٹر اسلم فرخی نے ہمارے اس بڑے ادیب کو پھر سے زندہ کر دیا جو ’شمس العلما‘ تھا، جس نے اردو ادب کی ایسی تاریخ لکھی جو رہتی دنیا تک یاد گار رہے گی۔ اس مرد آزاد نے چند برس کی عمر میں جان دینے والی ماں کو بے جان، باپ کو پھانسی کے پھندے پر جھولتا دیکھا، جس کا جرم اپنی سرزمین سے عشق تھا۔
ان صدمات کو سہنے کے بعد بھی اس شخص کے قلم سے شعر و ادب کا چشمہ ابلتا رہا۔ دوستوں کا حسد دیکھا، دشمنوں کی دشمناگی سہی، پھر بھی زندہ رہا۔ کام کرتا رہا، ایران ’توران‘ اصفہان و طہران کا سفر کیا، مقصد نایاب کتابوں کا حصول تھا۔ واپس ہندوستان آیا۔ دل ہمہ داغ داغ شد کی تصویر، دماغ نے بھی ساتھ چھوڑا اور کئی برس ذہنی انتشار میں گزار دیے۔ ان کی زندگی کے آخری بیس برسوں کا نقشہ عاشقِ آزاد، اسلم فرخی نے کس دل سوزی سے کھینچا ہے۔ لکھتے ہیں:
آزاد کے ذہن میں بچپن ہی سے گرہیں پڑنا شروع ہو گئی تھیں۔ وقت گزرتا گیا، گرہیں بڑھتی گئیں۔ سخت ہوتی گئیں۔ پہلے واہمہ تھا۔ پھر واہمے نے مراق کی شکل اختیار کر لی۔ مراق بڑھا تو خبط میں تبدیل ہو گیا۔ خبط مالیخولیا بن گیا اور آخر آخر جنون ہو گیا:
آزاد ساری زندگی ان کیفیات سے گزرتے رہے اور حالات کا مقابلہ کرتے رہے مگر چو مکھی کب تک لڑتے۔ بیس برس اسی لڑائی میں گزر گئے۔ پورے بیس برس دیوانگی کی کیفیت طاری رہی۔ بیس برس زبان سے کہہ دینا بہت آسان ہے۔ جس پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے، روحانی کرب اور دمبدم کی اذیت کو وہی سمجھتا ہے۔ آخر کار ہمت ہار بیٹھے۔ دیوانگی نے غلبہ پا لیا۔ اسیرِ جنون ہو گئے۔ بڑھاپے کے عوارض نے بالکل ہی پست کر دیا۔ دیکھنے والے اردو ادب کے اس کوہِ گراں کو زلزلوں سے پیہم لرزتے، تڑختے چٹختے، زمیں بوس ہوتے دیکھتے اور پناہ مانگتے رہے۔ بیماری بڑھتی گئی۔ دکھ بڑھتے گئے۔ بے قراری بڑھتی گئی۔ 1910ء کے عشرے کی رات تھی۔ قیدِ جنوں اور قیدِ حیات دونوں سے چھوٹ گئے۔ ’’نہ جنوں رہا نہ پری رہی۔‘‘ عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ گیا۔ خود چلے گئے… اردو ادب کو آبِ حیات پلا گئے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب آزاد کو اردو ادب کا سب سے بڑا انشا پرداز کہتے ہیں اور یہ بات ان کی وفات کے ایک صدی بعد کہی ہے۔ اس دوران کیسے بڑے بڑے لکھنے والے گزر گئے لیکن کوئی شمس العلما محمد حسین آزاد کی گرد کو نہ پہنچ سکا۔ یہ کتاب ہر جگہ سُرمۂ اہل نظر ہوئی۔ کیا لاہور، کیا دلی اور کیا لکھنؤ اور پھر یہ بھی ہوا کہ ڈاکٹر فرانسس پریچٹ اور شمس الرحمن فاروقی نے اسے ترجمہ کیا اور امریکا سے شائع ہوئی۔
ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ ’آزاد کو خاکہ نگاری میں وہ ملکہ حاصل تھا جسے منفرد اور بے مثال کہا جا سکتا ہے۔ آزاد نے لفظوں سے ایسی موہنی تصویریں بنائی ہیں جو جیتی جاگتی، زندہ اور فعال ہیں‘۔
استاد کو شمس العلما کا خطاب عطا ہوا، شاگرد کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملی۔ شاید استاد سے دلی تعلق کے سبب ہی شاگرد نے خاکہ نگاری اختیار کی اور ہمارے ادب کو منفرد انداز کے خاکے نذر کیے۔ آنگن میں ستارے، موسم بہار جیسے لوگ، گلدستہ احباب اور لال سبز کبوتروں کی چھتری، ان کے خاکوں کے مجموعے ہیں۔ ’لال سبز کبوتروں کی چھتری‘ کے خاکوں نے لوگوں کے دلوں کو مٹھی میں لے لیا۔ اسی طرح جیسے کبوتر کے رسیا کسی چہیتے کبوتر کو اپنی مٹھی میں بھر لیتے ہیں۔ خاکوں کے اس مجموعے کے بارے میں اسلم فرخی صاحب نے کہا ہے کہ اس مجموعے کے پانچ خاکے میرے شہر فتح گڑھ سے تعلق رکھتے ہیں۔ فتح گڑھ جو ضلع فرخ آباد میں تھا اور جسے یہ لوگ پیار سے ’’گڈ اولڈ فتح گڑھ‘‘ کہتے تھے۔ وہی فتح گڑھ جہاں مسلمان اور ہندو ساتھ ساتھ رہتے تھے۔
جدید ہندی ادب کے سب سے بڑے ادیب کملیشور جب سارک ادبی کانفرنس میں شرکت کے لیے لاہور آئے تو ڈاکٹر صاحب کے بیٹے ڈاکٹر آصف فرخی بھی اس کانفرنس میں شریک تھے۔ کملیشور جی کی دھرم پتنی کسی مجبوری کے سبب پاکستان نہیں آ سکی تھیں لیکن یادوں کے لیے تو ویزا پاسپورٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آصف فرخی کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ فتح گڑھ کے اسکول کی ابتدائی جماعتوں میں ان کی ایک پھوپھی یعنی ڈاکٹر اسلم فرخی کی بہن اور گایتری ساتھ پڑھتی تھیں۔ کملیشور جی نے ہندوستان جا کر پاکستان کا سفر نامہ لکھا تو اس میں اسلم فرخی، آصف فرخی، افضل توصیف، کشور ناہید اور اس خاکسار کا بھی بہت محبت سے ذکر کیا۔ ان کے اس سفرنامے کا اردو میں ترجمہ زیبا علوی نے کیا۔
ڈاکٹر اسلم فرخی نے ’لال سبز کبوتروں کی چھتری‘ میں فتح گڑھ کے جن لوگوں کا خاکہ لکھا ہے، دنیا ان میں سے اکثر سے ناواقف ہے لیکن ان گم نام لوگوں کی ایسی نقاشی کی ہے کہ پڑھنے کے بعد انھیں بھولنا ممکن نہیں۔ وہ لوگ جو چنڈو خانے جاتے تھے، افیون کا گھولا پیتے تھے، جن کی ناہنجاری پر ان کے گھر کی عورتیں وہ گالیاں دیتی تھیں کہ ترکی تمام ہو جاتی تھی۔ پریم چند کے یادگار افسانے کفن کا کردار گھیسو یاد آتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے جن گم نام لوگوں کے خاکے لکھے ہیں، ان کے بارے میں کیا خوب لکھا ہے۔ ایسا ہی ایک خاکہ ’جان بے تاب‘ ہے ان کی باجی جان کے نقوش جن کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:
’’بعض انسان اپنی زندگی میں ویران، اُداس اور تنگ و تاریک کھنڈر نظر آتے ہیں مگر کھنڈروں کی بھی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ میں نے اپنے خاندان میں کم و بیش ساٹھ برس تک ایک ایسے ہی کھنڈر کو دیکھا اور برتا۔ جس کی خشتِ اول ہی کج تھی۔ حالات و واقعات نے اس کی ٹیڑھ میں روز بروز اضافہ کیا، مگر یہ کھنڈر مجھے اور میرے خاندان کو عزیز تھا اور ہے۔ میں نے باجی آپا کے اس خاکے میں یہ کوشش کی ہے کہ آپ بھی اس کھنڈر کی ایک جھلک دیکھ لیں۔ آپ کی ملاقات بھی اس بیتاب، بے لچک، بے خوف، بے غرض اور بے آسرا خاتون سے ہو جائے جس میں اوائلِ عمری سے کائی لگنا شروع ہو گئی تھی جوانی میں ویرانی برسنے لگی تھی اور بڑھاپے میں بدحالی، کہنگی اور شکست و ریخت کے آثار پوری طرح نمایاں ہو گئے تھے، جسے کسی نے محبت، ہمدردی اور سنجیدگی سے سمجھنے کی زحمت نہیں کی جو ساری زندگی حالات کا شکار رہنے کی وجہ سے اپنے اور دوسروں کے لیے اذیت پسند ہو گئی تھی۔‘‘
انھوں نے شمس زبیری، مشتاق احمد یوسفی، مولانا راز ق الخیری، شاہد احمد دہلوی، احمد فراز، مشفق خواجہ، ڈاکٹر فہیم اعظمی اور ڈاکٹر عبدالعلیم نامی (اردو تھیٹر کی تاریخ والے) ان کے علاوہ اور کئی نامی گرامی لوگوں پر لکھا اور انھیں یادگار بنا دیا۔ ڈاکٹر صاحب کو زبان پر ملکہ حاصل تھا، ایسی رواں، سجل اور بے ساختہ نثر اب کون لکھے گا۔ اب فون کر کے کس سے کسی لفظ کا مفہوم یا کسی شعر کا دوسرا مصرعہ پوچھنے کی لذت سے ہم آشنا ہوں گے۔ تنہائی بیگم تاج فرخی کی ہم دم ہوئی، فاطمہ حسن کو ان کی کمی بے حد و حساب محسوس ہو گی جنھیں ڈاکٹر صاحب نے بیٹی بنایا تھا اور جن کی چھتر چھایا میں فاطمہ اور کئی دوسروں نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی تھی۔ محمد حسین آزاد کا عاشق زار، سلطان جی کا خدمت گار اس راہ کو گیا جس پر گرتے پڑتے سب ہی جاتے ہیں۔