روشن خیالی کا آخری سفیر ڈاکٹر اسلم فرخی
کشور ناہید
زبان کی چاشنی، لہجہ اور محاورہ ایک تو میں نے اپنی اماں سے سیکھا پھر شاہد احمد دہلوی، اشرف صبوحی اور سب سے زیادہ ڈاکٹر اسلم فرخی سے سیکھا۔ آج جب وہ چلے گئے ہیں تو میرے سامنے خلا ہے، کوئی نہیں جس سے زیر زبر لگانے کا سلیقہ سیکھ سکوں، جس سے حرف، معنٰی پوچھ سکوں۔ منشی نول کشور کی لغت سے میں نے لفظوں کی شناخت سیکھی تھی۔ یہ بھی سیکھا تھا کہ یہ الفاظ کس کس زبان میں استعمال ہوتے ہیں۔ یہ کوئی 1968کی بات ہے۔ اشرف صبوحی صاحب ہمارے دفتر آتے تھے اور میں لفظوں کی پٹاری کھول کر بیٹھ جاتی تھی۔ وہ ہنستے جاتے، مطلب بھی بتاتے اور استعمال کا طریقہ مثالیں دے کر بتایا کرتے۔ وہ گئے تو مجھے ایک اور خزینہ مل گیا۔ وہ تھے مختار صدیقی، شعر کا حوالہ پوچھو تو اردو، فارسی، ہندی اور عربی ساری زبانوں میں اشعار کا مثالی نمونہ سنا کر میری تشفی کرتے تھے۔ یہ کام ویسے صوفی تبسّم بھی کبھی کبھی کر دیا کرتے تھے یا بہت بہت کم مگر خوبصورت اور نرم لہجے میں فیض صاحب کیا کرتے تھے۔ ان سب میں مختلف احسان دانش تھے۔ وہ تو مثالوں میں خفتہ الفاظ بھی یعنی وہ الفاظ میر اور سودا نے اپنی شاعری میں استعمال کئے تھے، وہ بھی سنا دیا کرتے تھے۔
یہ ساری مثالیں مجتمع ہو کر ڈاکٹر اسلم فرخی میں موجود تھیں۔ اپنے ہم عصر ادبا کے خاکے اور اپنے بزرگوں کا احوال جب کراچی آرٹس کونسل میں پڑھنے کیلئے بیٹھتے تو ہم سب جیسے چڑیاں دانے چگنے ایک دم اکٹھی ہو جاتی ہیں ہم سب کی وہی کیفیت ہوتی تھی جسے زمین پر جگہ ملے، نہ ملے تو کھڑے رہیں اور سننا ڈاکٹر اسلم فرخی کو، لہجہ اتنا ملائم اور شستہ، عبارت ایسی جیسی ہم نانی اماں سے کوہ قاف کی کہانیاں سنتے تھے۔ آواز اتنی شیریں کہ ہر سننے والا مسکراہٹ کے ساتھ، ان عرق ریز فقروں کو اپنے اندر اتارتا چلا جاتا تھا۔ جتنے بھی خاکے سنے یا پڑھے، لگتا یہ تھا کہ جس کا خاکہ ہے وہ خود پوری داستان سناتا چلا جا رہا ہے۔ میں ان سے کب ملی تھی۔ کوئی پچاس سال پہلے جب میں نیشنل سینٹر کی ڈائریکٹر تھی۔ ابھی آمنہ فرخی اور چھوٹا بھائی شاہد اسکول میں پڑھتے تھے۔ مجھ سے کسی نے فرمائش کی کہ نظام الدین اولیا کے مزار پر حاضری دینے جو گروپ جانے والا ہے اس میں ڈاکٹر اسلم فرخی بھی جانا چاہتے ہیں۔ یہ پہلا وفد تھا جس کو انڈین گورنمنٹ نے جانے کی اجازت دی تھی۔ شاید اس گروپ میں منو بھائی بھی شامل تھے۔ اس بہانے مجھے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کے اس رخ کا علم ہوا۔ نظام الدین ثانی جو کہ نظام الدین اولیا کے مزار کے مہتمم تھے، ان سے ملاقات تو ڈاکٹر صاحب کے ساتھ دوستی میں ایسی تبدیل ہوئی کہ ڈاکٹر آصف فرخی بھی جب دلّی جاتے،ثانی صاحب کے گھر ناشتے پر ضرور مدعو ہوتے تھے۔
ڈاکٹر اسلم فرخی کی شہرت تو ان کی تحقیق مولانا محمد حسین آزاد کے مقالے سے شروع ہوئی۔ بہت سے لوگ مقالے لکھتے ہیں مگر وہ شہرت اور انداز جو ڈاکٹر اسلم فرخی کو حاصل ہوا وہ آئندہ زندگی میں نہ صرف ان کی شخصیت میں رنگ بھرتا گیا بلکہ آصف فرخی کے ذہن میں قطرہ قطرہ جمع ہوتا رہا۔ باپ، بیٹے کی ملاقات، دو ادیبوں کی ملاقات ہوتی تھی۔ ہر دفعہ آصف، باپ سے کوئی نیا اسلوب، کسی نئی کتاب کا نام، کچھ نیا لکھنے کا مشورہ لے کر اٹھتا تھا مگر باپ کی طرح محنت کرنے، انتھک محنت کرنے اور لکھنے، پڑھنے کے ذوق و شوق میں اضافہ، وہ چشمۂ محبت تھا جس کا ذکر عوام کو دکھانے کیلئے نہیں، ان کو اٹھ کر جانا ہوتا تھا، آصف کو پتہ چل جاتا تھا۔ اپنی سیٹ سے اٹھ کر ان کی وہیل چیئر گھما کر لے جاتا تھا۔ یہ سب کام اتنی خاموشی سے ہو جاتا تھا کہ نہ کوئی محفل میں شور مچتا اور نہ کوئی آنکھیں گھما گھما کر دیکھتا۔ چند مہینے ہوئے یہ پہلا موقع تھا جب ایک بینک کا انعام لینے کیلئے وہ خود نہ آ سکے۔ آصف کو ان کا انعام بہترین کتاب کا گھر لے جا کر دینا پڑا۔
انتظار حسین کے انتقال کے بعد ہمارے سب کے اندر ایک بے چینی سی پھیل گئی ہے۔ جانے اب کون، اب کس کی باری ہے۔ جب سے میں بیمار ہوئی ہوں ہر ہفتے آصف میرا حال اور میں ڈاکٹر صاحب کا حال پوچھتی تھی۔کچھ ہمارے اندر بیتابی اور بے اعتباری سی انتظار صاحب چھوڑ گئے ہیں۔ ہم سب ایک دوسرے کو فون بالکل بے اختیاری میں کرتے ہیں۔ ساری تکالیف کے باوجود ڈاکٹر صاحب موٹے چشمے سے کتاب پڑھنے کی کوشش کرتے، کبھی لکھنے کو جی چاہتا تو قلم ہاتھ میں گھماتے رہتے۔ کبھی تاج کی طرف دیکھتے (کہ وہ بھی ڈمینشیا کی مریض ہیں) آصف سب برداشت کرتے ہوئے یونیورسٹی میں کلاس لینے بھی جاتا، ہر روز شام اور صبح کو ان کا حال معلوم کرتا۔ صبر تو اس کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ بس انتظار صاحب کی موت پر پھوٹ پھوٹ کر رویا یا پھر اپنے استاد، اپنے باپ اور ہمارے محترم ڈاکٹر اسلم فرخی کی موت پر۔
فیض صاحب کے انتقال کے بعد سبط حسن کو دیکھ کر یہ حوصلہ ہوتا تھا کہ ہمیں سکھانے والا اور سمجھانے والا کوئی موجود ہے۔ جب سبط بھائی گئے تو ڈاکٹر صاحب سے اشعار کا مطلب اور پس منظر پوچھ کر لطف آتا تھا۔ اب ڈاکٹر صاحب کی موت کی خبر ۔ اناللہ وانّا الیہ راجعون