مضامینِ موسیقی
Hardcover: 280
|
شاہد احمد دہلوی کا نام پاکستان اور ہندوستان کی نئی نسل کے ان لوگوں کے لیے بھی زیادہ مانوس نہیں جو موسیقی اور ادب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ادب اور موسیقی میں جو ان کے نام سے واقف ہیں وہ بھی ان کے اس کام سے اتنے واقف نہیں جس قدر کہ دو یا تین نسل پہلے کے لوگ تھے۔ ادب اور موسیقی کی جڑواں محبوبائیں رکھنے والا یہ شخص حقیقی معنوں صاحبِ طرز ادیب تھا۔ عقیل عباس جعفری نے شاہد احمد کے نہ صرف تیس مضامین اکٹھے کیے ہیں بلکہ ان پر بارہ ایسے مضامین بھی جمع کیے ہیں جنہیں نایاب قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ مضامین ڈاکٹر سیر عارف، امراؤ بندو خان، ہادی حسن علی مرزا، غلام عباس، ممتاز شیریں، ڈاکٹر اسلم فرخی، پروین الٰہی، ادیب سہیل، تاج بیگم فرخی، ڈاکٹر جمیل جالبی، مختار صدیقی اور ثروت علی کے لکھے ہوئے ہیں۔ شاہد احمد کے تیس مضامین ہیں جن میں سے انتیس کا حوالہ موسیقی ہے جب کہ ایک رقص کے بارے میں ہے۔ اور انھیں چھ ابواب میں تقسیم کیا گیا جو مسائلِ موسیقی، جہانِ موسیقی، موسیقی کے ساز، فن فنکار، تہذیب و ثقافت اور متفرق کے عنوان سے قائم کیے گئے ہیں۔ ایک اہم مضمون خود عقیل عباس جعفری نے لکھا ہے جو خیال گائیکی کے دہلی گھرانے کے بارے میں ہے اور میں ان کے اس خیال سے متفق ہوں کہ اس مضمون کے مطالعے سے آپ جان سکتے ہیں کہ شاہد احمد دہلوی نے موسیقی کے جس گھرانے سے فیض حاصل کیا تھا اس کی تاریخ کتنی پُر شکوہ ہے۔ یوں تو شاہد احمد دہلوی کا سارا ہی کام ایسا ہے کہ اسے ہر دور میں تازہ کیا اور پڑھا جانا چاہیے لیکن موسیقی پر کام خاص طور پر اس لیے اہم ہے کہ اردو میں اس موضوع پر کتابیں گنتی کی ہیں اور اب جس طرح کلاسیکی موسیقی کو تازہ کیا جا رہا ہے اس میں اس میں ان کے مضامین کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ عقیل عباس جعفری کا کہنا ہے کہ ’ہماری بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ جو صاحبان فن موسیقی جانتے ہیں وہ لکھنا نہیں جانتے اور جو لکھنے کا ہنر جانتے ہیں وہ موسیقی کی باریکیاں نہیں سمجھتے۔ شاہد احمد دہلوی نہ صرف یہ دونوں ہنر جانتے تھے بلکہ ان پی مکمل عبور بھی رکھتے تھے‘۔ بلا شبہ کسی بھی کام کرنے کے لیے بنیادی بات یہ ہوتی ہے کہ کام کرنے والے کام کو مطلوبہ کام پر دسترس حاصل ہو لیکن اگر ایسا نہ ہو تو اسے عقیل عباس جیسا ہونا چاہیے یعنی اسے کم سے کم یہ معلوم ہو کہ جو کام اسے کرنا ہے اس کے لیے درست مدد کہاں سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ عقیل عباس نے اس سلسلے میں جن اداروں اور لوگوں سے مدد لی ہے ان میں ایس ایم شاہد، لطف اللہ خان اور ابراہیم خان کے ہم بھی مداح ہیں۔ مجھے شاہد احمد دہلوی صاحب سے نیاز کا موقع تو نہیں ملا لیکن اگر آج مجھے موسیقی کے بارے میں کچھ جاننا ہو تو میرا پہلا حوالہ ابراہیم خان اور ایس ایم شاہد ہی ہوں گے۔ عقیل عباس کا یہ کام انتہائی اہم ہے اور اسے بہت عمدہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اس ضخامت کی مجلد کتاب کی قیمت کا تین سو روپے ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس میں نیّت منافع کا حصول نہیں ہے۔ موسیقی سے تعلق رکھنے والے تمام لوگوں کو یہ کتاب سرہانے رکھنی چاہیے اور بار بار پڑھنی چاہیے۔ |