محمد حنیف – سبین اور پروین
ایک ایسی تھی۔
ایک ویسی تھی۔
پروین کو شہر کے غریبوں کے لیے گٹر بنانے کا شوق تھا۔ سبین کو ہم جیسے نیم پڑھے لکھے لوگوں کے ذہنوں کے بند گٹر کھولنے کا شوق تھا۔ ایک شہر کے نقشے بناتی تھی۔ دوسری اْن میں رنگ بھرنے کی فکر میں رہتی۔
ایک کراچی کے دور دراز علاقوں میں جا کر بھولے بسرے گوٹھوں کو شہر کے نقشے پر لاتی۔ بتاتی یہ گوٹھ 120 سال پرانا ہے۔ یہاں اِتنے لوگ رہتے ہیں۔ اِس کو سرکاری ریکارڈ میں شامل کرو اِس سے پہلے کہ تم اِن کا نام و نشان مِٹا کر یہاں ایک گولف کورس بنا دو۔ دوسری شہر کے کونوں کھدروں سے گمشدہ قوال بچوں کو ڈھونڈ کر لاتی اور ہم ایسے گنوار لوگوں کو سکھاتی کہ قوالی سْنتے ہوئے ٹانگیں نہیں پھیلائی جاتیں۔ ایک کو یہ فکر کہ ہمارے حصے کا پانی کون چراتا ہے، دوسری کو یہ غم کہ کتابیں اتنی مہنگی کیوں ہیں۔ طبلہ سارنگی بجانے والے اپنا ہنر آج کے بچوں کو کہاں اور کیسے سکھائیں؟ –
ایک کی یہ جدوجہد کہ شہر کے بے گھر لوگوں کی زمین پر قبضہ کون کرتا ہے۔ دوسری کو یہ غم کہ ہماری سوچوں پر پہرے لگانے والے کون ہیں۔ ایک نے اِس شہر کی بدبو کم کرنے کی کوشش کی دوسری نے اِس شہر کو تھوڑا سْریلا بنانے کی کوشش کی۔
دونوں نہ پاگل نہ دیوانی، نہ ملک دشمن، نہ ریاست کی باغی نہ تمہارے مذہب کی منکر، نہ تمہاری تہذیب سے بیزار، ایک شہر کی پیاس بجھانے کے لیے سرگرداں اور دوسری اِس شہر کی روح کو زندہ رکھنے کے چکر میں۔
ایک اپنے نقشوں کی فائلیں بند کر کے، دِن کا کام ختم کر کے دفتر سے نکلی۔
دوسری ملک کے اْن راندہِ درگاہ بلوچوں سے ایک شائستہ ڈائیلاگ کروا کے گھر کو چلی جن پر میڈیا تو کیا پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے دروازے بھی بند تھے۔پروین رحمان کا جرم یہ تھا کہ وہ کراچی شہر کو بہتر کیسے بنایا جائیدونوں کے لیے سر کے قریب سے گولی۔ایسی گولی نہیں جو ڈرانے، دھمکانے، اپاہج کرنے کے لیے ماری جاتی ہے بلکہ وہ گولی جو ایسے قدیمی سر درد کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیتی ہے۔
اب ہم کہتے ہیں، زمانہ کہتا ہے کہ پروین اور سبین بہادر خواتین تھیں۔
ہمارے ملک میں ہر زندہ رہ جانے والا ہر مر جانے والے کو بہادر کہتا ہے اور ساتھ ساتھ دل میں یہ بھی سوچتا ہے کہ اِس بیوقوفی کی کیا ضرورت تھی۔ جدوجہد کے اور بھی طریقے ہیں۔ اخبار میں مضمون لکھ لو، لِٹریری فیسٹیول کروا لو، ایک پٹیشین آن لائن ڈال دو۔ سیاست والوں کو سیاست کرنے دو تمہارا کام یہ نہیں ہے۔ تمہیں کیا پتہ یہ بلوچ باغی کِس کِس کے ایجنٹ ہو سکتے ہیں۔ تم کیا جانو کراچی کی لینڈ مافیا کے ہاتھ کتنے لمبے ہیں۔
اگر بہت شوق ہے ایسے کاموں کا تو تھوڑی احتیاط ہی کر لیا کرو۔ دو چار گارڈ رکھ لو۔ آج کل کورنگی کے مستری بھی گاڑی کو بلٹ پروف کر دیتے ہیں۔ روز راستہ بدل کر گھر جایا کرو۔ اور کچھ نہیں تو کم از کم بال ہی ٹھیک کر لو۔ پتہ نہیں کِس کو کِس بات پر غصہ آ جائے۔
مختصًرا یہ کہ سب کہتے باز آ جاؤ ورنہ ماری جاؤ گی۔ دونوں شہیدوں میں آپ کئی خرابیاں ڈھونڈ سکتے ہیں لیکن میں حلف اْٹھا کر کہتا ہوں دونوں میں شوق شہادت کا شائبہ تک نہیں تھا۔ دونوں میں زندہ رہنے کا عزم تھا اور ہم جیسے سہمے ہوئے لوگوں سے بھی دلیل سے بات کرتی تھیں۔
ماما قدیر اور فرزانہ مجید T2F میں آ کر اسّی لوگوں سے سوال جواب کر لیں گے تو کیا واقعی قومی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی؟ کیا شہر کی دیواروں پر پیار کا نعرہ لکھنے سے قیامت ٹوٹ پڑے گی؟
کیا غریبوں کے لیے گٹر بنانا جرم ہے’ اور میں تو بناتی بھی نہیں اْنہیں سکھاتی ہوں کہ اپنا گٹر خود کیسے بناتے ہیں‘۔ کیا کراچی والوں کو یہ بتانا کہ اْن کا پانی کہاں سے آتا ہے اور رستے میں کون کون چْراتا ہے؟
کیا اِس طرح کے چھوٹے چھوٹے معمولی جرم کی سزا اب موت ٹھہری ہے؟ ہم شاید اْنہیں اِس لیے بہادر کہتے ہیں تا کہ اپنی بزدلی کی چادر میں سہمے ہوئے سیانے لگ سکیں۔
محبت کرنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک سبین کے مرنے سے ہزاروں سبین پیدا ہوں گی۔ ایک پروین کے جانے سے کئی اور پروینیں آگے آئیں گی۔ میں ایسی باتیں سن کر چِڑ جاتا ہوں۔
اور پھر سوچتا ہوں کہ سبین اِس چِڑ جانے والے رویے سے منع کرتی، کبھی خود چِڑ کر یہ بھی کہہ دیتی تمارے جیسے سنکیوں کی وجہ سے آج ہم اِس حال میں ہیں۔
تو آج ہم اِس حال میں ہیں کہ
ایک پروین تھی جو ہماری زمین تھی۔
ایک سبین تھی جو ہمارا آسمان تھا۔
مجھے ایک نئی زمین اور نیا آسمان لا کر دو۔
پھر بتانا کہ کتنی نئی پروینیں اور کتنی نئی سبینیں پیدا ہوئیں۔۔