کرشن چندر: کچھ باتیں ، کچھ یادیں – ستیہ پال آنند
گذشتہ برس دہلی میں ریختہ جشن کے موقع پر مجھے یہ اعزاز بخشا گیا کہ کرشن چندر صدی کے تقریبات کے حوالے سے سیمینار کا جو سیشن کرشن چندر کے لیے مخصوص تھا اس میں اپنا کلیدی خطبہ پیش کروں۔ لیکن مَیں اس سیشن کی بات بعد میں کروں گا، پہلے محترمہ سلمیٰ صدیقی سے اس سیشن سے پہلے چائے کی میز پر آدھ گھنٹہ بات چیت کا ذکر مناسب لگتا ہے۔ محترمہ بہت دبلی پتلی کمزور سی ہو جانے پر اپنا رنگ روپ سب کچھ کھو چکی تھیں ، یہاں تک کہ مجھے ان کے چہرے میں اس رخ ِ زیبا کو تلاش کرنا مشکل لگ رہا تھا، جس سے میں واقف تھا۔
بہر حال ملیں تو انہیں سب باتیں یاد ہو آئیں۔ یہاں تک کہ اس دوپہر کا ذکر بھی انہوں نے کیا جسے میں لگ بھگ بھول چکا تھا ۔۔۔ یعنی جب وہ کرشن جی کو دل کی تکلیف ہونے کے بعد انہیں دہلی لا کر انڈین انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں چیک اپ کروا رہی تھیں اور کناٹ پلیس کے ایک ہوٹل میں ٹھہری ہوئی تھیں اور جدیدیت کے نام نہاد علمبردار جو دہلی میں کناٹ پلیس کے ٹی ہاؤس کی “چنڈال چوکڑی” سمجھے جاتے تھے، سریندر پرکاشؔ اور مین را ؔ افسانہ نگاروں کے علاوہ،نامیؔ، (شاید مخمور سعیدی بھی) اور کچھ دیگر چھٹ بھئیے شاعروں کی معیت میں ہوٹل کے نیچے پہنچ کر نعرہ بازی میں مصروف ہو گئے، “کرشن چندر، نیچے آؤ! کرشن چندر نیچے آؤ! کرشن چندر ہم سے بات کرو، نیچے آؤ!” میں اتفاق سے پرسش احوال کے لیے کرشن چندر کے کمرے کے باہر سلمیٰ جی کے ساتھ بنچ پر بیٹھا ہواتھا، تو میں نے آفر کیا ، “بھابھی، آپ نیچے مت جائیں، میں چلا جاتا ہوں اور ان کو سمجھا بجھا کر واپس بھیج دیتا ہوں۔” ۔ ۔۔ ۔.لیکن وہ نہ مانیں اور میرے ساتھ ہی نیچے گئیں۔ ان کو دیکھ کر پہلے تو سب کے چہرے اتر گئے، پھر جب انہوں نے مشفقانہ لہجے میں ہاتھ جوڑ کر سب کو بتایا کہ کرشن جی کی حالت بستر سے اٹھ سکنے کی بھی نہیں ہے، نیچے آ سکنے کی بات تو بعید از قیاس ہے۔ اور تب میں نے دس بارہ نوجوانوں کی اس بھیڑ میں سے پنجابی شاعر دھن راج سنگھ کو تلاش کیا اور اسے ذرا دور لے جا کر اس کی جیب میں دس دس کے کچھ نوٹ ڈالے اور کہا، “ان دوستوں کو بھولا رام اینڈ سنز کی شراب کی دکان پر لے جاؤ اور وہسکی کی دو بوتلیں خرید کر دے دو، تا کہ ان سے پیچھا چھوٹے”۔
ریختہ کے سیمینار سیشن میں بھی بد مزگی پیدا ہوئی۔ کرشن چندر کے بہنوئی (سرلا دیوی کے خاوند) ریوتی سرن شرما بھی مدعو تھے۔ کسی زمانے میں وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے ہندی وِنگ کا بنیادی پتھر سمجھے جاتے تھے، لیکن اب عمر رسیدگی اور ناکام بوڑھوں کی طرح بد مزاج ہو جانے کی وجہ سے وہ ہر بات میں رخنہ ڈالتے ہیں، اور انہیں لگتا ہے کہ ہر طرف کرشن چندر کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں۔ منٹو صدی تقریبات کے سلسلے میں بھی ، دہلی میں ساہیتہ اکاڈمی میں منعقد کیے گئے سیمینار میں ، جس سیشن کی صدارت میرے ذمہ تھی، وہ چپکے بیٹھے رہے، لیکن ڈاکٹر نارنگ کے آتے ہی جیسے بھڑک سے گئے اور شور و غل کرنے لگے۔ انتظار حسین اور اصغر ندیم سید کی تقریروں کے دوران میں بھی بڑبڑاتے رہے اور پھر اٹھ کر کچھ کہنے لگے تو نارنگ صاحب نے موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے سیشن ہی ختم کر دیا۔ ریختہ سیمینار میں بھی میری تقریر ختم ہونے کے بعد انہوں نے ایک پرزہ نکالا اور اسے پڑھنا شروع کر دیا۔ دس بارہ منٹوں تک تو میزوں کے گرد بیٹھے ہوئے ایک سو کے قریب سامعین نے انہیں سنا، جب کچھ پلے نہ پڑا تو منتظمین میں سےایک صاحب نے مجھے پھر مائیک پر بلا کر بولنے کے لیے کہا۔ اور اس طرح ان کی بڑبڑاہٹ کے دوران میں ہی میں کرشن چندر کے بارے میں کچھ اور باتیں بتاتا رہا۔ بہرحال اس مخمصے کے دورانیے میں سلمیٰ جی کی تقریر بھی غور سے نہیں سنی گئی۔ جس بات کا ہم سب کو قلق ہوا۔
اب آئیں، کچھ پرانی یادیں کرید کر دیکھیں کہ کہاں کہاں کچھ انگارے راکھ میں دبے ہوئے اب بھی سلگ رہے ہیں۔
کرشن چندر سے میری پہلی ملاقات ۱۹۵۹ء میں میرے بمبئی میں دو ماہ کے قیام کے دوران ان کے گھر پر ہوئی ۔ فون پر وقت طے کرنے کے بعد میں بسیں بدل بدل کر ان کے گھر تک پہنچا تو آدھ گھنٹہ لیٹ تھا۔ مجھے خوشی اس بات سے تو ہوئی کہ خود سے بارہ پندرہ برس بڑے ، ایک بے حد سینیر لکھاری سے ملنے کا نہ صرف اتفاق ہوا بلکہ اس بات سے یہ خوشی دو چند ہو گئی کہ نہ صرف انہیں مجھ سے انجمن ترقی پسند مصنفین کی بھیمڑی کانفرنس اور دہلی کانفرنس میں ملنا یاد تھا، بلکہ میرے افسانوں سے اور عادل رشید صاحب کی وساطت سے میرے بارے میں بات چیت کے حوالے سے انہوں نے میرے بارے میں ایک مثبت رائے قائم کی ہوئی تھی۔ ملنے پر گرمجوشی بھی دکھائی اور یہ بھی کہا ’’ بھیمڑی کانفرنس میں تو آپ پندرہ سولہ برس کے بچے ہی دکھائی دیتے تھے لیکن جب آپ دہلی کانفرنس میں یعنی پچھلے برس ہمیں ملے اور کچھ دوستوں نے آپ کے افسانوں کی تعریف کی تو میں نے آپ سے پوچھا تھا، آپ اردو افسانہ نگاروں میں سب سے زیادہ کس کو پسند کرتے ہیں؟‘‘ میں نے کیا جواب دیا تھا ؟ میرے یہ پوچھنے پر انہوں نے کہا،’’ آپ نے بہت حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے کہا تھا، آپ کو تو پسند نہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن میں راجندر سنگھ بیدی کو بہت پسند کرتا ہوں۔۔یعنی زبان کے استعمال میں آپ اتنے محتاط ہوتے ہوئے بھی ایک لفظ ’’بہت‘‘ کا اضافہ کر کے بیدی کو مجھ سے بہتر افسانہ نگار کہہ گئے تھے!” ۔
میں کچھ جھینپا، لیکن وہ فوراً بات بدل گئے۔ ’’آپ کہاں ٹھہرے ہیں؟‘‘ میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ بولے، ’’آپ میرے پاس ٹھہر تو نہیں سکتے لیکن دن کے وقت ، یعنی جب تک آپ یہاں بمبئی میں ہیں، اگر دو بجے کے لگ بھگ آ جایا کریں تو ہم چند گھنٹے اکٹھے گذار سکتے ہیں۔‘‘ میں نے حامی بھر لی۔ دوسرے یا تیسرے دن میں دو بسیں بدل کر ان کے گھر جا پہنچا۔ اکیلے ہی بیٹھے تھے، ان کی بیگم جو خالص گھریلو قسم کی خاتون تھی، جب مجھے ملیں تو پنجابی میں باتیں کرتی رہیں۔ اس سادہ سی، سگھڑ سی عورت کو مل کر مجھے تو بہت اچھا لگا اور ایسی باتیں جو ان کے دوست مشتہر کرتے تھے کہ وہ ان کے دوستوں کو پسند نہیں کرتیں، مجھے غلط لگیں۔ چائے بنا کر لے آئیں۔ مجھے سے میرے والدین اور گھر بار کے بارے میں پوچھتی رہیں اور جب ہم لوگ ایک دو گھنٹوں تک باتیں کر چکے تو دوبارہ خود ہی چائے بنا کر لے آئیں۔ ’’کروا چوتھ‘‘ کا تیوہار اسی ہفتے تھا۔یہ دن سہاگ وتی عورتیں مناتی ہیں اور ہتھیلیوں پر مہندی سے نقش و نگار بنا کر، تھالی میں دئے اور مٹھائی رکھ کر اپنے خاوند کی لمبی عمر کے لیے سارا دن برت رکھتی ہیں۔ مجھے کہنے لگی، یہاں تو کوئی ہے ہی نہیں جس سے تھالی بٹائی جا سکے۔ مہندر نے تو گھر میں گھاٹن ڈال رکھی ہے۔ سرلا کبھی آ بھی جائے تو کچھ دیر بیٹھ کر اٹھ جاتی ہے۔ پھوپھیوں کو اپنے بھتیجے بھتیجیوں سے بہت پیار ہوتا ہے، لیکن سرلا تو خود میں ہی مست رہتی ہے، آپ کی ماتا جی بھی تو مناتی ہوں گی، کروا چوتھ کا دن!‘‘ جب میں نے بتایا کہ میری ماں اب توبیوہ ہیں، لیکن میں نے انہیں پاکستان بننے سے پہلے یہ تیوہار مناتے ہوئے نہ صرف دیکھا ہے، بلکہ ضد کر کے اپنے ہاتھوں پر بھی مہندی لگوائی ہے، تو بہت ہنسیں، بولیں، ’میرے بچے بھی یہی ضد کرتے ہیں۔ میرے پاس اس برس مہندی نہیں ہے۔ انہیں کہوں گی، کہ لے آئیں۔‘ میں نے کہا، ’’ بھابھی، میں کل آتے ہوئے لے آؤں گا، آپ چنتا نہ کریں۔‘‘
گفتگو کے دوران یعنی چائے کے خاتمے تک وہ بیٹھی رہیں۔ مجھے کرشن چندر کو’’کرشن چندر صاحب‘‘ کہہ کر مخاطب ہوتے ہوئے سن کر کچھ ہنسیں، کچھ چیں بجبیں ہوئیں، کہنے لگی، ’’آپ انہیں کرشن جی کہہ کر بلائیں۔ مجھے اچھا لگتا ہے۔‘‘
چار پانچ دنوں میں لگاتار ملاقاتیں رہیں۔ کرشن چندر میں مجھے کچھ باتیں بہت اچھی لگیں۔ ان کا دھیما لہجہ ، بات چیت میں اپنے پن کا احساس اور نیچی نگاہ رکھتے ہوئے یکدم اوپر نظریں اٹھا کر مد مقابل کی طرف دیکھ لینے کا ڈرامائی انداز، انگلیاں جیسے میز پر رکھے ہوئے بھی تھرک رہی ہوں۔ اس سے پتہ چلتا تھا کہ ظاہراً پر سکون دکھائی دینے والے شخص کے اندر کہیں ہلچل ہے، جسے وہ چھپا نہیں سکتا۔ جس کمرے میں ہم بیٹھے تھے اس میں صرف چند کتابیں ہی تھیں، ساری کی ساری اردو میں۔ مجھے کچھ خالی خالی سا نظر آیا، تو میں نے پوچھ ہی لیا، ’’کرشن جی، آپ کے کمرے میں انگریزی کی کتابیں نظر نہیں آتیں؟‘‘ ہنس پڑے، بولے، ’’اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں پڑھتا نہیں ہوں۔ بہت سی کتابیں اندر میرے بیڈ کے پاس ایک بُک شیلف میں رکھی ہیں۔‘‘
گفتگو میں میرا کردار ہمیشہ سوال کرنے والے کا رہا۔ یوں بھی بیس بائیس برس چھوٹا ہونے اور ان کے صفِ اول کے افسانہ نویس ہونے کی وجہ سے مجھے ’’کرشن جی‘‘ کہہ کر پکارنے میں تو کچھ وقت لگا، میں بہت سے سوالوں کو اپنی ڈایری میں لکھ کر ان کے ہاں جاتا تھا۔ اس سے مجھے بات چیت میں آسانی ہوتی تھی، اور میں اپنی خود ساختہ شارٹ ہینڈ میں ان کے جوابات بھی، حرف بحرف تو نہیں، لیکن مختصراً لکھ ہی لیتا تھا۔
مثلاً میرے ایک سوال کے جواب میں وہ تا دیر خاموش رہے اور جب میں نے دوبارہ تاکید سے پوچھا تو کہنے لگے، ’’اس کا جواب میں نہ ہی دوں، تو بہتر رہے گا۔‘‘ سوال ’’انگارے‘‘ کی اشاعت کے بارے میں تھا، جسے نہ صرف ترقی پسند مصنفین کی تحریک کی شروعات کا مینی فیسٹو بھی کہا گیا تھا بلکہ اس کے بارے میں بیحد متضاد آراء پائی جاتی تھیں۔ یہاں تک کہا جاتا تھا کہ کرشن چندر جیسے ’نرم‘ لوگ کبھی اس سختی کے گنہ گار نہ ہوتے جس کا اعادہ اس کتاب میں کیا گیا تھا۔ میں نے ان سے عرض کیا تھا کہ ’’انگارے‘‘ پڑھنے کے بعد مجھے یہ محسوس ہوا کہ مرتب کرنے والوں نے نہ صرف حد اعتدال سے غیر معمولی طور پر تجاوز کیا ہے، بلکہ تخریب کی حد تک آگے بڑھ گئے ہیں۔ کہا بھی تھا سید سجاد ظہیر نے، جب ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تھا، کہ اگر یہ تخریب کاری کا احیا ہے تو یوں سمجھئے کہ جب تک پرانی دیواریں منہدم نہیں ہو جاتیں، نئی کھڑی نہیں کی جا سکتیں، کیونکہ تخریب ہی تعمیر کا پہلا قدم ہے۔ ’انگارے‘ میں مذہب پر کھلے بندوں ایسے حملے کیے گئے تھے کہ مجھ جیسے لا دین تو نہیں لیکن All-faith-man کو بھی یہ برا لگا تھا۔ لکھتے ہوئے احتیاط نہیں برتی گئی تھی ۔ مذہب کو سرمایہ داری کی آغوش مادر کہہ دینا تو درست تھا، لیکن مارکسؔ کے زباں زد عام قول Religion is the opium of the masses کی بنا پر مذہب کو تمام خرابیوں کی بیخ و بنیاد سمجھ کر اسے کرداروں کی زبان سے برا بھلا کہلوانا کچھ نعرہ بازی سا لگا تھا مجھے۔ جب میں نے کرشن چندر سے کہا کہ یہ کتاب اپنا تخریبی رول تو ادا کر گئی لیکن ترقی پسند منشور کی اس تمثیل میں یہ ایک غلط Opening scene تھا تو کرشن مسکرائے، میز پر ان کی انگلیوں کی طبلہ تھاپ تیز ہو گئی لیکن وہ خاموش رہے۔
مجھے کچھ کچھ یاد تھا کہ خاندان اور اس میں مشمولہ جنسی تعفن کی طرف اس کتاب میں کیا کیا لکھا گیا تھا۔ میں نے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں وہ دہرا دیا، تو انہوں نے کہا، ’’آپ مجھ سے یہ سوال نہ ہی پوچھئے تو اچھا ہے۔ میں جواب نہیں دوں گا۔‘‘
آج چالیس سے کچھ اوپر برسوں کے بعدمیں نے یہ احوال نامہ لکھتے ہوئے ’’انگارے‘‘ کے ضبط شدہ ایڈیشن کے وہ صفحات نکال کر دیکھے ہیں۔ ان کی عبارت حرف بحرف یوں ہے۔
’’موجودہ خاندان، یعنی بورژوا خاندان کن بنیادوں پر قائم ہے؟ سرمائے پر، ذاتی منافع پر ۔۔۔‘‘
’’بورژوا اپنی بیوی کو محض ایک آلۂ پیداوار سمجھتا ہے ۔۔۔‘‘
’’ہمارے بورژوا اپنے پرولتاریوں کی بیویوں اور بیٹیوں کو اپنے استعمال میں رکھنے قانع نہیں، عام بیسواؤں کا تو مذکور ہی کیا، وہ ایک دوسرے کی بیویوں کی عصمت ریزی میں انتہائی لذت محسوس کرتے ہیں۔‘‘
اس سلسلے میں میرا آخری سوال کرشن جی سے یہ تھا، ’’کیا اس انتہا پسندی کہ وجہ سے ہی سجاد ظہیر خود اچھے ideologue تو بن گئے، ادیب نہیں بن سکے۔‘‘
اس بار مسکرائے بھی نہیں، صرف کہا، ’’آپ ایک اچھے انسان کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں۔‘‘
میں یہ تو کہتے کہتے ہی رہ گیا، اگر ریوتی سرن شرما اور سرلا دیوی بیٹھے ہوتے، تو شاید کہہ بھی دیتا کہ اردو کے مقابلے میں ہندی میں پرگتی شیل (ترقی پسند) تحریک کیوں جڑ نہ پکڑ سکی، کیااس کا کارن یہی احتیاط کا فقدان تھا؟ ہندی والے ، میں جانتا تھا، کچھ زیادہ ہی ’رڑھی وادی‘ (رجعت پسند) ہوتے ہیں اور خاندان کے خلاف اس قسم کے عدم توازن پر مبنی باتیں برداشت نہیں کر سکتے۔
ان ملاقاتوں میں، (جن کا کچا چٹھا میں اس سے پہلے بھی ماہنامہ ’’راہی‘‘ میں لکھ چکا ہوں جس کے مرتبین میں میرا نام بھی شائع ہوا کرتا تھا)، مجھے کرشن چندر سے کرشن چندر ہی کے بارے میں کماحقہ واقفیت حاصل ہوئی، جو شاید ان کے بارے میں لکھے گئے تنقیدی مضامین سے حاصل نہ ہو سکتی۔ ایک نکتہ جس نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا، کرشن چندر کی یہ شکایت تھی کہ ان کے مخالفین ان کے بارے میں اپنا ناموافق رویہ اس اساس پر رکھتے ہیں کہ مصنف اگر خود مزدور نہیں ہے تو مزدوروں کے بارے میں لکھنے میں وہ کہیں نہ کہیں چوک جائے گا۔ ہنس کر کہنے لگے کہ یورپ میں کسی نے ایک فرانسیسی مرد ناول نویس ایمل زولا کے بارے میں یہ کبھی نہیں کہا کہ چونکہ وہ عورت نہیں ہے، اس لیے اس نے Nana اور Nana’s Mother جیسے عظیم ناول کیوں لکھے ہیں۔ یا ٹالسٹائی کو مرد ہونے کی وجہ سے Anna Karenina تحریر کرنے کا یا اسی بنا پر فلابیئر کو Madame Bovary لکھنا زیب نہیں دیتا تھا۔ گویا کہ کسی عورت کے بارے میں مرد کو افسانہ لکھنے کا کوئی حق نہیں اور کسی مزدور کے بارے میں ایک غیر مزدور کو لکھنے کی کوئی تُک ان کی میں سمجھ نہیں آتی۔ مجھے ان کی بات پر ایمان لانا پڑا ، چہ آنکہ یہ بھی کہا گیا تھا کہ تلنگانہ کے کھیت مزدوروں کی حالت زار اور وہاں کی تحریک کے بارے میں ان کے ناول ’’جب کھیت جاگے‘‘ پر پہلا اعتراض مخدوم محی الدین کا تھا کہ کرشن نے چونکہ تلنگانہ جا کر وہاں کے حالات اور کھیت مزدوروں کی زندگی کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا اس لیے وہ ایک فاش غلطی کے مرتکب ہوئے، یعنی اپنے ناول کے ہیرو کے انتخاب میں بھی وہ چوک گئے۔ راگھو راؤ ہیرو کا نام ہے، اور یہ نام اونچے براہمن گھرانوں میں پایا جاتا ہے، کھیت مزدوروں میں نہیں! میں نہیں چاہتا تھا کہ میں اس سلسلے میں ان سے بات کر کے ان کی ناراضی مول لوں، کیونکہ مجھے خود علم نہیں تھا کہ مخدوم محی الدین نے یہ بات کس تناظر میں کہی تھی۔
البتہ اردو نقادوں کے بارے میں ایک بات جو کرشن جی نے کہی، اس پر ایمان لانا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ لوگ آسان راستہ تلاش کرتے ہیں اور متن کو پڑھ کر اس کی گہرائی میں نہیں جاتے۔ ’’مثلاً میرے افسانوں اور ناولوں میں جو مزدور وں یا کامگاروں کے بارے میں ہیں۔۔۔‘‘ انہوں نے کہا تھا اور یہ جملہ بجنسہ میری ڈائری میں درج ہے۔ ’’۔۔۔مردوں کی نسبت مزدور یا کامگار عورتیں زیادہ ہیں جن کے استحصال کو موضوع بنایا گیا ہے۔ کامگار عورت کا یہ استحصال دو سطحوں پر ہے، یعنی ایک تو اقتصادی یا طبقاتی اور دوسرا جنس کے حوالے سے ۔ اگر میں اپنی یاد پر بھروسہ کروں تو میں نے کم از کم بیس افسانے اس موضوع پر لکھے ہیں، اور یہ کوئی کم تعداد نہیں ہے۔‘‘
پھر ذرا رک کر انہوں نے کہا، ’’آپ بھی کہہ رہے ہیں کہ آپ نے میرے سارے افسانے پڑھے ہیں، یہ امر کبھی آپ کے نوٹس میں بھی آیا؟‘‘ میں چپکا بیٹھا رہا ، صرف نفی میں سر ہلا دیا۔
کہنے لگے، ’’مجھے ہندوستان کے مہاجنی نظام میں جس قدر عورت کی زبوں حالی نے جھنجھوڑا ہے، اگر میرے افسانے پڑھ کر قارئین اس کا ایک چوتھائی تاثر بھی قبول کر لیں تو میں سمجھتا ہوں، میری محنت کا پھل مجھے مل گیا ہے۔‘‘
’’عورت کی زبوں حالی۔۔۔‘‘ میں نے حامی بھری، ’’ہاں، میں کہہ سکتا ہوں کہ آپ نے ’’شکست‘‘ میں دو صفحے صرف رام اور سیتا کہ کہانی پر صرف کیے ہیں کہ کیسے راون کی قید سے رہا ہونے کے بعد بھی ایک جاہل دھوبی کے کہنے پر رام نے اسے ملک بدر کر دیا اور جب اسے بالمیکی کے آشرم سے واپس بھی لایا تو اگنی پریکشا کے بعد بھی اس کا شک دور نہ ہوا اور سیتا نے اپنی ماں دھرتی سے فریاد کی، دھرتی شق ہو گئی اور سیتا اس میں سما گئی۔ ‘‘
’’ہاں، ‘‘ کہنے لگے ، ’’میں نے لکھا تھا کہ سیتا کنڈ کی زمینی حدود بھی سیتا کا حالت زار کا پتہ دیتی ہیں۔ نیلے آسمان کے مسرت بھرے نور سے دور ایک چٹان کی سنگلاخ چھاتی میں، چاروں پتھروں کی دیواروں کے بیچ، جہاں روشنی کا گذر بھی نہیں ہو سکتا۔ یہی تو مدت المدید سے عورت کی جگہ رہی ہے، سب سے نیچے، قدموں میں! ‘‘
’’سنو،‘‘ کہنے لگے، ’’میں نے کیا لکھا ہے، ‘‘ اور وہ شکست کا ایک صفحہ نکال کر پڑھنے لگے، ’’موٹر کے آگے اور پیچھے، چیڑ اور دیودار کے گھنے اور سبز جنگلوں کے درمیان، چاندی کے تارکی طرح چمکتی ہوئی پکی سڑک پھسلتی جا رہی ہے۔ ایک میٹھے چشمے سے دوسرے میٹھے چشمے تک، ایک ڈاک بنگلے سے دوسرے ڈاک بنگلے تک، ایک امیر کی جیب سے دوسرے امیر کی جیب تک، یہ وہی نقرئی تار ہےء، جس نے انسانوں کے دل تاریک کر دیے ہیں۔ عورتوں کی عصمتیں ویران کر ڈالی ہیں اور سماج کی روح کو آتش کے جہنم میں جھلسا دیا ہے۔‘‘
میں نے ان کے چہرے پر نظر کی۔ لال بھبھوکا، غصے یا نا امیدی کی آگ میں جھلسا ہوا۔ مجھے ایسے لگا کہ یا تو ابھی پھپھک پھپھک کر رو پڑیں گے، یا زور سے ہاتھ مار کر میز پر پڑی چائے دانی، کپ اور پلیٹیں توڑ دیں گے ۔۔۔ لیکن کچھ بھی نہیں ہوا، ایک ٹھنڈی سانس لی اور خاموش بیٹھ گئے۔
میرا بمبئی جانا ممکن بھی نہیں تھا، کیونکہ میں اپنی تعلیم، اپنی بیوہ ماں اور بھائی بہنوں کی دیکھ ریکھ میں مصروف تھا اور ان سب کے علاوہ آٹھ آٹھ گھنٹے روزانہ لکھنے کا کام کرتا تھا جس سے کچھ آمدنی ہو جاتی تھی۔ خطوط کا تبادلہ البتہ ہوتا رہا ۔ فون تو ان دنوں ایک نایاب چیز تھی، لیکن ان کے بارے میں ایسی خبریں ملتی رہیں جن سے یہ پتہ چلتا تھا کہ ان کی گھریلو زندگی آہستہ آہستہ اجیرن ہوتی چلی جا رہی ہے اور میاں بیوی میں تضاد کی وجہ کوئی ’’دوسری عورت‘‘ بھی ہے۔
اور پھر جب سلمیٰ صدیقی آ گئیں تو افواہیں اڑیں کہ کرشن چندر نے اسلام قبول کرنے کے بعد رشید احمد صدیقی کی بیٹی سے شادی کی ہے۔ بہر حال میں نے اپنا تعلق ان سے برقرار رکھا اور محترمہ سے بھی گاہے بگاہے ان کی دہلی کی آمد ورفت کے دوران ملتا رہا۔ لیکن تیس پینتیس برس پہلے انڈیا چھوڑ دینے کے بعد ، صرف ایک بار بمبئی میں اپنے قیام کے دوران ان سے ملاقات ہوئی، جس کا احوال نامہ میری یاداشتوں کی کتاب “کتھا چار جنموں کی” میں موجود ہے۔