فنون لطیفہ کی لازوال ہستیاں
رئیس فاطمہ
Hardcover: 232 pages
|
رئیس فاطمہ موسیقی کو روح کی غذا اور رقص کو دل کا سرور کہتی ہیں۔ وہ جب موسیقی یا رقص کے موضوع پر قلم اٹھاتی ہیں تو نثر میں شاعری کرتی ہیں۔ اپنے ایک کالم میں جو ان کے اخباری کالموں کے مجموعہ ’’فنون لطیفہ کی لازوال ہستیاں‘‘ میں شامل ہے وہ ناہید صدیقی کو یاد کرتی ہیں۔ وہ لکھتی ہیں۔ ’’رات کا وقت تھا۔ الحمرا آرٹس کونسل کے وسیع و عریض خوبصورت اور دلکش ہال میں مکمل اندھیرا تھا۔ صرف جگنو جیسی روشنیاں ماحول کو سحر انگیز بنا رہی تھیں۔ آہستہ آہستہ روشنی ایک جگہ مرکوز ہوئی۔ سارنگی اور طبلے کی سنگت میں فریحہ پرویز نے جب اپنی دلکش آواز میں غزل شروع کی تو میں تھوڑا سا حیران ہوئی کہ اب تک ان کا یہ روپ مجھ سے پوشیدہ تھا کہ وہ کلاسیکل بھی بہت اچھا گاتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کی آواز کی دلکشی اور گلے کا لوچ کلاسیکی انداز میں ابھر کر سامنے آتا ہے۔ انھوں نے اس غزل کو محسوس کر کے گایا، لفظ اور ادائیگی دونوں کمال کی تھیں۔ ہال میں ایسا سناٹا تھا کہ سوئی گرے تو آواز آ جائے۔ پھر اس سمندر کی پری نے سر اٹھایا، روشنی کے حلقے نے اسے فوکس کیا۔ وہ تو ہماری اپنی بہت ہی اپنی ناہید صدیقی تھی جو نجانے کہاں کھو گئی تھی۔ ضیا کی ظلمت نے اسے کہیں چھپا دیا تھا۔ وہ صرف ہمارے ذہنوں میں اور تصور میں زندہ تھی۔ میں نے ناہید کے گھنگروؤں کے کمالات پہلے بھی دیکھے تھے۔ غزل کے اشعار پر جب وہ نرت بھاؤ بتاتی تھی تو قدر دانوں اور رقص کی باریکیوں کو سمجھنے والوں کے ساتھ ساتھ عام لوگ بھی بے اختیار داد دینے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ کہیں رقص ساکت اور گھنگھرو خاموش اور کہیں گھنگھرو اور طبلے کی سنگت ہے۔‘‘ رئیس فاطمہ نے اپنے اس کالم میں نیلما گھنشام، ریتا گھنشام، پروین قاسم اور سحر صدیقی کو بھی یاد کیا ہے کہ یہ بڑی ہستیاں شمار ہوتی ہیں اور اس بات پر اپنے دکھ کا اظہار کیا ہے کہ ملک میں رقص و سرود کا وہ ماحول اب نہیں ہے۔ شاید اس کے قدرداں نہیں رہے یا قدردانی کے معیار اور قدر شناسی کے پیمانے بدل گئے۔ نو عمر ماسٹر مدن کو رئیس فاطمہ نے پہلا انڈین آئیڈیل قرار دیا ہے۔ وہ اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں ’’بہت پرانی بات ہے، میرے والد چھٹی والے دن اپنے میوزک کلیکشن اور فوٹو گرافس کا جائزہ لے رہے تھے۔ انھیں کلاسیکل میوزک، عالمی ادب، شعر و ادب کے علاوہ فوٹو گرافی کا بھی شوق تھا۔ سیر و سیاحت کے علاوہ سرکاری دوروں پر بھی وہ اپنا محبوب رولی فلیکس کیمرہ ہمیشہ ساتھ رکھتے تھے۔ دو تین دن قبل ہی وہ کچھ نئے گراموفون ریکارڈ لے کر آئے تھے جس میں میری والدہ کی پسند بھی شامل تھی۔ انھوں نے ریڈیو گرام پر ایک ریکارڈ لگایا، ’’پلے‘‘ کا بٹن دباتے ہی ایک عجیب سحر انگیز آواز ابھری۔‘‘ یہ ماسٹر مدن تھے جو غزل سرا تھے: حیرت سے تک رہا ہے جہانِ وفا مجھے تم نے بنا دیا ہے محبت میں کیا مجھے اس ریکارڈ پر ماسٹر مدن کی گائی ہوئی ساغر نظامی کی دوسری غزل بھی تھی۔ یوں نہ رہ رہ کر ہمیں تڑپائیے آئیے، آ جائیے، آ جائیے یہ غزلیں جب ماسٹر مدن نے گائیں اور آل انڈیا ریڈیو کے دہلی اسٹیشن سے نشر ہوئیں اس وقت ماسٹر مدن کی عمر صرف آٹھ سال تھی۔ سارے ملک میں ان کی گائیکی کی دھوم مچ گئی بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ نظر لگ گئی اور یہ ہونہار لڑکا اپنی پندرہویں سالگرہ سے پہلے اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ ایک موہ لینے والی آواز خاموش ہو گئی۔ نجانے کتنے کانوں میں یہ آواز مدت تک گونجتی رہی ہو گی۔ رئیس فاطمہ کہتی ہیں کہ فنون لطیفہ میں سب سے زیادہ طاقتور اور پر اثر شعبہ موسیقی ہی کا ہے جو دلوں میں ایک دم راحت پیدا کر دیتی ہے۔ وہ لکھتی ہیں: ’’پتہ نہیں کیوں سہگل، خورشید، مہدی حسن، اقبال بانو، جوتھیکارائے، فیروزہ بیگم، شہناز بیگم، فردوسی بیگم، مکیش، ای ایچ آتما، طاہرہ سید، بیگم اختر، ریشماں، ماسٹر مدن، آشا، ہیمنت کمار، لتا اور مبارک بیگم کی آوازیں میرے دل کو چھوتی ہیں۔ کس قدر افسوس ہے کہ آج ان گلوکاروں کو کوئی یاد نہیں کرتا۔ انھیں چھوڑیں شمشاد بیگم، اقبال بانو، مہناز، امانت علی خاں، ریشماں اور مہدی حسن کو بھی بھلا دیا۔ ریڈیو کے خاتمے کے ساتھ ہی پاکستان میں موسیقی بھی ختم ہو گئی۔‘‘ پرانے گلوکاروں کے ساتھ حالیہ دور کے گلوکار بھی فراموش کر دیے گئے۔ ادبیات کے عنوان سے رئیس فاطمہ نے جن ہستیوں کو اپنے کالم کا موضوع بنایا ہے ان میں حافظ شیرازی، امیر خسرو، نظیر اکبر آبادی، مومن، انشا، فیض شاعروں میں اور ادیبوں میں راشد الخیری، شاہد احمد دہلوی، قرۃ العین، عطیہ بیگم فیضی شامل ہیں۔ شہزادی عابدہ سلطان کو بھی یاد کیا ہے۔ عطیہ بیگم فیضی جن حالات میں پاکستان آئیں اور یہاں جس طرح ان کے ساتھ سلوک ہوا اس پر رئیس فاطمہ کا دکھی ہونا فطری امر ہے۔ افسوس ہوتا ہے کہ ہم اپنے مشاہیر کی کیسی بے توقیری کرتے ہیں۔ رئیس فاطمہ بتاتی ہیں کہ عطیہ پہلی ہندوستانی خاتون تھیں جنھوں نے بیرون ملک جا کر تعلیم حاصل کی اور پیرس کی یونیورسٹی میں لیکچر دیا۔ انھیں ادب کے ساتھ علم موسیقی پر بھی عبور تھا۔ انھوں نے اس کی نہ صرف تربیت حاصل کی تھی بلکہ اس معاملے میں ان کا مطالعہ بڑا وسیع تھا خاص طور پر مصری موسیقی کی مختلف راگ اور راگنیوں کے بارے میں ان کی معلومات حیرت انگیز تھیں۔ وہ ان راگ راگنیوں کے بارے میں استاد بندو خاں جیسے بڑے فنکاروں کو ان کی دھنیں بنا کر بتایا کرتی تھیں۔ یہ وہ عطیہ بیگم تھیں جن کی بارگاہ عقیدت میں بڑے بڑے نام شامل ہیں، بالخصوص اقبال اور شبلی، عطیہ کے شوہر فیضی رحمین لندن کی رائل اکیڈمی آف آرٹ سے تعلیم حاصل کر کے آئے تھے۔ عطیہ سے ملاقات ہوئی تو دونوں کو یہ احساس ہوا کہ وہ ایک دوسرے کے لیے ہی بنے ہیں۔ دونوں کی دلچسپیاں اور مشغلے ایک جیسے تھے۔ فیضی یہودی تھے، شادی سے پہلے اسلام قبول کر لیا۔ پاکستان میں ان کے آرٹ کی بھی بے قدری ہوئی۔ فیض صاحب کے بارے میں رئیس فاطمہ لکھتی ہیں ’’ترقی پسند شاعروں میں جو مقبولیت انھیں حاصل ہوئی اس کی وجہ میرے خیال میں ان کا کلاسیکی لب و لہجہ اور ان کی انسان دوستی تھی۔ وہ ذات پات، مسلکوں اور زبانوں کے تعصب سے بے نیاز ایک ایسے شخص تھے جن سے صرف محبت کی جا سکتی ہے کیونکہ وہ صرف محبتوں کے شاعر تھے۔‘‘ رئیس فاطمہ نے حافظ شیرازی کی دو خصوصیات کا ذکر کیا ہے جن سے وہ متاثر ہوئی ہیں۔ ایک ان کی آفاقی شاعری اور دوسری ان کے دیوان کا ’’لسان الغیب‘‘ ہونا۔ حافظ کی بصیرت یہ تھی کہ آج جو ہو رہا ہے اسے انھوں نے صدیوں پہلے محسوس کر لیا تھا۔ حافظ کی اس غزل کا حوالہ دیتے ہوئے جس کی ردیف ’’می بینم‘‘ ہے یعنی میں دیکھ رہا ہوں وہ لکھتی ہیں۔ ’’اس غزل کو سامنے رکھیے اور پاکستان کی صورت حال کو دیکھیے جو ایک مہیب آسیب کی طرح تمام شعبوں پر چھائی ہوئی ہے۔ احمق، خود غرض، مطلبی اور زمانہ شناس ذاتی تعلقات، قصیدہ خوانی اور جھوٹ کو سچ کر دکھانے کی کامیاب کوشش کے عوض اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں۔ کفن میں جیبیں لگوا رہے ہیں، بلند مرتبے پا رہے ہیں، جائیدادیں بنا رہے ہیں، محلات تعمیر کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس عام انسان، مزدور، ادیب و شاعر، پروفیسر، صحافی، معمار، ذہین اور فطین نوجوان جوتیاں چٹکا رہے ہیں۔ اسپ تازی شدہ مجروح بہ زیرِ پالاں طوقِ زریں ہمہ در گردنِ خر می بینم |