احمد شاہ بخاری کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور – رشید احمد صدیقی
پروفیسر احمد شاہ بخاری (پطرس) دفعتہً ہم سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوگئے۔ ان کی باتوں اور تحریروں سے بے شمار لوگوں کے دل خوش ہوئے اور ہوتے رہیں گے۔ الله تعالیٰ نے ان سے اتنی بڑی خدمت لی تو یقیناً ان کو اپنی بے کراں نوازوں سے سرفراز بھی فرمایا ہوگا۔
اگر ہم ذہن میں کسی ایسی محفل کا نقشہ جمائیں جہاں تمام ملکوں کے مشاہیر اپنے اپنے شعر و ادب کا تعارف کرانے کے لئے جمع ہوں تو اردو کی طرف سے ہم بہ اتفاق آراء کس کو اپنا نمائندہ انتخاب کریں گے؟ یقیناً پطرس بخاری کو! بخاری نے اس قسم کے انتخاب کو معیار کو اتنا اونچا کردیا ہے کہ نمائندوں کا حلقہ مختصر ہوتے ہوتے معدوم ہونے لگا ہے۔ یہ بات کس وثوق سے ایسے شخص کے بارے میں کہہ رہا ہوں جس نے اردو میں سب سے کم سرمایہ چھوڑا ہے لیکن کتنا اونچا مقام پایا۔
تاریخ اور تفصیل میں کون پڑے، اتنا البتہ یاد ہے کہ سب سے پہلے “راوی” میں پطرس کا مضمون “کتے” پڑھا تو ایسا محسوس ہوا جیسے لکھنے والے نے اس مضمون سے جو درجہ حاصل کرلیا وہ بہتوں کو تمام عمر نصیب نہ ہوگا۔ ظرافت نگاری میں پطرس کا ہم عصر ان کے ہم عصروں میں کوئی نہیں۔ طنز ومزاح و ظزافت آسانی سے ہاتھ آجانے والے لیکن پُر پیچ اور خطرناک آلے ہیں۔ ہنسی، دل لگی یا طعن تشنیع کسے نہیں آتی، لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ کب ہنسنا چاہیے، کس پر ہنسنا چاہیے، کتنا ہنسنا چاہیے اور سب سے مشکل یہ کہ کیسے ہنسنا چاہیے۔ انسان ہنسنے والا جانور کہا جاتا ہے اور یہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔ بعض لوگ اس طرح ہنستے ہیں، ممکن ہے اسی سبب سے بقیہ جانوروں نے ہنسنا چھوڑدیا ہو، بخاری ان رموز سے واقف تھے۔
جو بات ظرافت کے بارے میں کہی گئی ہے وہی طنز پر بھی صادق آتی ہے۔ دونوں کی بدنصیبی یہ رہی ہے کہ سہل الحصول ہونے کے سبب سے ہم ان ذّمہ داریوں کا خیال نہیں کرتے جو ان کی طرف سے ہم پر عائد ہوتی ہیں اور اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ سستی طنزوظرافت کو بہت مہنگی پڑتی ہے۔ یعنی احتیاط سے کام نہ لیا جائے تو طنزوظرافت سے کام لینے والا خود طنز وظرافت کا شکار ہوجاتا ہے۔ ہم میں سے اکثر اس کا شکار ہیں، صرف محسوس نہیں کرتے۔
طنز کی محرک برہمی یا بیزاری ہوتی ہے، ظراف کی تفریح وتفنن۔ ان کا رشتہ نفس واقعہ سے بھی ہے اور فن کار کے ردعمل سے بھی۔ ایک ہی واقعہ ایک شخص کو ایک طرح سے متاثر کرتا ہے اور دوسرے کو دوسری طرح سے۔ ایک اس سے برہمی یا بیزاری کا اظہارکرے گا دوسرا اس کے مضحک یا تفریحی پہلو کو ابھارے گا۔ اس کے بعد یہ دیکھتے ہیں کہ جس فن کار کا جیسا ردعمل ہوا ہےاس کا اظہار اس نے کس طرح کیا ہے۔ یعنی فن کار کی شخصیت کس پایہ کی ہے اور فن پر اس کی گرفت کیسی ہے۔ نادانستہ طور پر یہ بحث اس منزل پر آگئی جہاں شخصیت اور فن کے رشتے سے بحث کرنا ضرور ہوجاتاہےلیکن یہاں صرف اتنا کہنے پر اکتفا کروں گا کہ دن کو شخصیت سے توانائی اور توثیق ملتی ہے اور فن کی غلامی شخصیت کی نامحکمی کی دلیل ہے۔ فن ٹیکنیکل اور مکینیکل ہوتا ہے اور شخصیت عطیہ الٰہی ہے جو ریاضت اور انتظار سے جلا پاتی ہے۔
آج کل طنز وظرافت میں جس کی کمی خاص طور پر محسوس ہوتی ہے وہ شخصیت ہے۔ سبب یہ ہے کہ ہمارے بیشتر لکھنے والے بندھے ٹکے موضوعات کے اسیر ہوگئے ہیں۔ جن پر طنز و ظرافت کا عمل کوشش کئے بغیر بھی کاگر ہوسکتا ہے، مثلاً بیوی، نیتا، مولوی، والدین، قرض، مہنگائی، چور بازاری، نفع خوری،اقربا پروری، لڑکے لڑکیوں کی بے راہ روی وغیرہ ان سب پر طبع آزمائی کی تھوڑی بہت داد بھی مل جاتی ہے۔ جیسے کسی تھکے ہارے شاعر کو اس سے زیادہ تھکے ہارے شعر پر اسی طرح کے حاضرین داد دیتے ہوں۔ مضحک کو مضحک دکھانے بتانے کا کوئی نیتجہ نہیں، یہ سستا اور فضول کاروبار ہے۔ شخصیت کا کارنامہ یہ ہے کہ وہ معمولی کو غیر معمولی بنادے۔ یعنی طنز و ظرافت کے پہلو وہاں دیکھ لے جہاں کسی دوسرے کا ذہن آسانی سے نہ پہنچ سکتا ہو۔ طنز وظرافت کے یہی نمونے فن کار کی شخصیت کی کشید ہوتے ہیں اور اچھے ادب اور اچھے ذہنوں میں جگہ پاتے ہیں۔
بخاری کی ظرافت بندھے ٹکے تفریحی موضوعات، روائتی کرداروں اور لفظی ہیر پھیر سے بے نیاز ہوتی ہے۔ ہر جگہ ہر بات میں انہوں نے خوش طبعی اور زندہ دلی کا پہلو نکالا ہے، جیسے “صحرا کو مسکرا کر گلستان بنادیا” ہو۔ بخاری کی ظرافت عام طور سے مفرد ہوتی ہے، مرکب نہیں۔ بعض اطباء بڑے سے بڑے امراض کا بھی علاج جڑی بوٹیوں سے کرتے ہیں، بعض دوسرے معمولی امراض کے لئے بھی مرکب دوائیں مثلاً معجون، گولیاں، کشتہ جات تجویز کرتے ہیں۔ علاج دونوں مستند ہیں لیکن اول الذکر زیادہ مشکل ہے، اس لئے زیادہ قابل تعریف ہے۔ بخاری طنز و ظرافت کو ظرافت ہی کے سہارے قائم رکھتے ہیں، اور اس سے ہرمقصد حاصل اور ہر مشکل حل کرلیتے ہیں۔ ان کی ظرافت کی تعبیر آتش کے اس شعر سے کی جاسکتی ہے۔
آیا تھا بلبلوں کی تدبیر میں گلوں نے
ہنس ہنس کے مارڈالا صیاد کو چمن میں
ہنس ہنس کے مارڈالنے کا گر، بخاری کو خوب آتا تھا، ظرافت نگاری کی یہ معراج ہے۔
بخاری کے ظرافت نگاری کی مثال داغ کی غزلوں اور مرزا شوق کی مثنویوی سے دے سکتے ہیں جس طرح ان بے نظیر فن کاروں نے ماجرائے حسن و عشق کو قضیہٴ زمین برسرزمین ہی رکھا ہے۔ مزرع آخرت بنانے کی کوشش نہیں کی اسی طرح بخاری نے ظزافت کو زمینی و زمانی ہی رکھا ماروائی و لامکانی بنانے کی فکر میں نہیں پڑے مزے کی باتیں مزے سے کہتے ہیں، اور جلد کہدیتے ہیں۔ انتظار کرنے اور سوچ میں پڑنے کی زحمت میں کسی کو مبتلا نہیں کرتے۔ یہی سبب ہے کہ وہ پڑھنے والوں کا اعتماد بہت جلد حاصل کر لیتے ہیں۔ ترشے ہوئے فقروں اور ڈرامائی اندازے سے عامی اورعالم دونوں کو مسرور کرنے اور مسخر رکھنے کا سلیقہ جتنا بخاری کو تھا کسی اور کے ہاں کم نظر آتا ہے۔
بعض فقروں کو کبھی کبھی اس شوق میں بھی مبتلا دیکھا گیا ہے کہ وہ بدیہہ گو، بذلہ سنج اور داستان طراز بھی سمجھے جائیں۔ اس کی آسان ترکیب یہ نکالی ہے کہ بے شمار لطیفے ازبر کرلئے جائیں جن کو موقع بہ موقع (کبھی ایسے بھونڈے طریقے سے جیسے بعض شعراء اپنا کلام سنانے کے لئے کسی شریف آدمی کو دفعتاً گھیر لیتے ہیں۔) سناتے رہیں گے۔وہ یہ نہیں جانتے ظرافت کا مدار ذوق پر ہے حافظے پرنہیں۔
بخاری فقروں اور لطیفوں کی تجارت نہیں کرتے تھے، وہ خود ہر طرح کی متاع ہر جگہ پیدا کرلیاکرتے تھے، تجارت کے لئے نہیں تواضع کے لئے۔ وہ اپنی تحریر و تقریر میں لطیفوں اور چٹکلوں کے پیوند نہیں لگاتے تھے بلکہ طباعی اور زندہ دلی ان کی رگ و پے میں ساری تھی اور طرح طرح سے جلوے دکھاتی تھی۔ وہ لطیفہ خواں نہ تھے لطیفہ طراز تھے۔ ممکن ہے بخاری سے کبھی کسی کو تکلیف بھی پہنچی ہو لیکن اتنا یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ ان سے ایک ہی لطیفہ دوسری بار یا کئی بار سننے کی کوفت شاید ہی کسی شخص کو ہوئی ہو۔
غالباً ۱۹۵۴ء میں پی۔ای۔این کا سالانہ اجلاس جے پور میں منقعد ہوا تھا۔ ای۔ ایم۔ فاسٹر، سروجنی نائڈو، جواہر لال نہرو، رادہاکرشن، صوفیا دادیا، مرزا اسماعیل، ملک راج آنند، بخاری اور کتنے مشاہیر علم و ادب ہندوستان اور ہندوستان سے باہر کے شریک جلسہ تھے۔ موسم خوشگوار، جے پور کا تاریخی، خوبصورت اور صاف ستھرا، ریاست کی روایتی مہمان نوازی، مرزا اسماعیل کا انتظام، جو اس زمانے میں ریاست کے وزیر اعظم تھے۔ پی۔ ای۔ این کا ایسا شاندار اجلاس ہندوستان میں شاید ہی اسے سے پہلے یا اس کے بعد منعقد ہوا ہو۔ تین دن تک کیسی کیسی عالمانہ تقریریں ہویں، بلند پایہ مقالے پڑھے گئے، علمی مذاکرے رہے، بے تکلف ملاقاتیں اور پرتکلف دعوتیں ہوئی۔
بخاری کی علمی شہرت، بے اختیار متوجہ کرنے والی شخصیت، حسین و ذہین خدوخال، سجل اور ستھرا لباس، بے تصنع خرام و قیام، ہر شخص سے اس کے مناسب حال گفتگو، مزے کی بھی پتے کی بھی، ہر شخص کی نگاہیں پڑتی تھیں۔ لیکن ان کا اپنا انداز یہ تھا کہ مشاہیر کے حلقوں میں یونہی کبھی گھومتے پھرتے نظر آجاتے جیسے ان پر کرم کرنے نکل آئے ہوں، ورنہ پیشتر عام لوگوں اور اپنے ساتھیوں کے حلقے میں مگن رہتےتھے۔ بخاری ایسے یوسف تھے جو کبھی بے کارواں نہیں رہے۔ مقالہ پڑھا تودھوم مچ گئی۔ اردو اور ہندوستان کی دیگر زبانوں کی ادیبوں کے ایک بنیادی مسئلہ کو پہلی بار نہایت وضاحت کے ساتھ پیش کیا گیا تھا۔ بحث تفصیل سے یاد نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستانی ادیب مادری زبان اور انگریزی کے درمیاں معلق ہوکر رہ گئے ہیں۔ یہ “ذولسانی” کش مکش ان کے فکر و نظر کو فطری رنگ میں جلوہ گر ہونے نہیں دیتی وہ اپنی زبان کی پرواخت اور اس کے حسن کے صحیح احساس سے محروم ہوتے جارہے ہیں دوسری طرف انگریزی ادب کے اصلی خدوخال اور مزاج کو اپنانے کے لئے جس ریاضت و بصیرت کی ضرورت ہے اس کے نہ خوگر ہیں نہ اس سے پورے طور پر آشنا۔ نتیجہ ظاہر ہے۔ وہ کلاسیکی ادب کی اساسی قدروں کا صحیح عرفان نہیں رکھتے۔ اس لئے جدید ادب کو پرکھنے کی صلاحیت سے بے گانہ ہیں۔ ان کا پورا زور ماضی کو سمجھے بغیر اس سے رشتہ توڑنے اور بغیر پرکھے جدید سے رشتہ جوڑنے پر صرف ہورہا ہے۔ بخاری کے ان خیالات کو کانفرنس میں بڑی اہمیت دی گئی، اور سب کو اس کا احساس ہوا کہ کتنے اہم موضوع پر کتنا فکر انگیز بات، کس وضاحت سے، کتنے بڑے مبصر نے کہی۔
آل انڈیا ریڈیو کا محکمہ دہلی میں قائم ہوا تو اس کے عملے کا تقرر ایک بورڈ نے کیا جس میں مسٹر فیلڈن، ڈائریکٹر جنرل بخاری، ڈاکٹر کریم حیدر لودهی اور کچھ اور لوگ تھے جن میں ایک میں بھی تھا۔ صدر فیلڈن تھے۔ اس بورڈ کی سفارش پر ذوالفقار بخاری، آغا اشرف، مجاز مرحوم اور بعض دوسرے لوگوں کا مختلف آسامیوں پر تقرر ہوا تھا۔ فیلڈن بڑے ذی استعدادجری اور آزاد خیال تھے۔ ریڈیو کا کاربار سنبھالنے ولایت سے نئے نئے آئے تھے۔ حکومت ہند کے اعلےٰ انگریز عہدہ داروں تک کی پروانہ کرتے تھے۔ لیکن بخاری کا کلمہ پڑہتے رہتے تھے، اور ان کے اشاروں تک کا احترام کرتے تھے۔
جیسا کہ قاعدہ ہے امیدواروں سے ہر ممبر اپنے اپنے مضامین کے بارے میں تھوڑی بہت گفتگو کر کے رائے قائم کرتا ہے۔ ڈاکٹر کریم پبلک سروس کمیشن کی طرف سے آئے تھے۔ ان کے سوالات کبھی کبھی مبہم ہوتے اور مشکل بھی۔ اس پر ان کا بھاری بھرکم جثہ، ایسی ہی آوازیں، کڑے تیور، امیدوار پر ہیبت سی طاری ہوجاتی۔ تھوڑی بہت ان ممبران پر بھی جو بعض امید واروں کی موافقت مائل ہوتے۔
ڈاکٹر حیدر کے بعد میری نشت تھی۔ لنچ کے بعد بورڈ کے ممبر اکھٹا ہوئے تو انٹرویو کا کام شروع کرنے سے پہلے فیلڈن نے ان امیدواروں پر تبادلہ خیال کیا جو بورڈ کے سامنے آچکے تھے۔ گفتگو ختم ہونے کو آئی تو فیلڈن نے ڈاکٹر حیدر کو مخاطب کر کے کہا، ڈاکٹر حیدر دیکھو اگر تم نے آئندہ امیدواروں کو ڈرانے دھمکانے کا ارادہ کیا تو میں بے تامل تم کو گولی ماردوں گا۔
ڈاکٹر حیدر نے منہ پر ہاتھ رکھ کر بڑے زور کا قہقہ لگایا۔ دونوں پاؤں اٹھا کر کرسی پر پیچھے کی طرف لیٹ گئے، پھر مصافحہ کے لئے فیلڈن کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا۔ ڈاکٹر حیدر کے داد دینے کا یہی انداز تھی۔ اتنے میں بخاری نے آواز دی صدیقی صاحب! ادہر آ بیٹھو، فیلڈن کے نشانے پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ اب فیلڈن کا وہی حال تھا جو ڈاکٹرحیدر کا تھا۔
بڑے بڑے ذہنوں سے ٹکر لینے اور محفل پر چھا جانے میں بخاری کا جواب نہ تھا۔ خواہ وہ محفل علم و دانش کے اکابر کی ہو، خواہ بے تکلف احباب اور بے فکروں کی، خواہ سیاسی شاطروں کی۔ بات کوئی ہو، موقع کیسا ہی ہو، بخاری نہ مشتعل ہوتے تھے، نہ مایوس، نہ متفکر، توازن اور تفنن کی فضا برابر قائم رکھتے تھے۔ کبھی برجستہ فقروں سے، کبھی اپنے مخصوص قہقہوں سے، لیکن اس دوران میں مقصد کی طرف سے کبھی غافل نہ ہوتے اور جہاں تہاں ایسے نکتے پیدا کرتے رہتے کہ حریف کو قائل ہونا پڑتا کہ بخاری سے مفر نہیں، مسئلہ زیر بحث کتنا ہی نازک اور پیچیدہ کیوں نہ ہو بخاری اپنی بات بہت کچھ منوالیتے تھے۔ کبھی ایک زیرک وکیل کی طرح، کبھی ایک کارآزمودہ جنرل کی مانند، حریفوں کو پسپا ہوتے ہی دیکھا ۔اکثر لاجواب ہو کر، کہیں ہنسی خوشی اور کہیں بے سوچے سمجھے بھی۔
یہ سمان ایک بار آل انڈیا ریڈیو دہلی میں دیکھا، جب بخاری اس کے ڈائریکر جنرل اور پٹیل منسٹر انچارج تھے۔ جن کے بارے میں سب کو معلوم تھا کہ بخاری کے عاشق زار نہ تھے۔ اردو ہندی کا جھگڑا بہت بڑھ گیا تھا۔ آئے دن و زارت کی طرف سے عتاب نامے اور ملک کے گوشے گوشے سے طرح طرح کے وفد نازل ہوتے رہتے۔ بخاری کو ان دونوں سے نپٹنا پڑتا، مگر وہ مطلق فکر مند نہ ہوتے تھے۔ وزارت کے عتاب ناموں کو تو “نامہٴ الفت” کہا کرتے تھے، اور وفود کے بارے میں ان کی رائے تھی کہ ان کی نفسیات وہی تھی جس کا ذکر غالب نے اپنے مصرعے میں کیا ہے۔
مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو
ایسے وفود کا خیر مقدم وہ اس طرح کرتے جیسے اپنے بے تکلف دوستوں یا عزیز طالب علموں کو چائے پر مدعو کیا ہو۔ ایک مرتبہ ایسا ہی ایک وفد باریاب ہوا۔ بخاری نے نہایت سنجیدگی کے ساتھ موقع کی اہمیت کا احساس کرتے اور دلاتے ہوئی ایک مختصر لیکن لاجواب انگریزی تقریر میں مہمانوں کا مقدم کیا اور تقریر کو ختم کیا، چندخوشنما، توصیفی فقروں پر، جس کے مخاطب وہ بگڑے دل لیکن غبی اراکین تھے، جن کو متعارف ہوتے وقت انہوں نے اپنی بے خطاذہانت سے بھانپ لیا تھا۔ بخاری کی شیوا بیانی سے وفد ڈانواڈول ہوگیا، اور ممبروں کے وہ کڑے اور کڑوے تیور مضمحل ہوگئے، جن کے ساتھ وہ “غالب کے پرزے” اڑانے آئے تھے۔ جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی تھی اس کو ان سورماؤ ں نے پورا کردیا جن پر بخاری کا جادو پہلے سے چل چکا تھا۔ اور مباحثے کے دوران میں بخاری کی ناقابل بیان و ناقابل گرفت شہہ پاکر جس کے وہ امام وقت تھے اپنے ساتھیوں ہی سے بدکنے اور دوقدح کرنے لگے تھے۔
یہاں پہنچ کر بخاری نے پینترا بدل دیا اور ہمہ تن ان ممبروں کی تکریم و تواضع پر مائل ہوگئے، جو یقیناً قابل لحاظ تھے، لیکن اب تک ان کو نظر انداز کر رکھا تھا۔ ان سے ملنے اور بات کرنے کا انداز بالکل مختلف تھا۔ بڑے عالمانہ اور ماہرانہ سطح سے گفتگو شروع کی۔ اردو ہندی کے مسئلہ پر جتنی کتابی، اخباری، دفتری معلومات اورطرح طرح کے شمار اعداداور ان سے اخذ ہوئے نتائج بخاری کے حافظے میں اور زبان پر تھے۔ ان کے نصف مواد تک بھی وفد کے ممبروں کی رسائی نہ تھی۔ پھر ان کا سریع الانتقال، کرشمہ کار اور ناقابل تسخير ذہن اور بات منوانے کے طرح طرح کے انداز۔ بخاری کو کوئی نیچا نہیں دکھا سکتا تھا۔ میٹنگ میں ہر طرح کے “کیل کانٹے سے لیس” ہو کرآنے میں بخاری کے ہم عصر کچھ ہی لوگ دیکھے۔
نتیجہ یہ ہوا کہ یہ اراکین بھی “زیر دام” آگئے اور بخاری نے “علی قدر مراتب” کسی سے ہاتھ ملا کر، کسی کو گلے لگا کر، کسی کی شان میں دوچارنہایت مبالغہ آمیز فقرے کہہ کر جو اتنے ہی مغالطہ انگیز بھی ہوتے، وفد کو ہنسی خوشی رخصت کردیا۔ علیٰ قدر مراتب کا ان کا اصول اور دوسرے کا المیہ یہ تھا کہ جس کو جتنا تہی مغز سمجھتے اتنا ہی زیادہ اس سے “سوگن التفات” ہوتے۔ اس سے حساب لگایا جاسکتا ہے کہ جس سے انہوں نے معانقہ کیا ہوگا اس کا ان کے ہاں کیا درجہ رہا ہوگا۔
اس حربے سے بخاری ہی کام لے سکتے تھے۔ ان سے ذرا بھی کم درجے کا آدمی اس حربے کا خود شکار ہوجائے گا۔ یہ اس لئے کہتا ہوں کہ بخاری کے ترکش میں جتنے اور جس جس طرح کے تیر تھے موقع آجانے پر انتخاب جس تیزی اور تیقن سے کرتے اور جس مشتاقی سے چلاتے وہ کسی اور کے بس کی بات نہ تھی۔ ایسے تیر ہرترکش میں نہیں ہوتے۔
آل انڈیا ریڈیو کی ڈائریکٹر جنرل شپ کے زمانے میں ایک ہندوستانی ڈکشنری کی تالیف میں مصروف ہوگئے تھے جس میں ملک کے بعض مخلص اور مستند اہل قلم ان کے شریک کار تھے۔ یہ کام ان ہی کی نگرانی میں ہوتا تھا۔ اس میں ان انگریزی الفاظ و اصطلاحات کے ہندوستانی مترادفات دئے گئے تھے، جو ریڈیو اور اخبارات وغیرہ میں رائج تھے۔ یہ کام اس زمانے میں جتنا ضروری تھا اتنا ہی نازک اور مشکل تھا۔ اس لئے “ہندوستانی” کا لفظ یا تصور (جسے ہندی اردو کا سنگم کہتے تھے) اردو اور ہندی دونوں کے علمبرداروں کے یہاں نا مقبول تھا۔ ڈکشنری کی کئی صخیم جلدیں تھیں جو ٹائپ میں چھاپ لی گئی تھیں۔ اور نظر ثانی کے لئے مختلف اصحاب کے پاس بھیجی جایا کرتی تھیں، کہ متلاشی کو انتخاب میں وقت کا سامنا نہیں ہوتا تھا۔ تقسیم ملک کے بعد معلوم نہیں اس لغت کا کیا حشر ہوا۔ مکمل ہوجاتی تو ہندوستان اور پاکستان دونوں کے محکمہ نشر و اشاعت کے لئے بہت کارآمد اور بھلے مانسوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں بہت مفید ہوتی۔
انگریزی شعر و ادب پر ان کو جتنا غیر معمولی عبور تھا ہم سب جانتے ہیں لیکن ان کے ذوق و ذہانت کا پورا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب ہم ان کے اردو مضامین میں انگریزی کی وہ جاندار، گوارا، ٹھہری ہوئی اور خوش آئند فضا محسوس کرتے ہیں، جو کسی اور کے یہاں نہیں ملتی۔ ان کے توسل سے انگریزی کی جھلک اردو میں دیکھ کر ان کی اردو شناسی اور انگریزی دانی کی داد دئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میں خود اس کا کچھ زیادہ قائل نہیں ہوں کہ غیر زبان کا اردو میں ترجمہ اس طور پر کیا جائے کہ غیر زبان کی جنیسیں کا پتہ نہ لگے۔
انگریزی موضوعات، مفاہیم اور اسالیب کو اردو میں منتقل کرنے کا کام اوروں نے بھی کیا ہے اور کرتے رہے ہیں۔ لیکن اس فرق کے ساتھ کہ دوسرے ایسا کرنے میں اکثر ترجمے، تفسیع یا مفہوم ادا کردینے پر اکتفا کرلیتے ہیں۔ کبھی کبھی ادھ کچرے کے طور سے یا انگریزی کے مطالب کو اردو کے روائتی شاعرانہ الفاظ یا انداز میں اس درجہ شرابور کر کے پیش کریں گے کہ نہ انگریزی ذہن کا صحیح طور پر اندازہ ہوگا نہ انگریزی زبان کا، نہ انگریزی اسالیب کا اور نہ انگریزی فضا کا۔ بخاری کی اردو کو میں ٹکسالی نہیں کہا لیکن انگریزی کے پرتو سے ان کی اردو اس طرح جگمگاتی ہے جیسے:۔
پرتوسے آفتاب کے ذرّے میں جان ہے
الہامی اور قانونی کتابوں کا ترجمہ سب سے مشکل ہوتا ہے۔ اس کے بعد میرے نزدیک یورپین زبانوں کے ڈراموں کا ترجمہ مشکل ہے جہاں فن، بیان و زبان اور نفسیاتی کیفیات کی بڑی نازک اور ناقابل بیان گرفت وارداتوں کا سامنا ہوتا ہے۔ جس طرح سیسموگراف (زلزلہ پیما) زمین کے چھوٹے بڑے ارتعاش مرقسم کرلیتا ہے اسی طرح اچھا ڈراماسوسائٹی اور زندگی کے ارتعاشات کی نشاندہی کرتا ہے بخاری نے انگریزی کے بعض مشہور ڈراموں کا جس خوبی سے اردو میں ترجمہ کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ انگریزی زبان اور انگریزی سوسائٹی کے مزاج اور ڈرامے کی فنی نزاکتوں سے پورے طور پر واقف ہونے کے علاوہ اردو کو نئے رنگ و آہنگ سے آشنا کرانے کی کتنی غیر معمولی صلاحیت رکھتے تھے۔ اردو کا کوئی معمولی واقف کار اس غیر معمولی فریضے سے عہدہ برا نہیں ہوسکتا تھا۔ ان کی ظرافت نگاری اور انگریزی ڈراموں کے تراجم دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے بخاری نے اردو کی ایک نئی جینیس اور ایک نئی توانائی کا انکشاف کیا ہو۔
جہاں تک مجھے علم ہے بخاری نے تنقیدی مضامین کم لکھے ہیں لیکن اردو کے ادبی تنقید نگاروں میں ان کا پایہ مسلم ہے اور یہ اس حقیقت کا مزید ثبوت ہے کہ بخاری نے بہت کم ادبی سرمایہ چھوڑا ہے لیکن بہتوں سے اونچا مقام پایا ہے۔ گزشتہ ۲۰-۲۵ سال میں اردو تنقید پر کافی توجہ کی گئی اور اب تو ادبی مذاکروں یا مجادلوں میں اس کا نام سر فہرست آتا ہے۔ غزل کے بعد تنقید کے فن شریف ہر ہمارے قبیلہ شعروادب نے سب سے زیادہ طبع آزمائی کی ہے لیکن بحیثیت مجموعی کچھ اس طرح کا احساس ہوتا ہےجیسے تنقید نگار تنقید کے مقاصد کو نظرانداز کر کے اپنے مقاصد پیش نظر رکھتے ہوں ارو تنقید نہیں تنلیغ کرتے ہوں۔
اردو میں جدید تنقید کا بیشتر سرمایہ مغربی ہے لیکن اسے جس شکل میں پیش کیا گیاہے، اس میں مغربی تنقید کی اتنی توضیح نہیں ملتی اس کا توجمہ۔ ہمارے بعض تنقیدنگاروں کو یہ بھی معلوم کرنے کی فکر نہیں ہوتی کہ مغربی تنقید کے کس اصول سے اردو کے کس صنف ادب کو پرکھیں۔ نیز مغرب میں جن اصناف ادب پر تنقید ملتی ہے ان کو نہ صنفیں اردو میں ہیں بھی یا نہیں یا اردو میں جو صنف ادب ملتی ہے اس کے لئے مغرب نے کوئی اصل تنقید وضع بھی کیا ہے یا نہیں۔ ادب کہیں کا ہو کسی طرح کا ہو، تنقید مغربی ہوگی۔ کیا کہا جائے سوائے اس کے کہ تھمتے تھمتے تھمیں گے آنسو۔
یہ بحث فرسودہ بھی ہے، تلخ بھی شاید بے نتیجہ بھی۔ صرف اتنا کہنے پر اکتفا کرتا ہوں کہ بخاری اس حلقے میں شامل نہیں ہیں۔ ان کی تنقید وسیع ترین مفہوم میں خالص ادبی ہوتی تھی۔ انہوں نے جس مسئلہ پر یا شخص پر لکھا ہے اس کو اپنے نقطہ نظر کا تابع نہیں کیا ہے بلکہ اس کے تمام پہلوؤں کا گہرا مطالعہ کر کے وہ نقطے نظر دریافت کرنے کی کوشش کی ہے جس اس مسئلہ یا شخص میں خوابیدہ یا بیدار موجود ہے۔ ادبی پارکھ کی ایک بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ کسی ادبی تخلیق یا شخصیت پر قلم اٹھائے تو اس کا احاطہ اس طور پر کرے کہ جزو اور کل دونوں گرفت میں آجائیں۔ نہ یہ کہ جزو سے کل کی نشان دہی کرے اور کبھی کل سے جزو کو روشناس کرائے۔ تصوف میں یہ روا بےتنقید میں نہیں۔ ایسی تنقید یا پرکھ کے لئے ادب کی وسیع معلومات اور تنقید کے فنی اصولوں سے گہری واقفیت کے علاوہ ایک بڑی شرط یہ ہے کہ تنقید نگار کی نظر میں وسعت اور دل میں کشادگی ہو۔
بخاری کی تنقید کا بڑا اچھا نمونہ ان کا مضمون “کچھ عصمت چغتائی کے بارے میں” ہے۔ عصمت چغتائی کی تحریریں منظر عام پر آئیں تو ادبی اور غیر ادبی حلقوں میں “ایک شور طوفان خیز” اٹھا ان تحریروں کی ادبی قدروقیمت کے بارے میں سخت اختلاف آرا ہوا۔ یہ اختلاف شدت پر تھا کہ بخاری کا یہ مضمون شائع ہوا۔ بخاری نے ایسا بے لاگ تجزیہ اتنی گہری بصیرت کے ساتھ، اس سنجیدگی سے کیا تھا کہ موافق اور مخالف دونوں مدہم پڑگئے۔ البتہ یہ یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ خود عصمت چغتائی کے نقط نظر پر اس کا کیا اثر پڑا۔
بخاری کا مزاج مغربی نہ تھا، ذہن تھا۔ ان میں اور ان کے پیشتر ساتھیوں میں اردو شعر و ادب کا ذوق، مشرق تہذیب کا رکھ رکھاؤ اور طبائع کے اختلاف کے باوجود اپنی دعاؤں کی بڑی پاسداری ملتی ہے۔ جب تک پطرس لاہور میں انگریزی کے پروفیسر رہے۔ ان کا اور ان کے رفقاء کا اردو شعر و ادب کی سمت و رفتار پر برابر اچھا اثر پڑتا رہا۔ اس زمانے میں “نیازمندان لاہور” کی آواز ایسی نہ تھی جس کو نظر انداز کرنا آسان ہوتا۔ نیاز مندوں کے جامے میں بخاری کا انداز قدرے بے تکلف پہچانا جاسکتا تھا۔ اپنی بیش بہا غیر معمولی صلاحیتوں کی وجہ سے بخاری لاہور کے تعلیم یافتہ، ذہین، ہونہار نوجوان طبقے کے سرخیل تھی۔ اعلےٰ پائے کی ذہانتوں کا اتنا اچھا اور بڑا اجتماع اس زمانے میں شاید ہی کہیں اور دیکھنے میں آیا -ہو۔ بخاری نہ ہوتے تو شاید ایسی مختلف النوع، بے مثل ذہانتوں کا ایک مرکز پر جمع ہونا ممکن نہ ہوتا کبھی کبھی یہ بات بھی ذہن میں آئی ہے کہ اگر بخاری ان رفیقوں کے ساتھ لاہور میں اسی طرح پاؤں توڑ کر بیٹھ گئے ہوتے جیسے سر سید اور ان کے رفقاء علی گڑھ میں تو اردو کی نئی فتوحات کا کیا عالم ہوتا۔
یہ خیال اس لئے ذہن میں آیا کہ تقسیم ملک کے بعد بخاری انگریزی کی پروفیسری پر لاہور واپس آگئے تو اردو کو نئے حالات اور تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور قومی عزائم کے مطابق اس کی تنظیم و ترقی کا ایک منصوبہ ان کے ذہن میں تھا۔ یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ بخاری خود ڈاکٹر تاثیر اور خواجہ منظور حسین اور بعض دوسرے رفقاء یونیورسٹی میں اردو کی اعلیٰ تعلیم کا کام اپنے ہاتھ میں لینے پر آمادہ ہوگئے تھے۔ کتنی حوصلہ انگیز، دوررس اور گماں قدر یہ اسکیم تھی۔ جو بروئے کار آجاتی تو کیا عجب آگے چل کر عثمانیہ یونیورسٹی مرحوم کا نعم البدل ثابت ہوتی۔ لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا۔ بخاری کا دامن سیاسی کاموں نے بیروں منسلک کھینچا ا ور ساتھیوں میں شاید کوئی ایسا نہ تھا جو اس منصوبنے کی مشکلات اور نزاکتوں سے عہدہ برا ہونے کا حوصلہ دکھاتا اور ساتھی نوجوانوں کی قیادت کرسکتا۔
سوال یہ ہےکہ جہاں ذہنی صلاحیتوں کے اس کثرت سے اکابر موجود ہوں، علمی، قومی ، تہذیبی کارناموں کی روایات کی فراوانی ہو اور قوم ملک کی نئی تشکیل و تنظیم کے لئے دعوت کار اور کارزار بھی کچھ کم نہ ہو، وہاں یہ بے عملی وبےحوصلگی کیسی۔ اس اجتماع کے افراد نے اپنے اپنے طور پر چاہے جو کچھ اور جتنا کچھ کیا ہو اس سے انکار نہیں۔ لیکن ایسی اور اتنی غیرمعمولی قابلیتوں کا کوئی عہد آفریں کارنامہ سامنے نہ آیا۔ یہ بھی اپنی جگہ ایک المیہ نہیں تو مسئلہ فکریہ ضرور ہے۔
مغلیہ سلطنت کے زوال پر اہل فضل و کمال کا جیسا نادرروزگار اجتماع دہلی میں ہوگیا تھا اس کی مثال مسلمانوں کے عہد کے ہندوستان میں کہیں اور کم نظر آئی گی جس کے بارے میں حالی نے کہا تھا۔
تھے ہنر مند اتنے تجھ میں جتنے گردوں پر نجوم
غدر میں یہ ستارے ٹوٹ کر بکھر گئے ۔ ان میں سرسید نے اپنے رفقاء کرام کے ساتھ علیگڑھ میں ایک جدید شاہ جہاں آباد کی بنیاد رکھی اور علی گڑھ تحریک کے نام سے مسلمانوں کی حیات نو کی طرح ڈالی۔
اس کے بعد اور پہلی جنگ عظیم کے آس پاس کے زمانے میں علوم و فنون کے کتنے اور کیسے کیسے جامع کمالات، ہونہار نوجوان لاہور میں نظر آتے ہیں جن میں “جوانان سعادت مند” کے “پیردانا” سر شیخ عبدالقادر، مولاناظفرعلی خان اور ڈاکٹر سراقبال سب سے نمایاں نظر آتے ہیں۔ اگر بعض وجوہ کی بنا پر موخر الذکر دو کو علیحدہ کردیں تو سرشیخ عبدالقادر یقناً ان لوگوں میں تھے جو پنجاب کے سر سید ہوسکتے تھے۔ جہاں تک ان کی بزرگی شفقت اور سرپرستی کا تعلق ہے انہوں نے لاہور کے ہونہار نوجوانوں کے لئے کم سے کم اتنا ضرور کیا جو وہاں کے کسی اور سے نہ ہوسکا۔
شیخ صاحب کے بعد سب سے زیادہ اس کی توقع بخاری سے تھی۔ وہی ان مرکز گرز اعلیٰ صلاحیتوں کو اپنے گرد جمع رکھ سکتے تھے۔ ایک حد تک انہوں نے رکھا بھی لیکن یہ شخصی تعلقات کی بنا پر تھا کسی عظیم مقصد یا منظم اسکیم کے ماتحت جیسی کہ مثلاً علی گڑھ تحریک تھی، نہ تھا اور جس کے بغیر دور رس اور دیرپا نتائج نہیں پیدا ہوسکتے۔ آج بخاری کی یاد میں یہ بات ذہن میں آئی لیکن بے وقت نہیں آئی اب بھی اس کا امکان ہے کہ لاہور کے بچے کھچے احباب ہونہار نوجوانوں کو اپنے سایہ شفقت میں لے کر اس کام کو گے بڑھائیں۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ایک نئے صحت مند علمی، ادبی اور تہذیبی محاذ کی پاکستان کو بڑی ضرورت ہے۔
ہرسوسائٹی میں نوجوان بڑا غیر متقین، بڑا خطرناک لیکن اتنا ہی قیمتی عنصر ہوتا ہے۔ پاکستان کے نوجوان کو مناسب اور بروقت رہبری نہ ملی تو یہ زیادہ دنوں تک بے کار نہیں رہ سکتا۔ کسی اور سے ناطہ جوڑلے گا۔ یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ نوجوان کا فلاں یا فلاں مذہب ہے۔ دراصل وہ اپنے شباب کی وارداتوں (حوصلہ اور ہوس) کا شکار ہوتا ہے۔ مذہب تو اس کو صحیح اور صالح راستے پر لگانے والے دیتے ہیں۔
اسی حلقے (“نیازمندان لاہور” یا ناموران لاہور) سے اس زمانے میں ایک بحث یہ اٹھائی گئی، کہ پنجاب میں جو یہ “میں نے جانا ہے۔” یا اس طرح کے اور فقرے بولے جاتے ہیں ان کو غلط کیوں قرار دیا جائے۔ پنجاب کے لوگ اردو سے کچھ کم واقف نہیں ہیں۔ اردو کی خدمت میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ نثر اور نظم کی محفل میں ان کا درجہ کسی سے کم تر نہیں رہا۔ اردو کا مسقتقبل بھی پنجاب ہی میں زیادہ روشن نظر آتاہے۔ فارسی عربی کے علاوہ مغرب کی زبانوں اور خزانوں سے بھی انہوں نے دوسروں کی طرح استفادہ کیا ہے وغیرہ۔ اس لئے ان کی زبان پر یہ فقرہ جس شکل میں آتا ہے اس کو صحیح کیوں نہ مانا جائے۔
کچھ دنوں یہ مسئلہ زیر بحث رہا لیکن جلد ہی ختم ہوگیا، اور بات جیسے آئی گئی ہوگئی۔ اس موضوع پر ان سے اکثر گفتگو ہوئی۔ اتنی علمی و ادبی نہیں جتنی تفریحی۔ یو پی کی زبان، اشخاص یا شاعروں پر بخاری کو طبع آزمائی کا شوق ہوتا تو بے تکلف روئے سخن میری طرف کردیتے۔ ایک بار بڑے مزے سے اور بہت زور دے کر کہنے لگے، “پنجاب اس طرح کے فقرے اسی طرح بولے گا آپ کے۔۔۔۔۔ (نام حذف کرتا ہوں) جو چاہیں کرلیں۔ یہ جملہ غلط کیوں ہو؟” میں نے کہا “ہاں کیوں ہو۔” کچھ مسکرائے، کچھ نرم پڑے لیکن انداز کی برہمی قائم رکھتے ہوئے بولے، “بتائیے نا، آپ تو صرف ونحو میں خاصے مبتلا رہتےہوں گے۔ اس میں قباحت کیا ہے؟” میں صرف دنحو سے قطعاً معصوم ہوں۔ آپ بھی ہوں تو ایسا کوئی سانحہ نہ ہوگا۔ لیکن چھوڑئیے ان باتوں کو میں تو چاہوں گا کہ یہ فقرے اسی طرح بولے جائیں۔ اس میں ہزار عیب ہوں ایک خوبی بے مثل ہے۔” بولے، “یعنی چہ؟” عرض کیا، “اس سے آدمی پہچان لیا جاتا ہے۔” بے اختیار قہقہ لگا کر کھڑے ہوگئے بولے، “صدیقی صاحب میرے ساتھ چلئے میں اس فقرے پر آپ کے اعزاز میں کھڑے کھڑے، پنجاب میں فسٹ کلاس بلوہ کراسکتا ہوں۔”
بخاری خطوط بڑے اچھے لکھتے تھے۔ ان کے کتنے دل آویز خط وخال ان خطوط میں جلوہ گرملتے ہیں۔ اچھے خطوط وہی لکھ سکتا ہے جس کو مکتوب الیہ سے اخلاص اور اپنے پر اعتماد ہو۔ محبت کی سب سے معتبرعلامت یہ ہے کہ عاشق اپنے راز محبوب پر ظاہر کرنے لگے۔ اچھے خطوط لکھنے کے لئے یہ رشتہ اتنا ضروری نہیں ہے جتنا اصول ضروری ہے۔ خط لکھنے کا وہ فن ہے جہاں تکلف یا تصنع لکھنے والے کو لے ڈوبتا ہے “Safety First” یا “Self First” کے بندے کبھی اچھے خط لکھنے والے نہیں ہوسکتے۔ “آمیز شے کجاگہر پاک اوکجا” کا اطلاق خط نگاری کے فن پر بھی ہوتاہے۔
امریکہ یا کہیں اور سے دوستوں کے نام جو خطوط انہوں نے وقتاً فوقتاً لکھے اور اردو کے رسالوں میں شائع ہوئے ان کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی معلومات کتنی وسیع اور جامع، مشاہدہ کتنا تیز، ذہن کتنا زرخیز، تاثرات کتنے گہرے، تخیل کتنا نادرہ کار اور بات کہنے کے انداز میں کتنی شوخی شیرینی اور تازگی تھی۔ وہ اپنی نجی تحریروں میں کبھی کبھی اپنے سے بھی زیادہ دل کش معلوم ہونے لگتے تھے۔ یہ فن اور شخصیت دونوں کا اعجاز ہے۔
بخاری کو اچھے سوٹ پہننے کا بہت شوق تھا۔ ایک زمانے میں جب آل انڈیا ریڈیو کا پہلا دفتر علی پور روڈ پر تھا اور وہ اسٹیشن ڈائریکٹر یا اس سے اونچے کسی منصب پر تھے، ان کا درزی کشمیری دروازے کے آس پاس کہیں رہتا تھا۔ دکان اور مرجوعہ دیکھتے ہوئے کچھ ایسا ماہر فن نہیں معلوم ہوتا تھا، لیکن بخاری اس کے فریفتہ تھے۔ اس کے پا کبھی تقاضے کے لئے کبھی سوٹ میں ترمیم و اصلاح کی غرض سے، اس پابندی اور شغف سے آتے تھے، جیسے بعض مصنفین اپنی کتاب کا مسودہ دیکھنے بھالنے، کاتب کے گھر یا پریس کا چکر لگاتے رہتے ہیں۔ اس مہم پر ایک بار میں بھی ساتھ تھا، دکان پر پہنچے تو وعدہ خلافی پر درزی سے کچھ دیر مصرودف و اسوخت خوانی رہے۔ کپڑے کی قطع برید، استر، سلائی، کاج، بٹن، کے بارے میں ایسے ایسے نکتے درزی کے ذہن نشین کرانے لگے کہ میں حیران رہ گیا کہ اچھا خاصا آدمی کس چکر میں مبتلا ہے۔ شاید اس بات کو سمجھ گئے، دفعتاً بولے “کیوں صدیقی صاحب آپ کو سوٹ سے بھی دل چسپی ہے؟” عرض کیا “کیوں نہیں، لیکن مردوں کے نہیں عورتوں کے سوٹ سے”۔
لیکن فقرے کی داد درزی سے دلوائی، یہ کہہ کر صاحب کو سلام کرو صاحب عورتوں کا سوٹ پسند کرتے ہیں۔ سلام تو اس نے کیا لیکن جیسے اسے اس کا یقین نہ ہو کہ اس پسند کا اظہار میں نے سوٹ میں ملبوس کسی خاتون سے کرنے کی کبھی جرات کی ہوگی۔ مدتوں بعد، تقسیم ملک سے کچھ پہلے مرکز میں کانگریس اور مسلم لیگ کی مخلوط وزارت بنی تو ایک دفعہ دفتر میں ملاقات ہوئی۔ سر سے پاؤں تک کسی اعلےٰ نسل کے کھدر کے سوٹ میں ملبوس تھے۔ دیکھ کر ہم دونوں بیک وقت مسکرائے لیکن ستم یہ تھا کہ بخاری کا مسکرانا میرے مسکرانے پر بھاری پڑرہاتھا۔
ایک بار میں نے خط لکھا کچھ روپے بھیج دیجئے کارخیر کے لئے درکار ہیں۔ خط ملتے ہی روپے بھیج دیئے، توقع سے زائد۔ میں نے شکریہ کے خط میں لکھا، بخاری صاحب میری طرح بچپن میں آپ نے بھی مجتبائی قسم کی کتاب میں کہیں نہ کہیں ضرور پڑھا ہوگا کہ ایک مسافر کھانا کھارہا تھا۔ اتفاق سے کوئی کتا بھوک سے نڈھال پہنچ گیا۔ مسافر نے ایک ہڈی اس کے گے پھینک دی۔ کچھ دنوں بعد کسی نے مسافر کو خواب میں دیکھا جس نے بتایا کہ مرنے کے بعد قبر میں عذاب کے فرشتے نازل ہوئے اور گرز مارنا چاہتے تو کتے کو دی ہوئی ہڈی سامنے آجاتی اور فرشتے کچھ نہ کر پاتے۔ چنانچہ عذاب واپس لیا گیا۔ مجھے یقین ہے جو رقم آپ نے اس کارخیر میں بھیجی ہے وہ آپ کے اب تک گناہوں کے لئے ایسی ہی ثابت ہوگئی۔ بخاری نے لکھا، مژدے کا شکریہ لیکن اس کا بھی تو اندیشہ ہے کہ ہم آپ جب آخرت میں پہنچیں تو “شرح مبادلہ زر” اتنا خاطر خواہ نہ رہے….. تفصیل یا یقین سے تو نہیں کہہ سکتا لیکن اتنا محسوس اکثر کیا کہ اس حلقے کے افراد جتنےبخاری کے شیدائی تھے بخاری ان کے نہ تھے۔ وہ یقیناً ان کو بہت عزیز رکھتے تھے لیکن مقررہ خانوں میں۔ ان پر کسی طرح کی اراضی یا سماوی آفت نازل ہوجاتی ہوگی۔ تو مجھے یقین ہے بخاری ان کی مدد کرنے میں کوئی وقیقہ اٹھا نہ رکھتے ہوں گے۔ روپئے پیسے سے، دوڑ دھوپ سے تحریر و تقریر سے، لیکن شاید وہ یہ گوارا نہیں کر سکتے تھے کہ ذہانت، علمیت، اقتدار اور شہرت کے میدان میں جہاں وہ لاشریک لہ تھے ان کا کوئی ساتھ یا کوئی اور شریک کا مرکب ہو۔ بخاری بڑے بت شکن تھے۔ جینے کا تقاضا بھی یہی ہے لیکن جہاں خداؤں میں صرف مسلمانوں کے خدا کے قائل تھے وہاں بتوں میں صرف اپنے بت کے…. اقوام متحدہ کے دفتر میں بخاری شبانہ روز اپنے فرائض جس جانفشانی اور قابلیت سے انجام دیتے وہاں کے چھوٹے بڑے اہل کارکو جس طرح اپنا قائل اور گرویدہ رکھتے تھے اور “یاران باصفا” سے ملنا ہوجاتا تھا تو جس محبت اور بے تکلفیت سے پیش آتے تھے اس کا حال ملاقاتیوں سے معلوم ہوتا رہتا جو ان کی زیرکی اور ذکاوت کے واقعات اس مزے سے بیان کرتے تھے جیسے کوئی افسانہ سنا رہے ہوں۔ کچھ عرصہ سے ان کی صحت تیزی سے گرتی جارہی تھی جس کے سبب سے خاموش اور دل گرفتہ رہنے لگے تھے۔ اس کے باوجود جیسے کبھی کبھی “بادشمال” کا گزر ہوجاتا اور افسردہ کلیاں مہکنے مسکرانے لگتیں، کسی نہ کسی طرح وقت نکال کر دوستوں کو جمع کر کے سیر کو نکل جاتے ان کے ساتھ کھانا کھاتے اور ہنس بول کر وقت گزارلیتے جو ان کا ہمیشہ سے محبوب مشغلہ تھا….. پی۔ ای۔ این کی جے پورکانفرنس کے بعد فاسٹر، علی گڑھ آئے تھے۔ فاسٹر بالطبع کم سخن ہیں چہرے سے علم کا وقار اور عارف کی گہری سوچ نمایاں رہتی ہے۔ چائے پر ایک شام اچھا خاصا اجتماع ہوگیا۔ کہنے لگے۔ ہندوستان آتا ہوں تو ایک بات کا بڑا اثر ہوتا ہے۔ کتنے اچھے اور ذہین لوگ جن کو یونیورسٹیوں میں ہونا چاہیے یا ادب کی خدمت کرنا چاہیے، کتنی غلط جگہوں پر پائے جاتے ہیں۔ بات کچھ آگے بڑهی تو بولے تم لوگ بخاری کو (جو اس زمانے میں ریڈیو کے ڈائریکٹرجنرل تھے) اپنی یورنیورسٹی میں کیوں نہیں مقید کرلیتے۔ وقت ملتا تو میں ان کو کمیرج میں گرفتار کرلیتا۔ پھر دبی زوبان اور غمگین مسکراہٹ سے یہ بھی کہا کہ وہ وہاں دیوار پھاند کر نکل جاتے تو میں کیا کرلیتا۔
آج یہ گفتگو یوں یاد آرہی ہے کہ بخاری نے اپنا آخری پروگرام یہ بنایا تھا کہ اقوام متحدہ کی ملازمت سے سبکدوش ہوکر امریکہ کی کسی یونیورسٹی سے منسلک ہوجائیں گے۔ لیکن اسے کیا کہئے کہ کسی یورنیورسٹی کی دیوار میں مقید ہونے اور پھاندنے سے پہلے وہ زندان حیات ہی کی دیوار پھاند گئے۔
“پروفیسر احمد شاہ بخاری (پطرس) ہم سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوگئے۔ ان کی باتوں اور تحریروں سے بے شمار لوگوں کے دل خوش ہوئے اور ہوتے رہیں گے۔ الله تعالیٰ نے ان سے اتنی بڑی خدمت لی تو یقیناً ان کو اپنی بے کراں نوازشوں سے سرفراز بھی فرمایا ہوگا۔”