شوکت صدیقی کا آخری انٹرویو
ملاقات اور تصاویر: انور سِن رائے – بی بی سی ڈاٹ کوم
سوال: اگر آپ سے یہ پوچھا جائے کہ شوکت صدیقی کون ہے؟
شوکت صدیقی: (قہقہہ) ارے بھئی، ایک ادیب اور ایک صحافی، ظاہر ہے کبھی جوان تھا اور اب دو ایک مہینے میں چوراسی سال کا ہو جاؤں گا۔ اس وقت بڑی ہنگامہ آراء زندگی گزرتی تھی۔ کافی ہاؤس میں بیٹھے ہیں، یہ کر رہے ہیں، وہ کر رہے ہیں۔ پھر اخبار کی زندگی، ٹائمز آف کراچی وغیرہ کی مصروفیت شروع ہو گئی تو اس سے علیحدہ ہو گئے۔ اس زمانے میں شطرنج کھیلتے تھے۔میں، انور (محمد انور اور کمانڈر انور کے نام سے معروف) افسانہ نگار، غلام عباس، اختر حسین رائے پوری اور ن م راشد۔ اس زمانے میں یہاں ہوتے تھے۔ رات بھر کھیلتے تھے، یعنی شام کو بیٹھے ہیں اور صبح کو اٹھ رہے ہیں۔ غلام عباس کو سنبھال کر لے جانا پڑتا تھا۔ لیکن انور تو دیوانے تھے، (شطرنج کے بعد) انہیں دنیا مافیہ کی کوئی خبر نہ رہتی تھی۔ راشد کو بھی بہت شوق تھا۔ یہاں سامنے وہسکی ملتی تھی، راشد اس زمانے میں انفارمیشن ڈائریکٹر تھے۔ ایک کتاب چھپی ہے، مرحوم کی لکھی تھی ’آئینہ خانے میں‘، صہبا لکھنوی نے ایڈٹ کی ہے۔ اس میں دس بارہ ادیبوں نے، کرشن چندر ہے، بیدی ہے، قراۃالعین حیدر ہے، میں ہوں، امرتا پریتم ہے، یہ لوگوں نے، اس میں لکھا ہے کہ آئینے ہی آئینے ہیں اور اس آئینے میں ہم کیسے نظر آتے ہیں۔ اس میں بہت دلچسپ تجزیے کیے گئے ہیں، میں اس زمانے میں، جس زمانے میں یہ لکھی گئی، ٹائمز آف کراچی میں کام کرتا تھا۔ بڑا قلندری وقت تھا۔ تنخواہ وقت پر نہیں ملتی تھی، کم تنخواہ تھی، بچے وچے تھے، تو پریشانی کے دن تھے۔ اس میں ایک بات پر زور ہے کہ میرے وجود میں جو ادیب ہے اس کا کیا مسئلہ ہے۔ اس میں یہ ڈسکس کیا گیا ہے۔ مختلف کریکٹر آتے ہیں، ملتے ہیں، بات کرتے ہیں۔ اس میں ڈسکرائب کیا گیا ہے کہ میں کیا ہوں۔ اس میں کئی پارٹ ہیں بچوں کا باپ، بیوی کا شوہر، اسی میں ہے اور کسی میں نہیں ہے، ایک محاسبہ۔ اس میں ادیب بے چارہ پس رہا ہے۔ وہ اس قسم کی فینٹسی تھی کہ یہ سب مل کر اسے مارتے ہیں دباتے ہیں کہ یہ بدبخت ہماری ساری پریشانیوں کا باعث ہے۔ یہ ادیب ہے جو کچھ نہیں کرنے دیتا۔ جب تک لکھنؤ میں رہا تو سارے اخراجات والد اور بھائی پورے کرتے تھے۔ پاکستان آنے کے بعد روزگار کی تلاش ہوئی، سوچا تو یہ تھا کہ لکھیں گے اور جرنلسٹ بننے کا بھی خیال آیا اور جرنلزم چھوڑ دینے کا خیال بھی بہت پہلے دل میں آیا اس لیے کہ جہاں ہم کام کرتے تھے، ٹائمز آف کراچی میں تو وہاں ایک صاحب تھے پروف ریڈر ارماں خیر آبادی، اس زمانے میں بہت مشہور شاعر تھے تو میں نے ان سے ایک بار پوچھا کہ یہ آپ کیا کرتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا اور کیا کروں؟ اس کے علاوہ شعر کہتا ہوں، اس کو پوچھتا نہیں، کوئی پیسے نہیں دیتا۔ اس زمانے میں مشاعرے بھی کم ہوتے تھے۔ سال میں کوئی ایک آدھ ہو گیا تو اس سے کہاں گزارا ہوتا ہے۔ تو پیٹ پالنے کے لیے کرنا پڑتا ہے۔ اور یہ ایک واقع ہے کہ ادب کچھ دیتا نہیں۔
ہمارے پاس اختر انصاری آتے تھے۔ حیدرآباد سے پرچہ نکالتے تھے ’نئی قدریں‘۔ میں اس زمانے میں بھی میں بغیر معاوضے کے نہیں لکھتا تھا۔ تو وہ (اختر انصاری) آتا تھا اور پچاس روپے کا نوٹ دور کھڑا ہو کر لہراتا تھا اور کہتا تھا کہ کہانی لکھ دو اور لے لو۔ میں اس زمانے میں لکھنا چھوڑ چکا تھا اور اس کے پرچے میں میری بہت سی کہانیاں چھپیں ’راتوں کا شہر‘ ، ’شریف آدمی‘ اور ’ کیمیا گر‘ وغیرہ۔
اک عشق کیا تھا
سوال: خواب دیکھتے ہیں؟
شوکت صدیقی: میں بچپن سے ہی خواب دیکھتا ہوں۔ بہت ، لیکن یہ ہے کہ مختلف اوقات میں مختلف چیزیں ذہن میں آئیں۔ جب لکھنؤ میں تھا تو سوچتا تھا کہ فل ٹائمر بن جاؤں گا (کمیونسٹ) پارٹی کا۔ پارٹی کا کام کروں گا، مزدوروں میں کام کروں گا، محنت کروں گا، سوشل ازم آئیڈیل تھا، خیر آج بھی اس پر یقین رکھتا ہوں۔ تو یہ سوچتا تھا کہ پارٹی کے ساتھ وابستہ رہوں گا۔ یہاں آنے کے بعد اتنی ایسوسی ایشن نہیں رہی شادی کر لی بچے ہو گئے تو سمپتھائزر (ہمدرد) ہی رہ گیا۔
سوال: آپ تو بہت وجیح و خوش قامت و خوش شکل اور انٹرسٹنگ آدمی تھے تو یہ معاملہ ایک ہی بار میں شادی تک پہنچ گیا یا کچھ اور بھی مسائل تھے؟
شوکت صدیقی: (دھیمی سی پُر حجاب ہنسی اور وقفے کے بعد کھل کر ہنستے ہوئے) نہیں ایسا کچھ نہیں۔
سوال: کبھی کوئی ایسا تعلق بھی رہا جو اب بھی یاد آتا ہو؟
شوکت صدیقی: اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے اور میں یہ کہتا ہوں کہ نہیں ہے لیکن ظاہر ہے کہ نہیں ہے۔
سوال: پردہ نشینوں کے نام آنے کی وجہ سے؟
شوکت صدیقی: نہیں پردہ نشیشوں کے نام آنے کی وجہ سے نہیں۔ ہماری نسل بے چاری، جو ہمارے ساتھ یونیورسٹی میں بھی پڑھتے تھے، گلیوں میں گھومتے پھرتے تھے کہ کہیں عورت کی کوئی جھلک نظر آ جائے یا پھر ہندو لڑکیاں جاتی تھیں سکول تو انہیں دیکھتے رہتے تھے۔
ہاں ہمارا بھی (معاملہ) تھوڑا مختصر مختصر چلتا رہا۔ ایک ہندو لڑکی تھی ہمارے پڑوس میں رہتی تھی۔ اس کے ساتھ ایک عرصے تک – – – – -انہیں دیکھتے رہتے تھے۔ عورت ایک ایسی شجرِ ممنوعہ تھی جس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ – – – – – – پھر اسی بات پر میں اتنا دل برداشتہ ہوا، اس کے ماں باپ اسے لے گئے آگرہ، آگرہ کے تھے وہ۔ بھائی کے ساتھ آتی تھی۔ میں نے لکھنؤ چھوڑ دیا اور بھوپال چلا گیا۔ جنگی قیدیوں کا وہ (محکمہ) تھا، اس میں ملازم ہو گیا۔ وہاں سال بھر رہا۔
کردار اور مصنف
سوال: یہ اتنے کردار آپ کے ناولوں اور کہانیوں میں آئے ہیں، ظاہر ہے اس میں ایک حصہ تو مشاہدے کا ہوتا ہے، ایک تخلیق کا اور ایک مشاہدے کو تخلیق میں منتقل کرنے کا۔ تو ان کرداروں میں کوئی کردار ایسا، کہانی کا یا ناول کا جس کے ساتھ آپ نے کہانی یا ناول کے تقاضے کے تحت کوئی سلوک کیا ہو کے ناول یا کہانی کا تقاضہ ہے اور آپ کو لگا ہو کہ اس کے ساتھ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن آپ نے سوچا ہو: مقدر ہے۔
شوکت صدیقی: شروع میں سن پچاس کے شروع میں جب یہاں آیا ہوں تو بڑی پریشانی کے دن تھے۔ میں لکھنؤ سے جو پیسے لے کر چلا تھا ان میں سے خاصے میں نے خرچ کر دیے تھے۔ جالندھر میں رام پال کے ساتھ ٹھہرا تھا۔ کراچی آ کر باقی خرچ ہو گئے۔ یہاں اس وقت مسئلہ یہ تھا کہ چاروں طرف جھگیاں پڑی ہوئی تھیں۔ لوگوں کے پاس رہنے کا ٹھکانہ نہیں تھا۔ کسی کے پاس فلیٹ تھا تو بڑی چیز تھی۔ میرے ایک ہم نام تھے کسی حکومتی محکمے میں ڈرائیور تھے۔ ان کے پاس ایک سرکاری کوارٹر تھا، ان کے ساتھ رہنے کی جگہ ملی۔ ان کے ملنے والے اور دوست جو آتے تھے سب موالی، چرس سگریٹ پینے والے، جوا کھیلنے والے اور کریمنل قسم کے تھے۔ کبھی کبھی شراب کی چسکی لگا کر آتے تھے، چور اچکے، گرہ کٹ۔ انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور ان پر بعد میں کہانیاں لکھیں۔ یہ ہمارے مشاہدے میں آیا۔ باقی تخیل تو کام کرتا ہی ہے۔
سوال: میں یہ پوچھ رہا تھا کہ کرداروں کے ساتھ کہانی کے تقاضے کے تحت کچھ ہوتا ہے لیکن لگتا ہے کہ اس کے ساتھ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا؟
شوکت صدیقی: ’خدا کی بستی‘ میں تو سبھی ہیں۔ جانگلوس میں یہ ہے کہ دو کردار ہیں لالی ہے اور دوسرا ایک وہ ہے تو اس میں تو آسانی ہے، لیکن خدا کی بستی میں تین بچے، کباڑیا ہے، پھر ڈاکٹر موٹو ہے۔ ان میں کوئی کردار ایسا نہیں ہے۔ یہ سارے اینٹی ہیرو ہیں۔ ان ناولوں میں ہیرو تو ہے نہیں۔ خدا کی بستی میں اور جانگلوس میں۔ میں کبھی لکھتا بھی نہیں ہیرو ہیروئن۔
کچھ ساتھ چلے، کچھ بچھڑ گئے
سوال: آپ کے ساتھ اور بہت سے لکھنے والے بھی تھے ان میں کچھ ایسے جن کے بارے میں اس وقت یہ لگتا ہو کہ آگے چل کر بہت کچھ کرے گا، بہت امکانات دکھائی دیتے ہوں۔ لیکن پھر وہ راستے میں کہیں بچھڑ گئے، کہیں گم ہو گئے یا کسی اور رخ پر چلے گئے؟
شوکت صدیقی: ادیب اور شاعر؟ – – – یہاں بیٹھتے تھے چائے خانوں میں رات کو۔ ان میں یہ انور (مرحوم)، اعجاز عرفی، ضمیرالدین احمد، صادق حسین، ایک افسانہ نگار ہیں، یہ آ جایا کرتے تھے حفیظ ہوشیار پوری، سب بیٹھتے تھے۔ اس زمانے میں ادبِ لطیف اور نقوش کا بہت چرچا تھا۔ یہ پرچے لے کر آتے تھے اور اور یہ دیکھتے تھے کس نے کیا لکھا ہے۔ ایک حمید کاشمیری ہی تھے، حمید کاشمیری سے ہماری ملاقات ایسے ہوئی کہ ایک دن حبیب جالب مجھے لے گئے۔ حمید کاشمیری کے والد نے جامع کلاتھ مارکیٹ میں کٹ پیس کپڑوں کی دکان کر لی تھی یہ بھی اس پر بیٹھتے تھے۔ تو جالب لے گئے ہمارے پاس پیسے نہیں تھے۔ تو جالب نے حمید سے کہا لا پیسے دے۔ ایک روپیے اس سے لیا اور بیٹھ کر چائے پی۔ اس طرح اس سے ملاقات شروع ہوئی۔ پھر وہ پوسٹ آفس میں آ گیا اور ایلفسٹن سٹریٹ (موجودہ زیب النساء سٹریٹ) پر کتابوں کی دکان کر لی۔ تو اس کے افسانوں سے لگتا تھا کہ اچھا افسانہ نگار بنے گا اور انور وغیرہ تو ہم سے سینئر تھے۔ انور غلام عباس یہ لوگ تو سینئر تھے۔ ہاں اس زمانے میں صادق حسین تھے۔ آپ نے نہیں پڑھا ہو گا۔ نقوش میں ان کی کہانیاں بہت چھپی ہیں۔ یہاں سے چلے گئے تھے ملازمت کے سلسلے میں پنڈی اس وقت سٹیبلش تھے۔ ہاں ایک اور نام تھا: عبدا لسلام، ایک نوجوان لڑکا تھا۔میں چاہتا تھا میرے پاس ایک لیمپ ہو تو اس میں بیٹھ کر لکھوں۔ میں نے تذکرہ کیا حمید کاشمیری سے، تو اس وقت وہ بھی تھا۔ اس کے دو ایک روز کے بعد وہ ایک لیمپ لے کر آیا بہت خوبصورت سا ٹیبل لیمپ۔ تو اس وقت اس نے کہا کہ میرا ارادہ ہے کہ میں افسانے لکھوں۔ تو میں نے اس سے کہا کہ ضرور لکھو۔ اس نے مجھے یا حمید کاشمیری کو یہ نہیں بتایا کہ وہ افسانے لکھتا ہے۔ تو اس کا ایک افسانہ چھپا تو وہ اچھا افسانہ تھا۔ تو میں نے اس سے کہا کہ یہ تو بہت اچھا افسانہ ہے اور اس میں بڑی جان ہے۔ وہ بیمار تھا۔ اسے ٹی بی تھی۔ وہ مر گیا نوجوان۔ نئے لکھنے والے آئے بھی تو نہیں ہمارے بعد جن میں ایسا پوٹینشل ہو۔
سوال: نہیں اس کے بعد جو آپ کے آس پاس تھے؟
شوکت صدیقی: ہاں ایسے کئی تھے۔ ایک صاحب تھے لکھنؤ میں ہوتے تھے۔ ابھی زندہ ہیں۔ ابھی حال میں ان کی بیٹی کی شادی تھی دعوت نامہ لے کر آئے تھے بیس تیس سال بعد، ملیر میں رہتے ہیں۔ تو انہوں نے وہاں کہانیاں لکھی تھیں۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کا جلسہ ہوتا تھا آل احمد سرور کے مکان پر۔ انہوں نے وہاں کہانی پڑھی تھی۔ امراؤ جان ادا، انہوں نے کہانی لکھی تھی بسم اللہ جان جفا جانِ جفا۔ یہ جو طوائفیں ہوتی ہیں ان میں نچلے طبقے کی پسماندہ۔ ان کے بارے میں تھی اور بڑی خوبصورت کہانی۔ بڑی اچھی سٹڈی تھی۔ اس کی ہم نے تعریف کی کہا کہ بڑا افسانہ نگار ہو گا۔ انہوں نے یہاں آنے کے بعد لکھنا ہی چھوڑ دیا اور ان کی کہانی بھی نہ جانے کہاں چلی گئی اور دو ایک کہانیاں انہوں نے وہاں پڑھی تھیں بڑی اچھی۔ قیصر تمکین۔
سوال: وہ جو لندن میں ہوتے ہیں؟
شوکت صدیقی: ہاں، ہاں، لندن میں ہوتے ہیں۔ بہت اچھی کہانیاں لکھتا تھا اور اس کے بارے میں ہمارا خیال تھا کہ آگے چل کر بہت اچھا افسانہ نگار بنے گا۔ ہمارے ساتھ لکھنؤ میں جو لوگ ہوتے تھے ان میں، خدا بھلا کرے، مجاز، سلام مچھلی شہری، کمال احمد صدیقی، منظر سلیمی اور افسانہ نگاروں میں یہ خواتین تھیں: ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور اور قرۃالعین حیدر بھی تھیں وہیں لکھنؤ میں۔ ان لوگوں نے بھی اسی زمانے میں لکھنا شروع کیا سن چالیس میں جب میں نے لکھنا شروع کیا۔ آپ سے کیا بتائیں آپ خود لکھنے والے ہیں معلوم نہیں آپ کا کیا تجربہ ہے، اس زمانے میں ایسی دیوانگی ہوتی تھی، اس زمانے میں ایک پرچہ چھپتا تھا اس میں ہوتی تھی آئندہ پرچے کی جھلک، اس میں ہوتا تھا کہ اس پرچے میں ہماری کہانی آ رہی ہے۔ دو آنے کا ملتا تھا اور ہمارے گھر آٹھ دس میل دور سٹیشن تھا چہار باغ، وہاں ریلوے کے بک سٹال سے دو آنے کا خرید کر لاتے تھے۔ اس کے بعد دوسری کہانی لکھنے بیٹھ گئے۔ رات کو بیٹھ کر لکھتا تھا، اور کمرہ بند کر کے اور بھئی اس زمانے میں ایسا چلتا تھا ہاتھ۔ ایسا دماغ کام کرتا تھا۔ ایک کہانی لکھی اور دوسری لکھنے پر تیار ہو گئے اور پھر تیسری۔ اس میں ایسا بھی ہوا کہ نہیں لکھا گیا۔ وہ آ جاتا ہے نا بیرن سپاٹ۔ بنجر، بالکل لکھنے کو طبیعت ہی راغب نہیں ہوتی تھی۔ یہ سمجھ لیں اٹھاون میں میرا ناول آ یا ہے، پھر کہانیاں لکھیں پھر ساٹھ باسٹھ کے بعد کچھ لکھا ہی نہیں۔ اخبار کے لیے لکھتا رہا۔ کالم لکھتا تھا ’مشرق‘ کے لیے۔ پھر میری لمبی کہانیاں ہیں معرکۃ الآراء، اصل میں میری شہرت ’تیسرا آدمی‘ سے ہوئی۔ اس زمانے میں میں یہاں آیا، میرا ارادہ نہیں تھا ٹھہرنے کا یہاں۔ اس زمانے میں یہاں آنے کے لیے پرمٹ ہوتا تھا، پرمٹ نہیں ملا، ایک صاحب نے کہا، اس وقت پاسپورٹ نہیں ہوتا تھا۔ بادشاہ مرزا، ان کے پرمٹ میں مجھے لگا دیا، اٹیچ کر دیا۔ انوں نے یہاں آ کر پرمٹ پھاڑ کر پھینک دیا، اس کے بعد نہ وہ گئے نہ میں گیا واپس، لکھنؤ و میں اب تک نہیں گیا۔ دہلی تک تو گیا لیکن لکھنؤ نہیں گیا۔
زیادہ اطمینان نہیں ہے
سوال: یہ بتائیے شوکت صدیقی جو ایک آدمی ہے، جو اب اسی کا ہونے کو آ رہا ہے، اسے لوگوں نے سمجھ لیا؟
شوکت صدیقی: پتہ نہیں۔ زیادہ اطمینان بحش نہیں ہے، اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ادب پیدا ہی نہیں ہو رہا ہے۔ بڑا سناٹا ہے۔ رسالے نکلنا بند ہو گئے۔ ہمارے ساتھ کے جو لکھنے والے تھے، وہ سب مر گئے ختم ہو گئے، ابراہیم جلیس، اے حمید، حمید کاشمیری بھی سمجھ لیں ہمارے کنٹمپریری ہی سمجھ لیں۔ پتہ نہیں بھئی مجھے لوگ پہچانتے ہیں نہیں پہچانتے۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جیسے میری طبیعت خراب ہوئی میں ڈاکٹر کے پاس گیا۔ وہاں دو بچیاں بیٹھی ہوئی تھیں بڑی اچھی شکل و صورت کی۔ تھوڑی دیر میں ان کے والد نے آ کر مجھے سلام کیا اور بتایا کے میں ونگ کمانڈر تنویر احمد ہوں اور آپ شوکت صدیقی ہیں لیکن خدا کی بستی ہی کا ذکر کرتے ہیں، افسانوں کا تذکرہ تو بہت کم۔ یہ جانگلوس جب چھپ رہا تو لوگ مجھ سے پوچھتے تھے۔ میں جاتا تھا، سی ویو (کراچی کا ساحل) پر، سمندر کے کنارے ٹہلنے کے لیے، تو لوگ مجھ سے پوچھتے تھے، رحیم داد کہاں ہے اور۔ ہم نے مجاز کو دیکھا تھا مارے مارے پھرتے تھے کوئی پوچھتا نہیں تھا۔ دیکھیں دو طرح ہوتا ہے۔ ایک تو کتابی اور دوسرا پیپلز ٹو پیپلز، جیسے خدا کی بستی۔ تو راہ چلتے ہوئے لوگ پوچھتے تھے۔ ’دیکھیے صاحب نوشہ کی ماں جو ہیں انہیں ماریے گا نہیں‘ یعنی خدا کی بستی میں میرا قاری سے اور ناظر سے براہِ راست ایک رابطہ تھا یا جانگلوس میں۔ ایک بڑی غیر ذمہ دارانہ زندگی گزری ہے ہماری۔ یعنی یہاں آنے کے بعد، وہاں تو بڑی شریفانہ رہی زندگی لکھنؤ میں۔ یہاں دن کو سوتے تھے یا پڑھتے تھے اور شام کو آ جاتے تھے پارٹی ورکرز کے ساتھ رات رات بھر گھوم رہے ہیں چائے خانوں میں چکر لگا رہے ہیں۔ جو کہانی ہے میری ’بیمار‘ وہ اسی پر ہے۔ بوہیمین۔
سوال: وہ دیوانگی کے دن یاد آتے ہیں؟
شوکت صدیقی: ہاں ں ں ں – – – دیوانگی، دیوانگی، دیوانگی – – –
سوال: یہ جو خدا کی بستی کی ڈرامائی تشکیل ہوئی ہے۔ تو کسی حد تک وہ آپ کے تصور سے قریب ہے، یعنی ایک تو وہ جو آپ نے کی تھی ناول میں، پھر آپ کے ان کرداروں کو انہوں نے کنسیو کیا اور آپ نے انہیں اپنے سامنے چلتے پھرتے دیکھا ایک دوسرے آدمی کی حیثیت سے تو کیسا لگا کہ وہ کس حد تک وہی تھے جیسی آپ نے ناول میں سوچے تھے؟
شوکت صدیقی: دیکھیں میں آپ کو بتاؤں، کراچی میں ٹیلی ویژن سٹیشن کھلا ہے سکسٹی سیون میں، سکسٹی ایٹ سکسٹی نائن میں ان کا ہمارا کنٹریکٹ ہوا رائٹر گلڈ میں۔ افتخار عارف اس زمانے میں سکرپٹ انچارج تھے اور اسلم اظہر آئے ہمارے پاس اور کہا کہ ہماری کچھ مدد کیجیے۔ اس زمانے تک ریڈیو کے جو ڈرامے سلیم احمد اور ریاض فرشوری لکھا کرتے تھے وہی تھے لیکن ٹیلی ویژن پر نہیں چلتے تھے آؤٹ آف ڈیٹ ہو گئے تھے وہ۔ وہاں یہ طے ہوا کے ایک سیریل چلایا جائے۔ جمیل الدین عالی نے یہ کہا۔ یہ بہت خائف تھے کہ یہ لیفٹ کا ہے، یہ نہیں پتہ تھا کہ اتنا چلے گا۔ چانچہ انہوں نے کہا کہ ایسا کرتے ہیں کہ فیض صاحب کا نام بھی اس میں لے آؤ۔ فیص صاحب نے اس میں کچھ نہیں کیا۔ پہلے شروع میں کیا تھا ڈرامائی تشکیل فیض احمد فیض۔ سکسٹی نائن میں جب پہلی بار ہو رہا تھا تو فیض صاحب نے ناول پڑھا اور بلایا مجھے اور کہا واہ واہ بھئی بہت اچھا بہت اچھا۔ بس تم لکھنا شروع کر دو۔ ایک آدھ مرتبہ دیکھا انہوں نے۔ ہمیں پیسے البتہ مل جایا کرتے تھے انہیں
ڈرامائی تشکیل کے۔ تو ہم نے کہا کہ بھئی یہ کیا بات ہے انہیں پیسے زیادہ ملتے ہیں ڈرامائی تشکیل کے۔ تو ہم نے کہا فیض صاحب یہ بات تو غلط ہے۔ تو انہوں نے کہا چلو آدھے آدھے کر لو ففٹی ففٹی، تو انہوں نے چیک دے دیا۔ اس زمانے میں بڑے
فیض صاحب تو مشہور آدمی تھے اور وہ پاپولرٹی تو کسی کو نہیں ملی شاید۔ علامہ اقبال کو بھی زندگی میں تو نہیں ملی ہو گی جتنی فیض صاحب کو ملی۔ اصل میں جو بیسک شرافت ہے وہ ان میں بہت تھی۔ نہ کسی کی غیبت نہ برائی،
خوش تھے فیض صاحب۔ بعد میں جب ان کا نام نگراں کی حیثیت سے آنے لگا تو انہوں نے کہا کہ بھئی ہمارا نام دے دیا کرو۔ اس زمانے میں ڈومیسٹک فلائٹس میں بھی پینے پلانے کا سلسلہ تھا تو لڑکیاں آتی تھیں اور پوچھتی تھیں فیض اب کی کیا آ رہا ہے خدا کی بستی میں۔ تو فیض صاحب کہتے ہاں، ہاں بھئی جو کچھ بھی ہو گا آ جائے گا۔ فیض صاحب تو مشہور آدمی تھے اور وہ پاپولرٹی تو کسی کو نہیں ملی شاید۔ علامہ اقبال کو بھی زندگی میں تو نہیں ملی ہو گی جتنی فیض صاحب کو ملی۔ اصل میں جو بیسک شرافت ہے وہ ان میں بہت تھی۔ نہ کسی کی غیبت نہ برائی، اگر انہیں بتایا کہ جنگ میں اپ کے خلاف یہ لکھا گیا ہے تو ان کا جواب ہوتا تھا، ارے بھائی یہ تو لکھتے ہی رہتے ہیں، اور تمہارے خلاف بھی کوئی لکھے تو مت پڑھو اور تم جواب مت دینا، ورنہ پیچھے لگ جائیں گے۔
سوال: اب یہ ’جانگلوس‘ بھی سنا ہے کہ پروڈیوس ہو رہا ہے؟
شوکت صدیقی: جیو والوں کے ہاتھ میں ہے۔ مجھ سے لکھا نہیں جاتا۔ پہلی مرتبہ جو چلا تھا تو ڈرامائی تشکیل میں نے کی تھی خود۔ اٹھارہ قسطوں کے بعد پھر وہ بند ہو گیا تھا۔ اب وہ کسی سے کروا رہے ہیں۔’خدا کی بستی‘ کو جو پیش کیا گیا تھا تو اس کا تو بیڑا غرق کر دیا تھا۔ بھٹو نے البتہ اس کی بڑی تعریف کی تھی۔ انہوں نے کہا ہماری الیکشن کمپین میں تمہاری خدا کی بستی نے بہت کام کیا۔ یہ وہی زمانہ تھا۔ عوام کا نعرہ اور سب کچھ۔ میں نے کہا کہ میرا کوئی کنٹریبیوشن نہیں ہے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ نہیں ہے۔
سوال: شوکت صاحب خواب دیکھتے ہیں آپ؟
شوکت صدیقی: ہاں۔
سوال: اب بھی؟
شوکت صدیقی: اب بھی، ایسے ہی دھندلے سے۔ کوئی خاص نہیں، سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ۔ ایک زمانہ ہوتا ہے نا، بہت سے بہت ستر تک آدمی زندہ رہنے کی خواہش کرتا ہے، اس کے بعد پھر مرنے کی دعائیں مانگتا ہے۔ بڑھاپے میں کہ بھئی خاتمہ بالخیرہونا چاہیے۔ اور ٹھیک بھی ہے ایسے ہی ناکارہ زندگی کا کیا فائدہ، کوئی استعمال ہونا چاہیے۔ اسی لیے سوچا تھا کہ لکھوں گا لیکن لکھنے کی حالت یہ ہوگئی ہےکہ خط تک کا جواب بھی لوگوں کو نہیں دے پاتا ہوں۔
بچپن اور ابتدائی دن
بیس مارچ انیس سو تئیس میری تاریخِ پیدائش ہے۔ لکھنؤ میں پیدا ہوا وہیں پڑھا لکھا۔ کچھ عرصہ کانپور رہا۔ میرے بڑے بھائی کانپور میں تھے ان کے پاس رہا اور پڑھا۔ والد صاحب ہمارے پولیس میں تھے۔ انہوں نے ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی ملازمت چھوڑ کر جنگلات کا کام شروع کر دیا تھا، تو بھائی ہی تھے والد کی جگہ۔ میرے خاندان میں کوئی ادیب و شاعرنہیں تھا۔ میرے ایک بہنوئی تھے شاعر، والد کو میرے شوق تھا مطالعے کا، ان کے پاس بڑی اچھی لائبریری تھی۔ اسی زمانے میں پڑھ چکا تھا میں پریم چند کے افسانے، اختر شرر کے ناول اور طلسم ہوشربا وغیرہ۔
سوال: تعلیم آپ کی کون سے سکول میں ہوئی؟
شوکت صدیقی: ابتدائی تعلیم میری ہوئی ہے، کچھ عرصہ تو میں نے مدرسۂ فرقانیہ میں قران شریف کا ناظرہ کیا اور کچھ سپارے حفظ کیے۔ اس کے بعد گھر پر پڑھتا تھا۔ ٹیچر آتے تھے۔ اس کے بعد یحیٰی گنج پرائمری سکول میں پڑھا، دو ایک سال۔ اس کے بعد تیسری جماعت سے جوبلی کالج کے ہائی سکول میں داخلہ لیا۔ اس میں آٹھویں تک پڑھا اور اس کے بعد کان پور چلا گیا۔ پھر انجمن دعوۃ اسلامیہ کالج میں وہاں سے میٹرک، ہائی سکول پاس کیا۔ اس کے بعد کالج میں داخلہ لیا لیکن پھر حالات ایسے خراب ہوئے اور دل ایسا ہوا کہ پرائیویٹ امتحان دے کر پاس کیا، انٹر بھی اسی طرح کیا۔ سنہ اڑتیس میں کیا تھا ہائی سکول، چالیس میں کیا تھا انٹر اور بیالیس میں کیا تھا بی اے اور چوالیس میں ۔ ۔ ۔ چھیالیس سینتالیس میں کیا ایم اے، پولیٹیکل سائنس میں۔
سوال: بچپن کا کوئی خاص واقع جو یاد آتا ہو، آپ خاص لکھنؤ میں پیدا ہوئے؟
شوکت صدیقی: میں لکھنؤ میں پیدا ہوا۔ دو بہنیں اور ایک بھائی اجمیر میں پیدا ہوئے۔
سوال: آپ کتنے بہن بھائی تھے؟
شوکت صدیقی: سات تھے چار بھائی، تین بہنیں۔ اب کوئی نہیں سب کا انتقال ہو گیا، سوائے میرے۔ سب مجھ سے بڑے تھے ایک بہن تھی مجھ سے چھوٹی۔
سوال: کیرئر کیسے شروع کیا؟ لکھنے کا خیال کیسے آیا؟
شوکت صدیقی: لکھنے کا دلچسپ لطیفہ ہے، یہ کوئی انیس سو پینتیس کی بات ہے غالباً میں ایٹتھ کلاس میں تھا میرا جی چاہا کہ میں بھی ایک ناول لکھوں، اس زمانے میں گھر پر ناول آتے تھے والد لایا کرتے تھے، میں نے بھی پڑھے تھے۔ تو جناب میں نے لکھا چاندنی نکلی ہوئی تھی، ایک لڑکی تھی اس کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ وغیرہ وغیرہ تو مجھے جو ماسٹر صاحب پڑھاتے تھے انہیں دکھایا۔ دیکھیے یہ میں نے لکھا ہے۔ انہوں نے دیکھا۔ پہلے تو منہ بنایا پھر ایک تھپڑ دیا میرے منہ پر اور کہا یہ کیا لغو لکھتے ہو اور والد سے شکایت بھی کر دی: صاحب یہ آپ کا لڑکا تو گیا کام سے، آوارہ ہو گیا ہے، یہ لکھتا ہے۔ اس زمانے میں یہ مختار زمن کی بیوی یونیورسٹی میں تھیں، سلمٰی زمن تو برقعہ پہن کر جاتی تھیں، کو ایجوکیشن تھی لیکن احاطے میں بھی ہاتھ نظر نہ آئے تو دستانے پہن لیتی تھیں۔ سنہ چالیس میں نے پہلا افسانہ لکھا ’کون کسی کا‘ وہ کہانی ہے۔ اچھی خاصی ہے لیکن میرے کسی افسانوی مجموعے میں شامل نہیں ہے۔
سوال: پہلی کہانی آپ کی کس پرچے میں شائع ہوئی؟
شوکت صدیقی: خیام لاہور میں۔ ہفت روزہ خیام لاہور میں۔
سوال: معاوضہ دیتے تھے؟
شوکت صدیقی: معاوضہ کہاں؟ میں تو خوش قسمت ادیب ہوں۔ جب پاکستان آیا اور بھوکا مرنے لگا تو میں نے کہا کہ بھئی مجھے کچھ معاوضہ دو تو ’سویرا‘ اور ’نقوش‘ وغیرہ سے تو، پھر وہ پچاس روپے دے دیتے تھے۔ پھر میں نے کبھی معاوضے کے بغیر نہیں لکھا، یہاں آنے کے بعد۔
سوال: پھر ناول کی طرف کب آئے اور کیا تحریک تھی ناول کی طرف آنے کی؟
شوکت صدیقی: ایک ناول بہت پہلے لکھا تھا چھیالیس میں۔ وہ ادھورہ رہ گیا۔ وہ چھپا ہے ’کمیں گاہ‘۔ وہ تو ناولٹ ہے۔ فل ناول جو لکھا وہ ’خدا کی بستی‘ ہے۔
سوال: ناولٹ کہاں سے شائع ہوا تھا؟
شوکت صدیقی: یہاں ایک تھا، ’مکتبۂ راحیل‘ اس نے مجھے ایک ایڈیشن کے ایک ہزار روپے دیے۔ اس زمانے میں بڑی چیز تھی اور ضرورت بھی تھی۔ تو ہم نے کہا ٹھیک ہے۔ اس نے اس کے کئی ایڈیشن شائع کیے، مقدمے بازی چلی، کاپی رائٹ ایکٹ پر، اس نے میرے وارنٹ نکلوا دیے۔
خدا کی بستی، اوررائٹرز گلڈ
سوال: ’خدا کی بستی‘ کا آپ کو بیسک تصور کیسے آیا؟ اور کس طرح سے آپ نے اسے لکھا؟
شوکت صدیقی: اس کی بھی ایک دلچسپ داستان ہے۔ اصل میں یہ ایک فلم سٹوری تھی۔ ہمارے ایک دوست تھے یوسفی، بمبے (ممبئی) میں رہتے تھے انہیں فلموں سے لگاؤ تھا۔ ان دنوں، پی ای سی ہاسنگ سوسائٹی کے سکریٹری تھے علی اکبر قاصد، وہ بنا رہے تھے۔ انہوں نے یہاں مجھے کیمبل روڈ پر ایک آفس، (کمرہ) دلا دیا اور کہا کہ یہاں بیٹھ کر لکھیے۔ تو میں نے ان سے کہا کہ بھئی، یہ فلیش کر کے یہاں جائیے، یہاں سے فیڈ آؤٹ اور فیڈ اِن وغیرہ مجھے نہیں آتا۔ انہوں نے کہا نہیں آپ صرف ڈائیلاگ لکھتے جائیے۔ واقعات ان سے ہمارے ڈسکس ہوتے رہتے تھے۔ یہ جو سٹریٹ چلڈرن ہیں، ان پر لکھنے کا ارادہ تھا۔ اس موضوع پر لکھا نہیں گیا یہاں پر، بنیادی طور پر یہی تھا۔ پھر یہ لکھا گیا یہاں پر۔ پھر ان کا انتقال ہو گیا لکھا بھی نہیں گیا، ادھورا رہ گیا۔ بس آؤٹ لائن لکھی گئی۔ پھر اس زمانے میں ’نیا دور‘ نکالتے تھے جمیل جالبی، انہوں نے کہا کہ ایک ناولٹ نمبر نکالنا ہے تو اس میں چھپا پہلی بار ’اندھی گلیاں‘ کے نام سے۔ پھر لکھتا چلا گیا۔ ٹائمز آف کراچی، میں کام کرتا تھا شام چھ بجے جاتا تھا۔ قریب ہی رہتا تھا اور آنے کے بعد ریسٹ بھی نہیں کرتا تھا اور لکھنے بیٹھ جاتا تھا۔ چار یا پانچ بجے تھوڑا سوتا ہوں گا۔
سوال: کب پاکستان آئے آپ؟
شوکت صدیقی: میں سنہ پچاس میں آیا۔
سوال: اور پہلی ملازمت کہاں کی؟
شوکت صدیقی: یہاں سے ایک اخبار نکلتا تھا مسلم لیگ کا ’پاکستان سٹینڈرڈ‘ اس میں سب ایڈیٹر، کچھ دن اس میں کام کیا اور اس کے بعد ’ٹائمز آف کراچی‘ میں آ گیا۔ اس کے بعد یہ بند ہو گیا تو ’مارننگ نیوز‘ میں۔ اس کے بعد انگلش جرنلزم سے شفٹ کر کے اردو جرنلزم میں آیا۔ ’انجام ‘ میں۔ چیف ایڈیٹر رہا۔ انجام نکلتا تھا کراچی اور پشاور سے۔ پھر ایک ویکلی تھا جس میں محمود شام وغیرہ تھے ارشاد راؤ ’الفتح‘۔ اور یہ چلا ہے دور پیپلز پارٹی کا۔ ستر کا۔
سوال: تو کیا طریقہ ہوتا ہے آپ کے لکھنے کا، پہلے نوٹس بنا لیتے ہیں، وضع بنا لیتے ہیں؟
شوکت صدیقی: عام طور پر تو لکھنے والے نوٹس بنا لیتے ہیں، آؤٹ لائن بنا لیتے ہیں: یہ ہو گا، یہ یہ یہ وغیرہ، ’خدا کی بستی‘ میں نے تھوڑا سا یہ بنایا تھا، باقی یہ ’جانگلوس ‘ جب لکھا تو بس لکھتا چلا گیا۔ ’جانگلوس ‘ اور ’چار دیواری‘ یہ تین لمبے ناول ہیں۔
سوال: تو ترقی پسند سوچ کی طرف یا لیفٹ کی طرف کیسے راغب ہوئے، کس نے انسپائر کیا؟
شوکت صدیقی: لیفٹ کی طرف؟ ’میرا مزاج لڑکپن سے عاشقانہ تھا والی بات نہیں ہے (قہقہہ) لکھنؤ میں پارٹی کا ہمدرد، سمپتھائزر میں ہو گیا۔ انجمن ترقی پسند مصنفین میں ہو گیا۔ کبھی کوئی پولیٹیکل پارٹی جوائین نہیں کی۔ البتہ لیفٹ کے ساتھ ایکویشن رہی ہے۔ مطلب یہ بڑی تاریخی بات ہے کہ پاکستان رائٹرز گلڈ ہے، اسے کہتے ہیں کہ ایوب خان نے بنوایا، فوج نے بنوایا۔ جو لوگ جانتے نہیں ہیں وہ کہتے ہیں کہ ادیبوں کو خریدنے کے لیے بنایا گیا۔ ترقی پسندوں کو گمراہ کرنے کے لیے۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ یہ ففٹی ایٹ میں مارشل لاء لگا۔ اس میں جمیل الدین عالی نے، قدرت اللہ شہاب نے اور دوسرے سات ادیب تھے۔ انہوں نے بیان شائع کیا۔ تو عالی سے ہماری تھوڑی بہت ملاقات اس وقت کی ہے۔ اس میں یہ کہ ادیبوں کے لیے کیا ہونا چاہیے، یہ ہونا چاہیے وہ ہونا چاہیے مارشل لاء کے خاتمے کے ساتھ۔ تو کیمونسٹ پارٹی کے سکریٹری اس زمانے میں تھے حسن ناصر۔ اور میں اس زمانے میں رہتا تھا ناظم آباد میں، پاپوش کے پاس۔ حسن ناصر اس زمانے میں انڈر گراؤنڈ تھے۔ وہ وہاں رہتے تھے گجر نالہ کے اس پار مزدور بستی میں۔ تو شام کو وہ آ جاتے تھے وہ میرے پاس، وہ ہوتے تھے اور نازش (نازش امروہوی) ہوتے تھے اور ایک اور صاحب ہوتے تھے سید رشید احمد وہ بہت پرانے کمیونسٹ تھے لکھنؤ کے۔ تو جب یہ کانفرنس کی بات ہوئی تو کہا گیا کہ کیا کیا جائے کمیونسٹ پارٹی کو کیا کرنا چاہیے۔ کمیونسٹ پارٹی اس زمانے میں آرگنائز تو تھی نہیں۔ یہی ان کے سٹڈی گروپ تھے اور ایک سٹڈی گروپ کا میں بھی ممبر تھا۔ تو اس سلسلے میں پہلی میٹنگ جو ہوئی اس میں، حسن ناصر، سید رشید احمد، نازش امروہی اور منہاج برنا۔ تو کہا گیا کہ کیا جائے؟ اس میں شریک ہوں یا نہ ہوں؟ یہ تو معلوم تھا کہ گورنمنٹ سپانسرڈ ہے اور یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ جو مارشل لاء لگا ہے وہ کیا چیز ہے۔ تو کہا گیا کہ اگر اس میں شامل نہیں ہوتے تو یہ ایک پلیٹ فارم ہو گا جو ہمارے خلاف استعمال ہو گا۔ تو مجھے اور ممتاز حسین کو ڈپیوٹ کیا گیا کہ جا کر بات کریں۔ تو جمیل الدین عالی سے کہ ہماری دو شرطیں ہیں بنیادی۔ ایک یہ کہ اس کا جو کانسٹیٹیوشن ہو گا اس میں ہمارے نمائندے ہوں گے اور جو منشور ہو گا وہ بھی ہمارے مشورے سے ہو گا۔ کانسٹیٹیوشن میں یہ تھا کہ کسی کو اس کے نظریے کی بنیاد پر نہیں نکالا جائے گا۔ سب ترقی پسندوں کو جو اس زمانے میں شوکت عثمان وغیرہ انہیں بلایا گیا تھا۔ جس جس کو ہم نے کہا سب آئے تھے۔ فیض صاحب بھی یہاں تھے۔ ماسکو سے آئے تھے اور یہاں پٹیل پاڑہ میں مجید ملک کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے تو میں اور جمیل الدین عالی ملنے گئے۔ تو ہم نے ان سے کہا کہ ایسا ہے تو انہوں نے کہا کہ ضرور کر لیجیے۔ پارٹی کا بھی فیصلہ یہی ہے، ہم شریک ہوں گے۔ اس وقت تک فیض صاحب جیل نہیں گئے تھے۔ یہاں اور لوگ تھے جوش ملیح آبادی وغیرہ ان سے بات ہوئی۔ سارے کوآپریٹ کر رہے تھے یعنی احمد ندیم قاسمی، احمد ندیم قاسمی اس وقت جیل میں تھے۔ لیکن جب کانفرنس ہونے والی تھی تو اس سے پہلے ہی گرفتار کر لیے گیے تھے یہ، فیض احمد فیض، سبطِ حسن، محمد حسن عطا وغیرہ۔ اس کنونشن میں آیا ایوب خان، اس میں ہمارا دوست تھا اس میں ہم لوگوں کے مشورے سے ایک ریزولوشن موو کیا گیا کے یہ فیض ہیں اور یہ ہیں ان لوگوں کو رہا کیا جائے کیونکہ اگر آپ ان لوگوں کو رہا نہیں کرتے ہیں تو یہ بات جو ہے آزادیِ اظہار کی یہ مکمل نہیں ہوتی ہے۔ تو کنونشن میں کسی نے اپوز نہیں کیا۔ اس میں یہ تھا جاوید اقبال، علامہ اقبال کا بیٹا۔ اعجاز حسین بٹالوی، الطاف گوہر کا بھائی تجمل، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور، جمیلہ ہاشمی، ظہیر کاشمیری، احمد راہی، پشاور سے فارغ بخاری، قلندر مومن، خاطر غزنوی، محسن احسان سب آئے تھے اس میں۔ مولانا صلاح الدین نے مخالفت کی تھی۔
سوال: ایوب خان کا کیا ری ایکشن تھا، ریزولیشن پر جب پیش ہو رہا تھا تو؟
شوکت صدیقی: (ہنستے ہوئے) ایوب خان تو وہی کرتا تھا جو قدرت اللہ شہاب کہتا تھا۔ خاصا کنٹرول تھا قدرت اللہ شہاب کو۔