’ماتم یک شہر آرزو‘ ممتاز محقق ، نقاد ، شاعرہ ،پروفیسر اور افسانہ نگار نگار سجاد ظہیر کا تازہ ترین افسانوی مجموعہ ہے۔یہ ان کے آخری افسانوی مجموعے ’بار ہستی‘ سے کوئی پندرہ سال کے بعد منظر عام پر آیا۔ڈاکٹر نگار بنیادی طور پر استاد اور محقق ہیں۔اور محقق و نقاد کے لیے تخلیق ایک مشکل کام ہے۔اس کے باوجود انھوں نے اس مجموعے میں پندرہ افسانے مرتب کر کے پیش کر دیے ہیں جن میں سے چھ غیر مطبوعہ اور نو مطبوعہ ہیں جو پاکستان ، انگلستان اور ہندوستان کے ادبی رسائل میں شایع ہو چکے ہیں۔یہ افسانے الحمراء(لاہور)، عفت(لاہور) ،سفیر اردو(انگلستان) اور سب رس(حیدرآباد دکن، ہندوستان) میں مختلف اوقات میں شایع ہوئے۔افسانوں کو افسانہ نگار نے زمانی ترتیب سے پیش کیا ہے اور کچھ کے نزدیک کسی افسانہ نگار کو جانچنے کا ایک پیمانہ زمانی ترتیب بھی ہے جسے میں زیادہ وزن نہیں دیتا کیونکہ کچھ تخلیق کاروں نے زندگی کے ابتدائی ماہ و سال میں کمال کی تخلیقات سامنے لائیں لیکن بعد کے ادوار میں وہ اپنا معیار برقرار نہ رکھ سکے۔
افسانہ نگار کی ترتیب کے مطابق نومبر ۱۹۹۹ء کے افسانے ’ماتم یک شہر آرزو‘ کو ہی افسانوی مجموعے کے نام کے طور پر رکھا گیا ہے جو غیر مطبوعہ ہے۔اس طرح آخری افسانے ’تضاد‘ دسمبر ۲۰۱۴ء تک ان پندرہ افسانوں کے درمیان کا عرصہ پندرہ سال ہی بنتا ہے۔۲۰۰۶ء تا ۲۰۰۸ء اور ۲۰۱۱ء کے سالوں میں افسانہ نگار نے کوئی افسانہ نہیں لکھاجبکہ باقی کے ہر سال میں ایک یا دو افسانے لکھے ہوئے ہیں۔کتاب کا نام غالب ؔ کے شعر
اب میں ہوں اور ماتم یک شہر آرزو
توڑا جو تو نے آئینہ تمثال دار تھا
کے پہلے مصرعے کی ترکیب ’ماتم یک شہر آرزو‘ سے مستعار ہے۔اور انتساب اپنی بیٹی کے نام کیا ہے(یہ میں اندازے سے لکھ رہا ہوں)۔’بس ایک بات‘ میں افسانہ نگار کا موقف ہے کہ ’وہ کتابیں جو تخلیقی نوعیت کی ہوتی ہیں ، ان میں خواہ مخواہ کے اہتمام یا تکلف کی کوئی ضرورت نہیں ہونی چاہیے‘۔ اور اس بنیاد پر انھوں نے کسی کی تنقیدی یا توصیفی رائے کو کتاب کا حصہ نہیں بنایاجو روایت شکنی ہے اور ایک محقق کو روایت شکن ہی ہونا چاہیے۔
ڈاکٹر صاحبہ بنیادی طور پر رومانوی افسانہ نگار ہیں یا میں ایسا ہی محسوس کرتا ہوں۔تاہم انھوں نے زندگی کی تلخیوں اور ترشیوں اور چھوٹے چھوٹے مسائل کو اپنے افسانوں میں سمو دیا ہے۔ان کا پہلا ہی افسانہ رومانوی اور فلیش بیک کے سہارے چلتا ہے۔لیکن اختتام بڑا تلخ ہے اور یہ واضح نہیں کہ یہ تلخی مئے ایام ہے یا تلخی ء حیات۔تاہم اس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اکیسویں صدی کی عورت مرد کی برابری کی قائل نہیں رہی بلکہ اس سے زیادہ حقوق کی طلب گار ہے۔بلکہ چھین رہی ہے۔وہ اولاد کو بھی اب پیراسائیٹ تصور کرتی ہے اور شوہر کو بھی اور اس سے کچھ دیر کے لیے ہی سہی ، چھٹکارا بھی چاہتی ہے اور اگر اس آزادی کو تسلیم نہ کرے تو وہ بغاوت بھی کر سکتی ہے۔اس افسانے میں انگریزی کے الفاظ بھی تواتر سے ہیں اور یہ شاید ہماری اب مجبوری بھی ہے کہ اگر آپ پڑھے لکھے کردار کی زبان استعمال کریں گے تو وہ ضرور انگریزی استعمال کرے گا۔جیسے پرائیویٹ ، ٹیچر ، اسٹائل ، ڈیپارٹمنٹ ، ڈیمانڈ اور اسٹوڈنٹ وغیرہ۔
شائد کا تو جدید املا استعمال کیا ہے لیکن زائد کو زاید نہیں لکھا۔اسی طرح یونیورسٹی کا جدید املا یونی ورسٹی لکھا ہے لیکن چاہئے کا قدیم املا ہی لکھا ہوا ہے۔میرا یہ تحریر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یا تو یہ سب جدید ہو یا قدیم ، دو عملی نہیں ہونی چاہیے۔نفریں کسنا کو اس افسانے میں دو بار استعمال کیا گیا ہے حالانکہ محاورہ نفرین کرنا ہے۔اس افسانے کا مرکزہ یہ جملہ لگا کہ ’قطعی جاگیرادارانہ سوچ ۔۔۔وہی روایتی مردانہ منطق‘ ۔یعنی عورت کو ایک گھر میں باعزت مقام کے ساتھ رکھنا جاگیردارانہ سوچ ہے اور روایتی مردانہ منطق ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔عورت آزاد رہنا چاہتی ہے کیا؟ایسا بہت کم ہی دیکھا گیا ہے۔وہ مرد کا کندھا اور سہارا ضرور چاہتی ہے اور ایک مضبوط کردار کے مرد کو عزت دیتی ہے۔فطرت نے ماں بہرحال عورت کو بنایا ہے۔سوال یہ بھی ہے کہ دونوں کے اختیارات کے جھگڑے میں بچے کا کیا ہوگا۔کیا دونوں کے درمیان اختیارات کی جنگ میں نئی نسل یعنی بچہ پس نہیں جائے گا۔
’زندگی‘ ایک الجھا ہوا سا افسانہ ہے۔جس کے کردار دو ہیں۔پہلے اور دوسرے افسانے کی ’کیمسٹری‘ مشترک ہے۔مرد دوسری شادی کر چکا ہے اور پہلی بیوی کو علم نہیں۔شوہر کی ملازمت دوبئی میں ہے اور پہلی بیوی کا انتقال پاکستان میں ایک حادثے میں ہو چکا ہے اور وہ اس کی تدفین میں آ رہا ہے۔ اس کے ذہن میں یہ گرہ پڑ چکی ہے کہ وہ حادثے والی رات کہاں گئی تھی۔اور عقدہ ایک اجنبی کے تذکرے پر ختم ہوتا ہے جو اسے اپنی زندگی قرار دیتا ہے۔ یعنی مرد اگر بے وفا ہے تو عورت کو بھی اس کا حق حاصل ہے۔ مرد اگر خائن ہے توعورت کو بھی اس کاحق ہے۔املا کے مسائل اس افسانے میں بھی ہیں جیسے روزآنہ۔’زخم‘ بھی ایک رومانوی افسانہ ہی ہے۔اور یہ ’زخم‘ اس جملے سے واضح ہے کہ ’اچھی وہ تمھیں لگتی تھی ، لے کوئی اور اڑا‘۔املا میں ہماری پہاڑی کا ایک لفظ خوب بہایا ’رج کے‘۔ویسے پنجابی بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔اردو کو مقامی زبانوں اور بولیوں کو اپنے دامن میں ویسے ہی سمیٹنا ہوگا جیسے اس نے ہندی ، انگریزی ، فارسی اور عربی کو سمیٹا ہوا ہے۔ورنہ اجنبیت بڑھتی رہے گی۔
اس افسانے میں عورت کی حاکمیت کی گونج ہے اور یہ ہمارے سماج میں موجود ہے اور میں نے تو عورت کی حاکمیت زیادہ اور مرد کی کم ہی دیکھی ہے۔بیویاں دوچیزوں کی دشمن ہوتی ہیں: کتاب اور شوہر کے دوست۔ویسے شرافت بزدلی اور بے غیرتی تک جاتی ہے اور اب قاری کا کام ہے کہ وہ دیکھے کہ شوہر کس کیٹگری میں آتا ہے۔’اختلافات اٹھنا‘ کی جگہ ’اختلافات سر اٹھانا‘ درست لگتا ہے۔’سناٹے‘ کا یہ جملہ مزا دے گیا کہ ’ اس کا شوہر تم سے زیادہ سمارٹ ، تم سے زیادہ مہذب اور تم سے زیادہ دولت مند لگ رہا تھا‘۔لیکن محبت یہ سب کہاں مانتی ہے۔تاہم رشتوں کی پاسداری ضروری ہے۔جس رشتے کا کوئی نام نہ ہو یا جسے کوئی نام نہ دیا جا سکے ، وہ رشتہ ہو ہی نہیں سکتا۔اس بے نام رشتے کا انجام افسانہ نگار نے خوب نکالا ہے کہ اس سے پہلے کہ جدید لیلیٰ مجنوں ملتے آپ نے لیلیٰ کو اس کے شوہر کے ساتھ کینیڈا بک کردیا۔
’اسیر حیات‘ اس مجموعے کا سب سے خوبصورت افسانہ لگا۔ہم بنیادی طور پر اپنے مفاد سے محبت کرتے ہیں اورکسی کے مسائل کا ہمیں نہ ادراک ہوتا ہے اور نہ ہم محسوس کرتے ہیں۔جب اپنے مفاد پر ضرب پڑتی ہے تو کوستے ہیں۔اس افسانے کا مرکزی کردار واقعی کمینہ ہے کہ جسے فرشتہ صفت ملازمہ کے مسائل کا شعور ہی نہیں اور نہ وہ اس کے درد کو جاننے کی کوشش کرتا ہے۔اسے بے حسی بھی کہا جا سکتا ہے جو ہمارے معاشرے کا اب لازمہ ہے۔اور یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ’جس گھر کے لیے وہ بیس سال تک رقم جوڑتی رہی ، وہاں اسے صرف بیس ماہ ہی رہنا نصیب ہو سکا‘۔اس سماج میں کسی کے پاس جب پیسہ آتا ہے تو وہ اس کا اظہار مکان کی صورت میں کرتا ہے یا بڑی سی گاڑی کی صورت میں۔مکان کے لیے لوگ سکون تج دیتے ہیں اور جب مکان مکمل ہوتا ہے تو مکین اڑ جاتے ہیں۔اس افسانے کا ایک جملہ اجنبی لگا ’تولیہ میلی ہو گئی تو بدل دیتی تھی‘۔کیا تولیہ مونث ہے؟
’کالی‘ سندھ کی سرزمین کانوحہ لگا لیکن یہ عورت کا بھی نوحہ ہے جو مرد کو بچانے کی لیے اپنی ہم جنس کو استعمال کرتی ہے۔عورت عورت کی دشمن۔ ’سانول موڑ مہار‘ اس منافقت کو سامنے لاتا ہے جو ہماری رگ و پے میں سرایت کرچکا۔ہم اسی منافقت کے ساتھ ناپسندیدہ افراد کے ساتھ زندگی گزار دیتے ہیں اور یہ سب سے زیادہ پڑھے لکھے طبقے میں پائی جاتی ہے۔جو بزدل ہوتا ہے۔’دھاندلی‘ جدید دور کے جدید شوہر کی دھاندلی ہے اور جس کسی کو موقع ملتا ہے وہ دھاندلی کر گزرتا ہے۔جدیدیت اپنے ساتھ مسائل بھی تو لے کر آتی ہے۔ ایک اور چیز جو میں نے محسوس کی وہ ’ہمزہ ء ‘ کا مسئلہ ہے جس کا استعمال افسانہ نگار نے نہیں کیا۔یہ بھی اب حقیقت نہیں رہی کہ ’بیوی سے زیادہ شوہر کو کون جان سکتا ہے‘۔اس کو اب اس طرح سے ہونا چاہیے کہ ’شوہر سے زیادہ بیوی کو کون جان سکتا ہے‘۔یا ’ساری زندگی شوہر بیوی اور بیوی شوہر کو نہ جان سکے‘۔
اور جب رشتوں میں شک کی تریڑ آ جائے تو سب ہی خود غرض اور کمینے ہو جاتے ہیں تاہم بہت کم لوگ یہ فیصلہ کرپاتے ہیں کہ وہ گزشتہ کئی سالوں سے کتنے جھوٹے ، دغاباز اور منافق انسان کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے۔کچھ اس امید پر چلتے رہتے ہیں کہ سب ٹھیک ہو جائے گا اور کچھ اس کمینگی کے ساتھ کہ وہ ٹھیک نہیں ہوتا : نہ ہو ، ہم کون سے اس سے وفا کر رہے ہیں۔’بارے آرام سے ہیں‘ آج کے کراچی کی تلخ کہانی ہے جسے افسانہ نگار نے اپنے مشاق قلم سے مختصر الفاظ میں ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔کون سا عارضہ ہے جو اس شہر کو لاحق نہیں اورکون سا دکھ ہے جو اس کے معصوم شہریوں کو آسیب کی طرح چمٹا ہوا نہیں لیکن کچھ لوگ ہیں جو چین کی بنسری بجا رہے ہیں اور وہ اس کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ایک جماعت بلا شرکت غیرے پورے کراچی کی مالک ہے لیکن امن کوسوں دور ہے۔
’نو وار ڈاٹ کام‘ ایک سنجیدہ افسانہ ہے ۔پوری دنیا میں جاری امریکی کروسیڈ کا ہم بھی ایک اہم حصہ ہیں اور مسلسل اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ یہ ہماری جنگ ہے۔کیسے؟ امریکہ کے اندر سے سوالات اٹھائے جاتے رہے کہ یہ کس کی جنگ ہے لیکن یہ جنگ جاری ہے۔ہم نے اپنی قوم کے لاکھوں افراد مروا دیے ۔سوال موجود ہے کہ جنگ کس کی ہے۔کیوں ہو رہی ہے۔کس کو اس کا فائدہ ہے اور کس کو نقصان۔کون مال بنا رہا ہے اور کس کا اسلحہ کہاں بک رہاہے۔کس کا لہو بک رہا ہے اور کس کا ارزاں ہے۔’کیتھارسس‘ پڑھ کر شاید بیویوں کا تزکیہ ہو جائے کہ اس میں رونا شوہروں کا ہی ہے۔یہ پرانا ہو کر بھی ایک نیا موضوع ہے۔لیکن مرد بھی کیا کرے:اس کی قسمت میں فنا اور بقا یعنی X اور Y دونوں سیل لکھے ہیں۔مرد کو اپنی تنہائیوں کو آباد کرنے کے لیے کسی کی ضرورت بہرحال رہتی ہے اور اسی لیے وہ ڈھلتی عمر کی بیوی یا اپاہج بیوی کی موجودگی میں ادھر ادھر تاکا جھانکی ضرور کرے گا۔ہر دو طرف زیادتیاں تو ہیں۔کہیں مرد ظالم ہے اور کہیں عورت۔
اس افسانے کے کچھ جملے اپنے اندر گہری معنویت رکھتے ہیں جیسے ’اپنے پیاروں کو کفناتے اور دفناتے ہیں لیکن خود کو اس عمل کا شکار ہوتے دیکھنا نہیں چاہتے‘۔’سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ مرض(بریسٹ کینسر) بندے کو مارتا ہے یا اس کا علاج‘۔اور یہ ایک تلخ سچائی ہے کہ ہمارے ملک میں علاج بہت مہنگا ہے کہ خدا کسی غریب کو کسی موذی بیماری میں مبتلا ہی نہ کرے۔’خدا کتنا بڑا سہارا ہوتا ہے ، یہ ڈوبنے والے سے پوچھنا چاہیے‘۔’زندگی اتنی مصروف گزری کہ ہمیں پتہ ہی نہیں چلا کہ کب ہم جوانی کی حدود کو پھلانگ کر بڑھاپے کی حدود میں داخل ہوگئے‘۔’یادیں اچھی ہوتی ہیں ،ان کا ریموٹ کنٹرول ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے ، یہ ہم پر مسلط نہیں ہوتیں:ساتھ ساتھ چلتی ہیں‘۔اس افسانے کا حاصل عورت کا مسترد کیے جانے کا صدمہ ہے۔اور یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ’ایک شانے کا سہارا شاید مضبوط سے مضبوط عورت کو بھی چاہیے‘۔اور اس جملے کی تلخی کو محسوس کیا جاسکتا ہے کہ ’وہ کراچی میں رہتی ہے ، مطلقہ ہے ، اس کی دس سال کی ایک بیٹی ہے‘۔عورت اپنے اندرکسی قسم کی کمی ہونے کے باوجود سوتن کو برداشت نہیں کرتی ۔
’جھٹکا‘ واقعی زندگی کی تلخ سچائیوں کا جھٹکا ہے۔ زندگی اکثر جیسی نظر آتی ہے ویسی ہوتی نہیں۔خوابوں کے سہارے زندگی گزرتی بھی نہیں اور ایسے افراد کو رومانوی کہا جاتا ہے جو یادوں کے سہارے زندگی کے شب وروز گزار دیتے ہیں۔کیا واقعی عورت ماضی کے اپنے تعلق کو فراموش نہیں کرتی؟ حقیقت کا تقاضا ہوتا ہے کہ دونوں ماضی کی تلخیوں کو فراموش کرکے آگے بڑھیں ۔ویسے یہ کام عورت آسانی سے اس لیے بھی کرلیتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بچوں میں گم کر دیتی ہے۔مسئلہ پھر مرد کا ہے کہ وہ کیا کرے۔
افسانہ ’تضاد‘ ہمارے معاشرتی رویوں کا تضاد ہے۔یہ فرد سے لے کر قوم تک کا المیہ ہے۔یہاں کچھ افراد کیسے امیر بن جاتے ہیں اور کچھ ساری زندگی محنت کے باوجو ددو وقت کی روٹی کو ترستے رہتے ہیں۔اور ہمارا معاشرہ اب اتنا بے حس ہو چکا ہے کہ ایسے کمیوں کی عزت کرناشروع کردیتا ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ نو دولتیے حرام کی کمائی سے بنے۔وہی ان کے ہیرو ، معیارات کے تعین کرنے والے ،ٹرینڈسٹر ، رجحانات ساز ، نئی اقدار کے خالق ، سیاستدان ، celebrity اور باعزت شہری قرار پاتے ہیں۔کالے دھن نے اس سماج کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ہر چیز برائے فروخت اور قابل خرید ہے۔کردار کو کون پوچھتا ہے اور کردار سازی کی کس کو پروا ہے۔لیکن ایک طاقت اوپر بھی بیٹھی ہے جس نے ہر چیز کا حساب لینا ہے اور اس کی لاٹھی بے آواز بھی ہے اور لمبی بھی۔کبھی کبھی یہ دراز ہو جاتی ہے اور کچھ بدبخت اس کو اپنا بخت گرداننا شروع کر دیتے ہیں اور ایک دن یہ لاٹھی ایسے افراد پر پڑتی ہے اور بے آواز پڑتی ہے۔ڈاکٹر نگار صاحبہ کو تحقیق کے تپتے صحرا سے تخلیق کے نخلستان میں خوش آمدید اور دعا۔