احمد مشتاق
Birth—1933
|
اگر آپ ۱۹۵۰ء۶۰ میں شاعری سے دلچسپی رکهنے والے نوجوان رہے ہیں تو خاصہ ممکن ہے کہ احمد مشتاق کا یہہ شعر آپ کے زیرِ لب رہا ہو- میں نے کہا کہ دیکھ یہ میں‘ یہ ہوا‘ یہ رات درویش صفت اور مرنجان مرنج احمد مشتاق اردو کے معروف شاعر ہیں ۔ وہ یکم مارچ 1933 کو امرتسر میں پیدا ہوئے ۔ شعری مجموعے گردِ ماہتاب اور مجموعہ کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔ ناصر کاظمی کے بارے میں ہجر کی رات کا ستارہ کے نام سے ایک کتاب تحریر کی۔ امریکا میں قیام پذیر ہیں۔ احمد مشتاق وہ شاعر ہیں جنہیں اس وقت اس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ ہم نے اگر اردو شاعری کو زندہ رکھنا ہے تو ہمیں بیسویں صدی کی زبان میں شاعری کرنی ہوگی۔جو ایک ایک لمحے میں صدیاں گزار رہی ہے ۔انہوں نے جب پہلی بار شاعری میں’’ فٹ پاتھ‘‘ کالفظ استعمال کیا تھاتو انتظار حسین نے انہیں کہا تھا کہ تم نے تغزل سے بغاوت کر کے آج کی زندگی سے رشتہ جوڑا ہے انتظار حسین احمد مشتاق کے شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں ’’ اس میں نظریے کی سخت کمی ہے ، سماجی دکھ سکھ کا احساس بھی نہیں پایا جاتا۔پھر قومی تقاضے پورے کرنے کی لگن بھی نہیں ملتی۔ ایسی بات نہیں ہے کہ مشتاق کے پاس ان چیزوں کی کمی ہے ۔بفضلہ تعالیٰ یہ سب کچھ اس کے دامن میں ہے ۔ مگر یہ سب چائے کی میز کے صرفے میں آ جاتا ہے ۔شاعری کی عبادت گاہ میں مشتاق جوتیاں اتار کر داخل ہوتا ہے ‘‘۔ کلیاتِ احمد مشتاق میں شامل شاعری کے حوالے سے دیباچے میں انتظار حسین نے درست لکھا ہے، ”وہ عمل کا شاعر نہیں ہے، عمل کے انجام کا شاعر ہے۔نہ کوئی تبصرہ نہ کوئی محاکمہ۔ نہ نالہ نہ شیون۔ بات بالعموم ایک آہ ِ سرد پر ختم ہو جاتی ہے“ احمد مشتاق ادیبوں کے اس گروه سے تعلق رکهتے ہیں جو اُنییس سو پچاس ساٹھ کی دہیاوں میں لاہور ٹی ہاؤس کی میزوں پرہر شام ادبی محفلوں میں شریک ہوتے – اِن کے ہم مجلس انتظار حسین ، حنیف رامے، مظفر علی سید ، شہرت بخاری ، صلاح الدین محمود ، شیخ صلاح الدین ،سجاد باقر رضوی ،محبوب خزاں ، ڈاکٹر سہیل احمد خان، اور نوجوان باصر کاظمی بیٹھے ہوتے تھے شمس الرحمن فاروقی، احمد مشتاق کو اس عہد کا سب سے بڑا شاعر قرار دیتے ہیں – لیکن جب فاروقی نے کہا کہ احمد مشتاق ،فراق سے بڑا شاعر ہے اوربہت سے اہلِ فراق چیخ پڑے- احمد مشتاق نے ناصر کاظمی کے بارے میں “ہجر کی رات کا ستارہ” کے نام سے ایک کتاب لکهی،اِس کے علاوہ نوبل انعام یافتہ نامور پُرتگیزی ادیب سراماگو کے ناول ”بلائنڈنیس”، اور ہوان رولفو کے ناول “پیدرو پارامو” کا “بنجر میدان” کے نام سے اردو ترجمے کر چکے ہیں *** کوئی در کوئی دریچہ نہیں رہنے دیتے
آسماں پر سے مٹا دیتے ہیں تاروں کا سراغ کوئی تصویر مکمل نہیں ہونے پاتی پہلے بھر دیتے ہیں سامان دو عالم دل میں شہر کوراں میں بھی آئینہ فروش آتے ہیں طور سینا ہو کہ آتش کدہ سوز نہاں Thanks to Talat Afroze(Dareecha)
|