میر باقر علی داستان گو، تدوین، عقیل عباس جعفری
جب تک میر باقر علی (۱۸۵۰-۱۹۲۵) زندہ رہے اردو کے نام لیوا انہیں خاطر میں نہ لائے۔ بڑھاپے میں چھالیا بیچتے اور پان کھانے کے آداب سکھاتے پھرے۔ چھوٹی چھوٹی کتابیں خود ہی چھاپیں۔ جتنی میری نظر سے گزری ہیں ان میں داستان کوئی نہیں۔ جو دست یاب نہیں، اور جنہیں زیر تبصرہ کتاب کے تیز و طرار مدوّن بھی نہ ڈھونڈ پائے، ان کے بارے میں کچھ کہنے سے قاصر ہوں۔ شاید وہ بھی داستانوں کے زمرے میں نہ آتی ہوں۔ میر باقر علی کو داستان گو ضرور لکھا جاتا ہے لیکن سچ پوچھیے تو ہمیں مطلق علم نہیں کہ ان کی کہی ہوئی داستانیں کس پائے کی تھیں۔
ہمیں ایک ہندو ناشر، منشی نولکشور، کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے پچاس ساٹھ ہزار صفحے اردو داستانوں کے شائع کر دیے۔ اگر وہ یہ قدم نہ اٹھاتا تو ’’طلسم ہوش ربا‘‘ وغیرہ کا ہمارے لیے نام ہی باقی رہ جاتا۔ فی زمانہ کون دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس نے کسی پرانے پیشہ ور داستان گو کو سنا ہے۔ میر باقر علی کی چند منٹ کی ریکارڈنگ ضرور موجود ہے اور میں نے سنی ہے لیکن اس سے ان کے کمالات کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ اردو کے بیشتر ناشروں، ادیبوں، ناقدوں اور محققوں نے اردو داستانوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا ہے اس کا کیا گلہ کیا جائے (شمس الرحمن فاروقی اور سہیل احمد خاں کی حیثیت استشنائی ہے)۔ میرا محتاط اندازہ ہے کہ انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے دوران میں غیر مطبوعہ اردو داستانوں کے ایک لاکھ کے قریب صفحات ضائع ہو چکے ہیں۔ ان داستانوں کو کسی نے پڑھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ آرزو لکھنوی تک کی داستان بھی ناقدری کے ہاتھوں تباہ ہوئی۔ آپ کو کہیں اس کی ایک سطر بھی پڑھنے کو نہ ملے گی۔ مرزا غالب بھی داستان لکھنا چاہتے تھے۔ کوئی مرّبی ایسا نہ ملا جو انہیں داستان لکھنے کے لیے فرصت بہم پہنچا سکتا۔
خیر، اب میر باقر علی کی تلچھٹ کو یکجا کرنے کی کوشش تو ہوئی۔ اسے غنیمت جانیے۔ جس طرف دیکھا نہ تھا اب تک اُدھر دیکھا تو ہے۔ ان باقیات سے، جن میں تکرار بھی ہے اور جو بائیں ہاتھ کا کھیل بھی معلوم ہوتی ہیں، میر صاحب کی ہنر مندی کا تھوڑا سا اندازہ ہوتا ہے۔ خاص بات جو پتا چلتی ہے یہ ہے کہ میر صاحب نے اپنے گرد وپیش کو نہ صرف بڑے غور سے دیکھا تھا بلکہ اسے بیان کرنے پر بھی قادر تھے۔ ایسی گاڑھی واقعیت نگاری کا مظاہرہ نہ ان سے پہلے کسی نے کیا اور نہ ان کے بعد کوئی کرسکا، گو واقعیت نگاری کے بڑے بڑے دعویٰ دار پیدا ہوے۔ مثال کے طور پر ’’پاجی پڑوس‘‘’’سرائے کا نقشہ‘‘ اور ’’فقیر کا تکیہ‘‘ کو پڑھنا کافی ہو گا۔ اگر وہ چاہتے تو بہت کمال کا ناول لکھ سکتے تھے۔ کم از کم ان سے آپ بیتی تو لکھوائی جا سکتی تھی، دہلی میں سب کے علم میں تھا کہ وہ فن داستان گوئی کے آخری نمائندے ہیں۔بہت سی فضول اردو کتابیں چھپتی رہیں۔ شاید اردو کے بہی خواہوں کا خیال تھا کہ انہوں نے میر صاحب کی زبانی قصے کہانیاں سن کر بڑا احسان کیا ہے۔ کسی دقیانوسی صنفِ ادب کو ، جس کے اجزائے ترکیبی رزم، بزم، ساحری یا طلسم اور عیاری تھے، محفوظ کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔
اس کتاب میں چالیس پچاس صفحوں میں محمود فاروقی اور دانش حسین کا ذکر بھی ہے جنہوں نے آج کل داستان سرائی کا احیا کیا۔ ان کے کارنامے کو سراہا بھی گیا۔ وہ بھارت، پاکستان، امریکہ، دبئی اور سری لنکا میں دو ڈھائی سو سے زیادہ محفلوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کر چکے ہیں، بہر کیف، یہ نکتہ سامنے رہنا چاہیے کہ انہوں نے، باقی ہم سب کی طرح، کسی داستان گو کو سنا نہیں۔ کسی روایتی فن کا تار ایک دفعہ ٹوٹ جائے اور مدتوں ٹوٹا رہے تو اسے کسی طور جوڑا نہیں جا سکتا۔ یہ دونوں نئے انداز سے داستان سناتے ہیں اور اردو ادب کی ایسی صنف کی طرف سامعین کو متوجہ کرنے میں کام یاب رہے ہیں جس سے بہت کم اعتنا کیا گیا ہے۔ تاہم ان کا یہ کہنا مبالغہ آمیز ہے کہ داستانوں کی زبان اتنی مشکل ہے کہ اچھے سے اچھے اردو والے بھی نہیں سمجھ سکتے۔ بالعموم مطبوعہ داستانوں کی زبان طرح دار اور پُرلطف ہے، مشکل نہیں۔ ’’طلسم ہوش ربا‘‘ کا وہ انتخاب ہی دیکھ لیجیے جو محمد حسن عسکری نے کیا تھا۔ ہاں، اگر لوگ اپنے پرانے ادب کو پڑھنا ہی چھوڑ دیں تو ہر چیز مشکل لگے گی۔ داستانوں کو جانے دیجیے، ان لوگوں کو تو نذیر احمد اور سرشار کو پڑھنے میں بھی دقت ہوگی۔
عقیل عباس جعفری بڑے کام کے آدمی ہیں۔ میر باقر علی کی جو تصنیفات انہیں دستیاب ہوئیں وہ اس کتاب میں اکٹھی کر دیں۔ بعض چھوٹے موٹے مضامین شاید اب بھی رہ گئے ہوں۔ کتاب میں یہ تصانیف شامل ہیں: ۱۔خلیل خاں فاختہ۔
۲۔ پاجی پڑوس۔
۳۔گاڑھے خان نے ململ جان کو طلاق دی۔
۴۔ گاڑھے خان کا دکھڑا۔
۵۔ بہادر شاہ بادشاہ کا مولا بخش ہاتھی۔
۶۔ باتوں کی باتیں۔
۷۔ سرائے کا نقشہ
۸۔فقیر کا تکیہ
’’کاناباتی‘‘ چوں کہ مجلسِ ترقیُ ادب، لاہور، سے شائع ہو چکی ہے اس لیے اس کے صرف بعض اجزا شامل کیے ہیں۔ یہی مناسب بھی تھا۔ میر صاحب کا کہنا ہے کہ وہ ’’ہمدرد‘‘ کے لیے بھی مضامین لکھتے تھے۔ اگر کہیں ’’ہمدرد‘‘ کی فائلیں موجود ہوں تو ان مضامین کو بھی ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ خلیل خاں، بیاسی سال کے بوڑھے، طرح طرح کے عوارض میں مبتلا، کسی کم سن اور خوبصورت لڑکی سے شادی کے شدید آرزومند ہیں۔ قصہ کیا ہے، ایک سیاہ کارٹون ہے جس میں خلیل خاں کی وہ درگت بنتی ہے کہ کچھ نہ پوچھیے۔ خیال آتا ہے کہ ممکن ہے یہ پرانی، آخری سانس لیتی ہوئی، تہذیب پر طنز ہو جو خود کو نئے زمانے سے جوڑے رکھنے کے لیے کوشاں ہے۔ مشکل یہ ہے کہ میر صاحب پرانی تہذیب کے دل دادہ تھے۔ اس انداز میں سوچ نہ سکتے تھے۔ لاشعوری طور پر ایسا لکھ گئے ہوں تو اور بات ہے۔ ’’پاجی پڑوس‘‘ کو حقیقت پسندانہ ناولٹ سمجھا جائے تو قرینِ انصاف ہوگا۔ نچلے طبقے کی ایسی عکاسی کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ گاڑھے خان سے متعلق دونوں نیم سیاسی قصے کپڑے بننے کے فن اور کپڑوں کی اقسام کی رعایت سے ایک طویل تلازمہ ہے۔ بعض باتیں اب سمجھ میں بھی نہیں آتیں۔ ’’باتوں کی باتیں‘‘ زبان اور گفتگو کی معنویت پر ایک رسالہ ہے۔ کتاب میں فرہنگ کی کمی محسوس ہوئی۔ لیکن میر صاحب کی ان باقیات کی فرہنگ مرتب کرنا کسی جوکھم سے کم نہ ہوتا۔ جعفری صاحب کتاب کے پروف خود بھی دیکھ لیتے تو بہتر ہوتا۔ –
محمد سلیم الرحمن۔۔۔۔۔
داستان گوئی کا فن اب ہمارے ہاں بالکل ختم ہو چکا ہے۔ دلّی کے آخری داستان گو میر با قر علی تھے جن کے انتقال کو اب 20 برس سے اوپر ہوئے۔ دبلے پتلے سے آدمی تھے، سفید چھوٹی سی داڑھی، سر پر دو پلی، پائوں میں دیسی جوتی، انگر کھا اور چست پاجامہ پہنتے تھے۔ عمر ساٹھ اور ستر کے درمیان، کھلتا ہوارنگ، ستوا سی ناک، میانہ قد، باتیں کرتے تو منہ سے پھول جھڑتے۔ داستان سنانے دور دور جاتے تھے۔ رجواڑوں اور نوابوں کی تقریبات میں بلائے جاتے۔ ایک زمانے میں ریاست پٹیالہ میں داستان سنانے کے لیے ملازم بھی رہے۔ رئیس مر گیا تو دلی واپس آ گئے۔ املی کی پہاڑی پر گھر تھا۔ آخری وقت میں افلاس نے گھیر لیا تھا۔ سینما ایسا چلا کہ میر صاحب کی پرسش ختم ہو گئی۔ دلی کے ہندو رئیس چھنا مل کے ہاں کسی وقت میں چالیس پچاس روپے ماہوار پر ملازم تھے۔ چھنامل والوں کا بیان ہے کہ ہم میر صاحب سے بچپن سے داستان سن رہے ہیں۔ بیس پچیس سال ہو گئے، ایک داستان ہی ختم ہونے میں نہیں آتی۔ میرے بچپن میں میر صاحب فراش خانہ میں داستان سنایا کرتے تھے۔ ہفتے میں ان کا ایک دن مقرر تھا۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ داستان کہتے۔ برسوں یہ سلسلہ جاری رہا۔ داستان کا ایک حصہ سنانے پائے تھے کہ یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ میر صاحب ہمیشہ داستان امیر حمزہ ہی سنایا کرتے تھے۔ ایک نے ان سے پوچھا کہ میر صاحب! یہ داستان کبھی آپ نے ختم بھی کی ہے؟ بولے ’’عمر بھر میں ایک دفعہ‘‘۔
میر صاحب کے آبائو اجداد شاہی داستان گو تھے۔ غالباً انہی میں سے کسی کے متعلق یہ روایت مشہور تھی کہ بادشاہ کو روزانہ داستان سنایا کرتے تھے۔ ایک موقع ایسا آیا کہ عاشق و معشوق کے درمیان صرف ایک پردہ حائل تھا۔ پردہ اٹھ جائے تو وصال ہو جائے۔ مگر داستان گونے احساسات، خیالات اور کیفیات کے بیان میں بارہ سال گزار دیے اور پردہ نہ اٹھا۔ آخر بادشاہ کا اشتیاق بے قابو ہو گیا اور اس نے تنگ آکر کہا ’’آج پردہ اٹھ جانا چاہیے‘‘ تب کہیں وہ پردہ اٹھا۔ میر صاحب کا بھی اسی سے کچھ ملتا جلتا حال تھا۔ بیگم کے بنائو سنگھار میں ایک نشست ختم کر دیتے تھے۔ آراستہ ہونے کی تفصیل، زیورات کی قسمیں، لباس کی قسمیں۔ زیورات کی تفصیل شروع ہوتی تو میر صاحب سیکڑوں نام گنا جاتے۔ پھر یہ بھی بتاتے کہ شاہی بیگمات کے زیور کیا ہوتے تھے۔ درمیانہ طبقے کی خواتین کون کون سے زیور پہنتی تھی۔ بھٹیاریاں، سقنیاں اور مہترانیاں کیا کیا پہنتی تھیں۔
میر صاحب بزم اور رزم کو اس انداز سے بیان کرتے کہ آنکھوں کے سامنے پورا نقشہ کھنچ جاتا۔ داستان کہتے جاتے اور موقع بہ موقع ایکٹنگ کرتے جاتے۔ آواز کے زیروبم اور لب و لہجہ سے بھی اثر بڑھاتے۔امیر حمزہ اور عیاروں کا جب بیان کرتے تو ہنساتے ہنساتے لٹا دیتے۔ ہتھیاروں کے نام گنانے شروع کرتے تو سو ڈیڑھ سونام ایک سانس میں لے جاتے۔ پھر کمال یہ کہ نام صرف طوطے کی طرح رٹے ہوئے نہیں تھے بلکہ آپ جب چاہیں، ٹوک کر کسی ہتھیار کی شکل اور اس کا استعمال دریافت کر سکتے تھے۔ میر صاحب پوچھنے سے چڑتے نہ تھے، بلکہ خوش ہوتے اور تفصیل سے بتاتے۔ مثلاً منجنیق کو بیان کرنے ہی میں پندرہ منٹ صرف کر دیے۔ عورت کا حسن بیان کرنے پر آئیں تو زمین آسمان کے قلابے ملا دیں۔ اور کچھ نہیں تو چال کی ہی سیکڑوں قسمیں بتاتے۔ بیگم بن سنور کر ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں آ رہی ہیں۔ ڈیڑھ گھنٹہ ہو گیا، بیگم دہلیز نہیں پھلانگتیں۔ پھر کیا مجال کہ آپ میر صاحب کے بیان سے اپرانے یا اکتانے لگیں۔ انھوں نے یہ وسیع معلومات بڑی محنت سے حاصل کی تھیں۔ ہر علم کا انھوں نے باقاعدہ مطالعہ کیا تھا۔ استادوں سے باقاعدہ سیکھا تھا۔ اور تو اور جب دلی میں طبیہ کالج کھلا تو میر صاحب نے ساٹھ سال کی عمر میں اس میں داخلہ لیا اور لڑکوں کے ساتھ بیٹھ کر پڑھنے لگے اور وہاں سے فارغ التحصیل ہونے کی سند بھی حاصل کی۔ میر صاحب کی داستان جہاں ہوتی وہاں اجلی اجلی چاندنیوں کے فرش بچھ جاتے۔ میر صاحب کے لیے ایک چھوٹا ساتخت بچھا دیا جاتا۔ اس پر قالین اور گائو تکیہ ہوتا۔ سامعین گائو تکیوں سے لگ کر بیٹھ جاتے۔ پان اور حقے کا دور چلتا رہتا۔ گرمیوں میں شربت اور جاڑوں میں چائے سے تواضع کی جاتی۔ میر صاحب تخت پر براجمان ہوتے۔ کٹورے یا گلاس میں پانی منگواتے۔ جیب میں سے چاندنی کی ڈبیا اور چاندی کی چھوٹی سی پیالی نکالتے۔ ڈبیا میں سے افیون کی گولی نکالتے۔ اسے روئی میں لپیٹتے، پیالی میں تھوڑا سا پانی ڈال کر انٹے کو اس میں گھولتے رہتے اور دوستوں سے باتیں کرتے رہتے۔ جب ساری افیون دھل کر پانی میں آجاتی تو روئی اگال دان میں پھینک دیتے اور گھولوے کی چسکی لگا لیتے۔ اس کے بعد چائے کا ایک گھونٹ پیتے۔ فرماتے ’’چائے کی خوبی یہ ہے کہ لب بند، لب ریز اور لب سوز ہو۔‘‘ پھر داستان شروع کر دیتے۔ –
شاہد احمد دہلوی
دلّی میں کہیں داستان کہنے جاتے تو دور روپے لیا کرتے ،پھر ایک دور ایسا آیا کہ لوگوں کو دو روپے بھی اکھرنے لگے تو میر صاحب نے اپنے گھر پر داستان کہنی شروع کر دی اور ایک آنہ ٹکٹ لگا دی۔ دس بیس شائقین آجاتے اور میر صاحب کو روپیہ سوا روپیہ مل جاتا۔ بعض دفعہ سامعین کی حسب ِفرمائش کسی ایک پہلو کو بیان کرتے۔ کو ئی کہتا میر صاحب آج تو لڑائی کا بیان ہو جائے اور میر صاحب رزم کو اس تفصیل کے ساتھ پیش کرتے کہ آنکھوں کے سامنے میدان جنگ کا نقشہ آ جاتا۔ کوئی کہتا میر صاحب آج تو عیاریاں بیان ہو جائیں اور میر صاحب عیاروں کے کارنامے بیان کرنے لگتے۔
میر محمود علی صاحب نے بتایا کہ کلکتہ میں ایک دفعہ لکھنؤ کے ایک داستان گو کی دھوم مچی۔ ایک دن ہم بھی سننے گئے تو دیکھا کہ داستان گو کے آگے کتاب کھلی دھری ہے۔ اس میں سے پڑھتے جاتے ہیں اور بہت جوش میں آتے ہیں تو ایک ہاتھ اونچا کر لیتے ہیں۔ طبیعت بڑی مکدر ہوئی۔ جی چاہا کہ کسی طرح میر باقر علی یہاں آجاتے تو کلکتہ والوں کو معلوم ہوتا کہ داستان گوئی کسے کہتے ہیں۔ نہ سان نہ گمان، اگلے دن کیا دیکھتے ہیں کہ کو لو ٹولہ میں میر صاحب سامنے سے چلے آتے ہیں۔ معلوم ہوا اپنے کسی کام سے آئے ہیں۔ قصہ مختصر میر صاحب کی داستان ہوئی اور لکھنوی داستان گو ہاتھ جوڑ جوڑ کر کہتا تھا ’’حضور یہ اعجاز ہے، حضور یہ آپ ہی کا حصہ ہے۔‘‘ جب داستان سننے والوں کا قحط ہو گیا تو میر صاحب نے چند کتابیں لکھیں۔ مثلاً گاندھی جی کھادی تحریک کے زمانے میں ایک کتابچہ ’’گاڑے خاں نے ململ جان کو طلاق دے دی‘‘، ’’ پاجی پڑوس‘ ‘ ، ’’مولا بخش ہاتھی‘‘ اور ایسی ہی چھوٹی چھوٹی کتابیں کئی لکھی تھیں، جو ایک بار چھپنے کے بعد پھر نہیں چھپیں۔ اکثر رسالوں میں ان کے مضامین کو شائع ہوئے، مگر جو لطف ان کی تقریر میں تھا، تحریر میںنہ آسکا۔ میر با قر علی اپنے نانا میر پیڑا کے شاگر دتھے۔ جن بزرگوں نے میر پیڑا کی داستانیں سنی تھیں کہتے تھے کہ با قر علی کی داستان ان کی پاسنگ بھی نہیں تھی۔ غالباً فرق یہی ہو گا کہ وہ بارہ سال تک پردہ پڑا رہنے دیتے ہوں گے، میر باقر علی سال دو سال میں پردہ اٹھا دیتے تھے۔ بڑھاپے میں ناقدری اور کسمپرسی کے ہاتھوں میر صاحب کو بڑی تکلیف پہنچی۔ دلّی کا کامل الفن آخری داستان گو اپنا پیٹ پالنے کے لیے چھا لیا بیچتا تھا؎ اے کمال افسوس ہے، تجھ پر کمال افسوس ہے –
شاہد احمد دہلوی
ایک مرتبہ شریف منزل میں حکیم اجمل خاں کے دیوان خانے میں حکیم صاحب کے احباب جمع تھے۔اچانک حکیم صاحب نے کہا ’’میر صاحب یہ ہن برسنا کیا محاورہ ہے۔ روزمرہ میں کتنی بار ہم کہتے ہوں گے، لیکن یہ کبھی نہیں سوچا کہ ہن ہے کیا‘‘ باقر علی میر صاحب نے نہایت شائستگی سے جواب دیا۔ مسیح الملک آپ کے صدقے جائوں میں تو آپ کی خاکِ پا بھی نہیں، عرض کرتا ہوں۔ ہن ایک سونے کا سکہ ہے جو قطب شاہی بادشاہوں کے زمانے میں چلتا تھا اور سونے کے سکوں میں سب سے چھوٹا سکہ ہوتا تھا۔ حضرت عالم گیر نے جب دکن کا قصد کیا تو دلّی کے البیلوں نے جانے سے انکار کیا، مگر چونکہ یہ افواہ مشہور ہو گئی تھی کہ دکن میں ہن برسا ہے، اس لالچ سے سب بادشاہ کے ساتھ ہو لیے-
پھر کسی نے پوچھا کہ میر صاحب یہ خط طغرا کیا بلا ہے؟ میر صاحب مسکرائے اور ایک ادائے خاص سے بولے طغرا ایک جانور نما پرندہ کا نام ہے، جس کی ہم شکل طغر ا لکھا جاتا ہے اور یہ پروں کی مثال ہوتاہے۔ لفظ طغرا کو ط کی زیر سے پڑھیں تو یہ ملے ہوئے کے معنی دیتا ہے۔ یہ خط ایک پیچیدہ خط ہے جس کو اکثر بادشاہ اپنے فرمانوں میں استعمال کرتے تھے۔
میر صاحب کھرے سید تھے۔ کھری کھری سناتے تھے۔ گھر ہو یا باہر، دستر خوان پر آداب حرکت کی اور میر صاحب نے سرِ محفل ہاتھوں ہاتھ لیا۔ دستر خوان پر ہزار نعمتیں ہوتیں، لیکن میر صاحب کی عادت تھی کہ پہلا اور آخری لقمہ نمک کا لیتے۔ کوئی پوچھتا تو کہتے اصل تو نان و نمک ہی ہے۔ میر صاحب کہیں مدعو ہیں دستر خوان سجا ہوا ہے۔ ایک طائرانہ نظر ڈالی کہیں کسی چیز کی کمی نظر آئی تو صاحب خانہ کو ٹوک دیا میاں دنیا بھر کی نعمتیں ہیں مگر ’’سقل دان‘‘ نہیں۔ میزبان نئے خیالات کا تھا اور اُس نے پوچھ لیا کہ ’’سقل دان‘‘ کیا؟ تو بھری محفل میں سمجھانا شروع کیا ’’میاں یہ مثل مرتبان کے ہوتا ہے اور اُوپر اُس کے ڈھکنا۔ یہ دستر خوان پر رکھا جاتا ہے کہ ایسی شے جیسے ہڈی وغیر ہ اس کے اندر ڈال دی جائے۔ میاں کیا تم ہڈیاں بھی کھا جاتے ہو۔ یاد رکھو ہڈی کو منہ نہ لگائو اس سے پتھری کا مرض پیدا ہوگا اور اس تنبیہ و تاکید کے بعد میر صاحب کوئی چھوٹی غوری یا طشتری طلب کرتے اور بائیں جانب دستر خوان سے ذرا ہٹا کر اپنے قریب رکھ لیتے۔ نوالے میں کوئی ہڈی کا ٹکڑا آیا، انھوں نے انتہائی نفاست سے اسے نکالا اور لوگوں کی نظریں بچا کر اس میں ڈال دیا۔
شاہد احمد دہلوی