(انتظار حسین-بدھ کا دوسرا چیلا (ایک ذاتی تا ثر
ڈاکٹر ستیہ پال آنند
گذشتہ صدی کے آخری برس میں میرے لاہور کے ایک ہفتے کے قیام کے دوران انتظار حسین صاحب نے میری تتھا گت نظموں کے حوالے سے مجھے کہا : ”اگر آپ کا یہ دعوےٰ ہے کہ آپ مہاتما بدھ کے پہلے چیلے آنند کی نسل سے ہیں تو میرا یہ کلیم بھی نوٹ کر لیں کہ میں بدھ کا دوسرا چیلا ہوں۔“ … لاہور سے واپسی پر ایک مہمان اداریے کے طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اردو مجلے ”کتاب نما“ میں میرا سفر نامہ شایع ہوا تو متعدد قارئین نے مجھ سے یہ استفسار کیا کہ انتظار حسین صاحب کے اس عجیب ’کلیم‘ کی کہانی کیا ہے …
لوگ آج تک یہ بات پوچھتے نہیں تھکتے کیونکہ انتظار بھائی جان یہ بات کہتے نہیں تھکتے تھے۔ دو برس پہلے بھی کراچی میں آرٹ سنٹر میں میری اسٹیج پر موجودگی میں انتظار بھائی صاحب نے مائیکرو فون پریہی با ت دہرائی۔اور پھر لاہور میں پچھلے برس اکادمی ادبیات کے لاہور دفتر میں میری کتاب ”کتھا چار جنموں کی“ کے اجرا کے سلسلے میں منعقدہ ایک نشست کی صدارت کرتے ہوئے اپنی تقریر میں ایک بار پھر انہوں نے یہی بات کہی۔ سامعین نے اس کا زیادہ نوٹس نہیں لیا کہ معروف غزل گو شاعر ظفر اقبال صاحب کی موجودگی اور دوسرے دن میری ذات کے حوالے سے ان کے ایک کالم ”ستیہ پال آنند کی مشکل“ کی وجہ سے یہ اجلاس دوستی اور عناد کا ایک عجیب سا مرقع بن کر رہ گیا۔ لیکن بعد میں انتظار بھائی صاحب نے چائے کے وقفے کے دوران دیگر دوستوں کے سامنے اس کی وضاحت اس طرح کی:
”اگر میں ”جاتک کتھائیں“ اور بدھ مت کے بارے میں دیگر کتب نہ پڑھتا یا ہرمن ہسّے کی کتاب ”سدھارتھ“ کا مطالعہ نہ کرتا تو شاید یہ بات نہ کہتا۔ اب سوچتا ہوں کہ میری طبیعت میں حلم و انکسار کا تو شاید اتنا نہیں، لیکن انسان دوستی ، عالمی بھائی چارے او ر ”اہنسا پرمو دھرما‘ ‘ کا عنصرشاید مجھ پر بدھ مت کی تعلیمات کی وجہ سے ہے۔ “
مجھ سے سات آٹھ برس بڑے ہونے کی وجہ سے میں انہیں ہمیشہ’ انتظار بھائی جان ‘ کہتا اور وہ بھی میرے ساتھ شفقت سے پیش آتے۔ جب میری انگریزی کتاب “ون ہنڈرڈ بدھاز” انہوں نے پڑھی تو اس پر ایک کالم روزانہ ایکسپریس میں لکھ کر بھی یہی بات دہرائی کہ فی زمانہ مہاتما بدھ کی تعلیمات پر چلنے کی از حد ضرورت ہے۔ کچھ برس پہلے دہلی میں ساہتیہ اکادمی کے سیمینار میں چائے کے وقفے کے دوران اکادمی کے کتب خانے میں بیٹھے ہوئے میں نے یہ موضوع چھیڑ دیا تو کہنے لگے ڈبائی (بلند شہر) میں بچپن کے بعد میرٹھ کالج تک پہنچتے پہنچتے ان کا یہ یقین پختہ تر ہو گیا تھاکہ فی زمانہ بدھ کی تعلیمات اور مہاراجہ اشوک کی پتھر کی تختیوں پر کندہ تحریریں ہی انڈیا اور پاکستان کو پانڈووں اور کورووں کو اس فی زمانہ ’مہابھارت‘ سے نجات دلا سکتی ہیں، کہ اس مہابھارت میں …. اور تب خدا جانے کیسے مجھے ساحر لدھیانوی کا ایک مصرع یاد آ گیا تھا …”عجب نہیں کہ یہ پرچھائیاں بھی جل جائیں!“
بستی“ ، ”ہندوستان سے آخری خط“، ”آگے سمندر ہے“، ”شہر افسوس“ ، وہ جو کھو گئے“ … یہ کتابیں یا ان جیسی دیگر کتب تو فکشن کے زمرے میں آتی ہیں لیکن ”جاتک کتھائیں“ براہ راست بدھ مت کی باقیات سے ماخوذ ہے۔
”آپ کے پچاس سے زیادہ افسانے …، “ ایک بار میں نے ان کی ناراضی کی پرو ا نہ کرتے ہوئے انہیں کہا تھا ، ” …شاید آپ کے ناولوں سے زیادہ معتبر ہیں۔“ بولے،”وہ کیسے؟“ میں نے پھر کچھ اور ہمت بٹورتے ہوئے کہا تھا، ”وہ اس لیے کہ آپ کے سبھی ناول “ایپی سوڈک” ہیں، یعنی واقعات کے مجموعے ہیں، جنہیں مضبوطی سے جوڑنے کی کوشش تو ضرور کی گئی ہے لیکن کئی بار یہ کوشش کامیاب نہیں ہوئی کہ آپ بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں، ناول نگار نہیں۔
کہہ تو میں گیا تھا اور کچھ ناراض بھی، اب مجھے لگتا ہے، ہوئے ہوں گے، کیونکہ فوراً اٹھ کر بولے، ”چلو اجلاس کا وقت ہو گیا ہے“…. لیکن مجھ میں وہ جو ایک ضدی بچہ ہے جس نے انہیں ”بھائی جان“ یعنی بڑا بھائی تسلیم کر لیا تھا، کہاں رہ سکتا تھا! اس لیے میں نے پھر پوچھا، ”آپ کا کیا خیال ہے؟“ بولے، ”سوچنے کی بات ہے، لیکن آپ پہلے شخص نہیں ہیں، جس نے یہ بات کہی ہے۔“
تو گویا، نصفا نصف ہی سہی، وہ یہ بات مان گئے تھے کہ وہ بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں اور ناول لکھتے ہوئے بھی ان کا ذہن ثانی یہ بات فراموش نہیں کرتا۔ لیکن اب ان کی وفات کے فورا بعد یہ لکھتے ہوئے مجھے تامل ہو رہا ہے کہ پاکستان کے ادبی ماحول میں (یا ادبی سیاست میں) انہوں نے اپنے لا شعور کی کسی سطح پر یہ ضرور دیکھ لیا ہو گا کہ متحدہ ہندوستان میں ترقی پسند تحریک کے زمانے میں تو نصف درجن یا اس سے بھی زیادہ افسانہ نگار (بیشتر کا تعلق پنجاب سے تھا ! مثلاً منٹو، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، بلونت سنگھ ، اپندر ناتھ اشک وغیرہ) تو معروف و مقبول ہوئے اور تقسیم کے بعد بھی ، یعنی ان کی وفات تک، ان کا سکہ رائج الوقت رہا لیکن اس کے بعد جو شہرت پاکستان نے ناول نگاروں کے حصے میں آئی، وہ پاکستان کے افسانہ نگاروں کی جھولی میں نہیں پڑی…. تو (خود کو دہرا رہا ہوں) انہوں نے یہ ضرور محسوس کیا ہو گا کہ شہرت دوام کے لیے ناول نگاری ضروری ہے۔
انٹرنیشنل مین بکر پرائز کی کہانی بھی کچھ عجیب سی ہے۔ وہ شارٹ لسٹ ضرور ہوئے تھے،اور پاکستان میں اس بات پر شادیانے ضرور بجائے گئے تھے، لیکن مغرب میں گذشتہ چالیس برسوں سے رہتے ہوئے اور یورپ (خصوصی طور پر لنڈن) کے ساتھ اپنے روابط تازہ رکھتے ہوئے مجھے بہت پہلے اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ بیل سرے چڑھنے والی نہیں۔ میں نے ان کے اور اپنے ایک مشترکہ دوست ڈاکٹر گوپی چند نارنگ سے بھی فون پر اس بات کا تذکرہ کیا تھا۔ انہوں نے پوچھا تھا، ”کیوں؟“ تو میرا جواب وہی تھا، جو مرحوم وزیر آغا صاحب کے نوبیل پرائز میں شارٹ لسٹ ہونے کے بارے میں تھا اور جس کے بارے میں ” بوجوہ” پاکستان میں کسی نے کھسر پھسر بھی نہیں کی تھی۔ میں نے نارنگ صاحب سے کہا تھا۔ ایک تو ترجمہ کی خامیاں کہ یہ لگ بھگ ”بابو انگلش“ میں کیا گیا ہے اور دوسرے اس میں وہ عنصر نہیں ہے، جو کسی بھی تیسری دنیا کے ناول نگار کو مغربی نقادوں کی نظروں میں ممتاز بناتا ہے، یعنی سیاسی، سماجی، معاشرتی اور پدری سماج کی نا انصافیوں کے (خصوصی طور پر پاکستان میں) کھلم کھلا چلن کے خلاف احتجاج۔
چہ آنکہ میں نے اپنی خود نوشت ”کتھا چار جنموں کی“ میں وزیر آغا صاحب کے، نوبیل پرائز امیدواران کے شارٹ لسٹ نمبر تین پر ہونے کے چوبیس گھنٹے بعد ہی بیسویں نمبر پر گر جانے کی پوری کہانی بیان کی ہے، لیکن میں انتظار بھائی جان کی وفات کے فوراً بعد،یعنی آج کے دن ، مین بکر پرائز جیتنے میں انتظار بھائی صاحب کی ناکامی کا اس سے زیادہ ذکر نہیں کر سکتا ، کہ وجوہ غیر ادبی بھی ہو سکتی ہیں۔