Excerpt: Paleeta by Paigham Afaqui – اقتباس – پلیتہ از پیغام آفاقی
’اپنے پردادا کے کالا پانی بھیجے جانے والا واقعہ سہیل کے دل و دماغ میں بچپن سے ہی کھٹکتا تھا۔ اس کے تصور میں الثر ایک نوجوان ایک لق و دق ویرانے میں بھوکا پیاسا بھٹکتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ اس زمانے سے جب بھی گھر میں اس واقعہ کو دہرایا جاتا تو اس کی روح میں ایک سنامی سا اٹھنے لگتا۔ اس سنامی میں اسے ایک جزیرے پر ایک پچیس چھبیس سال کا مجبور نوجوان دنیا کے لوگوں سے آزادی اور زندگی کی بھیک مانگتا دکھائی دیتا تھا۔ وہی واقعہ اس کے اندر ایک بیج سے پورا برگد کا پیڑ بن گیا۔ ‘ مجاور کی آنکھوں میں بھی اس واقعہ کا تصور کر کے سیاہ شعلے لہرا رہے تھے۔ ’ویسے بھی یہ بات کسی بھی سننے والے کے لئے انتہائی تعجب خیز تھی۔ ہر شخص یہی سوچتا تھا کہ انگریزی سرکار سے اتنی بڑی غلطی کیسے ہو گئی تھی۔ ایک کتے کے قتل کے مقدمے میں ایک شخص کو اتنی بڑی سزا ہو جائے یہ کیسے ہو سکتا تھا۔ یقین کرنے والی بات نہیں تھی۔ لیکن پورے گاؤں والے جانتے ہیں کہ اب سے لگ بھگ ڈیڑھ سو سال قبل یہ ہوا تھا۔ لوگ بتاتے ہیں کہ کلکتہ جا کر وائسرائے تک کے یہاں سب کچھ صاف صاف لکھ کر دیا گیا تھا پھر بھی کچھ نہیں ہوا۔ ‘ خالد ابھی پانچ سال کا بچہ تھا جب اس نے کسی کو یہ کہتے سنا کہ جب کالا پانی جانے سے پہلے لوگوں نے جا کر میر علی کو سب سے بڑی عدالت میں بھی ان کی اپیل رد ہونے کی خبر دی تو یہ خبر سن کر ایک لمحے میں ان کی آنکھیں اندر دھنس گئی تھیں او ر وہ بچوں کی طرح چاروں طرف ایسے دیکھنے لگے تھے جیسے دنیا کو پہلی بار دیکھ رہے ہوں۔ یہ سنتے ہی خالد بے چینی کے عالم میں سامنے پڑے سامان اٹھا اٹھا کر پھینکنے لگا تھا۔ تب سے لوگ اس کے سامنے اس واقعہ کا ذکر کرنے سے کترانے لگے تھے۔ کالا پانی جانے کے بعد ان کے بارے میں کچھ سننے کو نہیں ملا تھا۔ یہ ضرور سنا گیا تھا کہ وہاں کچھ قیدیوں نے قیدی عورتوں سے شادیاں بھی کی تھیں۔ سوال یہ تھا کہ کیا انہوں نے شادی کی تھی۔ سزا کے وقت ان کی عمر ہی کیا تھی۔ اور خوبصورت اتنے تھے کہ کئی کہانیاں محض ان کے نقش قدم سے پیدا ہو کر ان کو پریشان کر چکی تھیں۔ انتہائی شریف اور شرمیلے لیکن پھربھی بدنامیوں سے جان نہیں بچی تھی۔ بات اب اتنی پرانی ہو چکی تھی کہ ان سوالوں کی قصے کہانیوں سے زیادہ اہمیت نہیں رہ گئی تھی۔ خالد کے گھر میں کئی اسلحے جیسے تلواریں،برچھیاں او ر ڈھال وغیرہ اور کئی زرہ بکتر جو میر علی سے وابستہ تھے بڑے احتیاط اور توجہ سے دیواروں پر لٹکا کر رکھے گئے تھے او ر ان میں سے کئی ایک سے ان کی بہادری کی شاندار داستانیں وابستہ تھیں۔ خالد سہیل کو بچپن سے ہی بہادری اور بدقسمتی کی یہ کہانیاں سنتے سنتے میر علی کی کی یادوں سے گہرا لگاؤ ہو گیا تھا۔ خالد کو اب محسوس ہوا کہ ایسی بہت سی باتیں تھیں جنہیں اس کو جاننا چاہئے تھا لیکن وہ نہیں جانتا۔ اس نے اپنے والد سے شکایت کے لہجے میں کہا۔ ’ابا، مجھے آپ لوگوں نے کبھی یہ واقعہ ٹھیک سے نہیں بتایا کہ پردادا کالا پانی کیوں بھیجے گئے۔ ‘ اس کے والد شیخ عبدالرحمان بن خدا بخش بن میر علی سنجیدہ ہو گئے او ر اس دن انہوں نے بیٹے کو تفصیل کے ساتھ سب کچھ بتایا۔ ’واقعہ کچھ یوں ہوا تھا کہ اس بستی میں ایک ایسا خاندان تھا جو سہیل کے خاندان کے مقابلے میں کمزور تھا۔ سہیل کا خاندان اب سے تین پشتوں پہلے پورے علاقہ میں اپنے دبدبہ کے لیے جانا جاتا تھا اور یہ خاندان اس دوسرے خاندان کو کئی موقعوں پر زیر کرتا آیا تھا۔ جب وہ دوسرا خاندان اپنے مقصد میں کسی طرح کامیاب نہیں ہو پایا تو اس نے ایک انوکھی سازش رچی۔ اس خاندان نے ایک کتا پالا اور اس کا نام چندو رکھا۔ جب وہ کتا اپنے نام سے مشہور ہو گیا تب ایک دن رات کے وقت انہوں نے کتے کو بھالے سے مار ڈالا۔ چوکیدار سازش میں شامل تھا۔ اس نے تھانے میں رپورٹ درج کرائی کہ میر علی نے چندو کو بھالا مار کر ہلاک کر دیا۔ چندو کے باپ کی جگہ اس کے مالک کا نام لکھوایا جو چند و کو بیٹا کہہ کر پکارتا تھا۔ چوکیدار کے رپورٹ کا سہارا لے کر داروغہ نے چوکیدار کی طرف سے قتل کا مقدمہ درج کر دیا اور تفتیش کو شدید بارش کا موسم ہونے کے بہانے التوا میں رکھ دیا۔ مقدمہ خاموشی کے ساتھ کاغذ پر پڑا رہا اور تفتیش میں تاخیر ہوتی رہی۔ اسی درمیان داروغہ نے میر علی کو مفرور قرار دے دیا اور عدالت سے میر علی کی گرفتاری کا وارنٹ نکلوا لیا۔ اس کے بعد میر علی کو اپنے کاغذوں میں مزید مفرور دکھاتے ہوئے یک طرفہ مقدمہ جاری رکھا گیا۔ یک طرفہ عدالتی کار روائی میں میر علی کو سزائے موت سنا دی گئی۔ سزائے موت سنائے جانے او ر اپیل کی مدت گزرنے کے بعد ایک دن ایک پولیس پارٹی میر علی کے گھر پہنچی اور انہیں حراست میں لیکر کسی دوسری جگہ کے جیل میں بھیج دیا۔ میر علی کے خاندان والوں نے مقدمہ کی پیروی شروع کی لیکن تب تک اپیل کی مدت گزر چکی تھی اور پھانسی کی سزا کنفرم ہو چکی تھی۔ جب کہانی کی اصلیت پولس کے اعلی حکام اور عدالت کو بتائی گئی تو پولس اور عدالت نے ہر قدم پر مزاحمت شروع کر دی کیونکہ بقول ان کے اس سے عدالت اور انتظامیہ کی بڑی بدنامی ہونے کا اندیشہ تھا لیکن بعد میں یہ اندازہ ہوا کہ یہ بھی صرف ایک بہانہ تھا کیونکہ سچائی کے سامنے آنے کے باوجود ایک دن عدالت نے سزائے موت کو سزائے کالا پانی میں تبدیل کر کے انہیں کالا پانی بھیج دیا۔ دلی اور دوسری جگہوں پر سرکاری، نیم سرکاری اور بڑے تجارتی گھرانوں کی طرف سے اپنے اوپر تمام دروازے بند ہونے کے بعد خالد کو احساس ہوا کہ اس سطح پر مفاد اور پالیسیوں کی ایک گٹھ بندھن موجود ہے لیکن ابھی بھی اسے یہ علم نہیں ہوا تھا کہ یہ گٹھ بندھن اتنا وسیع ہے کہ یہ گاؤں گاؤں تک پھیلا ہوا ہے۔ چونکہ وہ کم عمری میں ہی دلی کے ایک ہوسٹل میں آ گیا تھا اس لئے وہ گاؤں کے بارے میں زیادہ جانتا بھی نہیں تھا۔ لیکن اب اسے اس بات کا ادراک ہو رہا تھا کہ اس نے شہر میں جس چیز کے وجود کو محسوس کیا تھا وہ صرف گلیسیر کا اوپری حصہ تھا اور یہ نہ صرف ہر جگہ موجود تھی بلکہ اس کی جڑیں تاریخ کے اندر بھی بہت دور تک گھسی ہوئی تھیں۔ لیکن اس انکشاف نے اس کے حوصلے کو پست یا کمزور کرنے کے بجائے اس کے ارادے کو اور مضبوط کیا۔ اور اسے اس بات سے اطمینان حاصل ہوا کہ ایک اندیکھی چیز اس کے علم کا حصہ بن رہی تھی۔ اس نے اپنے ذہن کو اور مضبوطی سے اپنے نشانے پر مرکوز کیا۔ اسے یاد آ رہا تھا کہ جن لوگوں نے عظیم کارنامے انجام دئے ہیں ان کے سامنے مہم کے آغاز کے بعد مخالف قوتیں بتدریج زیادہ وسیع ہو کر سامنے آتی رہی ہیں۔ .خالد کے نازک ہاتھ جس ڈھانچے کے ٹٹول رہے تھے وہ اندر سے ایک ایسی چکی تھی جس میں حکمرانوں سے لیکر مزدوروں تک سبھی کولہو کے بیل کی طرح جتے ہوئے تھے۔ یہ ایک مشین تھی جس میں فرد کی کوئی اہمیت تھی۔ جو شخص اس میں جہاں داخل ہو جاتا تھا وہیں بے دست وپا ہو کر اس مشین کی دی ہوئی زندگی کو جینے پر مجبور ہو جاتا تھا اور رفتہ رفتہ اسی رنگ میں رنگ جاتا تھا۔ مختلف عہدوں او ر پیشوں کی طرح اس مشین میں جتے ہوئے لوگوں کو ظالم اور مظلوم کا کردار بھی یہ مشین ہی عطا کرتی تھی۔ اس میں کوئی ایسا نہیں تھا جو ہمیشہ حاکم رہا ہو، کوئی ایسا نہیں تھا جو ہمیشہ بڑا تاجر رہا ہو۔ بس جس کو جو دنیا جتنی دیر کے لئی مل جاتی تھی وہ اسی دنیا میں مگن ہو جاتا تھا۔ یہی تو اس نظام کا کمال تھا کہ اس میں مواقع سب کو ملے ہوئے تھے۔ دائمی پسِ منظر میں اپنی آنے والی اولاد تو دور خود اپنے ریٹائرمنٹ کے بعد کے دنوں تک کی کسی کو فکر نہیں تھی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کے سوچنے سے کچھ نہیں ہونے والا تھا۔ اس مکمل نظام کو سدھارنے کی سوچ تو صرف خالد سہیل جیسے کسی غیر معمولی انسان کے ذہن میں ہی جگہ پاسکتی تھی۔ اور خالد اب اس بھول بھلیوں والی کائنات کے دروازے کے پٹ کھول رہا تھا۔