پلیتہ
پیغام آفاقی
Hardcover: 600
|
پیغام آفاقی اردو دنیا میں افسانہ نگار،مضمون نویس اور ناول نگار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ پیغام آفاقی کا پہلا ناول ’مکان‘ تقریباً دو دہائی قبل شا ئع ہوا تھا۔ ’مکان‘ کی اشاعت نے پیغام آفاقی کو ایک سنجیدہ ناول نگار کے طور پر اسٹیبیش کیا تھا۔ اس ناول کو سنجیدہ ادبی حلقوں میں بہت پسند کیا گیا تھا لیکن اس کے بعد پیغام آفاقی ناول کے افق سے غائب رہے جس کا ملال ان کے دوستوں اور قارئین کو ضرور ہو اہوگا۔ پیغام آفاقی اب اپنے دوسرے ناول ‘ پلیتہ ‘ کے ساتھ ہمارے سامنے وارد ہوئے ہیں-’ یہ بازگشت کالا پانی کی سزا کاٹنے والے افراد ، انگریز سامراج کی سیاہ کاریاں اور اس پس منظر میں موجودہ سماجی اور سیاسی زندگی کی سنگلاخی اور سفاکی کا قصہ ہے۔ ’پلیتہ‘ کی کہانی خالد سہیل کی پراسرار موت کے رمز سے شروع ہوتی ہے۔ خالد سہیل کی موت کے بعد اس کے کمرے سے کچھ تحریریں دستیاب ہوتی ہیں جن سے یہ احساس ہوتا ہے کہ خالد کی موت کے ساتھ ان تحریروں اور اس کے خیالات کا کوئی نہ کوئی رشتہ ضرور ہے۔ ناول نگار قاری کو اس دنیا کی سیر کرانے لے جاتا ہے جسے کالا پانی کہتے ہیں اور جہاں خالد نے زندگی کی ایس تصویر دیکھی تھی جس کا اظہار، شفافیت کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود سامراجی تصوارت کی بنائی ہوئی مہذہب دنیامیں نہیں کیا جاتا۔ یہ بہ ظاہر مذہب کہی جانے والی دنیا دراصل ظلم ،مفادات کے حصول کے لیے استحصال اور محکوم اقوام پر مظالم سے عبارت ہے۔ یہ سفاک حقیقت نگاری ہے جو پیغام آفاقی کو انگریزی ناول نگار جارج اورئیل کے ناول 1984 کے قریب لے آتی ہے۔ پیغام آفاقی کا بیانیہ اس ناول کی طاقت ہے جو انتہائی باریک بینی سے انگریز سامراج کی فلسفیانہ بنیادوں میں دبی ہوئی غیر انسانی اخلاقیات کا پردہ فاش کرتا ہے۔ خالد سہیل کی موت کے پس منظر میں اس بات کو دیکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ وہ اپنے دادا امیر علی کی زندگی کے حالات کی دریافت کے لیے انڈومان جاتا ہے۔ وہ اپنے دادا کے خلاف ہونے والے مقدمے کو ایک تاریجی لڑائی میں تبدیل کرنے کا متمنی تھا۔ لیکن اسے اس بات کا قطعی گمان نہیں تھا کہ اس کوشش میں اس کے ہاتھ ایک ایسا مقدمہ آئے گا جس کے سرے پوری انسانی تاریخ میں سمائے ہوئے ہوں گے۔ یہ حقیقت اور اس کا انکشاف کروڑوں افراد کی زندگی کی سنگین داستانوں سے اسے روشناس کرے گا۔ جن کا مداوا فلسفیانہ افکار کی نئی تفسیر اور تعبیر میں تلاش کیا جانا چاہیے ایک ایسا فلسفہ جو آج کی زندگی کی سچائیوں میں آدمی کو تھام سکے ، آدمی کو آدمی رہنے کی اجازت دے سکے۔ پیغام آفاقی نے بیانیہ کی رو میں یہ بھی لکھ دیا ہے کہ خا لد ’’تو دراصل اس بڑے واقعہ (کالا پانی) میں اپنے ہی موجودہ معاشرے اور ملک کو دیکھ رہا تھا البتہ اس کو اس وقت اس کا بالکل شعور نہیں تھا۔‘ ‘ناول آگے چل کر سول سوسائٹی کی اساس اور آدمی کی بے وقعاتی پر سوالا ت قائم کرتا ہے جن سے قاری خود کو نہ صرف مربوط کرتا ہے بلکہ یہ محسوس کرتا ہے کہ جس طرح کے ‘سو کولڈ جمہوری نظام’ میں وہ جی رہا ہے اس میں اس کی حیثیت ایک قیدی کے اور کچھ نہیں ہے – اس کے حقوق، ‘پلیتہ‘ کی سنجیدہ قرات کے دوران قاری ہر اس مسئلے کو محسوس کرتا ہے جو اس کے اردگرد آج موجود ہے۔ سیاسی بے حسی، انسانی حقو ق کی پائمالی ، کارپوریٹ اور سامراجی کلچر کی پھیلائی ہوئی معاشی اور سیاسی انارکی، مارکیٹ اکانومی کی حقیقت، گلوبلائزیشن، مفادات کے لیے سامراجی جنگیں اور میڈیا مینیا وغیرہ ۔ Paigham Afaqui |