بیوی یا بیماری از راجندر سنگھ بیدی
جب سے دنیا بنی ہے، بیویاں بیمار ہوتی آئی ہیں ۔چنانچہ میرے حصّہ میں جو بیوی آئی وہ بھی بیمار تھی۔ ہے !
بیویاں اپنی بیماری کی سب سے بڑی وجہ اپنے شوہر کو بتاتی ہیں، ورنہ مائیکے میں وہ بھلی چنگی تھیں ۔ ہرنی کی طرح قلانچیں بھرتی تھیں ۔ البتّہ بیچ بیچ میں اس بات پر بھی مچلتی تھیں کہ ذرا بیمار ہو کر دیکھا جائے ۔ چنانچہ اسی امید اور خوشی میں ڈھول ڈھماکوں کے ساتھ ریشمی کپڑے پہنے اور جڑائو زیور وں سے آراستہ سُسرال کی چوکھٹ پر پیر رکھتی ہیں ۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد بیماری کا عمل شروع ہو جاتا ہے ۔ نو آموز (شوہر ) دولھا، دلھن کے آتے ہی اسے تشنج میں دیکھ کر سخت گھبراتا ہے اور بھاگا ہوا بھابی یا ماں کے پاس پہنچ جاتا ہے، جو اس کے پھوہڑ پنے پہ خوب ہنستی ہیں ۔ چونکہ اسے کسی دوسرے کا منھ تو ملتا نہیں، اس لیے اپنا سا منھ لے کر لوٹ آتا ہے ۔ شادی کے پہلے ہی چند دنوں میں میاں کو پکّا کر نے کے لیے بیوی تندرستی کے دن، یعنی کنوار پنے اور میکے کو یاد کرکے رونے لگتی ہے ، جہاں وہ اپنی نیند سوتی اور اپنی ہی نیند جاگتی تھی اور اب یہاں اسے پرائی نیند سونا پڑ رہا ہے اور پرائی ہی نیند جاگنا ۔ البتّہ آنسوخالص اس کے اپنے ہوتے ہیں اور وہ کبھی دولھا کے آنسو نہیں روتی ۔
پھر وہ دن آجاتے ہیں جب وہ واقعی طبّی نقطۂ نظر سے — clinicallyبیمار ہوتی ہے ۔ میاں ایک کی جگہ دس دوائیں لاتا ہے ۔ اچھے سے اچھے ڈاکڑ کو دکھاتا ہے، جو بیوی سے کچھ سوال کرتے ہوئے ضمناًمیاں سے بھی کر جاتا ہے اور اسے سخت شرمندہ ہونا پڑتا ہے ۔ لیکن بیوی کی بیماری، ڈاکڑ کو نبض دکھانے یا اسے دوائیں لا کر دینے سے نہیں جاتی ۔ وہ اس وقت تک رہتی ہے جب تک میاں دوا اپنے ہاتھ سے نہیں پلاتا ۔ وہ روٹھتی ہے ۔ بُرے بُرے منھ بناتی ہے ، میاں پیار کا دھوکا دیتا ہے یا دھوکے میں پیار کر جاتا ہے ۔ یہ تھو تھو کرتی ہیں۔ وہ فو فو کرتا ہے ۔ آخر آدھی دوا اندر جاتی ہے، آدھی باہر گرتی ہے ۔ اور کچھ دیر کے بعد جنابہ بیوی کا ذائقہ ٹھیک ہوتا ہے تو میاں کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے ایک ادا سے کہتی ہے ’’اے! تمھارے ہاتھ سے تو میں زہر بھی پی لوں ۔‘‘ اور میں یہاں اپنے شوہر بھائیوں کو مشورہ دوں گا کہ بیوی کی اور بہت سی باتوں کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی سفید ، کالا ، یا ہرے رنگ کا جھوٹ سمجھیں ، ورنہ پھانسی ہو جائے گی ۔
اگر بیویاں آس پاس نہ ہوں ، یا ہوں تو ہمیشہ کی طرح اپنی ہی بات میں کسی دوسرے کی نہ سنیں، تو میں آپ کو بتائوں ۔ بیویاں در اصل بیمار نہیں ہوتیں۔ وہ یونہی تھوڑے سے نوٹس پر بیمار ہو کر دکھادیتی ہیں ۔ اس بات کو جاننے کے لیے کہ ان کی بیماری کے ساتھ ان کا ہوتا سوتا کتنا بیمار دکھائی دیتا ہے ۔ کتنے دکھ اور ہمدردی کا اظہار کرتا ہے ۔ جو فعل، بیویوں کی لغت میں محبت کا دوسرا نام ہے۔ اگر میاں کے چہرے پر بیوی کی بیماری کے کوئی آثار دکھائی نہ دیں، تو وہ اسے نہایت کمینہ اور رذیل آدمی سمجھتی ہیں۔ لیکن دل میں خوش ہوتی ہیں اور کہتی ہیں ’’ مرد ہے ! ‘‘ اگر وہ کہیں ہمدردی کا اظہار کرے ، کروٹ کروٹ ساتھ مرے ،تو یوں دیکھنے میں خوش نظر آئیں گی ، لیکن اندر سے کہیں گی’’زنخا ہے موا ۔‘‘
میں بڑی بیماری کی بات نہیں کرتا جو کہ بیوی خود ہوتی ہے ،ان چھوٹی چھوٹی بیماریوں کا ذکر کر رہا ہوں جو در اصل کوئی وجود نہیں رکھتیں اور جو مرد کو اُکسانے کے لیے بیوی دن رات پیدا کر تی رہتی ہے ۔ خالص بیوی ہوگی تو روز سویرے اٹھ کر شکایت کریگی ۔ ’’ آج میرا سر کچھ بھاری بھاری ہے ۔‘‘پھر وہ ناک سکیڑے گی ۔ ہاتھ کنپٹیوں پر رکھ لے گی اور اس کی یہی بات آپ کو پیاری لگے گی۔ آپ خود بھی محسوس کرنے لگیں گے کہ اس کی وجہ آپ خود ہیں۔ آپ بہت بڑی محبت ، جو لفظ اردو میں لکھتے وقت حجّت معلو م ہونے لگتا ہے ، کے ساتھ کہیں گے ۔’’ او ہو، ایسپرین ہے گھر میں؟‘‘ چنانچہ ایسپرین ہوگی ۔ کوڈاپائرین بھی ہوگی ۔ مگر وہ کھائیں گی نہیں ۔ آپ سوچنے لگیں گے۔ ان کا کچھ نہ کچھ بھاری ہی رہتا ہے ۔ سر نہیں تو پیرہی سہی ۔ پھر بیوی کے بدن میں ایک حصّہ ہوتا ہے جسے وہ کمر کہنے پر مصر ہوتی ہے ۔ یاد رہے ، یہ عورت کے بدن کا وہ حصّہ ہے ، جس پر ہمارے شاعروں اور نثر نگاروں نے بہت کچھ لکھا ہے اور تعلّی کے مضمون میں، اسے نازک پتلا ہونا تو کیا ،نہ ہونے کے برابر کر دیا ہے ۔ مگر بیوی کے سلسلے میں وہی کمر حقیقت بن کر سامنے آجاتی ہے۔ ان شعروں کو اور بیوی کی کمر کو ساتھ رکھ کے دیکھا جائے تو وہی چیز اچھا خاصا کمرہ معلوم ہونے لگتی ہے ۔ وہ ہوتا یا ہوتی تو بدن ہی کے ساتھ ہے، مگر آپ کو اسے ٹوٹا ہوا تصوّر کرنا پڑتا ہے ۔ بیویا ں اتنی سادہ سی حقیقت نہیں جانتیں کہ میاں کو ان کے بدن کے ہر حصّے سے ہمدردی اور پیار ہوتا ہے ۔ مگر کمر سے نہیں، کیونکہ مرد کی فطرت اسے معدوم ہی دیکھنا چاہتی ہے۔ بہر حال بیوی کی ٹوٹی ہوئی یا ٹوٹتی ہوئی کمر پہ کوئی لیپ ، کوانٹی فلاجسٹین اثر نہیں کرتا اور نہ درد شقیقہ و عصابہ (Nervolgia)دُور کرنے والی گولیاں ۔ لیکن چونکہ اب تک آپ بھی خالص میاں ہو چکے ہوتے ہیں، اس لیے اسی کمر کے گرد ہاتھ ڈال کر کہتے ہیں —’’بنّو !آج تو تم بڑی حسین لگ رہی ہو۔‘‘ پھر کہاں کی کمر اور کہاں کا درد ؟ حقیقت یہ ہے کہ کمر درد کے لیے اس سے بہتر دوا آج تک سائنس ایجاد نہ کر پائی ۔
میں جانتا ہوں کہ کسی بھی معاشرے میں بیوی کی بیماری پر ہنسنا اچھی بات نہیں۔ مگر اس کا کیا علاج کہ وہ رونے بھی تو نہیں دیتیں ۔ جیسے ان کا میاں کوئی جیوتشی ہے ۔ رمّال ہے یا کوئی ولی اللہ۔ اور جانتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے ۔ چنانچہ بیوی کی بیماری کے ایّام میںمیاں جنّت اور دوزخ کے بیچ عالمِ برزخ میں کہیں اُلٹا لٹکا ہوتا ہے ۔ چہرہ دیکھو تو غم کے گھٹا ٹوپ بادل چھائے ہیں۔ دل کو کریدو تو ایک ہنسی ہے جو اس کان سے اس کان تک پھیلتی جا رہی ہے اور منھ سے ناف تک زبردست جھٹکے دے رہی ہے ۔
یہ حیا تیاتی حقیقت ہے کہ کائنات میں مادہ ، نر سے زیادہ سخت جا ن ہوتی ہے اور اس سے زیادہ لمبی عمر کی متوقع۔ یہی وجہ ہے کہ مسکت بیوی نہایت بے فکری کے عالم میں دن کو پچیس تیس مرتبہ تو ضرور کہتی ہے ’’ ہائے میں مرگئی۔ ‘‘ لیکن یہی بات اپنے میاں کو نہیں کہنے دیتی ۔ وہ جانتی ہے، اگر اس نے کہا ’’ میں مرگیا۔‘‘ تو وہ سچ مچ مر جائے گا ! جلدی یا آسانی سے مرجانے کی سزا قدرت نے مرد کو شاید اسی لیے دی ہے کہ اس کا جنسی نظام عورت کے پُر پیچ جنسی سلسلے کی بہ نسبت بہت سیدھا اور سادہ ہے ۔ غالباً اسی لیے بیویاں میاں کی مسلسل تندرستی کی حاسد ہو جاتی ہیں، کیونکہ ان مردوں کو تو کچھ ہوتا ہواتا نہیں ۔ حالانکہ اس بے چارے کا قصور ہے تو صرف اتنا کہ پہلے وہ مرد بنا اور دوسرے ان کا شوہر۔ وہ میاں کو دیکھ دیکھ کر یونہی کباب ہوتی رہتی ہیں اور کسی طرح اس کا بھلا نہیں چاہتیں ۔ اسی لیے وہ مرد کے رنڈواہوجانے کو ، اپنے بیوہ ہوجانے سے اچھا سمجھتی ہیں ۔
بیویوں کی بہت سی بیماریوں میں سے کچھ کہنے کے لائق ہوتی ہیں اور کچھ نہ کہنے کے لائق۔ میاں کو اس بات کی سمجھ بہت دیر کے بعد آتی ہے اور اس کی سمجھ کا سلسلہ معمول کی سیدھی سادی آزمائش اور غلطی ، بلکہ حماقت سے شروع ہوتا ہے ۔ وہ اپنی سادگی میں بیوی سے براہ راست سوال پو چھ بیٹھتا ہے اور پھر اسی وقت ڈانٹ کھا کر سامنے سیڑھیوں پر جا بیٹھتا ہے ۔ بیویوں کی زبان اگر وہ بے حد خفا نہ ہوں تو بالواسطہ ہوتی ہے ۔ وہ تشبیہ اور اشارے کی جان ہے ۔ مثلاًحال ہی کی بات ہے ۔ میرے ایک دوست نے وطن میں اپنی بیوی کو لکھ بھیجا ’’ اب کَے مہینے رہ گئے ؟‘‘ تو بیوی نے اس بات کا کوئی جواب نہ دیا ۔ صرف خط کے ایک طرف تین چھوٹے چھوتے دائرے بنادیے ۔ گویا عورتوں کی زبان میں ابجد کا کوئی دخل نہیں ، جسے ہم اور آپ استعمال کرتے ہیں ۔ وہ اگر اس ابجد کو جانتی بھی ہوں گی، تو اسے استعمال کرنا اپنی شان کے شایاں نہ سمجھیں گی ۔ ان کی زبان اب تک قدیم مصری خطِ تصویر (Hieroglyphics) سے ملتی جلتی ہے، جسے مصر کے لوگ کب کے چھوڑ چکے مگر ہماری بیویاں اب تک کلیجے سے لگائے پھرتی ہیں اور وہ ایک نفسیاتی بیماری کی شکل اختیار کر چکی ہے ۔
ہمارے ہندوستان میں اپنی بیوی کے علاوہ ایک اور چیز ہوتی ہے جس کی شکل بیوی ہی کی طرح ہوتی ہے ۔ مگر خصلت ایک دم الگ ۔ اسے ہم دوسرے کی بیوی کہتے ہیں ۔ جس کی بیماری اور بھی ٹیڑھی اور نا قابل علاج ہوتی ہے ۔ مثلاً آپ کسی کی بیوی کے بیمار ہونے کی خبر پائیں اور شامتِ اعمال عیادت کے لیے چلے بھی جائیں، تو آپ صاحب ِ خانہ سے پوچھتے ہیں — ’’ کیسی طبیعت ہے ۔ گھر میں ؟‘‘
’’اب تو اچھی ہے ، بھگوان کی دیا سے ۔‘‘
’’ کیا تکلیف تھی ؟‘‘
اس پر وہ دوسرے کی بیوی کا میاں یا دوسرے میاں کی بیوی، آپ کی طرف یوں دیکھتے ہیں، جیسے آپ کوئی گھنٹہ گھر ہیں اور شہر کے چوک میں نصب ہیں ۔ دوسرے کی بیوی ہونٹوں کے بیچ مسکراتی ہوئی منہ پرے کر لیتی ہے اور اس عمل میں اپنی بیوی سے بھی پیاری لگتی ہے ۔ البتّہ میاں نہایت مکروہ صورت بنا کر کہتا ہے — ’’ زنانہ تکلیف … ‘‘ مطلب یہ کہ اس کے بعد بکواس بند کیجیے۔ آپ کی سٹّی گم ہو جاتی ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ بیوی کی بیماری، شاید بیوی سے الگ کوئی چیز ہے ۔ مگر اس وقت تک آپ اپنے ہوش میں نہیں رہتے اور جلدی سے کسی اچھے ڈاکڑ کا نام تجویز کرکے باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ دہلیز ہمیشہ کی طرح ایک فٹ اوپر اُٹھ کر آپ کو ٹھوکر لگاتی ہے، مگر آپ اپنے آپ کو اسی قابل سمجھ کر سنبھل جاتے ہیں ۔ سڑک پر پہنچتے ہیں تو خیال آتا ہے ، مجھے کسی لیڈی ڈاکڑ کا نام لینا چاہیے تھا ۔ چنانچہ تصحیح کی غرض سے آپ لوٹتے ہیں مگر خود اپنے آپ کو ’’بکواس بند کر‘‘ کہتے ہوئے کسی اور واقف کار کے ہاں چل دیتے ہیں، جہاں خوش قسمتی سے کوئی میاں بیمار ہے ۔
شاذ ہی کوئی بیوی ہوگی جو مہینے میں چند روز بیمار نہ ہو تی ہو ۔ اس میں میری بیوی یا آپ کی بیوی کی بات نہیں ۔ دنیا جہان کی ، جملہ بیوی جات کا قصّہ ہے ۔ ان ایّام میں وہ کچھ یوں لیٹی ہوںگی، جیسے انھیں ہیضہ ہو گیا ہو ۔ وہ عاشق کی طرح زرد اور معشوق کی طرح دھان پان نظر آرہی ہیں۔ چڑ چڑی اس قدر کہ بات بات پر میاں کو کاٹنے دوڑتی ہیں ۔ حالانکہ اس غریب کا قصور نہیں ۔ گری گدھے پر سے ہیں اور غصّہ کمھار پر اتار رہی ہیں ،جو میاں اب تک شکل سے دکھائی دینے لگا ہے ۔ اپنے سڑی پن میں بیویاں بھول جاتی ہیں کہ اس بیماری ہی میں ان کی صحت ہے ۔ اگر کسی مہینے میں چھوٹی بیماری نہ آئی تو بڑی آئے گی ۔ پھر کھٹّی کھٹّی ڈکاریں آئیں گی ۔ سر چکرائے گا ۔ اُبکائیاں آئیں گی ۔ ایک طرف اس بیماری پر غصّہ آئے گا، دوسری طرف پورے بدن میں خوشی کی سنسناہٹ دوڑ جائے گی ۔ میاں پوچھے گا ، مگر کبھی نہیں بتائیں گی ۔ اشارے سے یہی کہیں گی کہ بس سمجھ جائو ۔ میاں ایک طرف مجرمانہ اور دوسری طرف فاتحانہ انداز سے بیوی کی طرف متوجّہ ہوگا اور تلافیِ مافات کے سلسلے میں بازار سے سیب اور ناشپاتیاں ، قلاقند اور امرتیاں لا کر دے گا، جنھیں لے کر بیوی خوش تو ہوگی مگر بیماری سے اپنا ازلی رشتہ قائم رکھنے کے لیے بڑے سلیقے سے ان سب چیزوں کو طاق پر رکھ دے گی، جو لکڑی کا نہیں، نسیان کا بنا ہوتا ہے ۔ وہ شربت روح افزا کی جگہ جل جیرے کی فرمایش کرے گی ۔ گلاب جامن کی جگہ ،گول گپّے اور آم شریفے کی جگہ چولھے کی مٹّی کھائے گی ۔ مرد کو جب بری بات کہنا ہوتی ہے تو وہ خاکم بدہن سے شروع کرتا ہے ۔ لیکن بیوی ہے کہ اچھی خبر سنانے سے پہلے منہ میں خاک جھونک لے گی ۔ اگر میاں خفا ہو کر کوئی بات کہہ دے تو یہ بیٹھی بیٹھی کھڑی بولی میں صلواتیں سنائے گی ۔
بیوی کی ماہانہ بیماری کی نوعیت الگ ہے اور سالانہ کی الگ ۔ پہلی قسم کی بیماری میں پھر میاں کے لیے تھوڑی سی تسکین کی گنجایش ہے لیکن دوسری میں یکسر نہیں ۔ اسے سال بھر یہ محسوس ہوتا رہتا ہے کہ بڑے افسر نے کہیں اس کے کیریکڑشیٹ پر اُلٹا سلٹا ریمارک لکھ دیا، یا وطن سے باہر اس کا ٹرانسفر کر دیا ۔ اب ایک گھر یہاں ہے ، دوسرا باہر بنانا پڑے گا ۔ منہگائی کا زمانہ ۔ ان دو گھروں کا خرچ کہاں سے لائے گا ۔ آخر وہ اپنے افسر کے سامنے گڑگڑاتا ہے اور کچھ اپنے آپ کو سمجھاتا ہے اور پھر وہ دن آجاتا ہے جب وہ اپنے آپ کو زچّہ خانے کے باہر ٹہلتاہوا پاتا ہے ۔ سگریٹ پہ سگریٹ پیتا ہے ۔ نہ اُ ٹھ سکتا ہے نہ بیٹھ سکتا ہے، اور بیویاں ہیں کہ اپنی جسمانی تکلیف کے سامنے میاں کی روحانی تکلیف کو کو ئی بات ہی نہیں سمجھتیں — میاں کے لیے یہی تکلیف کیا کم ہے کہ زچّہ خانے کے باہر وہ اپنے آپ کو دنیا کا سب سے بڑا گدھا سمجھتا ہے ۔ حالانکہ اس کے پاس ہی اور بھی بہت سے گھوم رہے ہوتے ہیں ۔ اس احساس کا بیوی کے نزدیک کوئی مول نہیں ؟ بیوی جو مزے سے ایک بچہ پیدا کر رہی ہوتی ہے ۔
آخر عزرائیل کی بہن نرس لیبر روم سے تھوتھنی نکالتی ہے اور میاں سے مختصر سا خطاب کرتی ہے ۔ ’’IT’S A BOY‘‘ اور میاں اپنی گھبراہٹ میں نرس سے کہتا ہے۔ ۔”Congratulations”۔ اس سے پہلے کہ میاں، بیوی کی حالت پوچھ سکے ، نرس جا چکی ہوتی ہے۔
اب میاں ہمت کرتا ہوا اندر جا تا ہے اور بیوی کو اس جانکا ہی کے بعد آرام سے سوتا ہوا دیکھتا ہے ۔ اس کا سارا اندر، ابل کر باہر آجاتا ہے مگر وہ یہ نہیں جان پاتا کہ اب کیا کرے ؟ ہنسے یا روئے ؟ وہ ہنس اس لیے نہیں سکتا کہ خدا اور عورت کے درمیان عظیم سازش کا ایک اور شکار چلاآیا ۔ اور رو اس لیے نہیں سکتا کہ اس کی اپنی طرح کا ایک اور گدھا پیدا ہو گیا ، جو بڑا ہو کر ضرو ر محبت میں مبتلا ہو گا اور پھر شادی کرکے زندگی بھر دوائیں ڈھوئے گا ۔ چنانچہ اس وقت میاں کو بھی ڈاکڑ پرچی پر کچھ دوائیں لکھ کر دیتا ہے اور میاں بیوی کو کسی چچی یا پھوپی کی تحویل میں دے کر خود بازار سے دوائیں خرید نے نکل جاتا ہے۔ لوٹتا ہے تو بیوی جاگ رہی ہوتی ہے ۔ وہ شکوہ شکایت کی نظر سے میاں کی طرف دیکھتی ہے، جیسے کہہ رہی ہو ۔ ’’ اس دکھ کی دنیا میں کوئی دوا ہے ؟‘‘ لیکن میاں اب تک جان چکا ہوتا ہے ، اس لیے دوائوں کا بنڈل کھولنے کی بجائے وہ کوئی اور ہی پیکٹ کھولتا ہے ، جس میں سے گلابی رنگ کی نہایت خوبصورت ساڑی نکلتی ہے ۔ اس کے بعد ایک اور ڈبیہ جس میں کلائی گھڑی بر آمد ہوتی ہے اور میاں آنکھ میں محبت اور تاسف کے آنسو لیے ایک اُلٹی رکشا بندھن کی شکل میں گھڑی بیوی کی کلائی پر باندھ دیتا ہے اور ساڑی اس کے قدموں پہ نثار کر دیتا ہے اور کہتا ہے ۔
’’ بنّو یہ رشوت ہے ، مول نہیں ۔‘‘
اور بیوی کے چہرے پہ پھر سے ایک دلکش مسکراہٹ دوڑ جاتی ہے ، جوارگٹ اور لائی سول وغیرہ کبھی نہیں لا سکتیں ۔
یہ ہم شوہر بھائیوں ہی کی ہمت ہے کہ بیماریوں کے اس پٹارے سے، جسے بیوی کہتے ہیں ، محبت کر تے چلے جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں مجھے منشی پریم چند کا ایک افسانہ یاد آتا ہے ، جس میں ایک بیوی اپنے نکمّے ، نکھٹواور سادہ لوح میاں کا رونا روتی ہے اور آخر اس بات پر حیران ہوتی ہے کہ اس کی سب ایسی باتوں کے باوجود وہ کہیں آدھ گھنٹہ بھی لیٹ ہوجائے تو اس کی ساری کائنات اُلٹ جاتی ہے ۔ بجنسہٰ یہ بات میں اپنی بیوی کے سلسلے میں محسوس کرتا ہوں ۔ اس کے سارے لڑائی جھگڑے فساد اور گونا گوں بیماریوں کے باوجود میں سر شام اپنے آپ کو اس کی تحویل میں پاتا ہوں اور پھر میرے ساتھ بھی وہی ہوتا ہے جو مرزا اسداللہ خاں کے ساتھ ہوا تھا :
اسدؔخوشی سے میرے ہاتھ پانوپھول گئے
کہا جب اس نے ذرا میرے پانو داب تو دے