آتش رفتہ کا سراغ
مشرف عالم ذوقیؔ
Hardcover: 700
|
مشرف عالم ذوقیؔ کا نیا ناول’’آتش رفتہ کا سراغ‘‘ ناول نگار کے سینے میں دردوکرب کی اس آگ کی موجودگی کا سراغ دیتا ہے جو علامہ اقبالؒ کے دل میں بھڑک رہی تھی اور جس میں ملت اسلامیہ کا درد بے پناہ پنہاں تھا ، ناول نگار نے ا پنے ناول کے صفحہ اول پراقبالؔؒ کا یہ شعر بھی لکھا ہے میں کہ مری غزل میں ہے آتش رفتہ کا سراغ اقبالؔؒ کی تمام تر شاعری اس آتش رفتہ کا سراغ تلاش کرنے پرمحیط ہے جس پر ملت اسلامیہ کا پرشکوہ ماضی سایہ فشاں ہے۔ذوقی کے یہاں بھی حال کے پیمانوں سے ماضی کی آتش سیال جھلک رہی ہے – یہ عہد تو ماضی کو فراموش کرنے کا عہد ہے پھر ملت اسلامیہ توآج ایک بھولی بسری فرسودہ سی شے ہوچکی ہے ، اقبالؔؒ کی زبان شاعرانہ ہے منظوم ہے اوران کی اپنی ہے لیکن ذوقیؔ کی نثر بھی شگفتہ ہے سریع الاثر ہے اوران کے اپنے طرز سے عبارت ہے میں یہاں صرفی ونحوی انضباط وعدم انضباط کے جھمیلوں میں نہیں پڑوںگا ، مجھے ناول کی کہانی اس کے مافی الضمیر پر بات کرنی ہے اقبالؔؒ نے دانش عہد حاضر کو عذاب کہا تھا اسے آتشکدۂ خلیل کا نام دیاتھا جس میں خود انہیں یعنی ایک حساس انسان کو مثل ابراہیم خلیل اللہ ڈالاگیا ہے ۔ ذوقیؔ کے یہاں بھی ایک آتش کدہ ہے لیکن وہ ان کے اپنے سینے میں ہے جس میں وہ قید ہیں، پھڑپھڑارہے ہیں گویا آزمائش کے لمحات کی ایک وادی بے کراں ہے جو اقبالؔؒاورذوقیؔ کے یہاں مشترک ہے ، مجھے اس سلسلے میں دونوں کا موازنہ مقصود نہیں ہے اوریہ ممکن بھی نہیں ہے ۔ مشرف عالم ذوقیؔ کے ناول کا حصہ اول جس کا عنوان’’آتش رفتہ کا سراغ‘‘ ہندوستانی مسلمانوں کی آپ بیتی ہے اورسرسٹھ برسوں کی دردناک داستا ن ہے جس میں حال کے رواں لمحوں کے ساتھ ماضی کی وہ ساعتیں بھی ہیں جو عظیم انسانی تاریخ کی غماز وعکاس بھی ہیں، ذوقیؔ کا کہناہے کہ ابھی نقطۂ آغاز ہے ابھی وہ اس کے کئی حصوں پرکام کررہے ہیں جو عن قریب ہی ادبی افق پرنمودار ہوںگے جو مسلمانوں کے تہذیبی جلال وجمال اورعروج وزوال کا منظر نامہ ہوںگے ، بہر حال یہ تو مصنف کے عزائم کی بات ہے میں دعا بھی کرتا ہوں کہ ایسا ہی ہو لیکن فی الوقت میں اپنی بات آتش رفتہ کے سراغ کی جلد اول پر ہی مرکوز رکھوںگا۔ سات سو بیس صفحات کا یہ ناول دو ہزار تیرہ کی سب سے پہلی اوراہم تصنیف ہے دونوں فلیپوں پرناول کے اقتباسات درج ہیں، کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ، انتساب، ایک ناول بزم یاراں کے لئے، ڈاکٹر خواجہ اکرام الدین (ڈائرکٹر قومی اُردو کونسل) پروفیسر انور پاشا ، ڈاکٹر ابرار رحمانی مدیر آج کل اُردو کے نام اوراس عالمی سیاست کے نام جہاں ہر مسلمان خوف کی زندگی گزارنے پرمجبور ہے ناول کے عقبی صفحے پرمصنف کی تصویر اورپاکستان کے یونس خاں کی چار سطور درج ہیں جوبرصغیر کے اس اہم ترین ناول سیاق وسباق میں بہت اہم ہیں۔ ’’میں نے ابھی ابھی اس ناول کو ختم کیا ہے اورمیں ابھی بھی اس کے سحر میں گم ہوں یہ کہنا مشکل ہے کہ اس ناول کے سحر سے کب باہر نکل سکوںگا اس ناول کو لکھنا آسان نہیں تھا، پاکستان میں ہم ایسے ناولوں کا تصور بھی نہیں کرسکتے مجھے نہیں خبر کہ آپ کو اس کے لکھنے کا حوصلہ کہاں سے ملا‘‘۔ ناول کے آغاز میں تیرہ صفحات کا دیباچہ ہے جس میں ناول نگار نے ناول لکھنے کے اسباب پر روشنی ڈالی ہے جسے پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ ذوقیؔ کے سینے میں کیسی آگ بھڑک رہی ہے، کہیں کچھ بھی ہو کوئی کچھ بھی کرے مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو بدنام کرنے انہیں ذلیل کرنے کی بین الاقوامی سازشیں ہورہی ہیں فسادات ہوں تو محرک بھی مسلمان نشانہ بھی مسلمان، دہشت گرد قرار دے کر ان کا انکاؤنٹر بھی کیا جاتا ہے تو مسلمانوں کا ، بہر حال تاریخی حیثیت سے اگر دیکھیں تو قدیم تاریخ ہے اب تک ایسی مثالیں بھی ملیںگی کہ مسلمانوں کو بدنام کرنے انہیں دہشت گرد جابروظالم قرار دینے کا کام صرف غیر مسلموں نے ہی نہیں کیا مسلمانوں نے بھی کیا ہے میں یہاں نسلی امتیاز وتعصب کے آتشکدے کی تخلیق اس سمندر کی مثال ضرور دینا چاہوںگا جس کا نام ابوالقاسم منصور فردوسی تھا جس نے آتش پرست ایرانی شہنشاہوں، شجاعوں اورپہلوانوں کی عظمت کے راگ الاپے، ایران کے فاتح عربوں کو حقیر وپست کہا آتش پرستوں کو بلند مرتبہ اورعظیم بتایا اوراپنی کتاب شاہنامہ فردوسی میں اس طرح کے اشعار درج کئے۔ زشیر شتر خوردن و سوسمار یعنی ان عربوں نے یعنی عرب مسلمانوں نے جو چرواہے تھے اونٹ کا دودھ پیتے تھے صحرائی گوہ کا گوشت کھاتے تھے انہوں نے کیانی وسامانی تاج وتخت پرفتح حاصل کی ہے اے آسمان تجھ پرہزار بار تف ہے ، آسمان چونکہ فارسی اُردوشاعری میں وقت کی علامت ہے اس لئے یہاں مراد وقت ہی ہے فردوسی نے شاہ نامے میں شاذونادر ہی عربی کے الفاظ استعمال کئے ہیں تعصب کا یہ بھی ایک پہلو ہے آج بھی برابر یہ کوششیں جاری ہیں کہ فارسی زبان سے عربی الفاظ نکال پھینکے جائیں اس مشترکہ لسانی تہذیب کو ختم کردیا جائے جو عرب وایران کے اختلاط سے قائم ہوئی تھی اوراسلامی نقطۂ نظر سے اہمیت کی حامل تھی شاہان عجم کی تعریفیں آج بھی ہوتی ہیں حالانکہ ایران میں عربوں کے اقتدار کا زمانہ بہت طویل نہیں ہے یکے بعد دیگرے قاچاری ، صفوی اورپہلوی خاندانوں کی حکومتیں قائم ہوتی رہیں ہندوستان میں اسلام کے فروغ پذیر ہونے میں بھی عربوں کے ساتھ ہی وسط ایشیائی نسلوں کا اہم کردار ہے زبان وتہذیب کی بنیاد پر ہندو ایران کے رشتے بھی ماضی سے حال تک بہت گہرے نظر آتے ہیں ہندو ایران ادبیات میں اس کے شواہد موجود ہیں، خودہماری زبان اردو پرفارسی کے اثرات بہت ہیں بہر حال یہ بحث طویل ہے ۔ بات یہ قابل توجہ ہے کہ ا سلامی مبلغین کی ہزار کوششوں کے باوجود نسلی امتیاز کا خاتمہ نہیںہوسکا لسانی ونسلی تفریق کی مثالیں صوبائی سطح پر بھی ہیں پاکستان بھی اس کی زد سے محفوظ نہیں ہے یوں اگر دیکھا جائے تو مسلمانوں میں بھی وہ اخوت اور بھائی چارہ آج کہاں ہے جس کی تبلیغ ہادی اسلام نے کی تھی۔ ’’آتش رفتہ کا سراغ ‘‘میں ناول نگارنے اپنے دل کی تمام آتش سیال کو انڈیل دیاہے اسکا دیباچہ اہم ہے خاص طورپر یہ پہلا اقتباس پیش ہے۔ ’’قیصر وکسریٰ کو فتح کرنے والوں کے نام دہشت گردی کی مہر لگادی گئی ، سائنسی انقلابات نے ارتقا کے دروازے تو کھولے لیکن ڈی این اے اورجینوم سے زیادہ شہرت اے کے ۴۷ اوردیگر اسلحوں کو ملی۔ ایک زمانے میں جہاں علوم وفنون کے لئے ٹینڈرسل جیسے دانش ورمسلمان سائنس دانوں کی مثالیں دیا کرتے تھے وہاں دیکھتے ہی دیکھتے مغرب نے جیش ، لشکر طیبہ ، ظواہری اوراسامہ بن لادن کے نام لینے شروع کردئے انحطاط وذلت کی حد یہ ہے کہ مسلمانوں کو مسلسل اپنی وفاداری وحب الوطنی کی شہادت پیش کرنی پڑتی ہے ۔ آتش رفتہ کاسراغ، حصہ اول خود میں دوحصوں میں منقسم ہے پہلے حصے کا عنوان ہے ’’سراغ سے قبل‘‘ جو ۲۵سے ۱۸۲صفحات پرمشتمل ہے دوسرا حصہ ’’ڈراونی رات کے بعد‘‘ ۱۸۳سے ۳۳۹ صفحات تک ہے ۔ ان دونوں حصوں میں ۲۰۰۸ کے وہ واقعات ہیں جن میں مسلمانوں کو کس انداز سے دہشت زدہ کیاگیا کہ وہ اپنے ہی ملک میں خود کوغریب الوطن سمجھنے لگے ۔ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر اس کی سب سے بڑی مثال تھی مسلمانوں کا مذہبی لباس داڑھی ، ٹوپی ان کے دہشت گرد ہونے کی علامت بناکر ا نہیں بدنام کیا جانے لگا۔ ناول نگار نے ایک کہانی کی شکل میں مسلم بچوں کی ذہنی کیفیات میں ہونے والی تبدیلیوں کی بات کی ہے، خوف ، دہشت ، نفرت کا عروج، اشتباہ، شک ، اندیشوں اورخدشات کی کہانی، ورلڈٹریڈ سینٹر کے انہدام کے بعد اسامہ بن لادن اوراس کے گروہ میں شامل افراد سے مسلمانوں خاص طورپر ہندوستانی مسلمانوں کے ناموں کوجوڑنے کا عمل مسلم نو جوانوں کے دلوں میں خوف اندیشوں ، نفرت کوغصہ کا بڑھنا جوان کے والدین کے لئے پریشان کن، فرقہ پرست اورفاشسٹ عناصر کی ریشہ دوانیاں ہندوستان جیسی سیکولر ریاست میں فرقہ پرستی کازہر گھولنے کی کوشش ہندومسلمانوں کے مابین دیواریں کھڑی کرنے نفرت پیدا کرانے اورفاصلے بڑھانے کی سعی مسلسل، ناول نگار نے انتہائی کرب کے ساتھ ان صفحات میں ایک متوسط کنبے کی کہانی کے حوالے سے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ کہانی کے پس پردہ یہ تاثر موجود ہے کہ نو آبادیاتی نظام کے پنجے سے ہندوستان کی آزادی کے بعد استعماری قوتیں کس طرح یہاں کے ہندو مسلم بھائی چارے کو نیست ونابود کرنے میں مصروف ہیں۔ ناول کا دوسرا حصہ ۳۴۱صفحات سے ۵۶۹ صفحات تک پھیلا ہوا ہے جو ۱۹۸۶ء سے ۱۹۹۲ء تک ہے ۔یہ اس کہانی کے فروغ کا حصہ ہے جو حصہ اول سے شروع ہوتی ہے کردارروہی ہیں بس کچھ نئے بھی شامل کئے گئے ہیں لیکن یہ وہ زمانہ ہے جب بابری مسجد رام مندر کی اجودھیا تحریک چل رہی تھی اور فرقہ پرست عناصر ہندومسلمانوں کے درمیان نفرت کی تخم ریزی کررہے تھے۔ ۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کو منہدم کردیاگیا اس کے بعد ایک نئی نفرت کا آغاز ہوا جس کے پس پردہ سیاسی مفادات کے حصول کا منظر نامہ تھا اس کار فرمائی کے کچھ ہی برسوں بعد امریکی ورلڈٹریڈ سینٹر کا انہدام اسامہ بن لادن کی پیدائش اس کی جماعت کا فروغ اورعالمی سطح پر مسلمانوں کے خلاف نفرت کا آغاز حالانکہ ان سب کی جڑیں حقیقتاً برصغیر میں ہندوپاک کے درمیان جنگیں علاقائی تنازعات ایران وافغانستان میں مطلق انسانی حکومتوں کا زوال افغانستان پر سوویت روس کا قبضہ، روس کے اخراج کے لئے امریکہ کا پاکستان میں اڈے قائم کرنا ا سلحہ دینا افغان مجاہدین کے جتھے تیار کرنا انہیں فوجی امداد افغانستان کی آزادی کے لئے افغان مجاہدین کی طویل جنگ افغانستان سے روس کا اخراج اس کے بعد برصغیر میں دہشت گرد گروپوں کی حوصلہ افزائی یہ دہشت گر دوہی تھے جو افغانستان کی آزادی کیلئے روسی فوجوں سے مصروف کار تھے مگر انہیںاپنے حقوق سے محروم رکھا انہیں امریکہ اوراس کے حلیفوں نے بعد میں عالمی پیمانے پراسلام کی بیخ کنی کے لئے مسلمانوں کے خلاف سازش کی بے گناہ معصوم مسلم نوجونوں کی گرفتاری ان پردہشت گردی کا الزام لگاکر انہیں معاشی واخلاقی طورپر تباہ کرنے کی سازش، اس ناول کے پس منظر میں یہ تمام باتیں ابھر تی ہیں لیکن مصنف نے ہندوستان میں ہندومسلم بھائی چارے اخوت وہم آہنگی کوتباہ کرنے کی سازش کو گفتگو کا موضوع بنایا کہانی اس نقطۂ ارتکاز کے گرد گھومتی ہے کہ مسلمانوں کی حب الوطنی مشکوک سمجھی جارہی ہے انہیں بار بار اپنی وطن پرستی کا ثبوت پیش کرنا پڑتا ہے۔ ناول کا تیسرا حصہ آب روان کبیر۵۷۱صفحے سے شروع ہو کر ۷۰۴ صفحات تک محیط ہے جو ۲۰۱۰ء سے مسلسل واقعات واحساسات کو ہمارے سامنے لاتے ہیں اورایسا احساس ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ مصنف کے آئندہ ناولوں پر بھی محیط رہے گا۔ حصہ سوم کے آغاز میں اقبالؔؒ کا یہ شعر درج ہے ؎ آب روانِ کبیر تیرے کنارے کوئی دیکھ رہاہے کوئی اورزمانے کا خواب اقبالؔؒ کی شہرۂ آفاق نظم مسجد قرطبہ کا یہ شعر شاعر کے اس کرب کو ظاہر کرتا ہے جو ملت اسلامیہ کے تئیں اس کے دل میں تھا وہ ماضی کے شکوہ کا راز داں تھا اورخوب سمجھ رہاتھا کہ آئندہ کیا ظہور پذیر ہونے والا ہے مشرف عالم ذوقیؔ نے حصہ سوم میں بہت سی ایسی باتیں کی ہیں جو اقبالؔؒکے اس شعر سے مترشح ہیں۔ آخر میں ۵۰۷سے لے کر ۷۱۹تک چند صفحات نقش گر حادثات کے عنوان سے ہیں جنہیں اس ناول کا تتمہ تونہیں کہاجاسکتا ہاں ایک نئے ناول یا پھر ایک نئی تاریخ کا نقطۂ آغاز ضرور کہا جاسکتا ہے جن ارباب دانش نے اقبالؔؒ کی نظم مسجد قرطبہ کا انہماک سے مطالعہ کیا ہے اس کی روح کے غواص رہے ہیں وہ مشرف عالم ذوقیؔ کے اس ناول میںپارے کی طرح دوڑتے ہوئے اس کرب کا اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ذوقی نے اپنے لکھنے میں اپنا کتنا خون جگر صرف کیا ہے میں تو صرف ان کے آئندہ ناولوں کے بارے میں اقبال کا یہی شعر پڑھوںگا۔ دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا Musharraf Alam Zauqi مشرف عالم ذوقی سے ایک مکالمہ
سوال: آپ کا آبائی وطن کہاں ہے، ابتدائی تعلیم کہاں سے حاصل کی؟
ذوقی: بہار کا ایک چھوٹا سا شہر آرہ…کبھی شاہ آباد کے نام سے مشہورتھا…میں نے اسی شہر میں آنکھیں کھولیں۔ ابتدائی تعلیم بھی یہیں سے حاصل کی۔٤سال کا تھا تو شاہ آباد اردو اسکول بھیج دیاگیا۔ یہ میرے گھر سے کچھ ہی دوری پر واقع تھا۔ اورمیرے ایک رشتہ دار چودھری قمرعالم(قمرچچا) اس اسکول کو چلایاکرتے تھے۔ یہاں سے بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد میں نے جین اسکول میں داخلہ لیا۔ پھرمہا راجہ کالج…دلی میں اتنے برس گزارنے کے بعد بھی، جب ناول کی تخلیق کررہاہوتا ہوں…میراشہر میری نگاہوں کے سامنے ہوتاہے…اوروہاں کے لوگ میرے کہانیوں کے کردار میں ڈھل جاتے ہیں۔
|