حرام جادی – محمد حسن عسکری
امید و بیم کی یہ کشمکش جسے نیند شاید جلد ہی اپنے دھارے میں غرق کرلیتی، زیادہ دیر جاری نہ رہی۔ اب کے تو دروازہ کی چولیں تک ہلی جارہی تھیں اور آوازیں زیادہ بے صبر، بے تاب، کرخت اور بھراۓ ہوۓ گلے سے نکل رہی تھیں۔ ” کھولو …….. کھولو۔“یہ آوازیں پتلی، نوک دار تتلیوں کی طرح دماغ میں گھس کر نیند کے پردوں کو تار تار کۓ دے رہی تھیں۔ وہ یہ بھی سن رہی تھی کہ پکارنے والا کھولو۔ کھولو کے وقفہ کے درمیان آہستہ ناخوشگوار ارادوں کا اظہار بھی کردیتا تھا۔ یہی نہیں بلکہ کوئی شخص اسے سڑک کے ڈھیلوں کو استعمال کرنے کی ترغیب دے رہا تھا۔ آخر اس نے آنکھیں پوری کھول دیں اور ہاتھوں کو چارپائی پر جھٹکتے ہوۓ کہا۔” نصیبن دیکھو تو کون ہے ؟“
یہ اس کے لۓ کوئی نئی بات نہ تھی جب سے وہ اس قصبہ میں مڈ وائف ہوکر آئی تھی یہ سب کچھ روز ہوتا تھا …….. یہی چیخیں، یہی دھڑ دھڑاہٹ فرض اور آرام کی یہی تلخ کشمکش یہی جھلاہٹ اور پسپائی …….. سب اسی طرح، اسے صبح ہی اٹھ کر جانا پڑتا تھا اور پھر اس کا سارا دن نو واردوں کو احتجاجاً چیختے چلاتے، ہاتھ پاؤں پھینکتے دنیا میں آتے ہوۓ دیکھنے میں، کچھ دن آۓ ہوؤں کی رفتار کے معائنہ میں اور آمد و رفت کے اندراج کے لۓ ٹاؤن ایریا کے دفتر تک بار بات دوڑنے میں گزرتا تھا۔ اسےدوپہر کو کھانا کھانے اور آرام کرنے کا وقت بھی ہزار کھینچ تان کے بعد ملتا تھا اور وہ بھی یقینی نہ تھا کیونکہ بچے پیدا ہونے میں موقع کا مطلق لحاظ نہیں کرتے۔ صبح چار بجے، دوپہر کے بارہ بجے، رات کے دو بجے …….. ہرگھنٹہ ہر گھڑی اسے کوہِ ندا کی آواز پر لبیک کہنے کے لۓ تیار رہنا پڑتا تھا اوربچے تھے کہ ایسی تیزی سے چلے آرہے تھے جیسے پہاڑی ندی میں لڑھکتے ہوۓ پتھر، ضبطِ تولید کے چرچے دولت نگر کو شہر سے ملانے والی کچی اورگڑھوں والی سڑک کو طے نہ کرسکتے تھے اور اگر بالفرض محال وہ رینگتے ہوۓ وہاں تک پہنچ بھی جاتے تو یہ یقینی بات تھی کہ قصبے والے انہیں ذرا بھی قابلِ اعتنا نہ سمجھتے۔ کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ بچے خدا کے حکم سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس میں انسان کا کیا دخل۔ 18 سالہ لڑکے،56 سالہ بڈھے، الہڑ لڑکیاں، ادھیڑ عورتیں، سب کے سب حیرت انگیز تن دہی اور یک جہتی کے ساتھ سڑکوں کی نالیوں میں کھیلنے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ کۓ چلے جارہے تھے۔ گویا وہ قومی دفاع کی خاطر کارخانوں میں کام کرنے والے مزدور ہیں اور پھر وہ بچارے کرتے بھی کیا۔ وہ تو خدا کے حکم سے بے بس تھے۔ غرض یہ کہ بچے چلے آرہے تھے۔ کالے بچے، پیلے بچے، پرنچے مرغ کی طرح سرخ بچے اور کبھی کبھی گورے بچے دبلے پتلے، ہڈیوں کا ڈھانچہ یا بعض موٹے تازے بچے، مڑے ہوۓ بالوں والے چپٹی ناک والے، چھچھوندر کی طرح گلگلے، لکڑی جیسے سخت، ہر رنگ اور ہر قسم کے بچے۔۔
ایملی نے اپنی دادی سے سنا تھا کہ ان کے بچپن میں ایک مرتبہ پاؤ پاؤ بھر کے مینڈک برسے تھے۔ وہ کبھی کبھی سو چا کرتی تھی …….. اور اس وقت اسے بے ساختہ ہنسی بھی آجاتی تھی …….. کہ یہ بچے وہی برسنے والے مینڈک ہیں۔ پاؤپاؤ بھر کے زرد زرد مینڈک۔
اور اسے انہی زرد مینڈکوں کی بارش کے ہر قطرہ کو برستے ہوۓ دیکھنے کے لۓ قصبے کی ٹوٹی پھوٹی روڑوں کی سڑکوں، تنگ و تاریک، سیلی ہوئی گلیوں، گرد و غبار، کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں، بھونکتے ہوۓ لال پیلے کتوں اور کسانوں کی گاڑیوں اور گھا س دالیوں سے ٹھنسے ہوۓ بازاروں میں سارا سارا دن گھومنا پڑتا تھا۔ پتلی پتلی سڑکوں پر دونوں طرف ریت کا حاشیہ ضرور بنا ہوتا تھا اور پھر نالیاں تو ٹھیک سڑکوں کے بیچوں بیچ بہتی تھیں جن کی سیاہی کسی گنوار دن کے بہے ہوۓ کاجل کی طرح سڑک کا کافی حصہ غصب کۓ رہتی تھی۔ صفائی کے بھنگی نالیوں کی گندگی سمیٹ سمیٹ کر سڑک پر پھیلا دیتے تھے جن سے اپنی ساڑھی کو محفوظ رکھنے کے لۓ ایملی کو ہلکے ہلکے فیروزی سینڈل کے بجاۓ اونچی ایڑی والا جوتا پہننا پڑتا تھا۔ گو اس صورت میں سڑک کے ابھر ے ہوۓ لا تعداد کنکر اس کے پیروں کو ڈگمگا دیتے تھے۔ راستہ میں گلی ڈنڈا اور کبڈی کھیلنے والے لونڈوں کا لا ابالی پن اس کے کپڑوں پر ہر دفعہ اپنا نشان چھوڑ جاتا تھا۔ مگر خیر شکر تھا کہ وہ ہمیشہ اپنی آنکھیں اور دانت سلامت لے آتی تھی اور یہاں کی گرمی !اسے معلوم ہوتا تھاکہ وہ یقیناًپسینوں میں گھل گھل کر ختم ہوجاۓ گی۔ ان تنگ سڑکوں پر بھی سورج اس تیزی سے چمکتا تھا کہ اس کے بدن پر چنگاریاں ناچنے لگتیں اور اس کی نیلے پھولوں والی چھتری محض ایک بوجھ بن جاتی۔ جب وہ اپنی اونچی ایڑیوں پر لڑکھڑاتی، سنبھلتی، دھوپ میں جلتی بھنتی سڑکوں پر سے گزرتی تو اسے دور آلھا گانے کی آواز، ڈھول کی کھٹ کھٹ اور درخت کے نیچے تاش کی پارٹیوں کے بلند اورکرخت قہقہے دوپہر کی نیند حرام کردینے والی بوجھل مکھیوں کی بھنبھاہٹ کی طرح بیزار کن اور پُر اِستہزا معلوم ہوتے اور وہ چار مہینے پہلے چھوڑے ہوۓ شہر کا خیال کرنے لگتی۔ مگر شہر اس وقت خوابوں کی وہ سر زمین بن جاتا ہے جسے صبح اٹھ کر ہزار کوششوں کے باوجود کچھ یاد نہیں کیا جاسکتا اور جس کی لطافت کا یقین دن بھر دل کو بے چین کۓ رکھتا ہے۔ اسے کچھ روشنی سی معلوم ہوتی ………… ایک چمک، ایک کشادگی، ایک پہنائی …….. کچھ ہریالی اس کے سامنے تیرتی …….. اور وہ پھر اسی تپتی ہوئی کنکروں، نالیوں اور ریت والی سڑک پر لڑکھڑاتی، سنبھلتی چل رہی ہوتی۔ بجلی کے پنکھے والے کمرے کا تصور اس تپش اور سوزش کو کم کرنے میں اس کی مدد نہ کرتا تھا لیکن، ہاں !جب کبھی وہ خوش قسمتی سے رات کو فارغ ہوتی اور اسے اپنے بستر پر کچھ دیر جاگنے کا موقع مل جاتا تو اس وقت شہر کی زندگی کی تصویریں سینما کے پردے کی طرح پوری طرح روشنی اورصفائی کے ساتھ اس کی نظروں کے سامنے گزرنے لگتیں اور وہ جس تصویر کو جتنا دیر چاہتی ٹھہرالیتی لیکن جب وہ ان تصویروں سے لطف اٹھانے کے درمیان ان مناظر کو یاد کرتی جن سے اسے ہر وقت دو چار ہونا پڑتا تھا تو اس کی خستگی اور بیزاری آہستہ آہستہ عود کر آتی۔ گھرکی دیواریں مع رات کی تاریکیوں کے اس پر جھک پڑتیں۔ دل بھنچنے لگتا، سانس گرم اور دشوار ہوجاتا اور اس کا سر کمننی کھا کھاکر نیند کی بے ہوشی میں غرق ہوجاتا اور وہ خواب میں دیکھتی کہ وہ پھر اسی شہر کے ہسپتال میں پہنچ گئی ہے، مگر ان در و دیوار سے بجاۓ رفاقت کے کچھ بیگانگی سی ٹپکتی ہے اور خود اس کے اعضاء منجمد اور ناقابل حرکت ہوگۓ ہیں اور کوئی نامعلوم خوف اس کے دل پر مسلط تھا ۔ وہ صبح تک یہی خواب تین چار مرتبہ دیکھتی اور دراصل اس کے لۓ ان زندگیوں کا انتقال ہونا بھی چاہۓ تھا۔ ایسے ہی اثرات پیدا کرنے والا، ماناکہ شہر میں بھی ایسی ہی ملی ہوئی گلیاں، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، گرد و غبار، شریر لڑکے موجود تھے اور وہ ان کے وجود سے بے خبر نہ تھی لیکن وہتو ہوا کی چڑیون کی طرح ان سب سے بے پرواہ اور مطمئن تانگے کے گدوں پر جھولتی ہوئی ان اطراف سے کبھی دسویں پندرھویں نکل جایا کرتی تھی۔ اس کی دنیا تو ان علاقوں سے دور ضلع کے صدر ہسپتال میں تھی۔ کتنی کھلی ہوئی جگہ تھی وہ؛ اور وہاں کا لطف تو ساری عمر نہ بھول سکے گی۔ ہسپتال کے سامنے تار کول کی چوڑی سڑک تھی جس پر دن میں دو مرتبہ جھاڑو دی جاتی تھی اور جو ہمیشہ شیشے کی طرح چمکا کرتی تھی جب وہ اپنی سہیلی ڈینا کے ساتھ اس پر ٹہلنے کے لۓ نکلتی تھی تو دور دور تک پھیلے ہوۓ کھیتوں اور میدانوں پر سے آنے والی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے چہرے اور آنکھوں پر لگ لگ کر دماغ کو ہلکا کر دیتے تھے۔ اس کی ساڑھی پھڑپھڑانے لگتی، ماتھے پر بالوں کی ایک لڑی تیرتی اور اس کی رفتار سبک اور تیز ہو جاتی۔
ایسے وقت باتیں کرنا کتنا خوشگوار اور پرلطف ہوتا تھا۔ گرد و غبار کا تو یہاں نام بھی نہ تھا۔ مئی جون کے جھکڑبھی ہسپتال کی سفید اور شیشوں والی عمارت پر سے سنسناتے ہوۓ شہر کی طرف گزرتے چلے جاتے تھے اور بجلی کے پنکھے سے سرد رہنے والے کمرے میں دوپہر کی سختی اور اداسی اپنا سایہ تک نہ ڈال سکتی تھی۔ جب وہ پروقار انداز سے ساڑھی کا پلہ سنبھالے گزرتی تھی تو ہسپتال کے نوکر چاروں طرف سے اسے ”میم صاحب” کہہ کر سلام کرنے لگتے تھے۔ گویہاں بھی اسے سب لوگ میم صاحب ہی کہتے تھے۔ سڑکوں پر جھاڑو دینے والے بھنگی اسے آتے دیکھ کر تھم جاتے تھے بلکہ قصبہ کے زمیندار تک اسے ”آپ“ سے مخاطب کرتے تھے۔ مگر پھر بھی یہاں وہ بات کہاں حاصل ہوسکتی تھی۔ وہ رعب، وہ دبدبہ، وہ مالکانہ احساس، وہاں تو اس کی شخصیت ہسپتال کا ایک جزوِ لاینفک تھی۔ اس سفید، سرد اور متین عمارت او ر اس کے غیر مرئی مگر اٹل قانونوں اور اصولوں کا ایک زندہ مجسمہ۔ ہسپتال کے نشتر کے سامنے آنے کے بعد کوئی شخص احتجاجاً حرکت نہیں کرسکتا تھا۔ اسی طرح اس کی حدود میں داخل ہونے والی ہر چیز کو اس کی مرضی کا پابند ہونا پڑتا تھا۔ جب اس کا مریضوں کے معائنہ کا وقت آتا تھا تو وارڈ میں پہلے ہی سے تیاریاں ہونے لگتی تھیں۔ وہ دو روپے روزانہ کرایہ دینے والیوں تک کو جھڑک دیتی تھی کیونکہ اسے صاف کمروں میں پان کی پیک تک دیکھنا گوارانہ تھا۔ وہ بڑی بڑی نازک مزاجوں کو ذرا سی بے احتیاطی اور ہدایات کی خلاف ورزی پر بے طرح ڈانٹتی تھی اور ہمیشہ سب سے تم کہہ کر بولتی تھی۔ مگر یہاں کی عورتیں توبہت ہی منہ پھٹ تھیں۔ وہ اس سے ہر اساں اور خوف زدہ تو ضرور تھیں مگر اسے دوبدو جواب دینے سے نہ چوکتی تھیں۔ تھوڑے دن تک ان پر اپنا اختیار جمانے کی کوشش کرنے کے بعد اب وہ تھک چکی تھی اور ان کی باتوں میں زیادہ دخل نہ دیتی تھی اور صفائی اور سلیقہ کی تو ان عورتوں کو ہوا تک نہ لگی تھی۔ زچہ کو گرمی میں بھی فوراً ایک کمرے میں بند کردیا جاتا تھا جس میں جاڑوں کے لحاف پنکھونے، چاروں اور دوسری جنسوں کے سٹکے، ٹوٹی ہوئی چارپائیاں، برتن، کوئلوں کا گھڑا، سوت اور رولڑ کی گٹھڑیاں، سب الم غلم بھرے ہوتے تھے اور ایک انگیٹھی پر گھٹی چڑھادی جاتی تھی۔ بعض بعض جگہ تو جلدی جلدی کمرہ میں گوبری ہونے لگتی تھی جوپیروں سے اکھڑ اکھڑ کر فرش کو چلنے کے قابل بھی نہ رہنے دیتی تھی اور جس کی سلین انگیٹھی کی گرمی سے مل کر سانس لینا دشوار کر دیتی تھی۔ گھر کی سب عورتیں …….. اور وہ کم سے کم چار ہوتی تھیں، اپنے بدبودار کپڑوں سمیت کمرے میں گھس آتی تھیں اور گھبراہٹ میں سارے سامان کو ایسا الٹ پلٹ کر دیتی تھیں کہ ذرا سی کتر تک نہ ملتی تھی۔ اندر کی کھسر پھسر، گھڑڑ بڑر، کراہوں ”یا اللہ یااللہ“اور عورتوں کے بار بار کواڑ کھول کر اندر باہر آنے جانے سے گھر کے بچے جاگ جاتے تھے اور اپنے آپ کو اماں کے قریب نہ پاکر چیخنا شروع کر دیتے تھے اور ان کی بڑی بہنیں چمکارچمکار کر اور تھپک تھپک کر انہیں بہلانے کی کوشش کرتی تھیں۔
”ارے چپ چپ…….. دیکھ بھیا آیا ہے …….. صبح کو دیکھو…….. منا سا بھیا ….”مگر صبح کو منا سا بھیا دیکھ سکنے کی امید انہیں اس وقت تک کوئی تسکین نہ دے سکتی اور ان کی روں روں دھاڑوں کی شکل میں تبدیل ہوکر کمرہ کے خلفشار میں اور اضافہ کردیتی۔ یہ تو خیر جو کچھ تھا سو تھا، کثیف بستروں پر لیپ چڑھے ہوۓ تکیوں، پسینے میں سڑے ہوۓ کپڑوں اورمدتوں سے نہ دھلے ہوۓ بالوں کی بدبو سے جیسے گرمی اوربھی دو آتشہ کردیتی تھی، اس کا جی الٹنے لگتا تھا۔ وہ تمام وقت ہر چیز سے دامن بچاتی ہوئی کھڑی کھڑی پھرتی تھی۔ اس کمرہ میں ایک گھنٹہ گزارنا گویا جہنم کے عذابوں کے لۓ تیاری کرنا تھا یہ ماناکہ خود اسے کچھ نہیں کرنا پڑتا تھا۔ کیونکہ قصبہ کی عورتیں اپنے آپ کو نۓ نۓ انگریزی تجربوں کے لۓ پیش کرنے اور اپنے آپ کو ایک اجنبی اور عیسائی مڈ وائف کے، جو ان دیکھے اورمشتبہ آلات سے مسلح تھی، ہاتھوں میں دے دینے کے لۓ قطعاً تیار نہ تھیں انہیں تو قصبہ کی پرانی دائی اور چھوٹے ہوۓ گھڑے کے ٹھیکروں پر ہی اعتقاد تھا تاہم ان کے مردوں نے ٹاؤن ایریا سے ڈر کر انہیں اس پر راضی کرلیا تھا کہ وہ نئی عیسائی مڈ وائف کے کمرے میں موجودگی برداشت کرلیں۔ اس طرح عملی حیثیت سے تو اس کا کام بہت کم ہوگیا تھا لیکن آخر ذمہ داری تو اس کی ہی تھی اور وہی ٹاؤن ایریا کمیٹی کے سامنے ہر برائی بھلائی کے لۓ جواب دہ تھی اور اس ذمہ داری سے عہدہ برا ہونا ہواؤں سے لڑنا تھا۔ اکثر نوگرفتار اتنا چیختی چلاتیں اور ہاتھ پیر پھینکتی تھیں کہ انہیں قابو میں کرنا دو بھر ہو جاتا تھا یہ پھر ایسی سہم جاتی تھیں کہ وہ ڈر کے مارے ذرا سی حرکت نہ کرتی تھیں۔ تین تین چار چار بچوں کی مائیں تو اور بھی آفت تھیں۔ وہ اپنے تجربوں کے سامنے اس ساڑھی پہن کرباہر گھومنے والی عیسائی عورت کی انوکھی ہدایتوں کو کوئی وقعت دینے پر تیار نہ تھیں۔
وہ اپنی آہوں کے درمیان بھی رک کر دائی کو مشورہ دینے لگتی تھیں اور ایملی کو دانتوں سے ہونٹ چبا چبا کر خاموش رہ جانا پڑتا تھا اور دائی تو بھلا اس کی کہاں سننے والی تھی۔ اسے اپنی برتری اور مڈ وائف کی نااہلیت کا یقین تو خیر تھا ہی مگر اس کی موجودگی سے اپنی آمدنی پر اثر پڑتا دیکھ کر اس نے ایملی کی ہر بات کی تردید کرنا اپنا فرض بنالیا تھا۔ گو ایملی نے اس کے طنزیہ جملوں کو پینے کی عادت ڈال لی تھی لیکن اس کا دل کوئی پتھر کا تھوڑے ہی تھا۔ دائی کے طرزِ عمل کو دیکھ دیکھ کر دوسری عورتیں بھی دلیر ہوگئی تھیں۔ اس کی طرف توجہ کۓ بغیر ہی وہ پلنگ کو گھیر لیتی تھیں۔ اور وہ سب سے پیچھے چھوڑ دی جاتی تھی۔ اب اس کے سوا کیا رہ جاتا تھا کہ وہ جھنجھلا جھنجھلا کر پیر پٹخے اور انہیں پکار پکار کر اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرے۔
ان سب آزمائشوں سے گزرنے کے بعد اسے ہر بار اندراج کے لۓ ٹاؤن ایریا کے دفتر جانا پڑتا تھا۔ اسے دیکھ کر بخشی جی کی آنکھیں چمکنے لگتیں اور ان کے پان میں سنے ہوۓ کالے دانت نیم تمسخرانہ انداز میں ان کو چھوٹی داڑھی اوربڑی بڑی مونچھوں سے باہر نکل آتے اور وہ اس کی طرف کرسی کھسکاتے ہوۓ کہتے”کہو میم صاحب ! لڑکا کہ لڑکی؟“ مونچھوں کے ان گھنے کالے بالوں کی قربت اسے ہراساں کردیتی اور اسے ایسا معلوم ہونے لگتا جیسے ان بالوں میں یکایک بجلی کی لہر دوڑ جاۓ گی اور وہ سیدھے ہوکر اس کے چہرہ سے آملیں گے۔ وہ نفرت اور خوف سے پیچھے سمٹ جاتی اور بخشی جی سے نظریں بچاتی ہوئی جلد سے جلد اپنا کام ختم کرنے کی کوشش کرتی۔
یہ سارے مرحلے طے کرتی ہوئی وہ عموماً آٹھ نو بجے رات کو تھکی ہاری اپنے گھر پہنچتی تھی۔ جب پیر کہیں سے کہیں پڑ رہے ہوں، سربھنّایا ہوا ہو، جب جسم کا کوئی بھی عضو ایک دوسرے کا ساتھ دینے کو تیار نہ ہو، تو بھلا بھوک کیا خاک لگ سکتی ہے۔ وہ جوتاکھول کر پیر سے کونے میں اچھال دیتی اور کپڑے اس طرح جھنجھلا جھنجھلا کر اتارتی کہ دوسرے دن نصیبن کو انہیں دھوبی کے یہاں استری کرانے لے جانا پڑتا۔ الٹا سیدھا کھانا حلق کے نیچے اتار کر وہ بستر پرگرپڑتی۔ تکیے پر سر رکھتے ہی دیواریں، پیڑ، ساری دنیا اس کے گرد تیزی سے گھومنے لگتے۔ بھیجا دھرا دھڑ دھرا دھڑا کرکھوپڑی میں سے نکل بھاگنے کی کوشش کرتا۔ سر تکیے میں گھسا جاتا مگر تکیہ اسے اوپر اچھالتا معلوم ہوتا۔ بازو شل ہوجاتے۔ ہتھیلوں میں سیسہ سا بھر جاتا اور ہاتھ اوپر نہ اٹھ سکتے۔ اسی طرح ٹانگیں بھی حرکت سے انکار کر دیتیں اور کمر تو بالکل پتھر بن جاتی۔ وہ اپنے پرانے ہسپتال کو یاد کرنا چاہتی، مگر وہ کسی چیز کو بھی پوری طرح یاد نہ کرسکتی …….. کھڑکی کا کواڑ، مریضوں کی آہنی چارپائی کا پایہ، موٹر کے پہیۓ، نیم کے پیڑ کی چوٹی، پان میں ستے ہوۓ کالے دانت اور گھنی سخت مونچھیں، یہ سب باری باری بجلی کے کوندے کی طرح سامنے آتے او ر آنکھ چھپکتے میں غائب ہوجاتے وہ کھڑکی کے کواڑ میں ایک کمرہ جوڑنا چاہتی۔ مگر اس میں زیادہ سے زیادہ ایک چٹخنی کا اضافہ کرسکتی بلکہ بعض اوقات آہنی چارپائی کا ایک پایہ تو ایک کھونٹے کی طرح اس کے دماغ میں گڑ جاتا اور کوشش کے باوجود بھی ٹس سے مس نہ ہوتا، نیم کی چوٹی کو کبھی تنا حاصل نہ ہوسکتا …….. پھر نیم کی ہر ی ہری چوٹی پر ایک ریت کے حاشیہ والی نالی بہنے لگتی اور کھڑکی کے شیشے پر پان میں سنے ہوۓکالے دانت مسکراتے اور گھنے سخت بالوں والی مونچھیں بے تابی سے ہلتیں …….. مختلف شکلیں ایک دوسرے سے دست و گریبان ہوجاتیں اور دماغ کے ایک سرے سے دوسرے تک لڑتی جھگڑتی، ٹکراتی، روندتی، دوڑتی …. سیاہ آسمان پر روشن ان گنت تاروں کے کچھے کے کچھے بھنگوں کی طرح آنکھوں میں گھس گھس کر ناچنے لگتے اور جلتی ہوئی آنکھیں کنپٹیوں کی خواب آور بھد بھدے سے آہستہ آہستہ بند ہوجاتیں …. سونے کے بعد تو ان شکلوں کے اور بھی چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہوجاتے جو باری باری آتے اور اس کے دماغ پر مسلط ہوجانا چاہتے۔ اتنے ہی میں ایک ایک دوسرا آپہنچتا اور پہلے والے کو دھکے دے کر باہر نکال دیتا۔ ابھی یہ کشمکش ختم بھی نہ ہوتی کہ ایک تیسرا آدھمکتا۔ ان سب کی حریفانہ زور آزمائیاں اسے بار بار چونکا دیتیں اور وہ ہلکی سی کراہ کے ساتھ آنکھیں کھول دیتی …. پھر آنکھوں میں تاروں کے گچھے کے گچھے بھرنے لگتے …. کہیں صبح کے قریب جاکر یہ شکلیں تھمتیں اور اپنی رزم گاہ سے رخصت ہوتیں ہلکی ہلکی ہوا بھی چلنی شروع ہوجاتی اور ایملی نیند میں بالکل بے ہوش ہوجاتی مگر اس کی نیند پوری ہونے سے پہلے ” کواڑ کھولو “ کی مسلسل اور ضدی چیخیں اس کے دماغ میں گونجتیں …….. وہی چیخیں، وہی دھڑ دھڑاہٹ، فرض اور آرام کی وہی تلخ کشمکش، وہی جھلاہٹ اور پسپائی۔
نصیبن بہار سے لوٹ آئی تھی۔ اسے شیخ صفدر علی کے ہاں بلایا گیا تھا اور پکارنے والے نے بار بار کہا تھا ”جلدی …….. بلایا ہے …….. جلدی ……..“ہر ایک یہی کہتا ہوا آتا ہے جلدی …….. آخر وہ کیوں جلدی کرے ؟ کیا وہ ان کی نوکر ہے ؟ یا وہ اسے دولت بخش دیتے ہیں۔ ہونہہ …….. جلدی ! وہ نہ پہنچے گی تو کیا سب مرجائیں گے ؟ اور پھر وہ کریں گے ہی کیا اسے بلاکر ؟…….. کہتی ہیں چڑیلیں” اسے کیا خاک آتا ہے ……..“ کیا خاک آتا ہے …….. کچھ نہیں آتا …….. اچھا پھر ؟ بیٹھیں اپنے گھر، کون ان کی خوشامد کرنے جاتا ہے …….. کچھ نہیں آتا ؟ جیسے جیسے آۓ اس نے دیکھے ہیں ان لوگوں کے تو خواب و خیال میں بھی نہ گزرے ہوں گے …….. چمکدار، تیز، ہاتھی دانت کے دستے والے …….. اور وہ ڈاکٹر کارٹ فیلڈ کے لیکچر، وہ نقشے دکھا دکھا کر جسم کے حصوں کو سمجھاتی تھی …….. کچھ نہیں آتا …….. ہونہہ!
ایملی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔ پہلے تواس کا جی چاہا کہ کہلوادے وہ جلدی نہیں آسکتی۔ وہ بالکل نہیں آۓ گی۔ مگر پھر اسے خیال آیا کہ یہ لوگ محض جاہل ہی تو ہیں۔ ان کے کہنے سے اس کا بگڑتا کیا ہے اور آخر ذمہ داری تو خود اس کی ہی ہے۔ چنانچہ اس نے نصیبن سے کہا ”کہہ دو کہ چلو میں آرہی ہوں۔” مطمئن ہوکر اس نے کروٹ لے لی۔ سر کو تکیے پر ڈھیلا چھوڑ دیا۔ آنکھیں بند کرلیں، ایک بازو بستر کی ٹھنڈی چادر پر پھیلا دیا اور ہاتھ چہرے پر رکھ لیا۔ اس نے چاہا کہ دماغ کو بالکل خالی کرلے اور ساکت ہو جاۓ مگر اس کے دل کی کھٹ کھٹ کھٹ کھٹ کانوں میں بج رہی تھی اورتھوڑی تھوڑی دیربعد یکایک ایک پتھر سا دماغ میں آکر لگتا تھا۔”جلد ……..“جس سے اس کے ماتھے اور کنپٹیوں کی نسیں تن جاتی تھیں اور ٹوٹتی ہوئی معلوم ہونے لگتی تھیں۔ اسے جلدی جانا تھا …….. جلدی …. اور اسی بات کے تو وہ ٹاؤن ایریا کمیٹی سے تیس روپے ماہوار پاتی تھی۔ جلد جانا تھا …. لیکن آخر وہ فرض پر صحت کو تو نہیں قربان کرسکتی تھی۔ کل رات ہی اسے بہت دیر ہوگئی تھی۔ وہ انسان ہی تو تھی نہ کہ مشین …….. اب وہ محسوس کر رہی تھی کہ اس کے سر میں درد ہو رہا ہے، کمر بیٹھی جارہی ہے، کندھے اور ٹانگیں بے جان ہوگۓ ہیں۔ ایسی حالت میں اتنی جلدی بہت مضر ہوگا اور خصوصاً اس قصبہ جیسی آب و ہوا میں جہاں اس کی صحت روز بروز گرتی جارہی ہے۔ ابھی آخر چار مہینے میں اسے چار دن بخار آچکا تھا …….. اور پھر وہ وہاں جاکر بنا ہی کیا لے گی، ان لوگوں کو ایسی کیا خاص ضرورت ہے اس کی …….. تھوڑا سا اور سولینا ہی بہتر ہوگا۔
وہ سو جاتی مگر انگلیوں کے بیچ میں ہوکر صبح کی روشنی آرہی تھی اور اس کی آنکھوں کو بند نہ ہونے دیتی تھی۔ اس نے ہاتھ آنکھوں پر کھسکا لیا اور آنکھیں خوب بھینچ کر بند کر لیں۔ اب اسے جھپکیاں آنا شروع ہوگئیں۔ مگر ہر دفعہ ” دودھ اور دودھ “ابے او کلو ہوۓ۔” اٹھ! اٹھ ! ابے پڑھنے نہیں جانے کا ؟ “ کی صداؤں اور نسین کی لکڑیاں توڑنے اوردیگچیاں اٹھانے کی آوازوں سے وہ چونک پڑتی تھی۔ سونے کی کوشش کرتے کرتے اس کی آنکھوں میں پانی بھر آیا۔ سر میں درد ہونے لگا اورماتھا جلنے لگا۔ وہ مایوس ہوکر سیدھی لیٹ گئی اور آنکھوں پر دونوں بازو رکھ لۓ۔ اب اس کے اعضاء اور بھی بوجھل اورناقابل حرکت ہوگۓ اور وہ ان صداؤں، آوازوں، ان تحکمانہ طلبیوں ……..”جلدی بلایا ہے۔“اس صبح کے چاند نے، اس قصبہ پر دانت پیسنے لگی۔ وہ چاہتی تھی کہ کوئی ایسی چادر اوڑھ لے کہ اس کو ان صداؤں، آوازوں، ان تحکمانہ طلبیوں۔”جلدی بلایا ہے ……..“اس صبح کے چاند نے، اس قصبے۔ سب سے چھپاکے۔ جس کے نیچے ان میں سے کسی کی بھی پہنچ نہ ہو، جہاں وہ ان سب سے …….. اپنے آپ سے غافل ہوجاۓ …….. اپنے کو کھو دے …. اسے محسوس ہو کہ دو مضبوط اور مدت کے آشنا بازو اس کے جسم کا حلقہ کۓ بھینچ رہے ہیں …. سر کے درد کو گویا یکایک کسی نے پکڑ لیا …. دو آنکھیں بھی ذرا دور چمکیں، مسکراتی ہوئی معلوم ہوئیں اور اس نے اپنے آپ کو ان بازوؤں کی گرفت میں چھوڑ دیا …….. جسم ہوا کی طرح ہلکا ہوگیا تھا۔ سر ہلکے ہلکے جھکولے کھاتا موجوں پر بہا چلا جارہا تھا۔ سکون تھا، خاموشی تھی اور صرف دل کے مسرت سے دھڑکنے کی آواز آرہی تھی …. دو بازو اس کے جسم کو بھینچ رہے تھے۔ وہ مضبوط اور مدت کے آشنا بازو ………
اس نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں۔ صبح کے چاند میں چمک آگئی تھی۔ نصیبن نے چولہے پر دیگچی رکھی۔ بکری والا محلہ سے جانے کے لۓ بکریاں جمع کر رہا تھا اور کنویں کی گراری زور زور سے چل رہی تھی۔ اس کی آنکھیں اوپر اٹھیں اور ہوا میں کسی چیز کو تلاش کرنے لگیں۔
دو بادامی ساۓ اترنے لگے۔ آنکھوں کے پردے پھڑکے اور پلکیں آہستہ آہستہ ایک دوسرے سے مل گئیں …….. گویا وہ ان سایوں کو پھنسا لینا چاہتی ہیں …. ساۓ کچھ دور پر رک گۓ، وہ ڈگمگاۓ اور دھندلے ہوتے ہوتے ہوا میں تحلیل ہوگۓ …….. آنکھیں صبح بے رنگ آسمان کو دیکھ رہی تھیں۔ اس کی گردن ڈھلک گئی اور بازو دونوں طرف گر پڑے …. وہ مدت کے آشنا بازو …. مگر وہ یہاں کہاں !
چند لمحے بے حس پڑے رہنے کے بعد وہ ولیمن کو یاد کرنے لگی۔ لمبے لمبے پیچھے الٹے ہوۓ بال، چوڑا سینہ، سرخ ڈوروں والی جلد، پھرتی ہوئی آنکھیں، موٹا سا نچلا ہونٹ، کان کی لو تک کٹی ہوئی قلمیں، سانولے رنگ پر منڈھی ہوئی داڑھی کا گہرا نشان، آنکھوں کے نیچے ابھری ہوئی ہڈیاں اور مضبوط بازو…. دن میں کتنی کتنی مرتبہ اس کے بازو اسے بھینچتے تھے اور ان کے درمیان وہ بالکل بے بس ہو جاتی تھی اور بعض دفعہ تو جھنجھلا پڑتی تھی مگر اس کے جواب میں اس کا پیار اوربڑھ جاتا تھا …. اور اس کے دونوں گالوں پر وہ گرم اور نم آلود بوسے …. اور دن میں کتنی کتنی مرتبہ اس کے منہ سے شراب کی تیز بدبو تو ضرور آتی تھی۔ مگر وہ کیسے جوش سے اسے اپنے بازوؤں میں اٹھا لیتا تھا اور پاگلوں کی طرح اس کے چہرے، ہاتھوں، گردن، سینے سب پر بوسے دے ڈالتا تھا اور پھر قہقہے مار مار کر ہنستا تھا ”…. میری جان …. ہاہاہا ہا…. اے می لی …. ڈی یر…. پیاری پیاری …. ہا ہا ہاہا ……..“اور وہ اس کی کیسی نگہداشت کرتا تھا۔ وہ اس سے اپنے بازوؤں میں پوچھتا۔“اس مہینے میں کیسی ساڑھی لاؤ گی، میری جان ؟…. ہیں ؟ …. اس سینے پر تو سرخ کھلے گی !کہو کیسی رہی ؟ ہا ہا ہاہا……..“اور وہ اسے دو پہر میں تو کبھی نہ نکلنے دیتا تھا اگر اسے ایسے وقت ہسپتال سے بلایاجاتا تو وہ کہلوا دیتا کہ مس ولیمن سو رہی ہیں اور وہ اس کے اٹھنے سے پہلے چاۓ تیار کراکے اپنے آپ اس کے قریب میز پر لارکھتا تھا اور وہ اسے کتنے پیار سے بھیجتا تھا مگر وہ یہاں کہاں !…….. اگر وہ یہاں ہوتا تو وہ اسے اتنے سویرے کہیں نہ جانے دیتا۔ وہ یہاں ہوتا تو وہ خود کہیں نہ جاتی۔ وہ تو ایسے کواڑ پیٹ کر جگانے والے کا سر توڑ دیتا…….. لیکن وہ یہاں ہوتا ………… وہ اس کے پاس ہوتا تو وہ خود یہاں کیوں ہوتی۔
لیکن …….. کچھ دوسری شکلیں ابھریں …. اچھا ہی ہے کہ وہ اس کے پاس نہیں ہے …….. اس کے بال الجھے ہوۓ اورپریشان تھے اور وہ اس طرح دانتوں سے ہونٹ چبا رہا تھا گویا ان کا قیمہ کرکے رکھ دے گا اور اس نے اسے کیسی بے رحمی سے بید سے پیٹا تھا۔”لے …. اور لے گی …. بڑی بن کر آئی ہے وہاں سے وہ….” اگرمیم صاحب شور سن کر نہ آجاتیں تو نہ معلوم وہ ابھی اور کتنا مارتا …….. ایملی اپنے بازوؤں پر نشان دھونڈنے لگی …….. ایسے ظالم سے تو چھٹکارہ ہی اچھا …….. کیسی خونی آنکھیں اور آخر میں وہ شراب کتنی پینے لگا تھا …….. مگر وہ ہوتا تو اسے اتنے سویرے کہیں نہ جانے دیتا …….. مانا کہ وہ روڈا کے ساتھ رات کو بڑی دیر ٹہلتا رہتا تھا لیکن ظاہراً تو اس کے ساتھ اس کا برتاؤ ویسا ہی رہا تھا …….. اگر وہ خود اتنا نہ بگڑتی اور اسے اٹھتے بیٹھتے طعنے نہ دیتی تو شاید بات یہاں تک نہ پہنچتی …….. وہ اسے کتنے پیار سے بھینچتا تھا …….. لیکن وہ لمبے منہ پر ہڈیاں نکلی ہوئی، سوکھی جیسے لکڑی ہو …….. اور فراک پہننے کا بڑا شوق تھا آپ کو، بڑی میم صاحب بنتی تھیں۔ چار حرف انگریزی کے آگۓ تھے تو زمین پرقدم نہ رکھتی تھی مارے شیخی کے…….. نہ معلوم ایسی کیا چیز لگی ہوئی تھی اس میں جو وہ ایسا لٹو ہوگیا تھا …….. اس نے خواہ مخواہ فکر کی، وہ خود اسے تھک کر چھوڑ دیتا …….. وہ اسے تھوڑے دن یونہی چلنے دیتی تو کیا تھا …….. مگر اس نے کیسی بے رحمی سے اسے مارا تھا …….. ہاں …….. ایک دفعہ مار ہی لیا تو کیا ہوگیا۔ وہ خود بھی شرمندہ معلوم ہوتا تھا اور اس کے سامنے نہ آتا تھا …….. اوراگر ڈینا اسے اتنا نہ بہکاتی تو وہ شاید طلاق بھی نہ لیتی۔ بس وہ اپنا ذرا مزا لینے کو اسے اکساتی رہی …….. یہ اچھی دوستی ہے …….. اب وہ ڈینا سے نہیں بولے گی اور اگر وہ ملے گی بھی تو وہ منہ پھیر کر دوسری طرف چل دے گی اور جو ڈینا اس سے بولی تو وہ صاف کہہ دے گی کہ وہ دھوکا دینے والوں سے نہیں بولنا چاہتی …….. ڈینا بگڑ جاۓ گی تو بگڑا کرے۔ اب وہ شہرکے ہسپتال سے چلی ہی آئی، اب کوئی روز کا کام کاج تو ہے نہیں کہ بولنا ہی پڑے ….
وہ اسی طرح ڈینا کی مکاری پر پیچ و تاب کھاتی رہتی، اگر نصیبن اسے نہ پکارتی۔”اجی میم صاحب اٹھو، سورج نکل آیا۔ “ وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھی اور چاروں طرف دیکھا اب تو واقعی اسے چلنا چاہۓ تھا مگر پھر بھی پلنگ سے نیچے اترنے سے پہلے اس نے کئی مرتبہ انگڑائیاں لیں اور تکیہ پر سر رگڑا۔
وہ منہ دھوکر چاۓ کے انتظار میں پھر بستر پر آ بیٹھی۔ نصیبن لکڑیوں کو چولہے میں ٹھیک کرتی ہوئی بولی۔ ” وہ منیاین کہہ رہی تھیں کہ تمہاری میم صاحب تو عید کا چاند ہوگئیں۔ کبھی آکے بھی نہیں جھانکتی …. اجی ہو ہی آؤ ان کی طرف میم صاحب کسی دن؛ بڑا یاد کریں ہیں تمہیں !“
ہو ہی آۓ ان کی طرف…….. کیا کرے وہ جاکر میلے کچیلے پلنگوں پر بیٹھنا پڑتا ہے۔ ٹوٹے ٹاٹے …….. یہاں کی عورتوں سے وہ کیا باتیں کرے ؟ بس انہیں تو تو قصے سناتے جاؤکہ اس کے بچہ مرا ہوا پیدا ہوا۔ اس کو اتنی تکلیف ہوئی۔ اس کو ایسی بیماری تھی۔ وہ کہاں تک لاۓ ایسے قصے سنانے کو اور کوئی بات تو جیسے آتی ہی نہیں انہیں …. اور پھر یہ لوگ کتنی بدتمیز ہیں۔ سڑے ہوۓ کپڑے لے کر سرپر چڑھی جاتی ہیں …. اسے ان لوگوں کے ہاتھ کاپان کھاتے ہوۓ کتنی گھن آتی ہے مگر مجبوراً کھانا ہی پڑتا ہے …. جب وہ اس سے باتیں کرتی ہیں تو ہلکے ہلکے مسکراتے جاتی ہیں جیسے اس کا مذاق اڑا رہی ہوں …. کن آنکھوں سے ایک دوسرے کو اور سارے گھر کو دیکھتی جاتی ہیں گویا وہ چور ہے اور ان کی آنکھ بچتے ہی کوئی چیز اڑا دے گی…….. یہ اس سے سب عورتیں جھجکتی کیوں ہیں ؟ کیا وہ ان کی طرح عورت نہیں ہے ؟ یا وہ کوئی ہوا ہے…….. عجیب بے وقوف ہیں یہ عورتیں….. اور ہاں جب وہ ان کے ہاں جاتی ہے تو ان کے اشارے سے جو ان لڑکیاں جلدی جلدی بھاگ کر کمرے میں چھپ جاتی ہیں۔ وہ اندر سے جھانک جھانک کر اسے دیکھتی ہیں اور اگر کہیں اس کی نظر پڑ جاۓ تو وہ فوراً ہٹ جاتی ہیں اوراندر سے ہنسنے کی آواز آتی ہے اور اگر انہیں اس کے سامنے آنا ہی پڑ جاۓ تو وہ بدن چراتی ہوئی اوپر سے نیچے تک خوب دوپٹہ تانے ہوۓ آتی ہیں جیسے اس کی نظر ان میں سے کچھ چھٹالے گی یا اس کی نگاہ پڑجانے سے ان میں کوئی گندگی لگ جاۓ گی…….. ان کی یہ حرکت اسے بالکل نا پسند ہے۔ کیا انہیں اس پر اعتماد نہیں اور وہ اس پر شک کرتی ہیں……..؟ اس سےتو ان کے ہاں نہ جانا ہی اچھا …….. بیٹھیں اپنی لڑکیوں کو لے کر اپنے گھر میں …….. اور وہ گندے بچے، مٹی سے سنے، ناک بہتی، آدھے ننگے، پیٹ نکلا ہوا، وہ سامنے آکر کھڑے ہوجاتے ہیں اوراسے ایسے غور سے دیکھتے رہتے ہیں جیسے وہ نیا پکڑا ہوا عجیب و غریب جانور ہے …….. اور جب وہ ان سے بولتی ہے تو وہ سیدھے باہر بھاگ جاتے ہیں …….. وحشی ہیں بالکل، جانور …. بالکل …. اور یہ خوب ہے کہ اس کے پہنچتے ہی وہاں جھاڑو شروع ہوجاتی ہے۔ مارے گرد کے سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے۔ ذرا خیال نہیں تندرستی کا انہیں اور کوئی کیوں ان کے ہاں جاکر بیماری مول لے اور ان کے مرد، کتنی شرم آتی ہے اسے ان حرکتوں سے۔ وہ ہمیشہ ڈیوڑھی میں راستہ گھیرے بیٹھے رہتے ہیں اور جب تک وہ بالکل قریب نہ پہنچ جاۓ نہیں ہٹتے …….. ”ارے حقہ ہٹاؤ، حقہ ہٹاؤ “ اٹھتے اٹھتے ہی اتنی دیر لگا دیتے ہیں کہ وہ گھبرا جاتی ہے …….. جان کے کرتے ہوں گے یہ ایسی باتیں …….. تاکہ کھڑی رہے وہ تھوڑی دیر وہاں …….. اور جب وہ اندر پہنچ جاتی ہے تو اسے قہقہوں کی آواز آتی ہے۔ عجیب بد تمیز ہیں …….. انگریزوں کے ہاں کتنی عزت ہوتی ہے عورتوں کی۔ وہ بڈھے پادری صاحب جو آیا کرتے تھے، بہت اچھے آدمی تھے بیچارے، ہرایک سے کوئی نہ کوئی نہ بات ضرور کرتے تھے، بلکہ اسے تو وہ پہنچان گۓ تھے۔ سب مل کر جایا کرتے تھے اتوار کو گر جا …….. وہ خود، ڈینا، کیٹی، میری، شیلا اور ہاں مرسی …….. مسزجیمس کا کتنا مذاق اڑاتے تھے سب مل کر …….. سب سے پیچھے چلتی تھیں، چھتری ہاتھ میں لۓ ہانپتی ہوئی اوران میں تھا ہی کیا۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ تھیں بس …….. اور گرجا سے لوٹتے ہوۓ تو اور بھی بڑا مزا آتا تھا۔ سب چلتے تھے، آپس ہنستے، مذاق کرتے …….. افوہ، شیلا کس قدر ہنسوڑ تھی، کیسے کیسے منہ بناتی تھی۔ جب ہنسنے پر آتی تھی تو رکنے کا نام نہ لیتی تھی …. مگر یہاں وہ سب باتیں کہاں …….. اب تو جیسے وہ آدمیوں میں رہتی ہی نہیں ……..اور واقعی کیا آدمی ہیں یہاں والے؟ اول تو اسے اتنی فرصت ہی کہا ملتی ہے۔ ہر وقت پاؤں میں چکر رہتا ہے اور پھر ایسوں سے کوئی کیا ملے ؟…….. جیسے جانور …….. نہ کوئی بات کرنے کو، نہ کوئی ذرا ہنسنے بولنے کو، بس آؤ اور پڑ رہو …….. لے دے کے رہ گئی نصیبن، تو اسے اس کے سواکوئی بات ہی نہیں آتی کہ اس کا بیٹا بھاگ گیا، اس کی اپنے میاں سے لڑائی ہوگئی۔ اس کے یہاں برات بڑی دھوم دھام سے آئی …….. اسے کیا ان باتوں سے، ہوا کرے، اس سے مطلب …….. یابہت ہوا تو اسے خواہ مخواہ ڈراتی رہے گی چوروں کے قصے سنا سنا کر …….. ایک دفعہ اس نے سنایا تھا کہ ایک دوسرے قصبے کی مڈ وائف کو کچھ لوگ کیسے بہکا کر لے گۓ تھے۔
اور اس کے ساتھ کیسا سلوک کیا تھا…….. بکتی ہے بھلا کہیں یوں بھی ہوا ہے لیکن اگر کہیں اس کے ساتھ …….. مگر نہیں، بیکار کا ڈر ہے، …….. جو یوں ہوا کرے تو لوگ گھر سے نکلنا چھوڑ دیں …….. بھلا دنیا کا کام کیسے چلے …….. پاگل ہے بڑھیا، بہکادیا ہے کسی نے اسے …….. مگر ایسی جگہ کا کیا اعتبار، نہ معلوم کیا ہوگیا نہ ہو۔ کوئی ساتھ بھی تو نہیں …….. اگر وہ مڈ وائف نہ بنتی تو اچھا تھا اور وہ تو خود ٹیچر بننا چاہتی تھی بلکہ پاپا بھی یہی چاہتے تھے مگرماما ہی کسی طرح راضی نہ ہوئیں ……..کتنے دن ہوگۓ پاپا کو بھی مرے ہوۓ…….. بارہ سال، کتنا زمانہ گزر گیا اور معلوم ہوتا ہے جیسے کل کی بات ہو……..کتنا پیارکرتے تھے وہ اسے …….. روز سکول پہنچانے جاتے تھے ساتھ ……..کلاس میں اس کی سیٹ میز کے پاس تھی …….. اور وہ انگریزی کے ماسٹر صاحب بہت اچھے آدمی تھے …….. بے چارے، چاہے وہ کام کرکے نہ لے جاۓ، مگر کبھی کچھ نہیں کہتے تھے …….. اور لڑکے تو نہ جانے اسے کیا سمجھتے تھے۔ سارے اسکول میں وہ اکیلی ہی لڑکی تھی نا، سب کے سب ماسٹر صاحب کی نظریں بچا بچا کر اس کی طرف دیکھتے رہتے تھے …….. ارے وہ موٹا کرم چند، بھلاوہ بھی تو اس کی طرف دیکھتا تھا جیسے وہ بڑا خوبصورت سمجھتی تھی اسے …….. اور ہاں وہ عظیم ! یاد بھولا تھا۔ بیچارا، سوکھا سا زرد، مگر آنکھیں بڑی بڑی تھیں اس کی۔ دیکھتا تو وہ بھی رہتا تھا اس کی طرف، مگر جب کبھی وہ اسے دیکھ لیتی تھی تو وہ فوراً شرما کر نظریں نیچی کرلیتا تھا اور رومال نکال کر منہ پونچھنے لگتا تھا …….. اور اس دن وہ دل میں کتنا ہنسی تھی۔ اس دن وہ اتفاق سے جلدی آگئی تھی۔ برآمدہ میں دوسری طرف سے وہ آرہا تھا، جب وہ قریب آیا تو اس کا چہرہ سرخ ہوگیا اورگھبرا گھبرا کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔ اس کے پاس پہنچ کر وہ رک گیا اور کچھ کہنے سا لگا۔ ڈرتے ڈرتے عظیم نے اس کا ہاتھ پکڑ لیااور پھر جلدی سے چھوڑ دیا، اسے گھبرایا ہوا دیکھ کر وہ خود پریشان ہوگیا تھا اور اس نے بہت گڑ گڑا کر کہا تھا۔ ”کہیے گا نہیں۔“وہ کتنے دن اس بات کو یاد کرکے ہنستی رہی تھی ……..کتنا سیدھا تھا واقعی وہ…….. وہ ابھی اسکول ہی میں رہتی تو کتنا مزا رہتا …….. مگر …….. وہ زمانہ تو اب گیا …….. اب تو وہ یہاں دنیا سے الگ پڑی ہے۔ کوئی بات تک کرنے کو نہیں ……..کسی کا خط بھی جواب وہی ”نہیں “…….. اور جو آیا بھی تو بس وہی لمبے بادامی لفافے …….. آن ہنر میجسٹیز سروس …….. ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کی ہدایتیں، یوں کرو اوریوں کرو ….کوئی اس کی مانے بھی جو وہ یوں کرے …….. خواہ مخواہ کی آفت …….. اور پھر خط آۓ بھی کہاں سے …….. اگر آنٹی ہی دلی سے خط بھیج دیا کریں تو کیا ہے …….. مگر وہ تو برسوں بھی خبر نہیں لیتیں …….. ایک دفعہ جانا چاہۓ اسے دلی …….. اچھا شہر ہے ……..کیا چوڑی سڑکیں ہیں …….. اور سنیما کس کثرت سے ہیں …….. اور وہ………… وہ خیر ہے ہی …….. مگر ہو ………… کائیں، کائیں، کائیں نے اسے چونکا دیا۔ دھوپ آدھی دیوار تک اتر آئی تھی، کوا زور زور سے چیخ رہا تھا اور وہ بستر پر پیر نیچے لٹکاۓ لیٹی تھی۔ اسے جلدی جانا تھا اور اس نے بے کار لیٹے لیٹے اتنی دیر لگا دی تھی۔ وہ نصیبن پر اپنا غصہ اتارنے لگی کہ اس نے چاۓ کیوں نہیں لاکر رکھی مگر وہ سمجھ رہی تھی کہ میم صاحب سو رہی ہیں اور واقعی، اس نے خیال کیا۔ اس سے تو وہ اتنی دیر سوہی لیتی تو اچھا تھا۔ بہر حال اس نے نصیبن کو جلدی سے چاۓ لانے کو کہا۔
اس نے دوبارہ منہ دھویا اورالٹی سیدھی چاۓ پینے کے بعد وہ کپڑے بدلنے چلی۔ ٹرنک کھول کر وہ سوچنے لگی کہ کونسی ساڑھی پہنے …….. سفید، سرخ کناروں والی۔ مگر کیا روز روز ایک ہی رنگ …….. اور پھرسفید ساڑھی میلی کتنی جلدی ہوتی ہے۔ اس کی بہار تو بس ایک دن ہے۔ اگلے دن کام کی نہیں رہتی…….. نیلی ساڑھی نیچے سے چمک رہی تھی …….. اسے ہی کیوں نہ پہنے ؟ …….. مگر اسے نیلی ساڑھی پہنے دیکھ کر تو لوگ اور بھی باؤلے ہوجائیں گے …….. وہ جدھر سے نکلتی ہے سب کے سب اسے گھورنے لگتے ہیں۔ اسے بڑی بری معلوم ہوتی ہے ان کی یہ عادت …….. اور ان زمینداروں کو دیکھو، بڑے شریف بنتے ہیں ؟……..خیر یہ تو جوکچھ ہے سو ہے، جب وہ آگے بڑھ جاتی ہے تو وہ ہنستے ہیں…….. اور طرح طرح کے آوازے کستے ہیں…….. ”کہو یار!“……..” ابے مجید ذرا لیجو !“…….. کوئی کھانسنے لگتا ہے؛ کیا وہ سمجھتی نہیں…….. ذرا شہر میں کرکے دیکھتے ایسی باتیں …….. وہ مزا چکھا دیتی انہیں …….. مگر یہاں وہ کیا کرے، مجبور ہوجاتی ہے۔
ان کی ہی وجہ سے تو اس نے رنگ دار ساڑھیاں چھوڑدیں اورسفید پہننے لگی، مگر پھر بھی نہیں مانتے …….. اب اگر آج وہ نیلی ساڑھی پہن کر جاۓ گی تو نہ معلوم کیا کیا کریں گے …….. توپھر سفید ہی پہن لے ……..مگر روز روز سفید اور کیا، وہ کوئی ان سے ڈرتی ہے۔ ہنستے ہیں تو ہنسا کریں، کوئی اسے کھا تھوڑی لیں گے، بھلا کیا بگاڑسکتے ہیں وہ اس کا ؟ ……..اب وہ پھر رنگ دار ساڑھیاں پہنا کرے گی …….. دیکھیں وہ اس کا کیا بناتے ہیں …….. ہنسیں گے تو ضرور مگر اس سے ہوتا ہی کیا ہے …….. آج ضرور نیلی ساڑھی پہنے گی !
نیلی ساڑھی پہن کراس نے بال بنانے کے لۓ آئینہ سامنے رکھا۔ کم خوابی سے اس کی آنکھیں لال اورکچھ سوجی ہوئی سی تھیں۔ وہ ہاتھ میں آئینہ اٹھا کر غور سے دیکھنے لگی …….. مگر یہ ا س کا رنگ کیوں خراب ہوتا چلا جارہا تھا اورکھال بھی کھروری ہو چلی تھی۔ جب وہ لڑکی تھی تو اس کے چہرے پرکتنی چمک تھی ……..رنگ سانولا تھا تو کیا، چمکدار تو تھا …….. اس کی آنٹی ہمیشہ ماما سے کہا کرتی تھیں۔ “تمہیں بیٹی اچھی ملی ہے…….. مگر اب ……..”
اس نے آئینہ رکھ دیا اور اپنے جسم کو اوپر سے نیچے تک ایسی حسرت سے دیکھنے لگی جیسے مور اپنے پروں کو …….. اس کے بازوؤں کا گوشت لٹک آیا ہے اورٹھوڑی بھی موٹی ہوگئی ہے اور ہاتھ اب کتنے سخت ہیں۔ بال بھی سوکھے ساکھے اور ہلکے رہ گۓ ہیں اور تیزی تو اس میں بالکل نہیں رہی ہے۔ پہلے وہ کتنا کتنا دوڑتی بھاگتی تھی اورپھربھی نہ تھکتی تھی۔ مگراب تو تھوڑی ہی دیر میں اس کی کمر ٹوٹنے لگتی ہے۔
اس نے ایک لمبی سی انگڑائی اور پھر ایک گہرا سانس لیا۔ بے ر ونق چہرے اور پلپلے بازوؤں نے نیلی ساڑھی کا رنگ اڑا دیا تھا۔ اس نے بال ایسی بے دلی سے بناۓ کہ بہت سے تو ادھرادھر اڑتے رہ گۓ۔ بال بن چکے تھے مگر وہ برابر آئینے کو تکے جا رہی تھی اوراس کا دماغ سمٹ کر آنکھوں کے پپوٹوں میں آگیا تھا جن میں ایک ہی جگہ ٹھہرے ٹھہرے مرچیں سی لگنے لگی تھیں۔
جب اس نے آئینہ رکھا تو اسے میز کے کونے پر دیو ار کے قریب بائبل رکھی نظر آئی۔ یہ بچپن میں سالگرہ کے موقع پر اس کے پاپا نے اسے دی تھی۔ مدتوں میں اس نے اسے کھولا تک نہ تھا اور وہ گرد سے اٹی پڑی تھی۔ اس کتاب نے اسے پھر پاپا کی یاد دلادی اور وہ اسے اٹھانے پر مجبور ہوگئی۔ پہلے ہی صفحہ پر اس کا نام لکھا تھا۔ یہ دیکھ کر اسے ہنسی آئی کہ وہ اس وقت کیسے ٹیڑھے میڑھے حروف بنایا کرتی تھی۔ اسے یہ بھی یاد آیا کہ اس زمانہ میں اس کے پاس ہرا قلم تھا۔ اس کا ارادہ ہوا کہ اب کے جب وہ شہر جاۓ گی تو ایک ہرا قلم ضرور خریدے گی مگر اسے خیال آیا کہ وہ قلم لے کر کرے گی ہی کیا۔ اب اسے کونسا بڑا لکھنا پڑھنا رہتا ہے۔
اس کے پاپا اسے بائبل پڑھنے کی کتنی ہدایت کیا کرتے تھے۔ اسے اپنی بے پروائی پر شرم سی محسوس ہوئی اور وہ بائبل کے ورق الٹنے لگی…….. پیدائش…….. خروج…….. ورق تیزی سے الٹے جانے لگے ……..استثنا …….. روت …….. یرمیاہ …….. حقوق…….. متی ……..لوقا…….. رسولوں کے اعمال……..کہاں سے پڑھے …….. آدم…….. نوح ……..طوفان…….. ابراہیم……..کشتی…….. صلیب…….. مسیح …….. یسوراجاآۓ ……..گرجا کا گھنٹہ ……..سب مل کر گرجا جاتے تھے، ہنستے مذاق کرتے ……..
آخر وہ فیصلہ نہ کرسکی کہ کون سی جگہ سے پڑھے اوراسے جلدی جانا تھا، اتنا وقت بھی نہیں تھا لیکن اس نے ارادہ کرلیا کہ وہ اب روز صبح کو بائبل پڑھا کرے گی ورنہ کم سے کم اتوار کو ضرور ……..لیکن دعا تو مانگ ہی لینی چاہۓ …….. بہت بری بات ہے ماماکبھی بغیر دعا مانگے نہیں سونے دیتی تھیں ……..اورپھر اس میں وقت بھی کچھ نہیں لگتا اور لگے بھی تو کیا دنیا کے دھندے تو ہوتے ہی رہتے ہیں۔
اس نے دماغ کو ساکن بنانا چاہا اور آنکھیں بند کرلیں مگرباوجود اس کے آنکھیں پٹ پھٹانے سے پہلے تو اس کی ماما اس کی آنکھوں میں گھس اور پھر پاپا اور ان کے پیچھے پیچھے گرجا کی سڑک، گھنٹہ اورسب مل کر گرجا جایا کرتے تھے ہنستے، مذاق کرتے۔
اس نے آنکھیں کھول کر سرکو اس طرح جھٹکے دیاگویا ان سب کو اپنی آنکھوں میں سے جھاڑ رہی ہے…….. آخردماغ بالکل خالی ہوگیا اور خاموش۔ صرف کانوں اور سر میں دل کے دھڑکنے کی آواز آرہی تھی۔ اس نے دوبارہ آنکھیں بند کرلیں۔ دونوں ہاتھ جوڑ لۓ او ر دعا کو دہراتی چلی گئی۔ ” اے میر ے باپ تو جو آسمان پر ہے تیرا نام پاک مانا جاۓ تیری بادشاہی آۓ۔ تیری مرضی جیسے آسمان پرپوری ہوتی ہے ویسے ہی زمین پر ہو۔ ہماری روز کی روٹی آج ہمیں دے اور ہمارے قصوروں کو معاف کر جیسے ہم بھی اپنے قصوروں کو معاف کرتے ہیں۔ کیونکہ قدرت جلال ابد تک تیرا ہی ہے۔ آمین !“
آنکھیں کھولنے پر اس نے کچھ اطمینان سا محسوس کیا اور مسکرانے کی کوشش کرنے لگی اس نے پھر آئینہ میں جھانکا اور چاہا کہ کسی خاص چیز کے لۓ دعا مانگے لیکن کیا چیز ؟ کوئی !…….. اس کا تبادلہ شہر میں ہوجاۓ …….. مگر وہاں اسے پھر ولیمن کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس سے تو یہ قصبہ ہی بہتر ہے …….. پھر اور کیا ؟ …….. وہ ایک کہانی تھی کہ ایک پری نے ایک آدمی سے تین خواہشیں پوری کرنے کا وعدہ کیا تھا ……. .پھر آخر کیا ؟……..
اس نے بہت بازو ملے۔ مگر کوئی بات یاد نہ آئی۔ اسے دیر ہو رہی تھی اس لۓ اس نے اپنی دعاؤں اور خواہشوں کو چھوڑ دیا اور چھتری اٹھا کر چل پڑی۔
سڑک پر پہنچ کر اس پر محض ایک جلدی پہنچنے کا خیال غائب تھا۔ صبح کی اس تمام کاہلی اور سستی کے بعد اسے عضاکو حرکت دینے میں فرحت محسوس ہورہی تھی۔ سورج کی ہلکی سی گرمی اور چلنے سے اس کے خون کی حرکت تیز ہوگئی تھی اور وہ سڑک کی نالی ریت کنکروں سب سے بے پروا اپنا راستہ طے کرنے میں لگی ہوئی تھی۔ اگر اسے اپنی رفتار میں کبھی کچھ سستی معلوم ہوتی تو وہ اور قدم بڑھانے کی کوشش کرتی۔ سڑک پرکھیلنے والے لڑکے ابھی تک نہ نکلے تھے۔ اس لۓ اپنی آنکھ ناک کی حفاظت کی ضرورت نہ تھی۔ جب وہ دیواروں کے سایہ میں سے گزرتی تو اس کے پیر اور بھی تیز اٹھنے لگتے تھے۔
وہ جلدی ہی بازار میں پہنچ گئی۔ شیخ صفدر علی کا مکان اب تھوڑی ہی دور رہ گیا تھا اور اطمینان سا ہوگیا تھا کہ زیادہ دیر نہیں ہوئی۔ وہ چلی جارہی تھی کہ اس کی نظر ایک دکاندار پرپڑی۔ وہ اپنے سامنے والے کو آنکھ سے اشارہ کر رہا تھا اور مسکرا رہا تھا۔ کیا یہ اسے دیکھ رہا تھا ؟ ممکن ہے وہ پہلے سے کسی بات پر ہنس رہے ہوں اور اسے دیر بھی ہوگئی تھی …….. وہ آگے بڑھی ہی تھی کہ آواز آئی ”آج تو آسمان نیلا ہے بھئی …. بڑے دن میں ایسا ہوا ہے آج “……..اس نے چاہا پلٹ کر چھتری رسید کرے اس بد تمیز کے ……..چاہے کچھ ہو آج وہ کھڑی ہوجاۓ اور صاف صاف کہہ دے کہ وہ ان لوگوں کی باتیں اچھی طرح سمجھتی ہے اور اب وہ زیادہ برداشت نہیں کرسکتی …….. آخر کہاں تک …….. پیر من من بھر کے ہوگۓ تھے اور ٹانگیں تھرتھرا رہی تھیں جس سے وہ کئی دفعہ چلتے چلتے ڈگمگا گئی …….. مگر ان آنکھوں نے جو اب ہر طرف سے اس کی طرف دیکھ رہی تھیں اسے رکنے نہ دیا۔ وہ اپنی ساڑھی میں کچھ سکڑ سی گئی۔ اس نے پلو اچھی طرح سینے پر کھینچ لیا اور سرجھکا کرقدموں کو سڑک پر سے اکھاڑنے لگی ……..
جب وہ شیخ صفدر علی کے مکان پر پہنچی تو وہ ڈیوڑھی میں کچھ لوگوں کے ساتھ بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔ اسے دیکھتے ہی وہ کھڑے ہوگۓ اور ایسے شکایت آمیز لہجے میں جیسے اس نے کوئی نایاب موقع ہاتھ سے نکل جانے دیا تھا جس پر شیخ جی کو اس سے ہمدردی تھی بولے :
”اخاہ میم صاحب ! بڑی ہی دیر کردی تم نے تو!“
” جی ….ہاں …. وہ ذرا دیر ہوگئی۔ ” کہتی ہوئی وہ زنانہ کی طرف بڑھی۔ جب وہ دروازہ پر پہنچی تو اس نے دیکھا کہ قصبہ کی پرانی دائی بائیں ہاؒتھ پر کپڑے اٹھاۓ اورداہنے ہاتھ میں لوٹا ہلاتی صحن سے گزر رہی ہے، یہ کہتی ہوئی ”جرا دیکھ تو …. ابھی تک نہ نکلی گھروے سے حرام جادی !
Sample Chapter
Urdu Literary Culture: Vernacular Modernity in the Writing of Muhammad Hasan Askari
Mehr Afshan Farooqi
Muhammad Hasan Askari was Urdu’s first literary critic in the Western, practical sense of the term: that is, he chose to set up as a critic, an interpreter, and a judge of literature.
Hasan Askari: Bringing Urdu Criticism to the Metropolitan Readers
Ambrina Qayyum
Unlike most scholarly works about the so-called global periphery that take up, as an object of study, works of poetry, drama or prose, Farooqi’s Urdu Literary Culture is focused primarily on the miscellaneous prose works of Mohammad Hassan Askari, one the of the greatest Urdu critics.
Review
Syed Mafiz Kamal
Mehr Farooqi has written one of the most interesting, provocative and engaging books on modern Urdu literature and literary criticism in recent years.
Askari and Firaq: Personal Relations in Life and Letters
Mehr Afshan Farooqi
There is a unique place for the poet Firaq Gorakhpuri (1895– 1982) in Askari’s writing. His unbounded, almost-ardent admiration for this poet-professor of the English Department, who played an important mentoring role in his life, has been dubbed “too difficult to swallow,” by Urdu literary critics, but never scrutinized or studied with a view to determine why Askari was so strongly biased in his assessment of Firaq.
حسن عسکری :ادب و فن میں فحش کا مسئلہ
پچھلے مہینے اپنی باتوں کے سلسلے میں فراق صاحب نے چند اشعار لیے تھے جنھیں عام طور پر فحش سمجھا جاتا ہے اور بتایا تھا کہ وہ کیوں فحش نہیں ہیں۔ ہر بحث میں اور خصوصاً اس فحش نگاری کی بحث میں کلیے قائم کرنے اور مطلق اصولوں پر جھگڑنے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ ٹھوس مثالیں لے کر ان کے حسن و قبح پر غور کیا جائے۔ اور سطح کے نیچے جا کر محض لغوی مطلب کے علاوہ انھیں معنی کی دوسری قسموں (ارادہ، مزاج، لہجہ وغیرہ) کی روشنی میں بھی دیکھا جائے۔ بحث کو صاف اور واضح کرنے کے علاوہ اس میں ایک عام تعلیمی اور تہذیبی فائدہ بھی ہے۔
حرام جادی – محمد حسن عسکری
دروازہ کی دھڑ دھڑ اور ’کواڑکھولو‘ کی مسلسل اور ضدی چیخیں اس کے دماغ میں اس طرح گونجیں جیسے گہرے تاریک کنوئیں میں ڈول کے گرنے کی طویل، گرجتی ہوئی آواز۔ اس کی پرخواب او نیم رضا مند آنکھیں آہستہ آہستہ کھلیں لیکن دوسرے لمحہ ہی منہ اندھیرے کے ہلکے ہلکے اجالے میں ملی ہوئی سرمہ جیسی سیاہی اس کے پپوٹوں میں بھرنے لگی اور وہ پھر بند ہوگئیں۔ آنکھوں کے پردے بوجھل کمبلوں کی طرح نیچے لٹک گۓ اور ڈلوں کو دبا دبا کر سلانے لگے لیکن کان آنکھوں کی ہم آہنگی چھوڑ کر بھنبھنا رہے تھے۔ وہ اس سحر خیز حملہ آور کی تازہ یورش کے خلاف اپنے روزن بند کرلینا چاہتے تھے …….. اور پھر بھی بھنبھنا رہے تھے۔