تُرکِ غمزہ زن – اوپندر ناتھ اشک از راجندر سنگھ بیدی
1936کی با ت ہے ، منشی پریم چند کی وفات کے سلسلے میں لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں تغزیتی جلسہ ہوا۔
میری ادبی زندگی کی شروعات تھی ۔ مشکل سے دس بارہ افسانے لکھے ہوں گے جو کہ معمول کی دِقّتوں کے بعد آہستہ آہستہ ادبی رسالوں میں جگہ پانے لگے ۔ ہم نئے لکھنے والوں کی کھیپ منشی جی سے اثر پذیر تھی ، اس لیے ہم سب کو محسوس ہو رہا تھا کہ ہمارا مجازی باپ چلا گیا ۔ چنانچہ اپنا غم دوسروں کو دکھانے ، دوسروں کے غم کو اپنا بنانے کے لیے بھی جلسے میں پہنچ گیا ۔ ایک خیال یہ بھی تھا کہ جائز اور حقیقی وارثوں سے ملیں گے جن سے غائبانہ تعارف تو تھا لیکن سامنے کی ملاقات نہ تھی۔
جلسہ شروع ہوا ۔ کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ اچھا لکھنے والے اچھی تقریر کر پائیں ۔ کچھ لوگوں نے بہت ہی اچھی تقریریں کیں اور میں سمجھ گیا ۔ اس جلسے میں ایسے بھی تھے جنھوںنے چھاتی پیٹ پیٹ کے محرّم کا سماں پیدا کر دیا تھا ۔ یہ سب ’’ پرچے بیچنے ‘‘ والے تھے ، جنھیں یوں الفاظ کے خاک و خون میں غلطاں دیکھ کر مجھے شر بناچٹر جی کے کردار دیوداس کی یاد آگئی، جو اپنے باپ کی موت پر گھر کے ایک کونے سے لگا رسمی آہ و بکا کرنے والوں کو اپنے دنیادار بھائی کی طرف یہ کہہ کر بھیج دیتا ہے— ’’اُدھر !‘‘
جلسے میں کچھ لوگ اِدھر والے بھی تھے ۔ ان میں سے ایک اُٹھا ۔ سانولے رنگ کا دیوار کے ساتھ گڈی لگی ، سلیٹ کا سا ماتھا ، تُشار کانتی گھوش کے سے بال ، آنکھوں پر ہیرلڈ لائیڈ کا سا چشمہ ، دھوتی کرتے میں اوپر مسجد ، نیچے ٹھاکردوار ۔ تھکا تھکا ۔ مضمحل ۔ مرنے سے برسوں پہلے مرا ہوا ۔
’’ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں ! ‘‘ اُس نے اپنی ڈُڈّی انگلیوں کو انگوٹھے کے ساتھ لگاتے ہوئے، ہاتھ صاحبِ صدر کی طرف بڑھاتے ہوئے ، کہا ۔
صاحب ِ صدر نے اجازت دی بھی نہ تھی کہ اُس نے میز پر پہنچ کر ایک کرخت آواز ، ایک بھونڈے لہجے میں [بولنا ] شروع کیا ۔ معلوم ہوتا تھا کہ پنجابی ہتھوڑے سے ہندی اور اردو کے کوبڑ نکال رہاہے ۔ ابھی لندن کے لیے روانہ ہوا ،کلکتہ پہنچ گیا ۔ پھر لوگوں نے دیکھا ، یہ تو کوئمبٹور میں گھوم رہاہے ، پھر دلّی میں ہے ، جبھی کسی خیالی جیٹ میں بیٹھ کر منزل پر پہنچ گیا ۔ تقریر کیا تھی، ایک ایسے آدمی کی چال تھی جو غم کے مارے زیادہ پی گیا ہو ۔ لیکن اُسے کسی کی پروا نہ تھی ۔ وہ ’’ نالہ پابندِ نَے نہیں ہے ‘‘ کے سے انداز میں بولا چلا جا رہا تھا اور معلوم ہوتا تھا کہ میز کے ایک طرف کھڑا وہ کل عالم کا باپ ہے اور ارد گرد کے سب لوگ اس کے بچے بالے ہیں، جو کھیل رہے ہیں اور انھیں کھیلنے دینا چاہیے …
ان سب باتوں کے باوجود اس کی تقریر میں ایک اثر تھا، کیوں کہ وہ اُس دل سے آئی تھی جو صَرف و نحو کے قواعد سے نا واقف ہوتا ہے ۔ اس میں ایک درد تھا اور ایک کلبلاہٹ تھی جو صرف طبّاعوں کے حصّے میں آتی ہے ، اور جس کا غیر منطقی منطق ’’ پرچہ بیچنے ‘‘ والوں کو حیران کیا کرتا ہے ۔ وہ اُن خطوط کا حوالہ دے رہا تھا جو منشی جی نے اپنی حیات میں لکھے تھے اور جس میں رہنمائی اور عقدہ کشائی کی بہ نسبت اپنے ہم مشرب سے جذباتی یگانت [یگانت ] کا اظہار زیادہ تھا اور جو خط ،اس ماتمی لمحے میں محض خط سے بڑھ کر اب ایک خزانہ ہو چکے تھے ۔
یہ اشک تھا ۔ اس سے پہلے میری اشک سے ملاقات تک نہ ہوئی تھی ۔ میں نے اس کو سدرشن کے رسالے ’’ چندن ‘‘ میں پڑھا ضرور تھا، لیکن دیکھا نہ تھا ۔ یہاں تک کہ اس کی کوئی تصویر بھی میری نظر سے نہ گذری تھی ۔ جو لوگ اشک کو جانتے ہیں، کہیں گے یہ ہو ہی نہیں سکتا ۔ اشک تو تصنیف و تالیف کے ساتھ تشہیر کا بھی قائل ہے اور اس لکھنے والے کو بیوقوف اور جاہل سمجھتا ہے جو صرف لکھنا ہی جانتا ہے ۔ بعد میں میں نے بھی دیکھا کہ اشک نہایت بے تکلّفی سے اپنی کوئی اُلٹی سیدھی تصویر ایڈیڑیا کسی ناشر کے گلے منڈھ دیتا ہے جو اس غریب کو چھاپنی ہی پڑتی ہے، اور کیا تصویر ہوتی ہے !— سامنا ایک چوتھائی ، تین چوتھائی پر وفائل جس میں زلفیں کاندھوں پر بکھری ہوئی ہیں، یا اگر شیو بنی ہے تو سر کے بالوں کو بڑی صفائی سے کنڈلوں میں ڈال رکھاہے۔کچھ دیر دیکھنے پر یقین ہوجاتا ہے — مرد ہے — ابھی ننگا ہے ۔ ابھی ڈھانپے ہوئے… ایک منٹ ایک پرچہ ، ایک کتاب ! پہلے سر پر گاندھی ٹوپی تھی تو اب فلٹ ہیٹ ہے جو سر پر عمداًٹیڑھی رکھی ہے اور بانکا لگ رہا ہے ۔ اس پر ستم یہ کہ خود بھی مسکرا رہا ہے … یا سر پر قرہ قلی ہے اور آنکھیں ادھ کھلی ۔ ترک ِ غمزہ زن معلوم ہورہا ہے ، جو اس کے ہزاروں پڑھنے دیکھنے والوں کو کھل رہا ہے ۔ اس پر بھی جو دل میں گھر کیے ہوئے ہے ۔ حافظ کے الفاظ میں دل کے نہا ں خانے میں آرام کر رہا ہے اور خلقت کو گمان ہے کہ وہ محفل میں بیٹھا ہے … میں جوڈاڑھی کو کسی دشمن کے چہرے پر دیکھنا چاہتا ہوں اور اس ڈر کے مارے آئینہ نہیں دیکھتا ، اشک کے چہرے پر فرانسیسی طرز کی بکروٹی دیکھ رہا ہوں ۔ اس کے بعد اشک کی شکل کسی تصویر میں کیا ہوگی، یہ کسی کو نہیں معلوم ، خود اشک کو بھی نہیں معلوم ،کیونکہ تلوار کی دھار کے سے من ، چانکیہ کی سی بُدھّی اور دور پہنچنے والی نگاہوں کے باوجود، اشک اس لمحے کا پورا احترام کرتا ہے جس میں وہ اس وقت جی رہا ہو ۔ وہ صرف حواس سے ہی زندگی کا لطف نہیں لے رہا، اس میں شعور بھی پورے طریقے سے شامل ہے ۔ معلوم ہوتا ہے حال اور قیل و قال کے سلسلے میں اگر کرشنامورتی کو کسی نے غلط پڑھا ہے تو اشک نے ۔ ہو سکتا ہے اگلی تصویر میں وہ جو گیا بامَا پہنے ہوئے ہو ۔ اور ایک ہاتھ سے دیکھنے والے کی طرف ’’ چھو‘ ‘‘بھی کر رہا ہو ۔ یہیں پر بات ختم نہیں ہو جاتی ۔ وہ تصویر ایسے ناول کا بھی حصّہ ہو سکتی ہے، جو سر تا سر پھول کی پتّی ہو اور جس سے ہیرے کا جگر بھی کٹ سکے ۔
شاید کوئی ازلی دوستی تھی یا ابدی رشتہ قائم ہونے والا تھا کہ اشک سے متعارف ہوئے بغیر مجھے یقین ہو گیا کہ یہ شخص اشک کے بغیر اور کوئی نہیں ہو سکتا ۔ اُس دور کے سب لکھنے والوں میں سے جو آدمی منشی جی کے قریب تھا اور اُن سے ہم رنگ تھا، وہ اشک تھا ۔ منشی جی نے اپنی زندگی میں دوسروں کو بھی خطوط لکھے ہوں گے ، لیکن جن خطوط کا اشک حوالہ دے رہا تھا، اُن کا مضمون ہم مشربی کی طرف اشارہ کرتا تھا … جلسہ برخواست ہوا ۔ میں ان دنوں پوسٹ آفس میں کلرک کی حیثیت سے کام کرتا تھا، اس لیے پبلک کی شکایتوں سے بہت ڈرتا تھا ۔ چنانچہ آہستہ آہستہ ڈرتے ڈرتے میں اشک کے پاس پہنچ گیا ۔ وہ ایک ایڈیڑصاحب کے ساتھ بحث میں الجھاہوا تھا ۔ بحث کے خاطر بحث کرنا اشک کا آج تک شیوہ ہے ۔ یہ بات نہیں کہ جو وہ کہنا چاہتا ہے اس میں وزن یا دلیل نہیں ہوتی ۔ سب کچھ ہوتا ہے اور نہیں بھی ہوتا ۔ لیکن اشک تو اس میں سے ایک خاص قسم کا مچھندری مزا لیتا ہے اور اس سلسلے میں بحث و تمحیص کے سب حربے استعمال کرتا ہے ۔ ایک آدمی ابھی ابھی مدّلل گفتگوکر رہا ہے لیکن اشک اس سے یہ کہہ کر کہ ہم شاید دو مختلف چیزوں کی بات کر رہے ہیں، اسے ایسی سوچ ، ایسی گھبراہٹ میں ڈال دیتا ہے کہ گفتگو کر نے والے کی ریل صاف پٹری سے اتر جاتی ہے ۔ پھر آپ جانتے ہیں کہ ایک بار ریل پٹری سے اتر جائے تو کیا ہوتا ہے ۔ مخالف تلملاتا ہوا رہ جاتا ہے ۔ اگر وہ ہوشیار ہو اور خلطِ مبحث ہونے دے تو [اشک ] آپ کو ٹھہا کا مارکر ہنستا ہوا اور کہتا ہوا ملے گا ’’ تم تو یارسنجیدہ ہو گئے !‘‘ ابھی وہ پورے طریقے سے سمجھ بھی نہ سکا کہ اشک اس کا ہاتھ پکڑ کر بڑے پیار سے کہہ رہا ہے ’’ در اصل جو بات تم کہہ رہے ہو ،وہی میں بھی کہہ رہا ہوں ۔صرف لفظوں کا ہیر پھیر ہے … ‘‘ اس کے بعد اور کیا ہو سکتا ہے سوائے اس کے کہ دوسرا آنکھیں جھپکتا رہ جائے اور اپنے آپ کو بیوقوف سمجھنے لگے یا پھر خفا ہو جائے کہ مجھ سے خواہ مخواہ زبان کی ورزش کرائی گئی ۔ نتیجہ ہر دو صورت میں وہی ہوتا ہے ۔ کوئی خفا ہو تو میدان اشک کے ہاتھ میں اور خوش ہو تو اشک کے ہاتھ میں ۔ چِت بھی اشک کی اور پٹ بھی اشک کی … جب میں دھیرے دھیرے سرکتا ہوا اشک کے پاس پہنچا تو بحث کرنے والے ایڈیٹرکا بگل بج چکا تھا ۔ اب میری باری تھی ۔ میں نے آگے بڑھتے ہوئے کہا ۔
’’اشک صاحب !‘‘
ایک دم گھوم کر اشک نے اپنی نظریں مجھ پر گاڑ دیں اور میرے آر پار دیکھنے لگا ۔ آپ اندازہ کیجیے، اگر میرے کمرے میں عام روشنی کی بجائے روتنجن شعاعیں(X.RAYS)ہوں تو بڑے سے بڑا رومانی منظر بھی کیا ہوگا ۔ یہی نا کہ کھوپڑی سے کھوپڑی ٹکرارہی ہے ۔ ایک ڈھانچے کا بازو اٹھا اور دوسرے ڈھانچے کے گلے میں پیوست ہو گیا اور معلوم ہوا کہ صنفِ مخالف کو ہم آغوشی کے لیے نہیں، گلا گھونٹنے کے لیے اپنی طرف کھینچا جا رہا ہے اور پھر گلا بھی کہاں ؟… میں نے کہا— ’’بڑی مدّت سے میری تمنّا تھی کہ اشک صاحب … ‘‘
’’ آپ — ؟‘‘ اور پھر اگلے ہی لمحے وہ کہہ رہا تھا ۔ ’’ تم کہیں راجندر سنگھ بیدی تو نہیں ؟ ‘‘
ایکا ایکی جیسے میں اپنا نام بھول گیایا کم سے کم یہ ضرور محسوس ہوا کہ راجندر سنگھ بیدی کوئی دوسری شخصیت ہے ، جسے میں نہیں جانتا ہوں ۔ جبھی اپنے آپ میں آتے ہوئے میں نے کہا ’’ ہاں اشک صاحب، میرا ہی نام راجندر سنگھ بیدی ہے ۔ ‘‘
انسان کی انا کہاں تک پہنچتی ہے ۔ در اصل یہ دنیا کتنا بڑا جنگل ہے ۔ کتنا بڑا صحرا ، جس میں وہ کھویا کھویا پھرتا ہے اور ہر دم یہی چاہتا ہے کہ کوئی بھی اسے پہچانے ، کوئی بھی اس کا نام پکارے اور جب ایسا ہو جائے تو اسے کتنی بڑی خوشی ہوتی ہے ۔ ایک بچہ تو دھیرے دھیرے اپنا نام سیکھتا ہے ، اپنی ذات کو دوسروں سے الگ کرکے دیکھنے لگتا ہے، لیکن بڑا ہو کر اپنے مجازی نام کو پالینے کے بعد اپنے حقیقی نام کے لیے کتنی دوڑ دھوپ کرتا ہے اور پہچانے جانے کے بعد وہ اپنے نام کو اسمِ اعظم سے الگ کر کے نہیں دیکھ سکتا ۔ پھر اس میں جذب ہو جانے کی تمنّا کے باوجود اپنی ایک انفرادیت بھی رکھتا ہے ۔ اگر میں نے اشک کو ملے بغیر اسے پہچان لیا، تو اس نے بھی ایک ہی نظر میں مجھے جان لیا … میں پھر ایک چھوٹا سا ادیب، اور ایک اتنا بڑا ادیب مجھے میرے نام سے جانتا ہے … یہی نہیں اس نے میری ایک دو کہانیوں کا ذکر بھی کر دیا، جو ان دنوں تھوڑے تھوڑے وقتی فرق کے ساتھ لاہور کے رسالوں میں چھپی تھیں … وہ ان کی تعریف بھی کرتا تھا … کیا یہ سچ ہے ؟ اس لق ودق ویرانے میں مجھ بے بضاعت ڈاک خانے کے ایک بابو کے لیے بھی جگہ ہے ؟…
جگہ تھی یا نہیں ۔ اِس وقت بھی ہے یا نہیں ۔ اس سے بحث نہیں۔ اشک جسے پسند کرتا ہے اُسے تسلیم بھی کرتا ہے اور نام ونمود کی اس دنیا میں اس کے لیے جگہ بنانے کی شعوری کوشش بھی ۔ یہ بات ہے جو میںنے اشک میں بدرجۂ اتم پائی ہے ۔ آج جب میں اپنے پیچھے ادبی زندگی کے تیس سال دیکھتا ہوں تو ندامت سے اپنی گردن جھُکا لیتا ہوں ۔ میں نے تو کسی نئے لکھنے والے کی مدد نہیں کی ۔ میں بھی اشک کی طرح ان کی تعریف کر سکتا تھا، تنقید کرسکتا تھا اور ان کے لیے راستہ آسان کرسکتا تھا۔ لیکن میں میں ہوں اور اشک اشک ۔ آج بھی ،جب میں اشک سے ملتا ہوں تو اسے کسی نئے لکھنے والے کا نام لیتا ہوا پاتا ہوں ۔ مجھے اچمبھاہوتا ہے ۔ وہ محبت جو انسان چوبیس گھنٹے اپنے ساتھ کرتا رہتا ہے، نفرت سے بدل جاتی ہے اور چونکہ آدمی ہر حالت میں اپنے آپ سے پیار کرنا چاہتا ہے، اس لیے اشک سے آدمی چڑ جاتا ہے ۔ میری اس کمزوری کی وجہ کیا ہے ؟ شاید میرے لیے اسے سمجھانا مشکل ہے اور کسی کے لیے سمجھنا مشکل ۔ آسانی کے لیے صرف اتنا کہوں گا … مجھے شروع ہی سے ایک احساسِ کمتری ہے ۔ باوجود کوشش کے ، دوسروں کی تحسین و تسلیم کے ، میں اسے نہیں جھٹک سکا … جیسے مجھے اپنے آپ پر یقین نہیں ؟کیوں یقین نہیں؟ اسے جاننے کے لیے کسی کو میری زندگی جینا پڑے گی اور اشک کو کیوں یقین ہے ،اس کے لیے اشک کی زندگی جینا پڑے گی ۔
اگلے ہی لمحے ہم دو دوستوں کی طرح باتیں کر رہے تھے ، جیسے برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں… شاید گرمیوں کا موسم تھا اور ایک غبار سا چھایاہوا تھا۔نیچے کی دھول اور گردتھی،جو کچّے علاقوںسے بے شمار گھوڑوں کی ٹاپ سے یابے لگام ہوا کے ساتھ اوپر چلی آئی تھی اور ریزہ ریزہ نیچے آرہی تھی ۔ ہم پیدل چل رہے تھے ۔ اشک باتیں کر رہا تھا اور میں سن رہا تھا۔ وہ بہت باتیں کرنا چاہتا تھا ۔ ایسا کیوں ؟ اس کی وجہ مجھے بعد میں پتا چلی ۔ اس وقت ہماری باتیں ایک نئے شادی شدہ جوڑے کی سی باتیں تھی ، جو رات بھر ایک دوسرے کو کچھ کہتے سنتے رہتے ہیں اور دوسرے روز اپنی ہی باتوں کا ’’ تات پریہ ‘‘ (مطلب) نہ پاکر حیران ہوتے ہیں ۔ پیدل چلتے باتیں کرتے ہوئے ہم انارکلی کے قریب پہنچ گئے ، جہاں اشک نے مجھے اپنا گھر دکھایا ۔
اشک کا گھر انار کلی بازار سے ہٹ کر پیچھے ایک گنجان آباد گلی میں تھا ، جس میں اکثر عورتیں اپنے مکان سے ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کرتی سنائی دیتی تھیں ۔ ’’ بھابو ، آج تیرے یہاں کیا پکا ہے؟ ‘‘ اور وہ جواب میں کہتی ’’ آج کچھ نہیں پکا ۔ یہ باہر کھانا کھا رہے ہیں نا ۔ تو دال ایک کٹورے میں بھیج دینا … ‘‘ اور کہیں آپ بے خبر جا رہے ہوں تو اوپر سے کوڑاگرتا ہے اور آپ کی طبیعت تک صاف کردیتا ہے ۔ گلی میں اتنی جگہ نہیں کہ کوئی اچھل کر ایک طرف ہوجائے ۔ کوئی لڑکا کوٹھے میں کھڑا سامنے کی کھڑکی میں جھکی ہوئی لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر اس کی ہتھیلیاں کھجلادیتا ہے ، جو لاہور کا عام منظر ہے اور جس سے پتا چلتا ہے کہ عشق کے لیے لاہور شہر سے بہتر دنیا میں کوئی جگہ نہیں… اور اسی گلی میں اشک رہتا ہے ۔ اگر چہ اشک اورعشق کی ہجّوں میں فرق ہوتا ہے لیکن یہ معلوم ہوتا ہے کہ بات گھوم پھر کر وہیں پہنچتی ہے ۔ کیا خبر کب عشق ، اشک میں بدل جائے یا اس کا الٹا ہوجائے … اشک کا مکان دو منزلہ تھا ۔ اس کی اوپر کی منزل پر اشک کے دندان ساز بھائی ڈاکڑ شرما بیوی بچوں کے ساتھ رہتے تھے اور نیچے اشک اور اس کا کتب خانہ ۔ کام کرنے کی جگہ … جہاں پہنچنے کے لیے دُبلے کی جنت اور موٹے کی دوزخ قسم کی سیڑھیوں پر سے ہوکر جانا پڑتاتھا ۔ ایک رسّہ تھا جو لوگوں کے ہاتھ لگ لگ کر میلا ہو چکا تھا اور جسے پکڑ کر نہ چلنے پر لڑھک جانے کا ڈر تھا۔ اس تنگ و تاریک مکان میں اشک رہتا تھا۔ یہیں وہ آرٹسٹ کے وشی واشی (Wishy Washy) انداز میں لکھتا ۔ کاٹتا ۔ پھر لکھتا ۔ پہلے نقش کو مٹا کر دوسرے نقش کو بنانے لگتا ۔ لکھنا اس کے لیے عادت تھی اور عبادت بھی ، جو زندگی کے پرے تھی، تو موت کے بھی پرے ۔
اشک چھوٹی عمر میں اپنی روزی کمانے لگا ۔ اس کے والد اسٹیشن ماسٹر تھے جنھیں شراب پینے اور گھر سے بے پروا ہونے کی عادت تھی ۔ وہ گھر کی طرف رجوع بھی کرتے تو کسی تادیبی کارروائی کے لیے ۔ بیوی سے لڑ رہے ہیں ، اس پر گرج رہے ہیں یا کسی بچے کو الٹا لٹکا کر اسے بید سے مارا جارہا ہے ۔ ان کی شکل جابر تھی اور عقل بھی جابر ، جو فیصلہ ہو گیا اٹل ہے ۔ اس زبردست شخصیت والے مرد کے ساتھ ایک گائے صفت عورت کی شادی ہوئی ، جو اشک کی ماں تھی ۔ اپنے مرد کے ظلم نے، جس کے چہرے پر ایک مظلومیت دوام کر دی تھی ۔ اشک کی تحریروں میں گھریلو نزع کے ساتھ ساتھ اپنے ماں باپ کے متضاد کردار بھی آتے ہیں ۔ یہ اس زبردست شخصیت والے باپ ہی کی وجہ سے تھا کہ اشک نے زندگی میں اپنی جگہ پانے کے لیے باپ کی عاطفت کا سایہ چھوڑدیا ۔ بیٹے نے چیلنج دیا ۔ باپ نے قبول کیااور دونوں جیت گئے ۔ کیونکہ زندگی کی منقلب ہوائوں اور جھکّڑوں سے ٹکّر لینے والا ، خو د دق کے عارضے میں مبتلا ہوکر موت کا منھ چڑاتا ہوا بچ کر نکل آنے والا ، ناداری اور تِس پہ دوستوں اور عزیزوں کی بے رخی کے باوجود ، معاصرانہ تعصّب سے پٹے ہوئے شہر الہٰ آبادمیں نشرو اشاعت کا کاروبار مستحکم کرنے والا ، ایسے ہی باپ کا بیٹاہو سکتا تھا۔
اشک کے ماں باپ، چھے بیٹے اس دنیا میں لائے اور سب کے سب نر ۔ جالندھر[کے] مردم خیز خطّے میں جنھوں نے پرورش پائی ۔ جہاں کا ہر آدمی شاعر ہے یعنی مغنّی ۔ جہاں سال کے سال ہر بلّب کا میلا ہوتا ہے اور پورے ہندوستان سے پکّاراگ گانے والے چلے آتے ہیں اور گاتے ہوئے ڈرتے ہیں، کیونکہ اس شہر کا بچہ بچہ ’’پدپابان ‘‘ ہے جو سیدھا کلیجے میں لگتا ہے ۔ جانتا ہے کہاں کوئی سُر غلط لگ گیا ۔ پھر وہ لحاظ تھوڑا ہی کرے گا ۔ جہا ں کہیں بھی کونے میں بیٹھا ہے، وہیں سے پکار اٹھے گا اور برسوں اپنے یا اپنے استاد کے سامنے گھٹنے ٹیکنے اور سنگیت سیکھنے کی دعوت دے گا۔ سردیوں کی رات کو الائو کے گرد بیٹھ کر وہ بیت بازی کرے گا، جو صبح تک چلے گی … اس شہر کا ہر بشر اپنے آپ کو طبّاع سمجھتا ہے اور اس کی طبّاعی کو تسلیم نہ کیا جائے تو ایک ہاتھ ہے ،جو سیدھا نہ ماننے والے کی پگڑی کی طرف آتا ہے ،پھر گالیوں اور مارپیٹ تک نوبت آسکتی ہے … یہ چھَئوں بھائی اس شہر کی پیداوار تھے اور یہ حیرت کی بات نہیں کہ ان میں سے ہر ایک ، ایک مسلّمہ فرد تھا ۔ ایسے تشخّص کے حامل جس سے وہی انکار کرے ، جس کی شامت آئی ہو ۔ معلوم ہوتا ہے گھونسا بھی دلیل کا ایک حصّہ ہے ۔ اگر کسی وجہ سے وہ گھونسا نہ تان سکے تو یوں ہی شور مچا رہا ہے ۔ مکان سے ’’مرگیا‘‘ اور ’’ ماردیا ‘‘ کی آوازیں آرہی ہیں اورلوگ اس کان سے سن کر اس کان سے نکال دیتے ہیں ۔ ایک دن کی بات ہو تو کوئی کچھ کرے بھی ، ہر روز اس مکان سے کوئی نہ کوئی گرج سنائی دیتی ہے۔ چھئو ں کے چھئو ں شیر ۔ کوئی بڑا اپنے وزن سے دوسروں کو دبا لے ، پیٹ ڈالے ، لیکن چھوٹا بھی گرجنے سے باز نہیں رہ سکتا ۔ کچھ نہیں تو زخمی ہو کر چلّا رہا ہے ، شور مچا رہا ہے ۔شور کے بنا کوئی بات نہیں ہو سکتی ۔ چاروں طرف ایک ہڑ بونگ سی مچی ہے ۔ دو اِدھر آرہے ہیں ۔ تین اُدھر جا رہے ہیں۔ کچھار سے نکل رہے ہیں کچھار میں داخل ہو رہے ہیں ۔ خون بہہ رہا ہے ، مرہم پٹّی ہو رہی ہے ۔ اس لیے مارا جارہا ہے کہ مار کیوں کھائی ہے اور سب کی گرج اور ایک پاٹ دار آواز ایک اور بڑی گرج میں دب جاتی ہے’’چپ!‘‘ — یہ پتا جی کی آواز ہے ۔ ایک شیر ببر کی گرج، جسے سُن کر پورے جنگل میں خاموشی چھا جاتی ہے۔ اس گیرکے بیلے (Gir Forest) میں کوئی لومڑی نہیں ہے۔ گائے ماں کانپتی رہ جاتی ہے،جب کہ پتا جی بوتل کھول کر بیٹھ جاتے ہیں ، برائی کرتے ہیں لیکن براہمن ہونے کے ناطے بھول بخشوانابھی جانتے ہیں ۔ گا رہے ہیں — ’’ شاماجی اوگن چت نہ دھرو ۔‘‘
اشک کے پتا کو اپنے براہمن ہونے پر ناز تھا ۔ وہ اُس پرش رام کی اولاد تھے جس نے ہاتھ میں کلہاڑلے کر اکِّیس بار کشتریوں کا ناش کیا تھا ۔ کشتری ، لڑنا اور مارنا جن کا پیشہ تھا اور جو کسی کے سامنے نہ دب سکے، آج بھی پرش رام کی اس اولاد سے دبتے ہیں ۔ معلوم ہوتا ہے اشک کے پتا کا شراب پینے کا عمل، ایک دو بچوں کے بعد اور تیز ہوگیا ۔ اچھے بھلے سریندر ناتھ ، رویندرناتھ کے نام رکھتے ہوئے سیدھے پرشورام تک پہنچ گئے ۔ جو اِن چھے بھائیوں میں تیسرا تھا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ جالندھر کے اُس محلّے میں رہتے تھے جہاں کشتریوں کی برہمنوں کے ساتھ ہمیشہ ٹھنی رہتی تھی۔ برسوں پہلے کھشتریوں نے مل کر سرِ بازار اشک کے پاگل بابا کو پیٹا تھا ۔ جب کے ان ہاں کی عورتیں ،جن میں اشک کی ماں بھی تھی، سانس روکے ہوئے دیکھتی رہ گئی تھیں ۔ جبھی سے ایک عزم تھا جو اشک کی بظاہر مرنجاں مرنج ماں کے دل میںبیدار ہو گیا تھا اور یہ اس عزم کی وجہ ہی تھی جس کارن نئے پیدا ہونے والے بچے کا نام پرشورام رکھا گیا ۔ بچپن ہی سے اس بچے سے کہا گیا … ارے ! تو پرشورام ہوکر روتا ہے جس نے کشتریوں کے کُل کا ناش کردیا اور آنکھ تک نہ جھپکی، اور وہ بچہ روتے روتے خاموش ہو جاتا اور سوچنے لگتا، وہ بڑا ہوکر کھشتریوں کی بیخ کنی کرے گا۔ اگلے بیٹے کا نام اشک کے ماں باپ نے اندرجیت رکھا ۔ براہمن راون کا سپوت ،دیوتائوں پہ حکم چلانے ، ان کو جیتنے والا، کھشتری لکشمن کو برچھا مار کر اسے مور چھا گت کرنے والا … اشک کے ماں باپ کا بس چلتا تو پوری رامائن نئے سرے سے لکھتے ، جس میں ثابت ہوتا کہ راون ہیرو تھا اور رام چندر ایک ولین !
اشک کے والدین کے یہاں آٹھ اولادیں ہوئیں ، ان میں سات لڑکے تھے اور ایک بیٹی، جوپیدا ہونے کے کچھ دنوں بعد مرگئی ۔ اشک کی ماں کے بارے میں جوتشیوں نے کہا تھا کہ وہ ’’سات پوتی ‘‘ ہے۔ اوّل تو اس کے بیٹی ہو ہی نہیں سکتی، اگر ہو گئی بھی تو زندہ نہ رہے گی ۔ چنانچہ یہی ہوا ۔ لڑکے ہی لڑکے چلے آئے اور ایسی تعلیم کے سہارے ایک سے ایک دبنگ ۔ ایک سے ایک لڑاکا ۔ دنیا کی تا ریخ میں پٹھانوں کی بدلہ کشی مشہور ہے کیونکہ وہ اپنی مخاصمتوں کو اولادوں تک منتقل کر دیتے ہیں۔ لیکن اشک کے والدین ان سے کم نہ تھے ۔ آخر ایک روز آیا جب کہ ان بھائیوں نے مل کرپورے محلّے کو پیٹ پیٹ کر اسپتال میں بھجو ادیا ۔ اکیلے پرشورام نے مارمار کر سب کے پراخچے اڑادیے ۔ اگر چہ وہ خود بھی زخمی ہوا اور قانونی شکنجے میں پھنس گیا ، لیکن سب کو خوشی اس بات کی تھی کہ پاگل باباکی روح کہیں آسمانوں میں دیکھ کر خوش ہو رہی ہوگی !
سو یہ سب تھے اشک کے ڈرامے ’’ چھٹا بیٹا‘‘ کے کردار ۔ اشک ان بھائیوں میں سے دوسرا تھا ۔ پھر تو گھر میں بھابیاں آنا شروع ہوئیں ۔ شیروں کے پاس بکریاں بندھنے لگیں ۔ اب آپ ہی بتایئے وہ کیا کھاتیں کیا پیتیں ؟ اس آپسی مار دھاڑ، گھر کے ہنگامے میں وہ کھا پی بھی لیتیں تو کیا بدن کو لگتا ؟ انار کلی والے مکان سے پہلے اشک اور ان کے بڑے بھائی چنگرو محلّے کے ایک تنگ و تاریک کمرے میں رہتے تھے ، جس میں تازی ہوا کے بجائے، وہ ایک دوسروں کی سانسوں میں جیتے ۔ اس حیرت آباد میں عورتیں نے بہت کیا تو رولیا، نہیں تو—
گھٹ کے مر جائوں یہ مرضی مرے صیّاد کی ہے
اشک کی بیوی شیلا جب بیاہی آئی تو گندمی رنگ کی ایک گول مٹول لڑکی تھی، جو بات بات پر ہنستی رہتی تھی ۔ اس گھر کے ماحول میں اس کا دم گھٹنے لگا ، لیکن وہ اپنی پہلی فرصت میں کھلکھلا اٹھتی۔ معلوم ہوتا تھا کہ کوئی بات بھی اس کی ہنسی کو نہ (نہیں) دباسکتی ۔ میں شیلا سے ملا تو نہیں ، البتّہ اشک کے لاہور والے کمرے اور بعد میں الہٰ آباد میں اشک کے گھر ، اس کے بڑے بیٹے اُمیش کی خواب گاہ میں شیلا کی تصویر ضرور دیکھی ہے ، جس میں وہ ہنس رہی ہے ۔ موت بھی اس ہنسی کو نہ دبا سکی … جس زمانے میں یہ لوگ چنگرو محلّے کے کمرے میں رہتے تھے تو شیلا بیمار ہوگئی اور ڈاکٹروں نے تپِ دِق کی تشخیص کر دی ۔
اشک ان دنوں بہت مشغول تھا ۔ وہ اپنی تحریروں کو ٹوہ ٹوہ کے دیکھ رہا تھا ۔ انھیں بازار لے جارہا تھا ۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ بکتی ہیں کہ نہیں ۔ کچھ بک سکیں اور کچھ نہیں۔ کچھ پیسے وصول ہوئے، بیشتر مارے گئے ، لیکن اپنی تحریروں کے بل بوتے اُسے روزانہ اخبارویر بھارت اور پھر بندے ماترم کی سب ایڈیٹری مل گئی ۔ فرصت کے لمحوں میں وہ Ghost Writing کیا کرتا ۔ اس کے لکھے ہوئے ہدایت نامے لاکھوں کی تعداد میں بکے ، لیکن چند ٹکلیوں کے سوا اشک کے ہاتھ میں کچھ نہ آیا ۔ پھر گھر میں ایک اور واقعہ ہوگیا ۔ شیلا کی ماں کو اپنی بیوگی نبھانے کے سلسلے میں لاہور کے کسی امیر کے ہاں گھر کے چوکا برتن کے لیے ملازم ہونا پڑا، جس سے شیلا کے جذبات بسمل ہوگئے اور اس کے کارن اشک کوجو ٹھیس پہنچی، اس نے فیصلہ کرلیا کہ سماجی طور پر شیلا کو ایسا مرتبہ اور مقام دے گا جس سے باقی لوگ رشک کریں گے ۔ اس نے شِشن جج بننے کی ٹھان لی ۔
اب وہ وکالت پڑھتا تھا ۔ دن کو ادبی مشاغل ، لا کالج کی تعلیم اور رات کو قانون پڑھنا ۔ کوٹھے کوٹھے جتنی بڑی کتابوں سے نبردآزمائی، لیکن جس مٹّی سے اشک کا خمیر اٹھایاگیا تھا ،جس ہڈّی سے اس کی پشت بنی ، کسی بھی محنت کے قابل تھی ۔ اسی دوران میں شیلا نے اُمیش ، اشک کے سب سے بڑے لڑکے کو جنم دیا ۔ گھر کے ماحول ، خوراک کی کمی سے اس کی بیماری بڑھ گئی ۔ اب اشک ایک طرف ادب تخلیق کرتا، دوسری طرف قانون کی کتابیں پڑھتا اور تیسری طرف ہفتے میں دو تین بار سائیکل پر آٹھ میل کی منزل مار کر گلاب دیوی ٹی ۔ بی ۔ اسپتال میں شیلا سے ملنے جاتا ۔ اسے دراصل یقین نہیں تھا کہ قدرت استہزا کو اس کمینہ حد تک لے جائے گی ۔ وہ سمجھتا تھا کہ شیلا اچھی ہوجائے گی ۔ اتنی محنت ، اتنی ریاضت سے، اِدھر اشک ایک امتیازی شان سے قانون کے امتحان میں پاس ہوگیا ، اُدھر شیلا چل بسی ۔ قضاوقدر نے ایک ہاتھ سے دیا اور دوسرے ہاتھ سے سبھی کچھ چھین لیا ۔ اب زندگی میں کوئی قاعدہ کوئی قانون نہ رہا ۔ اشک نے سشِن ججی کے خیال کو بالائے طاق رکھ دیا ۔ جس کے لیے وہ جج بننا چاہتا تھا،وہ تو جا چکی تھی … اس نے رنج ، بے حد تکان، بے حد اضمحلال کے عالم میں اپنا قلم اٹھایا اور ادب پیدا کرنا شروع کردیا۔ کیونکہ ادب ہی تھا جس میں اپنے آپ کو غرق کر دینے سے وہ اپنی زندگی کے عظیم سانحے کو بھول سکتا تھا … گھر بھر کے نزاع ، حالات کی ابتری ہی تھی جسے اشک نے اپنی تحریروں کا مضمون بنایا ۔ اس زمانے میں وہ اپنا نیم سوانحی ناول ’’گرتی دیواریں ‘‘ شروع کر چکا تھا، جو اس کا بڑا کارنامہ تھا ۔ اس کے ساتھ چھوٹی چھوٹی کہانیاں —کونپل ،324،گوکھرو، ڈاچی وغیرہ لکھیں ، جن پر اشک کی عظیم اداسی کی چھاپ ہے ۔
شاید اشک میری اس بات کی شہادت دے کہ اس نے محبت صرف ایک عورت سے کی ہے اور وہ شیلا ہے ، کیونکہ اس زمانے میں شعور رکھنے کے باوجود وہ نہ جانتا تھا [کہ] محبت کیا ہوتی ہے اور نہ شیلا جانتی تھی ۔ وہ دونوں جی رہے تھے لیکن اپنے لیے نہیں، ایک دوسرے کے لیے ۔ اور یہ محبت تھی جس کی ہر ادا والہانہ تھی، جو نہ کسی صفت کی محتاج تھی اور نہ موصوف کی ۔ اس کے بعد بھی اشک نے محبت کی ۔ لیکن جنون اس میں سے غائب ہو چکاتھا ۔ اس میں ایک پختگی آچکی تھی جس کے کارن وہ دوسری شادی کے کچھ ہی دنوں کے اندر مایا ، اپنی دوسری بیوی ، کو چھوڑسکا اور کوشلیا، اپنی موجودہ بیوی ، سے کہہ سکا … جانِ من ! میں زندگی کا سفر کرتے کرتے تھک گیا ہوں ۔ مجھ میں جوانی کی وہ لپک نہیں رہی ہے ۔ اگر تم مجھ سے اس کی امّید رکھتی ہو تو بیکار ہے ۔ میں اس محبت کے قابل نہیں ، جو شعلۂ جواّلہ ہو ، ہاں وہ محبت میں تمھیں دے سکتا ہوں جو دھیمی آنچ ہو سکتی ہے اور اس لیے خوش ذائقہ بھی ہوتی ہے ۔
تو یوں مجھے اپنے گھر لاکر اشک نے میرے ساتھ سیکڑوں باتیں کرڈالیں ۔ اپنا کھایا پیاسب میرے سامنے اگل دیا ۔ آزمودہ کار آدمی عام طور پر اپنا سب کچھ نہیں کہہ ڈالتے اور یوں ، پھر اس آدمی سے، جو اِن سے پہلی بار ملاہو ۔ مگر اشک مجھ سے بہت کچھ کہنا چاہتا تھا ۔ یہ تو اچھا ہوا میں مل گیا، نہیں تو وہ دیواروں سے باتیں کرتا ۔ سڑک پر گڑے کسی بجلی کے کھمبے کے سامنے اپنی داستان دہرادیتا … جب تک رات آدھی سے زیادہ جا چکی تھی ۔ غبار دب چکا تھا ،البتّہ آسمان کچھ صاف نہ تھا ۔ کہیں کہیں کوئی ستارہ خود نمائی کے عالم میں دُھنداور دھوئیں اور دھول کی قبائیں چیرتا پھاڑتا اپنا ٹمٹماتا ہوا حسن دکھانے لگتا ۔ اشک کی باتوں میں مَیں کئی بار ہنسا، کئی بار میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔ اب میری طبیعت اوبنے لگی تھی ۔ کچھ اِس بات کا بھی خیال تھا کہ اِس وقت میری بیوی گھر میں انتظار کر رہی ہوگی ۔ جب تک مرد کے سیلانی ہونے کا یقین نہ ہوجائے ، ہر عورت اپنے میاں کے پیچھے کچھ گھوڑے دوڑادیتی ہے ۔ ان میں کچھ گدھے نکل آتے ہیں، جن میں میرا ایک عزیز تھا جو مجھے ڈھونڈنے کے لیے بھیجا گیا ۔ اشک مجھے کچھ دور چھوڑنے کے لیے مکان سے نیچے اترا ۔ وہ دور نہ جا سکتا تھا، کیونکہ جب تک اس نے دھوتی کُرتے کو تہبند اور بنیائن سے بدل لیا تھا ۔ لیکن پھر باتوں کے نئے شوشے چھوڑتے ہوئے ہم انار کلی کے بازار سے نکل کر بائبل سوسائٹی کے سامنے چلے آئے اور پھر وہاں سے ہوتے ہوئے مال روڈپر … میرے گھر کی طرف … گول باغ، جہاں میرا وہ عزیز، جیسا کہ بعد میں پتا چلا ’’ چھٹیے درد فراق دالیئے ‘‘ گاتا ہوا پاس سے گذر گیا اور ہم بے فکری کے عالم میں گول باغ کے ایک بینچ پر بیٹھ گئے … آہستہ آہستہ مجھ میں اپنی بیوی کی وجہ سے ایک گھبراہٹ پیدا ہورہی تھی ۔ میں نے اُٹھنے کی کوشش کی، مگر اشک اپنی کوِتا سناتا رہا ۔
چل دو گی کُٹیا سونی کر ، اِسی گھڑی اِس یام
یُگ یُگ تک چلتے رہنے کا مجھے سونپ کر کام
اور میں اس کی داد دے رہا تھا ۔ مجھے کوِتا اچھی ضرور لگی لیکن گھر کا خیال بھی ستارہا تھا ۔ اب میں کمبل کو چھوڑنا چاہتا تھا لیکن کمبل مجھے نہیں چھوڑ رہا تھا ۔ آخر میں نے جی کڑا کیا ، لیکن جو الفاظ میرے منھ سے نکلے، معافی نامے کی حیثیت سے زیادہ نہ تھے ۔ میں اٹھا تو اشک بھی میرے ساتھ اٹھ گیا … با تیں کرتا ہوا وہ میرے گھر کے سامنے کھڑا تھا ۔
بچے نے دروازہ کھولا اور میں جلدی جلدی اندر گیا ۔ بیٹھک کھول کر بتّی جلائی اور اشک کو اندر بٹھایا ، اتنی گرمی کے باوجود ستونت، میری بیوی ، نیچے میرا انتظار کر رہی تھی ۔ وہ عام کلرک کی بیوی تھی جو دفتر سے چھٹّی کے آدھے گھنٹے کے اندراندر شوہر کو اپنے گھٹنے کے پاس بیٹھادیکھنا چاہتی ہے اور اب تو رات آدھی سے زیادہ گذر چکی تھی اور’ ’ ’ بُرے بُرے خیال من میں آرہے تھے ۔ ‘‘
’’ کہاں رہے اتنی رات تک ؟‘‘ اس نے مجھ سے پوچھا ۔
’’ جہنّم میں ۔‘‘ میں نے کہا ۔’’ تم ذرا میرے ساتھ بیٹھک میں آئو ۔ ایک بہت بڑا ادیب مجھ سے ملنے آیا ہے …‘‘
’’ ہاں مگر ۔ اس وقت ؟‘‘
ہاں ۔ تم آئو تو !‘‘
اور میں ستونت کا ہاتھ پکڑ کر اسے بیٹھک کی طرف لے چلا ۔ جب تک ستونت ادیبوں کو عزّت کے قابل کوئی چیز سمجھتی تھی ۔ جلدی جلدی ستونت نے اپنا غصّہ پی لیا اور اپنے چہرے کو ، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ، کے نک سُک سے سنوارتے ہوئے میرے پیچھے بیٹھک میں چلی آئی اور ایک کالے کلوٹے آدمی کو اس ہیئت کذائی میں دیکھ کر ڈر گئی ۔ اشک اس وقت بھاٹی دروازے کا کوئی غنڈہ معلوم ہو رہا تھا ، جس سے لاہور کی سب عورتیں ڈرتی تھیں اوراسے سامنے آتے دیکھ کر سڑک چھوڑتے ہوئے ایک طرف ہوجاتی تھیں ۔ ستونت نے جلدی سے ’نمستے‘ کی اور ایک طرف کھڑی ہوگئی ۔ مجھے اس کا یہ انداز اچھا نہ لگا ۔ لیکن میں کر ہی کیا سکتا تھا ۔ میںنے پہلے اشک کی طرف ہاتھ بڑھایا …’’ اوپندر ناتھ اشک ‘‘ ۔ اور پھر بیوی کی طرف —’’ ستونت ، میری بیوی ۔‘‘
چھوٹتے ہی اشک نے میری بیوی کا نام پکارا ۔ ’’ ستونت !برا مت ماننا ۔ میں ایسے ہی چلا آیا ہوں ۔ ‘‘ اس نے اپنی بنیائن اور تہبند کی طرف اشارہ کیا ۔ ’’ بات یہ ہے کہ میں ملنگ آدمی ہوں…‘‘
اور پھر زور سے میرے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے ہنسا — ایسی ہنسی میں ، جس سے پھیپھڑے پھٹ جائیں ۔ ایک چڑیا، جس نے اوپر کارنس کے قریب گھونسلا بنا رکھا تھا ،پھڑ پھڑا اٹھی۔ سامنے گھر کی بتّی جلی اور کسی نے بالکونی پر سے جھانکا … اس سے پہلے میری بیوی کچھ کہتی، اشک اس سے کہہ رہا تھا ۔’’ کچھ کھانے کو ہے ستونت !… بہت بھوک لگی ہے …‘‘